برج بھاشا پر عربی اور فارسی زبانوں نے کیا کیا اثر کِیے !

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


برج بھاشا پر عربی اور فارسی زبانوں نے کیا کیا اثر کِیے !
از

محمد حُسین آزاد


جب دو صاحبِ زبان قومیں باہم ملتی ہیں تو ایک کے رنگ رُوپ کا دُوسرے پر ضرور سایہ پڑتا ہے۔ اگر چہ اس کے اثرات گفتگو ، لباس ، خوراک نشست ، برخاست مختلف رسوم میں بھی ہوتے ہیں لیکن چونکہ مجھے اس مقام پر زبان سے غرض ہے اس لئے اسی میں گفتگو کرتا ہوں۔ ظاہر ہے جب ایک قوم دوسری قوم میں آتی ہے تو اپنے ملک کی صدہا چیزیں ایسی لاتی ہے کہ جو یہاں نہیں تھیں ۔ اشیائے مذکور کو کبھی ضروری اور کبھی ایسی باعثِ آرام ہوتی ہیں کہ انہیں استعمال میں لانا ضروریاتِ زندگی سے نظر آتا ہے ، اس لئے لوگ انہیں غنیمت سمجھ لیتے ہیں اور بخوشی کام میں لاتے ہیں۔ ان اشیاء میں سے بہتیری چیزیں تو نام اپنے ساتھ لاتی ہیں اور بہتیری نئی ترکیب سے یا اَدَل بدَل کر یہاں نیا نام پاتی ہیں اور یہ پہلا اثر دُوسری زبان کا ہے۔ اس کے علاوہ جب یہ دونوں ایک جگہ رہ سہہ کر شیر و شکر ہوتی ہیں تو ایک زبان میں دُوسری زبان کے لفظ بھی گُھل مل جاتے ہیں۔

جب مہمان اور میزبان ایک دُوسرے کی زبان سمجھنے لگتے ہیں تو ایک خوشنما اور مفید تبدیلی کے لئے رستہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ اگرچہ طبعِ انسانی کے اتحاد سے سب کے خیالات متفق یا قریب قریب ہوں ، مگر اندازِ بیان سب کا جُدا جُدا ہے اور طبیعت ہمیشہ نئے انداز کو پسند کرتی ہے اس لئے اس ادائے مطلب میں ایک دُوسرے کے اندازِ بیان سے بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ پھر نئی نئی تشبیہیں ، لطیف استعارے سے لے کر اپنی پُرانی تشبیہوں اور مستعمل استعاروں کا رنگ بدلتے ہیں اور جس قدر زبان میں طاقت ہے ایک دوسرے کے خیالات اور نئی طرز کو لے کر اپنی زبان میں نیا مزہ پیدا کرتے ہیں۔

یہ انقلاب حقیقت میں وقت بے وقت ہر ایک زبان پر گزرتا ہے چنانچہ قومِ عرب نے جو ایک زمانے میں روم ، یونان اور ہسپانیہ وغیرہ سے خلط ملط ہوئی تھی ہزاروں لفظ علمی اور غیر علمی وہاں سے لیے اسی طرح فارسی زبان اور ترکی وغیرہ کے الفاظ سے مالا مال نظر آتی ہے۔

انگریزی کے باب میں مجھے کچھ کہنا زیبا نہیں کیونکہ اب روشن ضمیر انگریزی خواں بہت ہیں اور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ مگر اتنا کہنا کافی ہے کہ جس طرح ایک مہذب سلطنت میں تمام ضروریاتِ سلطنت کے کارخانے اور ملکی سامان موجود ہونے چاہییں۔ اسی طرح سب قسم کے الفاظ اور تمام ادائے خیالات کے انداز انگریزی زبان میں موجود ہیں۔



جاری۔۔۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب مجھے اپنی زبان میں گفتگو کرنی چاہئے لیکن اتنا یاد دلانا واجب ہے کہ اُردو کہاں سے نکلی ہے اور کیونکر نکلی ہے ۔ اُردو زبان اول لین دین ، نشست برخاست کی ضرورتوں کے لئے پیدا ہوگئی۔ ہندوؤں کے ساتھ ہندی مسلمان جو اکثر ایرانیوں یا ترکستانیوں کی اولاد تھے ہندوستان کو وطن اور اس زبان کو اپنی زبان سمجھنے لگے ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جس طرح زمین بے روئیدگی کے نہیں رہ سکتی ، اسی طرح کوئی زبان بے شاعری کے نہیں رہ سکتی ۔ محمد شاہی دَور تھا اور عیش و عشرت کی بہار تھی۔

