بحری جہاد کی فضیلت کا بیان

آٹھواں باب
بحری جہاد کی فضیلت کا بیان

٭ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ملحان کے گھر جایا کرتے تھے وہ آپ کو کھلایا پلایا کرتی تھیں [کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ ہونے کی وجہ سے محرم تھیں ] حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عبادہ بن صامت کی اہلیہ تھیں ایک بار پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کی صفائی کرنے لگیں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آگئی پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا۔ اے اللہ تعالیٰ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم )آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )کے ہنسنے کی کیا وجہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے ارشاد فرمایا :مجھے میری امت کے کچھ لو گ دکھائے گئے جو سمندر میں اس طرح سے سوار ہو کر جہاد کریں گے جس طرح بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھے ہیں۔ ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )دعاء فرمادیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں شامل فرمائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعاء فرمادی پھر آ پ نے سر مبارک [بستر پر] رکھا اورسوگئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا اے اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کس [چیز کی خوشی ]نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )کو ہنسایا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جیسی بات فرمائی کہ مجھے میری امت کے کچھ لوگ سمندر میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے۔ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم )میرے لئے دعا ء فرمادیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں شامل فرمائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم پہلے [لشکر]والوں میں سے ہو۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا بحری جہاد میں تشریف لے گئیں مگر سمندر سے نکلنے کے بعد اپنی سواری سے گر کر انتقال فرماگئیں ۔(بخاری ۔مسلم)

٭ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میری امت کے اس پہلے لشکر کے لئے جنت واجب ہوگئی جو سمندر میں جہاد کریں گے ۔ حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول [ کیا ] میں ان میں سے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:[ہاں ] تم ان میں سے ہو۔ وہ فرماتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت کے اس لشکر کے لئے جنت واجب ہوگئی جو قیصر [روم ] کے شہر پر حملہ آور ہو گا۔ میں نے عرض کیا۔ اے اللہ تعالیٰ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) [کیا ] میں ان میں سے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :نہیں۔(بخاری)

مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سمندر میں سب سے پہلے جہاد کاآغاز حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں فرمایا۔یہی علامہ فریا بی وغیرہ کی تحقیق ہے اورحضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبر ص میں جہاد کے لئے مامور ہوئے تو ان کی اہلیہ حضرت ام حرام رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی ان کے ساتھ تشریف لے گئیں ۔وہاں پر وہ اپنے خچر سے گر کر انتقال فرماگئیں ۔ بعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ قبرص کے لوگ ان کی قبر پر جاکر اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعاء کیا کرتے تھے۔پھر امیر المؤمنین سلیمان بن عبدالملک نے حضرت مسلمہ بن عبدالملک رحمہ اللہ کو قسطنطنیہ پر حملے کے لئے بھیجا اوران کے لئے ایک بہت بڑا بری اوربحری لشکر تیار فرمایا اہل شام اوراہل جزیرہ میں سے ایک لاکھ بیس ہزار کا بری لشکر ساتھ ہوا جبکہ مصراور مغرب والو نے ایک ہزار کشتیوں کا بحری بیڑہ عمر بن ہبیرہ رحمہ اللہ کی کمان میں روانہ کیا ۔ مسلمہ بن عبدالملک کی قیادت میں اس لشکر نے قسطنطنیہ کا تیس ماہ تک محاصرہ کیا ۔یہاں تک کہ اہل لشکر بھوک سے تنگ آکر مر دار اورناپاک چیزیں کھانے پر مجبور ہوگئے حالانکہ مجاہدین کی چھاؤنی میں گندم کے ڈھیر پہاڑ کی طرح بلند تھے مگر انہیں اس لئے رکھ دیا گیا تھا تاکہ رومی خوفزدہ رہیں اور یہ سمجھیں کہ اسلامی لشکر کے پاس وافر مقدار میں سامان خورد ونوش موجود ہے جب حضرت عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ بنے تو انہوں نے اس لشکر کو واپسی کی اجازت دے دی [یعنیٰ اس حملے میں قسطنطنیہ فتح نہیں ہوا اس کی فتح بہت عرصے کے بعد ہوئی]

