بابا ذہین شاہ تاجی کے نعتیہ مجموعہ کا دیباچہ جوش کے قلم سے

کوئی تُک بھی ہے جناب والا، مجھ رندِ خراباتی اور حضرت ذہین شاہ تاجی کے مابین ارتباط و اختلاط۔۔۔۔ وہ غیب ہیں، میں شہود، وہ ذِکر ہیں، میں فکر، وہ معتقد ’’الہام‘‘ ہیں میں منکر پیغام، وہ درود، میں عود، وہ حرم، میں بیت الصنم، وہ محونالۂ صباحی، میں غرقِ دجلۂ صراحی، وہ گریۂ شبانہ، میں خندہ ٔ سحر گاہانہ، وہ نقیب لالہ، میں خطیبِ منبر گناہ۔۔۔ وہ یقین کی گلی میں بڑے اطمینان کے ساتھ دھونی رمائے بیٹھے ہیں، میں تشکُّک کی وادیوں میں یہ کہتا ہوا، خاک چھان رہا ہوں کہ:

صبا، بلطف بگو آں غزالِ رعنا را

کہ سر بکوہ و بیابان تو دادۂ مارا

“اے صبا اس نازنین ہرن سے نرمی سے کہہ دے

کہ ہمارا سر کوہ و بیاباں کے حوالے تو نے ہی تو کیا ہے”

اُن کی آنکھوں میں رازیابی کا سرور ہے، میرے دل میں تجسُّس کا ناسور ہے، ان کو اپنے علم کا احساس ہے، میں اپنے جہل کا معترف اور رو رہا ہوں کہ : ایں ہا ہمہ راز ست کہ معلوم ِ عوام ست۔ وہ گردن جھکاتے ہیں اور ’’جلوۂ یار‘‘ کو سامنے پاتے ہیں، میں ہر طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہوں کہ:

ساقیٔ مطرب و مے، جملہ مہیاست ولے

کیف بے یار میسّر نہ شود، یار کُجاست؟

(شراب، گوّیا،پھول سب مہیا ہیں

یار کے بغیر لطف نہیں، کہاں ہے یار)

Ayat-e-Jamal-Big-2.jpg


وہ جب صبح کے گلابی نور میں آنکھیں اُٹھاتے ہیں، تو ’’شاہد غیب‘‘ کے جلوؤں کے پھولوں سے ان کی نظر کا دامن بھر جاتا ہے اور : ’’گُل چینِ بہارِ تو، زدامان گلہ دارد‘‘ کے ترانے چھڑ جاتے ہیں، اور میں نامُراد جب منھ اندھیرے جاگتا ہوں تو یہ شعر بے ساختہ زبان پر جاری ہوجاتا ہے:

شبِ تار است و رہِ وادیٔ ایمن درپیش

آتشِ طور کجا، وعدہ دیدار کجاست؟

(رات اندھیری ہے اور راہِ وادئ ایمن درپیش ہے

کہاں ہے آتشِ طور، ہے کہاں وعدہء دیدار)

اور جب، گُریز پا ستاروں پر نظر جماتا ہوں تو گریبان پھاڑ کر چلّاتا ہوں:

اے رات گئے کے غم گسارو، بولو

اے عالمِ بالا کے اشارو، بولو

اِس پردۂ رنگ و بو میں پوشیدہ ہے کون؟

بولو، اے ڈوبتے ستارو، بولو

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ میں اور ذہین شاہ میں کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے؟ اسی کے ساتھ ساتھ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ شاہ صاحب کا یہ ارشاد ہے کہ ’’نَفَسِ کُلّی‘‘ اور حقائقِ کائنات کا ادراک، وجدان، اور فقط وجدان سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وجدان ایک ایسی طاقت ہے، جو فقط فنونِ لطیفہ کی تخلیق و تزئین کے کام آتی ہے، تفتیش و تحقیق اس کا وظیفہ ہی نہیں۔ وہ ایک مقیّش کا پھندنا ہے۔ جس سے میدانِ جستجو میں پھاوڑے کا کام لیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس بنا پر میرا ایمان ہے کہ صرف تفکُّر و تدبّر ہے، جس کی چٹکی، لیلائے کائنات کے مکھڑے سے نقاب اٹھاتی ہے۔

شاہ صاحب کا تصوّف، ذرّوں میں بھی موتی دیکھ لیتا ہے اور میری فکر سچّے موتیوں پر بھی نگاہ جماتی ہے تو آنسوؤں میں تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔

Josh.jpg


ہم نے پھولوں کو چھوا، پل بھر میں، کانٹے بن گئے

اُس نے، کانٹوں پر قدم رکّھا، گلستاں کردیا

وہ ’’آہ‘‘ کے شیدائی ہیں، میں ’’نگاہ‘‘ کا۔۔۔۔اُن کا نعرہ ہے:

دُعائے صبح و آہِ شب، کلیدِ گَنجِ مقصود ست

بایں راہ و رَوش می رَو کہ بادل دار پیوندی

(گوہرِ مقصود کی کنجی دعائے صبح و آہِ شب میں ہے

انہی راہوں، روشو ں پر چلو کہ دلدار کا وصال نصیب ہو)

اور میں پُکار پُکار کر کہتا ہوں:

حاصل کار گہِ کون و مکاں، ایں ہمہ نیست

بادَہ پیش آر کہ اسبابِ جہاں ایں ہمہ نیست

(کون و مکاں کی اس کارگاہ کا حاصل یہی سب نہیں

شراب لا کہ اسبابِ جہاں یہی سب نہیں)

اُن کے اشراقی گنبد میں :’’السلام، اے عشق خوش سودائے ما‘‘(السلام اے عشق، ہمارے جنونِ خوش ”[1])، کے ترانے چھڑے ہوئے ہیں۔ اور میری کار گاہِ تامُّل سے،’’السّلام، اے عقل خوش ملجائے ما‘‘ (السلام اے عقل ہماری بہترین پناہ گاہ!) کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہ، دل میں تجلّیات کا مشاہدہ کرکے فرماتے ہیں ’’ستارہ بدرخشید و ماہِ مجلس شد (ایک ستارہ چمکا اور ماہِ مجلس ہوگیا‘‘ اور میں خم خانہ ادراک میں گنگنا رہا ہوں کہ :

’’ما، در پیالہ، عکسِ رُخِ یار دیدہ ایم ‘‘ (ساغر میں ہم عکسِ رخِ یار کا دیدار کرتے ہیں)

وہ تصوف کی سہانی چاندنی میں مقاماتِ معنوی کا درس دے رہے ہیں، اور میں تجسس کی کڑی دھوپ میں کھڑا آواز دے رہا ہوں:

مصلحت نیست کہ از پردہ بُرون افتد راز

ورنہ در مجلس رندان، خبرے نیست کہ نیست

(راز کی پردہ کشائی خلافِ مصلحت ہے

ورنہ مجلسِ رنداں کسی خبر سے بے خبر نہیں)

ان دست و گریبان و متضاد حالات میں، ہمارے درمیان، آویزش کے بجائے ارتباط و اختلاط کا پیدا ہونا، اور اس کا، تھوڑے ہی دن کے بعد شدید محبت میں تبدیل ہوجانا ایک عجب معجزہ معلوم ہوتا ہے۔

جب تک کہ نہ دیکھا تھا، قدِ یار کا عالم

میں، معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

ارباب نظر ہماری محبت کو دیکھتے ہیں تو بھَوچکّا سے ہو کر رہ جاتے ہیں، اور، گھبرا گھبرا کر، ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، صاحبو، خدارا بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے، کوئی اﷲ کا بندہ کچھ روشنی ڈالے اس خَرَقِ عادت پر کہ خانقاہ و خرابات کے ڈانڈے کیسے مل گئے۔ قُلقُلِ مینا اور نعرۂ ’’یاہو‘‘ میں کن بنیادوں پر سمجھوتا ہوگیا، اور کاشیٔ بادہ و کعبۂ سجّادہ نے، ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں کیوں کر ڈال دیں۔

بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست ! (عقل حیرت سے جل گئی کہ یہ کیا بوالعجبی ہے!)

اب تو عالم یہ ہے کہ ہم دونوں، یعنی شاہ صاحب اور شاعر صاحب ایک دوسرے کی محبت میں بھی پڑ گئے ہیں، ایک طرف تو میرے برادران فکر، تیوری چڑھا چڑھا کر، مجھ کو طعن و تشنیع کا ہدف بنائے ہوئے ہیں، اور ان کی ناکیں لانبی ہو ہو کر مجھ سے، کہہ رہی ہیں کہ کدھر چلے پیرومرشد، کیا اپنی عقل کے ساتھ ساتھ، ہم سب کا بیڑا بھی غرق کردینے پر کمر باندھ لی ہے، اور سب کی آنکھیں، ایک دوسرے کی طرف اُٹھ اُٹھ کر، یوں پوچھ رہی ہیں۔

؎ چیست، یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیر ما؟

(اب کے اے یاران ِ طریقت،ہم کیا تدبیر کریں؟)

اور دوسری طرف، حضرت کے صاحب ذکر معتقتدین میں کھلبلی سی مچی ہوئی ہے، وہ مٹّھیوں میں اپنی اپنی داڑھیاں پکڑ پکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اُن کے آقا و مولیٰ کو آخر ہوکیا گیا ہے کہ وہ جوشؔ کے سے بد عقیدہ و بے یقین ملحد کو اپنی مسند پر بٹھاتے ہیں اور کلیجے سے لگاتے ہیں۔

جس کا نتیجہ ہے کہ اب ہم دونوں، ایک دوسرے سے گا گا کر یہ کہہ رہے ہیں:

’’میں تو ہوگئی بدنام، سنوریا تورے لیے!‘‘

بات یہ ہے کہ میرے احباب اور حضرت کے معتقدین کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو چاہتے کیوں ہیں۔ ہم پر تو وہی مثل صادق آتی ہے کہ :

؎ ہرکسے، از ظنّ خود، شُد یارِ من

وزدرونم، کس نجُست اَسرارِ من

(ہر کوئی میرا عاشق ہونے کا دعویدا ر تو ہے مگر

میرا رازِ دروں میرے اسرار کا متلاشی کوئی نہیں)

اُن بے چاروں کا یہ خیال ہے کہ حضرت شاہ صاحب اور میرے مابین جو محبت پائی جاتی ہے وہ اس امر پر مبنی ہے کہ شاہ صاحب کے عشق نے، میری عقل کے سامنے، یا، میری عقل نے اُن کے عشق کے آگے سِپر ڈال دی ہے۔ اور اُس کے ساتھ ساتھ:

تم ظلم چھوڑ دیتے، ہم ترک آہ کرتے

کچھ تم، نباہ کرتے، کچھ ہم نباہ کرتے

پر کاربند ہوکر حضرت کے تیّقن اور اس خاک سار کے تَفَحُص کے درمیان، چپکے سے مصالحت کی کوئی، مروت آمیز، صورت نکل آئی ہے۔

اُن لوگوں سے کوئی، ببانگ دُھل یہ بات کہہ دے کہ نابابا اس نوع کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے آپس میں ذرّہ برابر بھی لین دین نہیں کیا ہے۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے اصول و عقائد پر پہاڑوں کی طرح، ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اس تاریخ تک کوئی ایسا قرینہ، دور دور تک بھی نظر نہیں آ رہا ہے کہ میں، خدا نخواستہ، ایقان کی طرف مُڑ جاؤں گا، اور حضرت جادۂ تشکک پر گام زَن ہوجائیں گے (اﷲ کرے گام زَن ہوجائیں) حضرت کا عشق مجھے پھسلا رہا ہے:
’’موری گلی آجا، ہو بالما‘‘

اور میری عقل، ٹھُنَک ٹھُنَک کر کہہ رہی ہے :

’’نجریوں سے بھردوں گی جی، چھونے نہ دوں گی شریر‘‘

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر شدید تخالُف، تباین اور تضاد کے باجود وہ کون سی طاقتور قدرِ مشترک ہے، جس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کی محبت پر مجبور و مامور کردیا ہے۔ مجھ کو بابا ذہین شاہ کے دل کا حال معلوم نہیں، اس لیے قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھ کو اس قدر کیوں چاہتے ہیں۔ اور وہ میری کون سی ادائے کفر ہے جو انھیں بھا گئی ہے۔ اس موقع پر ایک پرانی بات یاد آگئی، وہ سُن لیجیے، شاید اُس سے اس صورت حال پر کچھ روشنی پڑ سکے۔ ایک تھیں، خیرآباد کی، فیروزی بَجیا، اُن میں کسی قدر، سَنَک تھی، ایک دن وہ ملیح آباد آئیں اور اُمُ الشعرأ یعنی میری رفیقۂ حیات سے، بڑے استعجاب کے ساتھ کہنے لگیں بیٹا یہ بھَونرا خان اَذان کے بیچ میں میرا نام کیوں لیا کرتے ہیں۔ میری بیوی نے، مسکرا کر، ان سے کہا فیروزی بجیا کیسی باتیں کررہی ہو، اﷲ اﷲ کرو، ہم نے بھونرا خان کی اذان میں تمہارا نام کبھی سنا ہی نہیں، بولیں، ارے تم لڑکیوں کے تو کان ٹھپ ہوچکے ہیں۔ ابھی ابھی تو انھوں نے اذان دی تھی، اﷲُ اکبر اﷲُ اکبر، حَیّ علی الفلاح، فیروزی بَجیا تُوبہ، (بِضمّ ’’تا‘‘) میری بیوی نے کہا یہ بھونرا خان کو کیا لت لگ گئی ہے کہ عین اَذان کے بیچوں بیچ ’’فیروزی بجیا توبَہ‘‘ کہتے ہیں، یہ سُن کر انھوں نے کہا کہ وہ میرانام اذان کے بیچ میں اس لیے لیتے ہیں کہ میری کوئی ’’خوبو‘‘ (واو مجہول کے ساتھ) ان کو پسند آگئی ہے۔ سو اگر اس خاک سار سے کوئی دریافت کرے کہ شاہ صاحب تجھ کو چاہتے کیوں ہیں تو میں فیروزی بجیا کی طرح جواب دوں گا کہ حضرت کو میری کوئی ’’خوبو‘‘ پسند آگئی ہے۔

