برووالہ سیداں 64-73

جاویداقبال

محفلین
لینے دیااوراس پریہ الزام لگایاگیاکہ دہلی کےخلاف اس نےمقامی لوگوں کی مدد حاصل کرنےکوشش کی ہے،چنانچہ اسےناگربھیج دیاگیااورہانسی کوبرائےنام بادشاہ کےایک کم عمربیٹےکودےدیاگیا۔حالانکہ عملی طورپراس پربلبن کےایک مخالف کاجرم تھا۔بلبن سےپہلےبھی اس "اقطاع"پردوسرےشہزادےہی مقرررہےتھے۔مثال کےطورپرالتمل کابیٹاابوالفتح محمود623 سےقبل ہانسی میں رہااوراس نےوہاں ایک عیدگاہ تعمیرکرائی تھی جوشہرکےمغرب میں واقع ہے۔اسکی وفات 626ھ 1229ء میں ہوئی۔
تغلق عہد:- مبارک خلجی کوقتل کرکےخسروخاں دہلی کابادشاہ بن گیاتوخلجی خاندان ختم ہوگیا۔خسروخان کے پیداکئے ہوئےفتنےسےنبٹنےکےلیےدیپالپورکاصوبیدارغیاث الدین تغلق جب دیپالپورسےدہلی کی جانب روانہ ہواتوسب سےپہلےجوعلاقہ اسکےقبضہ میں آیاوہ ہریانہ کاعلاقہ تھا۔تاریخ وصاف میں لکھاہےکہ اس زمانہ میں یہ علاقہ سرسبزتھااورسرسہ بالائی ہندوستان کےبڑےشہروں میں شمارہوتاتھا۔(انسائیکلوپیڈیاآف اسلام (انگریزی)لیڈن1979-جلد3ص167)بیان کیاجاتاہےکہ بعدمیں تغلق خاندان کےپورےعہدمیں ہریانہ کےعلاقہ کوخصوصی اہمیت حاصل رہی ۔ اسکی وجہ شایدیہی تھی کہ اس خاندان کےمورث اعلی نےدیپالپورسےدہلی کی جانب کوچ کیاتوسب سےپہلےاس علاقہ نےاسکی مددکرکےاسکےپاؤں مضبوط کیے۔اوراسی بناپروہ اس قابل ہوسکاکہ آگے بڑھ کردہلی کےتخت پرقبضہ کرے۔
غیاث الدین تغلق کےبعدسطان محمدتغلق کاعہدآیاتوسلطنت کی حدوددوردورتک وسیع ہوگئيں۔اسکی سلطنت کےجن صوبوں کےنام تاریخوں میں ملتےہیں ان میں سیوستان وسندر،اوچ،ملتان،گجرات ،سرسوتی کہرام،سامانہ،لاہور،کلانوراورہانسی کےنام شامل ہیں۔گویاہانسی کواس زمانہ میں ایک صوبہ کی حیثیت حاصل تھی۔اوراسکی یہ خصوصیت اوراہمیت مزیدامتیازکاباعث بنتی ہےکہ اس منگولوں کےخلاف ایک سرحدی قلعہ کی حیثیت حاصل تھی۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرز۔ضلع حصاراورلوہاروسٹیٹ 1904ء)
سلطان محمدتغلق کی وفات سندھ میں ایک مہم کےدوران ہوئی۔اسکےبعدفیروز شاہ تغلق بادشاہ بنا۔سندھ سےوہ عازم دہلی ہواتاکہ باقاعدہ تخت نشینی کی رسم اداہوسکےتواسےبھی ہریانہ کےعلاقہ سےگذرناپڑا۔یہاں پڑاؤکےدوران اسنےاپنےلڑکےفتح خاں کےنام سےفتح آبادکاقبصہ آبادکیااوربادشاہ بننےکےبعدفیروزشاہ تغلق نےاس علاقہ کواس قدراہمیت دی جتنی اورکسی بادشاہ نہیں کبھی نہیں دی۔
فیروز شاہ تغلق کی علاقہ میں دلچسپی کی وجہ:- اس علاقہ کی ترقی اورآبادی میں سب سےزیادہ دلچسپی فیروزشاہ تغلق نےلی۔اس قدردلچسپی اس علاقہ میں نہ اس سے پہلے کسی حکمران












کوہوئی نہ اسکےبعد۔اس دلچسپی کی عام وجہ جوتاریخوں میں بیان ہوئی ہے۔وہ فیروزشاہ تغلق کاشکارکےمشغلہ کےساتھ۔ حدسےبڑھاہواشوق ہے۔اس کے اس شوق کےبارےمیں معاصرتاریخ،تاریخ فروزشاہی کابیان ہے۔
فیروزشاہ کوشکارکاشوق ایام طفلی سےتھا۔بادشاہ کےعہدمیں یہ مشغلہ بھی ملکی مہمات میں سےایک مشغلہ قرارپایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بادشاہ جب شکارکےلیےسفرکرتااورشکارگارمیں صیدافگنی میں مشغول ہوتاتواس وقت بےحدخوش وبشاش ہوتااورجوشخص بھی اس وقت اپنی خواہش وآرزوکوپیش کرتا۔بادشاہ فورااسکی حاجت روائی فرمادیتا:(شمس سراج عفیف،تاریخ فیروزشاہی،ترجمہ مولوی محمدفداعلی طالب۔حیدرآباددکن 1938-ص220)
