براہوی لوک داستان: "زیبو"

ذوالقرنین

لائبریرین
براہوی ادب سے ماخوذ:
براہوی لوک داستان

زیبو

محقق: سوسن براہوی

ترجمہ و ترتیب: ذوالقرنین

پروف ریڈنگ: الف عین


ایک بادشاہ تھا۔ تھا تو منصف اور عادل پراس میں ایک عادت بد تھی۔ اسے بیٹی سے بہت نفرت تھی۔ اللہ کی قدرت کہ اس کے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوا۔ اسے اپنا بیٹا بہت عزیز تھا۔ بہت ناز و نعم اور لاڈ و پیار سےاس کی پرورش ہو رہی تھی۔چند سال بعد ملکہ پھر امید سے ہو گئی۔ ولادت کے دن قریب تھے۔ لیکن بادشاہ سلامت کو کسی دوسرے بادشاہ کی دعوت پر ملک سے باہر جانا پڑا۔ جانے سے پہلے بادشاہ نے ملکہ کو حکم دیا کہ میں کہیں باہر جا رہا ہوں، اگر میرے آنے سے پہلے ولادت ہوئی، لڑکا ہوا تو ٹھیک لیکن اگر لڑکی ہوئی تو اسے ہلاک کر دینا۔
بادشاہ چلا گیا۔ چند ہفتے بعد اس کے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی۔ اولاد ماں کو بہت پیاری ہوتی ہے۔ ملکہ رونے لگی کہ اے اللہ! اب میں کیا کروں؟ ولادت کے وقت ایک دائی موجود تھی جو ملکہ کی حالت زار دیکھ رہی تھی۔ اللہ نے اس کے دل میں رحم پیدا کیا۔ اس نے ملکہ سے کہا۔
"اے ملکہ! آپ دل چھوٹا مت کیجئے۔ میں یہاں سے سب کے سامنے بچی کو ہلاک کرنے کے بہانے لے جاؤں گی۔ پر میں یہاں سے اسے اپنے گھر میں لے جا کر پالوں گی۔ اگر آپ کسی طرح سے بچی کے لیے خرچ وغیرہ بھیجتی رہیں گی تو آپ کی بچی خوشحال اور آسودہ ہوگی، وگرنہ مجھ غریب کو جو نصیب ہوگی، اس سے اسے بھی پالنے کی کوشش کروں گی۔"
ملکہ نے کچھ سونا چاندی، زیور وغیرہ بچی کے واسطے تھما دئیے۔ بچی کو اس کے حوالے کیا۔ محل میں یہ بات پھیلائی گئی کہ دائی نے بچی کو لے جا کر ہلاک کر دیا ہے۔ جبکہ دائی نے شہزادی کو اپنے گھر لا کر پورے ناز و نعم سے اس کی پرورش شروع کر دی۔
جب بادشاہ اپنے سفر سے واپس آیا تو اسے یہی احوال سنایا گیا کہ آپ کے جانے کے بعد بچی کی ولادت ہوئی اور آپ کے حکم کے بموجب اسے ہلاک کی گئی۔ بادشاہ اپنی بد عادتی کے باعث خوش ہوا۔
دائی نے لوگوں کے سامنے شہزادی کو اپنی نواسی ظاہر کیا۔ کبھی کبھار بادشاہ سے چھپ چھپا کے شہزادی کو لاتی اور ملکہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر اس کی مامتا کو کچھ قرار ملتا اور وہ دائی کو سونا چاندی اپنے بیٹی کی نگہداشت کے واسطے دے دیا کرتی۔ چونکہ شہزادی کی پرورش اچھے طریقے سے ہو رہی تھی۔ اس لیے خوب قد کاٹھ نکالی۔ خوبصورت تھی ہی اس لیے جوان ہوتے ہی دنیا کے سامنے شہزادی نہ ہوتے ہوئے بھی شہزادیوں کی طرح دِکھنے لگی۔
ایک دن بادشاہ کی سواری شہر سے گزر رہی تھی ۔ اسی وقت شہزادی اور دائی بھی اسی راستے سے گزر رہی تھیں۔ بادشاہ کی نظر شہزادی پر پڑی۔ پوچھا "یہ کون ہے؟" وزیر نے کہا "یہ اس بیچاری عورت کی نواسی ہے۔" بادشاہ نے حکم دیا "مجھے یہ بہت پسند آئی ہے۔ کل اس کے گھر میرے لیے رشتہ لے کر جانا۔" چونکہ حقیقت کا کسی کو پتا نہیں تھا۔ اس لیے دوسرے دن وزیر، وکیل وغیرہ دائی کے گھر بادشاہ کے لیے اس کی نواسی کا ہاتھ مانگنے گئے۔ اب دائی کے اوسان خطا ہو گئے کہ یا اللہ! اب کیا کروں؟ اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا " میں ایک غریب ہوں۔ میری نواسی بادشاہ کے لائق نہیں اور نا ہی بادشاہ کا کسی غریب سے رشتہ جوڑنا صحیح ہے۔ اس لیے دوبارہ اس سلسلے میں میرے گھر مت آئیے گا۔"
بادشاہ خود تو نہیں آیا لیکن دائی کے گھر رشتے کے لیے بہت سے بندے بھیجے۔ سب نے دائی کو بہت منت سماجت کی، لالچ دیے، دھونس دھمکی دی، لیکن دائی ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ دائی کو پکڑ کے خوب سزا دے دو تاکہ وہ رشتے کے لیے مان جائے۔
سپاہی دائی کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لائے اور انہوں نے اسے خوب کوٹ کوٹ کر پیٹنا شروع کیا۔ سپائیوں نے دائی کو کپڑے کی طرح نچوڑ کے رکھ دیا۔ بیچاری پہلے سے ہی دو ہڈیوں پر تھی، اتنی مار برداشت نہ کرسکی اور بادشاہ کے سامنے چیخ پڑی۔" بادشاہ سلامت! یہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی بیٹی ہے۔ میں نے اسے ہلاک کرنے کے بجائے لے جا کر اپنے گھر میں اس کی پرورش کی ہے۔"
