مکمل بائی فوکل کلب ۔ مشتاق احمد یوسفی

فرخ منظور

لائبریرین
بائی فوکل کلب
(از خاکم بدہن)
تحریر: مشتاق احمد یوسفی
چار مہینے ہونے آئے تھے۔ شہر کا کوئی لائق ڈاکٹر بچا ہوگا جس نے ہماری مالی تکالیف میں حسب لیاقت اضافہ نہ کیا ہو۔ لیکن بائیں کہنی کا درد کسی طرح کم ہونے کا نا م نہ لیتا تھا۔ علاج نے جب شدت پکڑی اورمرض نے پیچیدہ ہو کر مفلسی کی صورت اختیارکرلی تو لکھنؤ کے ایک حاذق طبیب سے رجوع کیا جو صرف مایوس اور لب گور مریضوں پر عمل مسیحائی کرتے تھے۔مریض کے جانبر ہونے کا ذرا بھی امکان نظر آئے تو بگڑ جاتے اور اسےدُھتکار کر نکلوا دیتے کہ جاؤ، ابھی کچھ دن اورڈاکٹر سے علاج کراؤ۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں کچھ ایسا اعجاز دیا تھا کہ ایک دفعہ ان سے رجوع کرنے کے بعد کوئی بیمار خواہ وہ بستر مرگ پر ہی کیوں نہ ہو،مرض سے نہیں مرسکتا تھا۔ دوا سے مرتا تھا۔ مرض کے جراثیم کے حق میں توان کی دواگویا آب حیات کاحکم رکھتی تھی۔غریبوں کاعلاج مفت کرتے،مگر رؤسا کو فیس لیے بغیرنہیں مارتے تھے۔ حکیم صاحب اونچا سنتےہی نہیں،اونچا سمجھتے بھی تھے۔ یعنی صرف مطلب کی بات۔ شاعری بھی کرتےتھے۔ ہم اس پراعتراض کرنے والے کون؟ لیکن مصیبت یہ تھی کہ طبابت میں شاعری اور شاعری میں طبابت کے ہاتھ دکھا جاتے تھے۔ مطلب یہ کہ دونوں میں وزن کے پابند نہ تھے۔ حکیموں میں اپنے علاوہ، استاد ابراہیم ذوؔق کے قائل تھے۔ وہ بھی اس بناء پر کہ بقول آزؔاد، استاد نے موسیقی اورنجوم سیکھنے کی سعیٔ نامشکورکے بعد طب کوچند روز کیا۔ مگراس میں خون ناحق نظرآنےلگے۔ چنانچہ انہی صلاحیتوں کارخ اردوشاعری کی طرف موڑدیا۔حکیم صاحب موصوف اپنی ذات و بیاض پرکامل اعتماد رکھتے تھے۔ ہاں کبھی اپنی ہی ایجاد کردہ معجون فلک سیرکے زیراثر طبیعت فراخدلی وفروتنی پر مائل ہوجائے تو سخن فہم مریض کے سامنے یہاں تک اعتراف کرلیتے کہ ایک لحاظ سےغالب ان سے بہتر تھا۔خط اچھے خاصےلکھ لیتا تھا۔مگراب وہ مکتوب الیہ کہاں، جنھیں کوئی ایسے خط لکھے۔
خاندانی حکیم تھے۔ اورخاندان بھی ایسا ویسا! ان کےپردادا قصبہ سندیلہ کے جالینوس تھے۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔حکیم جالینوس نابینا و کثیرالازدواج نہ تھا۔ یہ تھے۔ نباضی میں چار دانگ سندیلہ میں ان کاکوئی ثانی نہ تھا۔راویان رنگیں بیاں گزراش کرتے ہیں کہ آبائی حویلی میں چاربیگمات (جن میں ہر ایک چوتھی تھی)اوردرجنوں حرمیں اورلونڈیاں رلی پھرتی تھیں۔تہجد کے وقت وضو کرانے کی ہرایک کی باری مقررتھی،مگرآدھی رات گئےآواز دےکرسب کی نیند خراب نہیں کرتےتھے۔ہولےسےنبض چھوکرباری والی کوجگادیتےتھے اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غلط نبض پر ہاتھ ڈالا ہو۔
نبیرۂ جالینوس نے ہماری نبض، زبان، جگر، پیٹ، ناخن، قارورہ، پپوٹے۔۔۔ مختصر یہ کہ سوائے کہنی کے ہرچیز کا معائنہ فرمایا۔ فیس کا تعین کرنے سے پہلے ہماری کار کا انجن بھی اسٹارٹ کروا کے بچشمۂ خود ملاحظہ فرمایا اور فیس معاف کردی۔ پھر بھی احتیاطاً پوچھ لیا کہ مہینے کی آخری تاریخوں میں آنکھوں کے سامنے ترمرے ناچتے ہیں؟ ہم نے سر ہلا کر اقرار کیا تو مرض اور اردو زبان کے مزے لوٹتے ہوئے فرمایا کہ دست بخیر! مقام ماؤف پر جودرد ہے، درد میں جو چپک ہے، چپک میں جو ٹیس ہے، اور ٹیس میں جو کسک رہ رہ کر محسوس ہوتی ہے، وہ ریاحی ہے! بقول مرزا، یہ تشخیص نہ تھی،ہمارے مرض کی توہین تھی۔ہمارے اپنے جراثیم کے منہ پر طمانچہ تھا۔ چنانچہ یونانی طب سے رہا سہا اعتقاد چوبیس گھنٹوں کے لیے بالکل اٹھ گیا۔ ان چوبیس گھنٹوں میں ہم نے کہنی کا ہرزاویے سے ایکس رے کرایا۔ لیکن اس سے مایوسی اور بڑھی۔ اس لیے کہ کہنی میں کوئی خرابی نہیں نکلی!