اے اللہ کے بندو ! یاد رکھو کہ خشکی پر جہاد کرنے کی بنسبت سمندر میں جہاد کرنے کے زیادہ فضائل ہیں ان میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ سمندر کی لڑائی خشکی کی دس لڑائیوں سے افضل ہے۔

٭ حضرت عبد اللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیا ن فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اس شخص کا ایک حج جس نے حج [ فرض ] اداء نہ کیا ہو [جہاد کی ] دس لڑائیوں سے بہتر ہے اور اس شخص کا ایک لڑائی میں حصہ لینا جس نے حج [ فرض ] اداء کر لیا ہو۔ دس حج کرنے سے بہتر ہے اورسمندر کی ایک لڑائی خشکی کی دس لڑائیوں سے افضل ہے اور جس نے سمندر کو عبور کیا گویا کہ اس نے تمام وادیوں کو عبور کرلیا[یعنیٰ تمام وادیا ں عبور کرنے کااجر پالیا ] اورسمندر میں [جہا د کے دوران ]قئے کرنے والا [ اجر میں ] خون میں لت پت ہونے والے جیسا ہے۔( مجمع الزوائد ۔ السنن الکبریٰ۔المستدرک)

[اس مضمون کی احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے ]
٭حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سمند ر میں جسے چکر اور قئے آجائے اسے ایک شہید کا اجر ملتا ہے اور جو اس میں ڈوب جائے اسے دوشہیدوں کا اجر ملتاہے۔((ابوداؤد)

٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر میں مرد ہوتی تو پھر صرف سمندر ہی میں جہاد کرتی رہتی ۔کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جسے سمندر میں قئے آجائے [اجر وثواب میں ] خشکی پر اپنے خون میں لت پت ہونے والے جیسا ہے۔ (کتاب السنن )

سمندری جہاد کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس میں شہید ہونے والے بری جہاد کے شہدا ء سے افضل ہیں۔ مصنف فرماتے ہیں کہ جب سمندر میں چکر اورقئے آنے پر بری شہید کے برابراجر ملتا ہے تو پھر سمندر میں شہید ہونے والے کا کیا ہی اونچا مقام ہو گا؟

٭حضرت کعب الاحباررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے ۔سمندر میں جہاد کرنے والے کوخشکی میں جہاد کرنے والے پر کئی فضیلتیں ہیں :
( 1 )جب وہ اپناپاؤ ں سمندر میں [کسی سواری پر] اللہ تعالیٰ سے اجر کی امیدمیں رکھتا ہے تو اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں پھر اگر وہ قتل کردیا جاتا ہے یا ڈوب جاتا ہے تواسے وہ شہیدوں کا اجر ملتاہے۔
( 2 ) اورجب سے وہ سمندر میں سوا ر ہوتا ہے اس وقت سے لوٹنے تک اسے گردن کٹوانے والے خون میں لت پت شہید کا اجر ملتا رہتا ہے۔
( 3 ) اور سمندرمیں ایک دن خشکی کے ایک مہنیے سے اور اس کا ایک مہینہ خشکی کے ایک سال سے [اجر میں بہتر ہے]۔(کتاب السنن ورجالہ رجال الصحیح )

سمندری جہاد میں شرکت کرنے والے کے لئے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ روایات میں اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرنے والوں جیسا بتا یا گیا ہے۔
٭حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو میرے ساتھ جہاد کرنے سے محروم رہا اسے چاہئے کہ سمندر میں جہاد کرے۔( الطبرانی فی الاوسط ۔مجمع الزوائد)