اب بادشاہ کو احساس ہوا کہ وہ کیا غلطی کرنے جا رہا تھا۔ خدا نے اسے گناہ عظیم سے بچایا۔ وہ اور زیادہ غصے میں آ گیا۔ اپنے بیٹے یعنی شہزادے کو بلا کر حکم دیا کہ اپنی بہن کو جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں نکال کر اور گردن کا خون لا کر مجھے دکھا دے تاکہ مجھے یقین ہو جائے۔"
 

ذوالقرنین

لائبریرین
شہزادہ پریشان ہوا کہ وہ کیسے اپنے ہاتھوں سے اپنی بہن کو قتل کرے۔ اس کی آنکھیں نکال لے اور اس کے گردن کا خون لا کر باپ کو دکھا دے۔ اسے کسی صورت یہ گوارہ نہ تھا اگرچہ اسے اپنی بہن کے متعلق اب معلوم ہوا۔ لیکن اسے پتا تھا کہ بادشاہ ہر صورت اپنی بیٹی کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس نے اسے قتل نہیں کیا تو بادشاہ دونوں کو ہلاک کر دے گا۔ مجبور ہو کر اپنی بہن کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ جب دونوں جنگل پہنچ گئے تو بھائی کی محبت بہن کے لیے جوش میں آ گئی۔ بہن سے کہا کہ میں کسی صورت تمہیں اپنے ہاتھوں سے قتل نہیں کر سکتا۔ میں تمہیں یہیں چھوڑے دیتا ہوں آگے تمہاری قسمت کہ تمہیں درندے کھا جائیں یا تم بچ کر کہیں اور نکل جاؤ۔" لیکن بہن نے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔" نہیں بھائی !تم مجھے قتل کر دو۔ میری آنکھیں اور خون لے جا کر باپ کو دکھا دو۔ نہیں تو وہ تمہیں مار دے گا جو مجھے کسی صورت گوارہ نہیں۔" دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو پڑے۔ آخر کسی طرح بھائی نے بہن کو منا لیا۔شہزادی آنسو بہاتے ہوئے گھنے جنگل کی طرف جانے لگی ۔ آخری بار پلٹ کر بھائی کو دیکھا اور جنگل میں گھس گئی۔ اس کے بعد شہزادے نے ادھر ادھر سے ڈھونڈ کر ایک ہرن کا شکار کیا۔ اس کے گردن کا خون نکالا اور آنکھیں نکال کر لے جا کر بادشاہ کو دکھا دیں۔ بادشاہ نے آئینہ منگوایا۔ اس میں ان آنکھوں کو اور اپنی آنکھوں کو غور سے دیکھا ۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ آنکھوں کا رنگ ایک ہی ہے تب اسے تسلی ہوئی۔
ملکہ نے کسی طور شہزادے کو بلا کر اس سے بیٹی کے متعلق پوچھا۔ شہزادے نے ماں کے سامنے سارا احوال گوش گزار کر دیا۔ ملکہ نے منہ آسمان کی طرف کر کے ہاتھ اوپر اٹھائے اور بیٹی کے لیے دعا مانگی کہ اے اللہ! تو میری بیٹی کی حفاظت کر۔ اسے اپنے امان میں رکھ اور اسے کسی اچھی جگہ پار لگا۔"
اب آگے شہزادی کا قصہ سنیے۔شہزادی جنگل میں رہنے لگی اور بھوک مٹانے کے لیے جنگلی پھل، پھول، بوٹے کھا کر اپنا وقت گزارنے لگی۔ اس دوران بہت سا وقت گزر گیا۔ جھاڑیوں، کانٹوں سے الجھ کر اس کے بوسیدہ کپڑے تار تار ہو گئے۔ آخر کار اس کے بدن پر کوئی کپڑا نہ رہا ۔
ایک دن کسی اور ملک کا بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسی جنگل کے راستے سے گزر رہا تھا۔ اتفاقاً بادشاہ اسی طرف جا نکلا جدھر شہزادی تھی۔ جب شہزادی کی کانوں میں کسی گھوڑے کے قدموں کی آہٹ پڑی تو جلدی جلدی کسی گھنے درخت پہ چڑھ گئی اور اس کے بڑے بڑے پتے توڑ کر اپنی ستر پوشی کر کے چھپ کے بیٹھ گئی۔ بادشاہ بھی آ کے اسی درخت کے نیچے ٹھہر گیا۔ درخت گھنا اور سایہ دار تھا۔ ایک طرف اپنے گھوڑے کو باندھا، اور درخت کے سائے میں کپڑا بچھا کر تھوڑی دیر سستانے کی خاطر لیٹ گیا۔ چونکہ اس کا منہ آسمان کی طرف تھا اور وہ اپنے خیالوں میں گم تھا، اس کی نظر درخت کے گھنے پتوں میں پوشیدہ کسی ہیئت پر پڑی۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے کہنے لگا "اے اللہ کی مخلوق! تم کوئی پری ہو، فرشتہ ہو، جن ہو یا کوئی انسان؟ جو بھی ہو، اپنے آپ کو ظاہر کرو۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔"
شہزادی نے پکار کر کہا۔" اے مسافر ! میں ایک لاچار لڑکی ہوں۔ میرے جسم پر کپڑے کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر تم اپنے نیچے بچھے چادر کو میری طرف پھینک دو تاکہ میں اسے ڈھانپ کر نیچے اتروں اور تم سے بات چیت کروں۔" بادشاہ نے اپنے نیچے بچھے کپڑے کو اٹھایا۔ اس کا گولا سا بنا کر اس کی طرف پھینکا۔ شہزادی نے اس کپڑے سے اپنے جسم کو خوب اچھی طرح ڈھانپا اور کسی نہ کسی طریقے سے درخت سے اتر گئی۔ جب بادشاہ نے شہزادی کو دیکھا تو اس کے حواس گم ہو گئے۔ اس کے پورے ملک میں کوئی اتنی خوبصورت لڑکی نہیں تھی۔ پورے دل و جان سے شہزادی پر فریفتہ ہو گیا۔