پورے دو مہینے مرض میں ہند و یوگ آسن اور میتھی کے ساگ کا اضافہ کرنے کے بعد ہم نے مرزا سے جاکر کیفیت بیان کی۔ استماع حال کے بعد ہماری دائیں چپنی پر دو انگلیاں رکھ کر انہوں نے نبض دیکھی۔ ہم نے حیرت سےان کی طرف دیکھا تو بولے،چالیس سال بعد مرد کا دل نیچے اتر آتا ہے! پھر فرمایا، تمہارا علاج یہ ہے کہ فوراً بائی فوکل بنوالو۔ہم نے کہا مرزا! تم تو شراب بھی نہیں پیتے۔ کہنی کا آنکھ سے کیا تعلق؟ بولے،چار پانچ مہینےسےدیکھ رہاہوں کہ تمہاری پاس کی نظربھی خراب ہوگئی ہے۔کتاب نزدیک ہو تو تم پڑھ نہیں سکتے۔ تقاضائے سن ہی کہنا چاہیے۔تم اخباراورکتاب کوآنکھ سے تین فٹ دور بائیں ہاتھ میں پکڑ کے پڑھتے ہو۔ اسی لیے ہاتھ کے پٹھےاکڑ گئے ہیں۔چنانچہ کہنی میں جو درد ہے، درد میں جو۔۔۔۔۔ الخ۔
مانا کہ مرزاہمارے مونس وغم خوارہیں، لیکن ان کےسامنے افشائے مرض کرتے ہوئے ہمیں ہول آتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے فقیری چٹکلوں سے اصل مرض کوتوجڑ بنیاد سے اکھیڑ کر پھینک دیتے ہیں،لیکن تین چارنئے مرض گلے پڑجاتے ہیں،جن کےلیے پھر انہی سےرجوع کرنا پڑتا ہے۔اوروہ ہردفعہ اپنےعلاج سے ہرمرض کوچارسےضرب دیتے چلے جاتے ہیں۔ فائدہ اس طریق علاج کا یہ ہے کہ شفائےجزوی کے بعد جی پھرعلالت اصلی کے رات دن ڈھونڈتا ہے۔ اور مریض کو اپنےمفرد مرض کے مرحوم جراثیم بے طرح یاد آتے ہیں اوروہ ان کی شفقتوں کو یاد کرکرکے روتا ہے۔ کچھ دنوں کی بات ہے۔ہم نے کہا، مرزا! تین چار مہینے سے ہمیں تکیے پر صبح درجنوں سفید بال پڑے ملتے ہیں۔فرمایا، اپنے تکیے پر؟عرض کیا ہاں!شرلک ہومز کے مخصوص جاسوسی انداز میں چند منٹ گہرےغوروخوض کے بعد فرمایا،غالباً تمہارے ہوں گے۔ ہم نے کہا،ہمیں بھی یہی شبہ ہوا تھا۔ بولے،بھائی میرے! تم نےتمام عمر ضبط واحتیاط سے کام لیا ہے۔اپنے نجی جذبات کو ہمیشہ شرعی حدود میں رکھا ہے۔ اسی لیے تم 38سال کی عمرمیں گنجے ہوگئےہو!اس تشخیص کے بعد انہوں نے ایک روغنی خضاب کا نام بتایا، جس سے بال کالےاورمضبوط ہو جاتے ہیں۔ چلتے وقت انہوں نے ہمیں سختی سےخبردارکیاکہ تیل برش سے لگایا جائے ورنہ ہتھیلی پر بھی بال نکل آئیں گے،جس کے وہ اوردوا سازکمپنی ہرگز ہرگز ذمہ دارنہ ہوں گے۔ واپسی میں ہم نےانتہائی بے صبری کےعالم میں سب سے بڑے سائزکی شیشی خریدی اوردکاندارسےریزگاری بھی واپس نہ لی کہ اس میں سراسروقت کا ضیاع تھا۔ چالیس دن کے مسلسل استعمال سے یہ اثر ہوا کہ سرپرجتنےبھی کالےبال تھے،وہ توایک ایک کرکےجھڑ گئے۔البتہ جتنےسفیدبال تھے،وہ بالکل مضبوط ہوگئے۔چنانچہ آج تک ایک سفید بال نہیں گرا، بلکہ جہاں پہلے ایک سفید بال تھا، وہاں اب تین نکل آئے ہیں۔
بائی فوکل کا نام آتے ہی ہم سنبھل کے بیٹھ گئے۔ ہم نے کہا، مرزا! مگر ہم تو ابھی چالیس سال کے نہیں ہوئے۔ بولے، مرض کے جراثیم پڑھے لکھے نہیں ہوتے کہ کیلنڈر دیکھ کر حملہ کریں۔ ذرا حال تودیکھواپنا۔ صحت ایسی کہ بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹ نام سے بھاگتے ہیں۔ صورت ایسی جیسے، معاف کرنا، ریڈیوفوٹو۔ اور رنگ بھی اب گندمی نہیں رہا۔ خوف الہٰی واہلیہ سے زرد ہوگیا ہے۔اگر کبھی یاروں کی بات مان لیتے تو زندگی سنور جاتی۔ ہم نے کہا، ہمارا جوحال ہے وہ تنہا ایک آدمی کےغلط فیصلوں سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ہمیں تواس میں پوری قوم کا ہاتھ نظر آتا ہے! فرمایا، چاپان میں فن باغبانی کے ایک مخصوص شعبے بونسائی کو بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ماہرپشت رد پشت درختوں کواس چاؤچونچلے سےاگاتے اورسینچتے ہیں اوران کی اٹھان کواس طرح قابو میں رکھتے ہیں کہ تین تین سو سال پرانے درخت میں پھل پھول بھی آتے ہیں،پت جھڑ بھی ہوتا ہے،مگرایک بالشت سے اونچا نہیں ہونے پاتا۔ تم نےاپنی شخصیت کو اسی طرح پالا پوسا ہے۔
ہم نے آنکھوں میں آنسو بھر کےکہا، مرزا!ہم ایسے نہ ہوتے توتم کسےنصیحت کرتے؟کچھ نرم پڑے۔ فرمایا نصیحت سےغرض اصلاح کس مسخرے کو ہے۔مگرتم نے دماغ سے کبھی کام نہیں لیا۔ خالی چال چلن کے برتے پرساری زندگی گزاردی۔ ہم نے کہا،مرزا! تم تو یہ نہ کہو۔ ہم تمام عمراپنی خواہشات سےگوریلا جنگ کرتے رہے ہیں۔ تم ہمارے دل کے کھوٹ سے واقف ہو۔ یہ آتش شوق
پوری بجھی نہیں، یہ بجھائی ہوئی سی ہے

جہاں تک اعمال کا تعلق ہے،خداشاہد ہے کہ ہمارا کوئی کام، کوئی عمل خلاف شرع نہیں۔لکنف اگرجنت ودوزخ کا فیصلہ فقط نیت کی بناء پر ہوا تو ہمارے دوزخ میں جانےمیں خود ہمیں کوشبہ نظرنہیں آتا۔ مسکرادیے۔ فرمایا،جن خواتین نےاپنی خوبصورتی سے تمہارے دھیان گیان میں خلل ڈالا،ان کی تعداد، کچھ نہیں تو،کراچی کی نصف آبادی کے برابر تو ہوگی؟
ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ لڑکپن ہی سے ہم پرامن زندگی بسر کرنے کے سخت خلاف رہے ہیں۔ مار دھاڑ سے بھرپور جیمس بانڈ جیسی زندگی گزارنے کی خاطر کیسے کیسے جتن کیے۔انہیں توکیایادہوگا،قاضی عبدالقدوس ان دنوں ہمیں BULL FIGHTING کی ٹرینگ دیا کرتے تھے۔اورایک داڑھی داربوک بکرے کو سرخ ترکی ٹوپی پہنا کر،ہمیں اس کے خلاف اشتعال دلایا کرتے تھے۔مڈل میں 33نمبر سے حساب میں فیل ہونے کے بعد ہم نےذریعہ معاش کےبارےمیں یہ فیصلہ کیاکہ والدہ اجازت دےدیں تو PIRATE(بحری قزاق) بن جائیں۔ لیکن جب سن شعور کو پہنچے اور انگریزحکمرانوں سے نفرت کے ساتھ ساتھ نیک و بدکی تمیزبھی پیدا ہوئی توزندگی کے نصب العین میں،مرزاہی کے مشورے سے، اتنی اصلاح کرنی پڑی کہ صرف انگریزوں کے جہازوں کو لوٹیں گے۔مگر ان کی میموں کےساتھ بد سلوکی نہیں کریں گے۔ نکاح کریں گے۔
فرمایا ‘‘یہ سب علامتیں‘‘مڈل ایج’’کی ہیں، جو تمہارے کیس میں ذراسویرے ہی آگئی ہے۔ ایک روسی انارکسٹ نے ایک دفعہ کیا اچھی تجویز پیش کی تھی کہ 25سال سے زائد عمروالوں کوپھانسی دے دی جائے۔ لیکن پھانسی سے زیادہ عبرت ناک سزا تم جیسوں کےلیے یہ ہوگی کہ تمہیں زندہ رہنےدیا جائے۔‘‘مڈل ایج’’کا بجزپیری،کوئی علاج نہیں۔ہاں تنگ دستی اورتصوف سے تھوڑا بہت آرام آجاتا ہے۔ہمارے یہاں سن یاس کے،لے دے کے،دوہی مشغلے ہیں۔عیاشی۔۔۔۔۔اوراگر اس کی استطاعت نہ ہوتو۔۔۔۔۔تصوف!اورقوالی مان دونو ں کا عطر فتنہ ہے!
