برای اصلاح

ارتضی عافی

محفلین
اسلام و علیکم استادان گل با امید دیراں بعد حاضرم
اس عشق کوکبھی بھی تو ارماں نہ کرنا یار
اے فاعلن مجھے تو پشیماں نہ کرنا یار
اس عشق کے وجود سے ہم آج خوش ہے
اے دوست تم اسے کبھی ویراں نہ کرنا یار
یہ لوگ عشق میں مجھے کافر بھی کہتے ہیں
تم مجھ کو دل دے کے یوں مسلماں نہ کرنا یار
ہر وقت مجھ کو بوسہ ہی لیتے ہو سرِ عام
تم ایسا کر کے یارو کو حیراں نہ کرنا یار
یہ دل مرا ترا ہے اسے رکھنا اپنے پاس
اس کو سکون دینا پریشاں نہ کرنا یار
عافی کو رکھنا خوش اسے پیار دینا تو
اے فاعلن تو عافی پہ احساں نہ کرنا یار
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
محمد ریحان قریشی الف عین سر اصلاح در کار است
 

الف عین

لائبریرین
مجھے ردیف ہی پسند نہیں آئی۔ ’نہ کیجیو‘ کر دی جائے تو کیسا رہے گا؟
کچھ مصرع بحر سے خارج ہیں۔ ان پر غور کر کے خود ہی روائز کر کے پوسٹ کریں تو باقی پر بھی کچھ مزید کہا جا سکے۔
 

ارتضی عافی

محفلین
مجھے ردیف ہی پسند نہیں آئی۔ ’نہ کیجیو‘ کر دی جائے تو کیسا رہے گا؟
کچھ مصرع بحر سے خارج ہیں۔ ان پر غور کر کے خود ہی روائز کر کے پوسٹ کریں تو باقی پر بھی کچھ مزید کہا جا سکے۔
اسلام و علیکم سر
اس درد عشق کو کبھی ارماں نہ کیجیو
جاناں ہمیں کبھی بھی پریشاں نہ کیجیو
اس عشق کے وجود سے ہم آج زندہ ہے
اے دوست اس کو تم کبھی ویراں نہ کیجیو
یہ لوگ عشق میں مجھے کافر بھی کہتے ہیں
تم مجھ کو دل دے کے یو مسلماں نہ کیجیو
یہ دل مرا ترا ہے اسے رکھنا اپنے پاس
اس کو سکون دینا پریشاں نہ کیجیو
میں عافی بس تمھارا ہوں یہ سوچ لینا تم
اے یارو مجھ پہ تم کبھی احساں نہ کیجیو
 

الف عین

لائبریرین
اس درد عشق کو کبھی ارماں نہ کیجیو
جاناں ہمیں کبھی بھی پریشاں نہ کیجیو
÷÷درد عشق کو ارماں کرنا سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرا مصرع اچھا ہے۔ کوئی دوسری گرہ لگائیں۔

اس عشق کے وجود سے ہم آج زندہ ہیں
اے دوست اس کو تم کبھی ویراں نہ کیجیو
÷÷(ہم کے ساتھ میں نے ’ہیں‘ درست کر دیا ہے)
وجود کو ویراں کرنا بھی محاورے کے خلاف ہے۔

یہ لوگ عشق میں مجھے کافر بھی کہتے ہیں
تم مجھ کو دل دے کے یو مسلماں نہ کیجیو
÷÷دوسرا مصرع ‘د کے یُ‘ُ تقطیع ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔
تم مجھ کو دے کے دل یوں مسلماں۔ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ مفہوم کے لحاظ سے سمجھ میں نہیں آ سکا ہے شعر۔

یہ دل مرا ترا ہے اسے رکھنا اپنے پاس
اس کو سکون دینا پریشاں نہ کیجیو
÷÷’مراترا ہ‘ کی تقطیع اچھی نہیں لگتی۔
یہ دل مرا ہے تیرا، اسے ۔۔۔۔
بہتر ہو گا۔

میں عافی بس تمھارا ہوں یہ سوچ لینا تم
اے یارو مجھ پہ تم کبھی احساں نہ کیجیو
÷÷کس سے خطاب ہے، دوستوں سے یا محبوب سے؟ مفہومکے لحاظ سے سمجھ نہیں سکا۔
 

ارتضی عافی

محفلین
اس درد عشق کو کبھی ارماں نہ کیجیو
جاناں ہمیں کبھی بھی پریشاں نہ کیجیو
÷÷درد عشق کو ارماں کرنا سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرا مصرع اچھا ہے۔ کوئی دوسری گرہ لگائیں۔

اس عشق کے وجود سے ہم آج زندہ ہیں
اے دوست اس کو تم کبھی ویراں نہ کیجیو
÷÷(ہم کے ساتھ میں نے ’ہیں‘ درست کر دیا ہے)
وجود کو ویراں کرنا بھی محاورے کے خلاف ہے۔

یہ لوگ عشق میں مجھے کافر بھی کہتے ہیں
تم مجھ کو دل دے کے یو مسلماں نہ کیجیو
÷÷دوسرا مصرع ‘د کے یُ‘ُ تقطیع ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔
تم مجھ کو دے کے دل یوں مسلماں۔ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ مفہوم کے لحاظ سے سمجھ میں نہیں آ سکا ہے شعر۔