جھٹ شہزادی سے کہا۔" میں ایک بادشاہ ہوں۔ اگر تم برا نہ مانو تو میں تم سے شادی کر کے تمہیں اپنی ملکہ بنانا چاہتا ہوں۔" اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ شہزادی نے حامی بھری۔ وہ بھی ایک ایسا بندہ چاہتی تھی جو اسے عزت دے۔ بادشاہ خوشی خوشی شہزادی کو لے کر اپنے ملک روانہ ہو گیا۔ اپنے ملک پہنچتے ہی بادشاہ پہلے وزیر کے گھر جا پہنچا اور اس سے کہا۔ "ایسا سمجھو کہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ میں کل رشتہ مانگنے آؤں گا۔ اور شادی بیاہ رچا کر اپنی امانت یہاں سے اپنے محل لے جاؤں گا۔" وزیر نے آداب بجا کر کہا۔" بادشاہ سلامت، آپ پوری طرح سے تسلی رکھیے۔ یہ آپ کی امانت ہے اور میری بیٹی۔ جب آپ کا دل چاہے، اسے بیاہ کر لے جائیے۔" بادشاہ شہزادی کو وزیر کے گھر چھوڑ آیا۔
اگلے دن وکیل، قاضی بادشاہ کا رشتہ لے کر وزیر کے گھر آ پہنچے۔ وزیر نے رشتہ کے لیے ہاں کر دی۔ ایک دو دن بعد منگنی ہو گئی۔ بادشاہ شہزادی کے عشق میں سب کچھ بھول چکا تھا۔ جلد ہی شادی کا نیوتا بھیجا اور شہزادی کو بیاہ کر اپنے محل لایا۔ بادشاہ اور شہزادی اپنے شادی سے بہت خوش تھے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
اس دوران بادشاہ نے شہزادی سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا تھا۔ چند سال بعد اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ بہت خوش تھا۔ اس نے شہزادی سے جو اب ملکہ بن گئی تھی، پوچھا۔" اب جبکہ اللہ نے ہم دونوں کو اولاد نرینہ سے نوازا ۔ تم اب ایک بیٹے کی ماں بن گئی ہو۔ اب مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟ کسی کی بیٹی ہو؟ اور کس جگہ سے تمہارا تعلق ہے؟"
شہزادی نے کسی طریقے سے بادشاہ کو ٹال دیا۔ ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ بادشاہ کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ نے دوبارہ شہزادی سے وہی سوال دہرایا۔ شہزادی نے پھر بادشاہ کو ٹال دیا۔آخرکار ان کے ہاں جب تیسرے بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس موقع پر بادشاہ نے شہزادی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا ۔ آخرکار شہزادی مان گئی اور بادشاہ کو حقیقت بتائی کہ وہ فلاں ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہے۔ بادشاہ کو کس طرح بیٹیوں سے نفرت تھی۔ اس نے کس طرح مجھے مارنے کا حکم دیا اور دائی نے مجھے کس طرح بچا کر اپنے گھر میں میری پرورش کی۔ بادشاہ نے کس طرح مجھے دیکھا۔ پھر کس طرح اپنے بھائی کے حوالے کر کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ میں اس طرح جنگل میں خوار زندگی گزارنے لگی۔ وہاں تم نے مجھے دیکھا۔ مجھے اپنے ساتھ لے کر آئے اور مجھ سے شادی کی۔
بادشاہ نے جب شہزادی کی دکھ بھری کہانی سنی تو اس سے کہا۔" اپنے آپ کو تیار کرو۔ میں تمہیں تمہارے ماں باپ کے گھر لے جاؤں گا۔" شہزادی نے بہت منت سماجت کی کہ مجھے میرے ظالم باپ کے سامنے مت لے جاؤ۔ وہ مجھے قتل کر دے گا۔ لیکن بادشاہ نہیں مانا۔ آخر کار وہ مجبور ہو کر اپنے ماں باپ کے گھر یعنی سسرال جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ بادشاہ نے پورے جاہ و جلال اور طمطراق سے ایک بڑے لشکر کے ساتھ شہزادی اور تینوں بیٹوں کو بھیجا لیکن خود کچھ ملک کے ضروری کاموں کی وجہ سے رک گیا۔اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کو شہزادی کے ساتھ کر دیا اور کہا کہ تم لوگ ملکہ کو لے کر روانہ ہو جاؤ۔ میں پہلی، دوسری یا تیسری منزل پر تم لوگوں سے ضرور آ کر ملوں گا۔
وزیر، وکیل اور قاضی، شہزادی کو لے کر لاؤ لشکر کے ساتھ اس کے ماں باپ کے ملک کی طرف روانہ ہو گئے۔شام ہوتے ہوتے انہوں نے پہلے منزل پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کیا۔ تب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کا خیمہ بھی اس کے خیمے کے بالکل قریب کھڑا کیا گیا۔ شہزادی نے وزیر کو بلا کر اس سے پوچھا۔" اے وزیر! تم جانتے ہو کہ میں ایک بادشاہ کی بیٹی اور ایک بادشاہ کی بیوی ہوں۔ تم اپنا خیمہ یہاں سے دور لگوا دو۔" وزیر نے کہا۔" ملکہ صاحبہ! بادشاہ نے ہمیں آپ کی حفاظت کی خاطر آپ کے ساتھ روانہ کیا ہے۔ اگر آپ یا آپ کے بچوں کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔"