اسی کتاب میں آگےچل کرلکھاہے۔
فیروزشاہ نےاپنےعہدحکومت میں مختلف قسم کےشکارکھیلےاوراس معاملہ میں حدسےزیادہ کوشش کی۔اورہرقسم کے اورجانورفراہم کیے۔بادشاہ نےچیتےاس قدرجمع کیےجن کاشمارنہیں ہوسکتا۔اوراسی طرح بے شمارکتے فراہم کیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔بادشاہ شکارکاقدرشائق تھاکہ پنتالیس مراتب شکارتھےجوبادشاہ کے ہمراہ ہوتےتھےاوراکی فراشی خانہ اورایک دہلیز،ایک بارگاہ،ایک خواب گاہ اورایک گنبدسفیدجوخاص فیروزشاہ کی یادگارتھا،ساتھ۔ ساتھ۔ رہتاتھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فیروزشاہ شکارکےلیےروانہ ہوتاتواسکےساتھ۔ فوج بھی ہوتی تھی اورنیزتمام خاناں اورملوک وشاہزادگان اس فوج کےبرابرچلتے تھے۔(ایضاص221)
فیروزشاہ تغلق کاشکارکےمشغلہ کےلیےانتہادرجہ کاشوق اس بات کامتقضی تھاکہ اسےاس علاقہ سےگہری دلچسپی پیداہوجائےجوبہترین شگارگاہ کی حیثیت رکھتاہوہریانہ کاعلاقہ اس لحاظ سےہمیشہ بےمثال رہاہے۔چنانچہ اسی خصوصیت کےبارےمیں مفتی غلام سرورلاہوری نےلکھاہے۔
اس علاقہ کوبسبب اس کے کہ یہاں جنگل واقع ہے۔فیروزشاہ تغلق نےشکارگاہ بنایا۔اوربسبب کم آبی کےوہ جمناسےنہرکھودکراس میں لایا۔جوہانسی حصارسےگزرکردریائےگھگھرمیں مل جاتی ہے۔جنگل یہاں کابہت سےدرندوں سےبھراہواہے۔شیر،پلنگ وغیرہ اکثریہاں پائےجاتے ہیں۔شاہان سلف یہاں آکراکثراوقات شکارکھیلتےتھے۔اورصاحبان انگریزبھی بڑےشوق سےوہاں جاکرشکارکھیلتےہیں۔(مفتی غلام سرورلاہوری۔تاریخ فخرن پنجاب،نولکشور،لکھنو1877ص53)
اس اقتباس سےپتہ چلتاہےکہ ایک عمدہ شکارگاہ ہونےکی حیثیت سےہریانہ کاعلاقہ ہمیشہ امتیازکاحامل رہاہے۔فیروزشاہ تغلق سےقبل کےبادشاہ بھی شکارکھیلنےکی غرض سے اس علاقہ میں آیاکرتےتھے۔اورانگریزوں













کےزمانہ میں بھی اسکایہ امتیازبرقرارتھا۔حالانکہ اس زمانہ میں یہ علاقہ غیرآباداورویران ہوچکاتھا۔اس کی ویرانی کی تفیصل گذشتہ اوراق میں گزرچکی ہے۔مگراس ویرانی کی حالت میں بھی شکاریہاں افراط سےملتاتھا۔خاص طورپرہرن کی یہاں پراقسام اس قدرافراط سےپائی جاتی تھیں کہ بہت کم علاقوں میں پائی جاتی ہوں گی،سیاہ ہرن اس علاقہ کی خصوصیت تھا۔یہ ہرن کی ایسی قسم تھی جودیگرعلاقوں میں نہیں پائی جاتی تھی اوراگرکہیں ملتی تھی توبہت کم مگرہریانہ کےعلاقہ میں اس کی افراط تھی قیام پاکستان کےدنوں تک یہی صورتحال تھی اورپنجاب کےاکثرحکام اورامراء شکارکھیلنےکی غرض سےاس علاقہ میں آیاکرتےتھے۔
فیروزشاہ تغلق کی دلچسپی کی ایک اوروجہ:- فیروزشاہ تغلق کوشکارکاجس حدتک شوق تھا،ہریانہ کاعلاقہ اس کی شکارگاہ کی حیثیت سےبہترین جگہ تھی۔اسلیےبادشاہ کواس علاقہ کے ساتھ۔ دلچسپی پیداہونابالکل فطری بات تھی۔اوراکثرتاریخ نویسوں نےاس علاقہ کےساتھ۔ بادشاہ کی دلچسپی کواسکےاسی شوق کوقراردیاہے۔لیکن انسائیکلوپیڈیاآف اسلام نےاس دلچسپی کاایساسبب بیان کیاہے جس کاذکربہت کم تاریخی حوالوں میں موجودہے۔اس میں لکھاکہ فیروزشاہ تغلق نےہریانہ کےعلاقہ میں دلچسپی اس وجہ سے کہ یہ علاقہ اس کی ننہال تھا۔اسکی ماں بھٹی راجپوت قبیلہ سےتعلق رکھتی تھی اوراس علاقہ کی رہنےوالی تھی۔(Inclopaedia of Islam London 1979 VIII P225) اس کاذکرایک اورتاریخی حوالےمیں ذراوضاحت سےآیاہے وہاں لکھاہے۔
