اے بریف ہسٹری آف نیئرلی ایوری تھنگ

قیصرانی

لائبریرین
19 زندگی کی ابتداء​
1953 میں ایک طالبعلم مُلر نے یونیورسٹی آف شکاگو میں تجربہ کے لیے دو بوتلیں لیں۔ ایک میں اس نے ایسا پانی ڈالا جو سائنسی اندازے کے مطابق ابتدائی دور کے سمندر جیسا تھا جبکہ دوسرے میں اس نے میتھین، امونیا اور ہائیڈروجن سلفائیڈ کا آمیزہ ڈالا جو ابتداء میں زمین کی فضاء میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ پھر اس نے دونوں بوتلوں کو ربر کی نلیوں سے جوڑا اور آسمانی بجلی کی نقل کرتے ہوئے بجلی کے جھٹکے دیے۔ چند دن بعد بوتلوں کا پانی سبز اور زرد ہو گیا اور اس میں امائینو ایسڈ، فیٹی ایسڈ، شوگر اور دیگر آرگینک مرکبات پیدا ہو گئے۔ مُلر کے نگران اور نوبل انعام یافتہ سائنس دان ہیرلڈ اُرے نے خوشی کا اظہار کچھ ایسے کیا، ‘اگر خدا نے زندگی اس طرح نہیں بنائی تو حیرت کی بات ہوگی’۔
اس وقت کے صحافیوں نے اس تجربے کی کچھ ایسے تصویر کشی کی کہ جیسے ان بوتلوں کو ہلاتے ہی زندہ جاندار نکلنا شروع ہو جائیں گے۔ بعد میں یہ بات واضح ہوئی کہ زندگی کی ابتداء اتنی بھی سادہ نہیں تھی۔ نصف صدی کے تجربات کے بعد بھی زندگی کی ابتداء کے تجربے میں کامیابی سے اتنے ہی دور ہیں جتنے 1953 میں تھے اور یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے ہم اس طرح زندگی نہیں پیدا کر سکتے۔ سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ زمین کی ابتداء میں مُلر اور اُرے کے تجربے والے مرکبات نہیں بلکہ ان کی جگہ نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مرکبات تھے جو کیمیائی تعامل میں کم ہی دلچسپی دکھاتے ہیں۔ ان مرکبات کو مُلر والے تجربے میں استعمال کرنے سے ہمیں ایک ہی امائینو ایسڈ ملا ہے۔ ویسے بھی امائینو ایسڈ پیدا کرنا کوئی خاص مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ پروٹین کی تیاری ہے۔
پروٹین کی تیاری میں یوں سمجھیں کہ بہت زیادہ امائینو ایسڈ کو ایک لڑی میں پرونا پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انسانی جسم میں لگ بھگ 10 لاکھ اقسام کی پروٹین ہیں جن میں سے تقریباً ہر ایک کی تیاری ایک معجزہ ہے۔ شماریات کے کسی بھی قانون کے مطابق پروٹین کی تیاری ممکن نہیں۔ امائینو ایسڈ کو زندگی کی بنیادی اکائی کہا جاتا ہے۔ ایک پروٹین بنانے کے لیے آپ کو بہت سارے امائینو ایسڈ ایک خاص طور پر جوڑنے پڑتے ہیں۔ یہ عمل ویسے ہی ہے جیسے ہم حروف کو خاص ترتیب سے جوڑ کر الفاظ بناتے ہیں۔ لفظ کولاجن لکھنے کے لیے ہمیں 7 حروف درکار ہیں لیکن کولاجین بنانے کے لیے ہمیں 1٫055 امائینو ایسڈ مخصوص ترتیب سے رکھنے ہوں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ پروٹین کو نہیں بناتے بلکہ پروٹین خودبخود، اچانک اور بغیر کسی رہنمائی کے بنتی ہے۔
اب سوچیے کہ 1٫055 مختلف مالیکیولوں کا اچانک ہی ایک خاص ترتیب سے ایک وقت اور ایک ہی جگہ اکٹھا ہونا ناممکن ہے۔ اس سارے کام کو سمجھنے کے لیے ذرا ایک مثال دیکھیے۔ کسی قمار خانے والی جوئے کی مشین کا سوچیں جو 27 میٹر چوڑی ہو تاکہ اس پر 1٫055 وہیل لگ سکیں۔ ہر وہیل پر 20 مختلف نمبر ہوں جو 20 عام سے امائینو ایسڈ کو ظاہر کرتے ہوں (زمین پر اس وقت امائینو ایسڈ کی معلوم تعداد 22 ہے جو قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے صرف 20 ہی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ آخری امائینو ایسڈ 2002 میں اوہائیو یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا تھا جو محض ایک جاندار میں پایا جاتا ہے)۔ اب سوچیے کہ اگر آپ اس مشین پر جوا کھیلیں تو اس بات کے کیا امکانات ہیں کہ 1٫055 وہیل پر مخصوص نمبر ایک ہی وقت آئیں؟ اگر ہم ایک سادہ سی پروٹین بھی بنانا چاہیں تو بھی ہمیں 200 امائینو ایسڈ درکار ہیں جو 10260 میں سے ایک امکان ہے یعنی 1 کے بعد 260 صفریں۔ یہ تعداد پوری کائنات میں موجود ایٹموں کی تعداد سے زیادہ ہے۔
مختصراً پروٹین بہت پیچیدہ چیزیں ہیں۔ ہموگلوبن جیسی سادہ پروٹین میں 146 امائینو ایسڈ ہوتے ہیں تاہم اس کے بننے کے امکانات 10190 میں سے ایک ہیں۔ اس لیے کیمبرج یونیورسٹی کے کیمسٹ میکس پیروٹز کو اس کا عقدہ حل کرنے میں 23 سال لگے۔ ایک پروٹین کے پیدا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسا سمجھیے کہ طوفانی ہوا کا بگولا کسی کباڑ خانے میں گھس کر نکلے تو پیچھے پورا جمبو جیٹ تیار ہو۔
ایک پروٹین کی تیاری اتنی مشکل ہے جبکہ ہم کئی لاکھ اقسام کی پروٹین کی بات کر رہے ہیں جو شاید دس لاکھ اقسام ہو۔ ان میں سے ہر ایک پروٹین منفرد اور ہماری بقاء کے لیے لازمی ہے۔ پروٹین کا بننا تو ہم نے دیکھا، اب یہ بھی دیکھیے کہ پروٹین کو قابلِ استعمال ہونے کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ تیاری کے بعد پروٹین ایک انتہائی مخصوص شکل میں بھی ڈھل جائے۔ اس ناممکن امر کے پورا ہونے پر بھی پروٹین اگر اپنی نقل نہ تیار سکے تو بیکار ہے۔ کوئی بھی پروٹین اپنی نقل نہیں تیار کر سکتی۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ڈی این اے درکار ہوتا ہے۔ نقل کے لیے ڈی این اے جادو جیسا کام کرتا ہے۔ اپنی نقل تیار کرنے میں ڈی این اے کو چند سیکنڈ ہی لگتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ڈی این اے اور کوئی کام نہیں کر سکتا۔ اب ذرا سوچیے کہ پروٹین ڈی این اے کے بغیر بیکار ہیں اور پروٹین کے بغیر ڈی این اے بیکار ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ پروٹین اور ڈی این اے ایک ہی وقت میں ارتقاء کے مراحل سے گزرے تاکہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کو تیار ہوں؟ اگر ایسا ہے تو کمال ہے۔
مزید دیکھیے۔ ڈی این اے، پروٹین اور زندگی کے لیے درکار دیگر اجزاء کو کسی جھلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی ایٹم یا مالیکیول اکیلا زندہ نہیں ہوتا۔ اپنے جسم سے آپ ایک ایٹم کو نوچ کر الگ کریں تو وہ ایٹم زندہ نہیں ہوگا۔ تاہم جب یہ سب ایٹم مل کر ایک خلیے کے اندر جمع ہوتے ہیں تو وہ خلیہ زندہ ہوتا ہے۔ اگر خلیہ نہ ہو تو یہ سب دلچسپ کیمیائی مرکبات ہی رہیں گے لیکن زندگی نہیں بن سکتے۔ ایک سائنس دان ڈیوس کا خیال ہے کہ اگر ہر چیز کو دیگر تمام چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ زندہ ہو سکیں تو پھر یہ سب اکٹھے کیسے ہوئے؟ یوں سمجھیے کہ آپ کے باورچی خانے میں موجود تمام تر اجزاء خود مل کر کیک بنے اور پھر جب ضرورت پڑی تو اس کیک نے تقسیم ہو کر مزید کیک پیدا کرنا شروع کر دیے۔ اسی معجزے کو ہم زندگی کا نام دیتے ہیں۔ اب آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ زندگی کی ابتداء کو سمجھنا اتنا مشکل کیوں ہے۔
اس سارے معجزے کی وجہ کیا ہے؟ ایک امکان تو یہ ہے کہ شاید یہ اتنا بڑا معجزہ نہیں جتنا کہ دکھائی دیتا ہے۔ پروٹین بظاہر اتنی پیچیدہ لگتی ہیں۔ ایسا بھی تو ممکن ہے کہ پروٹین یک بیک اس طرح نہ پیدا ہوئی ہوں بلکہ وقفے وقفے سے مختلف امائینو ایسڈ ملتے رہے ہوں اور آخر میں ایک پروٹین تیار ہو گئی ہو؟ یعنی پروٹین پیدا نہ ہوئی ہو بلکہ ارتقاء سے گزر کر بنی ہو؟
فرض کریں کہ آپ تمام ضروری اجزاء جیسا کہ کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور دیگر چیزیں لے کر ایک ڈبے میں پانی کے ساتھ ڈال کر ہلاتے ہیں تو انسان باہر نکل آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ناقابلِ یقین دکھائی دے گی۔ اکثر سائنس دان یہی کہتے ہیں۔ لیکن ‘اندھا گھڑی ساز’ میں رچرڈ ڈاکنز کا خیال ہے کہ پروٹین کی ابتداء بتدریج ہوئی۔ شاید کسی وجہ سے دو یا تین امائینو ایسڈ جمع ہوئے ہوں۔ کچھ عرصے بعد ان کے ساتھ ایک اور آن کر مل گیا ہو اور اس سے انہیں کوئی اضافی فائدہ ہوا ہو اور یہ سلسلہ چلتا رہے؟
زندگی سے جڑے کیمیائی تعامل عام سی بات ہیں۔ شاید ان عوامل کو ہم مُلر اور اُرے کی مانند لیبارٹری میں تو نہ کر سکیں لیکن فطرت میں ہمیں یہ عوامل ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ بہت ساری اقسام کے مالیکیول آپس میں مل کر لمبی لمبی زنجریں بناتے ہیں جنہیں پولیمر کہا جاتا ہے۔ شوگر مسلسل نشاستہ بناتی رہتی ہیں۔ کرسٹل یعنی قلمیں بہت سے ایسے کام کرتی ہیں جو زندگی سے متعلق سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ اپنی نقل تیار کرنا، آس پاس ہونے والے عوامل پر ردِ عمل ظاہر کرنا اور مخصوص ترتیب سے پیچیدہ تر ہوتے جانا۔ تاہم کرسٹل کبھی زندہ نہیں ہو پاتے۔ البتہ یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ پیچیدگی فطری اور اچانک وقوع پذیر ہونے والا کام ہے جو قدرتی طور پر اور مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ کائنات میں مختلف مقامات پر زندگی کا ہونا یا نہ ہونا الگ امر ہے لیکن خود بخود پیدا ہونے والا توازن ہمیں ہر جگہ ملتا ہے چاہے وہ انوکھے ڈیزائن والے برف کے گالے ہوں یا پھر زحل کے دائرے۔
توازن اور اجتماع کی یہ خوبیاں اتنی فطری ہیں کہ زندگی کا جنم لینا شاید ہماری توقع سے بھی زیادہ عام ہو۔ بیلجیم نژاد نوبل انعام یافتہ بائیو کیمسٹ کرسچیان ڈی ڈو کے خیال میں، ‘جہاں جہاں مناسب حالات ہوں، وہاں وہاں زندگی کا جنم لینا شاید ایک لازمی امر ہو’۔ اس کے خیال میں ہر کہکشاں میں ایسی صورتحال لاکھوں مرتبہ پیش آ سکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمیں بنانے والے کیمیائی اجزاء میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ کسی بھی جاندار کو بنانے کے لیے آپ کو چار بنیادی اجزاء درکار ہوتے ہیں: کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن۔ اس کے علاوہ سلفر، فاسفورس، کیلشیم اور فولاد کی بھی معمولی سی مقداریں درکار ہوں گی۔ انہیں لگ بھگ تین درجن مختلف ترتیبوں سے ملائیں تو شوگر، ایسڈز اور دیگر بنیادی مرکبات بن جائیں گے جن سے آپ کوئی بھی زندہ چیز بنا سکتے ہیں۔ ڈاکنز کے خیال میں، ‘ہمیں بنانے والے اجزاء میں کوئی خاص بات نہیں۔ ہر جاندار چیز اسی طرح مالیکیولوں کا مجموعہ ہے جیسے بے جان چیزیں’۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زندگی بے شک جتنی بھی عجیب، اطمینان بخش اور معجزانہ کیوں نہ لگے، لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارا اپنا وجود اسی بات کا ثبوت ہے۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ زندگی کی ابتداء سے متعلق چھوٹی چھوٹی باتیں ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں۔ مثال کے طور پر زندگی کی ابتداء سے متعلق ہر نظریے کا لازمی جزو پانی ہے چاہے وہ ڈارون کا نظریہ ہو یا پھر موجودہ دور کا نظریہ کہ سمندر میں آتش فشانی گرم بھاپ کے سوراخوں سے زندگی کی ابتداء ہوئی۔ تاہم یہ سب نظریے اس امر کو بھول جاتے ہیں کہ مانومر کو پولی مر یعنی پروٹین بننے کے لیے جس عمل کی ضرورت ہوتی ہے، اسے عملِ تبخیر کہتے ہیں۔ ایک درسی کتاب میں اس کا ہلکا سا اشارہ دیا گیا ہے۔ یہ کچھ ایسے ہی ہے جیسے آپ پانی کے گلاس میں چینی کا چمچ ڈالیں اور وہ چینی کی ڈلی بن کر نکلے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تاہم فطرت میں ایسے بھی ہوتا ہے۔ اس سے متعلق کیمیائی عمل تو بہت پیچیدہ ہے جسے اس طرح سمجھیں کہ جب آپ مانومر کو گیلا کریں تو وہ پولی مر نہیں بن سکتے، تاہم جب زمین پر زندگی کی ابتداء ہو رہی تھی، تب ایسا ممکن تھا۔ اگرچہ تب ایسا ممکن کیسے تھا اور اب ممکن کیوں نہیں، یہ حیاتیات کا ابھی تک ناقابلِ حل معمہ ہے۔
موجودہ دہائیوں میں سائنس کے لیے سب سے بڑی حیرت کا سبب یہ امر تھا کہ زمین پر زندگی کی ابتداء کب ہوئی۔ 1950 کی دہائی تک یہ بات عام سمجھی جاتی تھی کہ زندگی کی ابتداء کو 60 کروڑ سال سے کم کا عرصہ ہوا ہے۔ 1970 تک بعض سائنس دانوں کا نظریہ اڑھائی ارب سال قبل تک پہنچ گیا تھا۔ تاہم موجودہ نظریہ 3.85 ارب سال زمین کی ابتدائی حالت سے متعلق ہے کیونکہ زمین کی سطح آج سے لگ بھگ 3.9 ارب سال قبل ٹھوس بنی تھی۔
نیو یارک ٹائمز میں لکھے مضمون میں سٹیفن گولڈ نے کہا، ‘اس عجلت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مناسب ماحول والے سیاروں پر بیکٹیریا جیسے جانداروں کا پیدا ہونا کوئی مشکل نہیں’۔ ایک اور جگہ پر اس نے لکھا کہ، ‘زندگی کا اتنا جلدی شروع ہونا کیمیائی اعتبار سے لازمی امر تھا’۔
زندگی کی ابتداء میں اتنی عجلت سے بعض سائنس دانوں کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے زندگی کی ابتداء میں ہمیں بیرونی امداد حاصل تھی۔ طویل عرصے سے نظریہ موجود ہے کہ زمین پر زندگی باہر سے آئی ہے۔ 1871 میں لارڈ کیلون نے برٹش ایسوسی ایشن برائے ترقی سائنس میں یہ بات کہی کہ زندگی کے جراثیم شاید کسی شہابِ ثاقب کی مدد سے زمین پر پہنچے ہوں۔ تاہم 1969 تک اس بارے کم ہی لوگوں کو یقین تھا۔ اسی سال آسٹریلیا میں ہزاروں لوگوں نے بلند بانگ دھماکے سنے اور آسمان پر مغرب کی جانب آتشیں گولے کو حرکت کرتے دیکھا۔ اس گولے سے عجیب طرح کی آوازیں آ رہی تھیں اور اس سے پیدا ہونے والی بو کو بعض لوگوں نے میتھی لیٹڈ سپرٹ جبکہ کچھ لوگوں نے محض ناقابلِ برداشت بو کہا۔
یہ آتشیں گولہ میلبورن کے شمال میں موجود وادئ گولبرن کے قصبے مرچیسن کے اوپر پھٹا اور اس کے ٹکڑے زمین پر پہنچے۔ ان میں سے بعض تو پانچ کلو وزنی بھی تھے۔ خوش قسمتی سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔ اس قسم کا شہابِ ثاقب بہت نایاب ہے اور اسے کاربونیشیئس کونڈرائیٹ کہتے ہیں۔ قصبے کے رہائشیوں نے تقریباً 90 کلو پتھر جمع کیے۔ اتفاق دیکھیے کہ محض دو ماہ قبل ہی اپالو 11 کے خلاء باز چاند سے پتھروں کا تھیلا لائے تھے اور اب دنیا بھر سے چوٹی کی لیبارٹریاں خلائی پتھروں کی خواہش سے ہلکان ہو رہی تھیں۔
مرچیسن کا شہابِ ثاقب ساڑھے چار ارب سال پرانا نکلا اور اس میں 74 مختلف اقسام کے امائینو ایسڈ چپکے ہوئے تھے۔ ان میں سے 8 امائینو ایسڈ ارضی پروٹین کی تیاری میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ 2001 میں ایمس ریسرچ سینٹر، کیلیفورنیا کے محققین نے اعلان کیا کہ اس شہابِ ثاقب سے پیچیدہ شوگر کی ایسی لڑیاں بھی ملی ہیں جنہیں پولائل کہا جاتا ہے اور یہ آج تک زمین کے علاوہ اور کہیں دریافت نہیں ہوئیں۔
1969 کے بعد سے اب تک اس نوعیت کے اور بھی کئی شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرائے ہیں۔ ان میں سے ایک جنوری 2000 میں کینیڈا کی ریاست یوکون کی جھیل ٹیگش میں آن گرا اور اسے شمالی امریکہ کے زیادہ تر حصوں میں گزرتے دیکھا گیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری کائنات میں آرگینک مرکبات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہیلی کا دمدار ستارہ بھی ایک چوتھائی آرگینک مالیکیول سے بنا ہے۔ ان کی مناسب مقدار کو آپ کسی بھی مناسب حالت والے سیارے جیسا کہ زمین سے ٹکرائیں تو زندگی کے ابتدائی اجزاء تیار ہو جائیں گے۔
خلاء سے زندگی کی زمین کو منتقلی کے نظریات کو ‘پین سپرمیا’ کہتے ہیں۔ ان میں دو بنیادی مشکلات ہیں۔ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ زندگی کی ابتداء اصل میں کیسے ہوئی بلکہ یہ نظریات محض یہ بتاتے ہیں کہ کہیں سے بنی بنائی زندگی زمین تک آن پہنچی۔ دوسرا یہ کہ اس نظریے کے ماننے والے انتہائی معزز اور قابلِ احترام سائنس دان اس طرح کے اندازے لگانا شروع ہو جاتے ہیں جو کسی بھی طور پر سائنس دان کو زیب نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر ڈی این کے دریافت کنندہ سائنس دانوں میں سے ایک فریڈرک کرک نے اعلان کیا کہ، ‘زمین پر زندگی باہر سے آئی ہے’۔ اگر نوبل انعام یافتہ سائنس دان کی بجائے کسی اور نے یہ جملہ کہا ہوتا تو اسے شاید خبطی قرار دے دیا جاتا۔ فریڈ ہوئل اور اس کے ساتھی چندرا وکرما سنگھے نے پین سپرمیا کے نظریے کو مزید مشکوک بناتے ہوئے کہا کہ نہ صرف زندگی بلکہ آج کل کی بہت ساری بیماریاں جیسا کہ ببونک طاعون اور نزلہ جیسی بیماریاں بھی خلاء سے ہی آئی ہیں۔ تاہم ان نظریات کو بائیو کیمسٹوں نے بہ آسانی غلط ثابت کیا۔
تاہم زندگی چاہے جیسے بھی شروع ہوئی ہو، محض ایک بار ہی شروع ہوئی۔ شاید یہ علمِ حیاتیات کی سب سے انوکھی حقیقت ہے۔ آج جتنے بھی جانور اور پودے اور دیگر جاندار زندہ ہیں، ایک ہی جاندار سے نکلے ہیں۔ انتہائی قدیم زمانے میں چند چھوٹے کیمیائی تھیلے زندہ ہو گئے۔ انہوں نے کچھ غذائی اجزاء جذب کیے اور پھر مر گئے۔ شاید بہت بار ایسا ہوا ہو۔ تاہم اس بار اس تھیلے نے ایک انوکھا کام کیا۔ اس نے اپنی اگلی نسل پیدا کی۔ ایک جاندار سے جینیاتی مواد دوسرے جاندار کو منتقل ہوا اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے چل پڑا۔ یہ لمحہ ہم سب کی تخلیق کا لمحہ تھا۔ حیاتیات دان اسے ‘بگ برتھ’ یعنی عظیم پیدائش بھی کہتے ہیں۔
آپ دنیا میں کسی بھی کونے پر چلے جائیں، کسی بھی پودے، جانور، یا کسی بھی جاندار کو دیکھیں تو اس کی جینیاتی ڈکشنری اور جینیاتی زبان ایک ہی ہوگی۔ میٹ رڈلی کے مطابق، ‘تمام جاندار ایک ہی ہیں’۔ ہم سب کے سب جاندار ایک ہی حیاتیاتی سلسلے سے منسلک ہیں جو چار ارب سال سے جاری و ساری ہے۔ اگر آپ انسان کے جینیاتی مواد کا ایک حصہ لے کر اسے پھپھوندی میں لگا دیں تو پھپھوندی اسے ویسے ہی استعمال کرنے لگے گی جیسا وہ بنا ہی اس کے لیے ہو۔ درحقیقت یہ اس کا اپنا ہی حصہ ہے۔
زندگی کی ابتداء یا اس سے ملتی جلتی کوئی شئے وکٹوریا بینیٹ کی الماری کے ایک خانے پر رکھی ہے۔ وکٹوریا آئسو ٹوپ جیو کیمسٹ ہے جو اس وقت آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی ان کینبرا کی ارضیاتی سائنس کے شعبے میں کام کر رہی ہے۔ یہ امریکی سائنس دان 1989 میں دو سال کے لیے آسٹریلیا آئی اور یہیں کی ہو رہی۔ 2001 کے اواخر میں جب میں نے ملاقات کی تو اس نے مجھے پتھر کا ایک موٹا سا ٹکڑا تھما دیا۔ یہ ٹکڑا سفید کوارٹز اور بھورے سبز رنگ کے کلائینو پاروکسین کی پتلی پتلی پٹیوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ چٹان گرین لینڈ کے جزیرے اکالیا سے آئی تھی جہاں 1997 میں انتہائی قدیم چٹانیں ملی تھیں۔ یہ چٹان لگ بھگ 3.85 ارب سال پرانی ہے اور اس دور کے بحری گاد کو ظاہر کرتی ہے۔
بینٹ نے کہا، ‘ہم اس پتھر کو توڑے بغیر نہیں کہہ سکتے کہ اس میں قدیم جانداروں کی باقیات موجود ہیں یا نہیں لیکن جہاں سے اسے نکالا گیا ہے، وہاں قدیم ترین زندہ جاندار بھی نکالے گئے ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس پتھر میں بھی کوئی نہ کوئی متحجر یعنی فاسل جاندار موجود ہوں گے۔ خوردبینی جانداروں کی موجودگی کو ان کے فاسلز سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ تاہم اس پتھر کو توڑ کر ہم ان کیمیائی مادوں کو جان سکتے ہیں جو ان جانداروں نے اپنے پیچھے چھوڑے ہوں گے۔ اگرچہ یہ زندگی کی انتہائی قدیم حالت تھی لیکن بہرحال زندگی تو تھی۔ نہ صرف یہ جاندار زندہ رہے بلکہ انہوں نے دیگر جانداروں کو بھی جنم دیا’۔
یہی زندگی آخرکار موجودہ جانداروں کا سبب بنی۔
اگر آپ کو مس بینیٹ کی طرح قدیم چٹانوں سے دلچسپی ہے تو یہ جگہ آپ کے لیے جنت ثابت ہوگی۔ 1970 کی دہائی میں ایک سائنس دان بل کامپسٹن نے دنیا کی پہلی سینسیٹو ہائی ریزولیوشن آئن مائیکرو پروب یعنی شرمپ بنائی۔ یہ مشین زرکون کی انتہائی معمولی قلموں میں موجود یورینیم کی شرح انحطاط کو ناپتی ہے۔ بسالٹ کے علاوہ دیگر تمام چٹانوں میں زرکون پائی جاتی ہے اور انتہائی مستحکم ہونے کی وجہ سے سب ڈکشن کے علاوہ تمام تر قدرتی عوامل کو سہ سکتی ہے۔ سب ڈکشن کا عمل دراصل دو ٹیکٹانک پلیٹوں کے رگڑنے اور ایک تہہ کے دوسری کے نیچے گھس کر ختم ہو جانے کو کہتے ہیں۔ تاہم گرین لینڈ اور آسٹریلیا کے کچھ علاقوں کی چٹانیں ہمیشہ ہی اس قدرتی عمل سے بچی رہی ہیں۔ کامپٹن کی مشین انہی چٹانوں کی عمر کو حیرت انگیز درستگی سے ناپ سکتی ہے۔ پہلی شرمپ پرانے پرزوں سے بنائی گئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے کباڑی کی دکان سے نکلی ہو تاہم اس نے بہترین کام کیا۔ پہلے باقاعدہ ٹیسٹ میں اس مشین نے ایک چٹان کو 3.4 ارب سال پرانا بتایا۔ یہ چٹان مغربی آسٹریلیا سے آئی تھی۔
بینیٹ نے بتایا، ‘اس وقت بہت مسئلے پیدا ہوئے تھے کہ ایک بالکل ہی نئی مشین نے اتنے اہم موضوع پر اتنی جلدی کیسے نتیجہ نکال لیا’۔
پھر ہم نے ہال میں جا کر شرمپ دوم دیکھی۔ ساڑھے تین میٹر لمبی اور ڈیڑھ میٹر اونچی سٹین لیس سٹیل کی ٹھوس مشین تھی۔ اس کے ایک سرے پر ایک سکرین لگی ہوئی تھی جہاں ایک باب نامی ایک سائنس دان بیٹھا مختلف ہندسوں کو بدلتے دیکھ رہا تھا۔ صبح چار بجے سے دوپہر تک اس سائنس دان کو یہ مشین استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ بینیٹ نے بتایا کہ یہ کہ مشین 24 گھنٹے چلتی ہے اور اس پر وقت لینا آسان نہیں۔ کسی بھی جیو کیمسٹ سے پوچھیں کہ یہ مشین کیسے کام کرتی ہے تو وہ آپ کو انتہائی تفصیل سے اس کے بارے بتانے لگ جائے گا کہ آئسو ٹوپ کتنے عام ہوتے ہیں اور آئیونائزیشن کیسے کام کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ یہ مشین کسی بھی نمونے پر چارج ایٹموں کی بوچھاڑ کرتی ہے اور پھر سیسے اور یورینیم کی مقدار کے فرق کو انتہائی درستگی سے ناپ کر اس کی عمر کا درست تخمینہ دیتی ہے۔ بوب نے بتایا کہ ایک نمونے پر 17 منٹ لگتے ہیں اور ہر چٹان سے کم از کم بارہ نمونے چیک کرنے ہوتے ہیں تاکہ نتائج قابلِ بھروسہ ہوں۔ اس مشین پر کام کرنے کے لیے ہر سائنس دان کو تمام تر مرحلے خود ہی کرنے ہوتے ہیں۔
ارتھ سائنس کا شعبہ کافی عجیب سا تھا۔ کچھ کچھ دفتر، کچھ کچھ لیبارٹری اور کچھ کچھ مشین ورکشاپ جیسا۔ بینیٹ نے بتایا، ‘ہم ساری مشینیں خود ہی بناتے ہیں۔ شیشے والا کاریگر ابھی ریٹائر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پتھروں کو کاٹنے کے لیے دو ملازمین بھی ہیں’۔ میری آنکھوں میں حیرت دیکھ کر بینٹ نے وضاحت کی، ‘ہمارے ہاں بہت ساری چٹانیں اور پتھر آتے ہیں۔ انہیں ٹیسٹ کرنے سے قبل ہمیں پوری تسلی کرنی ہوتی ہے کہ اس میں کوئی بیرونی ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہی اس سے پہلے والے نمونے کی باقیات اس سے مل جائیں۔ حتیٰ کہ گرد بھی نہیں۔ بہت طویل اور خشک کام ہے’۔ پھر ہم نے پتھر توڑنے والی مشینیں دیکھیں جن کے کاریگر شاید کافی پینے گئے ہوئے تھے۔ مشینوں کے ساتھ ہی بڑے بڑے ڈبے ہر سائز کے پتھروں سے بھرے ہوئے تھے۔
اس چکر کے بعد جب ہم بینٹ کے دفتر پہنچے تو دیوار پر مجھے ایک پینٹنگ لگی دکھائی دی جس میں آج سے ساڑھے تین ارب سال قبل کی زمین دکھائی گئی تھی۔ زندگی کا آغاز ہو چکا تھا اور اس دور کو ‘آرکیئن’ دور کہتے ہیں۔ انتہائی عجیب و غریب سرزمین تھی جس میں لاوا اگلتے آتش فشاں اور بھاپ اڑاتا ہوا تانبے کی رنگت کا سمندر بھی موجود تھا۔ زندگی کی ابتداء اور تسلسل کے لیے انتہائی ناسازگار ماحول لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا، ‘کیا یہ پینٹنگ حقیقت سے قریب تر ہو سکتی ہے؟’
بینٹ نے جواب دیا، ‘مفکرین کا ایک گروہ یہ سوچتا ہے کہ ابتداء میں سورج بہت مدھم تھا اور بالائی فضاء کے بغیر اس مدھم سورج کی بالائے بنفشی شعاعیں ہر طرح کے کیمیائی بانڈ کو توڑ دیتی تھیں۔ اس کے باوجود یہاں دیکھیں، جاندار تقریباً سطح سمندر تک پہنچ گئے تھے’۔
میں نے پوچھا، ‘کیا ہمیں واقعی معلوم نہیں کہ اس وقت زمین کیسی ہوگی؟’
بینٹ نے اثبات میں سر ہلایا۔
میں نے پھر پوچھا، ‘کچھ بھی ہو، اس وقت کی زمین پر زندگی کا تصور محال ہے’۔
بینٹ نے جواب دیا، ‘پھر بھی زندگی کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہوگا ہی، ورنہ زندگی کیسے شروع ہوتی’۔
یہ زمین تو واقعی ہمارے لیے مناسب نہیں تھی۔ اگر آپ آج ٹائم مشین کی مدد سے واپس آرکیئن دور میں چلے جائیں تو مشین سے قدم باہر رکھتے ہی آپ واپس لوٹ آئیں گے۔ آکسیجن کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوگی اور زہریلے بخارات کی صورت میں ہائیڈروکلورک ایسڈ اور سلفیورک ایسڈ آپ کے کپڑے گلا کر آپ کی جلد پر آبلے ڈال دیں گے اور نہ ہی ہمیں مصوروں کی بنائی ہوئی قدیم زمین کے خوبصورت مناظر ملیں گے۔ کیمیائی بخارات سے سورج کی روشنی زمین کی سطح تک نہیں پہنچ پائے گی اور وقفے وقفے سے ہونے والے آسمانی بجلی کی چمک سے ہی آپ کچھ دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔ یعنی ایسی زمین جو تھی تو ہماری زمین لیکن اسے کوئی پہچان نہ سکتا۔