‘‘اورتمہاراعلاج ہے،ایک عددبائی فوکل اور جمعرات کی جمعرات قوالی!دودن سے سائیں گلمبرشاہ کاعرس ہو رہا ہے۔ آج رات بھی ہمارے پیر صاحب قبلہ نے محفل سماع کا اہتمام فرمایا ہے۔ مٹکے والے قوالوں کی چوکی کے علاوہ حیدرآباد کی ایک طوائف بھی ہدیۂ نیاز پیش کرے گی۔’’ہم نے پوچھا ‘‘زندہ طوائف؟’’بولے،‘‘ہاں!سچ مچ کی!مرے کیوں جارہے ہو؟ شین قاف کے علاوہ نک سک سے بھی درست۔ حضرت سے بعتر ہونے کے بعد اس نے شادی بیاہ کے مجروں سے توبہ کرلی ہے۔ اب صرف مزاروں پر گاتی ہے یا ریڈیوپاکستان سے!اور صاحب!ایسا گاتی ہے،ایسا گاتی ہے کہ گھنٹوں دیکھتے رہو!ہنستے کیا ہو۔ ایک نکتہ آج بتائے دیتے ہیں۔۔۔۔ گانے والی کی صورت اچھی ہو،تو مہمل شعر کا مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔’’
عشاء کے بعد ہم نے قوّالی کی تیاریاں شروع کیں۔عید گا کڑھا ہواکرتا پہنا۔ جمعہ کی نمازوالے خاص جوتے نکالے۔(مسجد میں ہم کبھی عام جوتے پہن کرنہیں جاتے۔ اس لیے کہ جوتے اگر ثابت ہوں تو سجدے میں بھی دل انہیں میں پڑا رہتا ہے)مرزا ہمیں لینےآئے تو نتھنےپھڑکاتے ہوئے دریافت کیا کہ آج تم میں سے جنازے کی سی بو کیوں آرہی ہے؟ہم نے گھبرا کراپنی نبض دیکھی۔ دل توابھی دھڑک رہا تھا۔ کچھ دیربعد بات سمجھ میں آئی تو ہم نےاقرارکیا کہ گرم شیروانی دوسال بعد نکالی ہے۔ کافوری گولیوں کی بو بری طرح بس گئی تھی۔اسے دبانے کے لیے تھوڑاساحناکاعطرلگالیا ہے۔ کہنے لگے،جہاں آداب محفل کا اتنا لحاظ رکھا ہے،وہاں اتنا اورکروکہ ایک ایک روپے کے نوٹ اندرکی جیب میں ڈال لو۔ہم نے پوچھا کیوں؟فرمایا،جو شعرتمہاری یا میری سمجھ میں آجائے،اس پرایک نوٹ ادب کے ساتھ نذر کرنا۔ چنانچہ تمام رات ہماری یہ دہری ڈیوٹی رہی کہ دام شنیدن بچھائے بیٹھے رہیں اور اس شغل شبینہ کے دوران مرزا کے چہرے پر بھی مستقل نظر جمائے رہیں کہ جوں ہی ان کے نتھنوں سے ہویدا ہو کہ شعر سمجھ میں آگیا ہے، اپنی ہتھیلی پہ نوٹ رکھ کر پیرومرشد کو نذر گزارنیں اور وہ اسے چھو کر قوالوں کو بخش دیں۔
اپنی ذات سے مایوس لوگوں کا اس سے زیادہ نمائندہ اجتماع ہم نے اپنے چالیس سالہ تجربے میں نہیں دیکھا۔ شہر کے چوٹی کے ادھیڑ یہاں موجود تھے، ذرا دیر بعد پیر صاحب تشریف لائے۔ بھاری بدن۔ نیدے میں بھری ہوئی آنکھیں۔ چھاج سی داڑحی۔ کترواں لبیں۔ٹخنوں تک گیروا کرتا۔سرپر سیاہ مخمل کی چوگہ شیہ ٹوپی، جس کے نیچے روپہلی بالوں کی کگر۔ ہاتھ میں سبز جریب۔ سازملائے گئے۔ یعنی ہارمونیم کو تالیوں سےاورتالیوں کومٹکےسےملایا گیا۔اورجب کلام شاعر کو ان تینوں کے تابع کرلیا گیاتوقوالی کارنگ جما۔ہمارا خیال ہے کہ اس پائے کے مغنیوں کو تومغلوں کےزمانےمیں پیداہوناچاہیےتھا،تاکہ کوئی بادشاہ انہیں ہاتھی کے پاؤں تلے رندواڈالتا۔انہوں نےمولانا جاؔمی کے کلام میں میرابائی کے دوہوں کواس طرح شیرو شکر کیا کہ فارسی زبان سراسرمارواڑی بولی ہی کی بگڑی ہوئی شکل معلوم ہونے لگی۔ اور ہم جیسے بے علمے کوتواصل پرنقل کا دھوکا ہونے لگا۔
قوالی شروع ہوئی ہے توہم پانچویں صف میں دوزانوبیٹھے تھے۔نہیں،محض دوزانونہیں۔اس طرح بیٹھے تھے جیسے التحیات پڑھتے وقت بیٹھے ہیں۔ لیکن جیسے ہی محفل رنگ پر آئی، ہم حال کھیلنے والوں کے دھکے کھاتے کھاتے اتنے آگے نکل گئے کہ رات بھر ٹانگیں غلیل کی طرح پھیلائے ایک ہارمونیم کو گود میں لیے بیٹھے رہے۔ایک نووارد نے ہمیں ایک روپیہ بھی دیا۔ ہماراحشریعنی چائے پانی بھی قوالوں کےساتھ ہوا۔دھکوں کے ریلےمیں ہم قوالوں کی ٹولی کو چیرتے ہوئے دوسرے دروازے سے کبھی کےباہرنکل پڑے ہوتے،مگر بڑی خیریت گزری کہ ایک کلارینٹ نے ہمیں بڑی مضبوطی سے روکے رکھا۔ یہ کلارینٹ کوئی سواگز لمبا ہوگا۔ اس کا بے ضررسرا تو سازندے کے منہ میں تھا، لیکن پھن ہمارے کان میں ایسا فٹ ہوگیا تھا کہ زورکے دھکوں کے باوجود ہم ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔
آخرشب حضرت نے بطور خاص فرمائش کرکے طوائف سے اپنی ایک،بحرسے خارج غزل گوائی،جسے اس غیرت ناہید نےسرتال سے بھی خارج کرکے سہ آتشہ کردیا۔حضرت اپنا کلام سن کر اس قدر آبدیدہ ہوئےکہ چھپاہوارومال(جس کے حاشیے پر چند اشعار کھانے کی فضیلت میں رقم تھے)ترہوگیا۔مقطع جی توڑکرگایااورزباں پہ بارخدایاشاعرکا نام آیا توناچتےہوئےجاکرسرسامنےکردیا۔حضرت نےازراہ پرورش اصلی چھوہارے کی گٹھلیوں کی ہزاردانہ تسبیح اپنےدست غناآلود سے اس کے گلے میں ڈال دی۔اوراپنی خاک پااورحجرۂ خاص کی جاروب بھی مرحمت فرمائی۔چار بجے جب سب کی جیبیں خالی ہوگئیں توبیشترکوحال آگیا۔اورایسی دھمال مچی کہ تکیہ کے گنبد کی ساری چمگادڑیں اڑ گئیں۔کسی کے پاؤں کی ضرب مستانہ سے حضرت کے خلیفہ کی گھڑی کا شیشہ چور چورہو گیا اوراب وہ بھی اپنی دستارخلافت،جبہ،بائی فوکل اورچاندی کے بٹن اتارکر میدان میں کود پڑے۔صرف انگوٹھی اورموزے نہیں اتارے۔سووہ بھی بحالت مستی کسی نےاتارلیے۔نوٹوں کی بوچھار بند ہوئی اوراب ہربیت پرجزاک اللہ کاغلغلہ بلندہونے لگا۔اس بھاگ بھری نے جو دیکھا کہ بندوں نے اپنا ہاتھ کینچ کراب معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے تو جھٹ آخری گلوری کلے میں دبا کے کہروے پر محفل ختم کردی۔