فیروزشاہ تغلق غیاث الدین تغلق کے بھائی رجب کابیٹاتھا۔فیروزشاہ کی ماں ابوہرکےبھٹی سرداررانامال کی بیٹی تھی۔بعدمیں فیروزتغلق کےاثرسے ہی بھٹیانہ کےبھٹی قبیلہ نےاسلام قبول کیا۔(The road between dehan and multan selection from the jourral of the historical society V.2 Lahore 1962 P88)
گویافیروزشاہ تغلق کےلیے اس علاقہ کوکئی لحاظ سےانتہائی اہمیت حاصل ہوگئی ۔ اولایہ اس کی ننہال کاعلاقہ تھا۔اسکی ماں کاتعلق اس علاقہ سےتھا۔اسلیےبادشاہ کواس علاقہ سےیک گونہ قلبی تعلق تھا۔ثانیایہ علاقہ ایک بہت عمدہ شکارگاہ تھی اوربادشاہ کوشکارکاشوق جنون کی حدتک تھا۔چنانچہ یہ علاقہ بادشاہ کی نظروں میں بڑی اہمیت کاحامل تھا۔ثالثایہ علاقہ انتہائی فوجی اہمیت کاحامل تھا۔اسکی یہ اہمیت تمام حکمرانوں کی پیش نظررہی تھی۔مگرفیروزشاہ تغلق کے لیے اس اہمیت میں بھی وسعت پیداہوگئی۔کیونکہ اس علاقہ سےاس کاقلبی اورجذباتی تعلق تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے اس علاقہ کی آبادی،ترقی اورخوشحالی کےلیےبہت کوشش کی اوربہت سےایسے منصوبوں پرعمل کرلیاجن کےدوررس اثرات اس علاقہ کےحق میں بہترثابت ہوئے۔












فیروزشاہ تغلق کارحجان طبع:- فیروزشاہ تغلق کوشکارکااس قدرشوق تھاکہ لگتاہے کہ اسکےعلاوہ اورکسی مشغلہ کی جانب توجہ نہیں دیتاتھا۔مگریہ بات قابل توجہ ہےکہ اس کومطالعہ کابھی بےحدشوق تھااوراس شوق کوپوراکرنےکےلیےاس نےکتابوں کاایک بڑاذخیرہ جمع کرایاتھااوران کی حفاظت کےلیےایک بڑاکتب خانہ قائم کیاتھا۔772ھ مین جب اس نےنگرکوٹ کوایک سخت محاصرےکےبعدفتح کیااوروہاں کاراجہ بادشاہی میں حاضرہوگیاتوبادشاہ کوبعض لوگوں کی زبانی پتہ چلاکہ وہاں کےمندرجوالامکھی میں ایک عمدہ کتب خانہ موجودہے۔اس پربادشاہ نےوہاں کےبرہمنوں کوبلاکرتمام کتابیں منگوائیں۔انکی تعدادتین سوبنی۔بادشاہ نےان کتابوں کواپنےکتب خانہ میں داخل کرلیااوران میں سےبہت سی کتابوں کافارسی زبان میں ترجمہ کرایا۔ان میں سب سےمشہورکتاب دلائل فیروزشاہی علم نجوم میں ہے۔جسےاس عہدکےمشہورشاعرعزالدین خالدخانی نےنظم میں ترجمہ کرکےبادشاہ کے نام سےموسوم کیاتھا۔محمدسعیداحمدماہروی۔آثارخیر،مطبع عزیزی ، آگرہ1343ھ ص 81۔
شکارکھیلنے اورمطالعہ کے شوق علاوہ فیروزشاہ کی توجہ کامرکزرفاہ عامہ کےکام تھے۔اس نےرفاہ عامہ کےجس قدرکام کیےاس قدرکام بہت کم حکمران نےاس میدان میں کیےہوں گے۔یہ ہریانہ کےعلاقہ کی خوشی قسمتی تھی کہ بادشاہ کواس علاقہ کےساتھ۔ گہری وابستگی تھی چنانچہ رفاہ عامہ کےکاموں میں بھی اس علاقہ کو بڑی ترجیح دی گئی۔رفاہ عامہ کےجوکام بادشاہ نےخصوصی طورپرسرانجام دیئےان میں نہریں،تالاب،مسجدیں،مدرسے،خانقاہیں،کوشک،شفاخانے،مقبرے،حمام،کنوئیں اورپل تعمیرکراناشامل ہے۔اس کےعلاوہ اس نےبےشمارباغات لگوائےاوران تمام تعمیرات اوراداروں کےاخراجات پورےکرنےکےلیےوقف نامے تحریرکیے(ایضاص108)