٭حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :سمندر میں ایک بار جہاد کرنا میرے ساتھ پچاس بار جہاد کرنے جیسا ہے اورجس نے سمندر میں جہاد کیا پھر واپس اس [سمندی جہاد] کی طرف لوٹ کر آیا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پکار پر لبیک کہنے والے جیسا ہے۔(ابن عساکر وھذامراسل غریب)

٭حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے سمندر میں اللہ تعالیٰ کے راستے کی ایک لڑائی میں حصہ لیا ۔۔۔۔اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کون اسکے راستے ہیں ہے۔۔۔۔تواس نے نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کاحق اداء کردیا اور اس نے جنت کو ہر طریقے سے پالیا اوردوزخ سے ہر طریقے سے بچ گیا۔ ( ابن عساکر)

سمندر میں جہاد کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ روایا ت میں آیا ہے کہ سمندر میں جہاد کرنے والے کو خشکی پر جہاد کرنے والے پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی خشکی میں جہاد کرنے والے کواپنے اہل ومال میں بیٹھنے والے پر ۔۔(الطبرانی۔فی الکبیر)

سمندر میں جہاد کرنے والوں کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ ان کی فضیلت اورمقام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی ارواح کو خود قبض فرماتا ہے جبکہ دوسرے شہدا ء کی ارواح ملک المو ت قبض کرتے ہیں۔
٭حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے روحوں کو قبض کرنے کے لئے موت کے فرشتے کو مقررفرمایا ہے مگر سمندر کے شہیدا ء کی ارواح کو وہ خو د قبض فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ خشکی پر شہید ہونے والے مجاہد کے سارے گنا ہ بخش دیتا ہے سوائے قرض کے جبکہ سمندر کے شہید کے قرضے سمیت سارے گناہ معاف فرمادیتاہے۔(ابن ماجہ۔ ضعیف)

سمندر میں جہاد کرنے والوں کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ ان کے ایک دن کا اجر خشکی پر جہا د کرنے والوں کے ایک مہینے کے اجر جیسا ہے ۔ اس بارے میں حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت پہلے گزر چکی ہے۔اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ:
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس نے میرے ساتھ [مل کر] جہاد نہ کیا ہوا سے چاہیے کہ سمندر میں جہاد کرے ۔بیشک سمندر کے ایک دن کا اجر خشکی کے ایک ماہ کے اجر جیسا ہے۔(مصنف عبدالرزاق)
سمندر میں جہاد کی ایک اورفضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے افضل شہداء وہ ہیں جن کی سواریاں سمندر میں الٹ جاتی ہیں اور وہ ڈوب جاتے ہیں اس بارے میں حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت گزر چکی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:کہ سمندرمیں ڈوبنے والے کو دوشہیدوں کو اجر ملتا ہے ۔ اسی طرح ایک اورروایت میں آیا ہے کہ :
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین شہداء اصحاب الاکف ہیں عرض کیا گیا کہ اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب الاکف کون ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ لوگ جن کی سواریاں سمندر میں ان پر الٹ جاتی ہیں۔(کتاب الجہاد لابن مبارک)

سمندر میں جہاد کرنے والوں کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ انہیں قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ کا کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔
٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں نے [ خواب میں ] اپنی امت کے کچھ لوگوں کو سمندر میں جہاد کرتے ہوئے دیکھا ۔ ان لوگوں کو قیا مت کے دن کی بڑی گھبراہٹ غم میں نہیں ڈالے گی۔(شفاء الصدور ۔ابن ماجہ)
ایک صحیح حدیث سے جو آگے آنے والی ہے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص جہاد میں پہرے داری کرتے ہوئے انتقال کرے گا اسے قیامت کی بڑی گھبراہٹ سے امن نصیب ہو جائے گا چونکہ سمندر کاغازی زیادہ افضل ہے اس لئے وہ اس فضیلت کا زیادہ مستحق ہے۔
سمندر میں جہاد کرنے والوں کی ایک فضیلت یہ ہے کہ روایات کے مطابق انہیں ہر دو موجوں پر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں پوری دنیا طے کرنے کا اجر ملتاہے۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص سمندر میں جہاد کیلئے سوار ہوا۔ اسے ہر دو موجوں کے درمیان اتنا اجر ملے گا گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں پوری دنیا طے کرلی ہو۔( شفاء الصدور)