اس ’’خوبو‘‘ کی بات کو چھوڑ کر، میں اپنی ذات میں کوئی ایسا وصف نہیں پاتا کہ کوئی پیرِ خانقاہ، مجھ رندِ نامہ سیاہ سے محبت کرسکے۔

سوداؔ نے شاید اسی منزل میں یہ شعر کہا تھا:۔

سودا، جو ترا حال ہے، اُتنا تو نہیں وہ

کیا جانیے، تُو نے اسے کس آن میں دیکھا

اب رہا یہ امر کہ پرستارِ عقل و بندۂ فکر ہونے کے باوجود، میں بابا ذہین شاہ سے کیوں محبت کرتا ہوں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے جس چیز نے، میرے دل کو ان کی طرف کھیچنا شروع کیا وہ ان کا چہرہ ہے۔ چہرہ، انسان کی کتابِ سیرت کی فہرستِ ابواب ومضامین اور اس کی تمام شخصیت کا ترجمان و مفسر ہوتا ہے۔

میں ان اندھوں کی بات نہیں کررہا ہوں، جن کو، ’’آنکھوں کے اندھے، نام نین سکھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک تو چہرہ اور تلوار، دونوں یکساں ہوتے ہیں، لیکن ’’بصیرۃ المومنین‘‘ رکھنے والے ارباب نظر، جب کسی کے چہرے کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ان کے لمسِ نگاہ کی چبھن سے منظور کا چہرہ بولنے لگتا ہے۔

چہرے جھوٹ نہیں بولا کرتے، چند انے گنے جرائم پیشہ افراد کے، سدھے ہوئے دروغ گو چہروں کے علاوہ، تمام انسانوں کے چہرے، پچانویں فی صد، سچ اور سچ بولتے ہیں۔ اور، ایک آن میں، انسان کے تمام رذائل و فضائل کے دفتر کھول کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ تو بندہ پرور، جب پہلی بار میں ذہین شاہ کا چہرہ دیکھا تو اس نے میرا دل موہ لیا، ان کے چہرے نے مجھ سے کہا کہ میری یہ نورانیت، میری جوانی کا وہ جمال ہے، جو، ماہ و سال کی چھلنیوں سے گزر کے مجھ پر دمک رہا ہے۔ اور یہ صرف جوانی کے جمال ہی کی سہانی دمک نہیں، اس میں اس کے حسن کی معنوی جگمگاہٹ کا عنصر بھی شامل ہے، جس کا میں چہرہ ہوں۔ چہرے کے بعد زبان کی باری آتی ہے، زبان سے پتا چل جاتا ہے کہ متکلم کس خاندان اور کس طبقے کا فرد ہے، اور علم و فضل کے اعتبار سے کتنے پانی میں ہے۔ بعض اوقات چہرہ وزبان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کسی کا چہرہ شریف ہوتا ہے، زبان رذیل ہوتی ہے، اور کسی کی زبان شریف ہوتی ہے اور چہرہ رذیل ہوتا ہے۔ ہاں تو میں کہہ چکا ہوں کہ سب سے پہلے شاہ صاحب کے چہرے نے میرے دل پر اثر کیا، ایسے معنوی و صوری اعتبار سے، منّور و مرتب چہرے کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ اور اس کے بعد جب ان سے حرف و حکایت کی نوبت آئی، تو الفاظ کے رچاؤ، فقروں کے بہاؤ اور لہجے کے سبھاؤ نے یہ بات میرے دل پر نقش کردی کہ میں ایک ایسے غیر معمولی مقناطیسی انسان کے روبرو بیٹھا ہوا ہوں، جس کا چہرہ بھی عالی خاندان ہے اور زبان بھی نجیب الطرفین۔ حافظ شیرازی کا محبوب بظاہر نرم اور بباطن سخت تھا، اور اسی لیے اس نے منھ پیٹ کر کہا تھا:۔

Baba-Kosar.jpg


چہ قیامت است جاناں کہ بعاشقان نمودی

رُخِ ہمچو ماہِ تاباں، دلے، ہمچو سنگِ خارا

(کون سی قیامت ہے جوتو نے اپنے چاہنے والوں پر نہ توڑی ہو

رُخ ماہِ تاباں جیسا اور دل سنگِ خارا سے سخت تر!)

لیکن میرے محبت کے رُخ اور دل میں بڑی ہم آہنگی ہے اور اسی لیے میں یہ کہہ رہا ہوں:۔

رُخے ہمچو ماہِ تاباں، دلے ہمچو موجِ کوثر

(رُخ جیسے ماہِ تاباں،دل مانندِ موجِ کوثر)

اور اب، جب کہ ہماری ملاقات پُرانی ہوکر، بے تکلّفی کے حدود میں داخل ہوچکی ہے، یہ سوچ کر میں بہت ہی خوش اور مطمئن ہوں کہ میرے اوّلین تاثرات قطعی درست نکلے، اورمیں نے اپنی محبت کے واسطے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا ہے جو صوریٔ و معنوی، دونوں جہات سے چاہے اور سراہے جانے کے قابل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ شاہ صاحب کا ایک ایسا غیر معمولی وصف بھی بیان کرنا چاہتا ہوں جو فقط پیمبروں، فلسفیوں اور حقیقی شعراء میں پایا جاتا ہے۔ (شعرا کے ساتھ ’’حقیقی‘‘ کی شرط میں نے اس غرض سے لگائی ہے کہ ہندوستان آکر، یہ عظیم لفظ اس قدر اوچھا ہوچکا ہے کہ یہاں ہر صاحبِ تخلص موزوں طبع تُک بند کو شاعر کا خطاب دے دیا جاتا ہے)

لیکن شاہ صاحب کے اس غیر معمولی وصف بیان کرنے سے پیش تر آپ کو کسی انگریزی فلسفی کا یہ قول سُنا دینا چاہتا ہوں کہ صدیوں کی فکری تربیت اور ذہنی تطہیر کے بعد، ہماری قوم کو شرافتِ نفس و نجابتِ برداشت کی یہ دولت حاصل ہوئی ہے کہ ہمارے مخالفین، ہمارے منھ پر، ہمارے مسلّمات کا مذاق اُڑاتے، اور ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، ہم کو صلواتیں سُناتتے ہیں، تو ہم کو غصہ نہیں آتا، غصّہ کیسا، اُن کے طعن و تشنیع اور حرفِ دشنام کو سُن کر ہم مسکراتے ہیں۔ پیشانیوں پر بل نہیں پڑنے دیتے، اور معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ اُس وقت ہم اس بات پر غور کرنے لگتے ہیں کہ شاتم نے جن عیوب کو ہم سے وابستہ کیا ہے، آیا ہم میں وہ عیوب ہیں کہ نہیں اور جب ان عائد کردہ عُیوب میں سے کوئی عیب ہم اپنے میں موجود پاتے ہیں تو اس سے دست بردار ہونے کی دُھن میں لگ جاتے ہیں۔ بالکل یہی حال ہے شاہ صاحب کا۔ میں، ان کے منھ پر اُن کے مسلمات و عقائد پر چوٹیں کرتا اور ایسی نظمیں سُناتا ہوں جن کو عرفِ عام میں کافرانہ کہا جاتا ہے، لیکن ان کے ماتھے پر بَل نہیں پڑتے، بل پڑنا تو درکنار، وہ بڑی مٹھاس کے ساتھ مسکرانے لگتے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جب مجھے اُن پر بڑا پیار آنے لگتا ہے۔ شاہ صاحب سے میری محبت کی ایک نفسیاتی وجہ اور بھی ہے۔ جانتا ہوں کہ اس وجہ کے بیان کرنے سے میرا ایک پول کھل جائے گا، مگر سچ بولنے میں، ایک نہیں، ہزار پول بھی کُھل جائیں تو مردانِ خدا کو پروا نہیں ہوتی۔ جناب والا، یوں تو مجھ کو اس بات پر بڑا فخر ہے کہ میں تفکر کا دیرینہ پرستار، اور توہم کا کھلا ہوا دشمن ہوں۔ لیکن میرے سینے میں شاعر کا کم بخت دل ہے جو زور زور سے دھڑکتا رہتا ہے۔

میری شخصیت شبیّر حسن خان اور جوشؔ ملیح آبادی کے درمیان بٹی ہوئی ہے، شبیر حسن خان حکمت کے پجاری ہیں، لیکن جوش ملیح آبادی افسانہ و افسوں کے دلدادہ ہیں۔ شبیر حسن خاں بوڑھے ہیں، جوش ملیح آبادی ابھی تک لونڈا ہے۔ شبیر حسن خان جب تک جاگتے رہتے ہیں، جوش ملیح آبادی، ڈر کے مارے ان کے سامنے نہیں آتا۔ لیکن بشری کمزوریوں کے باعث جب شبّیر حسن خان پر، اونگھ طاری ہوجاتی ہے تو جوش ملیح آبادی، دبے پاؤں آتا، اور میرے دامن کو ’’شاہدِ غیب‘‘ کے ’’جمال‘‘ کی طرف کھینچنے لگتا ہے۔ اُس لونڈے کے ساتھ، بڑی بڑی نورانی داڑھیوںن کے، فرشتے بھی آتے ہیں اور جادو کے جزیرے دکھانے لگتے ہیں، اور اس وقت خدا جانے وہ کون ہے جو بڑی سریلی آواز میں یہ گیت گانے لگتا ہے:

’’گوری انکَس چلو،مورے سنگ‘‘

اور شاید یہ میرا جوشؔ ملیح آبادی ہے، جس نے مجھ کو شاہ صاحب پر فریفتہ کررکھا ہے، اور یہاں تک کہ جب دس بارہ دن شاہ صاحب کی مفارقت پر گزر جاتے ہیں تو میرے دل میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اﷲ خیر کرے۔ دُھائی شبیر حسن خان کی!

ایک اور بات جو شاہ صاحب کی جانب میرے دل کو پکارتی ہے، وہ ان کی عالمانہ و شاعرانہ شخصیت ہے۔ شاہ صاحب کو مشرقی علوم پر بہت بڑی قدرت حاصل ہے اور ان کی شاعری میں گاہ گاہ ایسے مقامات آجاتے ہیں کہ دل پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

شاہ صاحب تصوف کے شاعر ہیں، میں تصوف سے کوسوں دور ہوں، لیکن ان کے بعض اشعار میں اس بلا کی جاذبیت پاتا ہوں کہ بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں جادو جو سر چڑھ کر بولے۔

تصوف کے دوش بدوش حضرت کے ہاں حُسنِ مجازی کی جھلکیاں بھی پائی جاتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ اُن کے سینے میں ایک چوٹ کھایا ہوا دل ہے جس کو انسانی جمال کی صیقل نے بنادیا ہے اور دراصل یہ حسنِ مجازی ہی ہے جو سیرت کو جمال، شاعری کو خدوخال اور نفس کو کمال عطا کرتا ہے۔

ان شوخ حَسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا

کچھ اور بلا ہوتی ہے، وہ دل نہیں ہوتا

حضرت کا کلام شایع ہورہا ہے، اس موقع پر بے ساختہ یہ بات دل میں آئی، میرے نہیں، میرے کھلنڈرے جوش ملیح آبادی کے دل میں آئی کہ میں اس کلام کے حُسن قبول کے واسطے اُس بارگاہِ احدیت میں دعا کروں، جس نے شعرا کو ’’تلامیذ الرحمن‘‘ کا خطاب دیا ہے، لیکن اس بات کے دل میں آتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ حکمت کے پجاری اور تحقیق کے دلدادہ شبیر حسن کا چہرہ سُرخ ہوگیا، ماتھے پر، سیکڑوں شکنیں پڑگئیں کہا خبردار دعا نہ مانگنا، یاد ہے تجھ کو اپنے معنوی برادر بزرگ اسد اللہ خاں کا یہ شعر :

دعا قبول ہو یارب کہ عمر خضر دراز

یہ سنتے ہی میں ہوش میں آگیا۔۔۔ اس لیے دعا سے توبہ کرکے، اب میں یہ کہوں گا کہ میری دلی تمنا ہے کہ حضرت کا دیوان قبول خاطر کا تاج پہنے، اور لوگ اس کو سرآنکھوں پر جگہ دیں، اور اسی کے ساتھ ساتھ میری یہ آرزو بھی ہے کہ شاعر صاحب اور شاہ صاحب کی محبت نے یہ درویشی و رندی کا جو سنگم بنایاہے، اس کا پاٹ روز بروز بڑھے، اور بڑھتے بڑھتے بے کراں ہوجائے۔

مَرا، از تُست، ہر دم تازہ عشقے

تُرا، ہر ساعتے حُسنِ دگر باد

(مجھے ہر لمحے تجھ سے نیا عشق ہے

تجھے ہر گھڑی نیا حسن ملے)

جوش

[1] یہ شعر مثنوی مولوی میں ہے اور یوں ہے” شادباش اے عشق خوش سودائے ما۔۔۔۔۔ اے طبیب جملہ علت ہائے ما۔ یعنی خوش رہ اے عشق، ہمارے اچھے جنون۔ اے ہمارے سب بیماریوں کے طبیب