ہریانہ کےعلاقہ میں فیروزشاہ تغلق نےرفاہ عامہ کےجوبےشمارکام مکمل کرئےان میں سب سےنمایاں حصارشہرکوآبادکرنااورنہرجمن غربی کی تعمیرتھے۔یہ دونوں کام اس قدراہم اوراتنےدوررس اثرات کےحامل تھےکہ ان کےذکرکےلیےآگےچل کرمستقل ابواب مخصوص کیےجائيں گے۔انکےعلاوہ اس علاقہ میں جوکام کرائےوہ یہ ہیں۔
1۔فیروزشاہ نےہریانہ کےعلاقہ میں بستیاں آبادکیں ان میں سب سےپہلی فتح آبادہےجسکاذکرگذشتہ صفحات میں ہوچکاہےاورجواس نےاپنےبیٹےفتح خاں کےنام پرآبادکی تھی۔بعدمیں یہ بستی کافی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ضلع سرسہ میں شامل تھی تواسےتحصیل کادرجہ حاصل تھا۔بعدمیں ضلع حصارکی ایک اہم تحصیل بنی اوریہ حیثیت












اسےشایداب تک حاصل ہے۔ایک اوربستی کانام فیروزآبادہرنی کھیڑھ ہے۔یہ سرسہ سےبارہ میل کےفاصلہ پرواقع ہے۔تین مزیدمقامات پراس نےقلعےتعمیرکرائےتھےجن کےنام،محمدپور،ظفرآباداورراوآبادہیں۔یہ قلعےامتدادزمانہ کےہاتھوں نیست ونابودہوچکےہیں مگرانہی ناموں کےگاؤں ان مقامات پراب بھی آبادہیں۔(Enclopaedia of Islam Leadon 1979 V.III P225)فتح آباداورحصارمیں بھی اس نےبڑےمضبوط قلعےتعمیرکرائےتھے۔یہ توان بستیوں کاذکرہے۔جواب تک باقی ہیں۔انکےعلاوہ کچھ۔ بستیاں ایسی بھی تھیں جوبعدمیں اس علاقہ کی ویرانی کی نذرہوگئیں اوران کانام باقی نہیں رہا۔
2۔فیروزشاہ تغلق نےاس علاقہ کوپررونق بنانےکےلیےیہاں نئی بستیاں آبادکرنےکےساتھ۔ اس علاقہ کوزراعت کوترقی دینےکےلیےآبپاشی کی کئی سکیموں پرعمل کرایا۔ان سکیموں میں سےسےاہم تونہرجمن غربی ہےجس کاتفیصلی ذکرآئندہ صفحات میں ہوگا۔فیروزشاہ تغلق نےیہ اصول بنالیاتھاکہ جوبستی بھی آبادکی جائےاسکی زراعت اورسیرابی کےلیےکوئی نہرضرورکھدائی جائے۔چنانچہ فتح آبادکےعلاقہ کی سیرابی کےلیےگھگھرسےایک نہرکھداکراس علاقہ تک لائی گئی۔(شمس سراج عفیف۔تاریخ فیروزشاہی،ترجمہ مولوی محمدفداعلی طالب۔حیدرآباددکن1938۔ص 221)یہ نہرپھلاونےکےمقام سے نکالی گئی تھی یہ نہردیرتک باقی رہی اوربعدمیں اسکانام جوئیہ نہرپڑگیاتھا۔فیروزآبادہرنی کھیڑہ کی سیرابی کےلیےبھی اس نےگھگھرسےہی ایک نہرنکال کراس بستی تک پہنچائی تھی۔مگربعدمیں یہ نہرخشک ہوکرمٹ گئی اوراسکانام و نشان تک باقی نہیں رہا۔حصارفیروزہ کی سیرابی کےلیےنہرجمن غربی کےعلاوہ ایک نہرستلج سےبھی نکالی گئی تھی۔مگربعدمیں یہ نہرختم ہوگئی اوراسکانشان باقی نہیں رہا۔756ھ میں دریائےستلج سےحجھرتک اڑتالیس کوس کی ایک نہرکھدواکراس تمام علاقہ کوسیراب کرایا۔(محمدسعیداحمدمارہروی۔آثارخیر۔مطبع عزیزی آگرہ 1323ھ ص 108)
غرض یہ کہ فیروزشاہ نےجس طرح تمام ملک کےفلاح وبہبودکےلیےبہت اہم کام کیےاسی طرح ہریانہ کےعلاقہ کی ترقی اورخوشحالی کےلیےبہت کام کیااوررفاعہ عامہ کےبہت سےکام یہاں مکمل کرائے۔اس کےہاتھوں سرانجام پانےوالےان اچھےکاموں کی یادگاریں اب تک موجودہیں اورلوگوں کےلیےفیض کاباعث بنی ہوئی ہیں۔
