بدعنوانی کا خاتمہ کیسے ممکن؟

پاکستان کے بڑ ے مسائل میں سے بدعنوانی اور دہشت گردی ہیں۔
دہشتگردی کے لئے تو پاکستان کی کوششیں انتہائی کامیاب ہیں اور الحمداللہ ہماری فوج نے دہشت گردی کے نیٹ ورک کی حیرانکن نتائج کے ساتھ کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہماری ان کوششوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے اور دشمن انگشت بدنداں ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہمارا فوج کا ادارہ عالمی سطح پر ایک کنسلٹیٹو کا درجہ رکھتاہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔
مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے ہم کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر پائے بلکہ مختلف اداروں جیسے کہ عدلیہ اور بزات خودحکومت کے ریمارکس کے مطابق حالت انتائی مایوس کن ہے۔
آپ سب سے گزارش ہے کہ اس فورمپر، علم اور تجربہ کی بنیاد پر اپنی اپنی آراء سے مستفید فرمائیں۔ممکن ہے ہماری یہ چھوٹی سی کوشش اس ضمن میں مددگار ثابت ہو۔
 

آوازِ دوست

محفلین
قبلہ ڈاکٹر صاحب آپ کی کاوش قابلِ تعریف ہے کہ آپ قومی مسائل کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں ورنہ حالات تو یہ ہیں کہ ایسےمسائل پر لاحاصل کُڑھنے کی حد ختم ہونے بعد اب لطائف کے ذریعےمتعلقہ اداروں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ میں ایک طالب علم ہوں سو میری رائے کوئی حرفِ آخر نہیں بلکہ رائے بھی کیا بس کُچھ پریشان خیالیاں ہیں جو آپ احباب سے شئیر کر سکتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے۔ یہاں شخصیات اور ادارے طاقتور ہیں اور قانون کمزور ایسے میں ہم اپنے اطراف جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کی صورتِ حال ہر قدم باآسانی دیکھ سکتے ہیں ۔ یہاں چونکہ خود قانون ہی بے آبرو ہے تو موقع اور مفاد پرست شخصیات اور اداروں میں عزت، خودداری، ملی غیرت اور خود احتسابی جیسی ضروری خصوصیات کیسے پیدا ہوں۔ آج کلمے کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کی عملی شکل کُچھ یوں ہے کہ آپ شیطانیت کے ننگے راج میں ہونے والے کسی بھی بڑے سے بڑے روح فرسا جُرم کا تصور کر لیں وہ جُرم آپ کو پوری آب و تاب کے ساتھ ارضِ پاک میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی پر ملے گا۔ یہاں بے حمیتی اس عروج پر ہے کہ کسی بڑے سے بڑے سانحے کا بھی کوئی ذمہ دار نہیں ملتا۔ پاکستان دو لخت ہو گیا مگر ہمارے عملی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظوں کی آن بان میں کوئی کمی نہ آئی بلکہ وہ خود کو اس باقیماندہ ٹکڑے کے پہلے سے زیادہ اہم محافظ قرار دیتے ہیں۔ یہاں قانون ایک سنگین مذاق ہے اور موجودہ حالات میں اس کی حکمرانی محض دیوانے کا خواب ہے۔ جب تک یہاں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی ہم خود کو باوقار قوموں کی صف میں آخری درجے پر بھی نہیں لا سکتے۔ ہم اپنی جھوٹی کامیابیوں کے طومار و پرچار سے اپنی جاہل، غریب اور مصیبت زدہ عوام کو جتنا مرضی دھوکہ دیتے رہیں باقی ساری دنیا کو ایک ساتھ بیوقوف بنانا ممکن نہیں ہے۔ سو اگر کوئی یہ کہے کہ ہمارے آزمودہ چورن فروشوں کے زورِ بیاں سے پرانے کینسر کا روگ کٹ گیا ہے تو یہ اُسی کی سمجھ میں آنے والی بات ہوگی۔ نا اُمیدی کفر ہے سو اُمید کرتے ہیں کہ ایک دن عوام اپنے اجتماعی شعور کو حرکت میں لا کر اندھیروں سے روشنیوں کے سفر کی طرف ضرور گامزن ہوں گے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دراصل جو ہمارے کرتا دھرتا ہیں وہی اصل مجرم بھی ہیں۔ اب بھلا دودھ کی نگرانی پر بلی کو لگا کر کیا ملنا ہے۔

عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں لیکن صرف سیاسی اداکاروں کے بیانات کی حد تک۔ ورنہ عوام کا حال موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا سا ہے اور حضرتِ موسیٰ کی طرح کا کوئی شخص موجود نہیں کہ جو عوام کو قبطیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائے۔

سیاست میں مخلص لوگ ناپید ہیں کہ سیاست میں داخلے کی شرائط ہی ایسی ہیں کہ شریف طبع اور بے زر لوگ اس دھارے میں شامل ہو ہی نہیں ہو سکتے۔

اب اگر ہم کہیں کہ کسی مخلص ڈکٹیٹر کا ڈنڈا ہی معاملات کو درست کر سکتا ہے تو لوگوں کے پیٹ میں جمہوریت کے مروڑ اُٹھنا شروع ہو جائیں گے حالانکہ جمہوریت کے ثمرات سے ہم برسوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔

یہ اگر انتظام ہے ساقی
پھر تو اپنا سلام ہے ساقی
 

آوازِ دوست

محفلین
احمد بھائی میں امریکہ کی مثال دوں گا کہ حکمران چاہے گورا ہو یا کالا، پالیسیاں سابقہ پالیسیوں سے ہم آہنگ ہو یا متصادم اگر قانون کی حکمرانی ہے تو کوئی طرم خاں باؤلا پن نہیں دکھا سکتا ۔ پاکستان میں دانشوروں اور ادیبوں کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی ایک لمبی اور جاں کسل تاریخ ہے۔ اگر قانون موجود ہے اس کا نفاذ غائب تو کیا جمہوریت کیا ڈکٹیٹر شپ سب کچرے کا ڈھیر ہے اسی کچرے کا جس میں ہم لت پت ہیں کہ قومی زندگی کے ستر برس کا کوئی نصف ڈنڈے والے کھا گئے تو باقی نصف ڈنڈی والوں نے ملیامیٹ کردیے۔ ہمیں قانون کے نفاذ پر اصرار کرنا ہوگا۔ اختیار والے ہی اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں کہ وہ اس گلستاں میں شُتر بے مہار ہی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ اختیار والے وردی میں بھی ہیں اور شیروانی میں بھی، سوٹ میں بھی ہیں اور شلوار قمیض میں بھی ان کی وضع قطع میں جتنا بھی فرق ہو ایک بنیادی مرض انہیں ایک لڑی میں پروئے رکھتا ہے اور وہ ہے مالِ حرام کی بھوک نہ مٹنے کا مرض۔ یہ پیٹ سے سوچنے والے ہر شعبے اور ہر روپ میں موجود ہیں۔ یہ انسانیت خور گدھ ہر لطیف احساس سے محروم ہیں اور اپنے مذموم اور ادنٰی مقاصد پانے کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ اگر قانون سب کے لیے یکساں ہے تو مجھے فرق نہیں پڑتا کہ حکومت میرا دشمن بنائے گا یا میرا دوست ۔ نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی۔اس قوم نے کئی مہم جو جھیلے ہیں جو ڈھنگ سے اپنا کام کرنے کے بھی اہل نہ تھے مگر اپنی پوزیشن کا فائدہ اُٹھا کر قوم کی گردن پر سوار ہو گئے۔ جنہوں نے کبھی اسلام پسندی کے نام پر اپنی سوچ کا تعفن پھیلایا اور اسلام کو قتل و غارت گری کے معنی پہنا دیے تو کسی نے روشن خیالی کا نعرہ لگایا اور ذرا دیر پہلے کے بنائے ہوئے اسلام پسند اس کھلی بے شرمی کے نئے تجربے کی تیز آنچ سے بھرے مجموں میں پھٹنے لگے۔
آپ پاکستانی جمہویت اور آمریت کے موازنوں کے بچگانہ کھیل میں کیسے اُلجھ سکتے ہیں۔ اس " سی سا " پر جھولے لینے کے لیےنو آموز طالب علم کافی ہیں۔ آیئے ہم کتاب کے اگلے صفحے کا جائزہ لیں ہم دیکھتے ہیں کہ کیا مناسب قانون سازی اور پھر اس قانون کی حکمرانی ہمارے اکثر و بیشتر مسائل کا حل ہے یا نہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آیئے ہم کتاب کے اگلے صفحے کا جائزہ لیں ہم دیکھتے ہیں کہ کیا مناسب قانون سازی اور پھر اس قانون کی حکمرانی ہمارے اکثر و بیشتر مسائل کا حل ہے یا نہیں۔

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

اگر انتخابی اصلاحات نہیں ہوتیں اورکوئی تہی دست شخص اس نظام کے تحت منتخب نہیں ہو پاتا تب تک یہ سب باتیں بے کار ہیں۔

جو شخص کروڑوں روپے خرچ کرکے قانون دانی کرے گا اُس کی ترجیحات کیا ہوں گی یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔

ہماری عدالتوں کے بارے میں بھی اگر کسی کو کوئی غلط فہمی تھی بھی تو پانامہ فیصلے کے بعد رفع ہو جانی چاہیے۔