یہ دل مرا ترا ہے اسے رکھنا اپنے پاس
اس کو سکون دینا پریشاں نہ کیجیو
÷÷’مراترا ہ‘ کی تقطیع اچھی نہیں لگتی۔
یہ دل مرا ہے تیرا، اسے ۔۔۔۔
بہتر ہو گا۔

میں عافی بس تمھارا ہوں یہ سوچ لینا تم
اے یارو مجھ پہ تم کبھی احساں نہ کیجیو
÷÷کس سے خطاب ہے، دوستوں سے یا محبوب سے؟ مفہومکے لحاظ سے سمجھ نہیں سکا۔
سر جی بہت شکریہ اب کیسا ہے؟؟؟
مجھ سے جدائی کی کبھی ارماں نہ کیجیو
جاناں ہمیں کبھی بھی پریشاں نہ کیجیو
یہ گھر ترے وجود سے آباد ہے صنم
توکر کے بے رخی اسے ویراں نہ کیجیو
ملحد ہوں مجھ کو دوست بھی کافر تو کہتے ہیں
تم مجھ کو دے کے دل یوں مسلماں نہ کیجیو
یہ دل مرا ہے تیرا اسے رکھنا اپنے پاس
اس کو سکون دینا پریشاں نہ کیجیو
میں عافی بس تمھارا ہوں یہ سوچ لینا جان
اے جان مجھ پہ تم کبھی احساں نہ کیجیو
 

الف عین

لائبریرین
مجھ سے جدائی کی کبھی ارماں نہ کیجیو
جاناں ہمیں کبھی بھی پریشاں نہ کیجیو
مجھ سے جدائی کاکبھی ارماں ۔۔۔۔ درست ہو گا

یہ گھر ترے وجود سے آباد ہے صنم
توکر کے بے رخی اسے ویراں نہ کیجیو
۔۔۔ درست

ملحد ہوں مجھ کو دوست بھی کافر تو کہتے ہیں
تم مجھ کو دے کے دل یوں مسلماں نہ کیجیو
۔۔۔اب بھی واضح نہیں

یہ دل مرا ہے تیرا اسے رکھنا اپنے پاس
اس کو سکون دینا پریشاں نہ کیجیو
۔۔۔ ٹھیک ہے۔

میں عافی بس تمھارا ہوں یہ سوچ لینا جان
اے جان مجھ پہ تم کبھی احساں نہ کیجیو
۔۔۔ اب بھی دو لخت لگتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
یقیناً، یہ اچھا مطلع ہو سکتا ہے۔ جدائی کا ارماں نکال کر اس مصرع کے ساتھ ہی مطلع رکھو۔
 

ارتضی عافی

محفلین
یقیناً، یہ اچھا مطلع ہو سکتا ہے۔ جدائی کا ارماں نکال کر اس مصرع کے ساتھ ہی مطلع رکھو۔
مہربانی سر ٹھیک کرتا ہوں یہ دو شعر کیسے ہیں؟؟؟
مسلماں کو چھوڑ دیا ہے سر
اس سے بچھڑ کے راتوں کو روتا ہوں یار میں
غمخوار بن کے مجھ کو پشیماں نہ کیجیو
تو دور ہے مجھی سے یہ اچھا ہے فاعلن
نزدیک آ کہ مجھ پہ تو احساں نہ کیجیو
 

الف عین

لائبریرین
اس سے بچھڑ کے راتوں کو روتا ہوں یار میں
غمخوار بن کے مجھ کو پشیماں نہ کیجیو
÷÷÷ یار‘ محض بھرتی کا لگ رہا ہے۔‘روتا رہا ہوں میں‘ بہتر مصرع ہو گا۔

تو دور ہے مجھی سے یہ اچھا ہے فاعلن
نزدیک آ کہ مجھ پہ تو احساں نہ کیجیو
’مجھی‘ سے کیوں؟
تو دور ہے جو مجھ سے ۔۔۔ بہتر ہے۔
’نزدیک آ کے‘ کا محل ہے، ’آ کہ‘ کا نہیں
 

ارتضی عافی

محفلین
اس سے بچھڑ کے راتوں کو روتا ہوں یار میں
غمخوار بن کے مجھ کو پشیماں نہ کیجیو
÷÷÷ یار‘ محض بھرتی کا لگ رہا ہے۔‘روتا رہا ہوں میں‘ بہتر مصرع ہو گا۔

تو دور ہے مجھی سے یہ اچھا ہے فاعلن
نزدیک آ کہ مجھ پہ تو احساں نہ کیجیو
’مجھی‘ سے کیوں؟
تو دور ہے جو مجھ سے ۔۔۔ بہتر ہے۔
’نزدیک آ کے‘ کا محل ہے، ’آ کہ‘ کا نہیں
اچھا سر شکریہ
اس درد عشق کو کبھی درماں نہ کیجیو
جاناں ہمیں کبھی بھی پریشاں نہ کیجیو
یہ گھر ترے وجود سے آباد ہے صنم
توکر کے بے رخی اسے ویراں نہ کیجیو
اس سے بچھڑ کے راتوں کو روتا رہا ہوں میں
غمخوار بن کے مجھ کو پشیماں نہ کیجیو
یہ دل مرا ہے تیرا اسے رکھنا اپنے پاس
اس کو سکون دینا پریشاں نہ کیجیو
تو دور ہے جو مجھ سے یہ اچھا ہے فاعلن
نزدیک آ کے مجھ پہ تو احساں نہ کیجیو
 
Top