تغلق عہدمیں علاقہ کی حالت:- تاریخوں کےمطالعہ سےپتہ چلتاہےکہ ہریانہ کےعلاقہ کی سرسبزی اورشادابی تغلق دورتک باقی تھی۔اس کااندازہ ایک توان اقدامات سےہوتاہے۔جوفیروزشاہ تغلق نےاس علاقہ میں نئی بستیاں بسانےاوریہاں کی زراعت کوترقی دینےکےلیےکئے۔ایسےاقدامات کسی ویران اوراجاڑعلاقہ کےلیےنہیں کیےجاسکتے۔اگرچہ تاریخ وصاف میں لکھاہےکہ اس علاقہ میں پانی کی قلت











پیداہوچکی تھی۔مگرفیروزشاہ کااس علاقہ کواپنی شکارگارکےطورپرمنتخب کرناہی یہ ظاہرکرتاہے کہ علاقہ اتنابنجراورویران نہیں تھا۔جیساکہ بعدمیں ہوگیا۔فیروزشاہ تغلق نےجونہریں یہاں کھدائی تھیں انکامقصدشایدیہی تھاکہ علاقہ میں پانی کی قلت کودورکیاجائےلیکن یہ قلت بہت زیادہ شدیدبھی نہیں تھی۔اس کی گواہی اس واقعہ سےہوتی ہےکہ 1398ء میں جب تیمورلنگ نےہندوستان پرحملہ کیاتووہ ہریانہ کےعلاقہ تک پہنچ گیاتھا۔اس نےفتح آبادپہنچ کراپنی لشکرگاہ قائم کرلی تھی اوریہاں سے اس کےفوجی دستےآس پاس کےعلاقوں میں جاکرلوٹ مارکیاکرتےتھے۔انہی میں سےایک دستہ گھگھرکےکنارےجنگل سےگزرکرٹوہانہ کےمقام تک پہنچ گیاتھا۔اس دستےنےآگےبڑھناچاہاتواسکامقابلہ جاٹ قبیلہ سےہوگیامگرشکست کھاکرگنےکےکھیت میں چھپ گئے تھے۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزضلع حصاراورلوہارواسٹیٹ 1904ء ص 22/23)گویااس وقت اس علاقہ میں اس قدرگناپیداہوتاتھاکہ اس کےگنےکےکھیت فوجوں کی پناہ گاہ کاکام دےسکتےتھے۔اس طرح یہ بھی ظاہرہوتاہےکہ اس زمانہ میں گھگھرمیں پانی کی اس قدرافراط تھی کہ اس سےکھیتوں کی آبپاشی کاکام لیاجاتاتھا۔یہی وجہ ہےکہ فیروزشاہ تغلق نےکئی نہریں اسی دریاسےنکلواکردوردرازمقامات تک پہنچائی تھیں۔
تغلق عہدمیں ہانسی اوراسکےقریبی علاقہ نےان اثرات کوپوری طرح محسوس کیاجودہلی میں حکومت کی تبدیلیوں کےباعث ظہورپذیرہوتےرہے۔خاص طورپرہانسی کےقلعہ اورآس پاس کےعلاقہ پرباغیوں نےقبضہ کرلیاتھاتویہ اثرات بڑےواضح اورشدیدہوگئےتھے۔یہ قبضہ مسلسل تین سال تک برقراررہااوراسےختم کرنےکےلیےسلطان محمدتغلق کوباغیوں کےخلاف مہم کی قیادت کےلیےخوداس علاقہ میں آناپڑا۔تب جاکریہ قبضہ ختم ہوسکا۔
تغلق خاندان کےبعد:- تغلق خاندان کےبعداگرچہ ہریانہ کےعلاقہ کووہ اہمیت حاصل نہیں رہی۔جوفیروزشاہ تغلق کے اقدامات کےباعث اسےحاصل ہوگئی تھی۔مگراپنےقدرتی محل وقوع کےباعث اس علاقہ جواہمیت ہمیشہ حاصل رہی تھی اس میں کسی طورکمی نہیں ہوسکتی تھی۔چنانچہ درباردہلی کےامراء کی اس علاقہ پرمسلسل نظررہی۔فیروزشاہ تغلق کےبعدجب تیمورنےدہلی پرکچھ۔ عرصہ کےلیےقبضہ کرلیااوردہلی کی سلطنت افراتفری کاشکارہوگئی توایک امیرخضرخاں نے1414ء میں ہریانہ کےعلاقہ پرقبضہ کرلیا۔خضرخان نےبعدمیں دہلی کےتخت پرقبضہ کرلیاتھااوروہ سادات خاندان کاپہلابادشاہ بنا۔(ایضا)
سادات خاندان کےبعدلودھی خاندان کی حکومت دہلی میں قائم ہوئی ۔ یہ حکومت کمزورحکومتوں میں شمارہوتی ہےلیکن اس زمانہ میں بھی حصار،ہانسی ،بروالہ اورہریانہ کاتمام علاقہ سلطنت دہلی کاحصہ تھا۔تاریخ کی کتابوں سےپتہ چلتاہےکہ اس خاندان کےپہلےبادشاہ بہلول لودھی(1451ءتا1489ء)کےزمانہ میں ہریانہ کاعلاقہ ایک درباری امیرمحبت خاں