ان شرفاء کو خیال آیا ہوگا کہ جس طرح ہمارے بزرگ اپنی فارس کی انشاپردازی میں گلزار کھلاتے تھے ۔ اب ہماری یہی زبان ہے۔ ہم بھی اس میں کچھ رنگ دکھائیں۔ چُنانچہ وہی فارس کے خاکے اُردو میں اُتار کر غزل خوانیاں شروع کر دیں اور قصیدے کہنے لگے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ قوتِ بیان ، یا لفظوں کی تراش یا ترکیبوں کی خُوبصورتی یا تشبیہ اور استعاروں کی رنگینی غرض اول جو کچھ نصیب ہوا ، شُعرائے اُردو کی بدولت ہوا اور یہی سبب ہے کہ جو کُچھ سامان ایک مُلکی اور ٹکسالی زبان کے لئے درکار ہوتے ہیں اس سے یہ زبان مفلس رہی کیونکہ اس عہد میں علوم و فنون ، تاریخ ، فلسفہ ، ریاضی وغیرہ کا چرچا عام ہوتا تو اس کے لئے بھی الفاظ ہوجاتے ۔ جن جن باتوں کا چرچا تھا انہی سامانوں کے الفاظ اور خیالات پیدا ہوئے ، ہاں یہ ضرور کہنا چاہئے کہ جو کچھ ہوا ، اپنے رنگ پر خُوب ہوا تھا

اب ہمیں پھر اپنے مطلب پر آنا چاہئے کہ بھاشا نے اُردو کے کپڑے پہننے کے لئے فارسی سے کیا کیا لیا:

1۔ ان چیزوں کے نام لئے جو عرب اور فارس سے آئیں اور اپنے نام اپنے ساتھ لائیں ، مثلا لباس میں فرغل ، لبادہ ، کُرتا ، قبا ، چوغا ، آستین ، گریبان ، پاجامہ ، ازار ، عمامہ ، رومال ، دوشالہ ، تکیہ ، گاؤ تکیہ ، برقع ، پوستین وغیرہ

کھانے کے ذیل میں دستر خوان ، چپاتی ، شیرمال ، باقر خانی ، زردہ ، مُزعضر ، قلیہ ، قورمہ ، متنجن ، فرنی ، یاقوتی ، حریرہ ، ہریسہ ، لوز ، مربے ، اچار فالودہ ، گلاب ، بید مشک ، خوان ، طبق ، رکابی ، تشتری ، کفگیر ، چمچہ ، سینی ، کشتی ، چائے ، جوش وغیرہ

متفرقات میں

حمام ، کیسہ ، صابون ، شیشہ ، شمع ، شمعدان ، فانوس ، گلگیر ، تنور ، رفیدہ ، مشک ، نماز ، روزہ ، عید ، شب برات ، قاضی ، ساقی ، حقہ ، نیچہ ، چلم ، تفنگ ، بندوق ، تختہ خرد ، گنجفہ اور ان کی اصطلاحیں۔

یہ سب چیزیں اپنے نام ساتھ لے کر آئیں ۔ بہت سی چیزیں آئیں کہ بھاشا میں ان کے نام نہیں ۔ سنسکرت کی کتابوں میں ہوں گے۔

پستہ ، بادام ، منقہ ، شہتوت ، بیدانہ ، خوبانی ، انجیر ، سیب ، بہی ، ناشپاتی اور انار وغیرہ

2۔ بہت سے عربی فارسی کے لفظ کثرتِ استعمال سے اس طرھ جگہ پکڑ بیٹھے ہیں کہ اب ان کی جگہ سنسکرت یا قدیمی بھاشا کا لفظ ڈھونڈ کر لانا پڑتا ہے، مگر اس میں یا تو مطلبِ اصلی فوت ہو جاتا ہے یا زبان ایسی مشکل ہو جاتی ہے کہ عوام تو کیا خواص ہندو کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ مثلا

دلال ، فراش ، مزدُور ، وکیل ، جلاد ، صراف ، مسخرا ، نصیحت ، لحاف ، توشک ، چادر ، صورت ، شکل ، چہرہ ، طبیعت ، مزاج ، برف ، فاختہ ، قُمری ، کبوتر ، بُلبل ، طوطا ۔ پَر ، دوات ، قلم ، سیاہی ، جُلاب ، رقعہ ، عینک ، صندوق ، کُرسی ، تخت ، لگام ، رکاب ، زین ، تنگ ، پوزی ، نعل ، کوئل ، عقیدہ ، وفا ، جہاز ، مستول ، بادبان ، تہمت ، درہ ، پردہ ، دالان ، تہ خانہ ۔ تنخواہ ، غلط ، صحیح ، رسد ، سرباری ، کاریگر ، ترازو۔

شطرنج کے باب میں تعجب ہے کہ خاص ہند کا ایجاد ہے مگر عرب اور فارس سے جو پھر کر آئی تو سب اجزا کے نام اور اپنی اصطلاحیں بدل آئی۔

سینکڑوں لفظ عربی اور فارسی کے یہاں آئے مگر ہوا موافق نہ آئی اس لئے مزاج اور صورت بگڑ گئی مثلا مُرغا وغیرہ۔

صَرف میں فارسی سے کُچھ نہیں لیا خود اتنا کیا کہ و ن علامتِ جمع ہندی کو عربی فارسی پر لگا لیا۔ مثلا

آدمیوں ، انسانوں ، درختوں ، میووں۔


اِسمِ فاعل:

فارسی عربی کے بے شُمار لئے اور ان میں شطرنج باز کے قیاس پر چوپڑ باز اور وفادار کے قیاس پر ظرفا سمجھ دار ، سمجھ ناک بھی بول دیتے تھے۔

باغبان کے قیاس پر گاڑی بان ، ہاتھی بان ، بہلبان ۔ مگر بان اور دان حقیقت میں ایک ہیں کیونکہ اصل میں دونوں زبانیں ایک دادا کی اولاد ہیں۔
 
Top