سمندر میں جہاد کرنے والوں کی ایک اورفضیلت کا بیا ن ذیل کی روایت میں ہے۔
٭حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی اپنا ایک قدم [جہاد کے لئے] کشتی میں رکھتاہے تو اس کے سارے گناہ اس کے پیچھے رہ جاتے ہیں اور وہ ایسے [پاک] ہوجاتا ہے جیسے پیداہوتے وقت [گناہوں سے ]پاک تھا اورسمندر میں جسے چکر اورقئے آئیں وہ دوران جہاد خون میں لت پت ہونے والے جیسا ہے۔ اوراس میں صبر کرنے والااس بادشاہ کی طرح ہے جس کی سر پر تاج ہو۔( کتاب السنن لسعید بن منصور باسناد جید موقوفا)
حی المعافری رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اسکندریہ کے مینار کے پاس بیٹھے تھے اس وقت [مجاہدین کی]کچھ کشیتاں دشمن کی طرف روانہ ہوئیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے مسلمہ ان لوگوں کے گناہ کہاں ہیں؟مسلمہ نے عرض کیا ان کے گناہ انہیں کی گردنوں پر ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاہر گز نہیں ۔قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ان کے گناہ ان کے پیچھے رہ گئے ہیں سوائے قر ض کے۔(الاوسط لامام ابو بکر بن المنذر)
٭ حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمندر کے مجاہدین پر چند مقامات پر [خوشی اوررضاسے ] ہنستاہے:
( 1 ) جب وہ اپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر کشتی میں آکر بیٹھتا ہے۔ ( 2 ) جب اسے کشتی میں چکر آتے ہیں۔( 3 ) جب وہ خشکی کی طرف آتا ہے اورخشکی کو دیکھتاہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ موقوباسناد جید)

سمندر کے جہاد کی ایک اور فضیلت کا بیان اس حدیث میں ہے جس میںحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سمندر کے شہید کو شہادت کے وقت ایسا لگتا ہے جیسے ٹھنڈے پانی کے ساتھ شہید پی رہا ہے اور خشکی کے شہید کو شہادت کے وقت ایسا لگتا ہے جیسے چیونٹی نے کاٹا ہو ۔(شفاء الصدور)

٭یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سمندر کا شہید اپنے ستر پڑوسیوں کی شفاعت کرے گا یہاں تک کہ اس کے پڑوسی قیامت کے دن آپس میں جھگڑیں گے اور ان میں سے ہر ایک زیادہ قریبی پڑوسی ہونے کا دعویٰ کرے گا (شفاء الصدور)
٭حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک سمندر میں جہاد کرنا اللہ کے راستے میں مقبول سونے کا ڈھیر خرچ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک۔مصنف ابن ابی شیبہ)

خیثمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ طرابلس میں عاصم نامی ایک شخص رہتے تھے ان کے انتقال کے بعد میں نے انہیں خواب میں دیکھا تو ان کا حال پوچھا ۔انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ کی وسیع رحمت اور بلند جنتوں میں ہوں ۔میں نے پوچھا کس عمل کی بدولت۔فرمایا سمندر میں زیادہ جہاد کی وجہ سے ۔
قاضی ابوبکر بن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا یقین اور توکل اور اعتماد اللہ تعالیٰ پر بڑھ جائے اور اس کا دل گواہی دینے لگے کہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور اسباب کی بے وقعتی اس کے سامنے آ جائے تو اسے چاہئے کہ سمندر میں[جہاد کے لئے]سوار ہو۔
علامہ ابن قدمہ حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سمندر میں جہاد کی ا فضلیت کی وجہ یہ ہے کہ سمندری سفر خطرات اور مشقتوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اس میں جہاد کرنے والے کو دشمن کے ساتھ ساتھ سمندر میں ڈوبنے کابھی خطرا رہتاہے۔اور وہ جنگ سے اکیلا بھاگ بھی نہیںسکتا۔ (ا لمغنی لابن قدامہ)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احادیث میں سمندری جہاد کی فضیلت کے بیان کے بعد اب اس میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سمندر میں سکون کی حالت میں جہاد اور حج کے لئے سفر جائز ہے لیکن اگر سمندر میں طوفان ہو اور سلامتی کا امکان نہ ہو توپھر یہ سفر جائزنہیںرہتا۔