شہزادی نے کہا۔" مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ پر تم اپنا خیمہ یہاں سے دور کہیں اور لگوا دو۔" لیکن وزیر نہیں مانا۔ خیمے لگ گئے۔ کھانا وغیرہ کھایا گیا۔ رات ہو گئی تھی۔ تھکے ہارے لوگ سو گئے۔ وزیر کے دل میں کوٹ تھا، اسے نیند نہیں آ رہا تھا۔ آخر آدھی رات کو اٹھا اور شہزادی کے خیمے میں داخل ہو گیا۔ شہزادی پہلے سے ہی بھانپ چکی تھی کہ وزیر بد ذات کی نیت میں کھوٹ ہے۔ آہٹ پا کر شہزادی جاگ گئی۔ دیکھا کہ وزیر ہے تو اسے للکار کر باہر نکلنے کو کہا۔ لیکن وزیر آگے بڑھنے لگا۔ شہزادی نے کہا "اے بد ذات وزیر! تم جانتے ہوں کہ میں ایک بادشاہ کی بیٹی ہوں اور ایک بادشاہ کی بیوی بھی۔ نہ میں نے برائی کی ہے اور نہ کسی کا برا چاہا ہے۔ مجھے مخلوق کے سامنے بدنام مت کر اور میرے خیمے سے نکل جا۔" لیکن بے غیرت وزیر نہیں ٹلا۔ جب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کسی صورت نہیں مان رہا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے کو وزیر کےسامنے کیا کہ تمہیں اس بچے کے سر کی قسم اس طرح مت کرو۔ اسے اللہ رسول کے واسطے دیے۔ قرآن کی دہائی دی لیکن بدکردار وزیر کے دماغ میں شیطان پوری طرح سے گھر کر چکا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور تلوار نکال کر ایک ہی وار سے بچے کا سر دھڑ سے الگ کیا۔ شہزادی سمجھ گئی کہ بد ذات وزیر بالکل بھی نہیں ٹلے گا۔ اس نے وزیر سے کہا۔" تم اب بالکل بھی نہیں ٹلو گے۔ میں ایک پاک عورت ہوں۔ اس وقت بھی وضو میں ہوں۔ مجھے اتنا موقع دو کہ میں اپنے وضو کو توڑ کر آ جاتی ہوں تب تمہارا جو دل چاہے، وہ کرو۔"
وزیر نے کہا۔" جاؤ اور جلدی آ جانا۔"
شہزادی خیمہ سے باہر نکل گئی۔بھاگتی ہوئی وہاں سے دور ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ وزیر کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اسے ڈھونڈنے نکل گیا۔ ادھر ادھر تلاش کرنے لگا۔ لیکن ناکام رہا۔ صبح ہونے والی تھی۔آخر تھک ہار کر دوبارہ شہزادی کے خیمے میں داخل ہو گیا۔ بچے کی لاش اٹھا کر کہیں دور دفن کیا اور اپنے خیمے میں آ کر گھس گیا۔
صبح بہت دیر کے بعد شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ اپنے مقتول بیٹے کو نہ پا کر رونے لگی۔ لشکر دوبارہ روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے شام تک دوسری منزل پر جا پہنچے۔
خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کرنا شروع کیا۔ شہزادی نے دیکھا کہ وزیر نے آج اپنا خیمہ بہت دور کھڑا کروایا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ خدام ایک اور خیمہ اس کے خیمے کے قریب ایستادہ کر رہے ہیں۔ پوچھا۔" یہ کس کا خیمہ ہے؟" خدام نے جواب دیا کہ وکیل کا خیمہ ہے۔ شہزادی نے وکیل کو بلوایا اور کہا کہ میں ایک عورت ہوں۔ تم اپنا خیمہ میرے خیمے کے قریب سے ہٹوا دو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔" وکیل نے کہا۔" اے ملکہ! بادشاہ سلامت نے مجھے آپ کےساز و سامان کی حفاظت کے لیے آپ کے ہمراہ کر دیا ہے اور پر زور تاکید کی ہے۔ اگر آپ کو یا آپ کے سامان کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔"
شہزادی نے جواباً کہا۔" اتنے جم غفیر کے درمیان مجھے اور میرے سامان کو کوئی قزاق نہیں لے جا سکے گا۔ بہتر یہی ہے کہ تم اپنا خیمہ کہیں دور ایستادہ کر واؤ۔" لیکن بدکردار وکیل ٹس سے مس نہ ہوا۔ اور اپنا خیمہ ادھر ہی ایستادہ کروا دیا۔
شہزادی پہلے سے ہی وزیر کے ہاتھوں مار کھا چکی تھی۔ اس لیے اس رات اپنے پوری ہوش و حواس میں تھی۔ ویسے بھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ آج بھی اس نے آدھی رات کو کسی کے قدموں کی آہٹ اپنے خیمے کی طرف آتے سنی تو مکمل بیدار ہو گئی۔ جب اس نے دیکھا کہ آنے والا وکیل ہے تو اسے للکارا۔"خبردار! میرے خیمے میں داخل ہونے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟ نکل جاؤ خیمے سے۔" لیکن وکیل اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شہزادی نے دوبارہ اسے کہا۔" تم جانتے ہو کہ میں ایک بادشاہ کی بیٹی ہوں اور ایک بادشاہ کی بیوی ہوں۔ ایک پاک دامن عورت ہوں۔ اس لیے میرا پیچھا چھوڑ اور اپنے انجام کی فکر کر۔" لیکن بدکردار وکیل کہاں ٹلنے والا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔ شہزادی سمجھ گئی کہ یہ بد ذات بھی نہیں ٹلنے والا۔ اس نے اپنے دوسرے بیٹے کو اس کے سامنے کیا اور اسے دہائی دی کہ اس معصوم کے سر کی قسم ! میرا پیچھا چھوڑ اور نکل جا یہاں سے۔ لیکن وکیل نے بھی تلوار سے وار کر کے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کر دیا۔ شہزادی نے بیچارگی سے کہا۔" اگر تم اپنے ناپاک ارادوں سے نہیں ٹلنے والا تو مجھے موقع دے۔ کیونکہ میں پاک و صاف اور وضو سے ہوں۔ مجھے کچھ وقت دے تاکہ میں خود کو ناپاک کر دوں۔ اس کے بعد جو تمہارا دل چاہے، کرو۔" وکیل نے اسے جانے دیا ۔ شہزادی خیمے سے نکل گئی۔
آج بھی شہزادی میں جتنی ہمت تھی، نکل بھاگی۔ اور جہاں تک اس کے قدموں نے ساتھ دیا، بھاگی۔ اور آخر کار تھک ہار کر ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے جا کر چھپ گئی۔ وکیل نے جب دیکھا کہ شہزادی ابھی تک نہیں آئی تو اس کے پیچھے نکل پڑا۔
ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر کے اسے بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اب اسے ڈر لگنے لگا کہ بچہ بھی جان سے گیا اور شہزادی بھی بھاگ نکلی۔ اگر کسی نے بادشاہ کو خبر دی تو وہ مجھے کھولتے تیل میں تل دے گا۔ وکیل جلدی جلدی واپس آیا۔ مرے ہوئے بچے کو اٹھا کر کہیں دور دفن کیا اور اپنے خیمے میں جا کر سو تا بن گیا۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
جب صبح پو پھٹی تو شہزادی آہستہ آہستہ اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ دیکھا کہ دوسرے بیٹے کی لاش بھی نہیں ہے۔ سمجھ گئی کہ بدکردار وکیل نے اسے ٹھکانے لگا دیا ہے۔ بیچاری کس پر اعتبار کرتی، اس لیے چپ رہی۔ لشکر پھر شہزادی کے باپ بادشاہ کے ملک کی طرف روانہ ہو گیا۔ آج شہزادی اکیلی ایک بیٹے کے ساتھ غموں کا انبار لیے اونٹ پر سوار تھی۔ جب تیسرے منزل پر پڑاؤ ڈالا گیا تو آج وزیر اور وکیل نے اپنے خیمے شہزادی کے خیمہ سے بہت دور کھڑا کروا دئیے تھے۔ وہ شرمندہ شرمندہ شہزادی کے سامنے آ ہی نہیں رہے تھے۔ حیران و پریشان تھے کہ جب بادشاہ کو پتا چلے گا تو اسے کیا جواب دیں گے؟
آج جیسے ہی شہزادی کا خیمہ کھڑا کر دیا گیا تو دیکھا کہ قاضی صاحب اپنا خیمہ اس کے خیمے کے سامنے ایستادہ کر وا رہا ہے۔ شہزادی نے اسے بھی بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی لیکن قاضی بد ذات بھی ٹلنے والوں میں سے نہیں تھا۔
آج کی رات بھی شہزادی کے لیے قیامت کی رات تھی۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ قاضی بد ذات بھی ان دونوں سے کسی طور کم نہیں۔ آج رات تو شہزادی بالکل بھی نہیں سوئی، بیٹھی رہی۔ جب رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تو دیکھا کہ قاضی بھی خراماں خراماں خیمے میں داخل ہو رہا ہے۔ شہزادی نے اسے بھی بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی۔ بہت منت سماجت کی۔ خدا رسول کے واسطے دئیے۔ یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وزیر وکیل جاہل تھے لیکن تم تو عالم و فاضل انسان ہو۔ لوگوں کو انصاف فراہم کرتے ہو۔ تمہیں ایسی حرکت زیب بھی نہیں دیتی۔ لیکن قاضی بھی پوری طرح شیطان بن چکا تھا۔ اس پہ ان باتوں، منت سماجتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ شہزادی نے دیکھا کہ یہ بھی نہیں ٹلنے والا تو اس خیال سے کہ شاید اس کے دل میں رحم پیدا ہو جائے، اپنے تیسرے سب سے چھوٹے بیٹے کو اس کے سامنے کر دیا۔ اس کی دہائی دی۔ واسطے دئیے لیکن قاضی تو ان دونوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔قاضی بدبخت کو بھی رحم نہ آیا اور معصوم بچے کا سر قلم کر دیا۔ شہزادی نے اسے بھی یہی کہا کہ میں پاک و صاف ہوں۔ وضو سے ہوں ۔ مجھے موقع دو تاکہ اپنا وضو توڑ دوں۔ اس کے بعد جو تم چاہو، کرو۔قاضی نے بھی اسے جانے دیا۔
جیسے ہی شہزادی باہر نکلی، جدھر منہ اٹھا، بھاگ نکلی۔ بھاگتے بھاگتے اچانک اس نے دیکھا کہ آگے ایک بہت بڑا دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے دل میں دھواں بھر گیا، اپنے معصوم بچے یاد آئے۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اگر بادشاہ نے پوچھا کہ بچے کدھر ہیں تو میں اسے کیا جواب دوں گی؟ اس سے بہتر ہے کہ خود کو اس دریا کے حوالے کر دوں۔ یہ فیصلہ کر کے اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ پر شور دریا اسے چکر دے کر کہیں کا کہیں پہنچا کے دوسری طرف نکال لے گیا۔ دوسری طرف چھ فقیر جو کہ بھائی تھے، اپنے کپڑے دریا پر دھونے کے لائے تھے۔ جب دیکھا کہ دریا میں کوئی عورت بہتی ہوئی آ رہی ہے تو پکڑ کر باہر نکال لائے۔