فارسی اشعار کا ترجمہ قارئین کی سہولت کے لئے اضافہ کیا گیا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کوئی تُک بھی ہے جناب والا، مجھ رندِ خراباتی اور حضرت ذہین شاہ تاجی کے مابین ارتباط و اختلاط۔۔۔۔ وہ غیب ہیں، میں شہود، وہ ذِکر ہیں، میں فکر، وہ معتقد ’’الہام‘‘ ہیں میں منکر پیغام، وہ درود، میں عود، وہ حرم، میں بیت الصنم، وہ محونالۂ صباحی، میں غرقِ دجلۂ صراحی، وہ گریۂ شبانہ، میں خندہ ٔ سحر گاہانہ، وہ نقیب لالہ، میں خطیبِ منبر گناہ۔۔۔ وہ یقین کی گلی میں بڑے اطمینان کے ساتھ دھونی رمائے بیٹھے ہیں، میں تشکُّک کی وادیوں میں یہ کہتا ہوا، خاک چھان رہا ہوں کہ:

صبا، بلطف بگو آں غزالِ رعنا را

کہ سر بکوہ و بیابان تو دادۂ مارا

“اے صبا اس نازنین ہرن سے نرمی سے کہہ دے

کہ ہمارا سر کوہ و بیاباں کے حوالے تو نے ہی تو کیا ہے”

اُن کی آنکھوں میں رازیابی کا سرور ہے، میرے دل میں تجسُّس کا ناسور ہے، ان کو اپنے علم کا احساس ہے، میں اپنے جہل کا معترف اور رو رہا ہوں کہ : ایں ہا ہمہ راز ست کہ معلوم ِ عوام ست۔ وہ گردن جھکاتے ہیں اور ’’جلوۂ یار‘‘ کو سامنے پاتے ہیں، میں ہر طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہوں کہ:

ساقیٔ مطرب و مے، جملہ مہیاست ولے

کیف بے یار میسّر نہ شود، یار کُجاست؟

(شراب، گوّیا،پھول سب مہیا ہیں

یار کے بغیر لطف نہیں، کہاں ہے یار)

Ayat-e-Jamal-Big-2.jpg


وہ جب صبح کے گلابی نور میں آنکھیں اُٹھاتے ہیں، تو ’’شاہد غیب‘‘ کے جلوؤں کے پھولوں سے ان کی نظر کا دامن بھر جاتا ہے اور : ’’گُل چینِ بہارِ تو، زدامان گلہ دارد‘‘ کے ترانے چھڑ جاتے ہیں، اور میں نامُراد جب منھ اندھیرے جاگتا ہوں تو یہ شعر بے ساختہ زبان پر جاری ہوجاتا ہے:

شبِ تار است و رہِ وادیٔ ایمن درپیش

آتشِ طور کجا، وعدہ دیدار کجاست؟

(رات اندھیری ہے اور راہِ وادئ ایمن درپیش ہے

کہاں ہے آتشِ طور، ہے کہاں وعدہء دیدار)

اور جب، گُریز پا ستاروں پر نظر جماتا ہوں تو گریبان پھاڑ کر چلّاتا ہوں:

اے رات گئے کے غم گسارو، بولو

اے عالمِ بالا کے اشارو، بولو

اِس پردۂ رنگ و بو میں پوشیدہ ہے کون؟

بولو، اے ڈوبتے ستارو، بولو

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ میں اور ذہین شاہ میں کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے؟ اسی کے ساتھ ساتھ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ شاہ صاحب کا یہ ارشاد ہے کہ ’’نَفَسِ کُلّی‘‘ اور حقائقِ کائنات کا ادراک، وجدان، اور فقط وجدان سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وجدان ایک ایسی طاقت ہے، جو فقط فنونِ لطیفہ کی تخلیق و تزئین کے کام آتی ہے، تفتیش و تحقیق اس کا وظیفہ ہی نہیں۔ وہ ایک مقیّش کا پھندنا ہے۔ جس سے میدانِ جستجو میں پھاوڑے کا کام لیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس بنا پر میرا ایمان ہے کہ صرف تفکُّر و تدبّر ہے، جس کی چٹکی، لیلائے کائنات کے مکھڑے سے نقاب اٹھاتی ہے۔

شاہ صاحب کا تصوّف، ذرّوں میں بھی موتی دیکھ لیتا ہے اور میری فکر سچّے موتیوں پر بھی نگاہ جماتی ہے تو آنسوؤں میں تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔

Josh.jpg


ہم نے پھولوں کو چھوا، پل بھر میں، کانٹے بن گئے

اُس نے، کانٹوں پر قدم رکّھا، گلستاں کردیا

وہ ’’آہ‘‘ کے شیدائی ہیں، میں ’’نگاہ‘‘ کا۔۔۔۔اُن کا نعرہ ہے:

دُعائے صبح و آہِ شب، کلیدِ گَنجِ مقصود ست

بایں راہ و رَوش می رَو کہ بادل دار پیوندی

(گوہرِ مقصود کی کنجی دعائے صبح و آہِ شب میں ہے

انہی راہوں، روشو ں پر چلو کہ دلدار کا وصال نصیب ہو)

اور میں پُکار پُکار کر کہتا ہوں:

حاصل کار گہِ کون و مکاں، ایں ہمہ نیست

بادَہ پیش آر کہ اسبابِ جہاں ایں ہمہ نیست

(کون و مکاں کی اس کارگاہ کا حاصل یہی سب نہیں

شراب لا کہ اسبابِ جہاں یہی سب نہیں)

اُن کے اشراقی گنبد میں :’’السلام، اے عشق خوش سودائے ما‘‘(السلام اے عشق، ہمارے جنونِ خوش ”[1])، کے ترانے چھڑے ہوئے ہیں۔ اور میری کار گاہِ تامُّل سے،’’السّلام، اے عقل خوش ملجائے ما‘‘ (السلام اے عقل ہماری بہترین پناہ گاہ!) کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہ، دل میں تجلّیات کا مشاہدہ کرکے فرماتے ہیں ’’ستارہ بدرخشید و ماہِ مجلس شد (ایک ستارہ چمکا اور ماہِ مجلس ہوگیا‘‘ اور میں خم خانہ ادراک میں گنگنا رہا ہوں کہ :

’’ما، در پیالہ، عکسِ رُخِ یار دیدہ ایم ‘‘ (ساغر میں ہم عکسِ رخِ یار کا دیدار کرتے ہیں)

وہ تصوف کی سہانی چاندنی میں مقاماتِ معنوی کا درس دے رہے ہیں، اور میں تجسس کی کڑی دھوپ میں کھڑا آواز دے رہا ہوں:

مصلحت نیست کہ از پردہ بُرون افتد راز

ورنہ در مجلس رندان، خبرے نیست کہ نیست

(راز کی پردہ کشائی خلافِ مصلحت ہے

ورنہ مجلسِ رنداں کسی خبر سے بے خبر نہیں)

ان دست و گریبان و متضاد حالات میں، ہمارے درمیان، آویزش کے بجائے ارتباط و اختلاط کا پیدا ہونا، اور اس کا، تھوڑے ہی دن کے بعد شدید محبت میں تبدیل ہوجانا ایک عجب معجزہ معلوم ہوتا ہے۔

جب تک کہ نہ دیکھا تھا، قدِ یار کا عالم

میں، معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

ارباب نظر ہماری محبت کو دیکھتے ہیں تو بھَوچکّا سے ہو کر رہ جاتے ہیں، اور، گھبرا گھبرا کر، ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، صاحبو، خدارا بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے، کوئی اﷲ کا بندہ کچھ روشنی ڈالے اس خَرَقِ عادت پر کہ خانقاہ و خرابات کے ڈانڈے کیسے مل گئے۔ قُلقُلِ مینا اور نعرۂ ’’یاہو‘‘ میں کن بنیادوں پر سمجھوتا ہوگیا، اور کاشیٔ بادہ و کعبۂ سجّادہ نے، ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں کیوں کر ڈال دیں۔

بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست ! (عقل حیرت سے جل گئی کہ یہ کیا بوالعجبی ہے!)

اب تو عالم یہ ہے کہ ہم دونوں، یعنی شاہ صاحب اور شاعر صاحب ایک دوسرے کی محبت میں بھی پڑ گئے ہیں، ایک طرف تو میرے برادران فکر، تیوری چڑھا چڑھا کر، مجھ کو طعن و تشنیع کا ہدف بنائے ہوئے ہیں، اور ان کی ناکیں لانبی ہو ہو کر مجھ سے، کہہ رہی ہیں کہ کدھر چلے پیرومرشد، کیا اپنی عقل کے ساتھ ساتھ، ہم سب کا بیڑا بھی غرق کردینے پر کمر باندھ لی ہے، اور سب کی آنکھیں، ایک دوسرے کی طرف اُٹھ اُٹھ کر، یوں پوچھ رہی ہیں۔

؎ چیست، یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیر ما؟

(اب کے اے یاران ِ طریقت،ہم کیا تدبیر کریں؟)

اور دوسری طرف، حضرت کے صاحب ذکر معتقتدین میں کھلبلی سی مچی ہوئی ہے، وہ مٹّھیوں میں اپنی اپنی داڑھیاں پکڑ پکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اُن کے آقا و مولیٰ کو آخر ہوکیا گیا ہے کہ وہ جوشؔ کے سے بد عقیدہ و بے یقین ملحد کو اپنی مسند پر بٹھاتے ہیں اور کلیجے سے لگاتے ہیں۔

جس کا نتیجہ ہے کہ اب ہم دونوں، ایک دوسرے سے گا گا کر یہ کہہ رہے ہیں:

’’میں تو ہوگئی بدنام، سنوریا تورے لیے!‘‘

بات یہ ہے کہ میرے احباب اور حضرت کے معتقدین کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو چاہتے کیوں ہیں۔ ہم پر تو وہی مثل صادق آتی ہے کہ :

؎ ہرکسے، از ظنّ خود، شُد یارِ من

وزدرونم، کس نجُست اَسرارِ من

(ہر کوئی میرا عاشق ہونے کا دعویدا ر تو ہے مگر

میرا رازِ دروں میرے اسرار کا متلاشی کوئی نہیں)

اُن بے چاروں کا یہ خیال ہے کہ حضرت شاہ صاحب اور میرے مابین جو محبت پائی جاتی ہے وہ اس امر پر مبنی ہے کہ شاہ صاحب کے عشق نے، میری عقل کے سامنے، یا، میری عقل نے اُن کے عشق کے آگے سِپر ڈال دی ہے۔ اور اُس کے ساتھ ساتھ:

تم ظلم چھوڑ دیتے، ہم ترک آہ کرتے

کچھ تم، نباہ کرتے، کچھ ہم نباہ کرتے

پر کاربند ہوکر حضرت کے تیّقن اور اس خاک سار کے تَفَحُص کے درمیان، چپکے سے مصالحت کی کوئی، مروت آمیز، صورت نکل آئی ہے۔

اُن لوگوں سے کوئی، ببانگ دُھل یہ بات کہہ دے کہ نابابا اس نوع کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے آپس میں ذرّہ برابر بھی لین دین نہیں کیا ہے۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے اصول و عقائد پر پہاڑوں کی طرح، ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اس تاریخ تک کوئی ایسا قرینہ، دور دور تک بھی نظر نہیں آ رہا ہے کہ میں، خدا نخواستہ، ایقان کی طرف مُڑ جاؤں گا، اور حضرت جادۂ تشکک پر گام زَن ہوجائیں گے (اﷲ کرے گام زَن ہوجائیں) حضرت کا عشق مجھے پھسلا رہا ہے:
’’موری گلی آجا، ہو بالما‘‘

اور میری عقل، ٹھُنَک ٹھُنَک کر کہہ رہی ہے :

’’نجریوں سے بھردوں گی جی، چھونے نہ دوں گی شریر‘‘

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر شدید تخالُف، تباین اور تضاد کے باجود وہ کون سی طاقتور قدرِ مشترک ہے، جس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کی محبت پر مجبور و مامور کردیا ہے۔ مجھ کو بابا ذہین شاہ کے دل کا حال معلوم نہیں، اس لیے قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھ کو اس قدر کیوں چاہتے ہیں۔ اور وہ میری کون سی ادائے کفر ہے جو انھیں بھا گئی ہے۔ اس موقع پر ایک پرانی بات یاد آگئی، وہ سُن لیجیے، شاید اُس سے اس صورت حال پر کچھ روشنی پڑ سکے۔ ایک تھیں، خیرآباد کی، فیروزی بَجیا، اُن میں کسی قدر، سَنَک تھی، ایک دن وہ ملیح آباد آئیں اور اُمُ الشعرأ یعنی میری رفیقۂ حیات سے، بڑے استعجاب کے ساتھ کہنے لگیں بیٹا یہ بھَونرا خان اَذان کے بیچ میں میرا نام کیوں لیا کرتے ہیں۔ میری بیوی نے، مسکرا کر، ان سے کہا فیروزی بجیا کیسی باتیں کررہی ہو، اﷲ اﷲ کرو، ہم نے بھونرا خان کی اذان میں تمہارا نام کبھی سنا ہی نہیں، بولیں، ارے تم لڑکیوں کے تو کان ٹھپ ہوچکے ہیں۔ ابھی ابھی تو انھوں نے اذان دی تھی، اﷲُ اکبر اﷲُ اکبر، حَیّ علی الفلاح، فیروزی بَجیا تُوبہ، (بِضمّ ’’تا‘‘) میری بیوی نے کہا یہ بھونرا خان کو کیا لت لگ گئی ہے کہ عین اَذان کے بیچوں بیچ ’’فیروزی بجیا توبَہ‘‘ کہتے ہیں، یہ سُن کر انھوں نے کہا کہ وہ میرانام اذان کے بیچ میں اس لیے لیتے ہیں کہ میری کوئی ’’خوبو‘‘ (واو مجہول کے ساتھ) ان کو پسند آگئی ہے۔ سو اگر اس خاک سار سے کوئی دریافت کرے کہ شاہ صاحب تجھ کو چاہتے کیوں ہیں تو میں فیروزی بجیا کی طرح جواب دوں گا کہ حضرت کو میری کوئی ’’خوبو‘‘ پسند آگئی ہے۔