ڈنڈا ضروری ہے نظام درست کرنے کے لئے، اُس کے بعد شوق سے جمہوریت کی ناز برداریاں کرتے رہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
روٹی کپڑا مکان جیسے فرسودہ اور بدلے ہوئے یا نئے پاکستان کے مبہم وعدوں کے تعاقب کی بجائے عوام اپنی بنیادی ترجیحات طے کرے اور اسی کو فالو کرنے والے لوگ لیڈر شپ کا حصہ بنیں یہ تو ہیں کُچھ بنیادی خدوخال ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انتخابات اہم ہیں اور منصفانہ انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات اہم ہیں۔ تو میرا اور آپ کا مشترکہ نعرہ کہ انتخابی اصلاحات تشکیل دی جائیں۔ البتہ آپ کی ڈنڈے والی بات سے متفق ہونے میں مجھے یہ تامل ہے کہ ہم بارہا اس سوراخ سے ڈسے جا چُکے ہیں اب اس دائرے کے سفر سے نکل آئیں تو بہتر ہے۔ ہم سے بہتر لوگ ڈکٹیٹر شپ کو بطور ایک سیاسی حل کے مسترد کرتے آئے ہیں اور لاقانونیت ہو تو کسی فرشتے کو بھی حکمران بنانے سے مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہماری بدقسمتیوں کے علمبردار یہ سیاستدان کروڑوں لگا کر اربوں سمیٹتے ہیں اور اپنا اصل مقصد قانون سازی فراموش کیے رکھتے ہیں۔ ان کے اجلاس گھٹیا قسم کے سٹیج ڈراموں کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں اگر آپ مجھے اس جمہوریت کا وکیل سمجھ رہے ہیں تو غلط سمجھ رہے ہیں۔ ظالمو انتخابی اصلاحات تشکیل دو۔
خود احتسابی اور استعفے کی روایت سے ناآشنا پاکستانی سیاسی کرتا دھرتاؤں کے نام ایک شعر: کُرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کر کُچھ نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے
 
سب سے پہلے تو میں آپ دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے دلچسپی لیتے ہوئے وقت نکالا اور اپنی قیمتی آراء سے مستفید کیا۔
آپ دونوں دوستوں کی آراء بہت وزنی ہیں۔ مگر ہمیں دیکھنا یہ ہو گا کہ کون سی ترکیب ممکنات کے قریب ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون کی حکمرانی ہی حل ہے مگر ساتھ ہی آپ نے اداروں کے نا اہل ہونے کی طرف اشارہ کر دیا تو پھر وہی سوال ابھرے گا کہ قانون پر عمل درآمد کروائے گا کون،؟
لہذا ایسے حالات میں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے؟
تو یہاں پر میں احمد بھائی سے اتفاق کروںگا اور یقیناؑ آرمی ہمارا ایسا ادارہ ہے جس کی نہ نیت پہ اور نہ تربیت پر شک کیا جا سکتا ہے۔ان کے اندر نہ کوئی تعصب ہے اور نہ کوئی ملک و قوم سے محبت میں کمی۔
میں تو کہوں گا
اگر ہوسکے تو ایک دفعہ پھر اس بے بسی کے عالم میں ہی سہی:
ایسا بل لایا جائے جس کے تحت ترمیم کے زریعے، دہشت گردی کے خاطمے کے لئے جیسے فوجی عدالتیں بنائی گئی ہیں، کی طرز پر فوجی عدالتوں کو بد عنوانی کے خاطمے کے اختیارات دیے جائیں۔ اس طرح سے اس بد عنوانی کی لعنت سے بھی چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
 
سیاست کے موضوع پہ ایک اچھی لڑی ہے ۔
ورنہ عوام کا حال موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا سا ہے اور حضرتِ موسیٰ کی طرح کا کوئی شخص موجود نہیں کہ جو عوام کو قبطیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائے۔
بھیا میرا تو سب سے پہلے اس بات سے اختلاف ہے کہ عوام مظلوم ہیں ۔ عوام خود ظالم ہیں۔ دوسروں پہ بھی ظلم کرتے ہیں اور خود پہ بھی ۔ رمضان کی آمد سے پیشتر ہی پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان چھونا شروع کر دیتی ہیں ۔ یہ قیمتیں حکومت یا ریاستی ادارے نہیں بڑھاتے ۔ ہم عوام بڑھاتے ہیں ۔ ایک کسان سے لے کر چھابڑی فروش تک اور گودام کے مالک سے لے کر گلی میں جا کے سبزی بیچنے والے تک ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا لُوٹا جا سکتا ہے لُو ٹ لو ۔اس لُوٹ مار میں ہم عوام خود سب سے آگے ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔
اگر یہاں یہ کہا جائے کہ چونکہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے اس لیے سب کچھ ہو رہا ہے تو آپ قانون کی حُکمرانی کر کے دیکھ لیں جن کے خون میں حرام کی کمائی کی ملاوٹ ہو چکی ہے وہ حرام کھانے سے کبھی باز نہیں آئیں گے ۔
ڈنڈا ضروری ہے نظام درست کرنے کے لئے
آپ اپنے بچوں کی تربیت صرف ڈنڈے سے کیوں نہیں کرتے اگر ہر چیز کا علاج ڈنڈے میں ہی ہے تو ؟؟؟؟
تو یہاں پر میں احمد بھائی سے اتفاق کروںگا اور یقیناؑ آرمی ہمارا ایسا ادارہ ہے جس کی نہ نیت پہ اور نہ تربیت پر شک کیا جا سکتا ہے۔ان کے اندر نہ کوئی تعصب ہے اور نہ کوئی ملک و قوم سے محبت میں کمی۔
جناب اس وقت سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا لٹھ لے کر آرمی کے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ انہوں نے ن لیگ کی حمایت کیوں کی ۔ حتیٰ کہ ایک عام بندہ بھی جس کا تعلق کسی بھی اپوزیشن پارٹی سے ہے وہ فوج کے بارے میں اپنی زبان کھولنے سے باز نہیں آتا ۔
اور ایک آخری بات ۔ اگر فوج ہی اس ملک کا سب سے مخلص ادارہ ہے تو بہت سی چیزوں کو اُس کے انجام تک پہنچانے کی بجائے جان بوجھ کے بیچ رستے میں کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں سے پھر چیزیں ریورس ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ وہ چاہے کراچی آپریشن ہو ، ایم کیو ایم کا کیس ہو ، ڈا کٹر عاصم کا یا کوئی بھی ۔ ؟؟
 

فرقان احمد

محفلین
دوست احباب نے اچھے نکات اٹھائے ۔۔۔ ذاتی طور پر میری رائے یہ ہے ۔۔۔!!!