٭ابو عمران الجونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم فارس میں تھے اور زہیر بن عبداللہ ہمارے امیر تھے انہوں نے ایک شخص کو ایسی چھت پر [سوئے ہوئے] دیکھا جس کے ارد گرد کوئی دیوار نہیں تھی انہوں نے مجھے فرمایا کیا آپ نے اس بارے کوئی روایت سنی ہے میں نے کہا نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک شخص نے بیان کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس شخص نے کسی ایسی چھت پر رات گزاری جس پر کوئی دیوار یا آڑ نہ ہو تومیں ایسے شخص سے بری الذمہ ہوں اور جو شخص سمندر میں طوفان کے وقت سوار ہوا تو میں اس سے بری الزمہ ہوں(رواہاحمدالمسندمرفوعاوموقوفا)

فصل
مجاہد کے سمندر کی طرف دیکھنے اور تکبیر کہنے کی فضیلت

٭ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص سمندر میں جہاد اجر و ثواب اور مسلمانوں کے دفاع کی نیت سے [سواری پر] بیٹھا تو اللہ تعالیٰ سمندر کے ہر قطرے کے بدلے اسے ایک نیکی عطاء فرماتے ہیں ۔ (الطبرانی۔ مجمع الزوائد)

٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح سویرے خیبر پر حملہ کیا اور وہ لوگ [اپنے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے ]کدالیں لے کر نکل رہے تھے جب انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے اپنے قلعوں میں چلے گئے اور کہنے لگے محمد اور ان کا لشکر آگیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھا یا اور آپ نے تین بار اللہ اکبر کہا اور پھر فرمایا خیبر تباہ برباد ہوگیا ہے بے شک جب ہم کسی قوم پر چڑھائی کرتے ہیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو جاتی ہے ۔(بخاری ۔مسلم )
٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تین آوازوں پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں
( 1 ) آذان
( 2 )جہاد میں تکبیر [یعنی اللہ اکبر] کہنا
( 3 ) [حج کے] تلبیہ[لبیک کہنے میں ] آواز کو بلند کرنا (ابن عساکر)