اس ’’خوبو‘‘ کی بات کو چھوڑ کر، میں اپنی ذات میں کوئی ایسا وصف نہیں پاتا کہ کوئی پیرِ خانقاہ، مجھ رندِ نامہ سیاہ سے محبت کرسکے۔

سوداؔ نے شاید اسی منزل میں یہ شعر کہا تھا:۔

سودا، جو ترا حال ہے، اُتنا تو نہیں وہ

کیا جانیے، تُو نے اسے کس آن میں دیکھا

اب رہا یہ امر کہ پرستارِ عقل و بندۂ فکر ہونے کے باوجود، میں بابا ذہین شاہ سے کیوں محبت کرتا ہوں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے جس چیز نے، میرے دل کو ان کی طرف کھیچنا شروع کیا وہ ان کا چہرہ ہے۔ چہرہ، انسان کی کتابِ سیرت کی فہرستِ ابواب ومضامین اور اس کی تمام شخصیت کا ترجمان و مفسر ہوتا ہے۔

میں ان اندھوں کی بات نہیں کررہا ہوں، جن کو، ’’آنکھوں کے اندھے، نام نین سکھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک تو چہرہ اور تلوار، دونوں یکساں ہوتے ہیں، لیکن ’’بصیرۃ المومنین‘‘ رکھنے والے ارباب نظر، جب کسی کے چہرے کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ان کے لمسِ نگاہ کی چبھن سے منظور کا چہرہ بولنے لگتا ہے۔

چہرے جھوٹ نہیں بولا کرتے، چند انے گنے جرائم پیشہ افراد کے، سدھے ہوئے دروغ گو چہروں کے علاوہ، تمام انسانوں کے چہرے، پچانویں فی صد، سچ اور سچ بولتے ہیں۔ اور، ایک آن میں، انسان کے تمام رذائل و فضائل کے دفتر کھول کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ تو بندہ پرور، جب پہلی بار میں ذہین شاہ کا چہرہ دیکھا تو اس نے میرا دل موہ لیا، ان کے چہرے نے مجھ سے کہا کہ میری یہ نورانیت، میری جوانی کا وہ جمال ہے، جو، ماہ و سال کی چھلنیوں سے گزر کے مجھ پر دمک رہا ہے۔ اور یہ صرف جوانی کے جمال ہی کی سہانی دمک نہیں، اس میں اس کے حسن کی معنوی جگمگاہٹ کا عنصر بھی شامل ہے، جس کا میں چہرہ ہوں۔ چہرے کے بعد زبان کی باری آتی ہے، زبان سے پتا چل جاتا ہے کہ متکلم کس خاندان اور کس طبقے کا فرد ہے، اور علم و فضل کے اعتبار سے کتنے پانی میں ہے۔ بعض اوقات چہرہ وزبان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کسی کا چہرہ شریف ہوتا ہے، زبان رذیل ہوتی ہے، اور کسی کی زبان شریف ہوتی ہے اور چہرہ رذیل ہوتا ہے۔ ہاں تو میں کہہ چکا ہوں کہ سب سے پہلے شاہ صاحب کے چہرے نے میرے دل پر اثر کیا، ایسے معنوی و صوری اعتبار سے، منّور و مرتب چہرے کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ اور اس کے بعد جب ان سے حرف و حکایت کی نوبت آئی، تو الفاظ کے رچاؤ، فقروں کے بہاؤ اور لہجے کے سبھاؤ نے یہ بات میرے دل پر نقش کردی کہ میں ایک ایسے غیر معمولی مقناطیسی انسان کے روبرو بیٹھا ہوا ہوں، جس کا چہرہ بھی عالی خاندان ہے اور زبان بھی نجیب الطرفین۔ حافظ شیرازی کا محبوب بظاہر نرم اور بباطن سخت تھا، اور اسی لیے اس نے منھ پیٹ کر کہا تھا:۔

Baba-Kosar.jpg


چہ قیامت است جاناں کہ بعاشقان نمودی

رُخِ ہمچو ماہِ تاباں، دلے، ہمچو سنگِ خارا

(کون سی قیامت ہے جوتو نے اپنے چاہنے والوں پر نہ توڑی ہو

رُخ ماہِ تاباں جیسا اور دل سنگِ خارا سے سخت تر!)

لیکن میرے محبت کے رُخ اور دل میں بڑی ہم آہنگی ہے اور اسی لیے میں یہ کہہ رہا ہوں:۔

رُخے ہمچو ماہِ تاباں، دلے ہمچو موجِ کوثر

(رُخ جیسے ماہِ تاباں،دل مانندِ موجِ کوثر)

اور اب، جب کہ ہماری ملاقات پُرانی ہوکر، بے تکلّفی کے حدود میں داخل ہوچکی ہے، یہ سوچ کر میں بہت ہی خوش اور مطمئن ہوں کہ میرے اوّلین تاثرات قطعی درست نکلے، اورمیں نے اپنی محبت کے واسطے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا ہے جو صوریٔ و معنوی، دونوں جہات سے چاہے اور سراہے جانے کے قابل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ شاہ صاحب کا ایک ایسا غیر معمولی وصف بھی بیان کرنا چاہتا ہوں جو فقط پیمبروں، فلسفیوں اور حقیقی شعراء میں پایا جاتا ہے۔ (شعرا کے ساتھ ’’حقیقی‘‘ کی شرط میں نے اس غرض سے لگائی ہے کہ ہندوستان آکر، یہ عظیم لفظ اس قدر اوچھا ہوچکا ہے کہ یہاں ہر صاحبِ تخلص موزوں طبع تُک بند کو شاعر کا خطاب دے دیا جاتا ہے)

لیکن شاہ صاحب کے اس غیر معمولی وصف بیان کرنے سے پیش تر آپ کو کسی انگریزی فلسفی کا یہ قول سُنا دینا چاہتا ہوں کہ صدیوں کی فکری تربیت اور ذہنی تطہیر کے بعد، ہماری قوم کو شرافتِ نفس و نجابتِ برداشت کی یہ دولت حاصل ہوئی ہے کہ ہمارے مخالفین، ہمارے منھ پر، ہمارے مسلّمات کا مذاق اُڑاتے، اور ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، ہم کو صلواتیں سُناتتے ہیں، تو ہم کو غصہ نہیں آتا، غصّہ کیسا، اُن کے طعن و تشنیع اور حرفِ دشنام کو سُن کر ہم مسکراتے ہیں۔ پیشانیوں پر بل نہیں پڑنے دیتے، اور معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ اُس وقت ہم اس بات پر غور کرنے لگتے ہیں کہ شاتم نے جن عیوب کو ہم سے وابستہ کیا ہے، آیا ہم میں وہ عیوب ہیں کہ نہیں اور جب ان عائد کردہ عُیوب میں سے کوئی عیب ہم اپنے میں موجود پاتے ہیں تو اس سے دست بردار ہونے کی دُھن میں لگ جاتے ہیں۔ بالکل یہی حال ہے شاہ صاحب کا۔ میں، ان کے منھ پر اُن کے مسلمات و عقائد پر چوٹیں کرتا اور ایسی نظمیں سُناتا ہوں جن کو عرفِ عام میں کافرانہ کہا جاتا ہے، لیکن ان کے ماتھے پر بَل نہیں پڑتے، بل پڑنا تو درکنار، وہ بڑی مٹھاس کے ساتھ مسکرانے لگتے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جب مجھے اُن پر بڑا پیار آنے لگتا ہے۔ شاہ صاحب سے میری محبت کی ایک نفسیاتی وجہ اور بھی ہے۔ جانتا ہوں کہ اس وجہ کے بیان کرنے سے میرا ایک پول کھل جائے گا، مگر سچ بولنے میں، ایک نہیں، ہزار پول بھی کُھل جائیں تو مردانِ خدا کو پروا نہیں ہوتی۔ جناب والا، یوں تو مجھ کو اس بات پر بڑا فخر ہے کہ میں تفکر کا دیرینہ پرستار، اور توہم کا کھلا ہوا دشمن ہوں۔ لیکن میرے سینے میں شاعر کا کم بخت دل ہے جو زور زور سے دھڑکتا رہتا ہے۔

میری شخصیت شبیّر حسن خان اور جوشؔ ملیح آبادی کے درمیان بٹی ہوئی ہے، شبیر حسن خان حکمت کے پجاری ہیں، لیکن جوش ملیح آبادی افسانہ و افسوں کے دلدادہ ہیں۔ شبیر حسن خاں بوڑھے ہیں، جوش ملیح آبادی ابھی تک لونڈا ہے۔ شبیر حسن خان جب تک جاگتے رہتے ہیں، جوش ملیح آبادی، ڈر کے مارے ان کے سامنے نہیں آتا۔ لیکن بشری کمزوریوں کے باعث جب شبّیر حسن خان پر، اونگھ طاری ہوجاتی ہے تو جوش ملیح آبادی، دبے پاؤں آتا، اور میرے دامن کو ’’شاہدِ غیب‘‘ کے ’’جمال‘‘ کی طرف کھینچنے لگتا ہے۔ اُس لونڈے کے ساتھ، بڑی بڑی نورانی داڑھیوںن کے، فرشتے بھی آتے ہیں اور جادو کے جزیرے دکھانے لگتے ہیں، اور اس وقت خدا جانے وہ کون ہے جو بڑی سریلی آواز میں یہ گیت گانے لگتا ہے:

’’گوری انکَس چلو،مورے سنگ‘‘

اور شاید یہ میرا جوشؔ ملیح آبادی ہے، جس نے مجھ کو شاہ صاحب پر فریفتہ کررکھا ہے، اور یہاں تک کہ جب دس بارہ دن شاہ صاحب کی مفارقت پر گزر جاتے ہیں تو میرے دل میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اﷲ خیر کرے۔ دُھائی شبیر حسن خان کی!

ایک اور بات جو شاہ صاحب کی جانب میرے دل کو پکارتی ہے، وہ ان کی عالمانہ و شاعرانہ شخصیت ہے۔ شاہ صاحب کو مشرقی علوم پر بہت بڑی قدرت حاصل ہے اور ان کی شاعری میں گاہ گاہ ایسے مقامات آجاتے ہیں کہ دل پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

شاہ صاحب تصوف کے شاعر ہیں، میں تصوف سے کوسوں دور ہوں، لیکن ان کے بعض اشعار میں اس بلا کی جاذبیت پاتا ہوں کہ بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں جادو جو سر چڑھ کر بولے۔

تصوف کے دوش بدوش حضرت کے ہاں حُسنِ مجازی کی جھلکیاں بھی پائی جاتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ اُن کے سینے میں ایک چوٹ کھایا ہوا دل ہے جس کو انسانی جمال کی صیقل نے بنادیا ہے اور دراصل یہ حسنِ مجازی ہی ہے جو سیرت کو جمال، شاعری کو خدوخال اور نفس کو کمال عطا کرتا ہے۔

ان شوخ حَسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا

کچھ اور بلا ہوتی ہے، وہ دل نہیں ہوتا

حضرت کا کلام شایع ہورہا ہے، اس موقع پر بے ساختہ یہ بات دل میں آئی، میرے نہیں، میرے کھلنڈرے جوش ملیح آبادی کے دل میں آئی کہ میں اس کلام کے حُسن قبول کے واسطے اُس بارگاہِ احدیت میں دعا کروں، جس نے شعرا کو ’’تلامیذ الرحمن‘‘ کا خطاب دیا ہے، لیکن اس بات کے دل میں آتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ حکمت کے پجاری اور تحقیق کے دلدادہ شبیر حسن کا چہرہ سُرخ ہوگیا، ماتھے پر، سیکڑوں شکنیں پڑگئیں کہا خبردار دعا نہ مانگنا، یاد ہے تجھ کو اپنے معنوی برادر بزرگ اسد اللہ خاں کا یہ شعر :

دعا قبول ہو یارب کہ عمر خضر دراز

یہ سنتے ہی میں ہوش میں آگیا۔۔۔ اس لیے دعا سے توبہ کرکے، اب میں یہ کہوں گا کہ میری دلی تمنا ہے کہ حضرت کا دیوان قبول خاطر کا تاج پہنے، اور لوگ اس کو سرآنکھوں پر جگہ دیں، اور اسی کے ساتھ ساتھ میری یہ آرزو بھی ہے کہ شاعر صاحب اور شاہ صاحب کی محبت نے یہ درویشی و رندی کا جو سنگم بنایاہے، اس کا پاٹ روز بروز بڑھے، اور بڑھتے بڑھتے بے کراں ہوجائے۔

مَرا، از تُست، ہر دم تازہ عشقے

تُرا، ہر ساعتے حُسنِ دگر باد

(مجھے ہر لمحے تجھ سے نیا عشق ہے

تجھے ہر گھڑی نیا حسن ملے)

جوش

[1] یہ شعر مثنوی مولوی میں ہے اور یوں ہے” شادباش اے عشق خوش سودائے ما۔۔۔۔۔ اے طبیب جملہ علت ہائے ما۔ یعنی خوش رہ اے عشق، ہمارے اچھے جنون۔ اے ہمارے سب بیماریوں کے طبیب