اس دور میں اہم واقعات کم ہی ہوتے تھے۔ دو ارب سال تک بیکٹیریا ہی زندگی کی واحد علامت تھے۔ وہ پیدا ہوتے، اپنی نسل بڑھاتے اور پھیلتے رہے لیکن انہوں نے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی۔ پہلے ارب سال کے دوران بیکٹیریا کی ایک قسم جسے ہم سائنو بیکٹیریا یا بلیو گرین الجی کہتے ہیں، نے اپنی خوراک کے لیے پانی میں موجود ہائیڈروجن کو استعمال کرنا سیکھ لیا۔ یہ بیکٹیریا پانی جذب کرتے اور ہائیڈروجن کشید کر کے آکسیجن کو بطور فضلہ خارج کر دیتے۔ یہ ضیائی تالیف کی قدیم ترین شکل تھی۔ ساگان اور مارگولیس کے مطابق، زمین کی تاریخ میں ضیائی تالیف سب سے اہم میٹابولک عمل ہے اور یہ عمل پودوں کی بجائے بیکٹیریا کی ایجاد ہے۔
سائنو بیکٹیریا نے پوری دنیا میں پھیل کر اسے آکسیجن سے بھرنا شروع کر دیا۔ تاہم وہ جاندار جو آکسیجن کے بغیر زندہ رہتے ہیں، یعنی اس دور کے تقریباً تمام جاندار، ان کے لیے یہ صورتحال تکلیف دہ تھی کہ آکسیجن ان کے لیے زہرِ قاتل تھی۔ ہمارے خون میں سفید خلیات بیکٹیریا کو مارنے کے لیے آکسیجن استعمال کرتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے افراد آکسیجن کے اس پہلو سے ناواقف ہیں کہ ہم نے ارتقاء کے عمل سے آکسیجن کو اپنے لیے مفید بنا لیا ہے۔ یہ آکسیجن ہی ہے جو لوہے کو زنگ لگاتی اور مکھن کو سڑاتی ہے۔ تاہم ہمارے لیے بھی آکسیجن ایک حد تک مفید ہے۔ ہمارے خون میں آکسیجن کی مقدار ماحول میں موجود مقدار کا محض دس فیصد ہوتی ہے۔
آکسیجن استعمال کرنے والے نئے جانداروں کو دو فائدے ہوئے۔ ایک تو آکسیجن سے توانائی کی بڑی مقدار آسانی سے ملتی ہے تو دوسرا یہ بھی کہ دشمن جاندار پیچھا چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سے کچھ جاندار دلدلی زمین اور جھیلوں کی تہہ میں چلے گئے تو دیگر نے بہت عرصے بعد ارتقاء کے عمل کے بعد زمینی جانوروں کے نظامِ انہضام کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ ہماری خوراک کو ہضم کرنے کے عمل میں ان کی مدد لازمی ہے جبکہ آکسیجن کی معمولی سی مقدار بھی انہیں مار سکتی ہے۔ بے شمار دیگر اقسام کے جاندار بدل نہ سکے اور معدوم ہو گئے۔
سائنو بیکٹیریا بہت مقبول تھے۔ پہلے پہل تو ان کی خارج کی ہوئی اضافی آکسیجن لوہے سے مل کر فیرک آکسائیڈ بناتی رہی جو پرانے سمندروں کی تہہ میں بیٹھ جاتے تھے۔ کروڑوں سال تک جاری اس عمل سے ہمارے آج کے دور کے لوہے کی معدنی ذخائر بنے۔ اگر آپ اس پروٹیروزوئک دور میں واپس چلے جائیں گے تو آپ کو اکا دکا ہی جاندار دکھائی دیں گے جو کہیں ڈھکے ہوئے تالابوں کے کنارے یا ساحلِ سمندر پر چٹانوں پر چپکے ہوں گے۔ دیگر تمام اقسام کی زندگی نظروں سے اوجھل تھی۔
تاہم ساڑھے تین ارب سال قبل کچھ خاص ہوا۔ جہاں جہاں سمندر کم گہرے تھے، مختلف اجسام نمودار ہونے لگ گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائنو بیکٹیریا لیسدار ہوتے گئے اور مختلف خوردبینی گرد و غبار ان سے چپکنے لگ گئے۔ اس طرح وہ عجیب اجسام بننے لگے جنہیں ہم سٹرومیٹولائٹس کہتے ہیں۔ ان کی اشکال اور حجم فرق ہوتے ہیں۔ بعض جگہ ان کی شکل گوبھی کے پھول جیسی تو کبھی گدے جیسی اور کبھی مینار نما ہوتی ہے۔ یہ مینار دس سے لے کر سو میٹر تک بلند ہوتے تھے۔ ایک طرح سے یہ زندہ چٹانیں تھیں۔ کچھ جاندار ان کی سطح پر تو کچھ سطح کے نیچے ایک دوسرے کی مدد سے زندہ رہتے تھے۔ اسے ہم دنیا کا پہلا ماحولیاتی نظام کہہ سکتے ہیں۔
بہت برسوں تک سائنس دان سٹرومیٹولائٹس کو فاسلز سے ہی سمجھتے رہے لیکن 1961 میں عجیب واقعہ رونما ہوا جب شمال مغربی آسٹریلیا کے ساحل پر شارک بے کے مقام پر زندہ سٹرومیٹولائٹس دکھائی دیے۔ یہ بات اتنی عجیب تھی کہ سائنس دانوں کو یہ حقیقت قبول کرنے میں کئی برس لگے۔ یہ جگہ انتہائی دور افتادہ ہونے کے باوجود سیاحوں کے لیے کشش رکھتی ہے۔ حکومت نے اس جگہ پانی پر لکڑی کے تختوں سے راستے بنا دیے ہیں جہاں لوگ چل کر قریب سے انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کا رنگ بھورا ہے اور دیکھنے میں گائے کے گوبر کے بہت بڑے ڈھیر پانی کی سطح سے ذرا نیچے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ساڑھے تین ارب سال پرانے زندہ اجسام کو دیکھنا اپنے میں ایک حیرت انگیز تجربہ ہے۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘یہ وقت کے سفر کے مترادف ہے۔ اگر دنیا کو ان کی اصل قدر کا پتہ چلے تو یہ مصر کے اہراموں کی طرح مشہور ہو جائیں’۔ اندازہ ہے کہ ان چٹانوں کے ہر مربع گز میں تقریباً تین ارب انفرادی جاندار موجود ہیں۔ اگر آپ انہیں قریب سے دیکھیں تو بعض مساموں سے ہوا کے چھوٹے چھوٹے بلبلے نکلتے دکھائی دیتے ہیں جو آکسیجن پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دو ارب سال تک ایسی ہی کوششوں سے جا کر زمین کی فضاء میں آکسیجن کی مقدار 20 فیصد تک پہنچی ہے جس سے پیچیدہ جانداروں کا وجود ممکن ہوا ہے۔
اندازہ ہے کہ یہ اجسام زمین پر سب سے سست رفتاری سے اگنے والے جاندار ہیں اور یہ بات کسی شک کے بناء کہی جا سکتی ہے کہ یہ جاندار سب سے نایاب بھی ہیں۔ پیچیدہ جانداروں کے وجود کو ممکن بنانے والے یہ جاندار انہی جانداروں کے ہاتھوں تقریباً ہر جگہ سے ناپید ہو گئے جن کے وجود کی راہ انہوں نے ہموار کی تھی۔ شارک بے میں ان کے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پانی انتہائی کھارا ہے اور کوئی ایسا جانور نہیں رہ سکتا جو سٹرومیٹولائٹس کو کھائے۔
حیات کی اتنی سست رفتاری شاید اسی وجہ سے تھی کہ پہلے سادہ جاندار فضاء میں مناسب مقدار میں آکسیجن پہنچا دیں۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘جانوروں کے پاس کام کرنے کی توانائی ہی نہیں تھی’۔ دو ارب سال یعنی زمین کی تاریخ کے 40 فیصد حصہ گزرنے کے بعد فضاء میں آکسیجن کی مقدار موجودہ سطح تک پہنچی۔ تاہم جب یہ مرحلہ سر ہوا تو اچانک ایک بالکل ہی نئی قسم کے خلیے نمودار ہوئے جن میں ایک مرکزہ اور چند دیگر چھوٹے چھوٹے حصے ایک جھلی میں جمع تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اتفاقی طور پر یا جان بوجھ کر کسی بیکٹیریا نے دوسرے کو اپنے اندر سمو لیا ہوگا اور یہ رشتہ دونوں کو ہی راس آ گیا۔ قیدی بیکٹیریا کو ہم مائٹو کونڈریا کے نام سے جانتے ہیں۔ اس رشتے سے ہی پیچیدہ جانداروں کا وجود ممکن ہوا۔ پودوں میں اسی طرح کا ایک اور عمل ہوا جس میں ضیائی تالیف والے کلوروپلاسٹ کا جنم ہوا۔
مائٹو کونڈریا کا کام آکسیجن کی مدد سے خوراک سے توانائی نکالنا ہے۔ اس کام کے بغیر یک خلوی جاندار کبھی بھی کثیر خلوی نہ بن سکتے۔ مائٹو کونڈریا انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں اور ریت کے ایک ذرے میں ایک ارب بھی سما جائیں۔ لیکن یہ بہت بھوکے ہوتے ہیں۔ آپ جو کچھ بھی کھاتے ہیں، انہی کی نظر ہوتا ہے۔
ان کے بغیر ہم دو منٹ بھی نہیں زندہ رہ سکتے۔ تاہم دو ارب سال کے تعلق کے باوجود بھی مائٹوکونڈریا ہمارے لیے آج بھی اجنبی ہیں۔ ان کا اپنا ڈی این اے، آر این اے اور رائبوسوم ہوتے ہیں۔ جس خلیے میں موجود ہوتے ہیں، اس سے قطع نظر ان کی افزائشِ نسل کا الگ وقت ہوتا ہے۔ ان کی شکل اور ان کا کام بیکٹیریا جیسا ہی ہوتا ہے اور بعض اوقات اینٹی بائیوٹیکس ان پر بھی اسی طرح اثر کرتی ہے جیسے بیکٹیریا پر۔ ان کی اپنی جینیاتی زبان ان کے میزبان خلیے سے الگ ہوتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ دو ارب سال گزرنے کے بعد بھی مہمان ہی ہیں۔
ان خلیوں کو یوکیریوٹ (حقیقی مرکزے والے) کہا جاتا ہے۔ دوسری طرح کے خلیے پروکیریوٹ یعنی قبل از مرکزے والے کہلاتے ہیں۔ ان کا وجود ہماری متحجراتی تاریخ یعنی فاسل ریکارڈ میں اچانک ہی نمودار ہوتا ہے۔ سب سے پرانے یوکیریوٹ خلیے گرائیپینیا کہلاتے ہیں جو مشی گن میں 1992 میں دریافت ہوئے۔ ایسے فاسل ایک بار ملے اور اگلے 50 کروڑ سال تک ان کا کوئی وجود نہیں ملتا۔
زمین پر زندگی نے ایک قدم اور آگے بڑھا لیا تھا۔ پروکیریوٹ کی نسبت یوکیریوٹ دس ہزار گنا زیادہ بڑے اور ان کا ڈی این اے ہزار گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ پروکیریوٹ کو کیمیائی مادوں سے بھرے تھیلے سے ذرا زیادہ کچھ کہہ لیں تو یوکیریوٹ زندہ جاندار تھے۔ اسی طرح کے اہم واقعات کے بعد اب جانداروں کی دو اقسام بن چکی ہیں۔ ایک وہ جو آکسیجن خارج کرتے ہیں جیسا کہ پودے اور دوسرے وہ جو آکسیجن جذب کرتے ہیں، یعنی کہ انسان اور دیگر عام جانور۔
یک خلوی یوکیریوٹ کو پہلے پہل پروٹوزوا کہتے ہیں مگر آج کل پروٹسٹس کہلاتے ہیں۔ پروکیریوٹ کی بہ نسبت یوکیریوٹ ڈیزائن اور نفاست کے شاہکار ہیں۔ سادہ سا امیبا جس کی زندگی کا مقصد بظاہر صرف زندہ رہنا ہے، میں 40 کروڑ بٹ کے برابر ڈی این اے ہوتا ہے جو 500 صفحات کی 80 کتابوں کے برابر ہے۔
بالآخر یوکیریوٹ خلیوں نے ایک نیا کام سیکھا جس پر شاید ایک ارب سال لگے ہوں گے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے مل کر کثیر خلوی جاندار بنانا سیکھ لیے۔ اسی سے موجودہ جانداروں کا وجود ممکن ہوا۔ کرہ ارض پر زندگی نے ایک اور قدم بڑھا لیا تھا۔
تاہم یہ بات واضح رہے کہ اس وقت تک زمین پر زندگی محض خوردبینی جانداروں تک ہی محدود تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
20 چھوٹی دنیا​
خوردبینی جانداروں میں زیادہ دلچسپی لینا ہمارے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً عظیم فرانسیسی کیمیا دان اور بیکٹیریا کا ماہر لوئیس پاسچر اپنے کام میں اتنا مگن ہو گیا کہ اپنے سامنے رکھی ہوئی ہر تھالی کا محدب عدسے سے معائنہ کرتا تھا۔ لوگ اسے کھانے کی دعوت دینے سے کترانے لگے۔
حقیقت میں آپ بیکٹیریا سے چھپ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے اندر اور ہمارے اردگرد ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ صحت مند انسان ہیں اور حفظانِ صحت کے عمومی اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں تو آپ کے جسم پر ایک وقت میں تقریباً ایک کھرب بیکٹیریا کھا پی رہے ہوں گے۔ ہماری جلد کے ہر ایک مربع سینٹی میٹر پر ان کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ آپ کی جلد سے گرنے والے دس ارب ٹکڑوں، ہر مسام سے نکلنے والی چکنائی اور دیگر معدنیات پر یہ بیکٹیریا پلتے ہیں۔ آپ کا جسم ان کے لیے بہترین طعام گاہ ہے اور یہاں سے انہیں نہ صرف حدت ملتی ہے بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی آسان ہو جاتی ہے۔ آپ کی جسم کی بو ان بیکٹیریا کی طرف سے شکریے کا اظہار ہوتی ہے۔
یہ تو تھے وہ بیکٹیریا جو آپ کی جلد پر رہتے ہیں۔ مزید کھربہا بیکٹیریا ہمارے نظامِ انہضام، نتھنوں، بالوں، پلکوں، آنکھوں کے اوپر تیرتے ہوئے اور دانتوں میں سوراخ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ہمارے نظامِ انہضام میں کم از کم 400 مختلف اقسام کے سو کھرب بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ ان کی کچھ اقسام شکر پر کام کرتی ہیں تو کچھ نشاستے پر تو کچھ دوسرے بیکٹیریا کو مارنے کا کام کرتی ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں بیکٹیریا ایسے بھی ہیں کہ ان کا بظاہر کوئی کام نہیں۔ شاید انہیں آپ کے اندر رہنا پسند ہو۔ ایک انسانی جسم میں کل 10 کواڈریلین خلیے ہوتے ہیں جبکہ سو کواڈریلین بیکٹیریا ہمارے اندر رہتے ہیں۔ بیکٹیریا ہمارے جسم کا بہت بڑا حصہ ہیں۔ شاید ان کے خیال میں انسان ان کا چھوٹا سا حصہ ہوں گے۔
ہم انسان اتنے بڑے اور اتنے چالاک ہیں کہ اینٹی بائیوٹکس اور عفونت کش مرکبات بنا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بیکٹیریا کو معدومیت کے کنارے تک پہنچا دیا ہے۔ مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ بیکٹیریا بظاہر شہر نہیں بناتے اور نہ ہی کوئی تقریبات کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر بیکٹیریا اس کرہ ارض پر تب بھی موجود رہیں گے جب سورج پھٹ جائے گا۔ یہ سیارہ بیکٹیریا کا ہے۔ ہم یہاں ان کی اجازت سے رہ رہے ہیں۔
یاد رکھیں کہ بیکٹیریا ہمارےبغیر اربوں سال سے اس کرہ ارض پر آباد ہیں۔ ان کے بغیر ہم ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہی ہمارے فاضل مادوں کو دوبارہ قابلِ استعمال بناتے ہیں۔ ان کے بغیر کوئی بھی چیز گل سڑ نہیں سکتی۔ ان کی مدد سے ہمارا پانی صاف ہوتا ہے اور انہی کی مدد سے ہماری زمین پر نباتات اگتی ہیں۔ ہمارے نظامِ انہضام میں موجود بیکٹیریا حیاتین بناتے ہیں، ہماری کھائی ہوئی خوراک کو قابلِ استعمال شکر اور پولی سکرائیڈز میں تبدیل کرتے اور نگلے جانے والے نقصان دہ خوردبینی جانداروں کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔
ہوا سے نائٹروجن کی مدد سے نیوکلیوٹائڈ اور امینو ایسڈ بنانے کے لیے ہم بیکٹیریا کے محتاج ہیں۔ یہ کام انتہائی مشکل اور خوبصورتی سے ہوتا ہے۔ مارگولس اور ساگان کے مطابق، ‘اگر ہم یہی کام صنعتی پیمانے پر (جیسا کہ مصنوعی کھاد کی تیاری)کرنا چاہیں تو ہمیں خام مادوں کو فضا سے 300 گنا زیادہ دباؤ پر اور 500 ڈگری سیلسیس پر گرم کرنا ہوگا۔ بیکٹیریا ہر وقت یہی کام بغیر کسی دقت کے کرتے رہتے ہیں۔‘ نائٹروجن کے بغیر بڑے جاندار زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ مزید برآں یہی خوردبینی جاندار ہمارے لیے ہوا پیدا کرتے ہیں اور ماحول کو مستحکم رکھتے ہیں۔ خوردبینی جاندار جن میں بڑا حصہ سائنو بیکٹیریا کا ہے، فضا کی زیادہ تر آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ الجی اور دیگر ننھے جاندار ہر سال کم از کم 150 ارب کلوگرام آکسیجن سالانہ پیدا کرتے ہیں۔
یہ جاندار انتہائی تیز ہیں۔ بعض اقسام محض دس منٹ میں نئی نسل پیدا کر لیتے ہیں۔ کلاسٹریڈیم پرفرنجس نامی بیکٹیریا، جو گینگرین پیدا کرتا ہے، محض نو منٹ میں نئی نسل پیدا کر سکتا ہے اور یہ سلسلہ ہر نو منٹ بعد دہراتا جاتا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے اس رفتار پر افزائش نسل کرتے ہوئے ایک بیکٹیریا دو دن میں پوری کائنات کے پروٹانوں سے زیادہ بچے پیدا کر سکتا ہے۔ بیلجیم کے بائیو کیمسٹ اور نوبل انعام یافتہ سائنس دان کرسچین ڈی ڈیو کے مطابق، ‘مناسب حالات مہیا ہونے پر ایک بیکٹیریا ایک دن میں 2٫80٫000 ارب بچے پیدا کر سکتا ہے۔‘ اس عرصے میں ایک انسانی خلیہ محض ایک بار تقسیم ہوتا ہے۔
تقریباً ہر دس لاکھ تقسیموں میں ایک بار تبدیلی آتی ہے۔ میوٹنٹ کے لیے تو یہ بات بری ہے کہ تبدیلی خطرناک ہو سکتی ہے ۔ تاہم بعض اوقات یہ نیا تبدیل شدہ بیکٹیریا کچھ اضافی فوائد ساتھ لے کر آتا ہےجیسا کہ کسی اینٹی بائیوٹک دوائی کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کر لینا۔ اس طرح انہیں انتہائی خطرناک فائدہ مل جاتا ہے۔ بیکٹیریا ایسی معلومات ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ کوئی بھی بیکٹیریا جنیاتی مواد کا کچھ حصہ دوسرے سے لے سکتا ہے۔ مارگولس اور ساگان کے بقول، ‘تمام بیکٹیریا ایک ہی جینیاتی تالاب میں رہتے ہیں۔‘ ایک جگہ کے بیکٹیریا میں آنے والی تبدیلی بہت تیزی سے دوسرے کونے تک پھیل سکتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے انسان کسی حشرے کے پاس جا کر اس سے جینیاتی معلومات لے کر اپنے پر اگا لے یا پھر چھت سے چمٹ جائے۔ اس اعتبار سے تمام بیکٹیریا ایک ہی جاندار ہیں، جو بہت چھوٹا، بہت دور دراز پھیلا ہوا مگر ناقابلِ شکست ہے۔
ہم سے بچ جانے والی ہر چیز پر بیکٹیریا پلتے ہیں۔ انہیں تھوڑی سی نمی مل جائے، جیسا کہ گیلا کپڑا خانے پر پھیرا جائے تو اس سے ملنے والی نمی سے بھی بیکٹیریا ایسے بڑھتے ہیں جیسے عدم سے وجود میں آئے ہوں۔ لکڑی، گوند اور پینٹ میں موجود دھاتیں بھی کھا لیتے ہیں۔ آسٹریلیا میں سائنس دانوں نے ایسے بیکٹیریا Thiobacillus concertivorans دریافت کیے ہیں جو انتہائی تیز سلفیورک ایسڈ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، حالانکہ یہ تیزاب دھاتوں کو گلا سکتا ہے۔ ایک اور قسم کے بیکٹیریا Micrococcus radiophilus نیوکلیئر ری ایکٹروں کےفاضل مادوں کے تالاب میں ہنسی خوشی رہتے ہوئے پلوٹونیم اور دیگر خطرناک تابکار عناصر سے اپنا پیٹ بھر رہے ہوتے ہیں۔ بعض بیکٹیریا دھاتوں کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں حالانکہ ہماری معلومات کے مطابق اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
ابلتی ہوئی مٹی کے تالابوں، کاسٹک سوڈے کے تالابوں، چٹانوں کے اندر، سمندر کی تہہ پر، انٹارکٹکا کی میک مرڈو ڈرائی ویلی کے یخ بستہ پانیوں میں، بحرالکاہل میں 11 کلومیٹر کی گہرائی پر کہ جہاں پانی کا دباؤ فضا سے ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے اور پچاس جمبو جیٹ کے نیچے کچلے جانے کے برابر ہوتا ہے، بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو غیرفانی محسوس ہوتے ہیں۔ The Economist کے مطابق Deinococcus radiodurans پر تابکاری کا نہ ہونے کے برابر اثر ہوتا ہے۔ آپ ان کے ڈی این اے کو تابکار شعاعوں سے تباہ کریں تو ڈی این اے پھر سے فوراً اصل شکل میں جُڑ جاتا ہے۔
سب سے حیرت انگیز بیکٹیریا Streptococcus ہے جو چاند پر دو سال تک موجود کیمرے کے لینز سے نکالا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ چند ہی جگہیں ایسی ہوں گی جہاں بیکٹیریا زندہ رہنے کو تیار نہ ہوں۔ وکٹوریا بینٹ نے مجھے بتایا، ‘جب سمندر کی گہرائیوں میں سمندری شگافوں پر زیرِ آب مشینیں بھیجی جاتی ہیں تو جہاں گرمی کی شدت سے یہ مشینیں پگھلنے لگتی ہیں، وہاں بھی بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔‘
1920 کی دہائی میں جب یونیورسٹی آف شکاگو کے دو سائنس دانوں ایڈسن بیسٹن اور فرینگ گریئر نے اعلان کیا کہ انہوں نے 600 میٹر کی گہرائی پر تیل کے کنوؤں سے زندہ بیکٹیریا نکالے ہیں تو ہر کسی نے ان کا مذاق اڑایا کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ اگلے پچاس سال تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ ان کے نمونوں میں ملاوٹ ہو گئی ہوگی۔ اب ہمیں علم ہے کہ بیکٹیریا انتہائی گہرائی پر بھی زندہ رہتے ہیں جہاں ان کا روایتی نامیاتی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بیکٹیریا پتھروں میں موجود لوہا، سلفر، میگانیز اور دیگر اجزا کو کھاتے ہیں۔ ان کے سانس لینے کو آکسیجن نہیں بلکہ لوہا، کرومیم، کوبالٹ، حتیٰ کہ یورینیم بھی کام دیتی ہے۔ شاید ایسے یہ بیکٹیریا کی وجہ سے سونے، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے علاوہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر بنے ہوں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ زمین کی بالائی سخت تہہ کو بنانے میں بھی بیکٹیریا کا ہاتھ ہے۔
چند سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہمارے قدموں تلے رہنے والے بیکٹیریا کا وزن 100 کھرب ٹن کے برابر ہے۔ اسے Subsurface lithoautotrophic microbial ecosystems یعنی SliME کا نام دیا جاتا ہے۔ کارنل یونیورسٹی کے تھامس گولڈ کے اندازے کے مطابق اگر ہم تمام بیکٹیریا نکال کر سطح زمین پر رکھ دیں تو وہ ساری زمین کو 15 میٹر یا 4 منزلہ عمارت کے برابر ڈھانک لیں گے۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو پھر زمین کے اوپر موجود مخلوقات کی نسبت زمین کے اندر زیادہ جاندار ہوں گے۔
زمین کی گہرائی میں پائے جانے والے خوردبینی جاندار انتہائی سست رفتار ہوتے ہیں۔ ان میں سے سب سے چست جاندار بھی سو سال میں ایک بار تقسیم ہوتا ہوگا، بعض تو پانچ سو سال میں محض ایک مرتبہ تقسیم ہوتے ہیں۔ The Economist کے مطابق، ‘طویل عمر کا راز نکما رہنے میں پوشیدہ ہے۔‘ جب حالات انتہائی ناسازگار ہو جائیں تو بیکٹیریا اپنے تمام تر نظام بند کر کے اچھے وقت کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ 1997 میں سائنس دانوں نے ناروے کے ٹرونڈہیم عجائب گھر میں موجود ایسے اینتھراکس کے جراثیموں کو فعال بنایا ہے جو 80 سال سے نیم مردہ تھے۔ اس کے علاوہ 118 سال پرانے گوشت میں موجود جراثیم اور 166 سال پرانی بیئر کی بوتل کے جراثیم بھی زندہ کر لیے گئے ہیں۔ 1996 میں روسی سائنسی اکیڈمی کے سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے مستقل برف میں منجمد بیکٹیریا کو 30 لاکھ سال بعد فعال بنا لیا ہے۔ تاہم اس ضمن میں ویسٹ چیسٹر یونیورسٹی، پینسلوانیا کے رسل وری لینڈ نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے کہ اس نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر نیو میکسیکو میں نمک کی کان میں 600 میٹر کی گہرائی پر قید اڑھائی کروڑ سال پرانے بیکٹیریا کو فعال بنایا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ بیکٹیریا براعظموں سے بھی پرانے ہوں گے۔
اس رپورٹ پر ظاہر ہے کہ دنیا بھر سے شک ظاہر کیاگیا کہ اتنے طویل عرصے تک اگر بیکٹیریا غیر فعال رہا ہو تو اس کے اجزاء بیکار ہو جاتے۔ ظاہر ہے کہ بیکٹیریا وقتاً فوقتاً فعال ہوتا رہا ہوگا۔ تاہم بغیر کسی توانائی کے اتنے طویل عرصے تک ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کچھ سائنس دانوں نے شک ظاہر کیا کہ بے شک نمونوں کو نکالتے وقت ان میں ملاوٹ نہ ہوئی ہو مگر ممکن ہے کہ زیرِزمین حالت میں ان میں ملاوٹ ہو گئی ہوگی۔ 2001میں تل ابیب یونیورسٹی کے سائنس دانون نے بتایا کہ بحرِ مردار میں پائے جانے والے بیکٹیریا اور مندرجہ بالا بیکٹیریا کےجینیاتی مواد میں صرف دو جگہ معمولی سا فرق ہے۔
انہوں نے شک ظاہر کیا کہ، ‘کیا یہ ممکن ہے یہ اڑھائی کروڑ سال میں ان بیکٹیریا میں جو فرق آیا ہے، وہ لیبارٹری میں محض تین سے سات دن میں ہونا عام سی بات ہے‘؟ اس کے جواب میں ویرلینڈ نے کہا، ‘شاید لیبارٹری میں بیکٹیریا زیادہ رفتار سے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوں‘؟
کیا پتہ۔
عجیب بات دیکھیں کہ خلائی دور شروع ہو چکا ہے، مگر آج بھی زیادہ تر درسی کتب میں جانداروں کے دو گروہ درج ہیں، حیوانات اور نباتات۔ خوردبینی جاندار کا مشکل ہی کوئی تذکرہ ملتا ہے۔ امیبا اور اس جیسے دیگر یک خلوی جانداروں کو جانور نما جبکہ الجی کو پودا نما مانا جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بیکٹیریا اور پودوں میں کوئی تعلق نہیں، بیکٹیریا کو نباتات کے گروہ میں رکھا گیا ہے۔ 18ویں صدی میں ایک جرمن نیچرلسٹ ارنسٹ ہیکل نے تجویز دی تھی کہ بیکٹیریا کو علیحدہ کنگڈم میں رکھا جائے جسے مونیرا کا نام دیا گیا۔ 1960 کے عشرے میں انتہائی محدود ماہرین نے اس تجویز کو قبول کرنا شروع کیا (میری 1969 کی قابلِ بھروسہ امریکن ہیرٹیج ڈکشنری میں یہ لفظ موجود نہیں)۔
قابلِ مشاہدہ دنیا کے جانداروں کے بارے بھی ہماری غلط فہمیاں کم نہیں۔ مثال کے طور پر فنجائی کے گروہ کو، کہ جس میں کھمبیاں، ککر متے، خمیر اور دیگر چیزیں شامل ہیں، کو نباتات سمجھا جاتا ہے جبکہ ان میں کوئی بھی چیز، بشمول افزائشِ نسل، عمل تنفس یا ان کی بناوٹ، پودوں کی بجائے جانوروں سے ملتی ہے۔ ساخت کے اعتبار سے وہ جانوروں سے مماثل ہیں کہ ان کے جسم کائیٹن نامی مادے سے بنتے ہیں جو ممالیہ جانوروں میں ناخن اور حشرات میں خول بنانے کے کام آتا ہے، اگرچہ ان کا ذائقہ فرق ہوتا ہے۔ سب سے اہم فرق یہ ہے کہ پودوں کے برعکس فنجائی ضیائی تالیف کے قابل نہیں اور ان میں کلوروفل نہیں پایا جاتا اور ان کا رنگ بھی سبز نہیں ہوتا۔ فنجائی براہ راست اپنی خوراک پر اگتے ہیں جو کچھ بھی ہو سکتی ہے، چاہے وہ کنکریٹ میں موجود سلفر ہو یا آپ کے پیر کی انگلیوں کے درمیان سڑتا ہوا مادہ ہو۔ کسی قسم کی نباتات ایسا نہیں کر سکتی۔ ہاں، نباتات سے ان کی واحد مماثلت ان کی جڑ ہوتی ہے۔
ایک اور جاندار جسے ہم سلائم مولڈ کے نام سے جانتے ہیں، کو بھی اسی طرح غلط درجے میں رکھا گیا ہے۔ ان کا سائنسی نام مائکسو مائی سیٹس ہے۔ اس نام کی وجہ سے ان کی عمومی جائے رہائش ہے۔ عموماً گندے پانی کی نکاسی کے نل جب بند ہوں تو وہاں یہ دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ مخلوقات میں شاید یہ عجیب ترین مخلوق ہے۔ جب حالات سازگار ہوں تو یہ یک خلوی طور پر امیبا جیسی شکل میں پائے جاتے ہیں۔ جب حالات دشوار ہو جائیں تو سب ایک جگہ مل کر ایک گھونگھے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو زیادہ دور جانے کے قابل نہیں ہوتا۔ تاہم گلے سڑے پتوں کے نیچے سے نکل کر اوپر تک پہنچنا شاید ارتقا کی ایسی منزل ہے جو کروڑوں سال گزرنے کے باوجود فقید المثال ہے۔