کوعطاکیاگیاتھا۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزضلع حصاراورلوہارواسٹیٹ 1904ء ص 23)ابراہیم لودھی کےزمانہ میں اس کے ایک عزیزجلال نامی نےبغاوت کردی اورجنگ پرآمادہ ہوگیاتوابراہیم لودھی کواس کی بغاوت فروکرنےمیں دشواری پیش آئی تھی۔مگرآخرکاروہ کامیاب ہوگیااورجلال کوشکست دینےکےبعدگرفتارکرلیاگیاتوابراہم نےاسے ہانسی میں قیدکیےجانےکاکم صادرکیاتھا۔
تغلق عہدمیں ملک کاانتظامی ڈھانچہ:- برصغیرمیں ہندوعہدمیں ملک کی انتظامی تقسیم جس طرح کی جاتی تھی ان کے بارےمیں واضح طورپرکچھ۔ پتہ نہیں چلتاہے۔البتہ مسلمانوں نےجب یہاں اپنی حکومت قائم کی توملک کےانتظام کےلیےایک نظام بھی نافذکیا۔اس خطہ پرسب سےپہلےایک منظم حکومت قائم کرنےوالامسلمان بادشاہ مسعودغزنوی ہے۔اس نےپنجاب کےعلاقہ میں سب سےپہلے مسلمان حکومت قائم کی۔اس حکومت کی تنظیم اس نےانہی خطوط پرکی جواس کےاپنےملک میں رائج تھا۔غزنویوں نےاپنےملک کےبارےمیں بھی یہ انتظامی نمونہ امویوں،بازنطینیوں اورایرانیوں سےحاصل کیاتھا،چنانچہ اس انتظامی ڈھانچہ کےمطابق انہوںنے پنجاب کو۔اقطاعات میں تقسم کیا۔ان کےانتظامی ڈھانچہ میں اقطاع کوصبہ کامترادف قراردیاگیاتھااوراقطاعات کی حدبندی محاصل کےتعنی کی غرض سےکی گئی تھی۔عام طورپرایک اقطاع میں ایک شہراورکچھ۔ دیہات پرمشتمل ایک علاقہ شامل ہوتاتھاجسےگوڑہام،سرستی،سنام، سمانہ ہانسی،بھٹیز،سرہند،جالندھر،لاہور،ملتان،دیپالپور،شوالک پہاڑوں کلانورکےاقطاعات اس زمانہ میں بنائےگئےتھے۔اس قسم کی سیاسی تقسیم ان دنوں وسطی ایشیاکی ریاستوں میں تھی۔اس نمونہ کوغزنویوں نےاپنی ہندوستانی سلطنت کےلیےاپنالیاتھا۔
بعدمیں دہلی کےسلاطین نےبھی ملک کی انتظامی تقسیم کےلیےاسی نمونہ کی پیروی کی۔البتہ یہ تبدیلی ضرورہوئی کہ عہدسلاطین میںملک میں تین طرح کےعلاقوں کی موجودگی کےباعث تین طرح کے"اقطاعات"تشکیل دیئےگئے۔پہلی قسم ان اقطاعات یاصوبوں کی تھی جوعلاقہ کےلحاظ سےچھوٹےتھےاوران پرسلاطین دہلی کی نگرانی زیادہ تھی۔مثلاگوڑہام،ہانسی ،بھٹیز،سنام،سرہند،جالندھراورشوالک کی پہاڑیاں اس قسم کےصوبےتھے۔ایسےصوبوں کےحاکم کوعام طورپر،والی ،یامتنھی کہاجاتاتھااوراس کے اختیارات محدودہوتےتھے۔دوسری قسم ان اقطاعات کی تھی جوفوجی اہمیت کےمقامات پرواقع تھےمگردہلی سےزیادہ فاصلہ پرواقع ہونےکےباعث سلاطین کی ذاتی نگرانی سےمحروم تھے۔جیسے لاہور،دیپالپوراورملتان وغیرہ۔ایسے صوبوں کےحاکم والی اورہرنائب کہاجاتاتھا،بعض اوقات اسے،سطان،کالقب بھی دیاجاتاتھا۔ان حاکموں کےاختیارات لامحدودہوتےتھے۔تیسری قسم کےاقطاعات غاصبانہ قبضہ والےتھے،یعنی کچھ۔ علاقوں میں وہاں کےمقامی سرداروں کواپنےعلاقوں کی عملداری پرقبضہ رکھنے کی اجازت دےدی جاتی تھی،بشرطیکہ وہ سلطان کے تابعداررہیں۔