پانچ بجے صبح ہم کان سہلاتے محفل سمع خراشی سے لوٹے۔کچھ مہمل کلام کا،کچھ خودرفتگیٔ شب کاخمار،ہم ایسےغافل سوئےکہ صبح دس بجےتک سناتے رہے۔اوربیگم ہمارے پلنگ کے گرد منڈلاتے ہوئے بچوں کو سمجھاتی رہیں‘‘کمبختو!آہستہ آہستہ شورمچاؤ۔ابا سورہے ہیں۔رات بھراس منحوس مرزاکی مصاحبی کی ہے۔آج دفتر نہیں جائیں گے۔اری اونبیلہ کی بچی! گھڑی گھڑی دروازہ مت کھول۔ مکھیوں کے ساتھ ان کے ملاقاتی بھی گھس آئیں گے۔’’شام کومرزاچلتے پھرتے ادھرآنکلےاور(وہ روحانی طمانیت اوررونق دیکھ کرجو ہمارے منہ پر دفتری فرائض اداکرنےسےآجاتی ہے)کہنے لگے،‘‘دیکھا! ہم نہ کہےا تھےایک ہی صحبت میں رنگ نکھرآیا۔رات حضرت نے توجہ فرمائی؟ قلب پرکوئی اثر مرتب ہوا؟ رؤیا ہوا؟‘‘ہم نے کہا،‘‘رویا دؤیا تو ہم جانتے نہیں۔البتہ صبح ایک عجیب وغریب خواب دیکھا کہ بغداد میں سفید سنگ مرمرکی ایک عالیشان محل سرا ہے،جس کے صدر دروازے پر قومی پرچم کی جگہ ایک ‘‘بیکنی’’لہرارہی ہے۔چھت وینس ڈی ملو کےمجسموں پرٹھیری ہوئی ہے۔حمام کی دیواریں شفاف بلور کی ہیں۔مرکزی قالین کے گرداگروغیرمحفوظ فصل سے مخملی گاؤ تکیوں کی جگہ تنک لباس کنیزیں آڑی لیٹی ہیں اورشیوخ ان کی گدازٹیک لگائےایک دوسرےکوگاؤتکیےکوآنکھ ماررہے ہیں۔سامنےایک زن پرفن نقاروں پر،اپنی انکھیں انجیرکے پتےسے ڈھانپے،برہنہ رقص کررہی ہےاور پاؤں سے انہی نقاروں پرتال دیتی جاتی ہے۔دل بھی اسی تال کے مطابق دھڑک رہے ہیں۔غرض کہ ایک عالم ہے۔امراء کے آزو بازو کنیزوں اور پیش خدمتوں کے پرے کے پرے منتظر ہیں کہ ابروئے طلب کی جنبش نیم شبی پراپنی لذتیں اس پرتمام کردیں۔ یہ وقفہ وقفہ سے شراب،کباب اوراپنے آپ کو پیش کرتی ہیں۔اسی قالین کے سیاہ حاشیے پرچالیس غلام ہاتھ باندھے،نظریں جھکائےکھڑے ہیں۔اورمیں ان میں سےایک ہوں!،
‘‘اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ،بھاری بدن، نیند میں بھری ہوئی آنکھیں۔داڑحی اتنی لمبی کہ ٹائی لگائیں تو نظر نہ آئے۔سبز جریب ٹیکےت آرہے ہیں۔ ہم نے اپنی ہتھیلی پرسوروپےکانوٹ رکھ کرپیش کیا۔حضرت نےنوٹ اٹھا کر وہ جگہ چومی،جہاں نوٹ رکھا تھا اور بشارت دی کہ بارہ برس بعد تیرے بھی دن پھر جائیں گے۔تو باون سال کی عمر میں ایک بھرے پرے حرم کا مالک۔۔۔۔۔۔۔۔’’
مرزا کا چہرہ لال انگارہ ہوگیا۔ قطع کلام کرتے ہوئے فرمایا
‘‘تم جسم شاعر کا،مگر جزبات گھوڑے کے رکھتے ہو!’’
پھرانہوں نے لعن طعن کے وہ دفتر کھولے کہ عاجز نے کھڑے کھڑے تمام مکینوں کو،مع لباس مختصر،حرم سے نکال باہرکیا۔
تین نووارد گیشائیں تھیں کہ جن کے ویزا کی ابھی آدھی مدت بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔کیسے کہوں کہ انہیں بھی اس ہڑبونگ میں زادراہ دیے بغیر نکال دیا!
اوران کے ساتھ ساتھ تصوف کا خیال بھی ہمیشہ ہمیش کے لیے دل سے نکال دیا۔سنیے۔عینک ہاکرے لیے نئی چیز نہیں۔اس لیے کہ پانچویں جماعت میں قدم رکھنے سے پہلے ہماری عینک کا نمبر۔7ہوگیا تھا۔جو قارئین ننگی آنکھ (انگریزی ترکیب ہے،مگرخوب ہے) سے دیکھنے کے عادی ہیں انہیں شایداندازہ نہ ہوکہ۔7نمبرعینک کیا معنی رکھتی ہے۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اندھا بھینسا کھیلتے وقت بچے ہماری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھتے تھے۔ہماراعقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ناک صرف اس لیے بنائی ہے کہ عینک ٹک سکے۔اورجو بچارےعینک سے محروم ہیں،ان کی ناک محض زکام کے لیے ہے۔۔۔۔۔داداجان قبلہ کا عقیدہ تھا کہ عربی نہ پڑھنے کے سبب سے ہم نصف نابینا ہوگئے ہیں۔ورنہ اس معزز خاندان کی تاریخ میں دیڑھ سو سال سے کسی بزرگ نے عینک نہیں لگائی۔اللہ اللہ !سستاسماں اور کیسے سادہ دل بزرگ تھے کہ گرلز پرائمری اسکول کی بس کا راستہ کاٹنے کو تماش بینی گردانتے تھے!آج ہمیں اس کا ملال نہیں کہ وہ ایسا کیوں سمجھتے تھے،بلکہ اس کا ہے کہ ہم خود یہی کچھ سمجھ کر جایا کرتے تھے! اور جب ہم چوری کی چونی سے بائیسکوپ دیکھ کر رات کے دس بجے پنجوں کے بل گھر میں داخل ہوتے تو ڈیوڑھی میں ہمیں خاندان کے تمام بزرگ نہ صرف خود گارڈ آف آنر دیتے،بلکہ اپنی کمک پر بیرونی بوڑھوں کو بھی بلا لیتے تھے کہ مقابلہ ہمارے فسق و فجور سے تھا۔
عینک پر پھتیا ں سنتے سنتے ہماراکمسن کلیجہ چھلنی ہوگیا تھا۔لہٰذا دوسال بعد جب دادا جان کا موتیا بند کا آپریشن ہوا تو ہم نےاس خوشی میں بچوں کولیمن ڈراپ تقسیم کیں۔دراصل ہم سب بچےانہیں‘‘پرابلم’’بزرگ سمجھاکرتےتھے۔وہم کےمریض تھے۔آپریشن سے پہلےمصنوعی بتیسی کےایک اگلےدانت میں دردمحسوس کررہے تھے،جس کاعلاج ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹرسے کرانےکے بعد،انہوں نے وہ دانت ہی اکھڑوا دیا تھا۔اوراب اس کی کھڈی میں حقے کی نقرئی مہنال فٹ کرکے گھنٹوں ہمارے تاریک مستقبل کے بارے میں سوچا کرتے تھے۔ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ آپریشن کے بعد وہ آدھ انچ موٹے شیشے کی عینک لگانے لگے تھے،جس سے ان کی غصیلی آنکھیں ہم بچوں کو تگنی بڑی دکھائی دیتی تھیں۔اللہ جانےخودانہیں بھی اس سے کچھ دکھائی دیتا تھا یا نہیں۔اس کا کچھ اندازہ اس سے ہوتا تھا کہ اسی زمانے میں ابّاجان چوکیداری کے لیےایک سنہری رنگ کا بوڑھا کتا لے آئے تھے،جسے کم نظرآتا تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دادا جان کو کتا اور کتے کو وہ نظر نہیں آتے تھے۔ہماری یہ ڈیوٹی لگی ہوئی تھی کہ ہردوفریقین کو ایک دوسرے کے حلقۂ گزند سے دور رکھیں۔ بالخصوص مغرب کے وقت۔کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ ہماری غفلت سے وہ وضو کر کے ہرن کی کھال کے بجائے کتے پربیٹھ جاتے اورمؤخرالذکر،اول الذکر پر بھونکنے لگتا تووہ راقم الحروف پر چیختے کہ اندھا ہوگیا ہے کیا؟عینک لگا کے بھی اتنا بڑا کُتا نظرنہیں آتا!