فارسی اشعار کا ترجمہ قارئین کی سہولت کے لئے اضافہ کیا گیا ہے۔
حسب روایت عمدہ انتخاب۔
کیا بابا ذہین شاہ تاجی کے اس یا مزید کسی اور کلام کے بارے میں بتا سکتے ہیں کہ کہاں سے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ میں نے بہت سی دکانیں اور لائبریریاں چھان ماریں لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔
 
حسب روایت عمدہ انتخاب۔
کیا بابا ذہین شاہ تاجی کے اس یا مزید کسی اور کلام کے بارے میں بتا سکتے ہیں کہ کہاں سے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ میں نے بہت سی دکانیں اور لائبریریاں چھان ماریں لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔
جزاک اللہ
پسند کرنے کا شکریہ
بابا ذہین شاہ تاجی کراچی میں ہمارے گھر سے کچھ دور رہائیش پزیر تھے اور ان کہ اہلیہ کی طرف میری والدہ کا روحانی فیوض و برکات کے حصول کی خاطر آنا جانا تھا کچھ کچھ یاد ہے بچپن میں ایک بار ان کے دولت کدے پر حاضری دی تھی
مشہور اداکار مظہر علی انہی کے فرذند ارجمند ہیں
بابا جی کی کتب آجکل نایاب ہیں مجھے بھی تلاش بیسار کے باوجود نہ مل سکی
 
آخری تدوین:
جزاک اللہ
پسند کرنے کا شکریہ
بابا ذہین شاہ تاجی کراچی میں ہمارے گھر سے کچھ دور رہائیش پزیر تھے اور ان کہ اہلیہ کی طرف میری والدہ کا روحانی فیوض و برکات کے حصول کی خاطر آنا جانا تھا کچھ کچھ یاد ہے بچپن میں ایک بار ان کے دولت کدے پر حاضری دی تھی
مشہور اداکار مظہر علی انہی کے فرذند ارجمند ہیں
بابا جی کی کتب آجکل نایاب ہیں مجھے بھی تلاش بیسار کے باوجود نہ مل سکی
ہا ہا ہا
آپ کو کیسے مل سکتی ہیں وہ تو شمس الدین عظیمی لے اڑا اور ان کتابوں کو اپنے نام سے شائع کروا دیا
 
ہا ہا ہا
آپ کو کیسے مل سکتی ہیں وہ تو شمس الدین عظیمی لے اڑا اور ان کتابوں کو اپنے نام سے شائع کروا دیا
یہ میرے لئے بہت بڑا انکشاف ہے
شمس الدین عظیمی کے کالم روحانی ڈاک کے عنوان سے کبھی اخبار جہاں میں پڑھا کرتا تھا مگر اس نے کبھی متاثر نہیں کیا اس کی تحریروں سے خود نمائی کی بو آتی تھی
اتنی بڑی بات آپ نے کہ دی کیا اس بارے میں کچھ مزید روشنی ڈال سکتے ہیں؟
 

یوسف سلطان

محفلین
ابھی کچھ دن پہلے ہی فیس بک پر ان کا تعارف اور منتخب کلام نظروں سے گزرا تھا۔

آج ممتاز اردوصوفی شاعر، فلسفی اور اسکالر بابا ذہینؔ شاہ تاجی کی برسی ہے
July 23, 1902
معروف اردوصوفی شاعر، فلسفی،اسکالر ، 1902ء جے پور(راجستھان) میں پیدا ہوئے اور 23 جولائی 1978ء کو کراچی میں انتقال کیا ۔چشتیہ سلسلے سے تعلق رہا۔ اصل نا م : محمد طوسین ، حضرت سلطان التارکین خواجہ حمید الدین ناگوریؒ کی نسبت سے خواجہ ان کا خاندانی لقب تھا۔ان کا پہلا تخلص طاسین تھا۔ : بعد میں انہوں نے اپنا تخلص ذہینؔ رکھا۔ آپ کئی کتابوں اور مقالوں کے مصنف ہیں ،اردو ، فارسی ، عربی ،ہندی اور انگریزی زبانوں میں سیکڑوں غزلیں کہی ہیں ۔ابنِ عربی کی دو کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ،جو ’’فسوس الحکمۃ ‘‘ اور ’’ فتوحات المکیہ‘‘ کے عنوانات سے شایع ہوئیں ۔مزید برآں ’’الحلّاج‘‘ کی تصنیف کا اردو زبان میں ’’ کتاب الطواسین‘‘ کے عنوان سے ترجمہ بھی کیا ۔اردو اور فارسی میں ایک کتاب ’’تاج الاولیاء ‘‘ بھی تصنیف کی، تاج الاولیاء دراصل حضرت بابا تاج الدین ناگپوری کی سوانح حیات ہے۔بابا ذہین شاہ تاجی کے درس میں اُس وقت کی نابغہ روزگار شخصیات شریک ہوا کرتی تھیں ، جن میں پروفیسر اے۔ بی حلیم (جامعہ کراچی کے پہلے وائس چانسلر) ، جوش ملیح آبادی ، مولانا کوثر نیازی ، مولانا ماہر القادری ، پروفیسر کرّار حسین ، پروفیسر حسرت کاسگنجوی ، الیاس عشقی ، ڈاکٹر پروفیسر ابو الخیر کشفی ، رئیس امروہوی اور سید محمد تقی وغیرہ قابلِ تذکرہ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سات سال کی عمر میں قرآن مجید ختم کیا۔گیارہ اور بارہ سال کی عمر میں فارسی کی معروف کتابیں پڑھیں اور پھر علام دینیہ کے طالب ہوئے۔وہ کہتے تھے کہ کہنے والوں نے مجھے عالم فاضل، مولوی،مولانا،علامہ،ادیب شاعر اور نہ جانے کیا کیا خطابات دیئے مگر علم کی پیاس نہ بجھنی تھی نہ بجھی۔
بمشکل نو سال کی عمر میں انہوں نے شعر کہنا شروع کیا۔ان کے والد محترم بھی شاعر تھے۔فارسی اور اردو میں بہت اچھے اشعار کہتے تھے فرآقیؔ تخلص فرماتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔
کلمات اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظہور خلق کی سن گن سے پہلے
خدا کے پاس تھے ہم کُن سے پہلے
خدا کے علم میں آباد تھے ہم
بئے ایجاد خود بنیاد تھے ہم
خدا کا علم تھا اپنا ٹھکانہ
ازل سے بے مکاں و بے زمانہ
یہ موجودات معلومات حق ہیں
کتاب اللہ کی آیات حق ہیں
یہ موجودات معلومات حق ہیں
یہ کُن کی صورتیں آیات حق ہیں
ارداے میں خدا کے جا گزیں تھے
نہ تھا کچھ بھی تو جو کچھ تھے ہمیں تھے
خطاب کُن کیا ہم نے سماعت
ہمارا کام ہے سمع و اطاعت
خدا نے کُن کہا تو ہو گئے ہم
خدا نے نم کہا تو سو گئے ہم
خدا کا فعل کُن ارشاد کرنا
ہمارا فعل کُن ایجاد کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلافت و نبوت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان اللہ خلق آدم علٰی صورۃ
خدا جانا گیا ، مانا گیا ، پایا گیا ہم سے
نفخت فیہ من روحی کو وہ نسبت ہے آدم سے
روا تنزیہہ نے تشبیہہ میں تکلیف فرمائی
ہوئی آدم کی صورت میں خدا کی صورت آرائی
خدا ہی روح آدم ہے خدا ہی صورت آدم
خدا کا دیکھنا ہے در حقیقت رویتِ آدم
وجودِ علمی حق صورت اعیان میں آیا
وہی اجمال ، تفصیلاً بشر کی شان میں آیا
متاعِ کنزِ مخفی آ گیا بازار ہستی میں
بشر بسجود ہوتا ہے حریم حق پرستی میں
نظر آتا ہے مسجودِ ملائک، آدمِ خاکی
قدم لیتا ہے جھک جھک کر زمیں کی اوج افلاکی
تجلیات اوصافی ، تجلیاتِ اسمائی
لئے جھرمٹ میں آدم کو خدا کی ہر ادا آئی
نکاتِ علمِ ادریسی ہیں ذوقی شے نہ تدریسی
رموزِ علم الاسماء نہ سمجھا ذوق ابلیسی
چھپا تھا حق کے جو علمی خزانے میں نکل آیا
ھوالاول تھا حق کے جو علمی خزانے میں نکل آیا
خدا نے اپنی صورت دیکھ لی آدم کی آنکھوں سے
حقیقت نے حقیت دیکھ لی آدم کی آنکھوں سے
جو دیکھا ہی نہ جا سکتا تھا وہ دیکھا گیا دیکھو
خدا بندے کی صورت میں ہوا جلوہ نما دیکھو
معیت، اقربیت ، عینیت کی نسبتیں بخشیں
خدا نے خاک کے پتلے کو کیا کیا رفعتیں بخشیں
جمالِ حق ، حلالِ حق ، کمالِ حق، نظر آیا
صفاتِ حق سے جب آراستہ ہو کر بشر آیا
وہ آیا مظہر کامل ، وہ آیا مظہر جامع
ادھر انوار حق ساطع ، ادھر انوار حق لامع
فرشتوں مے بشر کے بھیس میں اللہ کو دیکھا
لباس بندگی میں جلوہ فرما شاہ کو دیکھا
فرشتوں کی جبینوں میں وہ سجدے جو امانت تھے
وہ سجدے کیا تھے تصدیق خلافت کی شہادت تھے
خلافت کی سند آدم کو دی مسجود فرمایا
جو اس مقبول سے الجھا اسے مردود فرمایا
فرشتوں پر سجود آدم خاکی سے رحمت ہے
٭ آبیٰ و استکبر ابلیس پر لعنت ہی لعنت ہے
ہوا انکار آدم منتہی انکار باری پر
نہاں اسرار خاکی رہ گئے شیطان ناری پر
نہ مانا امر جس نے اس نے آمر کو کہاں مانا
نہ جانا جس نے آدم کو ، خدا کو بھی کہاں جانا
گمان غیر مستخلف میں مستخلف میں باطل ہے
خدا کامل ہے اس کا آئینہ انسان کامل ہے
نہ اٹھا آسماں سے بار جس کا وہ خلافت ہے
امانت ہی ، خلافت ہے ، خلافت ہی امانت ہے
صفت حق سے بندہ ہو گیا حق کا نمائندہ
یہی حو کی نمائندہ امانت ہے دل زندہ
چھا ہم میں دکھایا ہم کو حق نے ، یہ خلافت ہے
چھپانا خود کو دکھلانا خدا کو ، یہ امانت ہے
کمال حق ہے ہم سب کو دکھا کر آپ چھپ جانا
کمال بندگی رب کو دکھا کر آپ چھپ جانا
نبوت اصل میں ہے کافرمائی خلافت کی
نبوت اصل میں ہے علت غائی خلافت کی
رسولوں کی رسالت اور نبیوں کی نبوت سے
وہی مقصود ہے ، مقصود ہے جو خلافت سے
زمیں پر آسمانی رھمنائی عام ہوتی ہے
بشر کی گفتگو ، اللہ کا پیغام ہوتی ہے
خدا کے نام کی نشر و اشاعت کرنے والے ہیں
یہ وہ معصوم ہیں جو سب کی خدمت کرنے والے ہیں
خدا کے اسم ھادی کی تجلی ان کے دم سے ہے
خدا کا دین ، دنیا میں انہی کے دم قدم سے ہے
٭ آبیٰ واستکبر و کان من الکافرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چشمِ میگوں جامِ محبت
وہ خاص کیفِ عام محبت
بدنام ہونا ، نامِ محبت
ناکامیاں ہیں کامِ محبت
دوشِ ہوا پر گیسوئے رقصاں
ذوقِ اسیری دامِ محبت
زنجیرِ پائے موجِ صبا ہے
خوشبوئے گیسو دامِ محبت
اپنی محبت مقصود اپنا
ناکام ہیں ناکامِ محبت
کیا پیارے پیارے نام ہیں دل کے
طورِ تجلّی ، بامِ محبت
رہن ِ محبت اسبابِ ہستی
نقدِ دل و جاں دامِ محبت
وہ رُوئے رنگیں و ہ زلفِ شبگوں
صبحِ محبت ، شامِ محبت
معنیٰ ازل کے مطلب ابد کا
صبحِ محبت ، شامِ محبت
مسلک، ذہین ِ تاجی ہمارا
تعظیمِ دل، اکرامِ محبت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا
شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، مےخانہ بن جا
مے بن کر، مےخانہ بن کر، مستی کا افسانہ بن جا
مستی کا افسانہ بن کر، ہستی سے بیگانہ بن جا
ہستی سے بیگانہ ہونا، مستی کا افسانہ بننا
اس ہونے سے، اس بننے سے، اچھا ہے دیوانہ بن جا
دیوانہ بن جانے سے بھی، دیوانہ ہونا اچھا ہے
دیوانہ ہونے سے اچھا، خاکِ درِ جانانہ بن جا
خاکِ درِ جاناناں کیا ہے، اہلِ دل کی آنکھ کا سُرمہ
شمع کے دل کی ٹھنڈک بن جا، نُورِ دلِ پروانہ بن جا
سیکھ ذہین کے دل سے جلنا، کاہے کو ہر شمع پہ جلنا
اپنی آگ میں خود جل جائے، تو ایسا پروانہ بن جا
 