1۔ ریاستی اداروں، خاص طور پر عدلیہ اور فوج کو کو حتی المقدور غیر جانب دار رہنا چاہیے۔ اگر یہ ادارے متنازعہ ہو جائیں تو ریاستی ڈھانچہ نہایت بری طرح متاثر ہوتا ہے اور بے یقینی کے بادل مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔ سیاست، سیاست دانوں کا کام ہے، چاہے وہ جیسے تیسے بھی کیوں نہ ہوں۔ یہ بھی دیکھ لیجیے کہ عسکریوں کی مداخلت کے باعث ایسے سیاست دان سامنے آئے ہیں؛ اگر یہ مداخلت نہ ہوتی تو معاملات غالباً مختلف ہوتے۔
2۔ معاشرے میں یک لخت بڑی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی؛ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ اصلاحی تحریکوں اور شعور بیداری کے مراحؒل سے گزر کر ہی ہم بڑی تبدیلی کی طرف بڑھ سکیں گے؛ یوں بھی معاملات بہتری کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں، تاہم آہستہ روی کے ساتھ۔ بدعنوانی کا مکمل خاتمہ شاید نہ ہو پائے، اس میں کمی واقع ہو رہی ہے اور ہوتی چلی جائے گی۔

یعنی کہ تدریج اور اعراض کے رویوں میں بھلائی پوشیدہ ہے، اگر کوئی سمجھے!
 
ماشاء اللہ، تمام دوستوں کی سوچ انتہائی اعلیٰ ہے۔ اور یہ بات بلکل ٹھیک ہے کہ ارتقاء کا عمل آہستہ ہوتا ہے اور وقت لگتا ہے مگر منزل پر پہنچنے کے لئے دیر سے بھی تب ہی پہنچا جا سکتا ہے جب صحیح سمت میں گامزن ہوں۔
یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ پوری قوم کاہی برا حال ہے، کہ ہر کوئی لوٹنے میں لگا ہوا ہے۔ کہ اور چیف جسٹس سے لے کر وزیر اعظم اور سی این سی تک سب ہمارے اپنے ہی ہیں۔میں تو شروع سے بات کرتا ہوں کی نظام نہیں سماج کو بدلیں کیونکہ اصل سرچشمہ طاقت عوام ہی ہوتے ہیں۔
میں نے فوج کو حکومت دینے کی بات نہیں کی بلکہ بحثیت ایک ادارے کے ان کی کارکرفگی کی بات کی ہے۔ اور اس پر آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ مین میڈ ڈیزاسٹر ہو یا قدرتی آ فات ہوں قوم کی مدد کو ایک یہی ادارہ پہنچتا ہے۔ یہی ادارہ پاکستان کے لئے بائنڈنگ فورس ہے وگرنا یہ ہمارے سیاستدان اپنا ایک ایک ملک بھی علیحدہ بنا چکے ہوتے اس لئے میں نے عرض کیا تھا کہ موجودہ حالات میں بدعنوانی کے خاتمے کا شائد واحد حل فوج ہی ہے۔
آپ کی باتیں بالکل ٹھیک ہیں فیکٹس یہی ہیں مگر ہمارے آرگیومنٹس کا فوکس مسائل سے زیادہ ان کا حل ہونا چاہیے ایسا حل جو ممکن بھی دکھائی دیتا ہو۔
آپ لوگوں سے بات کرکے مزا آرہا ہے۔ شکریہ
 

زیک

مسافر

زیک

مسافر
اب اگر ہم کہیں کہ کسی مخلص ڈکٹیٹر کا ڈنڈا ہی معاملات کو درست کر سکتا ہے تو لوگوں کے پیٹ میں جمہوریت کے مروڑ اُٹھنا شروع ہو جائیں گے حالانکہ جمہوریت کے ثمرات سے ہم برسوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
تیس سال تو فوجی ڈکٹیٹر بھی ٹرائی کئے کیسا رہا ان کا نظام ٹھیک کرنا؟
 

زیک

مسافر
جہاں تک سیاست میں پیسے کا معاملہ ہے اس وقت میرے کانگریس مین کے سپیشل الیکشن کی مہم جاری ہے اور یہ امریکی تاریخ میں مہنگا ترین کانگریشنل الیکشن بن چکا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں عام لوگ دونوں امیدواروں کے لئے رضاکارانہ کام کر رہے ہیں
 