دعویٰ تومرزااورعینک ساز دونوں نے یہی کیا تھا کہ بالائی غرفے سے دور کی اورزیریں غرفے سے پاس کی چیزیں صاف نظر آئیں گی۔ پروفیسر قاضی عبدالقدوس نے تو یہاں تک امید بندھائی تھی کہ دور کے شیشے سے اپنی بیوی اور پاس کے شیشے سے دوسرے کی بیوی کا چہرہ نہایت بھلا معلوم ہوگا۔
غافل نے اِدھردیکھا،عاقل نے اُدھر دیکھا
لیکن قدم قدم پرٹھوکریں کھانے کے بعد کھلا کہ بائی فوکل سے نہ دور کا جلوہ نظرآتا ہے نہ پاس کا۔البتہ صبر آجاتا ہے۔ یہاں تک تو بسا غنیمت ہے کہ ہم بندوق کی سببی نچلے شیشے اور مکھی اوپر والے شیشے سے ملاحظہ فرمائیں۔اوراگر تیتر بندوق کی نال میں چونچ ڈالے کارتوس کا معائنہ کررہا ہے تو پھربچ کے نہیں جا سکتا۔خیر،شکار کو جانے دیجئے کہ یوں بھی ہم جیو ہتیا کے خلاف ہوگئے ہیں۔(زین بدھ ازم اوراہنسا کی تعلیمات سے قلب ایکس رقیق ہوا ہے کہ اب دلی خواہش یہی ہےکہ خوبصورت پرند کو جان سے مارے بغیر اس کا گوشت کھاسکیں۔) لیکن زینہ سے اترتے وقت
آنکھ پڑتی ہے کہیں،پاؤں کہیں پڑتا ہے
اورجہاں پاؤں پڑتا ہے، وہاں سیڑھی نہیں ہوتی۔ مرزا سے اس صورت خاص کا ذکر کیا تو کہنے لگےکہ عینک ہر وقت لگائے رکھو۔ لیکن جہاں نظر کا کام ہو، وہاں ایک خوب صورت سی چھڑی ہاتھ میں رکھا کرو۔ لاہور میں عام ملتی ہیں۔ ہم نے کہا،لاہور میں جو خوب صورت چھڑیاں عام ملتی ہیں،وہ ہمارے شانے تک آتی ہیں۔ ہم انہیں ہاتھ میں نہیں رکھ سکتے۔ بغل میں بیساکھی کی طرح دبائے پھر سکتے ہیں۔ مگر لالہ رخساران لاہور اپنے دل میں کیا کہیں گے؟ بولے، تو پھر ایک کتا ساتھ رکھا کرو۔ تمہاری طرح وفادار نہ ہو تو مضائقہ نہیں، لیکن نابینا نہ ہو۔
ہم نتواب اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ شاہان سلف،بالخصوص بعض مغل فرماںروا، اپنےسرکش صوبیداروں،شورہ پشت شہزادوں اورتخت وتاج کےدعویدار بھایئوں کی جلاد سے آنکھیں نکلوا کر خود کو تاریخ ہند مؤلفہ ایشوری پرشاد میں خواہ مخواہ رسوا کر گئے۔ ان سب کو (بشمول ایشوری پرشاد) بائی فوکل لگوا دیتے تو اوروں کو کان ہو جاتے اور یہ دکھیارے بھیک مانگنے کے لائق بھی نہ رہتے۔ ہمارا خیال ہے کہ نہ دیکھنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک آلہ آج تک ایجاد نہیں ہوا۔ ذرا کھل کر بات کرنے کی اجازت ہو تو ہم یہاں تک کہہ گزریں گیں کہ بائی فوکل عفت نگاہ کا ضامن ہے۔ مثلاً عینک کے بالائی حصے سے مقابل بیٹھے ہوئے بت سیم تن کے سرتاج کی جبرجنگ مونچھ کا ایک ایک بال گنا جا سکتا ہے،لیکن جب ریشمی ساری ہمارے ہی رخ سرک کر پنڈلی سے اوپریوں چڑھ جائےکہ
نہ دیکھےاب نہ دیکھے،کبھی تودیکھےگا
تو صاحب!اس بےحیائی کا مطالعہ یکسوئی سے نہ اوپرکے شیشے سےکیاجا سکتا ہے، نہ نیچے کے شیشے سے۔ اور یوں گرہستی آدمی ایک گناہ سے بچ جاتا ہے
وہ اک گنہ جو بظاہرگناہ سےکم ہے
اتنا ضرور ہے کہ اسے لگانے کے بعد مزید تین عینکوں کا اہتمام لازم آتا ہے۔ایک دور کی۔دوسری پاس کی اور تیسری بغیر شیشوں والی۔۔۔۔۔دیکھنے کے لیے۔یہ آلات تیشد اس لئے بھی ضروری ہیں کہ یوں دکھانے کے ادھیڑ آدمی کے منھ پر آنکھ، آنکھ میں پتلی، پتلی میں تل اور تل میں غالباً بینائی بھی ہوتی ہے، لیکن تین سے پانچ فٹ دور کی چیز کسی طوربائی فوکل کے فوکس میں نہیں آتی۔ایک سانحہ ہو تو بیان کریں۔ پرسوں رات دعوت ولیمہ میں جس چیز کا ڈونگا سمجھ کر ہم نے جھپا جھپ اس میں سے پلاو کی ساری بوٹیاں گرالیں، وہ ایک مولوی صاحب کی پلیٹ نکلی جو خود اس وقت زردے کی کشتی پر بری نظر ڈال رہے تھے۔ یا کل رات گھپ اندھیرے سینیما حال میں انٹرول (جسے مرزا وقفہ تاک جھانک کہتے ہیں) کے بعد شانے پر ہاتھ رکھے،جس سیٹ تک پہنچنے کی کوشش کی، وہ سیٹ ہماری نہیں نکلی۔ اور نہ وہ شانہ ہماری اہلیہ کا!
انسان کی کوئی محرومی خالی از حکمت نہیں۔ جیسے جیسے کچھ درد بقدر ہماری تاب وتحمل کے ہمیں عطا ہوتا ہے، قلب بصیرتوں سے گداز ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسان جب چشم وگوش کا محتاج نہ رہےاو ر اسے اٹکل سے زندگی گزارنے کا ہنر آ جائے تو صحیح معنوں میں نظم وضبط کا آغاز ہوتا ہے۔ مرزا کے علاوہ بھلا یہ اور کس کا قول ہو سکتا ہےکہ کایا کا سکھ چاہو تو جوانی میں بہرے بن جاؤ اور بڑھاپے میں اندھے۔ ہوس سیر وتماشا تو خیر پرانی بات ہوئی،ہم تو اب بینائی کا بھی ہڑکا نہیں کرتے۔ ہو ہو، نہ ہو نہ ہو۔اب تو ہر چیز کو اپنی جگہ رکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ الماری میں دائیں طرف پتلون، بائیں طرف پرانی قمیض جنہیں اب صرف بند گلے کے سوئٹر کے نیچے پہن سکتے ہیں۔ دوسرے خانے میں سلیقے سے تہ کیا ہوا بند گلے کا سوئٹر جو اب صرف بند گلے کے کوٹ کے نیچے پہنا جا سکتا ہے۔آنکھ بند کر کے جو چاہو،نکال لو۔غرض کہ ہر چیز کا اپنا مقام بن جاتا ہے جا نماز کی جگہ جا نماز۔رقت انگیز ناول کی جگہ آنسوؤں سے بھیگی ہوئی چیک بک۔ محبوبہ کی جگہ منکوحہ۔۔۔۔۔۔ تکیہ کی جگہ گاو تیہ !