اب شہزادی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کے ہوش و حواس جواب دے گئے کہ کہاں وہ تینوں بد ذات و بدکردار کہ ان سے اپنی عزت بچا کر بھاگ نکلی تو ان چھ ننگ دھڑنگ فقیروں کے ہتھے چڑھ گئی۔ فقیروں میں سے ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ یہ میری ہے۔ آخر صلاح یہی ٹھہری کہ اسے باپ کے پاس لے جائیں گے۔ وہ جس کا کہے، یہ عورت اسی کی ہے۔ وہ شہزادی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ ان کا باپ ایک زیرک اور عقلمند انسان تھا۔ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ کسی شہنشاہ گھرانے کی عورت ہے۔ میرا کوئی بھی بیٹا اس کے لائق نہیں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹوں کو سمجھایا۔" اے میرے بیٹے! تم چھ بھائی ہو۔ تمہاری کوئ بہن نہیں ہے۔ اسے اپنا بہن بنا لو۔ تم چھ بھائی اور ساتویں تمہاری یہ بہن۔ اس کی خوب نگہداشت کرو۔ اس کی برکت سے تم سب سرخرو رہو گے۔" باپ کے فیصلے سے فقیر بہت خوش ہو گئے اور اپنے سے بڑھ کر شہزادی کا خیال رکھنے لگے۔
ان کو چھوڑ، جب بادشاہ چوتھے دن آ کر لشکر سے ملا تو دیکھا وزیر، وکیل اور قاضی اس سے کترا رہے تھے۔ اس کے سامنے شرمسار سے تھے۔ پوچھا میرے بیوی بچے کہاں ہیں؟ تینوں نے یک زبان ہو کر کہا۔" ملکہ تو ایک ڈائن تھی۔ تینوں بچوں کو کھا کر خود بھاگ نکلی۔"
بادشاہ حیران و پریشان ہو گیا کہ یہ کیا بات ہو گئی۔ وہ ان تینوں پر شک میں پڑ گیا۔ لیکن کہا کہ بعد میں دیکھتے ہیں۔ ابھی جس طرف جا رہے ہیں، وہاں جا کے فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔ بادشاہ اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ جا کے اپنے ظالم سسر بادشاہ کو دیکھوں اور اس سے پوچھوں کہ اسے کیوں بیٹیوں سے اتنی نفرت ہے؟ اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے اس کی بیٹی ڈائن بن گئی اور اپنے بچوں تک کو کھا گئی۔ چلتے چلتے انہوں نے ایک بڑے دریا کو پل کے ذریعے پار کیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ادھر شہزادی فقیروں کی بہن بن کر رہنے لگی۔ اسے ادھر ادھر سے سن گن مل گئی اور سمجھ گئی کہ اپنے باپ بادشاہ کے ملک میں پہنچ گئی ہے۔اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو قصہ سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے فقیر بھائیوں سے کہا کہ جا کے بادشاہ کو بتا دو کہ ہماری بہن ایک قصہ گو ہے۔ کیا وہ اسے شاہی قصہ گو کے طور پر ملازمت دے گا یا نہیں۔ فقیروں نے بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کر کے اس کو یہ گوش گزار دیا کہ ہماری ایک بہن ہے جو بہت اچھی قصہ گو ہے۔ اگر اسے پسند ہو تو اسے قصہ سنوانے کے لئے لے کر لائیں۔ بادشاہ نے انہیں اجازت دے دی اور کہا کہ اگر اس کے قصے پسند آئے تو وہ اسے شاہی قصہ گو رکھ دیں گے۔ شام کو فقیر شہزادی کو لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ شہزادی نقاب میں تھی اور درمیان میں بھی پردہ حائل تھا۔ اس نے بادشاہ کے لیے ایک قصہ سنایا جو بادشاہ کو بہت پسند آیا۔ اس نے خوش ہو کر فقیروں کو بہت سا انعام و اکرام دیا۔ فقیر انعام و اکرام لے کر بہن کے ہمراہ واپس گھر آئے۔ وہ پہلے ہی بھیک مانگنے سے بیزار تھے اس لیے بہت خوش تھے۔
شہزادی ہر رات آ کر بادشاہ کو ایک نیا قصہ سناتی۔ بادشاہ سے داد اور انعام و اکرام پا کر واپس اپنے فقیر بھائیوں کے ساتھ گھر لوٹ آتی۔ فقیروں کی جان بھی بھیک مانگنے سے چھوٹ گئی۔ایک رات جب وہ آئی تو دیکھا کہ آج تو اس کا شوہر بادشاہ، وزیر، وکیل، قاضی وغیرہ بھی اس کے باپ بادشاہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ شہزادی نے سوچا آج تو قصہ مزہ کرے گا۔