یہ میرے لئے بہت بڑا انکشاف ہے
شمس الدین عظیمی کے کالم روحانی ڈاک کے عنوان سے کبھی اخبار جہاں میں پڑھا کرتا تھا مگر اس نے کبھی متاثر نہیں کیا اس کی تحریروں سے خود نمائی کی بو آتی تھی
اتنی بڑی بات آپ نے کہ دی کیا اس بارے میں کچھ مزید روشنی ڈال سکتے ہیں؟
اس پر غالبا 20 سال مقدمہ بھی رہا ہے مجھے کراچی کے ایک دوست نے بتایا تھا دراصل میرا موبائل کھو گیا ہے اس میں اس دوست کا نمبر تھا اس نے تو قلندر بابا اولیاء کے بارے میں بھی عجیب و غریب داستان سنائی ہے جو کہ ادھر بتانے کے قابل نہیں ہے کیونکہ خواہ مخواہ لوگ مذاق اڑائیں گے کہ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عظیم برخیاہ مرد نہیں ایک عورت تھا اور جون بدلنے پر قادر تھا بہرحال علم تنفس کا بہت بڑا ماہر تھا اور جو علم تنفس کے ماہر ہوتے ہیں وہ جون بدلنے پر قادر ہوتے ہیں۔
جن دوست نے یہ انکشاف کیا ان کی فیس بک آئیڈی حاضر ہے ان سے آپ انباکس میں میرے حوالے سے پوچھ سکتے ہیں
https://www.facebook.com/profile.php?id=100005664192318
 
ابھی کچھ دن پہلے ہی فیس بک پر ان کا تعارف اور منتخب کلام نظروں سے گزرا تھا۔

آج ممتاز اردوصوفی شاعر، فلسفی اور اسکالر بابا ذہینؔ شاہ تاجی کی برسی ہے
July 23, 1902
معروف اردوصوفی شاعر، فلسفی،اسکالر ، 1902ء جے پور(راجستھان) میں پیدا ہوئے اور 23 جولائی 1978ء کو کراچی میں انتقال کیا ۔چشتیہ سلسلے سے تعلق رہا۔ اصل نا م : محمد طوسین ، حضرت سلطان التارکین خواجہ حمید الدین ناگوریؒ کی نسبت سے خواجہ ان کا خاندانی لقب تھا۔ان کا پہلا تخلص طاسین تھا۔ : بعد میں انہوں نے اپنا تخلص ذہینؔ رکھا۔ آپ کئی کتابوں اور مقالوں کے مصنف ہیں ،اردو ، فارسی ، عربی ،ہندی اور انگریزی زبانوں میں سیکڑوں غزلیں کہی ہیں ۔ابنِ عربی کی دو کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ،جو ’’فسوس الحکمۃ ‘‘ اور ’’ فتوحات المکیہ‘‘ کے عنوانات سے شایع ہوئیں ۔مزید برآں ’’الحلّاج‘‘ کی تصنیف کا اردو زبان میں ’’ کتاب الطواسین‘‘ کے عنوان سے ترجمہ بھی کیا ۔اردو اور فارسی میں ایک کتاب ’’تاج الاولیاء ‘‘ بھی تصنیف کی، تاج الاولیاء دراصل حضرت بابا تاج الدین ناگپوری کی سوانح حیات ہے۔بابا ذہین شاہ تاجی کے درس میں اُس وقت کی نابغہ روزگار شخصیات شریک ہوا کرتی تھیں ، جن میں پروفیسر اے۔ بی حلیم (جامعہ کراچی کے پہلے وائس چانسلر) ، جوش ملیح آبادی ، مولانا کوثر نیازی ، مولانا ماہر القادری ، پروفیسر کرّار حسین ، پروفیسر حسرت کاسگنجوی ، الیاس عشقی ، ڈاکٹر پروفیسر ابو الخیر کشفی ، رئیس امروہوی اور سید محمد تقی وغیرہ قابلِ تذکرہ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سات سال کی عمر میں قرآن مجید ختم کیا۔گیارہ اور بارہ سال کی عمر میں فارسی کی معروف کتابیں پڑھیں اور پھر علام دینیہ کے طالب ہوئے۔وہ کہتے تھے کہ کہنے والوں نے مجھے عالم فاضل، مولوی،مولانا،علامہ،ادیب شاعر اور نہ جانے کیا کیا خطابات دیئے مگر علم کی پیاس نہ بجھنی تھی نہ بجھی۔
بمشکل نو سال کی عمر میں انہوں نے شعر کہنا شروع کیا۔ان کے والد محترم بھی شاعر تھے۔فارسی اور اردو میں بہت اچھے اشعار کہتے تھے فرآقیؔ تخلص فرماتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔
کلمات اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظہور خلق کی سن گن سے پہلے
خدا کے پاس تھے ہم کُن سے پہلے
خدا کے علم میں آباد تھے ہم
بئے ایجاد خود بنیاد تھے ہم
خدا کا علم تھا اپنا ٹھکانہ
ازل سے بے مکاں و بے زمانہ
یہ موجودات معلومات حق ہیں
کتاب اللہ کی آیات حق ہیں
یہ موجودات معلومات حق ہیں
یہ کُن کی صورتیں آیات حق ہیں
ارداے میں خدا کے جا گزیں تھے
نہ تھا کچھ بھی تو جو کچھ تھے ہمیں تھے
خطاب کُن کیا ہم نے سماعت
ہمارا کام ہے سمع و اطاعت
خدا نے کُن کہا تو ہو گئے ہم
خدا نے نم کہا تو سو گئے ہم
خدا کا فعل کُن ارشاد کرنا
ہمارا فعل کُن ایجاد کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلافت و نبوت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان اللہ خلق آدم علٰی صورۃ
خدا جانا گیا ، مانا گیا ، پایا گیا ہم سے
نفخت فیہ من روحی کو وہ نسبت ہے آدم سے
روا تنزیہہ نے تشبیہہ میں تکلیف فرمائی
ہوئی آدم کی صورت میں خدا کی صورت آرائی
خدا ہی روح آدم ہے خدا ہی صورت آدم
خدا کا دیکھنا ہے در حقیقت رویتِ آدم
وجودِ علمی حق صورت اعیان میں آیا
وہی اجمال ، تفصیلاً بشر کی شان میں آیا
متاعِ کنزِ مخفی آ گیا بازار ہستی میں
بشر بسجود ہوتا ہے حریم حق پرستی میں
نظر آتا ہے مسجودِ ملائک، آدمِ خاکی
قدم لیتا ہے جھک جھک کر زمیں کی اوج افلاکی
تجلیات اوصافی ، تجلیاتِ اسمائی
لئے جھرمٹ میں آدم کو خدا کی ہر ادا آئی
نکاتِ علمِ ادریسی ہیں ذوقی شے نہ تدریسی
رموزِ علم الاسماء نہ سمجھا ذوق ابلیسی
چھپا تھا حق کے جو علمی خزانے میں نکل آیا
ھوالاول تھا حق کے جو علمی خزانے میں نکل آیا
خدا نے اپنی صورت دیکھ لی آدم کی آنکھوں سے
حقیقت نے حقیت دیکھ لی آدم کی آنکھوں سے
جو دیکھا ہی نہ جا سکتا تھا وہ دیکھا گیا دیکھو
خدا بندے کی صورت میں ہوا جلوہ نما دیکھو
معیت، اقربیت ، عینیت کی نسبتیں بخشیں
خدا نے خاک کے پتلے کو کیا کیا رفعتیں بخشیں
جمالِ حق ، حلالِ حق ، کمالِ حق، نظر آیا
صفاتِ حق سے جب آراستہ ہو کر بشر آیا
وہ آیا مظہر کامل ، وہ آیا مظہر جامع
ادھر انوار حق ساطع ، ادھر انوار حق لامع
فرشتوں مے بشر کے بھیس میں اللہ کو دیکھا
لباس بندگی میں جلوہ فرما شاہ کو دیکھا
فرشتوں کی جبینوں میں وہ سجدے جو امانت تھے
وہ سجدے کیا تھے تصدیق خلافت کی شہادت تھے
خلافت کی سند آدم کو دی مسجود فرمایا
جو اس مقبول سے الجھا اسے مردود فرمایا
فرشتوں پر سجود آدم خاکی سے رحمت ہے
٭ آبیٰ و استکبر ابلیس پر لعنت ہی لعنت ہے
ہوا انکار آدم منتہی انکار باری پر
نہاں اسرار خاکی رہ گئے شیطان ناری پر
نہ مانا امر جس نے اس نے آمر کو کہاں مانا
نہ جانا جس نے آدم کو ، خدا کو بھی کہاں جانا
گمان غیر مستخلف میں مستخلف میں باطل ہے
خدا کامل ہے اس کا آئینہ انسان کامل ہے
نہ اٹھا آسماں سے بار جس کا وہ خلافت ہے
امانت ہی ، خلافت ہے ، خلافت ہی امانت ہے
صفت حق سے بندہ ہو گیا حق کا نمائندہ
یہی حو کی نمائندہ امانت ہے دل زندہ
چھا ہم میں دکھایا ہم کو حق نے ، یہ خلافت ہے
چھپانا خود کو دکھلانا خدا کو ، یہ امانت ہے
کمال حق ہے ہم سب کو دکھا کر آپ چھپ جانا
کمال بندگی رب کو دکھا کر آپ چھپ جانا
نبوت اصل میں ہے کافرمائی خلافت کی
نبوت اصل میں ہے علت غائی خلافت کی
رسولوں کی رسالت اور نبیوں کی نبوت سے
وہی مقصود ہے ، مقصود ہے جو خلافت سے
زمیں پر آسمانی رھمنائی عام ہوتی ہے
بشر کی گفتگو ، اللہ کا پیغام ہوتی ہے
خدا کے نام کی نشر و اشاعت کرنے والے ہیں
یہ وہ معصوم ہیں جو سب کی خدمت کرنے والے ہیں
خدا کے اسم ھادی کی تجلی ان کے دم سے ہے
خدا کا دین ، دنیا میں انہی کے دم قدم سے ہے
٭ آبیٰ واستکبر و کان من الکافرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چشمِ میگوں جامِ محبت
وہ خاص کیفِ عام محبت
بدنام ہونا ، نامِ محبت
ناکامیاں ہیں کامِ محبت
دوشِ ہوا پر گیسوئے رقصاں
ذوقِ اسیری دامِ محبت
زنجیرِ پائے موجِ صبا ہے
خوشبوئے گیسو دامِ محبت
اپنی محبت مقصود اپنا
ناکام ہیں ناکامِ محبت
کیا پیارے پیارے نام ہیں دل کے
طورِ تجلّی ، بامِ محبت
رہن ِ محبت اسبابِ ہستی
نقدِ دل و جاں دامِ محبت
وہ رُوئے رنگیں و ہ زلفِ شبگوں
صبحِ محبت ، شامِ محبت
معنیٰ ازل کے مطلب ابد کا
صبحِ محبت ، شامِ محبت
مسلک، ذہین ِ تاجی ہمارا
تعظیمِ دل، اکرامِ محبت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا
شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، مےخانہ بن جا
مے بن کر، مےخانہ بن کر، مستی کا افسانہ بن جا
مستی کا افسانہ بن کر، ہستی سے بیگانہ بن جا
ہستی سے بیگانہ ہونا، مستی کا افسانہ بننا
اس ہونے سے، اس بننے سے، اچھا ہے دیوانہ بن جا
دیوانہ بن جانے سے بھی، دیوانہ ہونا اچھا ہے
دیوانہ ہونے سے اچھا، خاکِ درِ جانانہ بن جا
خاکِ درِ جاناناں کیا ہے، اہلِ دل کی آنکھ کا سُرمہ
شمع کے دل کی ٹھنڈک بن جا، نُورِ دلِ پروانہ بن جا
سیکھ ذہین کے دل سے جلنا، کاہے کو ہر شمع پہ جلنا
اپنی آگ میں خود جل جائے، تو ایسا پروانہ بن جا
تعارف بھی زبردست اور کلام بھی ۔۔۔
 
کوئی تُک بھی ہے جناب والا، مجھ رندِ خراباتی اور حضرت ذہین شاہ تاجی کے مابین ارتباط و اختلاط۔۔۔۔ وہ غیب ہیں، میں شہود، وہ ذِکر ہیں، میں فکر، وہ معتقد ’’الہام‘‘ ہیں میں منکر پیغام، وہ درود، میں عود، وہ حرم، میں بیت الصنم، وہ محونالۂ صباحی، میں غرقِ دجلۂ صراحی، وہ گریۂ شبانہ، میں خندہ ٔ سحر گاہانہ، وہ نقیب لالہ، میں خطیبِ منبر گناہ۔۔۔ وہ یقین کی گلی میں بڑے اطمینان کے ساتھ دھونی رمائے بیٹھے ہیں، میں تشکُّک کی وادیوں میں یہ کہتا ہوا، خاک چھان رہا ہوں کہ:

صبا، بلطف بگو آں غزالِ رعنا را

کہ سر بکوہ و بیابان تو دادۂ مارا

“اے صبا اس نازنین ہرن سے نرمی سے کہہ دے

کہ ہمارا سر کوہ و بیاباں کے حوالے تو نے ہی تو کیا ہے”

اُن کی آنکھوں میں رازیابی کا سرور ہے، میرے دل میں تجسُّس کا ناسور ہے، ان کو اپنے علم کا احساس ہے، میں اپنے جہل کا معترف اور رو رہا ہوں کہ : ایں ہا ہمہ راز ست کہ معلوم ِ عوام ست۔ وہ گردن جھکاتے ہیں اور ’’جلوۂ یار‘‘ کو سامنے پاتے ہیں، میں ہر طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہوں کہ:

ساقیٔ مطرب و مے، جملہ مہیاست ولے

کیف بے یار میسّر نہ شود، یار کُجاست؟

(شراب، گوّیا،پھول سب مہیا ہیں

یار کے بغیر لطف نہیں، کہاں ہے یار)