محترم آپ تاریخ کی بات کرتے ہیں۔میں اتفاق کرتا ہوں شائد آپ نے سیاق و سباق کو نہیں لیا۔ میں نے وضاحت بھی کی ہے کہ میں موجودہ حالات میں ان کے بحثیت ایک ادارے کے کردار کی بات کی ہے۔ مثلاؑ جس طر ح سے انہوں دہشت گردی پر قابو پایا ہے۔ میں نے اس وقت بھی فوجی عدالتوں کی اہمیت پر لکھا تھا اور پارلیمان نے دہشت گردی کے خاتمے کا حل فوجی عدالتیں ہی سمجھیں اور بعد میں توثیق بھی دی، بے بسی کے عالم میں ہی سہی ۔
آئین ہی سپریم ہونا چاہیے
 
بھیا میرا تو سب سے پہلے اس بات سے اختلاف ہے کہ عوام مظلوم ہیں ۔ عوام خود ظالم ہیں۔ دوسروں پہ بھی ظلم کرتے ہیں اور خود پہ بھی ۔ رمضان کی آمد سے پیشتر ہی پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان چھونا شروع کر دیتی ہیں ۔ یہ قیمتیں حکومت یا ریاستی ادارے نہیں بڑھاتے ۔ ہم عوام بڑھاتے ہیں ۔ ایک کسان سے لے کر چھابڑی فروش تک اور گودام کے مالک سے لے کر گلی میں جا کے سبزی بیچنے والے تک ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا لُوٹا جا سکتا ہے لُو ٹ لو ۔اس لُوٹ مار میں ہم عوام خود سب سے آگے ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔
اگر یہاں یہ کہا جائے کہ چونکہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے اس لیے سب کچھ ہو رہا ہے تو آپ قانون کی حُکمرانی کر کے دیکھ لیں جن کے خون میں حرام کی کمائی کی ملاوٹ ہو چکی ہے وہ حرام کھانے سے کبھی باز نہیں آئیں گے ۔
اس سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ کہ دین کے وارث لوگوں میں دین کا پیغام پہنچانے میں ناکام رہے یا ان میں وہ تاثیر نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی....
بہترین نظام یقینا جزا و سزا کا ہے جس کا سبق اسلام دیتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ...
1. ایک عالم خود کو عام آدمی سے برتر سمجھتا ہے اور اسکے ہر اچھے برے عمل پر عوام اس کا ساتھ دے کیونکہ وہ اسلام کا علمبردار ہے اس لیے قانون سے بھی مبرا ہے...
2. ایک سیاستدان خود کو عام آدمی سے بر تر سمجھتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہی سب کا کرتا دھرتا ہے اس لیے یہ شخصیات بھی قانون سے مبرا ہیں....
3. ان دونوں کو دیکھتے ہوئے عام آدمی کیوں پیچھے رہے.... کیونکہ ہر آدمی سمجھتا ہے وہ دوسرے سے برتر ہے "لاٹھی اور بھینس" والی مثال کے تحت.....
اس سب صورتحال میں قانون بنانے والے شکاری ہیں جن میں عالم حضرات اور سیاستدان شامل ہیں اور قانون میں پھنسنے والے شکار ہیں جن میں صرف وہ طبقہ شامل ہے جس کے پاس "لاٹھی" نہیں.......
ان سب کا حل صرف اور صرف انصاف میں چھپا ہے یعنی جزا و سزا میں..... جب معاشرے میں سے سزا کا خوف نکل جاتا ہےتو قیمتیں بڑھانا تو ایک طرف ایک "انسان" اپنے خدا ہونے کا دعوی کرنے سے نہیں گھبراتا...... اور جب معاشرے سے جزا کا عنصر نکل جاتا ہے تو معاشرہ میں شرافت اور عزت کے معیار بدل جاتے ہیں....
مسئلہ پھر وہیں کا وہیں.... انصاف کون کرے گا؟ انصاف کو بسند کون کرے گا؟ ایک عالم جب اپنی ذات کے لیے انصاف پسند نہیں کرتا کرتا تو سیاستدان اور عوام تو دین کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں.....
کہا جاتا ہے کہ "جیسے عوام ویسے حکمران" اور یہ بات ہمیشہ ایک عام انسان کو تصور میں لاتے ہوئے کہی جاتی ہے لیکن کیا "عالم" حضرات اس سے مبرا ہیں؟ ہرگز نہیں.... وہ بھی اسی خانے میں فٹ ہوتے ہیں..... اگر یوں کہا جائے کہ "جیسے عالم ویسا معاشرہ" اور "جیسا معاشرہ ویسے حکمران" تو پہلی مثال کا مفہوم صحیح سمجھ میں آتا ہے....
نوٹ: یہاں عالم سے مراد وہ طبقہ ہے جو دین کو اپنی دکان چمکانے کے لیے استعمال کرتا ہے....
وہ فوج کے بارے میں اپنی زبان کھولنے سے باز نہیں آتا ۔
"فوج" اور "عالم" وہ طبقہ ہے جس نے جمہوریت کو مضبوط ہونے ہی نہیں دیا.... ایسا ممکن نہیں کہ ایک دن جمہوریت آئے اور اگلے ہی دن بہترین نظام ہو جائے..... اس کا اندازہ مغربی جمہوریت سے کر لیجیے کہ وہاں جمہوریت سٹیبل کرنے میں کتنا وقت لگا... بلکہ اس بات سے کر لیجیے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام کو سٹیبل کرنے کے لیے تبلیغ میں کتنا وقت لگایا اور قربانیاں دیں..... اس کے بعد پاکستان کی تاریخ اٹھا لیجیے 1947 سے کہ جمہوریت کتنی سٹیبل رہی ہے فوج اور "عالم" حضرات کے ہاتھوں..... یقینا سیاستدان بھی چور ہیں لیکن جیسے جیسے نظام چلتا رہے گا ایسے چور خود بخود فلٹر ہوتے جائیں گے.....
 