والی کومرتبہ کےلحاظ سےمقتی سےبرترسمجھاجاتاتھا۔کیونکہ مقتی توہرگورنریاصوبیدارکوکہاجاسکتاتھا۔مگرچھوٹےصوبوں کےگورنر'والی'نہیں کہلاسکتےتھے۔والی کےاختیارات بہت زیادہ ہوتےتھے۔مگرایسےگورنروں کی تعدادبہت کم ہوتی تھی۔عہدسلاطین میں زیادہ ترانتظام چھوٹےگورنروں کےسپردتھا۔صوبائی فوج کی نگہداشت اورسربراہی مقتی کی بنیادی مسئولیت تھی۔اسےمقامی بغاوتوں اورغیرملکی حملہ آوروں کامقابلہ کرنےکےلیےکسی قدرآزادی عمل حاصل ہوتی تھی۔ضرورت پڑنےپراسےاپنی فوج لےکرشاہی فوج میں شامل ہوناضروری تھا۔بصورت دیگراسےباغی سمجھاجاتاتھا۔'مقتی'عام طورپراسی صوبہ میں رہائش رکھنےوالاشخص ہوتاتھا۔مگرکبھی کبھار،خاص طورپردہلی کےنزدیکی صوبوں میں غیرحاضرصوبیداراپنےنائب کےذریعہ بھی انتظام چلاتے تھے۔
سلاطین کےزمانہ میں ہی کسی وقت صوبوں کواضلاع میں تقسیم کردیاگیاتھا۔ضلع کوشق کہاجاتاتھاشق کومزیدتقسیم کرکےاس کےہرحصہ کوشہریامدینہ کہاجاتاتھا۔ہرشہرکےساتھ۔ ایک صدی،لینی ایک سودیہات وابستہ ہوتےتھےجوپرگنہ کہلاتےتھے۔"پرگنہ"کوبعض اوقات "قصبہ"کانام بھی دیاجاتاتھا۔"شق"کاسب سےبڑاعہدیدار"عامل"ناظم"یاشقدارکہلاتاتھا۔
مگریوں لگتاہےکہ اس تقسیم کےمعنویت مختلف زمانوں میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔مثال کےطورپربعض مؤرخین نے"شق"کی اصطلاح کوڈویثرن کے ہم معنی سمجھاہے۔کبھی کبھاریہی اصطلاح ایک چھوٹےصوبےکوظاہرکرنےکےلیےبھی استعمال ہوتی ہے۔ایسےصوبوں کووہ تمام اختیارات حاصل نہیں ہوتےتھےجوایک حقیقی صوبےکےلیےمختص تھےمثال کے طورپرعالیہ کےریکارڈمیں حصارفیروزہ کوہانسی کی شق کاحصہ دکھایاگیاہے۔اس وقت ہانسی کوصوبہ کادرجہ حاصل تھا،بعدمیں "شق"کی اصطلاح صوبہ کےحصوں کےلیے استعمال ہونےلگی تھی۔(Bukhshish Singh Niglar Punjab Under the Sultan Lahore 1979 P99-104)
عہدسلاطین کاجائزہ:- عہدسلاطین میں ہریانہ کےعلاقہ کامختصرجائزہ لینےسےمعلوم ہوگیاہےکہ دہلی میں مسلمانوں کی حکومت کےقیام سےقبل ہی یہ علاقہ اسلامی حکومت کےتصرف میں آگیاتھا۔بعدمیں یہ ہمیشہ دہلی کی حکومت کےماتحت رہااوردہلی کےحکمرانوں نےاسےہمیشہ بہت زیادہ اہمیت دی۔مستقبل کےبادشاہوں کوتربیت کےلیےاسی علاقہ کاحکمران بنایاجاتاتھا۔بادشاہ اپنےانتہائی قابل اعتمادامراءکواس علاقہ کی جاگیرعنایت کرتےتھے۔اوریہاں کوئی بغاوت ہوتی تھی توبادشاہ بذات خوداسےفروکرنےکےلیےیہاں پہنچتاتھا۔اسطرح سلطنت دہلی میں اس علاقہ کوسب سےزیادہ اہمیت حاصل تھی۔











حصارفیروزہ اورنہرجمن غربی
عہدسلاطین میں ہریانہ کےعلاقہ کےحالات کےمطالعہ سےہم اس نتیجہ پرپہنچتےہیں کہ مسلمانوں کےدورحکومت میں اس علاقہ کوسب سےزیادہ اہمیت عہدسلاطین میں ہی حاصل ہوئی تھی۔جغرافیائی محل وقوع کےاعتبارسےاہمیت اس علاقہ کوحاصل تھی وہ توہمیشہ برقراررہی۔لیکن انتظام سلطنت میں جواہمیت اسےعہدسلاطین میں دی گئی بعدمیں کم ہوتی چلی گئی۔اسکی ایک بڑی وجہ شایداس علاقہ کی شادابی اورآبادی کابتدریج کم ہوتےچلےجاناتھا۔سلاطین میں بھی اس علاقہ پرسب سےزیادہ توجہ سلطان فیروزشاہ تغلق نےدی۔اوریہاں تعمیروترقی کےجتنےکام کےزمانہ میں ہوئےپھرکبھی نہ ہوسکے۔ترقی وتعمیرکےان کاموں میں سےدوکام ایسےتھےجوبہت دوررس اثرات کےثابت ہوئے۔اول حصارشہرکوآبادکرناتھااوردوم نہرجمن غربی کانکالنا۔چنانچہ آگےبڑھنےسےپہلےان دونوں کاتفصیلی ذکرہوجاناضروری ہےاوراس مقصدکےلیےیہ باب مخصوص کیاگیاہے۔