ذرا ترتیب بگڑی اور آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی۔ لیکن جس گھر میں بفضل تیٰج بچے ہوں وہاں یہ رکھ رکھاؤ ممکن نہیں۔اور رکھ رکھاؤتو ہم نے تکلفا کہہ دیا ورنہ سچ پوچھیے تو کچھ بھی ممکن نہیں۔
دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے
ایک دن ہم نے جھنجھلا کر بیگم سے کہا،یہ کیا اندھیر ہے۔ تمہارے لاڈلے ہر چیز جگہ سے بے جگہ کر دیتے ہیں۔کل سے چاقو غائب تھا۔ابھی عقدہ کھلاکہ اس سے گڑیا کا اپینڈکس نکالا گیا تھا! تنک کر بولیں،اورکیا کلہاڑی سے گڑیا کا پیٹ چیراجاتا؟ہم نے جھٹ ان کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا،ہاں!یہ کیسے ممکن ہے۔اس لئےکہ کلہاڑی کے ڈنڈے سے تو اس گھر میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں!تم ہی بتاؤ،صبح تازہ مضمون کی ناؤ بلکہ پورا بیڑا ٹب میں صفا وار نہیں چل رہا تھا؟تمہارے گھر میں ہرایک چیز کا نیا طریقۂ استعمال،ایک نیا فائدہ دریافت ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ سوائے میرے!تمہارے سامنے کی بات ہے۔کہہ دو،یہ بھی جھوٹ ہے۔پرسوں دوپہر اخبار پڑھتے پڑھتے ذرا دیر کو آنکھ لگ گئی۔ کھلی تو عینک غائب۔ تم سے پوچھا تو الٹی ڈانٹ پڑی‘‘ ابھی سے کاہے کو اٹھ بیٹھے۔ کچھ دیر اور سو لو۔ابھی تو گڈو میاں تمہارا بائی فوکل لگائے اندھا بھینسا کھیل رہے ہیں!بالکل اپنے باپ پر پڑے ہیں۔’’بچے سبھی کے ہوتے ہیں۔ مگر گھرکا گھر وایا کہیں نہیں ہوتا۔ صبح دیکھو تو سگریٹ لائٹر کی لو پر ہنڈ کلیا پکائی جا رہی ہے۔ شام کو خود بیگم صاحب گیلے بال بکھیرے،پندرہ گزگھیرکی شلوار میں ہماری پینسل سے سٹ سٹ کمر بند ڈال رہی ہیں۔
سرخ چوڑیا ں چھنکا کر سہاگ رات چھیڑتے ہوئے بولیں،ہائے اللہ!دفترکاغصہ گھر والوں پر کیوں اتار رہے ہو؟ کسی نے تمہاری پنسل سے کمر بند ڈالا ہو تو اس کے ہاتھ ٹوٹیں۔میں نے تو تمہارے ‘‘پارکر’’سے ڈالا تھا! چاہے جس کی قسم لے لو۔ رہے بچے،تو ان کے نصیب میں تمہاری استماحلی چیزیں ہی لکھی ہیں۔ پھر بھی آج تک ایسا نہیں ہواکہ انہوں نے چیز واپس وہیں نہ رکھی ہو۔ہم نے کہا یقین نہ ہو تو خود جا کر اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھ لو۔سیفٹی ریزر کا بلیڈ غائب ہے۔ بولیں،کم از کم خدا سے تو ڈرو۔ابھی ابھی میرے سامنے نبیلہ نے پنسل چھیل کر واپس ریزرمیں لگایا ہے۔وہ پجاری خود احتیاط کرتی ہے!ے۔ وہ بے چاری خود احتیاط کرتی ہے!
مرزا نے موضع چاکسو (خوردوکلاں) کے نیم بزرگوں کی انجمن کی داغ بیل ڈالی توہفتوں اس تذ بذب میں رہےکہ نام کیا رکھا جائے۔ پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم۔اے۔(گولڈ میڈلسٹ) نے‘‘انجمن افسردا دلان چاکسو،رجسٹرڈ’’تجویز کیا جواس بنا پرمسترد کردیا گیاکہ ممبری کا دار ومدار محض افسردہ دلی پر رکھا گیا تو چاکسو کے تمام شاعرمع غیر مطبوعہ دیوان گس آئیں گے۔ خاصی بحث وتمحیص کے بعد طے پایاکہ اس غول کہولاں کا نام‘‘بائی فوکل کلب’’نہایت موضوع رہے گاکہ بائی فوکل ایک لحاظ سے تمام دنیا کے ادھیڑو ں کا قومی نشان ہے۔
انسان کی فطرت بھی ایک طرفہ تماشا ہے۔ بوڑھا ہو یا بچہ، نوجوان ہویاادھیڑآدمی ہر منزل پر اپنی عمر کے باب میں جھوٹ ہی کوترجیح دیتا ہے۔ لڑکے اپنی عمردوچار سال زیادہ بتا کررعب جماتے ہیں۔ یہی لڑکے کوجب نام خدا جوان ہو جاتے ہیں تو نوجوان کہلانا پسند کرتے ہیں۔جو ادھیڑ مرد نسبتاً راست گو واقع ہوئے ہیں،وہ اپنی عمردس برس کم بتاتے ہیں۔عورتیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دوسرے کی عمر ہمیشہ صحیح بتاتی ہیں۔حقیقت یہ ہےکہ خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ بائی فوکل، السر، بد نظری، گاف، نئی نسل سے بیزاری،رقیق القلبی اورآسودہ حالی۔۔۔۔۔۔ یہ عمروسطیٰ کی جانی پہچانی نشانیاں ہیں۔ان سات صفات میں سے چھ کی بنا پر(یعنی آسودہ حالی کو چھوڑ کر) جو ہماری ذات کے کوزے میں بند ہو گئی تھیں،ہمیں بلا مقابلہ بائی فوکل کلب کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا۔
کلب کی رکنیت کی بنیادی شرط یہ ہےکہ آدمی چالیس سال کا ہو۔ اوراگر خودکو اس سے بھی زیادہ محسوس کرتا ہو تو کہنا ہی کیا۔ حضرت حفیظ جالندھری کےالفاظ میں یہ وہ عجب مرحہی عمر ہےکہ آدمی کو
ہر بری بات،بری بات نظرآتی ہے!
یہ وہ دورعافیت جب آدمی چاہےبھی تونیکی کےعلاوہ اورکچھ نہیں کرسکتا۔انڈونیشیا کےسابق صدرسوئیکارنوکا قول ہےکہ تیس بہاروں کے بعد ربرکادرخت اوربنت ہوّا کسی مصرف کے نہیں رہتے، جبکہ مرد کسی عمر میں حسن سے مامون نہیں۔ایسے مقولے کی تردید یا تائید ہمارے بس کا کام نہیں۔ سوئیکارنو تو بزرگ مردم دیدہ وزن گزیدہ ہونے کے علاوہ صدارت کے صدمےبھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہم توان سے بھی محروم ہیں۔ پھر یہ کہ چھوٹے منھ کو بری بات زیب بھی نہیں دیتی۔ ربر کے بارے میں ہم ابھی صرف اتنا دریافت کرپائے ہیں کہ غلطیوں کو مٹانے کے لئے خاصی کارآمد چیزہے۔رہی صنف نازک، سو اپنے محتاط ومدںود مشاہدے کی بنا پر ہم کوئی خوبصورت جھوٹ نہیں بول سکتے۔ شیرنی کو کچھارمیں کلیلیں کرتے دیکھنا اوربات ہے اورسرکس کے پنجرے میں بینڈ کی دھن پر لوٹیں لگاتے ہوئے دیکھنا اور بات۔
البتہ اپنے ہم جنسوں کے بارے میں بہت سےبہت کہہ سکتے ہیں تویہ کہہ سکتے ہیں کہ سائیں سائںم کرتا ریگستان جو راتوں رات جیتی جیکو زمین کونگلتا چلا جاتا ہے،وہ لق ودق صحرائے اعظم جو سن رسیدہ سینوں میں دما دم پھیلتا رہتا ہے،وہ کسی بھی لمحے نمودار ہو سکتا ہےکہ دل آنکھ سے پہلے بھی بوڑھے ہو جایا کرتے ہیں۔ اس ہو کے صحرا میں گونج کے سوا کوئی صدا،کوئی نداسنائی نہیں دیتی اورکیکٹس کے سوا کچھ نہیں لگتا۔مرزااس بنجر،بے رس،بے رنگ،بے امنگ دھرتی کو NO WOMAN’S LAND کہتے ہیں۔ جس کی ملی جلی سرحدیں صرف بائی فوکل سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ بڑھتے ہوئے سایوں اور بھینی بھینی یادوں کی سر زمین ہے جس کے باسی پیاس کو ترستے ہیں اور بے پیاس پیتے ہیں کہ انہیں
اس کا بھی مزا یاد ہے،اس کا بھی مزایاد
ایک دن ہمیں اوپر کے شیشے سے صفحہ نمبراور نچلے سے فٹ نوٹ پڑھتا دیکھ کرمرزامنہ اوپر نیچے کر کے ہماری نقل اتارنے لگے۔ حاضرین کو ہمارے حال پر خوب ہنسا چکے،تو ہم نے جل کر کہا،اچھا،ہم تو محض نیک چلنی کی وجہ سے قبل ازوقت اندھے ہو گئے،لیکن تم کس خوشی میں یہ بوتل کے پیندے جتنی موٹی عینک چڑھاتے پھرتے ہو؟فرمایا،مگر یہ بائی فوکل نہیں ہے۔ ہم نے کہا، تو کیا ہوا؟ جس عینک سے تم منہ اندھیرے تفریو ماجدی کی ہل ہل کے تلاوت کرتے ہو،اسی سے رات ڈھلے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے ستر کشا کیبرے دیکھتے ہو!فرمایا برخوردار!اسی لئے آج تک ہمارادل سالم ہے!