Ayat-e-Jamal-Big-2.jpg


وہ جب صبح کے گلابی نور میں آنکھیں اُٹھاتے ہیں، تو ’’شاہد غیب‘‘ کے جلوؤں کے پھولوں سے ان کی نظر کا دامن بھر جاتا ہے اور : ’’گُل چینِ بہارِ تو، زدامان گلہ دارد‘‘ کے ترانے چھڑ جاتے ہیں، اور میں نامُراد جب منھ اندھیرے جاگتا ہوں تو یہ شعر بے ساختہ زبان پر جاری ہوجاتا ہے:

شبِ تار است و رہِ وادیٔ ایمن درپیش

آتشِ طور کجا، وعدہ دیدار کجاست؟

(رات اندھیری ہے اور راہِ وادئ ایمن درپیش ہے

کہاں ہے آتشِ طور، ہے کہاں وعدہء دیدار)

اور جب، گُریز پا ستاروں پر نظر جماتا ہوں تو گریبان پھاڑ کر چلّاتا ہوں:

اے رات گئے کے غم گسارو، بولو

اے عالمِ بالا کے اشارو، بولو

اِس پردۂ رنگ و بو میں پوشیدہ ہے کون؟

بولو، اے ڈوبتے ستارو، بولو

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ میں اور ذہین شاہ میں کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے؟ اسی کے ساتھ ساتھ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ شاہ صاحب کا یہ ارشاد ہے کہ ’’نَفَسِ کُلّی‘‘ اور حقائقِ کائنات کا ادراک، وجدان، اور فقط وجدان سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وجدان ایک ایسی طاقت ہے، جو فقط فنونِ لطیفہ کی تخلیق و تزئین کے کام آتی ہے، تفتیش و تحقیق اس کا وظیفہ ہی نہیں۔ وہ ایک مقیّش کا پھندنا ہے۔ جس سے میدانِ جستجو میں پھاوڑے کا کام لیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس بنا پر میرا ایمان ہے کہ صرف تفکُّر و تدبّر ہے، جس کی چٹکی، لیلائے کائنات کے مکھڑے سے نقاب اٹھاتی ہے۔

شاہ صاحب کا تصوّف، ذرّوں میں بھی موتی دیکھ لیتا ہے اور میری فکر سچّے موتیوں پر بھی نگاہ جماتی ہے تو آنسوؤں میں تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔

Josh.jpg


ہم نے پھولوں کو چھوا، پل بھر میں، کانٹے بن گئے

اُس نے، کانٹوں پر قدم رکّھا، گلستاں کردیا

وہ ’’آہ‘‘ کے شیدائی ہیں، میں ’’نگاہ‘‘ کا۔۔۔۔اُن کا نعرہ ہے:

دُعائے صبح و آہِ شب، کلیدِ گَنجِ مقصود ست

بایں راہ و رَوش می رَو کہ بادل دار پیوندی

(گوہرِ مقصود کی کنجی دعائے صبح و آہِ شب میں ہے

انہی راہوں، روشو ں پر چلو کہ دلدار کا وصال نصیب ہو)

اور میں پُکار پُکار کر کہتا ہوں:

حاصل کار گہِ کون و مکاں، ایں ہمہ نیست

بادَہ پیش آر کہ اسبابِ جہاں ایں ہمہ نیست

(کون و مکاں کی اس کارگاہ کا حاصل یہی سب نہیں

شراب لا کہ اسبابِ جہاں یہی سب نہیں)

اُن کے اشراقی گنبد میں :’’السلام، اے عشق خوش سودائے ما‘‘(السلام اے عشق، ہمارے جنونِ خوش ”[1])، کے ترانے چھڑے ہوئے ہیں۔ اور میری کار گاہِ تامُّل سے،’’السّلام، اے عقل خوش ملجائے ما‘‘ (السلام اے عقل ہماری بہترین پناہ گاہ!) کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہ، دل میں تجلّیات کا مشاہدہ کرکے فرماتے ہیں ’’ستارہ بدرخشید و ماہِ مجلس شد (ایک ستارہ چمکا اور ماہِ مجلس ہوگیا‘‘ اور میں خم خانہ ادراک میں گنگنا رہا ہوں کہ :

’’ما، در پیالہ، عکسِ رُخِ یار دیدہ ایم ‘‘ (ساغر میں ہم عکسِ رخِ یار کا دیدار کرتے ہیں)

وہ تصوف کی سہانی چاندنی میں مقاماتِ معنوی کا درس دے رہے ہیں، اور میں تجسس کی کڑی دھوپ میں کھڑا آواز دے رہا ہوں:

مصلحت نیست کہ از پردہ بُرون افتد راز

ورنہ در مجلس رندان، خبرے نیست کہ نیست

(راز کی پردہ کشائی خلافِ مصلحت ہے

ورنہ مجلسِ رنداں کسی خبر سے بے خبر نہیں)

ان دست و گریبان و متضاد حالات میں، ہمارے درمیان، آویزش کے بجائے ارتباط و اختلاط کا پیدا ہونا، اور اس کا، تھوڑے ہی دن کے بعد شدید محبت میں تبدیل ہوجانا ایک عجب معجزہ معلوم ہوتا ہے۔

جب تک کہ نہ دیکھا تھا، قدِ یار کا عالم

میں، معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

ارباب نظر ہماری محبت کو دیکھتے ہیں تو بھَوچکّا سے ہو کر رہ جاتے ہیں، اور، گھبرا گھبرا کر، ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، صاحبو، خدارا بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے، کوئی اﷲ کا بندہ کچھ روشنی ڈالے اس خَرَقِ عادت پر کہ خانقاہ و خرابات کے ڈانڈے کیسے مل گئے۔ قُلقُلِ مینا اور نعرۂ ’’یاہو‘‘ میں کن بنیادوں پر سمجھوتا ہوگیا، اور کاشیٔ بادہ و کعبۂ سجّادہ نے، ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں کیوں کر ڈال دیں۔

بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست ! (عقل حیرت سے جل گئی کہ یہ کیا بوالعجبی ہے!)

اب تو عالم یہ ہے کہ ہم دونوں، یعنی شاہ صاحب اور شاعر صاحب ایک دوسرے کی محبت میں بھی پڑ گئے ہیں، ایک طرف تو میرے برادران فکر، تیوری چڑھا چڑھا کر، مجھ کو طعن و تشنیع کا ہدف بنائے ہوئے ہیں، اور ان کی ناکیں لانبی ہو ہو کر مجھ سے، کہہ رہی ہیں کہ کدھر چلے پیرومرشد، کیا اپنی عقل کے ساتھ ساتھ، ہم سب کا بیڑا بھی غرق کردینے پر کمر باندھ لی ہے، اور سب کی آنکھیں، ایک دوسرے کی طرف اُٹھ اُٹھ کر، یوں پوچھ رہی ہیں۔

؎ چیست، یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیر ما؟

(اب کے اے یاران ِ طریقت،ہم کیا تدبیر کریں؟)

اور دوسری طرف، حضرت کے صاحب ذکر معتقتدین میں کھلبلی سی مچی ہوئی ہے، وہ مٹّھیوں میں اپنی اپنی داڑھیاں پکڑ پکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اُن کے آقا و مولیٰ کو آخر ہوکیا گیا ہے کہ وہ جوشؔ کے سے بد عقیدہ و بے یقین ملحد کو اپنی مسند پر بٹھاتے ہیں اور کلیجے سے لگاتے ہیں۔

جس کا نتیجہ ہے کہ اب ہم دونوں، ایک دوسرے سے گا گا کر یہ کہہ رہے ہیں:

’’میں تو ہوگئی بدنام، سنوریا تورے لیے!‘‘

بات یہ ہے کہ میرے احباب اور حضرت کے معتقدین کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو چاہتے کیوں ہیں۔ ہم پر تو وہی مثل صادق آتی ہے کہ :

؎ ہرکسے، از ظنّ خود، شُد یارِ من

وزدرونم، کس نجُست اَسرارِ من

(ہر کوئی میرا عاشق ہونے کا دعویدا ر تو ہے مگر

میرا رازِ دروں میرے اسرار کا متلاشی کوئی نہیں)

اُن بے چاروں کا یہ خیال ہے کہ حضرت شاہ صاحب اور میرے مابین جو محبت پائی جاتی ہے وہ اس امر پر مبنی ہے کہ شاہ صاحب کے عشق نے، میری عقل کے سامنے، یا، میری عقل نے اُن کے عشق کے آگے سِپر ڈال دی ہے۔ اور اُس کے ساتھ ساتھ:

تم ظلم چھوڑ دیتے، ہم ترک آہ کرتے

کچھ تم، نباہ کرتے، کچھ ہم نباہ کرتے

پر کاربند ہوکر حضرت کے تیّقن اور اس خاک سار کے تَفَحُص کے درمیان، چپکے سے مصالحت کی کوئی، مروت آمیز، صورت نکل آئی ہے۔

اُن لوگوں سے کوئی، ببانگ دُھل یہ بات کہہ دے کہ نابابا اس نوع کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے آپس میں ذرّہ برابر بھی لین دین نہیں کیا ہے۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے اصول و عقائد پر پہاڑوں کی طرح، ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اس تاریخ تک کوئی ایسا قرینہ، دور دور تک بھی نظر نہیں آ رہا ہے کہ میں، خدا نخواستہ، ایقان کی طرف مُڑ جاؤں گا، اور حضرت جادۂ تشکک پر گام زَن ہوجائیں گے (اﷲ کرے گام زَن ہوجائیں) حضرت کا عشق مجھے پھسلا رہا ہے:
’’موری گلی آجا، ہو بالما‘‘

اور میری عقل، ٹھُنَک ٹھُنَک کر کہہ رہی ہے :

’’نجریوں سے بھردوں گی جی، چھونے نہ دوں گی شریر‘‘

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر شدید تخالُف، تباین اور تضاد کے باجود وہ کون سی طاقتور قدرِ مشترک ہے، جس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کی محبت پر مجبور و مامور کردیا ہے۔ مجھ کو بابا ذہین شاہ کے دل کا حال معلوم نہیں، اس لیے قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھ کو اس قدر کیوں چاہتے ہیں۔ اور وہ میری کون سی ادائے کفر ہے جو انھیں بھا گئی ہے۔ اس موقع پر ایک پرانی بات یاد آگئی، وہ سُن لیجیے، شاید اُس سے اس صورت حال پر کچھ روشنی پڑ سکے۔ ایک تھیں، خیرآباد کی، فیروزی بَجیا، اُن میں کسی قدر، سَنَک تھی، ایک دن وہ ملیح آباد آئیں اور اُمُ الشعرأ یعنی میری رفیقۂ حیات سے، بڑے استعجاب کے ساتھ کہنے لگیں بیٹا یہ بھَونرا خان اَذان کے بیچ میں میرا نام کیوں لیا کرتے ہیں۔ میری بیوی نے، مسکرا کر، ان سے کہا فیروزی بجیا کیسی باتیں کررہی ہو، اﷲ اﷲ کرو، ہم نے بھونرا خان کی اذان میں تمہارا نام کبھی سنا ہی نہیں، بولیں، ارے تم لڑکیوں کے تو کان ٹھپ ہوچکے ہیں۔ ابھی ابھی تو انھوں نے اذان دی تھی، اﷲُ اکبر اﷲُ اکبر، حَیّ علی الفلاح، فیروزی بَجیا تُوبہ، (بِضمّ ’’تا‘‘) میری بیوی نے کہا یہ بھونرا خان کو کیا لت لگ گئی ہے کہ عین اَذان کے بیچوں بیچ ’’فیروزی بجیا توبَہ‘‘ کہتے ہیں، یہ سُن کر انھوں نے کہا کہ وہ میرانام اذان کے بیچ میں اس لیے لیتے ہیں کہ میری کوئی ’’خوبو‘‘ (واو مجہول کے ساتھ) ان کو پسند آگئی ہے۔ سو اگر اس خاک سار سے کوئی دریافت کرے کہ شاہ صاحب تجھ کو چاہتے کیوں ہیں تو میں فیروزی بجیا کی طرح جواب دوں گا کہ حضرت کو میری کوئی ’’خوبو‘‘ پسند آگئی ہے۔

اس ’’خوبو‘‘ کی بات کو چھوڑ کر، میں اپنی ذات میں کوئی ایسا وصف نہیں پاتا کہ کوئی پیرِ خانقاہ، مجھ رندِ نامہ سیاہ سے محبت کرسکے۔

سوداؔ نے شاید اسی منزل میں یہ شعر کہا تھا:۔

سودا، جو ترا حال ہے، اُتنا تو نہیں وہ

کیا جانیے، تُو نے اسے کس آن میں دیکھا

اب رہا یہ امر کہ پرستارِ عقل و بندۂ فکر ہونے کے باوجود، میں بابا ذہین شاہ سے کیوں محبت کرتا ہوں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے جس چیز نے، میرے دل کو ان کی طرف کھیچنا شروع کیا وہ ان کا چہرہ ہے۔ چہرہ، انسان کی کتابِ سیرت کی فہرستِ ابواب ومضامین اور اس کی تمام شخصیت کا ترجمان و مفسر ہوتا ہے۔

میں ان اندھوں کی بات نہیں کررہا ہوں، جن کو، ’’آنکھوں کے اندھے، نام نین سکھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک تو چہرہ اور تلوار، دونوں یکساں ہوتے ہیں، لیکن ’’بصیرۃ المومنین‘‘ رکھنے والے ارباب نظر، جب کسی کے چہرے کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ان کے لمسِ نگاہ کی چبھن سے منظور کا چہرہ بولنے لگتا ہے۔