حکایت ! حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃوالسلام ایک قبر پر سے گزرے اس قبر والے پر عذاب ہو رہا تھا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اتنا سخت عذاب دیکھا تو انہیں ترس آیا اسی دوران اچانک اس قبر پر رحمت نازل ہونے لگی اور قبر نور سے بھر گئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس سے ماجرا پوچھا تو وہ کہنے لگا میرا بھائی اللہ کے راستے میں پہرے داری میں مصروف ہے اس نے میری طرف سے [جہاد میں ] ایک بار اللہ اکبر کہا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اور عذاب سے نکال دیا ۔
حکایت !ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میرا ایک بھتیجا تھا جوگناہ گار تھا ایک بار وہ بیمار ہو گیا تو اس نے مجھے رات کو ملاقات کے لئے بلوایا میں جب اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ دو کالے فرشتے اس کے قریب آ چکے ہیں یہ دیکھ کر میں نے انا ﷲو انا الیہ راجعون پڑھی اور کہا میرا بھتیجا تباہ ہو گیا ۔ اچانک دو سفید فرشتوں نے روشن دان سے جھانک کر دیکھا اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم اس[مریض] کے پاس جاؤ ۔ جب وہ فرشتہ اتراء تو کالے فرشتے ایک طرف ہٹ گئے اس سفید فرشتے نے آکر پہلے اس کا منہ سونگھا اور کہنے لگا میں اس میں ذکر اللہ نہیں پاتا ۔ پھر پیٹ سونگھا اور کہنے لگا میں اس میں رزوے نہیں پاتا ۔ پھر اس کے دونوں پاؤں سونگھے اور کہنے لگا میں نماز نہیں پاتا پھر وہ مایوس لوٹا اور اس کی زبان کو سونگھا اور کہنے لگا اللہ اکبر میں نے اس کی زبان میں پایا ہے کہ اس نے انطا کیہ میں اللہ کی رضا کے لئے جہاد میں ایک بار اللہ اکبر کہا تھا ۔ چنانچہ اسی فرشتے نے اس کی روح نکالی اور گھر میں مشک کی خوشبو مہکنے لگی ۔ (ابو عبدالرحمن السلمی فی کتاب الحقائق فی الرقائق)
فائدہ : حضرت حسین رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میری امت کے لئے سمندر میں ڈوبنے سے امان یہ ہے کہ وہ یہ[ آیات ]پڑھ لیا کریں
(1 ) بسم اللہ مجرھا ومرسھا ان ربی لغفور رحیم (ھود 41 )
(۲) وما قدرو اللہ حق قدرہ والارض جمیعا قبضتہ یوم القیمہ والسموت مطویات بیمینہ۔سبحانہ وتعالیٰ عما یشرکون۔ (الزمر۔ 67)

[ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندری لڑائیوں کی پیشین گوئی اور سمندری جہاد کی فضیلت اس وقت بیا ن فرمائی تھی جب مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اور پوری دنیا کے سمندر کافروں کے قبضے میں تھے ۔ لیکن حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مبارک فرمانوں کے اپنے سینوں میں بسالیا تھا چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مبارک زمانے میں مسلمان غازیوں نے سمندروں پر کمند ڈالی اور پھر سمندر بھی ان کے قدموں تلے سمٹتے چلے گئے۔ اور سمندر کے شور پر تکبیر کے نعرے غالب آنے لگے ۔ حضور کرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ سمندروں پر قبضہ کئے بغیر دنیا میں اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند نہیں کیا جا سکتا اور نہ سمندروں میں امن قائم کئے بغیرانسانیت کو وافر روزی مل سکتی ہے اور نہ سمندری خزانوں کے بغیر کوئی مضبوط اور عالمگیر حکومت چل سکتی ہے ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندری جہاد کے اس قدر فضائل بیان فرمائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد اسلاف امت نے ان فضائل کو حاصل کر نے کے لئے ایسی بے مثال قربانیاں دیں اور ایسے عظیم الشان کارنامے سر انجام دیئے کہ سمندر کا سینہ ان کے لئے کھلتا چلا گیا اور سمندر نے اپنے خزانے ان کے قدموں پر ڈال دیئے اور اللہ کے ان بندوں نے زمین کی طرح سمندروں میں بھی امن قائم کیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی انہوں نے بلند مقامات حاصل کئے اور وہ تمام فضائل ان کا مقدر بنے جو حضور اکرم ؑ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے غازیوں کے لئے بیان فرمائے ہیں ۔ مگر پھر جب مسلمانوں سے خلافت کا تاج چھین لیا گیا اور بد اعمالیوں اور دشمنوں کی سازشوں نے مسلمانوں کو جہاد سے محروم کر دیا اور مسلمان ایک امت کی طرح رہنے کی بجائے قوموں ، قبیلوں اور زبانوں میں بٹ کر رہ گئے تو خشکی کی طرح سمندر سے بھی ان کا رعب اور دبدبہ اٹھ گیا ۔ چنانچہ آج دنیاکے تمام گرم سمندر امریکی ، برطانوی ،فرانسیسی ، اسرائیلی بحری بیڑوں اور آبدوزوں کی دسترس میں ہیں ۔ سمندر کا جو علاقہ مسلمانوں کے پاس ہے وہ بھی محفوظ نہیں ہے بلکہ اس کے سینے پر صلیب کا خنجر گاڑا جا چکا ہے سمندری جہاد کے فضائل تو مسلمانوں کی کتابوں میں ہیں مگر سمندر سے میزائل بھی مسلمانوں پر داغے جا رہے ہیں ۔ امریکی جہاز ان سمندروں میں نہایت امن کے ساتھ بدامنی پھیلاتے پھر رہے ہیں اور جب چاہتے ہیں افغانستان ، سوڈان ،عراق اور مسلمانوں کے دوسرے علاقوں پر میزائل داغتے ہیں ۔ اور اب انہیں یہ خطرہ نہیں ہے کہ محمد شاہ فاتح کی طرح کوئی مسلمان خشکی پر اپنا بحری بیڑہ چلاتا ہوا سمندوں میں اترے گا اور قسطنطین کی باقیات کو ان سمندروں میں غرق کر دے گا کیونکہ محمد شاہ فاتح تو انتقال کر چکے ہیں اور اب مسلمانوں کا اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو نہ اسلام کو جانتے ہیں اور نہ جہاد کو پہچانتے ہیں وہ اللہ کی بجائے راتوں کو چھپ کر کافروں کو سجدے کرتے ہیں اور سمندر میں جہاد تو در کنار مسلمانوں کے سمندر کافروں کو بیچتے جارہے ہیں ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
آج بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ سمندری جہاد کے فضائل مسلمانوں کو ترقی ،نجات اور کامیابی کا راستہ بتارہے ہیں ۔ آج اگرچہ سمندر میں جہاد ہمارے لئے کافی مشکل ہو چکا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ جہاد آسان کب تھا؟حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو صحراؤں کے باسی تھے مگر وہ ان فضائل اور ان کے پیچھے چھپی ہوئی کامیابی کو حاصل کرنے کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک باتوں پر یقین کرتے ہوئے سمندروں میں کود پڑے تو آسمان سے نصرت نازل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پوری دنیا کے بحر وبر پر چھا گئے ۔ آج اگر سمندروں میں بڑے بڑے بحری بیڑے پھر رہے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی رومیوں کے بحری بیڑے چھوٹے اور کمزور نہیں تھے بلکہ تلواروں کے اس دور کی بجائے بارود کے اس دور میں مسلمانوں کے لئے زیادہ سہولت موجود ہے کیونکہ آج سمندر میں چلنے والا ہر بحری بیڑہ ، بحری جہاز اور آبدوزیں اپنا تباہی کا سامان اپنے اوپر لاد کر نکلتی ہیں ۔ بس ضرورت تو جانبازی اور سر فروشی کی ہے آج مسلمانوں کو سمندر کی کالی نیلی خوفناک لہروں کی بجائے سمندر میں شہادت کی لذت کو سوچنا چاہئے ۔ کیونکہ ہم نے پڑھ لیا ہے کہ سمندر میں شہید ہونے والے کو روح نکلتے وقت ایسا مزہ آتا ہے جیسے ٹھنڈے پانی کے ساتھ شہد پینے کا ۔ اے حرم پاک کی حرمت کے محافظو! اے مدینہ منورہ کی فضاؤں سے عشق کے دعوے کرنے والو! حجر اسود اور گنبد خضراء پر مر مٹنے والو ! آج حجازکے سمندروں کو پھر مجاہدین کی ضرورت ہے ۔ایسے مجاہدین کی جو ان سمندروں کو دشمنوں کی ناپاک طاقت اور ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو سمندر اور خشکی پر اپنے پیارے دین کا جھنڈابلند کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین ]



اللہ اکبر کبیرا

واجد حسین ( شہید انشاء اللہ )
 
Top