اور یہ بڑی بات ہے۔اس لئےکہ مرزا (جو بیس سال سے خود کو مرحوم کہتے اور لکھتے آئے ہیں)اب تک چھوٹے بڑے ملا کر 37 معاشقے کر چکے ہیں۔ ہر محبوبہ کی یاد کو ‘لیبل’ لگا کر اس طرح رکھ چھوڑا ہے جیسے فٹ پاتھ پر مجمع لگا کے دوائیں بیچنے والے زہریلے سانپوں اور بچھوؤں کو اسپرٹ کی بوتلوں میں لئے پھرتے ہیں۔ان مارشقوں کا انجام وہی ہوا جو ہونا چاہیے، یعنی ناکامی۔ اور یہ اللہ نے بڑا فضل کیا،کیونکہ خدا نخواستہ وہ کامیاب ہو جاتے تو آج مرزا کے فلیٹ میں 37 نفر دلنیںر بیٹھی بلکہ کھڑی ہوتیں۔ لیکن پے در پے ناکامیوں سے مرزا کے پائے حماقت میں ذرا لغزش نہ آئی۔ دوچار ٹانگیں ٹوٹنے سے کھنکھجورا کہیں لنگڑا ہوتا ہے؟ 32 ویں ناکامی کا البتہ قلب نے بڑااثر لیا۔اورانہوں نے فیصلہ کیاکہ راوی کےریلوے پل سےچھلانگ لگاکرخودکشی کر لیں۔لیکن اس میں یہ اندیشہ تھاکہ کہیں پہلے ہی ٹرین سے نہ کٹ جائیں۔ متواتر تین چارشب دوسرا سنیما شو بھی اس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیکھنے گئےکہ واپسی میں مال پر انہیں کوئی بے دردی سے قتل کر دے۔ لیکن کسی غنڈے نے جاگتی جگمگاتی سڑک پران کے فاسد سے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگے۔ ستم یہ کہ کسی نے وہ جیب تک نہ کاٹی،جس میں وہ حفاظتی پستول بھی چھپا کرلے جاتے تھے۔ سب طرف سے مایوس ہوکر انہوں نے حضرت داتا گنج بخش کی درگاہ کا رخ کیاکہ اسی کا مینار سب سے بلند وقریب پڑتا تھا۔ مگر وہاں دیکھاکہ عرس ہورہا ہے۔آدمیوں پرآدمی ٹوٹے پڑتے ہیں۔ موسم بھی کچھ مناسب سا ہے۔ چنانچہ فی الحال ارادہ ملتوی کردیا اوربانوبازارسےچاٹ کھا کرواپس آگئے۔ؤذرااتفاق تودیکھیےکہ دودن بعد یہ مینار ہی گر گیا۔ مرزانےاخبارمیں خبردیکھی تو سرپکڑکے بیٹھ گئے۔بڑی حسرت سے کہنے لگے،صاحب!عجیب اتفاق ہےکہ میں اس وقت مینار پر نہیں تھا۔ برسوں اسکا قلق رہا۔
اپنی اپنی فکراوراپنی اپنی ہمت کی بات ہے۔ایک ہم ہیں کہ جوراتیں گناہوں سےتوبہ واستغابرمیں گزرنی چاہئیں،وہ اب الٹی ان کی حسرت میں ترستے پھڑکتے بیت رہی ہیں۔نین کنول کھلے بھی تو پچھلےپہرکی چاندنی میں۔اورایک مرزا ہیں کہ نظر ہمیشہ نیچی رکھتے ہیں،لیکن حسینان شہرمیں سےآج بھی کوئی سلوک کرےاس سے انکار نہیں۔انہی کا قول ہےکہ آدمی بوالہوسی میں کمزوری یا کاہلی دکھائےتونری عاشقی رہ جاتی ہے۔ہم نے دیکھاکہ حالات کیسے ہی نہ مساعد ہوں،بلکہ اگر بالکل نہوت ہے، لیکن طتیں حاضرہے تومرزاسنگ لاخ چٹانوں سےجوئے شیرہی نہیں،خود شیریں کوبرآمد کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ بلہن ایک آدھ دفعہ تو یہ چوٹ بھی ہوئی کہ وہ کندن، کوہنز برآوردن! 1958 کا واقعہ ہے۔ہمارے اصرار پر بے بی شو(شیر خوار بچو کی نمائش) میں جج بننا منظور کیا اوروہاں ایک والدہ پرعاشق ہوگئے۔ پہلا انعام اسی کودیا۔
4 اگست 66- دوپہر کا وقت۔ دن پہلے پیارکی مانند گرم۔ بدن کوری صراحی کی طرح رس رہا تھا۔ ہم گرد اڑاتے، خاک پھانکتے مرزا کو اکتالسویں سال گرہ کی مبارکباد دینے گل برگ پہنچے۔ مرزا کراچی سےنئےنئے لاہورآئے تھے اور مقامی‘کلراسکیم’سے اس درجہ اختلاف تھاکہ سیداے کےتنوں کو نیلا پینٹ کروادیا تھا۔ان کے بیرے نے برآمدے سے ہی ہانک لگائی کہ صاحب جی! وہ جوموٹرسائکل رکشا کےآگےایک چیزلگی ہوتی ہے،صرپھ اس پربیٹھ کےایک صاحب ملنے آئے ہیں! لیکن مرزانےنہ یہ اعلان سنااورنہ ہماری موٹر سائکل کی پھٹ پھٹ،اس لئےکہ اس وقت وہ سال گرہ کے مرغن لنچ کے بعد آرام کرسی پر آنکھیں بند کے ‘کیس نمبر 29’ کو آغوش توجہ میں لئےا بیٹھے تھے۔ہم نے شانہ جھجھوڑ کر مداخلت بجا کرتے ہوئے کہا، مرزا! عجیب بات ہے۔ ہر ساکگرہ ہماری عینک کے نمبر اور بے دلی میں اضافہ کر جاتی ہے اور ہمیں ہر شے میں ایک تازہ دراڑ پڑی نظرآتی ہے۔مگرتم ہوکہ آج بھی ستاروں پرکمند ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہو۔بولے،شکریہ! نشے کا فیضان ہے۔ ہم نے کہا مگر ہمارا مطلب فلمی ستاروں سے تھا!فوراً شکریہ واپس لیتے ہوئے فرمایا “…۔۔ET TU BRUTUS؟”
دو چار برس کی بات نہیں، ہم نے مرزا کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب
گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ابھی وہ اس لائق بھی نہیں تھے کہ اپنے ٹویاں طوطے کی کفالت کرسکیں،لیکن دل نہ صبور کا یہ رنگ تھاکہ الجرہا کے گھنٹے میں بڑی مولیت سے اپنے ہاتھ کی ریکھاؤں کا مطالعہ کرتے رہتے۔عمرکی لکیر ان کی ذاتی ضرورت سے کچھ لمبی ہی تھی۔مگر شادی کی فقط ایک ہی لائن تھی،جسے رگڑ رگڑ کے دیکھتے تھےکہ شاید پچھلے چوبیس گھنٹوں میں کوئی شاخ پھوٹی ہو۔مدت العمرمتعددخاندانی بزرگ ان کی جوانی پر سائے فگن رہے۔ بارے ان کے گھنے گھنے سائے سر سے اٹھے تو پتہ چلا کہ دنیا اتنی بری جگہ نہیں۔ لیکن ایک مدت تک مالی حالات نے رخصت آوارگی نہ دی اور جی مار مار کے رہ گئے۔ ورنہ ان کا بس چلتا تو بچی کھچی متاع عمر کو اس طرح ٹھکانے لگا دیتے، جیسے دلی کے بادشاہ لدے پھندے باغ لونڈیوں سے لٹوا دیا کرتے تھے۔ مرزا 1948 تک مرزا یا نہ بسر کرتے رہے۔ یعنی مجاز رئیسانہ اور آمدنی فقیرانہ رکھتے تھے۔ شادی کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ خدا بھلا کرے پروفیسر قاضی عبدالقدوس کا، جنہوں نے اپنی ہتھیلی پرایک دن قلم سے ضرب تقسیم کر کے مرزا کو اعدادوشمار سے قائل کردیاکہ جتنی رقم وہ سگریٹوں پر پھونک چکے ہیں،اس سے سگھڑ شوہر چار دفعہ مہر بیا ق کر سکتا تھا۔آخرہم سب نے لگ لپٹ کران کی شادی کروادی۔ دوچاردن تو مہرمعجل کی دہشت سے سہمے سہمے پھرےاورجیسے تیسےاپنےآپ کوسنبالےرکھا،لیکن ہنی مون کاہفتہ ختم ہونےسے پہلےاس حدتک نارمل ہوگئےکہ بےتکلف دوستوں کوچھوڑدیئے،خودنئی نویلی دلہن کی زبان پر بھی یوں ہی کوئی زنانہ نام آ گیا تومرزاتڑپ کرمجسم سوال نامہ بن گئے:
کہاں ہے؟کس طرح ہے؟کدھر ہے؟
انہی کے ایک برادر نسبتی سے روایت ہےکہ عین آرسی مفحپ کے وقت بھی آئنےہ میں اپنی دلہن کا منہ دیکھنےکے بجائےمرزاکی نگاہیں اس کی ایک سہیلی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔دنیا گواہ ہے (دنیا سے یہاں ہماری مراد وہی ہے،جو مرزا کی،یعنی عالم نسواں)کہ مرزانے جس پہ ڈالی،بری نظرڈالی،سوائےاپنی بیوی کے۔موصوف کا اپنا بیان ہےکہ بندہ شیرخوارگی کےعالم میں بھی بیس سال سے زیادہ عمرکی آیا کی گود میں نہیں جاتا تھا۔ کبھی کبھی اپنی ندیدی آنکھوں سے خود پناہ مانگنے لگتے تھے۔زکام کے سہ ماہی حملے کے دوران ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کئی بار وصیت کر چکے ہیں کہ میں مرنے لگوں،تو للہ ایک گھنٹہ پہلے میری عینک اتار دینا،ورنہ میرا دم نہیں نکلے گا۔ہم نے ایک دفعہ پوچھا مرزا!ہمیں یہ کیسے پتہ چلےگاکہ تمہارے دشمنوں کے مرنے میں اب ایک گھنٹہ رہ گیا ہے؟بولے،جب میں نرس سے ڈیوٹی کے بعد کا فون نمبر پوچھنے کے بجائےاپنا ٹمپریچر پوچھنے لگوں، توسمجھ لیناکہ تمہارے یار جانی کا وقت آن لگا ہے!
مگر مرزا کی باتیں ہی باتیں ہیں۔ورنہ کون نہیں جانتاکہ ان کے سینے میں جو بانکا سجیلا ڈانؔ وان دھومیں مچایا کرتا تھا، وہ اب پچھلے ہر دوہرا ہو ہو کر کھانسنے لگا ہے۔اب وہ آتش دان کے سامنے کمبل کا گھونگھٹ نکالے،کپکپاتی آوازمیں اپنے نیاز مندوں کو اس عہد رنگیں کی داستانیں سناتے ہیں جب وہ علی الصبح FRIDGE کے پانی سے نہایا کرتے تھے۔وہ تو یہاں تک شیخی مارتے ہیں کہ آج کل کے مقابلے میں اس زمانے کی طوائفیں کہیں زیادہ بد چلن ہوا کرتی تھیں۔
مرزا کا ذکر، اور پھر بیاں اپنا! سمجھ میں نہیں آتا کس دل سے ختم کریں۔ لیکن قلب کے سرپرست عالیٰ فہیم اللہ خان کا تعارف رہا جاتا ہے۔ یہ انہیں کے دم قدم بلکہ دام ودرم کا ظہوراہےجس نے چاکسو خوردوکلاں کےتمام ادھیڑوکو بغیر کسی مقصد کےایک پلیٹ فارم پرجمع کردیا۔خان صاحب ہر نسل کی امریکی کاراورگھوڑوں کےدل دادا ہیں۔آخرالذکر کی رفتار وکردار سے اتنے متاثر ہیں کہ کسی حسین خاتون کی انتہائی تعریف کرنی مقصود ہوتو اسے گھوڑری سے تشبیہ دیتے ہیں۔اوروں پر بہت ہوا تورزق کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ ان پر پوری بارہ دری کھلی ہوئی ہے۔اوروہ بھی روزاول سے ورنہ ہونے کو تو فارغ البالی ہمیں بھی نصیب ہوئی،مگر بقول شاعر
اب مرے پاس تم آئی ہوتوکیا آئی ہو
ہم جب چوتھی جماعت میں پہنچے توان کے بڑے صاحبزادے میٹرک میں دوسری دفعہ فیل ہوچکے تھے۔لیکن پیری کااحساس توکجا،جب سے ہم نےبائی فوکل لگایا ہے،ہمیں اپنی تازہ ترین یعنی ماہ رواں کی منظور نظر سے‘‘انکل’’کہلواکرحسینوں کی نگاہ میں ہماری عزت اورعمربڑھاتے ہیں۔ جس مقام پراب ہم لاحول پڑھنے لگ گئے ہیں،وہاں ان کی زبان ابھی تک سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے سوکھی جاتی ہے۔ہم نے ان کی جوانی کی گرمیاں نہیں دیکھیں۔ہاں،بڑے بوڑھوں سے سنا ہےکہ جب موصوف مکی جوانی محلے کی دوشیزاؤں کے والدین پر گراں گزر نے لگی تو انہوں نے ہم سایوں کے درودیوارپہ حسرت سےنظر کرکےچاکسوخورد کوخیربادکہااورممبیٔ کارخ کیا،جہاں اون کی آڑھت کےساتھ ساتھ 1947 تک کئی اونچے گھرانوں کی روشن خیالی پرمتصرف رہے۔مرزاکا کہناہےکہ ان کادل شروع ہی سے بہت بڑاتھا۔ان کا مطلب ہےکہ اس میں بیک وقت کئی مستورات کی سمائی ہو سکتی تھی۔خوب سے خوب تر کی جستجو انہیں کئی بار قاضی کے سامنے بھی لے گئی۔اورہر نکاح پہ پھر پھر کے جوانی آئی کہ یہ
عصاہے پیرکواورسیف ہےجواں کے لےی
ان کے قہقہے میں جو گونج اور گمک ہے،وہ سندھ کلب کےانگریزوں کی صحبت اور وہیں کی وہسکی سے کشید ہوئی ہے۔خوش باش،خوش لباس،شاہ خرچ۔ ناجائزآمدنی کو انہوں نے ہمیشہ ناجائزمیں خرچ کیا۔طتی دھوپ گھڑی کی مانندجوصرف روشن ساعتوں کا شمار رکھتی ہے۔قومی ہیکل، چوڑی چھاتی، کھڑی کمر،کندھے جیسے خربوزے کی پھانک،کھلتی برستی جوانی۔اورآنکھیں؟ ادھردو تین سال سےعینک لگانے لگے ہیں،مگر دھوپ کی۔وہ بھی اس وقت جب سینڈزپٹ کے لباس دشمن ساحل پرغلج آفتابی کےناحرے سےان کی گدلی گدلی آنکھوں میں ایک ہزار‘‘اسکینڈل پاور’’کی چمک پیدا ہوجاتی ہے اور وہ گھنٹوں کسی کو نظروں سے غسل دیتے رہتے ہیں۔ پاس کی نظر ایسی کہ اب تک اپنی جوان جہان پوتیوں کے نام کے خط کھول کر بغیرعینک کے پڑھ لیتے ہیں۔رہی دور کی نظر،سو جتنی دورنارمل آدمی کی نظر جا سکتی ہے،اتنی دوربری نظر سے دیکھتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top