بجلی بچانے کا کہتا رہا کسی نے لفٹ نہیں کروائی۔ خواجہ آصف

بات تو پتے کی کہی ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ان کی نہ تو عوام نے بات سنی ہے اور نہ ہی حکومت نے توجہ دی ہے۔

یہ صرف منسٹر صاحب کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ سبھی کا یہی حال ہے پوری قوم ہی نصیحتوں پر لگی ہوئی ہے مگر عمل میں نتیجہ صفر ہے۔ اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب خود عمل نہ کیا جائے تو بات میں اثر نہیں ہوتا۔ ہمیں نصیحتوں کی بجائے عمل کرکے عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔

خواجہ صاحب حیرت کی بات تو یہ ہے کہ چار سال گزر گئے۔ آپ کی بات پر عمل نہیں ہوا اور آپ نے یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کی بات پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی۔

آپ کوئی عام شہری تو نہیں تھے بلکہ آپ کے پاس ایک وزارت کا کلم دان تھا اختیار تھے ذمہ داریاں تھیں۔ آپ کی بات دوسرے لفظوں میں اعتراف ہے کہ آپ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے۔ آپ کی سچائی پر میں داد دیتا ہوں مگر پرفارمنس پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کہوں آپ منسٹر ہیں ۔ خودہی سمجھ جائیں ۔ دوسروں کو تو بہت احساس دلاتے ہیں۔۔۔۔ کوئی حد ہونی چاہیے۔

کیا آپ نے اس بات پر عمل کی کوشش کی ہے؟
چلو جو ہوا سو ہوا ابھی بھی وقت ہے کوئی بچت کا ماڈل اس قوم کو دے جائیں:
اپنی وزارت کے دفاتر سے ، اپنے دفتر سے یاکم از کم گھر سے آج ہی ائیر کنڈیشن اتروا دیں یا کم از کم بند ہی کروا دیں تو بات بنے پھر دیکھنا حکومت اور عوام بات پر توجہ دیتی ہے یا نہیں۔

آ پ نے کہا کہ جو بل نہیں دیتے یا بجلی چوری کرتے کرواتے ہیں ان کی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوگی اور بجلی ضائع زیادہ ہوتی ہے استعمال صحیح نہیں ہوتا۔ بلکل بجا فرمایا کبھی اندازہ لگایا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔

آپ کی منسٹری کے پاس اختیارات بھی ہیں اور عمل درآمد کروانے کا نظام بھی ہے۔ یہاں تک کہ آپ کی اپنی علیحدہ کورٹس بھی موجود ہیں مگر نتیجہ صفر۔

بجائے شرمندگی کے آپ نے کہ دیا کہ عمل ضیاء اور مشرف کو کروانا چاہیے تھا۔ وہ کالا باغ ڈیم بنوا سکتے تھے ان کو ووٹ کی مجبوریاں نہیں تھیں ۔
اب میں کیا کہوں
آپ لوگوں کی مجبوریاں ہی بہت ہیں۔ مجبوریاں بھی نہیں بلکہ بیڑیاں لگی ہوئی ہیں۔
آپکی بے بسی پہ ترس آرہا ہے مجھے
افسوس
اول افسوس بعد افسوس
بے حد افسوس
افسوس ہی افسوس
 
Top