آخری تدوین:
اس سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ کہ دین کے وارث لوگوں میں دین کا پیغام پہنچانے میں ناکام رہے یا ان میں وہ تاثیر نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی....
بہترین نظام یقینا جزا و سزا کا ہے جس کا سبق اسلام دیتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ...
1. ایک عالم خود کو عام آدمی سے برتر سمجھتا ہے اور اسکے ہر اچھے برے عمل پر عوام اس کا ساتھ دے کیونکہ وہ اسلام کا علمبردار ہے اس لیے قانون سے بھی مبرا ہے...
2. ایک سیاستدان خود کو عام آدمی سے بر تر سمجھتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہی سب کا کرتا دھرتا ہے اس لیے یہ شخصیات بھی قانون سے مبرا ہیں....
3. ان دونوں کو دیکھتے ہوئے عام آدمی کیوں پیچھے رہے.... کیونکہ ہر آدمی سمجھتا ہے وہ دوسرے سے برتر ہے "لاٹھی اور بھینس" والی مثال کے تحت.....
اس سب صورتحال میں قانون بنانے والے شکاری ہیں جن میں عالم حضرات اور سیاستدان شامل ہیں اور قانون میں پھنسنے والے شکار ہیں جن میں صرف وہ طبقہ شامل ہے جس کے پاس "لاٹھی" نہیں.......
ان سب کا حل صرف اور صرف انصاف میں چھپا ہے یعنی جزا و سزا میں..... جب معاشرے میں سے سزا کا خوف نکل جاتا ہےتو قیمتیں بڑھانا تو ایک طرف ایک "انسان" اپنے خدا ہونے کا دعوی کرنے سے نہیں گھبراتا...... اور جب معاشرے سے جزا کا عنصر نکل جاتا ہے تو معاشرہ میں شرافت اور عزت کے معیار بدل جاتے ہیں....
مسئلہ پھر وہیں کا وہیں.... انصاف کون کرے گا؟ انصاف کو بسند کون کرے گا؟ ایک عالم جب اپنی ذات کے لیے انصاف پسند نہیں کرتا کرتا تو سیاستدان اور عوام تو دین کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں.....
کہا جاتا ہے کہ "جیسے عوام ویسے حکمران" اور یہ بات ہمیشہ ایک عام انسان کو تصور میں لاتے ہوئے کہی جاتی ہے لیکن کیا "عالم" حضرات اس سے مبرا ہیں؟ ہرگز نہیں.... وہ بھی اسی خانے میں فٹ ہوتے ہیں..... اگر یوں کہا جائے کہ "جیسے عالم ویسا معاشرہ" اور "جیسا معاشرہ ویسے حکمران" تو پہلی مثال کا مفہوم صحیح سمجھ میں آتا ہے....
نوٹ: یہاں عالم سے مراد وہ طبقہ ہے جو دین کو اپنی دکان چمکانے کے لیے استعمال کرتا ہے....
"فوج" اور "عالم" وہ طبقہ ہے جس نے جمہوریت کو مضبوط ہونے ہی نہیں دیا.... ایسا ممکن نہیں کہ ایک دن جمہوریت آئے اور اگلے ہی دن بہترین نظام ہو جائے..... اس کا اندازہ مغربی جمہوریت سے کر لیجیے کہ وہاں جمہوریت سٹیبل کرنے میں کتنا وقت لگا... بلکہ اس بات سے کر لیجیے کہ حضور پاک نے اسلام کو سٹیبل کرنے کے لیے تبلیغ میں کتنا وقت لگایا اور قربانیاں دیں..... اس کے بعد پاکستان کی تاریخ اٹھا لیجیے 1947 سے کہ جمہوریت کتنی سٹیبل رہی ہے فوج اور "عالم" حضرات کے ہاتھوں..... یقینا سیاستدان بھی چور ہیں لیکن جیسے جیسے نظام چلتا رہے گا ایسے چور خود بخود فلٹر ہوتے جائیں گے.....
محترم آپکی بات ٹھیک ہے These are all facts لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین کا علم صرف مولوی پر فرض ہے؟
ایک دفعہ ایسے ہی ایک محفل میں بیٹھے تھے تو حالات حاضرہ پر بات چل پڑی۔ یک بعد دیگرے سب فیکٹس کی بات ہوتی رہی۔جیسا کہ ہماری عادت ہے کہ ہم تنقید کو اپناحق سمجھتے اور ساری ذمہ داریاں دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔
میں نے عرض کی کہ آپ کی باتیں سب ٹھیک ہیں لیکن اس کا حل کیا ہے؟
جھٹ بولے نفاذ شریعت
میں نے کہا کیا اس ملک میں شرعیت پر عمل کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ بھی حائل ہے؟ یہ ملک بنا ہی اسلام کے نام پر تھا ہمارے آئین میں بھی لکھا ہے کہ کوئی بھی قانون شرعیت سے مترادف نہیں بنایا جا سکتا۔
ہم سب نفاذ شرعیت کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر اپنے چھ فٹ کے جسم پر نافذ کرنے پر بے بس ہیں اور قصور وار مولوی۔
شیطان نے ایسا سبق پڑھایا ہوا ہے کہ خود جو بھی کرو سب جائز ہے بس دوسروں کو رگڑالگاتے جاؤ
 