حصارشہرکی بنیاد:- گذشتہ صفحات میں بیان کیاجاچکاہے۔فیروزشاہ تغلق کوہریانہ کےعلاقہ کےساتھ۔ گہری وابستگی تھی اوراسکی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ علاقہ اس کے شکارکےشوق کوپوراکرنےکابڑاذریعہ تھا۔چنانچہ شروع میں اس نےاپنی شکاری مہموں کامرکزفتح آبادکوبنایامگربعدمیں اسی غرض کےلیے اس نےاس مقام کوپسندکیاجہاں اب حصارکاشہرآبادہےشمس سراج عفیف نےاس کے بارےمیں لکھاہے۔
بادشاہ کےدل میں حصارفیروزہ آبادکرنےکاخیال پیداہوا۔اس مقام پراس سےقبل دوبڑےمواضع تھےجوکداس بزرگ اورکہ اس خوردکےنام سےمشہورتھے۔فیروزشاہ نےکداس بزرگ کی زمین کوبےحدپسندکیااوریہ فرمایاکہ کیاہوتاکہ اس مقام پرایک بزرگ عمدہ شہرآبادہوتا۔خداکی مشیت وحکمت سےیہ مقام بےآب تھا۔بلکہ موسم گرمامیں جب کہ عراق اورخراسان سےراہرواس مقام پرآتےتھےتوایک کوزہ آب کی قیمت چارچتیل اداکرتےتھے۔
فیروزشاہ نےاس مقام پرفرمایاکہ مجھ۔ کوخداکےرحم وکرم سےامیدہےکہ جب میں مسلمانوں کی نفع رسانی کےلیےاس مقام پرجدیدشہرآبادکروں گاتوخداوندکریم بھی اپنےرحم وکرم سےاس سرزمین کوپانی سےسیراب فرمادےگا۔

















فیروزشاہ نےاس سرزمین میں قیام فرمایااوراس کام میں بے حدسعی وکوشش کرکےشہرکاسنگ بنیادرکھا۔
فیروزشاہ کومعلوم تھاکہ یہ مقام بےآب ہے۔بادشاہ نےارادہ کیاکہ یہاں پانی پہنچائے۔بادشاہ نےخوداس کام میں کوشش کی اوردودریاکےساحل سےنہرحصارفیروزہ میں لےآیا۔ایک نہردریائےجمنااوردوسری دریائےستلج سےان ہردونہروں کادہانہ کرنال کےسنگھم سےنکالاگیااورآسی کوس کے فاصلہ تک حصارفیروزہ میں لایاگیا۔
حضرت فیروزشاہ نےحصارفیروزہ کی تعمیرمیں ڈھائی سال صرف کیےاوربادشاہ کےساتھ۔ تمام رعایاوخلقت نےبھی اس کام میں بہت کوشش کی ۔(شمس سراج عفیف،تاریخ فیروزشاہی،ترجمہ مولوی محمدفداعلی طالب۔حیدرآباددکن،1938ء ص 221۔
شہرآبادی کاسن ڈسٹرکٹ گزیٹیرمیں 1351ء لکھاہے۔اس میں لکھاہےکہ اس سےقبل ہندوحکمرانوں کاجتناعہدگزرااوراسکے بعدمسلمان بادشاہوں کاجنتازمانہ گزرا۔اس تمام عرصہ میں ہریانہ کااہم ترین شہراورانتظامی مرکزہانسی میں رہاتھا۔مگرجب فیروزشاہ تغلق نےیہ نیااورخوبصورت شہرآبادکیااوراس کے نام پرہی اس شہرکانام حصارفیروزہ رکھاگیا۔جوبعدمیں حصاررہ گیاتوعلاقہ کاانتظامی مرکزہانسی سےاس شہرمیں منتقل ہوگیا۔یہ ایک عظیم الشان شہربن گیا۔جس میں آبادی اورزراعت کی کثرت ہوئی۔یہ شہربڑاخوبصورت تھا۔اس کے چاروں جانب ایک فیصل تھی فیصل کےساتھ۔ ساتھ۔ ایک خندق بھی کھودی گئی تھی تاکہ اس زمانہ کےحالات کےمطابق شہرکی حفاظت بخوبی ہوسکے۔شہرکےاندرایک قلعہ اوربادشاہ کےلیےایک محل بھی تعمیرکیاگیاتھا۔اس محل کےبارےمیں کہاجاتاہےکہ اپنی نوعیت میں بےنظیرتھا۔جمناسےایک نہرلاکرشہرکوپانی مہیاکیاگیاتھا۔یہ نہرجمن غربی کے نام سے آج تک باقی ہے۔مگردوسری نہرجس کاذکرشمس سراج عفیف کرتاہے۔اس کابعدمیں کوئی نشان نہیں ملتا۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزضلع حصاراورلوہاروسٹیٹ 1904ء ص 21)
حصارشہرکےآبادکیےجانےسےقبل اس علاقہ کاانتظامی صدرمقام ہانسی تھااورہانسی کی حیثیت ایک "اقطاع"کی
 
Top