شہزادی آج بھی ہر روز کی طرح نقاب میں تھی۔ پردے کے دوسری طرف آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ بادشاہ سے کہا۔"بادشاہ سلامت! آج میں ایک بہت خاص داستان سنانے والی ہوں۔ اگر کسی کو کوئی حاجت درپیش ہے تو ابھی سے اٹھ کر رفع حاجت پوری کرے۔ داستان کے درمیان کسی کو اٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی اٹھ گیا تو میں داستان سنانا بند کروں گی اور آئندہ کے لیے بھی کوئی قصہ سنانے نہیں آؤں گی۔"
بادشاہ نے سب کو حکم دیا۔ سب نے اقرار کیا کہ وہ داستان کے درمیان نہیں اٹھیں گے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
شہزادی نے داستان سنانا شروع کی۔" ایک ظالم بادشاہ تھا۔ اسے اپنے گھر میں بیٹی کی پیدائش پسند نہیں تھی۔ جب اس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی تو اپنے بیوی کو اسے مارنے کا حکم دیا۔ اس کے بیوی نے دائی کے ذریعے اپنی بیٹی کو بچا کر اس کی پرورش کی۔ ایک دن اس لڑکی پر بادشاہ کی نظر پڑی جو اب جوان ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے اس بوڑھی دائی کے گھر اپنے لیے رشتہ بھیجا لیکن دائی نے تسلیم نہیں کیا۔ بادشاہ نے اس پر ظلم و ستم ڈھائے تب دائی نے بتایا کہ وہ لڑکی اسی بادشاہ کی بیٹی ہے۔"
بادشاہ حیران ہوا کہ یہ تو میرا قصہ ہے جو یہ خاتون سنا رہی ہے۔ بادشاہ نے بہت سے ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک کر کہا کہ دیکھنا داستان کو بند مت کرنا۔ شہزادی نے ہیرے جواہرات فقیروں کی طرف پھینک دئیے جواسے پا کر بہت خوش ہوئے۔
شہزادی نے داستان جاری رکھتے ہوئے کہا۔" بادشاہ نے بیٹی کو اپنے بیٹے کے حوالے کر کے کہا کہ اسے جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں اور خون نکال کر اسے دکھا دے۔ لیکن بھائی کو اپنے ہاتھوں سے بہن کو قتل کرنا گوارہ نہ ہوا اور اپنی بہن کو جنگل میں چھوڑ کر واپس آیا۔ جنگل میں وہ لڑکی بہت عرصہ رلتی رہی یہاں تک کہ اس کے جسم پر اس کا لباس تار تار ہو کر گر گیا اور وہ جنگل بیابان میں بے لباس وقت گزارنے لگی۔"
بادشاہ عمر رفتہ کے باعث اب بوڑھا ہو گیا تھا۔ اسے پہلے ہی سے اپنے بیٹی کے ساتھ کیے گئے ظلم و ستم سے بہت پشیمانی اور پچھتاوا تھا۔ جب اسے داستان کے ذریعے اپنی بیٹی کے متعلق پتا چلا اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔شہزادے کو بھی احساس ہوا کہ یہ تو میری بہن کا قصہ ہے۔ اس نے بے چین ہو کر کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کے طرف پھینک دئیے اور کہا کہ داستان جاری رکھنا، روکنا مت۔ فقیر بھائیوں کے تو اتنے انعامات دیکھ کر باچھیں کِھل اٹھیں۔
شہزادی نے کہا۔" ایک دن ایک بادشاہ کا گزر اسی جنگل سے ہوا۔ لڑکی کو دیکھا اور اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جا کر اس سے بیاہ رچایا۔" شہزادی کا شوہر بادشاہ جو پہلے بڑی دلچسپی اور انہماک سے داستان سن رہا تھا، چونک پڑا کہ یہ تو میرا اور میری بیوی کا قصہ لگ رہا ہے۔ اس نے بھی بہت سے ہیرے جواہرات نکال کر شہزادی کی طرف پھینک دئیے اور کہا کہ دیکھنا داستان آخیر تک سنانا۔ مجھے اس داستان کو پورا سننا ہے۔ فقیر بھائیوں کے تو پیر خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔
شہزادی نے داستان جاری رکھی۔" بادشاہ نے اس لڑکی سے شادی کی۔ اس سے اسے تین بیٹے ہوئے۔ ایک دن بادشاہ نے اسے ان کے بیٹوں کے ساتھ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کے ہمراہ اس کے سسرال روانہ کیا۔"
اب وزیر، وکیل اور قاضی کے اوسان خطا ہو گئے اور ایک دوسرے کی طرف سراسیمگی سے دیکھنے لگے کہ یہ تو ہمارا قصہ ہے۔ بادشاہ نے کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک دئیے۔فقیر بھائیوں کی باچھیں خوشی سے کھلی جا رہی تھیں۔
"پہلی منزل پر بادشاہ کا وزیر ناپاک ارادے سے اس کی طرف بڑھا اور اسے بدی کے لیے تنگ کیا۔ اس کے بڑے بیٹے کا سر تن سے جدا کیا۔ لیکن لڑکی کسی طرح اپنی عزت بچا کے بھاگ نکلی۔"
وزیر منمنایا۔" مجھے بہت زور کا پیشاب لگا ہے۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔"
بادشاہ نے اسے ڈانٹ دیا۔" خاموشی سے بیٹھ بد ذات کہیں کے۔ اسی وقت تمہیں کیوں پیشاب آ رہا ہے؟" وزیر چپ کر کے بیٹھ گیا۔
"دوسرے منزل پر اسی طرح وکیل بھی اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ لڑکی کو بدی کے لیے تنگ کیا اور اپنے ناپاک عزائم پورا کرنے کے لیے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کرنے سے بھی باز نہ آیا۔ پر پاک دامن لڑکی نے یہاں بھی اپنی عزت بچائی اور بھاگ کر کہیں چھپ گئی۔"