تاہم قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ سازگار مقام پر پہنچ کر اس کی شکل پھر بدلتی ہے اور اس بار یہ پودا بن جاتا ہے۔ کسی عجیب عمل کی وجہ سے اس کے خلیے حرکت کرتے ہوئے ایک تنا اور پھر ایک بلب بناتے ہیں جو پھل پیدا کرتی ہے۔ اس کے اندر کروڑوں کی تعداد میں سپور ہوتے ہیں۔ جونہی مناسب وقت آتا ہے تو یہ سپور ہوا میں پھیل جاتے ہیں اور ایک بار پھر سے یک خلوی دور شروع ہو جاتا ہے اور یہ عمل چلتا رہتا ہے۔
برسوں تک ماہرینِ حیوانات سلائم مولڈ کو پروٹوزوا یعنی یک خلوی جانور اور ماہرینِ فطریات یعنی مائیکولوجسٹس کے مطابق فنجائی سمجھتے رہے۔ حالانکہ اکثریت جانتی تھی کہ دونوں ہی غلط ہیں۔ جب جینیاتی ٹیسٹنگ کی سہولیت مہیا ہوئی تو ماہرین یہ جان کر حیران رہ گئے کہ سلائم مولڈ فطرت میں موجود ہر زندہ چیز سے تو براہِ راست مختلف ہیں ہی، بسا اوقات ایک دوسرے سے بھی نہیں ملتے۔
1969 میں درجہ بندی میں کچھ نظم لانے کے لیے کارنل کے ایک ایکالوجسٹ وٹیکر نے Science رسالے میں تجویز پیش کی کہ حیات کی پانچ شاخیں بنائی جائیں جو کنگڈم کہلائیں گی۔ ان کے نام Animalia, Plantae, Fungi, Protista اور Monera رکھے گئے۔ Protista ایک صدی پہلے سکاٹس ماہرِ حیاتیات جان ہاگ کے تجویز کردہ نام Protoctista کی نئی شکل تھی۔ اس شاخ میں ہر وہ چیز رکھی جانی تھی جو کہیں اور نہ سما سکے۔
وٹیکر کی یہ تجویز بہت فائدہ مند تھی مگر اس میں Protista کی وضاحت ادھوری رہ گئی تھی۔ بعض ماہرین یہ اصطلاح بڑے یک خلوی جانداروں کے لیے استعمال کرتے ہیں تو بعض ماہرین کے مطابق یہ محض بے جوڑ چیزوں کا نام ہے۔ یعنی ہر وہ جاندار جو کسی اور شاخ میں نہ سما سکے، اسے یہاں ڈال دیتے ہیں۔ اس شاخ میں سلائم مولڈ، امیبا، سمندری گھاس وغیرہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ درحقیقت اس شاخ میں لگ بھگ دو لاکھ مختلف انواع کے جاندار شامل کیے گئے ہیں۔
ابھی وٹیکر کی نئی تجویز درستی کتب میں اپنی جگہ بنانا شروع ہو رہی تھی کہ یونیورسٹی آف الینوائس کے ایک عام سے محقق کی دریافت نے سب کچھ اتھل پتھل کر دیا۔ اس کا نام کارل ووز تھا اور 1960 کی دہائی سے وہ بیکٹیریا کے جینیاتی مواد کا مطالعہ کر رہا تھا۔ جینیاتی تحقیق کے ابتدا میں یہ کام انتہائی دشوار تھا۔ ایک بیکٹیریا پر تحقیق پر پورا سال لگ جاتا تھا۔ ووز کے بقول، اس وقت بیکٹیریا کی کل پانچ سو انواع دریافت ہو چکی تھیں، جبکہ آپ کے منہ میں موجود بیکٹیریا کی انواع اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ آج یہ تعداد 5٫000 تک بڑھ چکی ہے تاہم پھر بھی یہ تعداد الجی کی 26٫900، فنجائی کی 70٫000 اور امیبا کی 30٫800 انواع سے کہیں کم ہے۔
بیکٹیریا کے بارے اتنی لاعلمی کی وجہ بے پروائی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیکٹیریا کو کیسے الگ کر کے ان کا مطالعہ کیا جائے۔ محض ایک فیصد بیکٹیریا لیبارٹری میں پروان چڑھتے ہیں۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ ایک طرف تو بیکٹیریا دنیا کے کسی بھی ماحول میں اگنے کو تیار ہیں تو دوسری جانب لیبارٹری میں پیٹری ڈش پر اگنا ان کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ انہیں سمندری گھاس سے بنی جیلاٹن پر ڈالیں اور ان کی ہر ممکن ضرورت کا خیال رکھیں، مگر ان کی بھاری اکثریت محض عضوِ معطل کی مانند وہیں پڑی رہے گی۔ جو بیکٹیریا لیبارٹری میں پھلتا پھولتا ہے، ہر اعتبار سے غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔ مائیکرو بائیولوجسٹ کا زیادہ تر کام انہی کے مطالعے پر مبنی رہا۔ ووز کے الفاظ میں ‘ایسے ہی جیسے آپ چڑیا گھر کی سیر کرتے ہوئے علم الحیوانات سیکھنا چاہیں۔‘
تاہم جینیاتی مطالعے سے ووز کو خوردبینی جانداروں کے عام ڈگر سے ہٹ کر مطالعے کا موقع ملا۔ جوں جوں اس کا مطالعہ بڑھتا گیا، اسے پتہ چلتا گیا کہ خوردبینی دنیا میں توقع سے کہیں زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بہت سارے ایسے جاندار جو بیکٹیریا جیسے دکھائی دیتے اور بیکٹیریا کی طرح کام کرتے، درحقیقت بیکٹیریا نہیں تھے، جیسے زمانہ قدیم سے وہ بیکٹیریا سے الگ ہو چکے ہوں۔ ووز نے انہیں آرکی بیکٹیریا یا آرکیا کا نام دیا۔
آرکی اور بیکٹیریا کے مابین فرق محض ایک ماہرِ حیاتیات کے لیے ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ فرق ان کے لائپڈز میں اور پیپٹی گلائیکین کی عدم موجودگی ہیں۔ عملی اعتبار سے انتہائی وسیع فرق ہیں۔ آرکیا اور بیکٹیریا اس سے کہیں زیادہ مختلف ہیں جتنا کہ انسان مکڑی سے یا کیکڑے سے۔ ووز نے تن تنہا حیات کی ایسی تقسیم دریافت کر لی جو سب سے انوکھی تھی۔
1976 میں اس نے متعلقہ شعبے میں ہلچل مچا دی جب اس نے Tree of Life کی پانچ اہم شاخوں کی بجائے 23 ذیلی شاخیں بنا دیں جو تین شاخوں سے نکلی تھیں۔ ان کے نام بیکٹیریا، آرکیا اور یوکاریہ رکھے گئے۔ ان شاخوں کو اس نے ڈومین کہا۔ سو نئی ترتیب کچھ ایسے تھی:
بیکٹیریا: سائنو بیکٹیریا، جامنی بیکٹیرا، گرام مثبت بیکٹیریا، سبز نان سلفر بیکٹیریا، فلاوو بیکٹیریا اور تھرموٹگالیز
آرکیا: ہالوفیلیک آرکیانز، میتھانوسارکینا، میتھانوبیکٹیریم، میتھانوکوکس، تھرموسلیئر، تھرموپروٹیوس اور پائروڈکٹم
یوکاریہ:ڈپلومیڈ، مائیکروسپوریڈیا، ٹرائیکوموناڈز، فلیگلیٹس، اینٹامیبا، سلائم مولڈ، سیلیئٹ، نباتات، فنجائی اور جانور
ووز کی نئی ترتیب نے حیاتیات کی دنیا میں کوئی تہلکہ نہیں مچایا۔ کچھ سائنس دانوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ خوردبینی جانداروں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے تو کچھ سائنس دانوں نے اسے یکسر نظرانداز کر دیا۔ فرانسس ایشکرافٹ کے مطابق، ‘ووز کو سخت مایوسی ہوئی۔‘ تاہم آہستہ آہستہ مائیکروبیالوجسٹوں نے اس کی سکیم پر توجہ دینی شروع کر دی۔ تاہم ماہرینِ حیوانات اور ماہرینِ نباتات نے سب سے آخر میں اسے قبول کرنا شروع کیا جس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ووز کے ماڈل میں نباتات اور حیوانات کو یوکارین شاخ کے دور دراز کونے میں معمولی شاخ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ باقی ہر چیز یک خلوی دنیا سے متعلق ہے۔
ووز نے ایک انٹرویو میں بتایا، ‘یہ لوگ حیات کی تقسیم میں محض ظاہری فرق ملحوظ رکھتے تھے۔ میری تقسیم مالیکیولوں کی ترتیب پر مشتمل ہے جو ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ جو فرق انہیں دکھائی نہیں دیتا، وہ انہیں قبول نہیں۔ حالانکہ ان کے بنائے ہوئے پانچ شاخوں والے نظام کا کوئی فائدہ نہیں۔ طبعیات کی طرح حیاتیات بھی اب ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں مطلوبہ جانداروں اور ان کے افعال کو عام آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔‘
1998 میں ہارورڈ کے پرانے ماہرِ حیاتیات ارنسٹ مائیر (جو اس وقت 94 سال کا تھا اور اس کتاب کو تحریر کرتے وقت 100 عبور کرنے والا تھا) نے یہ کہہ کر مزید ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ حیات کی محض دو بڑی شاخیں کافی ہیں۔ Proceeding of the National Academy of Sciences میں لکھے گئے مضمون میں مائیر نے بتایا کہ ووز کی دریافت دلچسپ تو ہے لیکن اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں کیونکہ ‘ووز نے حیاتیات دان کے طور پر تربیت نہیں لی، اس وجہ سے وہ درجہ بندی کے اصولوں سے واقف نہیں۔‘ ایک اہم سائنس دان کی طرف سے دوسرے اہم سائنس دان کو نرم سے نرم الفاظ میں جاہل کہا جا رہا ہے۔
مائیر کے نکتہ نظر کی بنیاد انتہائی دقیق سائنسی پہلو ہیں جن میں میوٹک جنسیت، ہینیجن کلیڈیفکیشن اور کچھ دیگر متنازعہ امور ہیں۔ تاہم اس کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ اس طرح Tree of Life کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس کے بقول عالمِ بیکٹیریا محض چند ہزار انواع پر مشتمل ہے جبکہ آرکیان میں محض 175 انواع ہیں اور شاید چند ہزار مزید، جو ابھی دریافت نہیں ہوئیں۔ دوسری جانب یوکیریوٹک عالم میں علیحدہ مرکزہ رکھنے والے کثیر خلوی جاندار ہیں جن کی انواع کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس لیے مائیر کے خیال میں بیکٹیریا اور اس جیسے دیگر جانداروں کو یک خلوی گروہ پروکیروٹا میں رکھا جائے اور ‘زیادہ ترقی یافتہ‘ جانداروں کو یوکیریوٹا میں ساتھ رکھا جائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں ہر چیز جوں کی توں چھوڑ دی جائے۔ اس طرح یک خلوی اور کثیر خلوی جانداروں کا بنیادی فرق سامنے آتا ہے۔
ووز کی نئی ترتیب سے ہمیں ایک بات پتہ چلتی ہے کہ حیات بہت متنوع اور اکثر اتنی چھوٹی ہے کہ ہمیں دکھائی نہیں دیتی اور یک خلوی ہے۔ عام طور پر انسان ارتقا کے بارے یہی سوچتا ہے کہ بہت طویل عرصے سے ہونے والی اچھی اور اہم تبدیلیاں بڑے جانداروں تک یعنی ہم تک آئی ہیں۔ ہم یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں۔ تاہم ارتقا میں ہونے والی اہم ترین تبدیلیاں چھوٹے پیمانے پر ہوئی ہیں۔ ہم جیسے بڑے جاندار محض ایک استثنائی شاخ ہیں۔ زندگی کی 23 اہم شاخوں میں سے محض تین قسمیں، حیوانات، نباتات اور فنجائی کا حجم اتنا بڑا ہوتا ہے کہ عام انسان انہیں دیکھ پاتا ہے۔ تاہم ان میں بھی کئی انواع خوردبینی ہیں۔ ووز کے مطابق اگر ہم تمام تر جانداروں کو ایک جگہ جمع کر کے ان کا وزن کریں تو خوردبینی جاندار کل وزن کا کم از کم 80 فیصد نکلیں گے۔ ہماری دنیا کے اصل مکین خوردبینی جاندار ہی ہیں جو بہت طویل عرصے سے بستے چلے آ رہے ہیں۔
***
سو، ہم اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آیا خوردبینی جاندار واقعی ہمیں اتنا نقصان پہنچاتے ہیں؟ ہمیں بیمار کر کے، کھانسی، بخار، زخم پہنچا کر یا مار کر انہیں کیا خوشی ملتی ہوگی؟ جب میزبان جاندار مر جائے تو طفیلیوں کی اپنی زندگی مختصر ہو جاتی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بات یاد رہے کہ خوردبینی جانداروں کی بہت بڑی تعداد یا تو ہمیں نقصان نہیں پہنچاتی یا پھر ہمارے لیے مفید ہے۔ کرہ ارض کا سب سے مہلک بیکٹیریا Wolbachia انسان یا کسی بھی دوسرے فقاریہ جانور کے لیے کسی طور بھی نقصان دہ نہیں۔ لیکن اگر مکھی، کیڑے یا جھینگے کی بات کی جائے تو یہ بیکٹیریا ان کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ نیشنل جیوگرافک کے مطابق، ‘ہر ہزار میں سے ایک جراثیم ہمارے لیے مضر ہوتا ہے‘، اگرچہ جو مضر ہوتے ہیں، وہ بہت زیادہ مضر بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم ان کی بھاری اکثریت نقصان دہ نہیں، مگر آج بھی مغربی دنیا میں اموات کی تیسری بڑی وجہ یہی جراثیم ہیں۔ اگر ایسے جراثیم مہلک نہ بھی ہوں تو بھی ہمیں ان کے وجود سے نقصان ہوتا ہے۔
اپنے میزبان کو بیمار کر کے جراثیموں کو کچھ فوائد ملتے ہیں۔ بیماری کی علامات عموماً اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ الٹی کرنا، چھینکنا اور اسہال وغیرہ جراثیموں کے پھیلاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔ سب سے بہتر طریقہ تیسرے فریق کی مدد سے پھیلنا ہے۔ جراثیموں کو سب سے زیادہ رغبت مچھروں سے ہوتی ہے کہ مچھر کے ڈنگ سے جراثیم براہ راست دورانِ خون تک پہنچ جاتے ہیں اور میزبان کے مدافعتی نظام کے حرکت میں آنے سے قبل بیماری شروع ہو جاتی ہے۔ خطرناک بیماریوں کی اکثریت، بشمول ملیریا، زرد بخار، ڈینگی، گردن توڑ بخار اور سو کے قریب دیگر مشہور بیماریاں مچھروں سے ہی پھیلتی ہیں۔ یہ بات آپ کے لیے شاید اطمینان کا باعث ہو کہ ابھی تک ایڈز یا ایچ آئی وی مچھروں سے ابھی تک نہیں پھیلنے کے قابل ہوا۔ ایچ آئی وی کا کوئی بھی وائرس جب مچھر کے جسم میں پہنچتا ہے تو فوراً ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر کبھی یہ وائرس اپنی شکل بدل کر مچھروں میں زندہ رہنے کے قابل ہو گیا تو ایڈز کی خوفناک عالمی وبا شروع ہو جائے گی۔
عقلی طور پر دیکھا جائے تو یہ خطرہ اتنا بڑا نہیں کہ خوردبینی جاندار میں انسانی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ جیسے آپ صابن سے نہاتے ہوئے یا ڈیوڈورنٹ سے کروڑوں جراثیم مارتے ہوئے ان کے بارے نہیں فکرمند ہوتے، اسی طرح انہیں بھی آپ کے بارے ایسی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ جراثیموں کو آپ کی زندگی کی اہمیت کا تب اندازہ ہوتا ہے جب وہ آگے منتقل ہونے سے قبل ہی آپ کو مار دیں۔ کیونکہ اس طرح ان کی اپنی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ جیرڈ ڈائمنڈ کے مطابق تاریخ میں، ‘ایسی بے شمار وباؤں کا تذکرہ ملتا ہے جو انتہائی مہلک تھیں لیکن پھر اچانک ختم ہو گئیں۔‘ اس بارے جیرڈ نے حوالہ دیا ہے کہ انگلستان کی پسینے والی بیماری جو کہ 1485 سے 1552 تک ہزاروں انسانوں کی جان لے چکی تھی، اچانک ختم ہو گئی۔ جراثیموں کے لیے حد سے زیادہ فعال ہونا فائدہ مند نہیں ہوتا۔
بیماری کی اہم ترین علامتیں اس وجہ سے نہیں پیدا ہوتیں کہ جراثیم آپ کو نقصان دے رہے ہیں بلکہ اس لیے کہ آپ کا جسم ان کا کیسے مقابلہ کر رہا ہے۔ اکثر جراثیموں کو مارتے ہوئے ہمارا مدافعتی نظام نہ صرف جراثیموں بلکہ جسم کے دیگر خلیوں اور بافتوں کو بھی تباہ کر سکتا ہے۔ اس لیے جب آپ بیمار ہوں تو یاد رہے کہ یہ علامات آپ کے مدافعتی نظام کی وجہ سے ہیں، نہ کہ جراثیم کی وجہ سے۔ بیماری کی علامات بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم ہیں کیونکہ بیمار بندے کی حرکت محدود ہوجاتی ہے اور دیگر افراد کو نقصان پہنچنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
چونکہ بے شمار اقسام کے جراثیم ہر وقت ہم پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں، اس لیے ہمارے خون میں مدافعتی سفید خلیوں کی تقریباً ایک کروڑ اقسام پائی جاتی ہیں۔ ہر قسم ایک مخصوص قسم کے جرثومے سے نمٹنے کا کام کرتی ہے۔ اتنی زیادہ تعداد میں ہر قسم کے بے شمار خلیے ہر وقت موجود رہنا بیکار ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارا مدافعتی نظام ہر قسم کے چند خلیوں کو ہر طرف دوڑائے رکھتا ہے۔ جونہی جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو متعلقہ قسم کے دفاعی خلیے آگے بڑھ کر اس کی شناخت کر کے مطلوبہ قسم کے مدافعتی خلیوں کی فوج تیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جب یہ خلیے تیار ہونے لگتے ہیں تو آپ کو بیماری کا احساس ہوتا ہے۔ جب یہ خلیے اپنا کام شروع کرتے ہیں تو آپ کی صحت بہتر ہونے لگتی ہے۔
سفید خلیے انتہائی بے رحم اور سفاک ہوتے ہیں اور آخری جراثیم کی موجودگی تک انہیں تلاش کر کے ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ تباہی سے بچنے کے لیے جراثیموں نے دو مختلف حربے اپنائے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ انتہائی تیزی سے حملہ کر کے دوسرے شکار کی تلاش میں آگے بڑھ جاتے ہیں اور مدافعتی نظام کو فعال ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس کی عام مثال زکام ہے۔ دوسرے حربے میں جراثیم خود کو اس طرح چھپا لیتے ہیں کہ مدافعتی نظام نہیں تلاش ہی نہیں کر سکتا۔ ایچ آئی وی ایسے ہی کرتا ہے اور انسانی جسم میں برسوں تک چھپ کر آرام سے بیٹھنے کے بعد اچانک فعال ہو کر حملہ کر دیتا ہے۔
عفونت یعنی انفیکشن کا ایک اور عجیب پہلو یہ ہے کہ عام بے ضرر جراثیم جب جسم کے کسی غلط حصے میں پہنچتے ہیں تو بے قابو ہو کر بیماری پھیلانے لگتے ہیں۔ لبنان، نیو ہمپشائر کے ڈارٹ ماؤتھ ہچکاک میڈیکل سینٹر کے عفونتی امراض کے ماہر ڈاکٹر برائن مارش کے مطابق ‘جراثیم بے قابو ہو جاتے ہیں۔ اکثر گاڑیوں کے حادثات میں اندرونی چوٹیں لگتی ہیں تو یہ مسئلہ سامنے آتا ہے۔ ہمارے نظامِ انہضام کے بے ضرر بیکٹیریا جب دوسرے حصے مثلاً دورانِ خون میں پہنچتے ہیں تو تباہی پھیلا دیتے ہیں۔‘
اس طرح کی بے قابو بیماریوں میں سب سے خوفناک بیماری عضلات کی موت ہے۔ اسے انگریزی میں Necrotizing fasciitis کہتے ہیں۔ اس بیماری میں بیکٹیریا انسان کو اندر سے کھانا شروع کر دیتے ہیں اور آخر میں محض لجلجا سا بدبودار مادہ رہ جاتا ہے۔ اکثر مریض معمولی علامات کے ساتھ آتے ہیں جیسے جلد پر پڑنے والے چھالے یا رگڑ اور بخار وغیرہ، مگر پھر ان کی حالت انتہائی تیزی سے بگڑنے لگتی ہے۔ جب انہیں عملِ جراحی سے گزارا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہیں اندر سے کھایا جا رہا ہے۔ واحد حل یہی ہے کہ متاثرہ عضو سے اس بیماری کی ہر ممکن باقیات کاٹ کر الگ کر دی جائیں۔ 70 فیصد مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں، ان میں زیادہ تر کی جسمانی ساخت انتہائی بگڑ چکی ہوتی ہے۔ اس بیماری کا اصل جرثومہ A Streptococcus بیکٹیریا ہے جو عام حالات میں محض گلا خراب کرتا ہے۔ تاہم انتہائی کم واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ یہ جراثیم گلے کی تہہ سے جسم میں پھیل جاتے ہیں اور پھر تباہی شروع ہو جاتی ہے۔ ان پر اینٹی بایوٹکس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ امریکہ میں ہر سال ایک ہزار ایسے واقعات ہوتے ہیں اور کون جانے کب ان کی تعداد بڑھنا شروع ہو جائے۔
عین یہی بات گردن توڑ بخار پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ کم از کم دس فیصد بچے اور شاید تیس فیصد ٹین ایجرز میں اس کا مہلک بیکٹیریا موجود ہوتا ہے اور ان کے گلے میں بغیر کوئی تکلیف پہنچائے رہتا ہے۔ لاکھ میں سے ایک واقعہ ایسا ہوتا ہےکہ یہ بیکٹیریا دورانِ خون تک پہنچ جاتا ہے اور شدید بیماری شروع ہو جاتی ہے۔ شدید حملوں میں موت محض بارہ گھنٹے میں ہو سکتی ہے۔ مارش کے بقول، ‘صبح ناشتے پر ہر طرح سے صحت مند انسان رات کو مر چکا ہوتا ہے۔‘
اگر ہم بیکٹیریا کے خلاف اپنے بہترین ہتھیار یعنی اینٹی بایوٹکس کا انتہائی غلط استعمال نہ کرتے تو ان کے خلاف ہماری مدافعت کافی آسان ہوتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ستر فیصد اینٹی بایوٹکس ادویات مویشیوں کو خوراک میں ملا کر دی جاتی ہیں تاکہ ان کی نشونما تیز ہو سکے یا بیماریوں سے پیشگی بچاؤ ہو۔ اس طرح کی صورتحال میں بیکٹیریا کو مدافعت پیدا کرنے کے بے شمار مواقع مل جاتے ہیں۔ بیکٹیریا ایسے مواقع سے فوراً فائدہ اٹھاتے ہیں۔
1952 میں سٹیفلوکوکس بیکٹیریا کی تمام اقسام کے خلاف پینسلین اتنی موثر تھی کہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں امریکی سرجن جنرل ولیم سٹیوارٹ نے باقاعدہ اعلان کر دیا، ‘وقت آ گیا ہے کہ عفونتی بیماریوں کو بھلا دیا جائے۔ ہم نے ریاست ہائے متحدہ سے عفونت کا خاتمہ کر دیا ہے۔‘ تاہم جب یہ اعلان ہوا تو اسی وقت تقریباً نوے فیصد بیکٹیریا پینسلین کے خلاف مدافعت پیدا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ جلد ہی ہسپتالوں میں میتھائی سیلین کے خلاف مدافعت رکھنے والے سٹیفلوکوکس آریوس نامی بیکٹیریا نمودار ہونے لگے۔ اس پر صرف ایک اینٹی بایوٹک دوا وینومائی سین ہی موثر تھی۔ تاہم 1997 میں ٹوکیو کے ایک ہسپتال نے اعلان کیا کہ ان کے ہاں یہ دوا اب اس بیکٹیریا پر کارآمد نہیں رہی۔ چند ماہ میں یہ بیکٹیریا چھ دیگر ہسپتالوں تک پھیل گئے۔ آج خوردبینی جاندار ہمارے خلاف جنگ جیتنے کا آغاز کر چکے ہیں۔ ہر سال امریکی ہسپتالوں سے انفیکشن کا شکار ہونے والے مریضوں کی تعداد 14٫000 سے زیادہ ہے۔ نیویارکر کی ایک رپورٹ کے مطابق، ‘اگر ایک ایسی اینٹی بایوٹک تیار کی جائے جو کہ لوگ دو ہفتے کے لیے استعمال کریں اور ایک ایسی دوا جو نفسیاتی علاج کے لیے انسان کو تاعمر لینی پڑے تو ظاہر ہے کہ ادویہ ساز کمپنیاں نفسیاتی دوا پر ہی کام کریں گی۔ چند اینٹی بایوٹکس کو کچھ بہتر بنایا تو گیا ہے مگر حقیقت میں ادویہ ساز صنعت نے 1970 کی دہائی کے بعد کوئی بھی یکسر نئی اینٹی بایوٹک دوا نہیں بنائی۔
اب ہماری لاپرواہی دیکھیے کہ بہت ساری بیماریوں کے بارے اب علم ہو رہا ہے کہ وہ بیکٹیریا سے پھیلتی ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز 1983 میں آسٹریلیا کے شہر پرتھ سے ہوا جب وہاں کے ایک ڈاکٹر بیری مارشل نے دیکھا کہ معدے کے کئی کینسر اور معدے کے زیادہ تر السر کی وجہ ہیلی کو بیکٹر پائلوری نامی ایک بیکٹیریا ہے۔ اگرچہ اس کی دریافت کو بہ آسانی آزمایا جا سکتا تھا مگر یہ معاملہ اتنا اچھوتا تھا کہ لگ بھگ ایک دہائی بعد اسے عام قبول کیا جانے لگا۔ امریکہ کے قومی ادارہ صحت نے اس دریافت کو 1994 میں سرکاری طور پر قبول کیا۔ مارشل نے 1999 میں فوربس کو بتایا کہ، ‘سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ان السروں سے مرے، حالانکہ انہیں بہ آسانی بچایا جا سکتا تھا۔‘
اس کے بعد سے ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ شاید ہر بیماری اور مسئلے کے پیچھے بیکٹیریا ہو سکتے ہیں جن میں امراضِ قلب، دمہ، گٹھیا، ملٹی پل سکلروسس، بہت سارے نفسیاتی مسائل، بہت ساری اقسام کے کینسر اور حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ شاید موٹاپے کی وجہ بھی بیکٹیریا ہو۔ ہمیں جلد ہی کارگر اینٹی بایوٹک کی ضرورت پڑنے والی ہے اور ہمارے پاس اس وقت ایسی کوئی بھی دوا موجود نہیں۔
شاید یہ سن کر آپ کو کچھ سکون ملے کہ بیکٹیریا بھی بیمار ہوتے ہیں۔ ان پر وائرس کا حملہ ہو سکتا ہے جو بیکٹیریو فیج یا فیج کہلاتے ہیں۔ وائرس بذاتِ خود ایک انتہائی عجیب اور بری چیز ہے۔ نوبل انعام یافتہ پیٹر میڈاور کے مطابق، ‘وائرس نیوکلیک ایسڈ کا ایک ٹکڑا ہے جس سے صرف بری خبر ملتی ہے۔‘ بیکٹیریا سے چھوٹے اور سادہ وائرس خود زندہ نہیں ہوتے۔ تنہائی میں وائرس بالکل بے حس و حرکت اور بے ضرر ہوتے ہیں۔ تاہم مناسب حالات مہیا ہوتے ہی یہ زندہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی لگ بھگ 5٫000 اقسام دریافت ہو چکی ہیں اور ان سے پھیلنے والی بیماریاں سینکڑوں ہیں جو نزلہ زکام سے لے کر چیچک، ریبیز، زرد بخار، ایبولا، پولیو اور ایڈز بھی ہو سکتی ہیں۔
وائرس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ میزبان خلیے کے جینیاتی مواد پر قبضہ کر کے اسے اپنے جیسے نئے وائرس پیدا کرنے پر لگا دیتا ہے۔ ان کی تعداد میں بے پناہ تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور جب جگہ نہ رہے تو خلیہ پھٹ جاتا ہے اور نئے وائرس یہی کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ چونکہ وائرس بذاتِ خود زندہ نہیں ہوتے، اس لیے ایڈز وغیرہ جیسے بہت سارے وائرس میں دس یا اس سے کم جین ہوتے ہیں جبکہ سادہ سے سادہ بیکٹیریا میں بھی یہ تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ ان کی جسامت بہت مختصر ہوتی ہے اور عام خوردبین سے نہیں دکھائی دیتے۔ 1943 میں الیکٹران مائیکروسکوپ کی دریافت کے بعد پہلی بار ان کا مشاہدہ کیا گیا۔ تاہم ان سے پہنچنے والا نقصان بے انتہا ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں چیچک سے لگ بھگ 30 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔
وائرس کی ایک انتہائی خطرناک خاصیت یہ ہے کہ وہ کبھی بھی، کہیں بھی اچانک نمودار ہو کر پھر اسی طرح اچانک غائب ہو سکتے ہیں۔ 1916 میں یورپ اور امریکہ میں لوگوں میں سونے کی عجیب سی بیماری پھیل گئی جسے بعد میں Encephalitis Lethargica کا نام دیا گیا۔ مریض سو جاتے اور پھر نہ اٹھتے۔ ہاں، جب انہیں بیدار کیا جاتا تو وہ اٹھتے، کھانا وغیرہ کھاتے، حوائجِ ضروریہ پوری کرتے، انہیں اپنے اور اپنے اردگرد کے بارے پورا علم ہوتا اور پوچھے گئے سوالات کے درست جواب انتہائی لاپرواہی سے دیتے۔ تاہم جونہی انہیں سونے کی اجازت ملتی، فوراً اسی جگہ سو جاتے اور جب تک بیدار نہ کیا جاتا، سوئے ہی رہتے۔ بعض لوگ تو اس حالت میں مہینوں بعد جا کر مرے۔ بہت کم مریض صحت یاب ہوئے لیکن ان کی صحت بھی بالکل بجھی ہوئی تھی۔ دس سال میں اس بیماری سے 50 لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور پھر یہ بیماری اچانک غائب ہو گئی۔ تاہم اس پر لوگوں نے زیادہ توجہ نہیں دی کہ اس وقت دنیا بھر میں اس سے کہیں زیادہ بلکہ انسانی تاریخ کی بدترین وبا پھیلی ہوئی تھی۔
اسے عظیم سوائن فلو کی وبا یا عظیم ہسپانوی فلو کی وبا کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری انتہائی مہلک تھی۔ پہلی جنگِ عظیم کے 4 سال کے دوران دو کروڑ دس لاکھ افراد مارے گئے۔ اس بیماری سے محض چار ماہ میں اتنی ہلاکتیں ہوئیں۔ پہلی جنگِ عظیم میں ہونے والی امریکی ہلاکتوں کا 80 فیصد حصہ اس بیماری کا تھا۔ بعض جگہوں پر تو اس کے مریضوں کے مرنے کی شرح 80 فیصد بھی تھی۔
