برائے اصلاح

ام اویس

محفلین
مجھے درد اپنا لفظوں میں بتانا بھی نہیں آتا
جو دل میں ہو اسے دل میں چھپانا بھی نہیں آتا

بڑاہی صاف لہجہ ہے جو کہنا ہو سو کہتی ہوں
بناوٹ بھی نہیں آتی بنانا بھی نہیں آتا

یہ آنکھیں گرچھلک جائیں جھکائی بھی نہیں جاتی
کسی کی تیر نظروں کو جھکانا بھی نہیں آتا

میں نفرت کر نہیں سکتی محبت کرنی آتی ہے
کسی کو دام الفت میں الجھانا بھی نہیں آتا

جو ناطہ توڑ لے مجھ سے میں اس کو چھوڑ دیتی ہوں
عجب عادت ہے بچھڑوں کو منانا بھی نہیں آتا

میں بچتی ہوں تکلف سے ریا کاری نہیں آتی
ریاکاروں سے دامن کو چھڑانا بھی نہیں آتا

تعلق ٹوٹ جائے نا میں کچھ کہنے سے ڈرتی ہوں
مگر نزہت سے رشتوں کو نبھانا بھی نہیں آتا
 
Top