چہرے جھوٹ نہیں بولا کرتے، چند انے گنے جرائم پیشہ افراد کے، سدھے ہوئے دروغ گو چہروں کے علاوہ، تمام انسانوں کے چہرے، پچانویں فی صد، سچ اور سچ بولتے ہیں۔ اور، ایک آن میں، انسان کے تمام رذائل و فضائل کے دفتر کھول کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ تو بندہ پرور، جب پہلی بار میں ذہین شاہ کا چہرہ دیکھا تو اس نے میرا دل موہ لیا، ان کے چہرے نے مجھ سے کہا کہ میری یہ نورانیت، میری جوانی کا وہ جمال ہے، جو، ماہ و سال کی چھلنیوں سے گزر کے مجھ پر دمک رہا ہے۔ اور یہ صرف جوانی کے جمال ہی کی سہانی دمک نہیں، اس میں اس کے حسن کی معنوی جگمگاہٹ کا عنصر بھی شامل ہے، جس کا میں چہرہ ہوں۔ چہرے کے بعد زبان کی باری آتی ہے، زبان سے پتا چل جاتا ہے کہ متکلم کس خاندان اور کس طبقے کا فرد ہے، اور علم و فضل کے اعتبار سے کتنے پانی میں ہے۔ بعض اوقات چہرہ وزبان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کسی کا چہرہ شریف ہوتا ہے، زبان رذیل ہوتی ہے، اور کسی کی زبان شریف ہوتی ہے اور چہرہ رذیل ہوتا ہے۔ ہاں تو میں کہہ چکا ہوں کہ سب سے پہلے شاہ صاحب کے چہرے نے میرے دل پر اثر کیا، ایسے معنوی و صوری اعتبار سے، منّور و مرتب چہرے کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ اور اس کے بعد جب ان سے حرف و حکایت کی نوبت آئی، تو الفاظ کے رچاؤ، فقروں کے بہاؤ اور لہجے کے سبھاؤ نے یہ بات میرے دل پر نقش کردی کہ میں ایک ایسے غیر معمولی مقناطیسی انسان کے روبرو بیٹھا ہوا ہوں، جس کا چہرہ بھی عالی خاندان ہے اور زبان بھی نجیب الطرفین۔ حافظ شیرازی کا محبوب بظاہر نرم اور بباطن سخت تھا، اور اسی لیے اس نے منھ پیٹ کر کہا تھا:۔

Baba-Kosar.jpg


چہ قیامت است جاناں کہ بعاشقان نمودی

رُخِ ہمچو ماہِ تاباں، دلے، ہمچو سنگِ خارا

(کون سی قیامت ہے جوتو نے اپنے چاہنے والوں پر نہ توڑی ہو

رُخ ماہِ تاباں جیسا اور دل سنگِ خارا سے سخت تر!)

لیکن میرے محبت کے رُخ اور دل میں بڑی ہم آہنگی ہے اور اسی لیے میں یہ کہہ رہا ہوں:۔

رُخے ہمچو ماہِ تاباں، دلے ہمچو موجِ کوثر

(رُخ جیسے ماہِ تاباں،دل مانندِ موجِ کوثر)

اور اب، جب کہ ہماری ملاقات پُرانی ہوکر، بے تکلّفی کے حدود میں داخل ہوچکی ہے، یہ سوچ کر میں بہت ہی خوش اور مطمئن ہوں کہ میرے اوّلین تاثرات قطعی درست نکلے، اورمیں نے اپنی محبت کے واسطے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا ہے جو صوریٔ و معنوی، دونوں جہات سے چاہے اور سراہے جانے کے قابل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ شاہ صاحب کا ایک ایسا غیر معمولی وصف بھی بیان کرنا چاہتا ہوں جو فقط پیمبروں، فلسفیوں اور حقیقی شعراء میں پایا جاتا ہے۔ (شعرا کے ساتھ ’’حقیقی‘‘ کی شرط میں نے اس غرض سے لگائی ہے کہ ہندوستان آکر، یہ عظیم لفظ اس قدر اوچھا ہوچکا ہے کہ یہاں ہر صاحبِ تخلص موزوں طبع تُک بند کو شاعر کا خطاب دے دیا جاتا ہے)

لیکن شاہ صاحب کے اس غیر معمولی وصف بیان کرنے سے پیش تر آپ کو کسی انگریزی فلسفی کا یہ قول سُنا دینا چاہتا ہوں کہ صدیوں کی فکری تربیت اور ذہنی تطہیر کے بعد، ہماری قوم کو شرافتِ نفس و نجابتِ برداشت کی یہ دولت حاصل ہوئی ہے کہ ہمارے مخالفین، ہمارے منھ پر، ہمارے مسلّمات کا مذاق اُڑاتے، اور ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، ہم کو صلواتیں سُناتتے ہیں، تو ہم کو غصہ نہیں آتا، غصّہ کیسا، اُن کے طعن و تشنیع اور حرفِ دشنام کو سُن کر ہم مسکراتے ہیں۔ پیشانیوں پر بل نہیں پڑنے دیتے، اور معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ اُس وقت ہم اس بات پر غور کرنے لگتے ہیں کہ شاتم نے جن عیوب کو ہم سے وابستہ کیا ہے، آیا ہم میں وہ عیوب ہیں کہ نہیں اور جب ان عائد کردہ عُیوب میں سے کوئی عیب ہم اپنے میں موجود پاتے ہیں تو اس سے دست بردار ہونے کی دُھن میں لگ جاتے ہیں۔ بالکل یہی حال ہے شاہ صاحب کا۔ میں، ان کے منھ پر اُن کے مسلمات و عقائد پر چوٹیں کرتا اور ایسی نظمیں سُناتا ہوں جن کو عرفِ عام میں کافرانہ کہا جاتا ہے، لیکن ان کے ماتھے پر بَل نہیں پڑتے، بل پڑنا تو درکنار، وہ بڑی مٹھاس کے ساتھ مسکرانے لگتے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جب مجھے اُن پر بڑا پیار آنے لگتا ہے۔ شاہ صاحب سے میری محبت کی ایک نفسیاتی وجہ اور بھی ہے۔ جانتا ہوں کہ اس وجہ کے بیان کرنے سے میرا ایک پول کھل جائے گا، مگر سچ بولنے میں، ایک نہیں، ہزار پول بھی کُھل جائیں تو مردانِ خدا کو پروا نہیں ہوتی۔ جناب والا، یوں تو مجھ کو اس بات پر بڑا فخر ہے کہ میں تفکر کا دیرینہ پرستار، اور توہم کا کھلا ہوا دشمن ہوں۔ لیکن میرے سینے میں شاعر کا کم بخت دل ہے جو زور زور سے دھڑکتا رہتا ہے۔

میری شخصیت شبیّر حسن خان اور جوشؔ ملیح آبادی کے درمیان بٹی ہوئی ہے، شبیر حسن خان حکمت کے پجاری ہیں، لیکن جوش ملیح آبادی افسانہ و افسوں کے دلدادہ ہیں۔ شبیر حسن خاں بوڑھے ہیں، جوش ملیح آبادی ابھی تک لونڈا ہے۔ شبیر حسن خان جب تک جاگتے رہتے ہیں، جوش ملیح آبادی، ڈر کے مارے ان کے سامنے نہیں آتا۔ لیکن بشری کمزوریوں کے باعث جب شبّیر حسن خان پر، اونگھ طاری ہوجاتی ہے تو جوش ملیح آبادی، دبے پاؤں آتا، اور میرے دامن کو ’’شاہدِ غیب‘‘ کے ’’جمال‘‘ کی طرف کھینچنے لگتا ہے۔ اُس لونڈے کے ساتھ، بڑی بڑی نورانی داڑھیوںن کے، فرشتے بھی آتے ہیں اور جادو کے جزیرے دکھانے لگتے ہیں، اور اس وقت خدا جانے وہ کون ہے جو بڑی سریلی آواز میں یہ گیت گانے لگتا ہے:

’’گوری انکَس چلو،مورے سنگ‘‘

اور شاید یہ میرا جوشؔ ملیح آبادی ہے، جس نے مجھ کو شاہ صاحب پر فریفتہ کررکھا ہے، اور یہاں تک کہ جب دس بارہ دن شاہ صاحب کی مفارقت پر گزر جاتے ہیں تو میرے دل میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اﷲ خیر کرے۔ دُھائی شبیر حسن خان کی!

ایک اور بات جو شاہ صاحب کی جانب میرے دل کو پکارتی ہے، وہ ان کی عالمانہ و شاعرانہ شخصیت ہے۔ شاہ صاحب کو مشرقی علوم پر بہت بڑی قدرت حاصل ہے اور ان کی شاعری میں گاہ گاہ ایسے مقامات آجاتے ہیں کہ دل پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

شاہ صاحب تصوف کے شاعر ہیں، میں تصوف سے کوسوں دور ہوں، لیکن ان کے بعض اشعار میں اس بلا کی جاذبیت پاتا ہوں کہ بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں جادو جو سر چڑھ کر بولے۔

تصوف کے دوش بدوش حضرت کے ہاں حُسنِ مجازی کی جھلکیاں بھی پائی جاتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ اُن کے سینے میں ایک چوٹ کھایا ہوا دل ہے جس کو انسانی جمال کی صیقل نے بنادیا ہے اور دراصل یہ حسنِ مجازی ہی ہے جو سیرت کو جمال، شاعری کو خدوخال اور نفس کو کمال عطا کرتا ہے۔

ان شوخ حَسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا

کچھ اور بلا ہوتی ہے، وہ دل نہیں ہوتا

حضرت کا کلام شایع ہورہا ہے، اس موقع پر بے ساختہ یہ بات دل میں آئی، میرے نہیں، میرے کھلنڈرے جوش ملیح آبادی کے دل میں آئی کہ میں اس کلام کے حُسن قبول کے واسطے اُس بارگاہِ احدیت میں دعا کروں، جس نے شعرا کو ’’تلامیذ الرحمن‘‘ کا خطاب دیا ہے، لیکن اس بات کے دل میں آتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ حکمت کے پجاری اور تحقیق کے دلدادہ شبیر حسن کا چہرہ سُرخ ہوگیا، ماتھے پر، سیکڑوں شکنیں پڑگئیں کہا خبردار دعا نہ مانگنا، یاد ہے تجھ کو اپنے معنوی برادر بزرگ اسد اللہ خاں کا یہ شعر :

دعا قبول ہو یارب کہ عمر خضر دراز

یہ سنتے ہی میں ہوش میں آگیا۔۔۔ اس لیے دعا سے توبہ کرکے، اب میں یہ کہوں گا کہ میری دلی تمنا ہے کہ حضرت کا دیوان قبول خاطر کا تاج پہنے، اور لوگ اس کو سرآنکھوں پر جگہ دیں، اور اسی کے ساتھ ساتھ میری یہ آرزو بھی ہے کہ شاعر صاحب اور شاہ صاحب کی محبت نے یہ درویشی و رندی کا جو سنگم بنایاہے، اس کا پاٹ روز بروز بڑھے، اور بڑھتے بڑھتے بے کراں ہوجائے۔

مَرا، از تُست، ہر دم تازہ عشقے

تُرا، ہر ساعتے حُسنِ دگر باد

(مجھے ہر لمحے تجھ سے نیا عشق ہے

تجھے ہر گھڑی نیا حسن ملے)

جوش

[1] یہ شعر مثنوی مولوی میں ہے اور یوں ہے” شادباش اے عشق خوش سودائے ما۔۔۔۔۔ اے طبیب جملہ علت ہائے ما۔ یعنی خوش رہ اے عشق، ہمارے اچھے جنون۔ اے ہمارے سب بیماریوں کے طبیب
فارسی اشعار کا ترجمہ قارئین کی سہولت کے لئے اضافہ کیا گیا ہے۔
عمدہ معلومات ہیں اور اچھی شراکت ہے ۔۔۔کلام میں جمال ہے ۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس پر غالبا 20 سال مقدمہ بھی رہا ہے مجھے کراچی کے ایک دوست نے بتایا تھا دراصل میرا موبائل کھو گیا ہے اس میں اس دوست کا نمبر تھا اس نے تو قلندر بابا اولیاء کے بارے میں بھی عجیب و غریب داستان سنائی ہے جو کہ ادھر بتانے کے قابل نہیں ہے کیونکہ خواہ مخواہ لوگ مذاق اڑائیں گے کہ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عظیم برخیاہ مرد نہیں ایک عورت تھا اور جون بدلنے پر قادر تھا بہرحال علم تنفس کا بہت بڑا ماہر تھا اور جو علم تنفس کے ماہر ہوتے ہیں وہ جون بدلنے پر قادر ہوتے ہیں۔
جن دوست نے یہ انکشاف کیا ان کی فیس بک آئیڈی حاضر ہے ان سے آپ انباکس میں میرے حوالے سے پوچھ سکتے ہیں
https://www.facebook.com/profile.php?id=100005664192318
قلندر بابا اولیاء اور ذہین شاہ تاجی دو مختلف شخصیات ہیں اور شمس الدین عظیمی کا ذہین شاہ تاجی سے تعلق نہیں رہا.
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
جزاک اللہ
پسند کرنے کا شکریہ
بابا ذہین شاہ تاجی کراچی میں ہمارے گھر سے کچھ دور رہائیش پزیر تھے اور ان کہ اہلیہ کی طرف میری والدہ کا روحانی فیوض و برکات کے حصول کی خاطر آنا جانا تھا کچھ کچھ یاد ہے بچپن میں ایک بار ان کے دولت کدے پر حاضری دی تھی
مشہور اداکار مظہر علی انہی کے فرذند ارجمند ہیں
بابا جی کی کتب آجکل نایاب ہیں مجھے بھی تلاش بیسار کے باوجود نہ مل سکی
بہت شکریہ۔
کاش کوئی مظہر علی سے رابطہ کر سکتا۔
 
Top