1918 کے موسمِ بہار میں سوائن فلو عام زکام کی طرح شروع ہوا اور پھر نہ جانے کب اور کیسے اس میں تبدیلی آئی اور اس کی شدت بڑھ گئی۔ بیس فیصد مریضوں کو معمولی علامات لاحق ہوتیں لیکن باقی شدید بیمار ہوتے اور ان کی اکثرت مر جاتی۔ بعض کو مرنے میں چند گھنٹے لگتے تو بعض کو چند دن۔
امریکہ میں پہلی اموات بوسٹن کے ماہی گیروں میں اگست 1918 کے اواخر میں ہوئیں اور پھر یہ بیماری پورے ملک میں پھیل گئی۔ سکول بند ہو گئے اور تفریح گاہیں بھی بند کر دی گئیں اور ہر جگہ لوگ ماسک پہننے لگے۔ تاہم کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اگلے موسمِ بہار تک ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔ برطانیہ میں دو لاکھ بیس ہزار اور جرمنی اور فرانس میں بھی لگ بھگ اتنے افراد جان سے گئے۔ پوری دنیا سے اموت کی تعداد کا علم نہیں کہ غریب ممالک میں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔ تاہم اندازہ ہے کہ دو کروڑ سے پانچ کروڑ کے لگ بھگ اموات ہوئیں۔ بعض ذرائع اسے دس کروڑ مانتے ہیں۔
تریاق تیار کرنے کے لیے طبی حکام نے بوسٹس کی بندرگاہ پر موجود ڈیر آئی لینڈ کی فوجی جیل سے رضاکار لیے۔ ان سے وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ تمام تر ٹیسٹ سے بچ گئے تو ان کی جان بخشی ہو جائے گی۔ یہ ٹیسٹ بہت ظالمانہ تھے۔ سب سے پہلے تو رضاکاروں کو اس بیماری سے ہلاک ہونے والوں کے پھیپھڑوں سے نکالے گئے مواد کے ٹیکے لگائے گئے۔ پھر متاثرہ مواد کو ان کی آنکھوں، ناک اور منہ پر چھڑکا گیا۔ اگر اس سے بھی ان میں علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں تو قریب المرگ مریضوں کے ناک اور منہ سے نکلنے والی رطوبتوں ان کے گلے میں لگائی گئیں۔ جب ہر طرح سے ناکامی ہوئی تو رضاکاروں کے منہ کھلوا کر قریب المرگ مریضوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان کے منہ پر کھانسیں۔
تین سو رضاکاروں میں سے کل 62 کو چنا گیا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی بیمار نہ ہوا۔ اس بیماری سے ہونے والی واحد موت ان کے ڈاکٹر کی تھی جو بہت جلد ہوئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ چند ہفتے قبل وبا جیل میں پھیل گئی تھی اور جو افراد اس وبا سے بچ گئے، ان میں قدرتی مدافعت پیدا ہو گئی تھی۔
1918 کی فلو کی وبا کے بارے ہمیں کچھ خاص معلومات نہیں۔ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ہی وقت میں کیسے تمام جگہوں پر بیماری کا آغاز ہوا جن کے درمیان سمندر، پہاڑ اور دیگر قدرتی رکاوٹیں تھیں۔ میزبان کے جسم کے باہر کوئی بھی وائرس چند گھنٹے سے زیادہ نہیں زندہ رہ سکتا۔ پھر ایک ہی ہفتے کے دوران میڈرڈ، بمبئی اور فلاڈلفیا میں یہ بیماری کیسے پہنچی؟
ایک ممکنہ جواب تو یہ ہے کہ شاید لوگ اس بیماری سے متاثر ہوئے لیکن علامات نہ ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے انہیں احساس نہیں ہوا۔ عام طور پر وبا اس وقت پھیلتی ہے جب آبادی کے دس فیصد افراد اس بیماری کے شکار تو ہوتے ہیں لیکن ان میں کوئی علامات نہیں پائی جاتیں۔ ان کے متحرک رہنے کی وجہ سے وبا پھیلتی ہے۔
شاید اسی طرح 1918 کی وبا پھیلی ہوگی۔ تاہم یہ کہنا ممکن نہیں کہ کیسے یہ بیماری مہینوں تک دبے رہنے کے بعد ہر جگہ ایک ہی وقت میں شروع ہوئی؟ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ صحت مند لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ عام طور پر فلو شیرخوار بچوں اور معمر لوگوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے مگر 1918 کی وبا کے شکار لوگ تقریباً وہی تھے جو بیس سے چالیس کے درمیان اور بھرپور صحت مند تھے۔ معمر لوگ تو شاید اس وجہ سے بچ گئے ہوں کہ پہلے کبھی وہ اس وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اس سے مدافعت حاصل کر چکے ہوں۔ تاہم شیرخوار کیسے بچے ہوں گے؟ سب سے بڑا معمہ یہ ہے کہ 1918 کا فلو اتنا مہلک کیسے ہو گیا جبکہ عام طور پر فلو مہلک نہیں ہوتا؟ اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
بعض اقسام کے وائرس وقفے وقفے سے نمودار ہوتے ہیں۔ ایک خطرناک روسی H1N1 وائرس سے 1933، 1950 کی دہائی اور پھر 1970 کی دہائی میں وبائیں پھیلیں۔ تاہم ہر دو وباؤں کے درمیان یہ وائرس کہاں گیا، کچھ علم نہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ شاید یہ وائرس جنگلی جانوروں میں چھپ جاتا ہو اور پھر انسانوں کی اگلی نسل کو متاثر کرتا ہو۔ اس بارے کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ عظیم سوائن فلو کی وبا پھر سے نمودار ہو جائے۔
اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی دوسری بیماریاں تو موجود ہیں ہی۔ نئے اور خطرناک وائرس ہر وقت نمودار ہو رہے ہیں۔ ایبولا، لاسا اور ماربرگ جیسے بخار وقتاً فوقتاً نمودار ہوتے اور پھر غائب ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ درمیانی وقفے میں یہ بیماریاں کہاں جا کر چھپ جاتی ہیں، شاید انہیں بہتر مواقع کا انتظار ہو؟ یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ ایڈز کی بیماری ہمارے اندازوں سے زیادہ پرانی ہے۔ مانچسٹر کی رائل انفرمری کے محققین نے پتہ چلایا ہے کہ 1959 میں پراسرار اور ناقابلِ علاج بیماری سے مرنے والے بحری سپاہی کی وجہ موت ایڈز تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے بیس سال تک یہ بیماری کیسے چھپی رہی اور پھر اچانک وبا کی شکل میں پھوٹ پڑی۔
شکر ہے کہ ایسی دیگر بیماریاں قابو سے باہر نہیں ہوئیں۔ لاسا بخار کے بارے پہلی بار 1969 میں معلومات حاصل ہوئیں، مغربی افریقہ سے پھیلا اور اس کے بارے بہت کم معلومات ہیں جبکہ یہ بیماری انتہائی سرعت سے پھیلتی ہے۔ 1969 میں یےل یونیورسٹی لیب جو کہ نیو ہاون، کنکٹی کٹ میں تھی، کے ایک ڈاکٹرکو لاسا بخار ہوا جو اس پر تحقیق کر رہا تھا۔ ڈاکٹر تو بچ گیا لیکن عجیب تر بات یہ تھی کہ ساتھ موجود ایک اور لیب کے ٹیکنیشن کو یہ بیماری ہوئی اور وہ مر گیا۔ حالانکہ اس ٹیکنیشن کا اس کے ساتھ کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔
خوش قسمتی سے وبا یہیں رک گئی، لیکن ہم شاید ہمیشہ اتنے خوش قسمت نہ ثابت ہوں۔ ہمارا طرزِ زندگی وبا پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ ہوائی سفر سے بیماریاں انتہائی تیزی اور آسانی سے پھیل سکتی ہیں۔ افریقہ میں ایبولا کا وائرس ایک ہی دن میں جرمنی،امریکہ اور دنیا بھر کے دیگر حصوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح طبی ماہرین کو بھی ہر جگہ پائی جانے والی ہر متعدی بیماری کے بارے پوری معلومات ہونی چاہیئں جو کہ نہیں ہیں۔ 1990 میں امریکہ میں مقیم ایک نائجیرین اپنے وطن سے واپس آیا تو اسے لاسا بخار لاحق ہو چکا تھا۔ تاہم علامات امریکہ پہنچنے کے بعد شروع ہوئیں۔ اس کی موت شکاگو کے ہسپتال میں ہوئی اور کوئی ڈاکٹر نہ تو اس کی بیماری کو بروقت تشخیص کر سکا اور نہ ہی کوئی احتیاطی تدابیر کی جا سکیں حالانکہ یہ کرہ ارض پر پائی جانے والی مہلک ترین اور متعدی ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ معجزانہ طور پر کوئی اور بیمار نہ ہوا۔ شاید اگلی بار ایسا نہ ہو۔
اس کے ساتھ ہی ہم اب قابلِ مشاہدہ دنیا کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
21 زندگی چلتی رہتی ہے​
فاسل یا متحجر بننا آسان نہیں۔ 99.9 فیصد جانداروں کی قسمت میں گل سڑ کر ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ جب جاندار کی موت واقع ہوتی ہے تو اس کے جسم کا ہر مالیکیول اس کے جسم سے الگ ہو کر کسی اور کام میں لگ جاتا ہے۔ تاہم اگر آپ باقی کے 0.1 فیصد سے بھی کم جانداروں میں شامل ہوں، تو بھی آپ کے فاسل بننے کے کا کام آسان نہیں۔
فاسل بننے کے لیے کچھ بنیادی شرائط ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے تو اس جاندار کو بالکل درست جگہ جا کر مرنا چاہیے۔ صرف 15 فیصد چٹانیں ہی فاسلز کو محفوظ کر سکتی ہیں۔ مردہ جانور کو عین اس جگہ ہونا چاہیے جہاں تلچھٹ پر اس کا جسم نشان چھوڑ سکے، مثلاً گیلی مٹی پر۔ اس کے علاوہ آکسیجن کے بغیر اسے سڑنا چاہیے تاکہ اس کے جسم کے سخت حصوں جیسا کہ ہڈیوں وغیرہ (اور بعض حالات میں نرم حصے بھی) کے مالیکیولوں کی جگہ حل شدہ معدنیات لے سکیں جس سے اصل جانور کی نقل نقش ہو جائے گی۔ پھر جب یہی نشان والی جگہ ارضیاتی تبدیلیوں سے گزرے تو اسے اپنی اصل شکل کسی نہ کسی طرح برقرار رکھنی چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی بہت اہم ہے لاکھوں یا کروڑوں سال تک مناسب طور پر چھپے رہنے کے بعد اسے درست طور پر تلاش کر کے شناخت بھی کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ ہر دس ارب ہڈیوں میں سے محض ایک فاسل بنتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 27 کروڑ افراد جن میں سے ہر انسان کی کل 206 ہڈیاں ہیں، کی کل پچاس ہڈیاں فاسل بنیں گی جو ایک عام انسان کے ڈھانچے کے چوتھائی کے برابر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آیا یہ ہڈیاں کبھی تلاش بھی ہو پائیں گی یا نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ ہڈیاں پورے امریکہ کے رقبے یعنی 93 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوں گی اور اس پر بہت کم جگہوں پر آج تک ہڈیوں کی تلاش کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسے میں ہڈیوں کا دریافت ہونا معجزانہ ہوگا۔ ہر اعتبار سے فاسل انتہائی نایاب ہیں۔ زیادہ تر جاندار جو کرہ ارض پر موجود تھے، کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ اندازہ ہے کہ ہر دس ہزار سے زیادہ انواع میں سے محض ایک کے فاسل بچتے ہیں جو کہ انتہائی کم ہیں۔ رچرڈ لیکی اور راجر لیون کی کتاب The Sixth Extinction میں درج ہے کہ ہماری زمین پر لگ بھگ 3 کھرب انواع پیدا ہوئی ہیں اور ان میں سے محض اڑھائی لاکھ کے فاسل ملے ہیں۔ یعنی ہر 1٫20٫000 انواع میں سے محض ایک۔ اس محدود مقدار سے ہمیں زمین پر موجود تمام تر حیات کے بارے اندازے لگانے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے پاس جو ریکارڈ موجود ہے، وہ بھی انتہائی جانبدارانہ ہے۔ زیادہ تر خشکی کے جانور جو مرے، تلچھٹ میں نہیں مرے۔ ان کی موت کھلے آسمان تلے ہوئی اور انہیں مردارخوروں نے یا توکھا لیا یا پھر وہیں پڑے پڑے گل کر ختم ہو گئے۔ اس لیے فاسل ریکارڈ کی بھاری تعداد محض آبی جاندار پر مشتمل ہے۔ آج ہمارے پاس فاسلز کی 95 فیصد تعداد اتھلے سمندر میں رہنے والے جانوروں کی ہے۔
جب میں یکم فروری کو لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں رچرڈ فورٹی سے ملا تو میں نے اسے یہی بات کہی۔
رچرڈ فورٹی کو بہت ساری چیزوں کے بارے بہت کچھ معلوم ہے۔ اس نے ایک بہت خوبصورت کتاب Life: An Unauthorised Biography لکھی ہے جس میں حیات کی ابتدا کے بارے انتہائی خوبصورت انداز سے بتایا گیا ہے۔ رچرڈ فورٹی کی اولین محبت ایک سمندری مخلوق ٹرائیلوبائیٹ ہے جو 51 کروڑ سے 43.9 کروڑ سال قبل بکثرت پائی جاتی تھی۔ تاہم اب یہ جانور محض فاسل کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس کی تمام اقسام میں جسمانی خاکہ تین حصوں پر مشتمل ہوتا تھا جو سر، دم اور جسم تھے۔ یہ حصے لوب کہلاتے تھے اور اسی سے نام نکلا ہے۔ فورٹی کو اس کا پہلا ٹرائیلوبائیٹ ویلز میں سینٹ ڈیوڈز بے سے ملا تھا۔ تب سے اس کی ساری زندگی اسی جانور کے ساتھ وقف ہو کر رہ گئی۔
پھر ہم دونوں گیلری میں گئے جہاں اونچی دھاتی الماریاں رکھی تھیں۔ ہرالماری میں درازیں پتھر بنے ٹرائیلوبائیٹس سے بھری ہوئی تھیں۔ کل نمونوں کی تعداد 20٫000 تھی۔
‘بظاہر 20٫000 اتنی بڑی تعداد لگتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اربہا سال تک اربہا ٹرائیلوبائیٹس سمندروں میں موجود تھے۔ سو 20٫000 نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تر نمونے ادھورے ہیں۔ آج بھی مکمل ٹرائیلوبائیٹ پا لینا کسی بھی پیلنٹالوجسٹ کے لیے بڑی بات ہوتی ہے۔‘
بظاہر سب سے پہلے ٹرائیلوبائیٹس اچانک آج سے 54 کروڑ سال قبل پوری طرح بنے بنائے نمودار ہوئے۔ یہ وقت کیمبرین ایکپلوژن کے آغاز کے قریب تھا جو بڑے جانداروں کے نمودار ہونے کا وقت تھا۔ اس کے تیس کروڑ سال بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہونے والی پرمیئن معدومیت کے ساتھ ہی یہ بھی غائب ہو گئے۔ اس طرح کی معدومیت کا مطلب عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ معدوم ہونے والے جانور ناکام تھے مگر ٹرائیلوبائیٹس آج تک پیدا ہوئے کامیاب ترین جانداروں میں سے ایک تھے۔ ان کا دورانیہ 30 کروڑ سال پر مشتمل ہے جو ڈائنوساروں سے دگنا ہے۔ ڈائنوسار خود بھی کامیاب ترین جانوروں میں سے ایک تھے۔ رچرڈ فورٹی نے بتایا کہ انسان ابھی تک ان کے وجود کے ایک فیصد کے بھی نصف کے برابر وقت گزار پائے ہیں۔
اتنا زیادہ وقت ملنے کی وجہ سے ٹرائیلوبائیٹس ہر جگہ پھیل گئے۔ ان کی اکثریت چھوٹی تھی مگر بعض کی جسامت بڑھ کر تھالی جتنی بھی ہو گئی۔ کل مل ملا کر ان کے 5٫000 جنیرا اور 60٫000 انواع اب تک دریافت ہو چکی ہیں اور مزید دریافت ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں جب رچرڈ فورٹی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جنوبی امریکہ گیا تو وہاں، ‘ایک عالمہ ایک ڈبہ لائی جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ بہت سارے ایسے ٹرائیلوبائیٹس بھی تھے جو آج تک جنوبی امریکہ تو کیا، کہیں بھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ اس عالمہ کے پاس نہ تو تحقیق کے لیے پیسے تھے اور نہ ہی سہولیات، کہ مزید تلاش کی جا سکے۔ دنیا کے زیادہ تر حصے ابھی تک ان چھوئے ہیں۔‘
‘ٹرائیلو بائیٹس کے حوالے سے؟‘
‘نہیں، ہر حوالے سے۔ ‘
اٹھارہویں صدی کے دوران ٹرائیلوبائیٹس اولین پیچیدہ حیات کے قدیم ترین نمونے سمجھے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے اسے جمع کیا جاتا رہا اور اس پر تحقیق بھی کی جاتی رہی۔ سب سے بڑا معمہ یہ تھا کہ اچانک یہ کیسے نمودار ہوئے۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، اگر آج بھی ہم مطلوبہ ساخت کی چٹانوں میں جائیں اور نیچے سے تہہ در تہہ اوپر کی طرف بڑھتے جائیں تواچانک پوری طرح بنے بنائے ٹرائیلوبائیٹس نمودار ہوتے ہیں۔ ‘ان کے بازو، گلپھڑے، اعصابی نظام، انٹینا، ایک قسم کا دماغ اور انتہائی حیران کن آنکھیں بھی ہوتی ہیں‘، رچرڈ فورٹی نے بتایا۔ یہ آنکھیں کیلسائیٹ سے بنی ہوتی تھیں جو چونے میں بھی پایا جاتا تھا۔ قدیم ترین بصری نظام اسی سے بنے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ابتدائی ٹرائیلوبائیٹس کی محض ایک نوع نہیں بلکہ درجنوں انواع ایک ساتھ ہی اور پوری دنیا میں ظاہر ہوئیں۔ اٹھارہویں صدی میں بہت سارے لوگوں نے اسے خدا کا کرشمہ سمجھا اور ڈارون کے نظریہ ارتقا کو جھٹلایا۔ ان کا نکتہ نظر تھا کہ اگر ارتقا آہستہ روی سے ہوتا ہے تو پھر یہ اچانک پورے بنے بنائے جانور کہاں سے آ گئے؟ ڈارون کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
معاملہ اسی طرح لٹکا رہتا، مگر 1909 میں ڈارون کی کتاب On the Origin of Species کی پچاسویں سالگرہ سے تین ماہ قبل ایک پیلنٹالوجسٹ چارلس ڈولائیٹ نے کینیڈا کے راکی پہاڑوں میں حیرت انگیز دریافت کی۔
والکوٹ 1850 میں نیویارک کے پاس یوٹیکا میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ اس کا خاندان متوسط طبقے سے تھا اور اس کی شیرخواری کے زمانے میں ہی اس کے باپ کا انتقال ہوا تو خاندان غریب ہو گیا۔ لڑکپن میں اسے فاسلز کی تلاش کا خبط سوار ہوا اور ٹرائیلوبائیٹس اس کی خصوصیت بن گئے۔ اس کا محنت سے جمع شدہ مجموعہ اتنا اچھا تھا کہ لوئیس اگاسز نے اسے ہاوروڈ میں موجود اپنے عجائب گھر کے لیے خرید لیا اور اس کے لیے 45٫000 پاؤنڈ سکہ رائج الوقت دیے جو اس وقت کے اعتبار سے خزانے کے برابر تھا۔ بمشکل ہائی سکول تک تعلیم پانے کے باوجود والکوٹ نے خود سے سائنس پڑھی اور اسے ٹرائیلوبائیٹس پر حرفِ آخر مانا جانے لگا۔ اسی نے سب سے پہلے بتایا کہ ٹرائیلوبائیٹس آرتھروپاڈ یعنی حشرات ہیں جیسا کہ موجودہ ارضی اور سمندری حشرات۔
1879 میں والکاٹ نے نئے قائم ہونے والے امریکی جغرافیائی سروے میں فیلڈ ریسرچر کی ملازمت اختیار کی اور اتنے لگن اور محنت سے کام کیا کہ پندرہ سال میں اس محکمے کا سربراہ بن گیا۔ 1907 میں اسے سمتھسونین ادارے کا سیکریٹری بنایا گیا اور اپنی وفات تک یعنی 1927 تک اس نے وہیں کام جاری رکھا۔ سرکاری ذمہ داریوں کے علاوہ بھی اسے فیلڈ ورک کرنے کا وقت مل جاتا تھا اور اس نے لکھنے پڑھنے کا کام بھی جاری رکھا۔ اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ نیشنل ایڈوائزری کمیٹی فار ایروناٹکس کے بانی ممبران میں سے ایک تھا۔ آگے چل کر یہی ادارہ ناسا بنا۔ یعنی والکاٹ خلائی دور کا بانی بھی ہے۔
تاہم والکاٹ کی وجہ شہرت یہ ہے کہ برٹش کولمبیا میں فیلڈ نامی ایک چھوٹے سے قصبے کے اوپر اس نے 1909 کے موسمِ گرما کے اواخر میں حیران کن دریافت کی۔ کہانی آج کل کچھ ایسے بیان کی جاتی ہے کہ والکاٹ اپنی بیوی کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ایک پہاڑی راستے پر چل رہا تھا کہ اس کی بیوی کا گھوڑا پتھروں سے پھسلا۔ والکاٹ اس کی مدد کرنے کے لیے اپنے گھوڑے سے اترا تو دیکھا کہ جس پتھر سے گھوڑا پھسلا ہے،اس کے الٹنے سے اس کی نچلی سطح پر موجود انتہائی نایاب اور پہلے سے نامعلوم دور کے سمندری جانور کا فاسل موجود تھا۔ برفباری شروع ہو چکی تھی کہ کینیڈا کے راکی پہاڑوں پر سردیاں قبل از وقت آ جاتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے رکنے کی بجائے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ اگلے سال پہلا موقع ملتے ہی والکاٹ اس جگہ واپس لوٹا۔ اس پتھر کے پھسلنے کے راستے کا اندازہ لگا کر وہ ساتھ موجود پہاڑ پر 750 میٹر اوپر چڑھا جہاں سے پہاڑ کی چوٹی قریب تھی۔ سطح سمندر سے 8٫000 فٹ کی بلندی پر اس نے ایک چھجا سا دیکھا جو ایک عام شہری بلاک کے برابر تھا۔ اس جگہ کیمبیرین ایکسپلوژن کے فوراً بعد کے جانداروں کا شاندار فاسل شدہ خزانہ موجود تھا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ والکاٹ نے پیلنٹالوجی کی مقدس ترین جگہ دریافت کر لی تھی۔ اس جگہ کو بعد میں برجیس شیل کا نام دیا گیا اور طویل عرصے تک موجودہ حیات کے بارے ہماری معلومات کا یہ واحد اور بہترین ذریعہ بنی رہی۔
سٹیفن جے گولڈ نے اپنی کتاب Wonderful Life میں لکھا ہے کہ اس نے والکاٹ کی یاداشتیں پڑھی تھیں اور وہاں اسے گھوڑے کے پھسلنے یا برفباری کا کوئی ذکر نہیں ملا، لیکن اس گراں قدر دریافت کی اہمیت سے مفر نہیں۔
چونکہ آج کل انسان کی زندگی چند دہائیوں سے زیادہ نہیں ہوتی، اس لیے ہمیں یہ اندازہ کرنے میں سخت دشواری ہوتی ہے کہ یہ کیمبرین پھیلاؤ ہم سے کتنا پہلے واقع ہوا تھا۔ اگر ہم ماضی کی طرف سفر کرتے ہوئے ایک سیکنڈ میں ایک سال جتنا پیچھے جائیں تو حضرت عیسیٰؑ تک پہنچنے میں ہمیں نصف گھنٹہ لگے گا اور تین ہفتے بعد ہم انسان کی ابتدا کو پہنچ جائیں گے۔ تاہم کیمبرین دور کے آغاز تک کا سفر کم از کم 20 سال میں طے ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعہ انتہائی قدیم دور میں اور انتہائی مختلف قسم کے کرہ ارض پر ہوا تھا۔
پہلے تو یہ یاد رہے کہ آج سے 50 کروڑ سال قبل جب برجیس شیل بنی تو یہ جگہ پہاڑ کی چوٹی پر نہیں بلکہ اس کے دامن میں واقع اتھلے سمندر کی تہہ تھی۔ اس دور کے سمندروں میں بہت زیادہ جاندار پائے جاتے تھے لیکن عموماً ان کے فاسلز نہیں بچتے تھے کہ ان کے نرم جسم مرتے ہی گل سڑ جاتے تھے۔ برجیس میں یہ ہوا کہ کسی وجہ سے پوری چٹان کھسک کر نیچے گری اور ہر چیز کو مٹی میں دفن کر دیا۔ عین اسی طرح یہ جانور محفوظ ہو گئے جیسے پھول کو کتاب میں رکھا جاتا ہے۔ تمام چھوٹی بڑی تفاصیل محفوظ ہو گئیں۔
1910 سے 1925 (اس وقت تک اس کی عمر 75 سال ہو چکی تھی) تک کے سالانہ دوروں کے موقع پر والکاٹ نے دسیوں ہزار نمونے نکال کر جمع کیے (گولڈ کے مطابق 80٫000 تاہم نیشنل جیوگرافک کے دعوے کے مطابق 60٫000) اور انہیں اپنے ساتھ واشنگٹن لاتا رہا تھا کہ ان کا تفصیل سے معائنہ کر سکے۔ معیار اور مقدار، دونوں حوالوں سے یہ مجموعہ لاثانی تھا۔ بعض فاسلز میں خول تھے اور بعض بنا کسی خول کے۔ بعض جانوروں کی آنکھیں تھیں تو بعض اندھے تھے۔ تنوع بے پناہ تھا اور ایک اندازے کے مطابق اس میں کل 140 انواع تھیں۔ برجیس شیل میں بعض ایسی جسمانی ساختیں بھی ملیں جن کو دوبارہ نہیں دیکھا جا سکا۔
گولڈ کے مطابق بدقسمتی دیکھیے کہ والکاٹ کو ان کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو پایا۔ گولڈ نے اس کے بارے کچھ یوں لکھا، ‘فتح کے جبڑوں سے شکست چھین لی۔ پھر اس نے ان نمونوں کے ہر ممکن انداز سے غلط تجزیے کرنا شروع کر دیے۔‘ اس نے ان جانوروں کو موجودہ گروہوں میں ڈال کر انہیں موجودہ دور کے کیڑوں، جیلی فش اور دیگر مخلوقات کے آبا و اجداد بنا کر ان کے تنوع کو بھلا دیا۔ گولڈ کے مطابق، ‘اس تجزیے کے مطابق زندگی انتہائی سادہ شکل سے شروع ہو کر آگے زیادہ اور پیچیدہ شکل کی جانب بڑھی۔‘
والکاٹ 1927 میں فوت ہوا اور برجیس کے فاسلز بھلا دیے گئے۔ نصف صدی تک انہیں واشنگٹن کے امیریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں ایک الماری میں رکھ دیا گیا۔ کبھی کبھار حوالہ کے طور پر انہیں دیکھا جاتا اور اس پر کبھی کسی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ 1973 میں کیمبرج یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ طالبعلم سائمن کانوے موریس نے اس مجموعے کا معائنہ کیا۔ وہاں موجود چیزیں دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ والکاٹ کی تحاریر کی نسبت یہاں موجود جانوروں کے فاسل کہیں زیادہ متنوع تھے۔ ٹیکسانومی میں جسمانی ساخت سے فائلم کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ کونوے موریس نے فیصلہ کیا کہ ہر دراز میں ایسے منفرد جسمانی خصوصیات والے جانوروں کے فاسلز موجود ہیں کہ ان کا دریافت کنندہ ان سے لاعلم رہا۔
اپنے سپروائزر ہیری وٹنگٹن اور ساتھی طالبعلم ڈیریک برگز کے ساتھ مل کر اس نے اگلے کئی سال تک اس سارے مجموعے کو نئے سرے سے ترتیب دیا اور ہر نئی دریافت پر مقالے بھی لکھتا گیا۔ بہت ساری جسمانی ساختیں ایسی تھیں کہ انہیں پہلے یا بعد میں کبھی نہیں دیکھا گیا اور وہ اتنی منفرد تھیں کہ کسی کو یقین بھی نہ آتا۔ مثال کے طور پر ایک Opabinia کی پانچ آنکھیں اور سونڈ نما ناک تھی جس پر ناخن لگے ہوئے تھے۔ ایک اور طشتری نما مخلوق کا نام Peytoia رکھا گیا جس کی شکل ایسے تھی جیسے انناس کو درمیان سے کاٹ دیا ہو۔ تیسری میں لمبے ڈنڈے نما پیر تھے اور اس کی شکل اتنی عجیب تھی کہ اسے Hallucigenia کہا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس مجموعے میں اتنی مختلف اقسام کے جانور پائے جاتے تھے کہ مشہور ہے کہ ایک بار جب کانوے موریس نے ایک دراز کھولی تو بڑبڑایا، ‘ایک اور فائلم۔‘
برطانوی ٹیم کی تدوین نے ثابت کیا کہ کیمبرین دور میں نت نئی جسمانی ساختیں آزمائی گئیں۔ لگ بھگ چار ارب سال تک حیات انتہائی سستی اور بے فکری سے پیچیدہ ساخت کی جانب بڑھتی رہی اور پھر اچانک پچاس لاکھ یا ایک کروڑ سال میں وہ تمام جسمانی ساختیں پیدا ہو گئیں جو آج تک کام دے رہی ہیں۔ کسی بھی قسم کے جانور کا نام لیں، چاہے وہ کیڑا ہو یا انسان، ان کی ساخت سب سے پہلے کیمبرین دور میں بنی تھی۔
تاہم حیرت کی بات یہ دیکھیے کہ بے شمار جسمانی ساختیں ایسی تھیں کہ وہ آگے نہ بڑھ پائیں۔ گولڈ کے مطابق ایسی 15 یا 20 ساختیں ہیں جو برجیس کے مجموعے میں تو موجود ہیں لیکن آج ان کا کوئی بھی ہم نسل باقی نہیں۔ (جلد ہی یہ تعداد سو تک جا پہنچی)۔ گولڈ کے مطابق، ‘حیات کی تاریخ میں بہت بڑی تعداد میں معدومیت اور پھر باقی بچنے والی نسلوں میں پیدا ہونے والے فرق پر مشتمل ہے جو روایتی کہانی سے بہت مختلف ہے جہاں حیات آہستہ آہستہ اور بتدریج پیچیدگی اور بہتری کی جانب ترقی کرتی جاتی ہے۔‘ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ارتقائی کامیابی لاٹری کی مانند ہے۔