اس سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ کہ دین کے وارث لوگوں میں دین کا پیغام پہنچانے میں ناکام رہے یا ان میں وہ تاثیر نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی....
بہترین نظام یقینا جزا و سزا کا ہے جس کا سبق اسلام دیتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ...
1. ایک عالم خود کو عام آدمی سے برتر سمجھتا ہے اور اسکے ہر اچھے برے عمل پر عوام اس کا ساتھ دے کیونکہ وہ اسلام کا علمبردار ہے اس لیے قانون سے بھی مبرا ہے...
2. ایک سیاستدان خود کو عام آدمی سے بر تر سمجھتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہی سب کا کرتا دھرتا ہے اس لیے یہ شخصیات بھی قانون سے مبرا ہیں....
3. ان دونوں کو دیکھتے ہوئے عام آدمی کیوں پیچھے رہے.... کیونکہ ہر آدمی سمجھتا ہے وہ دوسرے سے برتر ہے "لاٹھی اور بھینس" والی مثال کے تحت.....
اس سب صورتحال میں قانون بنانے والے شکاری ہیں جن میں عالم حضرات اور سیاستدان شامل ہیں اور قانون میں پھنسنے والے شکار ہیں جن میں صرف وہ طبقہ شامل ہے جس کے پاس "لاٹھی" نہیں.......
ان سب کا حل صرف اور صرف انصاف میں چھپا ہے یعنی جزا و سزا میں..... جب معاشرے میں سے سزا کا خوف نکل جاتا ہےتو قیمتیں بڑھانا تو ایک طرف ایک "انسان" اپنے خدا ہونے کا دعوی کرنے سے نہیں گھبراتا...... اور جب معاشرے سے جزا کا عنصر نکل جاتا ہے تو معاشرہ میں شرافت اور عزت کے معیار بدل جاتے ہیں....
مسئلہ پھر وہیں کا وہیں.... انصاف کون کرے گا؟ انصاف کو بسند کون کرے گا؟ ایک عالم جب اپنی ذات کے لیے انصاف پسند نہیں کرتا کرتا تو سیاستدان اور عوام تو دین کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں.....
کہا جاتا ہے کہ "جیسے عوام ویسے حکمران" اور یہ بات ہمیشہ ایک عام انسان کو تصور میں لاتے ہوئے کہی جاتی ہے لیکن کیا "عالم" حضرات اس سے مبرا ہیں؟ ہرگز نہیں.... وہ بھی اسی خانے میں فٹ ہوتے ہیں..... اگر یوں کہا جائے کہ "جیسے عالم ویسا معاشرہ" اور "جیسا معاشرہ ویسے حکمران" تو پہلی مثال کا مفہوم صحیح سمجھ میں آتا ہے....
نوٹ: یہاں عالم سے مراد وہ طبقہ ہے جو دین کو اپنی دکان چمکانے کے لیے استعمال کرتا ہے....
"فوج" اور "عالم" وہ طبقہ ہے جس نے جمہوریت کو مضبوط ہونے ہی نہیں دیا.... ایسا ممکن نہیں کہ ایک دن جمہوریت آئے اور اگلے ہی دن بہترین نظام ہو جائے..... اس کا اندازہ مغربی جمہوریت سے کر لیجیے کہ وہاں جمہوریت سٹیبل کرنے میں کتنا وقت لگا... بلکہ اس بات سے کر لیجیے کہ حضور پاک نے اسلام کو سٹیبل کرنے کے لیے تبلیغ میں کتنا وقت لگایا اور قربانیاں دیں..... اس کے بعد پاکستان کی تاریخ اٹھا لیجیے 1947 سے کہ جمہوریت کتنی سٹیبل رہی ہے فوج اور "عالم" حضرات کے ہاتھوں..... یقینا سیاستدان بھی چور ہیں لیکن جیسے جیسے نظام چلتا رہے گا ایسے چور خود بخود فلٹر ہوتے جائیں گے.....
محترم آپکی بات ٹھیک ہے These are all facts لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین کا علم صرف مولوی پر فرض ہے؟
ایک دفعہ ایسے ہی ایک محفل میں بیٹھے تھے تو حالات حاضرہ پر بات چل پڑی۔ یک بعد دیگرے سب فیکٹس کی بات ہوتی رہی۔جیسا کہ ہماری عادت ہے کہ ہم تنقید کو اپناحق سمجھتے اور ساری ذمہ داریاں دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔
میں نے عرض کی کہ آپ کی باتیں سب ٹھیک ہیں لیکن اس کا حل کیا ہے؟
جھٹ بولے نفاذ شریعت
میں نے کہا کیا اس ملک میں شرعیت پر عمل کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ بھی حائل ہے؟ یہ ملک بنا ہی اسلام کے نام پر تھا ہمارے آئین میں بھی لکھا ہے کہ کوئی بھی قانون شرعیت سے مترادف نہیں بنایا جا سکتا۔
ہم سب نفاذ شرعیت کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر اپنے چھ فٹ کے جسم پر نافذ کرنے پر بے بس ہیں اور قصور وار مولوی۔
شیطان نے ایسا سبق پڑھایا ہوا ہے کہ خود جو بھی کرو سب جائز ہے بس دوسروں کو رگڑالگاتے جاؤ
 