اب وکیل ہکلایا۔" بادشاہ سلامت ! مجھے زور کی حاجت پیش آئی ہے۔ بس میں یوں گیا اور یوں آیا۔"
بادشاہ نے وکیل پر آنکھیں نکالا۔" بس کر بد ذات، اور خاموشی سے بیٹھ۔ جب حقیقت ظاہر ہو رہی ہے تو تم لوگوں کو حاجت پیش آ رہی ہے۔" وکیل بھی خاموشی سے بیٹھ گیا۔
"تیسرے منزل پر قاضی بھی اللہ رسول کو بھول کر بدی کے لیے لڑکی کو تنگ کرنے لگا اور اس ظالم نے اس کے تیسرے بیٹے کا سر قلم کیا۔ لڑکی نے پھر اپنی عزت بچائی۔ اور بھاگ کر ایک بڑے دریا میں کود گئی۔"
قاضی نے بھی کوئی بہانہ بنانے کی کوشش کی لیکن بادشاہ نے اسے بھی ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔
"دریا نے لڑکی کو کہیں دور لے جا کر دوسری طرف پھینک دیا جہاں اسے چھ فقیروں نے دیکھا اور اسے دریا سے نکالا۔" اب فقیر بھائیوں کی گھگھی بند ہو گئی کہ ہو نہ ہو یہ ہماری بہن کا قصہ ہے۔ وہ بھی چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔
"فقیر اس لڑکی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ اس کے عقلمند باپ نے اس لڑکی کو ان چھ بھائیوں کی بہن بنا دیا۔"
اس کے باپ بادشاہ کے آنکھوں سے جھل جھل آنسو بہہ رہے تھے۔ دونوں بادشاہوں نے ہیرے جواہرات کے ڈھیر ان کے سامنے لگا دئیے کہ خدارا داستان کو جاری رکھو۔
" لڑکی کو کسی طرح پتا چلا کہ یہ اس کے باپ بادشاہ کا ملک ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو داستان سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے بھائیوں کے ذریعے بادشاہ کو کہلوا بھیجا کہ اگر اسے منظور ہو تو آ کے اسے داستان سنائے۔"
یہاں پہنچ کر اس کے باپ بادشاہ کا دل چُور چُور ہو گیا۔ وہ ایک فریاد مار کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔ شہزادی نے بھی اپنے چہرے سے نقاب اٹھا دی تو اس کے شوہر بادشاہ نے بھی شہزادی کو پہچان لیا۔ باپ، بیٹی کو اور شوہر، بیوی کو پا کر بے طرح خوش ہو گئے۔
دونوں نے وزیر، وکیل اور قاضی کو پکڑا۔ ان سے کہا کہ بول کیسی سزا چاہیے۔ چار چڑی چابک یا چار بٹور (یہ براہوی زبان میں دو سخت سزاؤں کے نام ہیں)۔ انہوں نے کہا کہ چار بٹور۔ بادشاہ نے بارہ گھوڑے منگوائے۔ ہر ایک کے ہاتھ پیر چار گھوڑوں سے چار اطراف میں باندھ کر انہیں چار مخالف سمت میں دوڑا دیا۔ جن سے ان کے جسم ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ اسی طرح ان بد ذاتوں کو ان کے کیے کی سزا مل گئی اور شہزادی کا باپ اپنی بیٹی اور اس کا شوہر اپنی بیوی کو پا کر بہت خوش تھے۔ اور ہنسی خوشی سے رہنے لگے۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب داستان ہے
بہت شکریہ محترم ذوالقرنین بھائی
یہ " چار چڑی چابک " کیا سزا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بہت خوب داستان ہے
بہت شکریہ محترم ذوالقرنین بھائی
یہ " چار چڑی چابک " کیا سزا ہوتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
شکریہ نایاب بھائی!
میری معلومات کے مطابق "چار چِڑی چابک" ایک انتہائی پتلا چابک یا چھڑی کوڑا ہوتا ہے جو گوشت تک میں اتر جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی میں تفصیلاً معلوم کرکے یہاں شیئر کروں گا۔:)
 

نیلم

محفلین
بہت ہی زبردست داستان تھی بہت شکریہ بھائی شریک محفل کرنے کا
بےشک جتنی بھی مشکلیں ہو ایک دن ختم ہوجاتی ہیں :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بمطابق وعدہ پوری داستاں پڑھ لی۔
اور بہت لطف آیا۔ بہت عمدہ داستاں ہے زبردست :)
ویسے بادشاہ ہرن کی آنکھیں دیکھ کر ہی مان گیا۔ یہ کمال کر دیا بادشاہ نے :)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بمطابق وعدہ پوری داستاں پڑھ لی۔
اور بہت لطف آیا۔ بہت عمدہ داستاں ہے زبردست :)
ویسے بادشاہ ہرن کی آنکھیں دیکھ کر ہی مان گیا۔ یہ کمال کر دیا بادشاہ نے :)
شکریہ نین بھائی!
اگر بادشاہوں میں اتنی عقل ہوتی تو عقلمند وزیر نہیں رکھتے۔:):):)
 
بہت ہی زبردست۔ شہزادی بڑی دلیر نکلی اتنی ظلم سہی اکیلا پن اور گھر سے دوری۔ مجھے تو غصہ ان تین پہ آرہا ہے جنہوں نے شہزادی کے بچوں کو قتل کیا۔
 
Top