ایک مخلوق جو کیمبرین دور سے آگے بڑھنے میں کامیاب رہی، چھوٹے کیڑے کی قسم کی مخلوق تھی جسے Pikaia gracilens کہا گیا۔ اس میں بہت سادہ قسم کی ریڑھ کی ہڈی موجود تھی۔ یہ خوبی اسے آج موجود تمام فقاریہ جانورں بشمول انسان کا بھی جدِ امجد بناتی ہے۔ تاہم یہ جانور برجیس فوسلز میں بہت کم مقدار میں ملا ہے، یعنی ہمیں نہیں معلوم کہ ہم معدومیت کے کتنے قریب سے گزرے تھے۔ گولڈ نے اس بارے لکھا ہے کہ اس کے خیال میں ہمارا وجود زمانہ قدیم سے اب تک ہونے والی انتہائی نایاب قسم کی مسلسل کامیابی ہے۔ اس کے مطابق، ‘اگر ہم ارتقا کی تاریخ کو پیچھے لے جائیں اور پھر وہ آگے بڑھنا شروع ہو تو یہ بات تقریباً ناممکن دکھائی دیتی ہے کہ کبھی انسان جیسی ذہین مخلوق پھر زمین پر پائی جائے۔‘
1989 میں گولڈ کی کتاب Wonderful Life چھپی اور مقبولِ عام ہونے کے ساتھ ساتھ تجارتی اعتبار سے بہت کامیاب رہی۔ تاہم یہ بات اس وقت تک صیغہ راز میں رکھی گئی کہ بہت سارے سائنس دان اس کے اخذ کردہ نتائج سے متفق نہیں تھے اور جلد ہی معاملات ہاتھ سے نکلنے والے تھے۔
درحقیقت کیمبرین دور سے بھی کوئی 10 کروڑ سال قبل سے کثیر خلوی جاندار پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ہمیں اس کے بارے پہلے پتہ چلنا چاہیے تھا۔ والکاٹ کی دریافت کے 40 سال بعد دنیا کے دوسرے کنارے یعنی آسٹریلیا میں ایک ماہرِ ارضیات ریگینالڈ سپرِگ نے اس سے بھی قدیم تر چیز ڈھونڈ نکالی۔
1946 میں نوجوان سپرِگ نائب سرکاری ماہرِ ارضیات کے طور پر جنوبی آسٹریلیا میں فائنڈرز پہاڑی سلسلے میں اڈیاکارن پہاڑیوں کی متروک شدہ کانوں کے سروے میں مصروف تھا۔ یہ پہاڑی سلسلہ ایڈیلڈ سے 500 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ اس سروے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ آیا کسی پرانی کان کو نئی ٹیکنالوجی سے دوبارہ قابلِ استعمال اور قابلِ منافع بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے وہ نہ تو چٹانی پتھر تلاش کر رہا تھا اور نہ ہی فاسلز۔ ایک دن دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے سپرِگ نے ریتلے پتھر کے ایک ٹکڑے کو الٹا تو اس پر موجود نفیس فوسلز کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ ایسے فوسلز جیسے گیلی مٹی پر پتہ نشان چھوڑتا ہے۔ یہ پتھر تو کیمبرین سے بھی پرانے تھے۔ عام آنکھ سے دکھائی دینے والے جانوروں کا آغاز دکھائی دے رہا تھا۔
سپرِگ نے Nature میں مضمون لکھا لیکن اسے رد کر دیا گیا۔ پھر اس نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سائنس کی ترقی کی انجمن کے سالانہ اجلاس میں یہ مضمون پڑھا لیکن انجمن کے سربراہ کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ سربراہ کا خیال تھا کہ، ‘یہ محض غیر نامیاتی اتفاقی نشانات ہیں۔‘ تاہم ابھی امید کی ایک کرن باقی تھی۔ اس نے 1948 میں لندن کا رخ کیا جہاں اس نے انٹرنیشنل جیولاجیکل کانگریس میں اپنا مضمون پیش کیا۔ تاہم کسی نے توجہ یا دلچسپی نہیں لی۔ آخرکار اس نے اپنی دریافت کو Transactions of the Royal Society of South Australia میں اپنی دریافت چھپوائی۔ پھر اس نے سرکاری نوکری چھوڑ کر تیل کی تلاش شروع کر دی۔
1957 میں نو سال بعد، ایک لڑکے جان میسن نے انگلش مڈ لینڈز میں چارن ووڈ جنگل میں سیر کرتے ہوئے ایک عجیب سا فاسل دیکھا جس کی شکل نو سال قبل سپرِگ کے دریافت کردہ فاسل جیسی تھی۔ لڑکے نے یہ فاسل لیسیسٹر یونیورسٹی کے پیلنٹالوجسٹ کو دیا جس نے فوراً ہی جان لیا کہ یہ فاسل قبل از کیمبرین دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لڑکے کی دریافت اور اس کی اپنی تصویر بھی اخبارات میں چھپی اور اسے ہر جگہ اہمیت دی جانے لگی۔ ابھی تک بہت سی کتب میں اس کا نام ملتا ہے۔ اس فاسل کو اسی کے نام پر Charnia masoni کہا گیا۔
سپرِگ کے دریافت کردہ فاسل کے علاوہ اسی پہاڑی سلسلے سے بعد میں دریافت کردہ 1٫500 مزید فاسل بھی ایڈیلیڈ کے عجائب گھر کی ایک الماری میں رکھے ہوئے ہیں تاہم ان پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ انتہائی نفیس نشانات جو اتنے واضح نہیں، عام بندے کو دکھائی بھی نہیں دیتے۔ ان فاسلز کی اکثریت تھالی نما اور چھوٹی ہے اور کسی کسی پر دھجیاں نما عضو بھی دکھائی دیتے ہیں۔ فورٹی نے انہیں ‘نرم جسم والے عجائبات‘ کہا ہے۔
ابھی اس بارے کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیا جاندار تھے اور کیسے رہتے تھے۔ ان کے بارے ابھی تک بس اتنا ہی علم ہو سکا ہے کہ کھانے کے لیے منہ اور بول و براز کے اخراج کے لیے مقعد نہیں تھے۔ اس کے علاوہ ان کے جسم میں کوئی بھی اندرونی اعضا نہیں تھے جو غذا کو ہضم کر سکتے۔ بقول فورٹی ‘ان کی اکثرت اپنی زندگی پانی کی ریتلی تہہ پر لیٹے ہوئے گزار دیتی تھی‘ اور سب سے پیچیدہ شکل میں بھی یہ جیلی فش سے زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتے تھے۔ ایڈیا کارین مخلوقات دو مختلف قسم کی بافتوں سے مل کر بنتی تھیں۔ جیلی فش کے علاوہ آج موجود تمام تر جانور تین تہوں سے بنے ہیں۔
بعض ماہرین کے خیال میں یہ جانور کی بجائے فنجائی یا پودوں سے زیادہ مماثل تھے۔ موجودہ اسفنج اپنی ساری زندگی ایک ہی جگہ چپکے ہوئے گزار دیتے ہیں اور ان کی نہ تو آنکھیں ہوتی ہیں اور نہ ہی دھڑکتا ہوا دل یا دماغ۔ تاہم پھر بھی انہیں جانور شمار کرتے ہیں۔ فورٹی کے خیال میں ‘جب ہم کیمبرین دور سے بھی پیچھے جاتے ہیں تو جانوروں اور پودوں کا فرق اور بھی معمولی ہوتا ہوگا۔ ایسا کوئی اصول نہیں کہ جانور یا پودا ہونے کے لیے کیا لازمی خصوصیات ہوں گی۔‘
اس کے علاوہ یہ بھی عجیب بات ہے کہ آج کل ایڈیا کارین جانداروں کی کوئی بھی نسل باقی نہیں (شاید چند جیلی فش ہوں)۔ اکثر ماہرین انہیں ناکام تجربہ قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ان کی سست رفتار کی وجہ سے کیمبرین دور کے زیادہ تیز اور بہتر جانور انہیں کھا گئے ہوں۔
بقول فورٹی ‘آج ان سے مماثل کوئی بھی چیز زندہ نہیں۔ ان کی اگلی نسلوں کے بارے جاننا بہت مشکل ہے۔‘
ایسا سمجھا جاتا ہے کہ زمین پر حیات کی ترقی کے لیے شاید ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ماہرین کی اکثریت کے خیال میں کیمبرین دور سے قبل اور کیمبرین دور کی حد پر بہت بڑے پیمانے پر معدومیت ہوئی تھی جس سے تمام ایڈیا کارین مخلوقات (ماسوائے مشکوک جیلی فش کے) اگلے مرحلے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ پیچیدہ حیات کا اصل آغاز کیمبرین دور سے ہوا۔ کم از کم گولڈ نے اس طرح سے اسے دیکھا۔
برجیس شیل فوسلوں کی گولڈ کی تشریح کے بارے لوگوں نے فوراً ہی سوالات اٹھانا شروع کر دیے۔ فورٹی نے Life میں لکھا، ‘ابتدا سے کافی سائنس دان ایسے تھے جنہوں نے سٹیو گولڈ کے پیش کردہ نظریے پر شکوک کا اظہار کیا چاہے گولڈ نے اسے کتنا ہی اچھے طریقے سے پیش کیا ہو۔‘
آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ رچرڈ ڈاکنز نے Wonderful Life میں لکھا، ‘کاش گولڈ اتنا بہتر سوچ سکتا جتنا کہ وہ لکھ سکتا ہے۔‘ ڈاکنز نے اس کتاب اور اس کے لکھنے کے طریقے کی تعریف کی ہے مگر بتایا ہے کہ اس میں بیان کردہ حقائق کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔
ڈھکے چھپے الفاظ میں کی گئی تنقید عام تنقیدوں میں چُھپ گئی۔ ایک نے تو New York Times Book Review میں لکھ مارا کہ گولڈ کی کتاب پڑھ کر سائنس دان ایسے مفروضے پیش کرنے لگ گئے ہیں جن پر کئی نسلوں سے کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ جھجھک کر یا پرجوش انداز سے، وہ اس خیال کو اپنا رہے ہیں کہ انسان کا وجود فطرت میں ہونے والا حادثہ بھی ہو سکتا ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے کی گئی بہترین تخلیق بھی۔ ‘
تاہم گولڈ پر کی جانے والی تنقید کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس کے بیان کردہ بہت سارے نتائج کو یا تو غلط سمجھا یا پھر انہیں بے توجہی سے رد کر دیا گیا۔ Evolution میں ڈاکنز نے گولڈ کے نتائج یعنی ‘کیمبرین دور میں نت نئے جسمانی ساختوں کے تجربات کیے گئے جن میں سے کامیاب ہونے والی جسمانی ساختیں آگے بڑھیں اور اس وقت ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں نت نئی جسمانی ساختیں بنیں۔ آج کل ارتقا محض پرانی جسمانی ساختوں پر بحث کرتی ہے۔ کیمبرین دور میں نت نئے فائلم اور کلاسز پیدا ہو رہی تھیں، آج کل ہم محض نئی انواع پر گزارا کرتے ہیں۔‘
جب ڈاکنز نے دیکھا کہ یہ نظریہ کہ آج کل کوئی نئی جسمانی ساخت نہیں بن رہی، کو قبولیت مل رہی ہے تو کہا: ‘جیسے باغبان بلوط کے درخت کو دیکھ کر حیران ہو کر کہے، ‘کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہے کہ آج کل اس درخت پر کوئی بھی نئی بڑی شاخ نہیں پیدا ہو رہی۔ ساری تبدیلیاں محض ٹہنیوں کے سروں پر ہوتی ہیں۔‘
فورٹی نے موجودہ وقت میں بتایا کہ، ‘وہ وقت بہت عجیب تھا، خصوصاً اس لیے بھی کہ وہ سب تبدیلیاں آج سے لگ بھگ 50 کروڑ سال قبل ہوئی تھیں۔ تاہم جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنی ایک کتاب میں مذاق کے طور پر لکھا ہے کہ کیمبرین دور پر لکھنے سے قبل مجھے حفاظتی ہیلمٹ پہن لینا چاہیئے، بعض اوقات سچ میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔‘
Wonderful Life کے اہم کرداروں میں سے ایک Simon Conway Morris نے اپنی کتاب The Cruicible of Creation میں لکھا کہ ‘میں نے آج تک کسی بھی ماہرِ فن کی لکھی ہوئی کتاب میں ایسی اوچھی چیزیں نہیں دیکھیں۔‘ فورٹی نے بعد میں بتایا، ‘The Crucible of Creation کے عام قاری کو شاید احساس بھی نہ ہو پائے گا کہ کبھی Morris اور گولڈ کے نظریات تقریباً ایک تھے۔‘
جب میں نے فورٹی سے اس بارے پوچھا تو جواب ملا: ‘یہ بہت عجیب لگتا ہے نا، کہ گولڈ نے اس کی تعریف میں اتنے مبالغے سے کام لیا تھا۔ شاید سائمن کو شرمندگی ہوئی ہو۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سائنس بدلتی رہتی ہے مگر کتب تبدیل نہیں ہوتیں۔ کون برداشت کرے گا کہ اس کے بارے کتاب میں ایسی باتیں لکھی ہوں جن کے بارے ان کے خیالات یکسر بدل چکے ہوں۔ ‘خدایا، ایک اور فائلم’ جیسے فقرے ہمیشہ کے لیے وجہ شہرت بن کر پچھتاوے کا سبب بن جاتے ہیں۔ سائمن کی کتاب پڑھ کر آپ کو نہیں محسوس ہوگا کہ اس کے نظریات عین وہی تھے جو گولڈ کے تھے۔‘
اصل میں ہوا یہ کہ ابتدائی کیمبرین دور والے فاسلز کا کڑا تنقیدی جائزہ لیا گیا۔ فورٹی اور ڈیریک برگس نے ایک نئی تکنیک جسے Cladistics کے نام سے جانا جاتا ہے، کو استعمال کر کے برجیس شیل کے مختلف فاسلز کا مقابلہ کیا۔ اس تکنیک میں بنیادی طور پر جانوروں کو ان کے مشترکہ خواص کی بنا پر ترتیب دی جاتی ہے۔ فورٹی کی دی ہوئی مثال کے مطابق آپ چھچھوندر اور ہاتھی کا مقابلہ کریں۔ اگر آپ ہاتھی کے عظیم الجثہ حجم کو دیکھیں تو ایسا لگے گا کہ چھچھوندر سے اس کی کوئی مشابہت نہیں ہو سکتی۔ تاہم اگر ان دونوں کا مقابلہ چھپکلی سے کیا جائے تو آپ کو فوراً احساس ہوگا کہ ہاتھی اور چھچھوندر کی ساخت میں کافی کچھ مماثل ہے۔ یعنی گولڈ نے ہاتھی اور چھچھوندر دیکھے تو برگیس نے انہیں ممالیہ سمجھا۔ ان کے خیال میں برجیس والی مخلوقات اتنی بھی عجیب اور مختلف نہیں تھیں جتنی پہلی نظر میں لگیں۔ فورٹی کے بقول، ‘یہ مخلوقات ٹرائیلوبائیٹس سے زیادہ مختلف نہیں۔ ہمیں ٹرائیلوبائیٹس سے واقف ہونے میں لگ بھگ ایک صدی لگی۔ واقفیت سے واقفیت پیدا ہوتی ہے۔‘
تاہم یہ واضح کر دوں کہ اس میں کوئی نکماپن یا بے پرواہی نہیں تھی۔ قدیم جانوروں کی مختلف اقسام کا جائزہ لینا اور ان کا ایک دوسرے سے تعلق تلاش کرنا اور وہ بھی ان ٹوٹے پھوٹے اور بکھرے ہوئے شواہد کی روشنی میں، کافی پیچیدہ کام ہے۔ ایڈورڈ او ولسن نے لکھا کہ اگر آپ موجودہ دور کے حشرات کو برجس کے جانوروں کے ساتھ رکھ کر دیکھیں تو آپ کو گمان بھی نہیں ہوگا کہ دونوں ایک ہی فائلم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی جسمانی ساختیں اتنی زیادہ فرق ہیں۔ اس کے علاوہ تجزیے میں مزید مدد تب ملی جب ابتدائی کیمبرین دور کی دو مزید جگہیں دریافت ہوئیں جن میں سے ایک گرین لینڈ اور ایک چین میں ہے۔ اس کے علاوہ ادھر ادھر سے بھی کچھ نہ کچھ فاسل مل جاتے ہیں اور اس طرح تجزیے کی خاطر بہتر نمونے مل جاتے ہیں۔
خیر، نتیجہ یہ نکلا کہ برجیس شیل کے فاسلز اتنے بھی انوکھے نہیں تھے۔ Hallucigenia کو الٹا دکھایا گیا تھا۔ اس کی لمبی ڈنڈے نما ٹانگیں دراصل اس کی کمر پر موجود کانٹے تھے۔ Peytoia جو انناس کا کٹا ہوا حصہ لگتا تھا، ایک اور جانور Anomalocaris کا حصہ نکلا۔ برجیس کے بہت سارے جانداروں کو آج کے مختلف فائلم میں سمو دیا گیا ہے، عین وہی جگہیں، جہاں والکاٹ نے انہیں پہلے پہل رکھا تھا۔ Hallucigenia اور کئی دوسرے جانور کے بارے خیال ہے کہ وہ Onychophora کا حصہ ہیں، جس میں کیٹرپلر نما جانور پائے جاتے ہیں۔ دوسروں کو موجودہ دور کے Annelids کا آباو اجداد مانا گیا ہے۔ فورٹی کے بقول، ‘ایسے جانور بہت کم ہیں جو یکسر نئے ہوں۔‘
برجیس شیل نمونے اتنے قابلِ دید نہیں۔ فورٹی کے بقول، ‘اس طرح ان کی اہمیت کسی طور کم نہیں ہوتی۔‘ ان کی عجیب شکلیں انوکھا تجربہ تھیں۔ ویسے ہی جیسے آج کل کے نوجوان کھڑے بالوں اور زبان پر دھاتی چیزیں ڈلواتے ہیں۔ آخرکار یہ سب چیزیں آرام کر گئیں۔
تاہم یہ سوال ابھی تک باقی ہے کہ یہ سب جانور آئے کہاں سے اور اچانک کیسے نمودار ہو گئے؟
شاید کیمبرین ایکسپلوژن اتنی دھماکہ خیز بھی نہیں تھی جتنی کہ ہمیں پہلے پہلے دکھائی دیتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ کیمبرین جانور اس سے قبل بھی موجود تھے مگر ان کا وجود اتنا مختصر ہوتا تھا کہ انہیں دیکھا جانا آسان نہیں تھا۔ ایک بار پھر ہمیں ٹرائیلوبائیٹس سے ثبوت ملا ہے کہ جیسے ٹرائیلوبائیٹس اچانک اتنی مختلف شکلوں والے اور تقریباً ایک ہی وقت میں پوری دنیا میں ہر جگہ پائے جانا شروع ہو گئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ اچانک بہت ساری اقسام کے بنے بنائے جانوروں کا پایا جانا اپنی جگہ ایک عجوبہ ہے جو کیمبرین دور سے منسلک ہے۔ جب ہمیں اچانک پوری طرح بنے بنائے ٹرائیلوبائیٹس ملتے ہیں جو ایک دوسرے سے مماثل ہیں اور انتہائی دور پائے گئے جیسا کہ چین اور نیویارک سے بیک وقت ان کے فوسلز ملے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ان کی تاریخ کے بارے بہت کچھ باتوں کا علم نہیں ۔ یہ بات تو پکی ہے کہ ان کا آغاز کہیں پہلے کسی اور جانور سے ہوا ہوگا۔
دراصل خیال کیا جاتا ہے کہ ان قدیم جانوروں کا نہ ملنا اس وجہ سے ہے کہ یہ جانور اتنے چھوٹے تھے کہ ان کے فاسل نہ بن پائے۔ فورٹی کے بقول، ‘ضروری نہیں کہ ہر فعال جانور بڑے حجم کا بھی ہو۔ سمندر میں حشرات کی بے شمار چھوٹی اقسام ہر جگہ موجود ہوتی تھیں، لیکن آج ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔‘ اس کے حوالے کے طور پر وہ Copepod کا نام لیتے ہیں جو آج کے دور میں سمندروں میں کھربوں کی تعداد میں پایا جاتا ہے ۔ بعض اوقات تو سمندر کا بڑا حصہ اس کی وجہ سے سیاہ ہو جاتا ہے۔ تاہم اس کے اجداد کے بارے ہماری معلومات محض ایک نمونے پر مشتمل ہیں جو ایک فاسل شدہ مچھلی کے پیٹ سے نکلا تھا۔
فورٹی کے خیال میں ‘کیمبرین ایکسپلوژن سے مراد شاید نت نئی جسمانی ساختیں نہیں بلکہ جانوروں کی جسامت میں اچانک ہونے والا اضافہ ہے ۔ ممالیہ جانور تقریباً دس کروڑ سال سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اور جب ڈائنوسار معدوم ہوئے تو ان کی جگہ لینے کو ممالیہ جانوروں نے بہت پھرتی دکھائی اور اپنے حجم میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ فورٹی نے بتایا، ‘ہمیں معلوم ہے کہ ڈائنورساروں کی معدومیت کے بعد ممالیہ جانوروں کے حجم میں اچانک بہت اضافہ ہوا۔ تاہم یہ ‘اچانک‘ جغرافیائی اصطلاح ہے جو لاکھوں سالوں پر محیط ہے۔‘
اچھی بات یہ ہے کہ آخرکار ریگینالڈ سپرِگ کو بھی اس کا صلہ ملا۔ ایک قدیم اور ابتدائی جنرا کو اس کے نام پر Spriggina کہا گیا۔ اس دور کے سارے جانوروں کو Edicarian جانور کہا گیا کہ وہ اس پہاڑی علاقے سے ملے تھے۔ تاہم سپرِگ نے فاسلز کی تلاش کا کام عرصہ پہلے چھوڑ دیا تھا اور تیل کی تلاش میں بہت کامیاب رہا۔ ریٹائر ہونے کے بعد اس نے جنگلی حیات کے تحفظ کا ریزرو قائم کیا اور 1994 میں جب اس کا انتقال ہوا تو وہ بہت امیر انسان تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
22 آگے بڑھتے ہیں​
جب آپ بطور انسان زندگی کو دیکھتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی بہت عجیب چیز ہے۔ اول تو اس کی ابتداء انتہائی سستی سے ہوتی ہے اور شروع ہو بھی جائے تو اسے آگے بڑھنے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی۔
لائکن کی ہی مثال لے لیں جو ایک قسم کی کائی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ مشکل کش جاندار زمین پر نہیں ملے گا۔ لیکن اس سے کم ہمت بھی کوئی جاندار تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ اگرچہ دھوپ میں آپ انہیں کسی بھی جگہ دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کی پسندیدہ ترین جگہیں وہ ہوتی ہیں جہاں کوئی اور جاندار رہنے کی ہمت نہیں کر سکتا، چاہے وہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں، قطبین ہوں یا ایسی جگہ جہاں پتھر، بارش اور سردی ہو اور جہاں کوئی مقابلہ کرنے والا نہ ہو۔ قطب جنوبی میں ایسی جگہیں جہاں کوئی اور جاندار زندہ نہیں رہ سکتا، وہاں آپ کو لائکن کے بڑے بڑے قطعے ملیں گے جن میں 400 سے زیادہ اقسام موجود ہوں گی۔
طویل عرصے تک لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ محض پتھر یا چٹان پر لائکن کیسے زندہ رہتی ہے جبکہ انہیں کوئی غذایت بھی نہیں ملتی؟ نتیجتاً بہت سارے لوگ، حتیٰ کہ پڑھے لکھے لوگ بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ پتھر زندہ ہو رہے ہیں۔
قریب سے دیکھا جائے تو لائکن کی حیرت انگیز خصوصیات دکھائی دیتی ہیں۔ لائکن دراصل الجی اور فنجائی کی دوستی سے بنتے ہیں۔ فنجائی ایسے تیزاب پیدا کرتی ہے جو پتھروں کو آہستہ آہستہ گلاتا ہے اور اس طرح نمکیات خارج ہوتے ہیں۔ الجی ان نمکیات کو خوراک میں بدلتی ہے جو الجی اور فنجائی، دونوں کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہ دوستی انتہائی کامیاب ہے۔ دنیا میں لائکن کی 20,000 سے زیادہ اقسام ہیں۔
سخت ناموافق ماحول میں رہنے والے دیگر جانداروں کی مانند لائکن بھی انتہائی سستی سے بڑی ہوتی ہے۔ ایک چھوٹے سے بٹن کے حجم کو پہنچنے کے لیے لائکن کو شاید نصف صدی لگے اور تھالی کے برابر ہونے میں سینکڑوں یا ہزاروں سال لگتے ہیں۔ اس سے کم تر درجے کی حیات کا سوچنا بھی محال ہے۔ شاید ان کا وجود اس بات کی گواہی ہے کہ زندگی یا حیات کسی بھی سطح پر ہو، محض زندہ رہنے کو زندہ رہتی ہے۔
زندگی کا یہ پہلو اکثر اوجھل رہتا ہے۔ بطور انسان ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہیے۔ اپنے آس پاس کی ہر چیز کو ہم اپنے وجود کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم لائکن کا کیا مقصدِ حیات ہوگا؟ اس کے باوجود نہ صرف لائکن زندہ رہتی ہے بلکہ اس کی زندہ رہنے کی خواہش ہم سے کہیں مضبوط ہے۔ اگر مجھے علم ہو کہ مجھے اگلی کئی دہائیوں تک جنگل میں ایک پتھر پر اگی ہوئی معمولی سی کائی بن کر رہنا ہو تو میرے لیے زندگی بیکار ہو جائے گی۔ تاہم لائکن ایسا نہیں سوچتی۔ ہر جاندار کی مانند لائکن بھی اپنی زندگی بڑھانے کے لیے ہر قسم کی سختی اور بے عزتی برداشت کر لے گی۔ زندگی کا مقصد شاید ہونا ہے۔ لائکن کو اس سے زیادہ شاید ہی کچھ چاہیے ہو۔
عجیب بات ہے کہ زندگی کے پاس مقصد بنانے کے لیے بہت سارا وقت تو ہوتا ہے لیکن شاید ہی وہ اس سے فائدہ اٹھاتی ہو۔ اگر آپ زمین کی زندگی کے ساڑھے چار ارب سالوں کو اگر آپ ایک عام دن میں تقسیم کریں تو زندگی کی ابتداء صبح چار بجے ہوئی جب پہلے یک خلوی جاندار پیدا ہوئے اور اگلے سولہ گھنٹے تک یہی چلتے رہے۔ شام کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب زمین پر خوردبینی جاندار نمودار ہونے لگے۔ پھر پہلے سمندری پودے پیدا ہوئے اور پھر بیس منٹ بعد جیلی فش اور دیگر سمندری جاندار پیدا ہوئے۔ 9 بج کر 4 منٹ پر ٹرائیلو بائٹس آئے۔ دس بجے سے ذرا قبل پودوں نے خشکی پر بھی اگنا شروع کر دیا۔ دن دو گھنٹے سے بھی کم بچا تھا کہ خشکی کے پہلے جانور نمودار ہوئے۔
لگ بھگ دس منٹ کے اچھے موسم کی وجہ سے کاربونیفیرس جنگلات اگنے لگے جن کے بچے کھچے حصے آج بھی ہمارے کوئلے کے ذخائر کی شکل میں ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ اڑنے والے حشرات بھی پیدا ہو گئے۔ 11 بجے سے ذرا قبل ڈائنوسار آئے اور 45 منٹ بعد صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ رات بارہ بجے سے 21 منٹ قبل ممالیہ جانوروں کا دور شروع ہوا۔ نصف شب سے ایک منٹ اور سترہ سیکنڈ قبل انسان پیدا ہوئے۔ ہماری معلوم تاریخ محض چند سیکنڈ طویل ہے۔ ان چوبیس گھنٹوں میں پہاڑ ابھرے اور ختم ہوئے، براعظموں نے جگہیں اور شکلیں بدلیں، سمندر بنے اور مٹے، برفانی تہیں آئیں اور گئیں۔ اس سارے عرصے میں ہر ایک منٹ میں تین بار مینسن کے برابر کے شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرائے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس طرح کے سیارے پر بھی حیات ممکن ہوئی۔ تاہم جاندار کی انواع زیادہ دیر زندہ نہیں رہتیں۔
ہمارے وجود کا وقت دیکھنے کا ایک اور پیمانہ بھی ہے۔ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا لیں جو زمین کی تاریخ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک ہاتھ کے ناخنوں سے لے کر دوسرے ہاتھ کی کلائی تک کا وقت پری کیمبریئن کہلاتا ہے۔ ساری پیچیدہ زندگی دوسرے ہاتھ کی کلائی سے شروع ہوتی ہے۔ نیل فائلر سے ایک بار ناخن رگڑیں تو ساری انسانی تاریخ سمجھیں گم ہو جائے گی۔
خوش قسمتی سے ابھی تک ایسا ہوا تو نہیں لیکن اس کے امکانات بکثرت ہیں۔ میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا لیکن زمین پر زندگی کی ایک اور امتیازی خاصیت ہے کہ یہ وقتاً فوقتاً اور باقاعدگی سے معدوم ہوتی رہتی ہے۔ اپنے وجود اور بقاء کی ہر ممکن کاوش کے باوجود انواع معدوم ہوتی رہتی ہیں۔ جو نوع جتنی پیچیدہ ہوتی ہے، اس کے مٹنے کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے حیات کو کم ہی جلدی ہوتی ہے۔
حیات سمندر سے نکل کر خشکی پر پہنچی جو ہماری داستان کا انتہائی ڈرامائی موڑ ہے۔
خشکی کا ماحول بہت مشکل، خشک، گرم، بالائے بنفشی شعاعوں سے بھرا اور پانی کے برعکس اچھال کی قوت سے خالی جس سے حرکت مشکل ہو گئی۔ خشکی پر رہنے کے لیے جانداروں کو بہت بڑی جسمانی تبدیلیوں سے گزرنا پڑا۔ آپ مچھلی کو دم اور سر سے پکڑیں تو درمیان سے لٹک جائے گی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی اتنی نرم ہوتی ہے کہ اس کا وزن نہیں سہار سکتی۔ سمندری جانداروں کو پانی سے خشکی پر آنے کے لیے جن عظیم جسمانی تبدیلیوں سے گزرنا پڑا، وہ آسانی اور تیز رفتاری سے نہیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ خشکی پر زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کو براہ راست جذب کرنا بھی ضروری تھا۔ دوسری جانب پانی کو چھوڑنے کی بہت اہم وجہ بھی تھی۔ براعظم مل کر ایک بڑی خشکی بنا رہے تھے جو پنجائیا کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ساحل کم ہو گئے۔ مقابلہ بہت بڑھ گیا۔ اس کے علاوہ ایک نیا شکاری منظرِ عام پر آیا جو انتہائی ماہر تھا۔ اس نے اپنی شکل ابھی تک نہیں بدلی۔ یہ شارک تھی۔ پانی کو چھوڑ کر خشکی پر جانے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں تھا۔
پودوں نے 45 کروڑ سال قبل خشکی کا رخ کیا تو ان کے ساتھ کچھ چھوٹے چھوٹے کیڑے بھی تھے جن کا کام آرگینک مواد کو ری سائیکل کرنا تھا۔ بڑے جانور کچھ عرصے بعد یعنی 40 کروڑ سال قبل خشکی پر نمودار ہوئے۔ سائنس دانوں کی بتائی ہوئی تفصیلات اور تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ خشکی کے پہلے جاندار مچھلی نما یا جل تھلیے تھے۔ تاہم حقیقت میں یہ چھوٹی چھوٹی جوئیں تھیں۔
ہوا سے آکسیجن جذب کرنے والے جانداروں کے لیے زندگی آسان تھی۔ ڈیونین اور کاربونیفیرس دور میں آکسیجن کی مقدار آج کی نسبت زیادہ تھی، یعنی 35 فیصد کے لگ بھگ۔ اس سے جانداروں کا حجم بہت کم وقت میں بہت بڑھ گیا۔