محترم آپکی بات ٹھیک ہے These are all facts لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین کا علم صرف مولوی پر فرض ہے؟
ایک دفعہ ایسے ہی ایک محفل میں بیٹھے تھے تو حالات حاضرہ پر بات چل پڑی۔ یک بعد دیگرے سب فیکٹس کی بات ہوتی رہی۔جیسا کہ ہماری عادت ہے کہ ہم تنقید کو اپناحق سمجھتے اور ساری ذمہ داریاں دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔
میں نے عرض کی کہ آپ کی باتیں سب ٹھیک ہیں لیکن اس کا حل کیا ہے؟
جھٹ بولے نفاذ شریعت
میں نے کہا کیا اس ملک میں شرعیت پر عمل کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ بھی حائل ہے؟ یہ ملک بنا ہی اسلام کے نام پر تھا ہمارے آئین میں بھی لکھا ہے کہ کوئی بھی قانون شرعیت سے مترادف نہیں بنایا جا سکتا۔
ہم سب نفاذ شرعیت کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر اپنے چھ فٹ کے جسم پر نافذ کرنے پر بے بس ہیں اور قصور وار مولوی۔
شیطان نے ایسا سبق پڑھایا ہوا ہے کہ خود جو بھی کرو سب جائز ہے بس دوسروں کو رگڑالگاتے جاؤ
قصور وار "مولوی" ہرگز نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جس نے دین کا استعمال صرف اپنی روزی روٹی تک محدود رکھا ہے.... جس نے حیا صرف عورت ذات تک محدود کر دی ہے..... جس نے علم صرف "مولوی" تک محدود کر دیا ہے..... جس نے حق صرف مردوں تک محدود کر دیا ہے..... جس نے "مرد عورت سے افضل" کا مطلب صرف اپنے فائدے تک محدود کر دیا ہے لیکن....
اگر آپ غور کریں تو.....
1. جس کے پاس علم ہے وہ دوسروں تک صحیح معنی میں پہنچائے نا کہ اپنی روزی روٹی تک محدود رکھے، لوگوں کے مطلب کی بات کر کے اپنا مطلب نکالے.... اپنی سیاست کے لیے استعمال نہ کرے.... تو بنیادی طور پر ایک عالم ہی علم بانٹتا ہے اور وہ اس وقت تک صحیح ہے جب اسے اپنی ذات سے زیادہ اپنے معاشرے کی فکر ہو.....
2. تالی یقینا ایک ہاتھ سے نہیں بجتی.... لوگوں میں بھی یہ بیداری ہو کون انہیں گمراہ کر رہا ہے اور کون انہیں راہ راست پہ لانا چاہ رہا ہے.... ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں لیکن بہت کم.... اس لیے قران پاک میں بار ہا اکثرھم کا صیغہ برے لوگوں کی طرف استعمال کیا گیا ہے "مگر بہت کم" ان لوگوں کے لیے جو راہ راست پر ہیں.... دوسری بات ایسے کم لوگ ہمیشہ ہر دور میں ان لوگوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں جو دین کو دکان کے طور پر استعمال کرتے ہیں.... اس لیے جلد یا بدیر ان کو اسلام کا نام "استعمال" کر کے "راہ سے ہٹا" دیا جاتا ہے.....

رہی بات شریعت کے نفاذ کی.... حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو....
1. کیا شریعت نبوت کے اعلان کے فورا بعد معاشرے پر آ گئی ؟؟؟
2. کیا عوام کو ٹھیک کرنے کے لیے سچے، مخلص اور ایماندار عالم کا ہونا ضروری نہیں؟؟؟
عوام پر تاثیر تب جاتی ہے جب عالم کے قول و فعل میں خود تضاد نہ ہو..... صحیح علم ایک صحیح عالم ہی اپنے معاشرے میں بانٹ سکتا ہے.....
پھر وہی بات دہراؤں گا جزا و سزا معاشرے کے پھلنے پھولنے کے لیے لازمی ہے اور کوئی بھی شخص اس سے مبرا نہیں ہے.... قومیں تو ہوتی ہی گمراہ آئی ہیں اس لیے ہر دور میں نبی آیا ہے.... چونکہ اب نبوت کا سلسلہ بند ہے معاشرے کی تربیت کس کے ذمہ ہے یا کس نے اس کا بیڑا اٹھایا ہے..... ذرا غور کریں.....
 
آخری تدوین:
Top