اب آپ شاید اس بات پر حیران ہو رہے ہوں کہ سائنس دانوں کو کیسے پتہ کہ آج سے کروڑوں سال قبل کی دنیا میں آکسیجن کی مقدار کیا تھی؟ اس کا جواب آئسو ٹوپ جیو کیمسٹری کی شاخ سے ملتا ہے۔ کاربونیفیرس اور ڈیونین دور کے سمندروں میں چھوٹے چھوٹے پلینکٹن بھرے ہوئے تھے جن کے گرد سخت خول ہوتے تھے۔ پلینکٹن ماحول سے آکسیجن کشید کر کے دیگر عناصر جیسا کہ کاربن وغیرہ سے ملا کر اپنے لیے سخت خول بناتے ہیں۔ یہی عمل کاربن سائیکل میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے جو زیادہ دلچسپ تو نہیں لیکن ہماری زمین کو حیات کے قابل بناتا ہے۔
اس عمل میں تمام جاندار مرتے اور سمندر کی تہہ میں جمع ہوتے جاتے ہیں جہاں بتدریج چونے میں بدل جاتے ہیں۔ پلینکٹن کے خول میں دو اہم اور مستحکم آئسوٹوپ یا ہم جاء ہوتے ہیں۔ ایک آکسیجن 16 اور دوسرا آکسیجن 18 ہے۔ یاد رہے کہ ہم جاء ایسے ایٹم ہوتے ہیں جن میں نیوٹران کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ اب انہی آئسو ٹوپ کا جائزہ لے کر جیو کیمسٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ اس وقت کی فضاء میں آکسیجن کی مقدار کیا رہی ہوگی۔ اسی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فضاء اور زمین کے درجہ حرارت، برفانی دور کی ابتداء اور اختتام وغیرہ کب ہوئے۔ اس کے علاوہ دیگر فاسلز سے پولن کی مقدار وغیرہ کا بھی جائزہ لے کر سائنس دان اس وقت کے ماحول کی تقریباً درست تصویر کشی کر سکتے ہیں۔
اُس دور میں آکسیجن کی غیر معمولی مقدار کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ سطح زمین پر دیو قامت فرن اور دوسرا بے شمار دلدلیں۔ ان دلدلوں کی وجہ سے کاربن سائیکل متاثر ہوا اور جب بھی فرن مر کر نیچے گرتے تو گلنے سڑنے کی بجائے وہ دلدل کا حصہ بن جاتے۔ اس سے دلدلیں مختلف معدنی عناصر سے بھر گئیں اور آخرکار انہی دلدلوں سے ہمارے کوئلے کے ذخائر بنے۔
آکسیجن کی زیادہ مقدار سے جانداروں کا حجم بڑا ہوا۔ ابھی تک کے قدیم جانوروں کا ریکارڈ 35 کروڑ سال قبل کا ملتا ہے جب ہزار پایہ جیسی مخلوق ایک میٹر لمبی ہوتی تھی۔ اس کے فاسل سکاٹ لینڈ سے ملے تھے۔ اس سے پہلے کے دور میں شاید ہزار پائے اس سے بھی دو گنا بڑے ہوتے ہوں۔
اس دور میں جب اتنے بڑے شکاری پھرتے ہوں تو حشرات کو اپنے بچاؤ کا نیا راستہ ڈھونڈنا پڑا۔ انہوں نے اڑنا سیکھ لیا۔ ان میں سے بعض حشرات تو اتنے ماہر ہو گئے کہ آج تک انہوں نے اپنی شکل نہیں بدلی۔ بھنبھیری کو ہی لے لیں جو 50 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اڑتے اڑتے اچانک ہوا میں ساکت ہو کر اور پھر پیچھے کو اڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ آج تک انسان کی بنائی ہوئی کوئی بھی اڑنے والی مشین اس سے بہتر نہیں بن سکی۔ امریکی فضائیہ کے سائنس دانوں نے ونڈ ٹنل میں بھنبھیری کا مطالعہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ قدیم دور کی آکسیجن سے ان کا حجم بھی بڑا ہوا۔ درخت اور دیگر سبزہ بھی اسی حساب سے بڑا ہوا۔ ہارس ٹیل اور ٹری فرن 15 میٹر جبکہ کلب موس 40 میٹر تک اونچے ہوتے تھے۔
پہلے زمینی فقاریہ جانور جو کہ پہلے زمینی جانور بھی تھے، کے بارے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ تو متعلقہ فاسلز کی کمی ہو۔ لیکن اس کی ایک وجہ ایک خبطی سوئیڈش سائنس دان ایرک یَروک ہے۔ اس شخص نے تحقیق کو غلط معلومات وغیرہ کے ذریعے تقریباً نصف صدی تک روکے رکھا۔ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں سکینڈے نیوین سائنس دانوں کی مہم گرین لینڈ گئی تاکہ وہاں سے پرانے جانوروں کے فاسلز جمع کر سکیں۔ ان کا اصل مقصد ایسی مچھلی تلاش کرنا تھا جو موجودہ دور کے چوپایوں کی جد ہو۔
زیادہ تر جانور چوپائے ہیں اور آج کے تمام زندہ چوپایوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان کے چار ہاتھ اور ٹانگیں ہوتی ہیں اور ہر ایک کے اختتام پر زیادہ سے زیادہ 5 انگلیاں۔ ڈائنوسار، وہیل، پرندے، انسان، حتیٰ کہ مچھلیاں بھی چوپایہ ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان سب کی ابتداء ایک ہی جاندار سے ہوئی۔ اندازہ ہے کہ وہ جاندار آج سے 40 کروڑ سال قبل ڈیونین دور سے تھا۔ اس سے قبل خشکی پر چلنے والے جانور نہیں تھے۔ تاہم اس کے بعد بہت کچھ نیا ہوا۔ خوش قسمتی سے مندرجہ بالا مہم کو ایک میٹر لمبے ایک ایسے ہی جانور کا فاسل ملا جسے اکتھیوسٹیگا کا نام دیا گیا۔ اس فاسل کا جائزہ لینے کا کام یَروک کے ذمے لگایا گیا جس نے 1948 میں اپنا کام شروع کیا اور اگلے 48 سال تک کام جاری ہی رکھا۔ بدقسمتی سے یَروک نے کسی اور کو اس فاسل کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دی۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں کو دو مختلف ادھورے مضامین میں اس جانور کا خاکہ ہی پڑھنے کو ملا کہ اس جانور کے چار ہاتھ پاؤں اور ہر ہاتھ پاؤں میں پانچ پانچ انگلیاں تھیں، یعنی سائنس دانوں کا نظریہ درست ثابت ہوا۔
یَروک کا انتقال 1998 میں ہوا۔ اس کے بعد سائنس دانوں نے تجسس سے جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ اس جانور کے ہر ہاتھ پیر میں انگلیوں کی تعداد آٹھ آٹھ تھی اور یہ بھی کہ یہ جانور خشکی پر چلنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کے اعضاء کی ساخت ایسی تھی کہ اپنے ہی وزن تلے دب جاتا۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ‘دریافت’ سے خشکی پر جانوروں کی ابتداء کے بارے کام کتنا آگے بڑھا ہوگا۔ آج ہمارے پاس تین ایسے ابتدائی چوپائے ہیں لیکن کسی کی بھی پانچ انگلیاں نہیں۔ یعنی ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔
تاہم نہ صرف ہم پیدا ہوئے بلکہ موجودہ دور تک بھی پہنچ گئے ہیں جو کہ کوئی سیدھا سادا کام نہیں تھا۔ جب سے خشکی پر زندگی شروع ہوئی ہے، اس وقت سے آج تک کے دور کو ہم چار مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلے دور میں بالکل ابتدائی قسم کے جانور تھے جو جل تھلیے تھے۔ اس دور کی بہترین مثال ڈیمیٹروڈن تھا۔ اکثر لوگ اسے ڈائنو سار سمجھ لیتے ہیں۔ اس دور کے جانوروں کے چار گروہ تھے جن کے نام Synapsids, anapsids, euryapsids اور Diaspids ہیں۔ ان کے نام ان کی کھوپڑی پر موجود سوراخوں اور ان کے مقام کے مطابق رکھے گئے تھے۔
ان گروہوں کی نسلیں آگے چلیں۔ کچھ شاخیں معدوم ہوئیں تو کچھ نے خود کو بہتر بنایا۔ اس میں سے ایک گروہ anapsids کچھوے بنا اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب پوری دنیا پر کچھووں کا راج تھا۔ تاہم ان کا دور زیادہ نہیں چلا اور اب کچھوے سست جانور شمار ہوتے ہیں۔ Synapsids کی آگے چل کر چار شاخیں ہوئیں جن میں صرف ایک شاخ پرمیئن دور سے آگے بڑھ پائی۔ ہمارا تعلق اسی شاخ سے تھا اور اسی سے پروٹو میملز بنے جنہیں ہم Therapsids کہتے ہیں۔ یہ دوسرا دور تھا۔
Theraspids کی بدقسمتی کہ ان کے ساتھ ساتھ Diapsids بھی ترقی کرتے کرتے ڈائنو سار اور دیگر جانور بنے جنہوں نے Theraspids کا ناطقہ بند کر دیا۔ جب براہ راست مقابلہ ممکن نہ رہا تو Theraspids کی اکثریت صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ تاہم ان کی بہت معمولی سی تعداد نے ارتقاء سے گزر کر بالدار اور بلوں میں چھپنے والی مخلوق کا روپ دھار لیا۔ بہت طویل عرصے تک یہ چھوٹے ممالیہ جانور بنے رہے۔ اکثریت تو چوہوں جتنی اور شاید کوئی کوئی بلی جتنا بڑا ہو۔ اس طرح ان کا وجود برقرار رہ پایا تاہم انہیں 15 کروڑ سال انتظار کرنا پڑا جب تیسرا دور یعنی ڈائنو ساروں کا دور ختم ہوا اور چوتھا دور شروع ہوا جسے ہم ممالیہ دور کہتے ہیں۔
یہ تمام دور ترقی کا زینہ اور معدومیت کا شاہکار تھے۔ شاید حیرت کی بات لگے کہ کسی کی موت کسی کی زندگی کا سبب بنتی ہے۔ کہنا مشکل ہے کہ شروع سے اب تک کتنی انواع کے جاندار زمین پر پیدا ہوئے۔ کچھ سائنس دان یہ تعداد 30 ارب تو کچھ سائنس دان 4000 ارب مانتے ہیں۔ اصل تعداد چاہے جو بھی ہو، لیکن 99.99 فیصد جانوروں کی انواع اب معدوم ہو چکی ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے ڈیوڈ راپ کے مطابق ایک طرح سے تمام انواع ہی معدوم ہو چکی ہیں۔ پیچیدہ جانوروں کی انواع کا اوسط دورانِ حیات 40 لاکھ سال ہے۔ بنی نوع انسان کو پیدا ہوئے تقریباً اتنا ہی عرصہ ہو چکا ہے۔
معدوم ہونے والے جانوروں کے لیے تو یہ خبر منحوس ہوتی ہی ہے لیکن زندہ سیارے کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ معدومیت کا متضاد ٹھہراؤ ہے۔ کسی بھی سیارے میں ٹھہراؤ اچھی علامت نہیں۔ تاہم واضح رہے کہ یہ معدومیت قدرتی ہوتی ہے، انسانی غفلت سے نہیں۔
ارضی تاریخ میں بحرانوں کے فوراً بعد بہتری آتی ہے۔ ایڈیاکاران جانوروں کے خاتمے پر کیمبرین دور شروع ہوا۔ اور ڈویشین دور کا خاتمہ 44 کروڑ سال قبل ہوا اور اس سے سمندروں میں مچھلیوں اور عظیم الجثہ بحری جانوروں کی راہ ہموار ہوئی۔ انہی جانوروں سے پھر کچھ خشکی پر آئے اور اس دور کا بھی خاتمہ ہوا۔ اگر ان میں سے زیادہ تر واقعات عین اسی وقت اور اسی طرح نہ ہوئے ہوتے جیسا کہ وہ ہوئے، تو ہم یہاں نہ ہوتے۔
زمین پر انواع کی اجتماعی معدومیت کے پانچ بڑے ادوار ہیں۔ انہیں Ordovician, devonian, permian triassic اور cretaceous کہتے ہیں۔ چھوٹے موٹے ادوار کی گنتی ممکن نہیں۔ Ordovician دور 44 کروڑ سال قبل، devonian ساڑھے 36 کروڑ سال قبل ہوئے اور اندازہ ہے کہ 80 سے 85 فیصد انواع ختم ہو گئیں۔ triassic کوئی 21 کروڑ سال قبل اور cretaceous ساڑھے چھ کروڑ سال قبل واقع ہوئیں اور اس وقت کی 70 سے 75 فیصد انواع کا صفایا کر گئیں۔ تاہم سب سے بڑی معدومیت permian تھی جو آج سے ساڑھے 24 کروڑ قبل ہوئی اور ڈائنو ساروں کا صفایا کرنے کے علاوہ دیگر 95 فیصد انواع بھی ختم کر گئی۔ یہ واحد موقع تھا جب حشرات کی ایک تہائی انواع ختم ہوئیں۔ ایک طرح سے زمین پر سے زندگی کا تقریباً صفایا ہو گیا تھا۔
رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘اسے مرگِ انبوہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے قبل یا اس کے بعد زمین کو اتنی بڑی آفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا’۔ پرمیئن دور سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بحری جانور تھے۔ ٹریلوبائٹس بالکل صاف ہو گئے، سیپیاں اور سی ارچن تقریباً ہی ختم ہو گئے۔ اندازے کے مطابق خشکی اور بحری کے جانوروں کے 52 فیصد خاندان اور 96 فیصد انواع ختم ہو گئیں۔ یاد رہے کہ خاندان نوع سے بڑا درجہ ہے۔ 8 کروڑ سال بعد جانوروں کی انواع واپس اصل تعداد کو پہنچی۔
دو باتیں یاد رکھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ سب محض اندازے ہیں۔ پرمیئن دور کے جانوروں کی انواع کے بارے اندازہ 45,000 سے 2,40,000 کے درمیان ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم انواع کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں، جانوروں کی تعداد کے بارے نہیں۔ جو نوع معدومیت سے بچی، اس کے آگے چلنے کا انحصار شاید ان چند جانوروں پر ہو جو کسی نہ کسی طرح بچ گئے تھے۔
ان بڑی اموات کے علاوہ نسبتاً چھوٹی بھی ہیں جن میں سے Hemphellian, frasnian, famennian, rancholabrean اور درجن بھر اور بھی اہم ہیں۔ ان سے جانوروں کی کل انواع کی نسبت مخصوص انواع کو زیادہ نقصان پہنچا۔ چرندے بشمول گھوڑے 50 لاکھ سال قبل Hemphillian میں تقریباً صاف ہو گئے۔ گھوڑوں کی محض ایک نوع باقی بچی۔ اب اندازہ کیجیے کہ گھوڑوں اور چرندوں کے بغیر انسانی تاریخ کیا ہوتی؟
عجیب بات یہ ہے کہ چاہے بڑا خاتمہ ہو یا چھوٹا، ہمیں ان کی وجوہات کے بارے نہ ہونے کے برابر علم ہے۔ انتہائی مضحکہ خیز وجوہات کو باہر نکالنے کے باوجود بھی بے شمار وجوہات باقی بچتی ہیں۔ کم از کم 20 سے زیادہ ممکن وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں گلوبل وارمنگ، گلوبل کولنگ، سمندری سطح میں اضافہ، سمندروں میں آکسیجن کا خاتمہ، وبائیں، سمندری تہہ سے میتھین کی بہت بڑی مقدار کا اخراج، شہابِ ثاقب اور دم دار ستاروں کا زمین سے ٹکرانا، ہریکین کی ایک قسم جسے ہائپرکین کہتے ہیں، عظیم آتش فشاں کا پھٹنا اور شمسی اخراج اہم ترین ہیں۔
شمسی اخراج اس لیے بھی عجیب ہے کہ اس کی شدت کے بارے ہمیں کوئی علم نہیں۔ سورج کے بارے ہماری معلومات خلائی دور شروع ہونے کے وقت سے ہیں لیکن سورج انتہائی بڑا اور اس کے طوفان انتہائی شدید ہوتے ہیں۔ ایک عام سا شمسی اخراج جس کے بارے زمین پر لوگ کبھی نہیں جان پاتے، ایک ارب ہائیڈروجن بموں کے برابر توانائی خارج کرتا ہے اور پاس کی خلاء میں 100 ارب ٹن جتنی قاتل شعاعیں پھینکتا ہے۔ زمین کے مقناطیسی غلاف اور فضاء یا تو ان ذرات کو واپس خلاء میں یا قطبین پر بھیج دیتے ہیں جو انوارِ قطبی کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔ خیال ہے کہ عام اخراج سے 100 گنا بڑا طوفان ہماری زمین کے دفاع کو ختم کر سکتا ہے۔ اس وقت کے انوارِ قطبی خوبصورت تو بہت دکھائی دیں گے لیکن اس وقت دھوپ میں موجود تمام تر جاندار جل بُھن جائیں گے۔ مزید یہ بھی کہ تاریخ میں اس کی کوئی معلومات نہیں ہوں گی۔
ایک محقق کے خیال میں ہمارے پاس اندازوں کے پہاڑ موجود ہیں لیکن شواہد نہ ہونے کے برابر۔ زمین کا ٹھنڈا ہونا کم از کم تین بڑے ادوار کے خاتمے کا سبب رہا ہے جو Ordovician, devonian اور permian ہیں۔ تاہم اس سے زیادہ کسی بات پر اتفاق ممکن نہیں۔ یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ یہ خاتمے کئی لاکھ سال پر مشتمل طویل عمل تھے کہ چند ہزار سال یا کہ محض ایک دن؟
ان بڑی اموات کی وضاحت میں ایک اور مشکل بھی پیش آتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جانوروں کی ایک وقت میں ہلاکت کیسے ممکن ہوگی۔ مینسن والے شہابِ ثاقب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زمین کو کتنا بڑا صدمہ پہنچا لیکن پھر بھی حیات نہ صرف برقرار رہی بلکہ کچھ عرصے بعد اپنی پرانی حالت پر بھی آنا شروع ہو گئی۔ اب زمین پر ہزاروں ایسے شہابِ ثاقب ٹکرائے ہیں تو کے ٹی ہی ایسا واقعہ کیوں تھا کہ جس میں ساڑھے چھ کروڑ سال قبل ڈائنو سار فنا ہو گئے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حادثہ واقعی انتہائی عظیم تھا۔ اس کی شدت 10 کروڑ میگا ٹن کے برابر تھی۔ اس شدت کو یوں سمجھیں کہ آج دنیا میں موجود ہر انسان کے مقابلے میں ایک ہیروشیما والا ایک ایٹم بم پھاڑا جائے اور تو پھر بھی اسی طرح کے ایک ارب مزید بم درکار ہوں گے، جو اس دھماکے کی شدت کو ظاہر کریں گے۔ پھر بھی یہ واقعہ اکیلے زمین کے 70 فیصد جانوروں اور ڈائنو ساروں کو ختم نہ کر سکتا۔
کے ٹی شہابِ ثاقب کا ممالیہ جانوروں کو ایک اضافی فائدہ یہ پہنچا کہ یہ شہابِ ثاقب محض دس میٹر گہرے سمندر میں گرا اور اس وقت دنیا میں آکسیجن کی مقدار آج سے 10 فیصد زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ جہاں یہ گرا، اس جگہ سمندر کی تہہ سلفر کی چٹانوں سے بنی تھی۔ نتیجتاً بیلجیم کے حجم کے برابر سمندر کی تہہ نے سلفیورک ایسڈ کا روپ دھار کر ہوا کا رخ کیا اور تیزابی بارش شروع ہو گئی۔
70 فیصد انواع کی معدومیت سے زیادہ اہم یہ سوال ہے کہ باقی کی 30 فیصد انواع کیسے زندہ بچیں۔ یہ واقعے سے سارے ڈائنو سار ہی کیوں ہلاک ہوئے جبکہ دیگر خزندے جیسا کہ سانپ اور مگرمچھ وغیرہ زندہ بچ گئے؟ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ مینڈک، سیلیمنڈر یا دیگر جل تھلیوں کی کوئی بھی نوع شمالی امریکہ میں معدوم نہیں ہوئی۔ اتنے عظیم حادثے سے ایسی نازک انواع کیسے بچ گئیں؟
سمندروں میں یہ یہی مسئلہ سامنے آیا کہ Ammonites تو معدوم ہو گئے جبکہ ان کے قریبی رشتہ دار Nautiloids جو کہ انہی کی طرح زندگی گزارتے ہیں، کو کوئی نقصان نہیں پہنچا؟ اسی طرح پلینکٹن کی کئی اقسام تو سرے سے ہی صاف ہو گئیں جبکہ دیگر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا؟
ظاہر ہے کہ ایسی بے قاعدگیوں کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘محض یہ کہنا کافی نہیں کہ بچ نکلنے والے جانور خوش قسمت تھے’۔ ظاہر ہے کہ اس ٹکراؤ کے بعد مہینوں تک آسمان پر گرد چھائی رہی ہوگی اور اندھیرے کے علاوہ سانس کے مسائل بھی ہوئے ہوں۔ حشرات کا بچنا معجزہ لگتا ہے کہ ان کی اکثریت زمین کی سطح پر پڑی لکڑی وغیرہ پر زندہ رہتی ہے۔ شہد کی مکھیاں سورج کی روشنی سے راستہ تلاش کرتی ہیں اور پولن پر زندہ رہتی ہیں۔ ان کے بچنے کی وضاحت ممکن نہیں۔
سب سے منفرد کورل یا مونگے ہیں۔ مونگے کو زندہ رہنے کے لیے الجی کی ضرورت ہوتی ہے اور الجی کو سورج کی روشنی درکار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں کو سمندری پانی کا ایک خاص درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ کافی عرصے سے آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہر جگہ مونگوں کے مرنے کی بات ہو رہی ہے جبکہ سمندری درجہ حرارت محض ایک ڈگری بڑھا ہے۔ اگر مونگوں کو درکار درجہ حرارت اتنا ہی اہمیت رکھتا ہے تو پھر طویل سردیوں سے وہ کیسے بچ پائے؟
اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں پائے جانے والے تفاوت کو بھی نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ معدومیت کا اثر جنوبی نصف کرے کی بجائے شمالی نصف کرے پر زیادہ تھا۔ مثلاً نیوزی لینڈ میں زیرِ زمین کوئی جانور نہیں رہتے لیکن پھر بھی وہاں کوئی نوع معدوم نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ نیوزی لینڈ کی نباتات پر بھی کوئی ایسا اثر نہیں پڑا۔ تاہم دیگر جگہوں پر ہونے والی تباہی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عالمگیر نوعیت کی تباہی تھی۔ یعنی ابھی بھی ہمیں بہت کچھ معلوم نہیں۔
بعض جانور مثلاً کچھوے تو اس صورتحال میں بہت زیادہ پھلے پھولے۔ ڈائنوسار کے خاتمے کے بعد کا دور کچھوؤں کا دور کہا جا سکتا ہے۔ شمالی امریکہ میں کچھوؤں کی 16 انواع تھیں اور 3 اس واقعے کے فوری بعد پیدا ہوئیں۔
ظاہر ہے کہ پانی میں رہنے والے جانوروں کا اس کا فائدہ پہنچا۔ کے ٹی کے واقعے میں خشکی پر رہنے والے جانوروں کی تعداد کا 90 فیصد ہلاک ہوا جبکہ میٹھے پانی میں رہنے والے جانوروں کی تعداد کا محض 10 فیصد ہلاک ہوا۔ ظاہر ہے کہ پانی میں آگ اور حرارت سے بچاؤ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ بعد کے مشکل دور سے گزرنے میں بھی آسانی دی ہوگی۔ خشکی پر بچنے والے جانور بھی وہ تھے جو خطرے کے وقت زیرِ زمین یا پانی میں پناہ لیتے تھے۔ مردار خور جانوروں کے تو وارے نیارے ہو گئے ہوں گے۔ چھپکلیاں گلے سڑے گوشت کے جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ ان کی توجہ عموماً گلے سڑے جانوروں کی طرف زیادہ مبذول ہوتی ہے۔
اکثر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ کے ٹی واقعے میں صرف چھوٹے جانور ہی بچے۔ تاہم اس دور کے مگرمچھ آج سے تین گنا بڑے ہوتے تھے اور ان پر کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ تاہم بحیثیتِ مجموعی، چھوٹے جانوروں کی بڑی تعداد باقی بچ گئی۔ اس وقت کی دنیا تاریک اور مشکل تھی اور اس وقت چھوٹی جسامت، گرم خون، شب بیدار، ہمہ خور اور فطری طور پر محتاط رہنے والے جانور درکار تھے اور یہ سب خصوصیات اس وقت کے ممالیہ جانوروں میں پائی جاتی تھیں۔ اگر ممالیہ زیادہ ارتقاء کر چکے ہوتے تو شاید وہ بھی معدوم ہو جاتے۔ تاہم اس دور کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے اس دور کے ممالیہ جانور ہی بہترین تھے۔
تاہم ہر جگہ پیدا ہونے والے خلاء کو پورا کرنے کو ممالیہ جانور ہی آگے نہیں آئے۔ سٹیون ایم سٹینلے کے مطابق، ‘ارتقاء کے عمل میں خلاء تو پیدا ہوتا ہے لیکن اس کو بھرنا اتنا آسان نہیں ہوتا’۔ شاید ایک کروڑ سال تک ممالیہ جانور اسی طرح محتاط اور مختصر جسامت والے رہے۔ ابتدائی ٹرشری دور میں سیاہ گوش کی جسامت والے جانور بے تاج بادشاہ ہوتے تھے۔
تاہم جب ممالیہ جانوروں نے بڑھنا شروع کیا تو پھر یہ سلسلہ بہت آگے چلا۔ گنی پگ کا حجم گینڈے کے برابر جبکہ گینڈے دو منزلہ مکان جتنے ہو گئے۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں گوشت خور جانوروں کی کمی پیدا ہوئی تھی، وہاں بھی ممالیہ جانوروں نے جگہ پوری کی۔ ریکون کے خاندان کے جانور جنوبی امریکہ ہجرت کر گئے اور موقع کی مناسبت سے ریچھ جتنے بڑے اور خونخوار ہو گئے۔ پرندے بھی اسی حساب سے بڑے ہوئے۔ لاکھوں سال تک ٹائیٹانس نامی بڑا اور نہ اڑ سکنے والا پرندہ شاید شمالی امریکہ کا سب سے خونخوار جانور رہا ہو۔ یہ شاید آج تک کا سب سے خطرناک پرندہ ہو۔ اس کا قد تین میٹر اور وزن 350 کلو رہا ہوگا۔ اس کی چونچ کسی بھی جانور کا سر شانوں سے نوچ سکتی تھی۔ یہ پرندہ 5 کروڑ سال تک زندہ رہا لیکن 1963 میں اس کا فاسل ملنے سے قبل تک اس کے وجود کا کسی کو علم تک نہ تھا۔
فاسل ریکارڈ کی انتہائی قلت بھی معدومیت کے بارے ہماری لاعلمی کی ایک وجہ ہے۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ کسی ڈھانچے کا فاسل بننا کتنا مشکل کام ہے۔ ڈائنور ساروں کے ڈھانچے تقریباً ہر مشہور عجائب گھر میں دکھائی دیتے ہیں۔ لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں داخل ہوتے ہی جو بڑا Diplodocus کا ڈھانچہ دکھائی دیتا ہے، وہ سارے کا سارا ہی پلاسٹر کا بنا ہوا ہے۔ 1903 میں اینڈریو کارنیگی نے پٹس برگ میں اسے بنا کر اس میوزیم کو عطیہ کیا تھا۔ امریکہ میں نیو یارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے داخلے کے مقام پر ایک 9 میٹر اونچا ڈائنو سار دوسرے ڈائنو سار سے اپنے بچے کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ بھی پلاسٹر کا بنا ہے۔ نمائش پر موجود سینکڑوں ہڈیاں تمام کی تمام ہی نقلی ہیں۔ دنیا بھر میں آپ کسی بھی عجائب گھر کا دورہ کریں، چاہے وہ پیرس میں ہو، وی آنا، فرینکفرٹ، بیونس آئرس، میکسیکو سٹی ہو یا کہیں بھی، ہر جگہ نمائش پر نقلی نمونے ہی دکھائی دیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ڈائنو ساروں کے بارے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ آج تک ڈائنو سار کی 1000 قسمیں بھی نہیں دریافت ہوئیں۔ ان میں سے نصف کا محض ایک نمونہ ہی ملا ہے۔ یہ تعداد آج کے دور میں ممالیہ جانوروں کی انواع کے چوتھائی سے بھی کم ہے۔ ممالیہ جانوروں سے تین گنا لمبا عرصہ زندہ رہنے والے ڈائنو ساروں کی اتنی کم اقسام ہوں، یا تو ڈائنو سار انتہائی نکمے تھے یا پھر ہمیں ان کے بارے کچھ بھی معلومات نہیں۔
کروڑوں سال تک زندہ رہنے والے ڈائنو ساروں کے ابتدائی کئی لاکھ سال کے بارے تو ہمیں کوئی معلومات نہیں۔ Cretaceous دور جس کا سب سے زیادہ مطالعہ کیا گیا ہے، میں پائے جانے والے ڈائنو ساروں کی تین چوتھائی تعداد شاید آج بھی دریافت نہیں ہوئی۔ Diplodocus سے بھی عظیم الجثہ اور Tyrannosaurus سے بھی خونخوار جانور ہزاروں کی تعداد میں بھی ہوں تو بھی ہمیں ان کے بارے کوئی علم نہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ڈائنو ساروں کے اس دور کے بارے ہماری معلومات محض 300 ڈھانچوں تک محدود تھیں جو 16 انواع سے تعلق رکھتے تھے۔ شواہد کی کمی کی وجہ سے ہی یہ سمجھا جاتا تھا کہ کے ٹی واقعے کے وقت ڈائنو سار ویسے بھی معدوم ہونے کے قریب تھے۔
1980 کے اواخر میں پیٹر شیہان نامی ایک ماہرِ متحجرات یعنی پیلنٹالوجسٹ نے ایک تجربہ کرنے کا سوچا۔ 200 رضاکاروں کی مدد سے اس نے مونٹانا ریاست میں ہیل کریک کا باریک بینی سے معائنہ کرنے کا سوچا۔ یہ جگہ فاسلز کے بارے بہت مشہور لیکن بہت بار تلاشی کے عمل سے گزر چکی تھی۔ رضاکاروں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ چھلنیوں کی مدد سے بچے ہوئے تمام دانت، ہڈیاں، مہرے وغیرہ سب کچھ جمع کیے ۔ اس کام پر کل تین سال خرچ ہوئے۔ تاہم جب ان کا کام ختم ہوا تو پتہ چلا کہ وہ Cretaceous دور کے اواخر والے ڈائنوساروں کے فاسل کی تعداد کو تین گنا بڑھا چکے ہیں۔ اس سروے سے پتہ چلا کہ کے ٹی واقعے تک ڈائنو سار نہ صرف موجود تھے بلکہ خوب پھل پھول رہے تھے۔ شیہان نے نتیجہ نکالا، ‘یہ کہنا غلط ہے کہ اس دور کے آخری 30 لاکھ سالوں میں ڈائنو سار معدوم ہونا شروع ہو گئے تھے’۔
ہم اپنی موجودگی اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ آج ہمارا وجود بروقت ہونے والے شہابِ ثاقب کے دھماکوں اور دیگر حادثات کا نتیجہ ہے۔ یوں کہہ لیں کہ آج تمام زندہ جانوروں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان کے آباؤ اجداد چار ارب سالوں سے جب بھی ضرورت پڑی، بند ہوتے دروازوں سے بروقت گزرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سٹیفن جے گولڈ کے مطابق، ‘نسلِ انسانی کا آج یہاں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی وراثتی شاخ آج تک کہیں ناکام نہیں رہی۔ اگر ناکام رہی ہوتی تو آج ان کا وجود ممکن نہ ہوتا’۔
اس باب کے شروع میں تین اہم نکات تھے کہ ‘زندگی اپنا وجود چاہتی ہے، زندگی کچھ زیادہ نہیں مانگتی اور یہ کہ وقتاً فوقتاً زندگی معدوم بھی ہوتی رہتی ہے’۔ اس میں ایک چوتھا نکتہ بھی شامل کر لیتے ہیں کہ ‘زندگی جاری و ساری رہتی ہے’۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ زندگی کا تسلسل کتنا منفرد ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
23 وجود کے فائدے​
لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی نیم تاریک راہداریوں میں شیشے کی الماریوں میں بھرے شترمرغ کے انڈوں، معدنیات اور دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ خفیہ دروازے بھی موجود ہیں۔ خفیہ اس لیے کہ عموماً یہاں آنے والے افراد کو ان کے وجود کا علم کم ہی ہو پاتا ہے۔ کبھی کبھار ان دروازوں سے بکھرے بالوں والے محققین بعجلت نکل کر دوسرے دروازے میں گم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ زیادہ تر یہ دروازے بند رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے کسی کو بھی علم نہیں ہو پاتا کہ اس نیچرل ہسٹری میوزیم کے ساتھ ساتھ ایک اور میوزیم بھی ہے جو عوامی میوزیم کے برابر بڑا اور وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے کہیں زیادہ دلچسپ بھی ہے۔
نیچرل ہسٹری میوزیم میں ہر قسم کے لگ بھگ 7 کروڑ نمونے موجود ہیں جو دنیا کے ہر کونے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ہر سال ایک لاکھ جتنے نئے نمونوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ تاہم ان ‘خزینوں‘ کی اہمیت کے بارے آپ کو تبھی علم ہوتا ہے جب آپ ان دروازے کے پیچھے پہنچ سکیں۔ ان دروازوں کے پیچھے وسیع و عریض کمروں میں الماریوں کی الماریوں میں بوتلوں میں بند ہزاروں اقسام کے جانور، کروڑوں حشرات پن سوئیوں سے اٹکے ہوئے ہیں، چمکدار سیپیاں، ڈائنوساروں کی ہڈیاں، قدیم انسانی کھوپڑیاں اور ان گنت فولڈر ہیں جن میں پودے تہہ کر کے رکھے گئے ہیں۔ جیسا کہ ڈارون کا دماغ کھول کر رکھ دیا گیا ہو۔ سپرٹ والے کمرے میں کل 15 میل طویل الماریاں ہیں جن میں میتھیلیٹڈ سپرٹ میں محفوظ کیے گئے جانور موجود ہیں۔
اس جگہ آسٹریلیا سے جمع کیے گئے جوزف بینکس کے نمونے بھی ہیں اور ایموزونیا سے لائے گئے الیکزنڈر وون ہمبولڈٹ کے نمونوں کے علاوہ ڈارون کے بیگل کے سفر والے نمونے بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بہت کچھ نایاب اور تاریخی اعتبار سے مشہور چیزیں موجود ہیں۔ بہت سارے لوگ انہیں چرانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بعض افراد تو سچ مچ چوری بھی کر چکے ہیں۔ 1954 میں میوزیم کو پرندوں کے ایک بہت مشہور مصنف اور نمونے جمع کرنے والے ماہر کا مجموعہ بھیجا گیا۔ یہ مصنف برسوں تک اپنی کتب اور مقالوں کی خاطر پرندوں کا مطالعہ کرنے میوزیم آتا تھا اور اس نے ایک کتاب Birds of Arabia بھی لکھی تھی۔ جب اس کی وفات کے بعد اس کے میوزیم کے نام چھوڑے ہوئے نمونوں سے بھرے ڈبے میوزیم پہنچے تو اہلکاروں نے خوشی خوشی انہیں کھول کر دیکھا تو ان میں سے اکثریت پر میوزیم کی چٹیں لگی ہوئی تھیں جو وہ سائنس دان برسوں سے چرا رہا تھا۔ اس طرح سب کو علم ہو گیا کہ یہ سائنس دان گرمیوں میں بھی لمبا اوور کوٹ کیوں پہن کر آتا تھا۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ کئی سال بعد ایک اور انتہائی معزز مہمان جو اکثر آتا تھا، کو سمندری حشرات کے خول اپنی کھوکھلی بیساکھیوں میں ڈالتے ہوئے پکڑا گیا۔
میوزیم کے انہی پوشیدہ حصوں کی سیر کراتے ہوئے رچرڈ فورٹی نے سوچتے ہوئے بتایا، ‘یہاں موجود ہر چیز کسی نہ کسی شخص کو لبھاتی ہے۔‘ ہر جگہ لوگ بڑی بڑی میزوں کے اردگرد بیٹھے سمندری جانوروں، پیلی ہڈیوں سے بھرے ڈبوں اور دیگر چیزوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے تھے۔ یہ تمام لوگ انتہائی اطمینان سے کبھی نہ ختم ہونے والے کام کر رہے تھے۔ 1967 میں میوزیم نے بحرِ ہند کے سفر پر مبنی جان مرے کی مہم ختم ہونے کے 44 سال بعد اس کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی۔ یہ دنیا کا ایسا کونا ہے جہاں ہر چیز اپنی مرضی سے کام کرتی ہے۔ پھر ہم ایک اور بوڑھے آدمی کے ساتھ انتہائی سست رفتار لفٹ پر سوار ہوکر اوپر کو روانہ ہوئے اور رچرڈ فورٹی اس کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے بات کر رہا تھا۔
جب وہ آدمی چلا گیا تو فورٹی نے بتایا، ‘یہ آدمی پچھلے 42 سال سے ایک پودے پر تحقیق کر رہا ہے جو St. John’s wort کہلاتا ہے۔ 1989 میں ریٹائر ہونے کے بعد بھی یہ بندہ ہر ہفتے اپنی تحقیق کو آگے بڑھانے آتا ہے۔‘
‘ایک پودے پر تحقیق پر بیالیس سال کیسے لگ سکتے ہیں؟‘ میں نے فورٹی سے پوچھا۔
‘ہوتا ہے۔ یہ بندہ بہت تفصیلی تحقیق کر رہا ہے۔‘ فورٹی نے بتایا۔ پھر جب لفٹ رکی تو رچرڈ فورٹی بہت حیران ہوا کہ سامنے ایک دروازہ تیغا گیا تھا۔ فورٹی نے بتایا کہ پہلے اس راستے سے وہ باٹنی کے شعبے کو جاتا تھا، پتہ نہیں یہ کب اور کیسے بند کر دیا گیا۔ خیر پھر ہم لمبا چکر کاٹ کر متعلقہ جگہ پہنچے جہاں برائیو فائٹس پر کام ہوتا ہے۔ ہم اسے کائی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں میرا تعارف لِن ایلیئس سے کرایا گیا۔
پہلے عام سمجھا جاتا تھا کہ موس جنگل میں درختوں کے شمالی جانب اگتے ہیں اور اس سے قطب نما کی طرح درست رہنمائی ہو سکتی ہے۔ اصل میں یہ لائکن ہوتے ہیں مگر واضح رہے کہ 18ویں صدی تک لائکن اور موس کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا تھا۔ اصل موس تو جہاں بھی موقع ملے، اگ آتے ہیں۔ اس لیے ان سے سمت جاننا ممکن نہیں ہوتا۔ عجیب بات دیکھیے کہ موس کسی بھی کام نہیں آتے۔ ہنری ایس کونارڈ نے اپنی کتاب How to Know the Mosses and Liverworts میں لکھا، ‘دنیا میں کوئی اور نباتاتی گروہ اتنا بڑا اور کسی بھی لحاظ سے اتنا بیکار نہیں، جتنا کہ موس ہیں۔‘ 1956 میں چھپنے والی یہ کتاب اپنے موضوع پر شاید واحد کتاب ہے جو آج بھی دستیاب ہے۔
تاہم موس بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم لائکن کو نکال بھی دیں تو بھی برائیوفائٹس میں 10٫000 سے زیادہ انواع پائی جاتی ہیں جو 700 جنرا میں منقسم ہیں۔ اے جے ای سمتھ کی لکھی ہوئی ضخیم کتاب Moss Flora of Britian and Ireland کے صفحات کی تعداد 700 ہے اور اس میں برطانیہ اور آئرلینڈ کے موسز پر لکھا گیا ہے۔ دونوں ہی جگہوں پر کوئی بہت زیادہ موس نہیں پائے جاتے۔ لِن ایلیئس نے مجھے بتایا، ‘استوائی علاقوں میں موس کی اصل تعداد ملتی ہے۔ آپ ملائیشیا کے برساتی جنگلوں میں نکل جائیں تو آسانی سے نئی اقسام مل جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے بھی یہی کیا تھا۔ میں نے محض نیچے دیکھا اور فوراً ہی مجھے ایک نئی قسم کا موس مل گیا۔‘ خاموش طبعیت یہ بندہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں 27 سال سے کام کر رہا ہے اور 1990 سے شعبے کا سربراہ بھی ہے۔
‘یعنی ہمیں معلوم نہیں کہ اندازاً کتنی انواع ابھی تک دریافت نہیں ہو سکیں؟‘
‘بالکل بھی نہیں۔‘
موس جیسے بیزار موضوع پر محققین کی کوئی کمی نہیں اور اس شعبے کے ماہرین کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو اس سے جذباتیت کی حد تک لگاؤ محسوس کرتے ہیں۔ ایلس نے بتایا ‘بعض اوقات تو لڑائی تک ہو جاتی ہے۔‘
میں نے ‘لڑائی‘ کی مثال مانگی۔
‘دیکھیں، آپ کے ملک کے ایک سائنس دان نے یہ مسئلہ کھڑا کیا۔‘ اس نے ایک بہت موٹی کتاب کھول کر اس میں موجود تصاویر دکھاتے ہوئے ایک پر انگلی رکھی۔ میرے خیال تو یہ تمام تر تصاویر ایک ہی جیسی تھیں۔ اس نے بتایا، ‘یہ پہلے ایک جینس سے متعلق تھے۔ تاہم اب انہیں تین میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔‘
‘اس بات پر مار کٹائی ہوئی؟‘ میں نے شوق سے پوچھا۔
‘بات تو درست تھی۔ لیکن اس سے یہ نقصان ہوا کہ بہت ساری کتب میں اور بہت ساری جگہوں پر نمونوں کو بدلنا پڑا اور یہ ساری کتب تبدیلیاں پوری ہونے تک بیکار ہو کر رہ گئیں۔ ظاہر ہے کہ سائنس دانوں کو برا تو لگا۔‘ جواب ملا۔
اس نے بتایا کہ موسز بعض اوقات بہت حیران کر دیتے ہیں۔ اس نے ایک موس کی مثال دی کہ وہ سب سے پہلے سٹین فورڈ یونیورسٹی، کیلیفورنیا میں ملا اور دوسری مرتبہ کارن وال میں ایک راستے پر، مگر درمیان میں کسی جگہ نہیں ملتا۔
ہم نے پرخیال انداز میں سر ہلائے۔
جب ایک نیا موس ملتا ہے تو سب سے پہلے اسے پہلے سے معلوم تمام موسز کے ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اطمینان کر سکیں کہ یہ واقعی نیا ہے۔ پھر اس کی باقاعدہ تفصیل لکھی جاتی ہے اور تصویر بنائی جاتی ہے اور پھر اسے کسی اچھے مجلے میں چھپنے کو بھیجا جاتا ہے۔ اس سارے عمل پر کم از کم چھ ماہ لگ جاتے ہیں۔ انیسویں صدی میں موسز کی درجہ بندی پر زیادہ کام نہیں ہوا۔ اس صدی کا اصل کام پچھلی صدی میں درج کی گئی چیزوں کی درستگی تھی۔
یہ دور موس جمع کرنے کے حوالے سے سنہری دور کہلاتا ہے (یاد رہے کہ چارلس لائل کا باپ موس جمع کرنے کے لیے بہت مشہور تھا)۔ ایک مشہور انگریز جارج ہنٹ نے تو اتنے ذو ق و شوق سے برطانوی موس جمع کیے کہ شاید کئی انواع اسی کی وجہ سے معدوم ہو گئی ہیں۔ لیکن اس جیسے دیوانوں کا شکریہ کہ آج لِن ایلس کے مجموعے کو بلامبالغہ دنیا کا بہترین مجموعہ شمار کیا جا سکتا ہے۔ تمام 7٫80٫000 نمونے موٹے کاغذوں میں نفاست سے دبا کر رکھے گئے ہیں اور ان میں سے بعض پر بہت پرانے انداز کی تحاریر بھی موجود ہیں۔ بعض لکھائی تو شاید رابرٹ براؤن کی ہوگی جس نے سب سے پہلے خلیے کا مرکزہ اور براؤنین حرکت دریافت کی تھیں۔ یہ سب مجموعے مہاگنی سے بنی بہترین الماریوں میں رکھے ہیں۔
‘اوہ، یہ سر جوزف بینکس کی الماریاں ہیں جو ان کے سوہو چوک والے گھر سے لائی گئی ہیں۔ یہ الماریاں اینڈیور والی مہم کے نمونوں کو جمع کرنے کی خاطر انہوں نے بنوائی تھیں، مگر پتہ نہیں یہ اس جگہ کیسے آ گئیں؟‘ ایلیئس نے جواب دیا۔
مجھے یہ سن کر بہت حیرت ہوئی۔ جوزف بینکس برطانیہ کا سب سے عظیم ماہرِ نباتات تھا اور اس نے اینڈیور پر سفر بھی کیا۔ یاد رہے کہ یہ سفر 1769 کے سورج کے سامنے زہرہ گزرنے کے مشاہدے کی نیت سے بھیجا گیا تھا اور اسی چکر پر ہی کیپٹن جیمز کُک نے آسٹریلیا کو دریافت کر کے برطانیہ سے منسوب کیا۔ اس سفر پر جانے کی خاطر بینکس نے اُس وقت کی رقم میں کل 10٫000 پاؤنڈ ادا کیے تاکہ وہ اور اس کے ساتھ 9 دیگر افراد جن میں ایک نیچرلسٹ، ایک سیکریٹری، 3 مصور اور 4 ملازمین تھے، ساتھ جائیں۔ یہ مہم تین سال پر مبنی تھی اور دنیا کے گرد چکر لگاتی۔ کیپٹن کُک نے پتہ نہیں اس مہم سے کیا سوچا ہوگا مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس دور میں ماہرینِ نباتات کی بہت مانگ تھی اور انہیں شرفا بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اتنی کامیاب مہم پھر کبھی نہیں جا سکی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ مہم پہلے سے نامعلوم علاقوں جیسا کہ ٹیرا ڈل فیوگو، تاہیتی، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور نیو گنی سے ہوکر گزری بلکہ یہ بھی کہ اس میں بینکس کی ہنرمندی اور محنت کا زیادہ عمل دخل تھا۔ ریو ڈی جنیرو میں جب قرنطینہ کی وجہ سے بینکس زمین پر نہ اتر سکا تو اس نے جہاز کے مویشیوں کےلیے آئے چارے کی گانٹھیں چھاننا شروع کر دیں اور نئی چیزیں دریافت کیں۔ کوئی بھی نئی چیز اس کی نظروں سے نہ بچ سکتی تھی۔ واپسی پرا س کے پاس 30٫000 نباتاتی نمونے تھے جن میں سے 1٫400 پہلے نامعلوم تھے۔ اس وقت کے معلوم پودوں کی تعداد اس کی وجہ سے ایک چوتھائی بڑھی۔
اس دور میں لوگوں کو پودے جمع کرنے کا جنون ہوتا تھا۔ یہ جنون بین الاقوامی تھا۔ ہر اس بندے کو دولت اور شہرت ملتی تھی جو نئی اقسام کے پودے متعارف کرا سکتا۔ تھامس نٹال جب امریکہ آیا تو بالکل ان پڑھ تھا لیکن اس نے جلد ہی پودوں کے جنون کو جان لیا۔ اس نے نصف امریکہ کا پیدل سفر کیا اور سینکڑوں نئی اقسام کے پودے دریافت کیے۔ جان فریزر، جس کے نام پر فریزر فر رکھا گیا ہے، نے برسوں جنگل میں گزارے اور روسی ملکہ کیتھرین کے لیے پودے جمع کیے۔ جب وہ واپس لوٹا تو روس میں نیا زار بادشاہ بن چکا تھا اور اس نے سوچا کہ شاید فریزر دیوانہ ہوگیا ہے اور اسے معاہدے کی رقم دینے سے انکار کر دیا۔ فریزر اپنے مجموعے سمیت چیلسی آ گیا۔ یہاں اس نے نرسری کھولی اور انگلستانی شرفا کو قسم قسم کے پودے بیچ کر خوب رقم کمانے لگا۔
ان دنوں اچھی مجموعوں کے بدلے اچھی رقم مل سکتی تھی۔ جان لیون نے شوقیہ پودے جمع کرنا شروع کیے اور دو سال کی محنت کے بدلے اسے آج کی رقم میں سوا لاکھ پاؤنڈ ملے۔ بہت سارے لوگوں نے محض اپنے شوق کی تسکین کے لیے کام کیا۔ نٹال نے اپنی زیادہ تر دریافتیں لیور پول کے باغوں کو دے دیں۔ آخرکار اسے ہارورڈ کے باغ کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور اس نے Genera of North American Plants نامی انسائیکلوپیڈیا لکھا۔
اور یہ سب تو محض پودے تھے۔ جانوروں کے بارے لوگ الگ دیوانے تھے، چاہے وہ کنگرو ہوں، کیوی، ریکون، باب کیٹ، مچھر یا کوئی بھی اور جانور۔ دنیا عجیب و غریب جانداروں سے بھری ہوئی ہے۔
ان تمام نئے جانوروں اور پودوں کو ترتیب دینے، ان کا مطالعہ کرنے اور تحقیق کرنے پر بھی وقت لگتا رہا۔ دنیا بھر میں ایسے نظام کی شدت سے کمی محسوس کی جاتی رہی کہ جو اس کام میں مدد کرتا۔ خوش قسمتی سے سوئیڈن سے ایسا ہی ایک انسان اس کام کے لیے تیار تھا۔
اس کا نام کارل لِنّے تھا۔ تاہم اب اسے عرفِ عام میں کارلوس لنیاؤس کہا جاتا ہے۔ اس کی پیدائش 1707 میں جنوبی سوئیڈن کے گاؤں روشالٹ میں ہوئی۔ اس کا باپ غریب مگر محنتی مذہبی رہنما تھا۔ تاہم کارلوس اتنا نالائق طالب علم تھا کہ اس کے باپ نے اسے دھمکی دی کہ وہ اسے موچی کے پاس کام سکھانے کو بٹھا دے گا۔ اس دھمکی نے کام دکھایا اور اس نے پڑھائی میں خوب دل لگایا۔ اس نے سوئیڈن اور ہالینڈ میں طب کی تعلیم حاصل کی۔ پھر اس کی دلچسپی فطرت کی طرف ہو گئی۔ 1730 کی دہائی، جب وہ ابھی تیس سال کا بھی نہیں ہوا تھا، اس نے پودوں اور جانوروں کے بارے فہرستیں بنانا شروع کر دیں اور اس نے اپنا ایک نیا نظام بنایا۔ بتدریج اس کی شہرت ہونے لگی۔
شاید ہی کوئی اور انسان اپنی شہرت سے اتنا خوش ہوا ہو۔ زیادہ تر وقت وہ اپنی تعریفیں لکھتا کہ اس سے زیادہ ماہرِ نباتات اور ماہرِ حیوانات آج تک پیدا نہیں ہوا اور یہ بھی کہ اس کا درجہ بندی کا نظام دنیا کا بہترین نظام تھا۔ ایک بار تو از راہ انکساری، اس نے اپنی قبر کے کتبے پر ماہرینِ نباتات کا شہزادہ لکھوانے کی تجویز بھی دی۔ جس نے بھی ان باتوں پر اعتراض کیا، ان کے نام سے گھاس اور فضول جڑی بوٹیاں منسوب ہو گئیں۔
لنیاؤس کی سب سے عجیب خاصیت جنسیت سے اس کا شغف تھا۔ پودوں کے مختلف حصوں اور زنانہ جنسی اعضا میں تعلق دریافت کرنا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ بے شمار پودوں کو اس نے عورتوں اور مردوں کے جنسی اعضاء سے منسوب کیا۔ اس نے پودوں کے جنسی اعضا کو انسانی جنسی خواہشات سے وابستہ نام دیے جن میں بکثرت مباشرت، بنجر طوائف اور بسترِ سہاگ وغیرہ عام ہیں۔ ایک بار موسمِ بہار میں اس نے یہ قطعہ لکھا:
پودوں پر بھی محبت کا موسم آتا ہے۔ نر اور مادہ اپنے اپنے جنسی اعضا کو دکھاتے ہیں کہ کون نر ہے اور کون مادہ۔ پھولوں کی پتیاں بسترِ سہاگ کا کام دیتی ہیں جو خالق نے اتنی خوبصورتی سے جوڑی ہیں، اس پر جیسے پردے لگے ہوں اور اس پر عطر چھڑکا ہوا ہو اور وہاں نر اور مادہ اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتے ہوں۔ جب یہ بستر تیار ہوتا ہے تو دلہا اپنی مادہ کے سامنے سر بسجود ہو جاتا ہے۔
اس نے پودوں کے ایک جنرا کو Clitoria کا نام دیا۔ انہی عادتوں کی وجہ سے لوگ اسے عجیب سمجھتے تھے۔ لیکن اس کا درجہ بندی کا نظام بہت عمدہ تھا۔ لیناؤس سے قبل درجہ بندی میں ایسے ایسے نام دیے جاتے تھے جو انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہوتے تھے۔ عام چیری کو Physalis amno ramosissime ramis angulosis glabris foliis dentoserratis کہا جاتا تھا۔ لیناؤس نے اسے Physalis angulata کا نام دیا۔ اس دور کے ماہرینِ نباتات اس بات پر مشکوک ہوتے تھے کہ آیا Rosa sylvestris alba cum rubore, folio glabro اور Rosa sylvestris inodora seu canina ایک ہی پودے کے دو نام ہیں۔ لیناؤس نے اسے Rosa canina کا نام دیا۔ تاہم ان ناموں کو قابلِ قبول بنانے کی خاطر ان کا سادہ ہونا کافی نہیں تھا بلکہ ان کو عام فہم بھی ہونا چاہیے تھا کہ نام سے ہی اس پودے کی نوع کا علم ہو جائے۔
لینائین نظام اتنا عمدہ ہے کہ اس کا متبادل سوچنا بھی ممکن نہیں۔ مگر اس سے قبل درجہ بندی اتنی مشکل اور پیچیدہ تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ جانوروں کو کبھی ان کے جنگلی یا پالتو ہونے کے اعتبار سے تو کبھی بری یا بحری، بڑے یا چھوٹے، خوبصورت اور شریف یا بیکار ہونے کے حوالے سے درجہ بندی کی جاتی تھی۔ بفن نے جانوروں کو انسانوں کو پہنچنے والے فائدے کے اعتبار سے تقسیم کیا۔ جسمانی ساخت پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ لیناؤس نے اپنا مقصدِ حیات ہی اس طرح کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے جانوروں کو ان کی جسمانی ساخت کے اعتبار سے تقسیم کرنا بنا لیا۔ درجہ بندی کی سائنس اس کے بعد سے ہمیشہ بہتری کی جانب مائل ہے۔
اس سارے عمل پر بہت وقت لگا۔ لیناؤس کے شائع کردہ پہلی جلد 1735 میں چھپی اور اس میں محض 14 صفحات تھے۔ لیناؤس کی زندگی میں چھپنے والا آخری یعنی 12ویں ایڈیشن میں 3 کتب تھیں جو 2٫300 صفحات پر مشتمل تھیں اور ان میں پودوں اور جانوروں کی کل 13٫000 اقسام کے بارے بتایا گیا تھا۔ اس سے کافی عرصہ قبل جان رائے کی تین جلدوں پر مشتمل کتاب Historia Generalis Plantarum برطانیہ میں چھپی اور اس میں محض پودوں کی 18٫625 انواع تھیں۔ تاہم لیناؤس کے کام کی اہمیت ترتیب، یکسانیت، سادگی اور خوبصورتی کی وجہ سے تھی۔ اس کے 1730 کی دہائی کے کام کو 1760 کی دہائی میں جا کر مقبولیت ملی اور اسے برطانیہ میں ماہرینِ نباتات کا جدِ امجد مانا جانے لگا۔ شاید اسی وجہ سے اسے سٹاک ہوم کی نسبت لندن میں زیادہ پذیرائی ملی اور وہاں لینائن سوسائٹی وجود میں آئی۔
تاہم لیناؤس کے کام میں اپنی خامیاں تھیں۔ اس نے دیومالائی جانوروں اور فرضی انسانوں کے لیے کافی جگہ چھوڑ دی تھی۔ اس نے ان مخلوقات کے بارے ماہی گیروں اور جہاز رانوں سے داستانیں سنی تھیں۔ مثلاً اس نے Homo ferus کا بتایا جو ابھی تک چاروں ہاتھ پیر پر چلتا ہے اور بولنا نہیں سیکھا، Homo caudatus یعنی دم والا انسان۔ تاہم یاد رہے کہ اس دور میں یہ باتیں عام تھیں۔ جوزف بینکس جیسا ماہر بھی ان داستانوں پر یقین رکھتا تھا کہ سکاٹ لینڈ کے ساحل سے پرے جل پریاں دیکھی گئی ہیں۔ تاہم لیناؤس کی خوبیاں اس کی ان خامیوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ دیگر کامیابیوں کے علاوہ اس نے سب سے پہلے محسوس کیا کہ وہیل کا تعلق گائے، چوہوں اور دیگر بری جانوروں سے ہے جو quadrupedia نامی آرڈر سے متعلق ہیں (اسے بعد میں ممالیہ کہا گیا)۔ اس سے قبل کسی نے یہ بات نہیں محسوس کی تھی۔
شروع میں لیناؤس نے سوچا کہ ہر پودے کو اس کی جینس کا نام اور ایک نمبر مثلاً Convolvulus 1, Convolvulus 2 وغیرہ کہا جائے۔ مگر اس نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ اس سے زیادہ فائدہ مند دو حصوں والا نام رہے گا۔ یہی اصول اب تک چلا آ رہا ہے۔ ابتدا میں اس کا ارادہ تھا کہ قدرت میں پائی جانے والی ہر چیز چاہے وہ بیماری ہو، چٹانیں، معدنیات یا ہوا وغیرہ، ہر چیز کو دو حصوں والا نام دیا جائے۔ تاہم اس نظام کو عام قبولیت نہ مل پائی۔ لیناؤس کے دیے ہوئے بعض فحش ناموں سے کچھ لوگ بہت پریشان ہوتے تھے حالانکہ اس سے قبل پودوں اور جانوروں کے بہت فحش نام ملنا عام سی بات تھی۔ Dandelion کو بہت طویل عرصے تک Pissabed کہا جاتا رہا کہ وہ پیشاب آور خاصیت کا حامل ہے۔ چند دیگر نام mare’s fart, naked ladies, twitch-ballock, hound’s piss, open arse اور bum-towl تھے۔ ابھی بھی شاید ایک دو ایسے نام انگریزی زبان کا حصہ ہیں۔ Maidenhair نامی موس نہ تو زلفوں سے مشابہہ ہے اور نہ ہی کسی دوشیزہ سے۔ تاہم یہ بات عام سمجھی جاتی تھی کہ جانداروں کو نئے سرے سے نام دیے جانے چاہیئں۔ تاہم اب لوگوں کی مایوسی دیکھیے کہ اس کام کا بیڑا خود ساختہ ماہرینِ نباتات کے شہزادے نے اٹھا لیا تھا جس کی اپنی کتب میں Clitoria, Fornicata اور Vulva جیسے نام عام پائے جاتے تھے۔
گزرتے ہوئے برسوں کے ساتھ ساتھ ایسے نام چپکے سے بدلے جاتے رہے (بعض نام ابھی تک باقی ہیں) اور دیگر ضروری تبدیلیاں بھی متعارف کرائی جاتی رہیں تاکہ کام آگے بڑھتا رہے۔ اس میں بہتری کی خاطر مزید تقسیم متعارف کرائی جاتی رہیں۔ جینس اور انواع کی اصطلاحات لیناؤس سے سو برس قبل سے چل رہی تھیں اور 1750 کی دہائی میں آرڈر، کلاس اور فیملی کے تصورات پیش ہوئے۔ فائلم کا ذکر پہلی بار 1876 میں ہوا اور فیملی اور آرڈر کو انیسویں صدی کے اوائل تک ایک دوسرے کے مترادف سمجھا جاتا رہا۔ ماہرینِ حیوانات جہاں فیملی کا لفظ استعمال کرتے، وہاں ماہرینِ نباتات اس چیز کو آرڈر (انسان کو ڈومین یوکاریا، کنگڈم انیمالیا، فائلم کارڈیٹا، سب فائلم ورٹریبریٹا، کلاس ممالیا، آرڈر پرائیمیٹ، فیملی ہومینائڈ، جینس ہومو، سپیشیز یا نوع سیپی اینز میں رکھا جاتا ہے) کہتے۔
لیناؤس نے عالمِ حیوانات کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جو میمالیہ، خزندے، پرندے، مچھلیاں، حشرات اور کیڑے کہلائے۔ جو جانور پہلی پانچ میں سے کسی شاخ پر پورا نہ آتا، اسے کیڑوں میں ڈال دیتے۔ ابتدا سے ہی بات واضح ہو گئی کہ یہ نظام ٹھیک نہیں کیونکہ لابسٹر اور جھینگوں کو کیڑے کے درجے پر رکھا گیا جو درست نہیں تھا۔ اس لیے کئی نئی شاخیں مثلاً مولسک اور کرسٹیشن وغیرہ متعارف کرائی گئیں۔ بدقسمتی سے اسے ہر جگہ قبولیت نہ مل سکی۔ جب 1842 میں برطانویوں نے Stricklandian Code اپنایا تو فرانسیسیوں نے اس کے مدِمقابل اپنے نئے اصول بنا لیے۔ اس دوران American Ornithological Society نے بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر Systema Naturae کے 1758 والے ایڈیشن کو نام دینے کے لیے استعمال کیا جبکہ باقی پوری دنیا میں اس کا 1766 والا ایڈیشن استعمال ہوا۔ سو 18ویں صدی میں امریکی پرندے اور یورپی پرندے الگ الگ شاخوں میں منقسم رہے۔ 1902 میں ماہرینِ حیوانات کی بین الاقوامی کانگریس میں یکساں اصولوں پر اتفاق شروع ہوا۔
ٹیکسانومی کو بعض اوقات سائنس کہا جاتا ہے اور بعض اوقات آرٹ، جبکہ حقیقت میں یہ محض میدانِ جنگ ہے۔ آج بھی اس نظام میں اتنی بے ترتیبی ہے کہ عام لوگوں کو اس کا بالکل بھی اندازہ نہیں۔ مثال کے طور پر فائلم کو دیکھیے جو جانداروں کی بنیادی جسمانی ساخت کی وضاحت کرتا ہے۔ چند فائلا ہی واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر مولسک (سیپیاں اور گھونگھے)، آرتھرو پاڈ (حشرات اور کرسٹیشن) اور کارڈیٹس (تمام جاندار جن میں ریڑھ کی ہڈی یا اس سے ملتا جلتا عضو پایا جاتا ہو)۔ اس سے آگے محض الجھنیں شروع ہو جاتی ہیں۔ فائلم بنیادی شاخوں میں سے ایک ہے اور اس پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا کہ کل کتنے فائلم ہیں۔ زیادہ تر ماہرین کے خیال میں کل 30 فائلم ہیں تو بعض کے خیال میں بیس اور بعض کے خیال میں 89۔
کتابی دنیا سے نکل کر عملی دنیا میں مسائل اس سے بھی زیادہ ہیں۔ گھاس کی ایک قسم کے بارے ابھی تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا یہ Aegilops incurva ہے یا Aegilops ovata۔ اگرچہ یہ بات بہت معمولی سی لگتی ہے مگر ماہرین میں یہ بحث لڑائی تک پہنچ سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گھاس کی کل 5٫000 اقسام ہیں اور ان میں سے بہت ساری ایسی ہیں جو ماہرین کو بھی بالکل ایک جیسی لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان میں سے بعض اقسام تو 20 مرتبہ دریافت ہو کر الگ الگ ناموں سے مشہور ہو چکی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی قسم ہو جو کم از کم دو بار دریافت ہو کر الگ الگ ناموں سے مشہور نہ ہو چکی ہو۔ دو جلدوں والے Manual of the Grasses of the United States کے دو سو صفحات پر باریک لکھائی میں ہر گھاس کے لیے مستعمل تمام نام دیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ محض ایک ملک کی گھاس کی اقسام ہیں۔
اس طرح کے اختلافات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی طور پر International Association of Plant Taxonomy بنائی گئی ہے جو حتمی رائے دیتی ہے۔ وقتاً فوقتاً اس کی جانب سے فیصلے جاری ہوتے رہتے ہیں لیکن ان پر بھی بحث ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ فیصلے بدلے بھی جا سکتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں Chrysanthemum کو اسی نام کے جینس سے نکال کر Dendranthema میں ڈال دیا گیا جو سائنسی اعتبار سے بالکل ٹھیک فیصلہ تھا۔
Chrysanthemum اگانے والے افراد بہت زیادہ ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بہت احتجاج کیا ۔ اگرچہ درجہ بندی کے اصول بہت سخت ہوتے ہیں مگر 1995 میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اس طرح کے واقعات بکثرت ہوتے رہتے ہیں۔ چارلس ایلیٹ نے اپنی کتاب The Potting-Shed Papers میں ایسے واقعات کا دلچسپ انداز میں تذکرہ کیا ہے۔
اس طرح کے جھگڑے اور نئے سرے سے ترتیب دینے کے کام پودوں تک محدود نہیں بلکہ ہر قسم کے جانداروں کے ساتھ یہی مسائل پیش آتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں معمولی سا بھی اندازہ نہیں ہے کہ اس وقت دنیا میں کل کتنی اقسام کے جاندار پائے جاتے ہیں۔ اندازے 30 لاکھ سے 20 کروڑ تک ہو سکتے ہیں۔ The Economist کے اندازے کے مطابق شاید کرہ ارض کے 97 فیصد حیوانات اور نباتات ابھی تک دریافت نہیں ہو پائے۔
جن جانوروں کے بارے ہمیں معلوم ہے، ان میں سے 100 میں سے 99 ایسے ہیں کہ ان کے بارے معمولی تفصیل، چند نمونے جو مختلف عجائب گھروں میں ہیں اور سائنسی مجلوں میں چھپے چند مضامین تک ہماری معلومات محدود ہیں۔ ولسن نے اپنی کتاب The Diversity of Life میں لکھا ہے کہ تمام تر نباتات، حشرات، خوردبینی جاندار، الجی وغیرہ، سب کو ملا کر ان کی معلوم انواع 14 لاکھ بنتی ہیں۔ بعض سائنس دان اسے 15 سے 18 لاکھ تک مانتے ہیں۔ تاہم ہر جگہ واضح لکھا ہوتا ہے کہ یہ محض ایک اندازہ ہے۔ چونکہ ایسی معلومات کسی ایک جگہ نہیں جمع ہوتیں، اس لیے اسے ثابت کرنا ممکن نہیں۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمیں کیا معلوم ہے۔
اب بظاہر یہ بات معقول لگتی ہے کہ آپ ہر شعبے کے ماہر کے پاس جائیں اور ان سے ان کے شعبے میں موجود انواع کی تعداد معلوم کرتے جائیں اور اس طرح کل تعداد حاصل ہو جائے گی۔ بہت سے لوگوں نے ایسا کیا بھی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی دو افراد اس تحقیق کے بعد ایک نتیجے پر نہیں پہنچتے۔ بعض ذرائع کے مطابق فنجائی کی 70٫000 انواع ہیں تو بعض کے خیال میں 1٫00٫000۔ حشرات میں یہ تعداد 7٫50٫000 سے 9٫50٫000 مانی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ معلوم انواع کی بات ہو رہی ہے۔ پودوں کی انواع کا اندازہ 2٫48٫000 سے 2٫65٫000 کے درمیان کا ہے۔ دونوں کا فرق براعظم شمالی امریکہ کے پھولدار پودوں کی کل تعداد کے بیس گنا سے بھی زیادہ ہے۔
ترتیب دینا کوئی آسان کام نہیں۔ 1960 کی دہائی میں آسٹریلوی نیشنل یونیورسٹی کے سائنس دان کولن گرووز نے سوچا کہ پرائمیٹس کی 250 سے زیادہ اقسام کو ترتیب دی جائے۔ اکثر پتہ چلا کہ ایک نوع کو دو یا دو سے زیادہ مرتبہ ‘دریافت‘ کیا گیا ہے۔ اس سارے مسئلے کو حل کرنے پر اسے 40 سال لگے۔ یہ جانوروں کے ایک ایسے گروہ کی بات ہو رہی ہے جو بہت چھوٹا ہے اور بہ آسانی شناخت ہو سکتا ہے۔ اب سوچیے کہ اگر یہی کام لائکن کی 20٫000 انواع، مولسک کی 50٫000 انواع یا بیٹلوں کی 4٫00٫000 سے زیادہ انواع سے متعلق ہو تو اس پر کتنا وقت اور کتنی محنت لگے گی۔
یہ بات تو یقینی ہے کہ اس دنیا میں جانداروں کی بے شمار اقسام موجود ہیں، مگر ان کی تعداد کے بارے ہم محض اپنے اپنے تخیل کی بنیاد پر اندازہ لگا سکتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں سمتھسونین انسٹی ٹیوٹ کے ٹیری اروِن نے پانامہ کے برساتی جنگل کے صرف 19 درختوں کو کرم کُش ادویہ سے نہلایا اور پھر ان درختوں کے پتوں سے گرنے والے تمام حشرات اور کیڑوں کو جمع کیا (اس نے یہ تجربہ بہت مرتبہ دہرایا تاکہ موسمی مہاجر کیڑوں اور حشرات کا درست اندازہ ہو سکے)۔ ان جمع شدہ جانوروں میں 1٫200 اقسام کے صرف بیٹل تھے۔ اب سوچیے کہ اس جنگل میں موجود درختوں کی تعداد اور اسی جیسے دنیا بھر کے دیگر جنگلات اور ان میں موجود بیٹلز کی انواع کتنی ہوں گی۔ ان متغیرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس نے دنیا میں حشرات کی کل 3 کروڑ اقسام کا اندازہ لگایا۔ بعد میں اس نے خود تسلیم کیا کہ یہ اندازہ بہت محدود تھا۔ اسی طرح کے طریقہ کار سے دیگر محققین کے اندازے ایک کروڑ تیس لاکھ، 8 کروڑ اور 10 کروڑ تک جاتے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق، پوری دنیا میں اس وقت کل 10٫000 ٹیکسانومسٹ کام کر رہے ہیں۔ تاہم سوچیے کہ ان کے کرنے کا کام کتنا زیادہ ہے۔ جرنل میں یہ بھی لکھا تھا کہ ایک نئی نوع کی درجہ بندی پر لگنے والے اخراجات (1٫250 پاؤنڈ) اور کاغذی کاروائی کی وجہ سے ہر سال محض 15٫000 نئی انواع رجسٹر ہو پاتی ہیں۔
‘یہ حیاتیاتی تغیر کا مسئلہ نہیں، ٹیکسانومسٹ کی تعداد کا مسئلہ ہے‘، بیلجین نژاد اور کینیا کے نیروبی کے قومی عجائب گھر میں غیر فقاریہ جانوروں کے شعبے کے سربراہ کوئن مائس نے مایوسی سے کہا۔ میری ملاقات اس سے 2002 کے موسمِ خزاں میں ہوئی۔ اس نے بتایا کہ ‘پورے افریقہ میں ایک بھی تربیت یافتہ ٹیکسانومسٹ نہیں، آئیوری کوسٹ میں ایک تھا، مگر شاید وہ ریٹائر ہو چکا ہے۔‘ ایک ٹیکسانومسٹ کی تربیت میں لگ بھگ دس سال لگتے ہیں لیکن کوئی بھی افریقہ نہیں آنا چاہتا۔ وہ خود سال کے اختتام پر واپس جا رہا تھا کہ اس کے سات سالہ معاہدے کی تجدید نہیں ہو پائی کہ حکومت کے پاس پیسے نہیں تھے۔
برطانوی حیاتات دان جی ایچ گاڈفری نے نیچر جرنل کو بتایا کہ ٹیکسانومسٹ کو مستقل بنیادوں پر وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ نتیجتاً ‘نئی انواع اِدھر اُدھر چھپتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے پہلے سے موجود انواع کے لیے کوئی نئی درجہ بندی ہونا ممکن نہیں (زوآلوجیکل درجہ بندی کے لیے اصل اصطلاح فائلم یا جینس استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع ٹیکسا ہے)۔‘ ماہرین کا زیادہ تر وقت نئے جانوروں کی درجہ بندی کی بجائے پہلے سے موجود جانوروں کی غلط درجہ بندی کی درستگی پر لگتا ہے۔ ‘زیادہ تر ماہرین کی زندگی کا بڑا حصہ 18ویں صدی کے ماہرین کی اغلاط کو درست کرنے اور دوسرے عجائب گھروں میں موجود جانوروں کے نمونوں کی تلاش میں گزر جاتا ہے جبکہ یہ نمونے عموماً بہت بری حالت میں ہوتے ہیں۔‘ گاڈفری کو اس بات کا شکوہ ہے کہ اس سلسلے میں انٹرنیٹ کو بالکل ہی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ٹیکسانومی کا سارا کام ہی کاغذوں پر چل رہا ہے۔
اس سلسلے کو عہدِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی نیت سے کیون کیلی نے 2001 میں All Species Foundation کی بنیاد رکھی جس کا مقصد تمام جانداروں کو ایک مرکزی ڈیٹا بیس میں محفوظ کرنا تھا۔ اس منصوبے کی لاگت کا اندازہ 1.3 ارب سے 30 ارب پاؤنڈ کےدرمیان لگایا گیا ہے۔ تاہم 2002 کے موسمِ بہار میں ادارے کے پاس محض 7٫50٫000 پاؤنڈ جتنی رقم اور چار کُل وقتی ملازمین تھے۔
جیسا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں، حشرات کی لگ بھگ ایک لاکھ انواع ابھی دریافت ہونی باقی ہیں۔ جس رفتار سے انہیں دریافت کیا جا رہا ہے، اس حساب سے تقریباً 15٫000 سال میں ہم تمام حشرات کو دریافت کر لیں گے اور باقی جانوروں پر اسی حساب سے مزید وقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارا علم اتنا محدود کیوں ہے؟ اس کی بے شمار وجوہات ہیں۔ تاہم ہم یہاں ان میں سے چند اہم ترین وجوہات کو دیکھتے ہیں:
زیادہ تر جاندار بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور آسانی سے نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کوئی بری بات نہیں۔ اگر آپ کو پتہ چلے کہ آپ کے بستر پر کم از کم 20 لاکھ چھوٹے چھوٹے پسو موجود ہیں تو شاید آپ اس پر دوبارہ نہ سو سکیں۔ جونہی آپ سوتے ہیں تو یہ پسو آپ کے پسینے اور جلد کے جھڑ جانے والے مردہ حصوں سے اپنا پیٹ بھرنے نکل آتے ہیں۔ آپ کے تکیے پر ان کی اوسط تعداد 40٫000 ہے۔ اس پر حیران نہ ہوں کہ ہمارے بستر کی چادر کی ایک تار ان پسوؤں کے لیے بہت موٹے رسے کے برابر ہوتی ہے۔ ‘اگر آپ کا تکیہ چھ سال پرانا ہے تو اس کے وزن کا دسواں حصہ آپ کی کھال کے مردہ حصوں، زندہ پسو، مردہ پسو اور ان کے فضلے پر مشتمل ہوتا ہے‘، برٹش میڈیکل انٹامالوجیکل سینٹر کے ڈاکٹر جان مانڈر نے بتایا (یہ تو وہ پسو ہیں جو آپ کے ‘ذاتی‘ ہیں۔ سوچیے کہ جب آپ کسی ہوٹل میں تکیے پر اپنا سر رکھتے ہیں تو۔ ۔ ۔ )(حفظانِ صحت کے بعض معاملات میں ہم مزید پیچھے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مانڈر کا خیال ہے کہ جوں جوں کپڑے دھونے کی مشینیں کم درجہ حرارت والے پاؤڈر استعمال کرتی جا رہی ہیں، ویسے ویسے پسو پھیلتے جا رہے ہیں۔ اس نے لکھا، ‘جب آپ کپڑوں کو کم گرم پانی سے دھوتے ہیں تو اس کا نتیجہ محض اچھی طرح دھلی ہوئی جوئیں ہوگا‘)۔ یہ پسو ازل سے ہمارے ساتھ ہیں مگر ہمیں ان کی موجودگی کا پہلی بار علم 1965 میں ہوا۔
اگر پسو جیسی ہم سے قریب مخلوق اتنا عرصہ ہماری نظروں سے چھپی رہی تو سوچیے کہ باقی دنیا میں ایسے جانداروں کی کیا تعداد ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی مخلوقات کی بھاری اکثریت کا ہمیں ابھی تک علم نہیں۔ آپ کسی بھی جنگل میں جائیں اور مٹھی بھر مٹی کھودیں تو اس میں 10 ارب بیکٹیریا ہوں گے جن کی اکثریت سائنس کے لیے نئی ہوگی۔ اسی مٹی میں تقریباً 10 لاکھ خمیر، 2 لاکھ فنجائی یعنی پھپھوندیاں، 10٫000 پروٹوزوا (امیبا جیسے جاندار) کے علاوہ بے شمار خوردبینی کیڑے بھی ہوں گے۔ ان کی بھاری اکثریت بھی سائنس کے لیے نامعلوم ہوگی۔
اس وقت دنیا بھر میں بیکٹیریا کے موضوع پر سب سے جامع کتاب کا نام Bergey’s Manual of Systematic Bacteriology ہے جس میں بیکٹیریا کی 4٫000 اقسام پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ 1980 کی دہائی میں دو نارویجئن سائنس دانوں جسٹین گوکسوئر اور وگدیس ٹورسوِک نے اپنی لیبارٹری کے پاس ساحل سے ایک گرام مٹی کا نمونہ لیا اور اس میں موجود بیکٹیریا کا احتیاط سے تجزیہ کیا۔ اس محض ایک گرام مٹی میں بیکٹیریا کی 4٫000 سے 5٫000 مختلف انواع تھیں۔ پھر انہوں نے چند کلومیٹر دور سے ایک اور جگہ سے ایک گرام مٹی نکالی اور اس میں پہلے سے مختلف 4٫000 سے 5٫000 نئی اقسام کے بیکٹیریا موجود تھے۔ ایڈورڈ او ولسن نے تبصرہ کیا، ‘اگر ناروے کے دو مقامات پر چٹکی بھر مٹی سے 9٫000 نئی انواع مل سکتی ہیں تو دنیا بھر کے علاقوں سے ملنے والے بیکٹیریا کی تعداد کیا ہوگی‘؟ ایک اندازے کے مطابق 40 کروڑ انواع۔
ہم درست جگہ تلاش نہیں کرتے۔ The Diversity of Life میں ولسن نے لکھا ہے کہ کس طرح ایک ماہرِ نباتات چند دن بورنیو کے جنگلات میں دس ہیکٹر رقبے میں پھرتا رہا اور اس نے 1٫000 اقسام کے نئے پھولدار پودے دریافت کر لیے۔ یہ تعدادشمالی امریکہ میں پائے جانے والے تمام تر پھولدار پودوں سے زیادہ ہے۔ ان کی تلاش کوئی مشکل کام نہیں تھا، مگر کسی نے اس جگہ تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اسی طرح کوئن مائس نے بتایا کہ ایک بار وہ ایک بادلی جنگل (کینیا میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر پائے جانے والے جنگلات) میں گیا تو نصف گھنٹے محض پھرتے رہنے کے بعد اس نے 4 نئے کنکھجورے دیکھے جن میں سے تین کا تعلق ایک نئے جنرا سے تھا۔ اس کے علاوہ ایک نئی قسم کا درخت دیکھا جو بہت بڑا تھا۔ بادلی جنگلات بہت اونچائی پر ہوتے ہیں اور اکثر وہ لاکھوں سالوں سے الگ تھلگ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ‘یہاں حیاتیات کے لیے بہترین ماحول ہوتا ہے مگر شاید ہی کبھی کسی نے توجہ دی ہو۔‘ اس نے بتایا۔
استوائی برساتی جنگل کل زمینی رقبے کا محض 6 فیصد ہیں مگر یہاں جانوروں کی کل تعداد کا نصف اور پھولدار پودوں کی دو تہائی تعداد پائی جاتی ہے۔ مگر جنگلی حیات کی بہت بڑی تعداد ہم سے پوشیدہ ہے کہ محض چند محققین ہی جانے کی زحمت کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت ہمارے لیے بہت قیمتی ثابت ہوسکتی ہے۔ پودوں میں سے 99 فیصد کی ادویاتی خصوصیات کا کبھی جائزہ نہیں لیا گیا۔ چونکہ پودے شکاریوں سے بچ کر بھاگ نہیں سکتے، اس لیے یہ اپنے دفاع کے لیے مختلف کیمیائی مواد پیدا کرتے ہیں۔ آج بھی ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات کی ایک چوتھائی محض 40 پودوں سے کشید کی جاتی ہیں۔ مزید 16 فیصد جانوروں اور خوردبینی جانداروں سے آتی ہیں۔ اب سوچیے کہ برساتی جنگلات کے کم ہوتے ہوئے ہر ہیکٹر کے ساتھ طبی اہمیت کے اعتبار سے کتنی چیزیں غائب ہو رہی ہیں۔ کیمیا میں مختلف کیمیائی مرکبات بنانے کی تکنیک کی مدد سے اس وقت کل 40٫000 کیمیائی مرکبات لیبارٹری میں بنائے جا سکتے ہیں۔ تاہم ان کی اکثریت اتفاقی اور بیکار ہوتی ہے۔ دوسری جانب فطرت میں پایا جانے والا ہر کیمیائی مرکب جس عمل سے گزر چکا ہے، اسے The Economist کے مطابق ‘ساڑھے تین ارب سال کی ارتقا پر مشتمل بہترین چھلنی‘ کہا جا سکتا ہے۔
نامعلوم حیات کی تلاش کے لیے آپ کو لازمی نہیں کہ بہت دور دراز جانا پڑے۔ رچرڈ فورٹی نے اپنی کتاب Life: An Unauthorised Biography میں لکھا ہے کہ کیسے ایک قدیم بیکٹیریا مقامی شراب خانے کی دیوار سے مل گیا تھا۔ اس دیوار پر بہت عرصے سے شرابی پیشاب کرتے آ رہے تھے۔
ماہرین کی کم تعداد۔ نئے جاندار جن کو دریافت کر کے مطالعہ کرنا اور پھر ان کو قلم بند کرنا ہو، ان کی تعداد کی نسبت یہ کام کرنے والے ماہرین کی تعداد بہت کم ہے۔ اب ذرا انتہائی سخت جان Bdelloid rotfers کی مثال دیکھیے۔ یہ خوردبینی جانور تقریباً ہر مشکل کا سامنا کر لیتے ہیں۔ جونہی حالات ناسازگار ہوتے ہیں تو یہ جانور سکڑ کر گول ہو جاتے ہیں اور اپنا میٹابولزم روک دیتے ہیں۔ اس کیفیت میں آپ انہیں ابلتے پانی میں ڈال دیں یا مطلق صفر درجے کے قریب تک لے جائیں (جہاں ایٹم بھی کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں)، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جونہی حالات سازگار ہوں گے تو یہ پھر سے متحرک ہو جائیں گے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ان کی تقریباً 500 (کچھ اندازوں کے مطابق 360) اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ تاہم ابھی یہ اندازہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ان کی کتنی مزید اقسام ابھی تک دریافت نہیں ہو پائیں۔ برسوں تک ان پر ہونے والا تمام تر کام ایک شوقیہ بندے کا تھا جو لندن سے تعلق رکھنے والا کلرک تھا جو ان جانوروں پر اپنے فارغ وقت میں توجہ دیتا تھا۔ اگر آپ ان جانوروں کے ماہرین کو دنیا بھر سے جمع کریں تو ان کی تعداد دس بارہ سے زیادہ نہیں ہوگی۔
فنجائی جیسی بکثرت اور عام مخلوق پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ فنجائی ہر جگہ اور بہت ساری شکلوں میں پائی جاتی ہے، کھمبیاں، ککرمتے، پھپھوندی، خمیر وغیرہ سبھی فنجائی ہیں۔ ان کے مجموعی حجم کے بارے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ایک ہیکٹر جتنے رقبے پر موجود گھاس کے میدان میں موجود تمام تر فنجائی جمع کی جائے تو اس کا وزن 2٫800 کلو بنے گا۔ یہ کوئی معمولی جاندار نہیں ہیں۔ فنجائی کے بنا آلو کی بیماری، ڈچ ایلم بیماری، ایتھلیٹس فٹ جیسی بیماریاں تو غائب ہو جائیں گی مگر یاد رہے کہ دہی، بیئر اور پنیر بھی گم ہو جائیں گے۔ اب تک فنجائی کی لگ بھگ 70٫000 انواع دریافت کی جا چکی ہیں لیکن اندازہ ہے کہ ان کی اصل تعداد 18 لاکھ کے لگ بھگ ہو گی۔ فنجائی کے ماہرین کی بہت بڑی تعداد صنعتوں میں کام کرتی ہے جہاں وہ پنیر اور دہی بنانے کا کام بخوبی سرانجام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق میں بہت کم ماہرین پائے جاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ فنجائی کی جتنی اقسام ابھی دریافت ہونی ہیں، اس تعداد سے کہیں کم ان پر تحقیق کر رہی ہے۔
دنیا بہت وسیع ہے۔ ہوائی جہاز اور دیگر ذرائع نقل و حمل کی وجہ سے ہمیں دنیا بہت مختصر لگتی ہے لیکن زمین پر رہتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت ہی وسیع ہے۔ محققین کو زمین پر رہتے ہوئے اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ زرافے کا قریبی رشتہ دار اوکاپی ہے، زائر میں پایا جاتا ہے اور وہاں کے جنگلات میں اس کی تعداد کم از کم 30٫000 ہے، کے بارے 19ویں صدی کے وسط میں جا کر پتہ چلا۔ نیوزی لینڈ کا بہت بڑا اور نہ اڑ سکنے والا پرندہ تاکاہی کہلاتا ہے، کے بارے مانا جاتا تھا کہ وہ دو سو سال قبل ناپید ہو گیا تھا، نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے پر ابھی تک پایا جاتا ہے۔ 1995 میں برطانیہ اور فرانس کے سائنس دانوں کی ٹیم تبت گئی اور طوفان کی وجہ سے اپنا راستہ بھول کر ایک دور افتادہ وادی میں پہنچ گئی۔ اس جگہ انہوں نے گھوڑوں کی وہ نسل دیکھی جس کے بارے محض قبل از تاریخ غاروں میں بنی تصاویر سے پتہ چلتا تھا۔ وہاں کے لوگوں کو یہ جان کر بہت عجیب لگا کہ باقی دنیا میں ان کے گھوڑوں کو اتنا نایاب سمجھا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے کہیں زیادہ بڑے انکشافات ہمارے منتظر ہیں۔ The Economist نے 1995 میں لکھا کہ ‘ایک برطانوی سائنس دان کے خیال میں ایک میگاتھیرم نامی جانور، جو سلاتھ نسل سے تعلق رکھتا ہوگا اور جس کی اونچائی شاید زرافے سے بھی زیادہ ہو، شاید ایمیزن کے جنگل میں ہماری نظروں سے اوجھل ہو۔‘ اگرچہ اس جانور کے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں مگر اصولی طور پر اس کے وجود سے تبھی انکار کیا جا سکتا ہے جب اس جنگل کا چپہ چپہ چھان مارا جائے۔ ابھی اس کام میں بہت عرصہ لگے گا۔
اگر ہم ہزاروں کارکنوں کو تربیت دے کر دنیا بھر کے کونے کونے میں بھیجیں بھی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی زندگی پائی جا سکتی ہے، وہاں پائی جاتی ہے ۔ زندگی کی غیر معمولی خوبی یہ ہے کہ یہ بہت حیران کن ہے۔ اس کی تمام شکلوں کو دیکھنے کے لیے آپ کو دنیا کے ہر گوشے میں جانا ہوگا، جنگل میں گرے پتوں کے ہر ڈھیر کی تلاشی لینی ہوگی، ریت اور مٹی کی بہت زیادہ مقدار چھاننی ہوگی، ہر جنگل میں جا کر بالائی سطح سے جاندار اکٹھے کرنے ہوں گے اور سمندروں کی تلاشی کے لیے کوئی طریقہ وضع کرنا ہوگا۔ اس کے باوجود بھی کہیں کہیں پورے ایکو سسٹم ہماری نظروں سے بچے رہ جائیں گے۔ 1980 کی دہائی میں کچھ شوقیہ مہم جوؤں نے رومانیہ کی ایک غار کا چکر لگایا جو بیرونی دنیا سے طویل عرصے سے کٹا ہوا تھا۔ اس جگہ انہیں حشرات کی 33 اقسام کے علاوہ دیگر جاندار بھی ملے جو تمام کے تمام اندھے اور بے رنگ تھے۔ تمام جاندار پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ ان کی زندگی کا دارومدار تالابوں کے کنارے پر موجود خوردبینی حیات پر تھا۔ اس خوردبینی حیات کا دارومدار گرم چشموں میں پائے جانے والے ہائیڈروجن سلفائیڈ پر تھا۔
اگرچہ ہمیں پہلی نظر میں تمام جانداروں کی تلاش کا کام انتہائی بیزار کن اور مشکل لگے گا لیکن یہ انتہائی دلچسپ بھی ہوگا۔ ہم جس سیارے پر رہتے ہیں، اس پر بے شمار عجائبات موجود ہیں۔
حیران کن بات دیکھیے کہ سائنس کی دنیا کے بے شمار افراد اپنی زندگیاں ایسے کاموں پر خرچ کرنے کو تیار ہیں کہ جنہیں شاید بہت کم لوگ سمجھ سکیں گے۔ سٹیفن نے گولڈ نے اپنے پسندیدہ سائنس دان ہنری ایڈورڈ کرافٹن کے بارے لکھا ہے کہ اس نے 1906 سے اپنی وفات 1956 تک کیسے پولی نیشیا کے گھونگھے کی ایک نسل کا مطالعہ جاری رکھا۔ بار بار ہر سال وہ ان بے شمار گھونگھوں کے خولوں کی پیمائش کرتا اور اس پیمائش کو آٹھویں کسر تک لکھتا۔ اس کے جدولوں کی ایک ایک سطر کئی ہفتوں کے مشاہدات اور حساب کتاب پر مشتمل ہوتی تھی۔
ایک اور اسی طرح کی مثال الفریڈ سی کینزی کی ہے جو 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں انسانی جنسیات پر تحقیق کی وجہ سے مشہور ہوا۔ جنسیات سے شغف سے قبل وہ ایک ماہرِ حشریات یعنی Entomologist تھا۔ ایک بار ایک دو سالہ مہم پر وہ 4٫000 کلومیٹر کے طویل پیدل سفر پر نکلا اور اس نے 3 لاکھ بھڑ جمع کیے۔ اس دوران اسے کتنے ڈنگ سہنے پڑے، تاریخ خاموش ہے۔
مجھے ایک بات پر ہمیشہ حیرت رہی ہے کہ تحقیق کا تسلسل کیسے چلتا رہتا ہے؟ جب میں نیچرل ہسٹری میوزیم سے نکلنے لگا تو میں نے رچرڈ فورٹی سے پوچھا کہ سائنس میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ایک بندے کے کام چھوڑنے یا مر جانے پر دوسرا اس کی جگہ لینے کو تیار ہوگا۔
فورٹی میری سادگی پر جی بھر کر ہنسا اور بولا، ‘ایسا نہیں ہوتا کہ ہر ماہر کا متبادل ہمارے پاس بیٹھا انتظار کر رہا ہو کہ اسے کب بلایا جاتا ہے۔ جب کوئی ماہر ریٹائر ہوتا ہے یا اس دنیا سے گزر جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ پورا عمل ہی رک جائے۔ بعض اوقات تو اس شعبے میں تحقیق بہت طویل عرصے تک رک جاتی ہے۔
‘شاید اسی وجہ سے آپ ایسے لوگوں کی بہت قدر کرتے ہیں کہ جو پودے کی ایک نوع پر 42 سال تک تحقیق کرتے ہیں، اگرچہ اس سے کچھ زیادہ فائدہ نہ بھی ہو‘؟
‘بے شک۔‘ فورٹی نے جواب دیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
24 خلیے​
ہماری ابتداء محض ایک خلیے سے ہوتی ہے۔ پہلا خلیہ تقسیم ہو کر دو بناتا ہے اور دو سے چار اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کل 47 تقسیم کے بعد ہمارے جسم میں خلیوں کی مجموعی تعداد 1,40,000 کھرب خلیے ہو جاتی ہے (بڑھوتری کے اس عمل میں بہت سارے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں اور یہ محض ایک اندازہ ہے۔ مختلف سائنس دان اسے مختلف مانتے ہیں۔ یہ والا ہندسہ ہم نے ساگان اور مارگولس کی کتاب ‘مائیکرو کاسموس’ سے لیا ہے) اور ہم بطور انسان متعارف ہوتے ہیں۔ ہر خلیہ بارآوری سے ہماری وفات تک بخوبی جانتا ہےکہ اس نے کیا کرنا ہے۔
آپ کے خلیے آپ کی ہر بات کو جانتے ہیں۔ انہیں آپ کے بارے آپ سے زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔ ہر خلیے میں آپ کے جینیاتی کوڈ کی مکمل نقل موجود ہوتی ہے جو ہدایتی کتابچے کا کام کرتی ہے۔ اسے نہ صرف یہ علم ہوتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے بلکہ یہ بھی کہ جسم کے دیگر حصے کیسے اور کیا کام کرتے ہیں۔ ساری زندگی میں آپ کو ایک بار بھی اپنے خلیوں کو یہ نہیں یاد کرانا پڑتا کہ ایڈینو سین ٹرائی فاسفیٹ کی مقدار پر نظر رکھے یا یہ کہ فرولک ایسڈ کی اضافی مقدار کہاں محفوظ کرنی ہے۔ یہ سارے کام آپ کے خلیے آپ کی خاطر کرتے ہیں۔
ہر خلیہ اپنی جگہ ایک عجوبہ ہے۔ انتہائی سادہ قسم کے خلیے بھی انسانی عقل سے ماوراء ہیں۔ انتہائی بنیادی قسم کے خمیر کے خلیے کو تیار کرنے کے لیے آپ کو بوئنگ 777 میں استعمال ہونے والے پرزوں کی تعداد کے برابر چیزوں کو انتہائی چھوٹی محض 5 مائیکران جتنی جگہ میں سکیڑ کر سمونا ہوگا۔ پھر کسی نہ کسی طرح اسے اپنی نسل آگے چلانے کو بھی مجبور کرنا پڑے گا۔
تاہم خمیر کے خلیے انسانی خلیوں کی نسبت کچھ بھی نہیں۔ انسانی خلیے نہ صرف انتہائی پیچیدہ بلکہ ان کے اندر ہونے والے کیمیائی تعاملات بھی انتہائی حیرت انگیز ہوتے ہیں۔
آپ کا جسم 10,000 کھرب آبادی والا ملک ہے جن میں سے ہر ایک خلیہ آپ کی بھلائی اور فلاح کے لیے ہمیشہ سرگرداں رہتا ہے۔ ان کے بغیر آپ نہ تو خوش ہو سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کی سوچ پیدا ہو سکتی ہے۔ انہی کی مدد سے آپ کھڑے ہوتے ہیں اور حرکت کرتے ہیں۔ جب آپ کھانا کھاتے ہیں تو کھانے سے متعلقہ غذائی اجزاء کو نکالنا، توانائی کی تقسیم اور فاضل مادوں کو خارج کرنے کا کام، غرض سکول میں حیاتیات کی کتاب میں موجود ہر کام یہی خلیے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب آپ کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے تو خلیے آپ کو بھوک کا احساس دلاتے ہیں اور کھانا کھانے کے بعد آپ کو احساس دلاتے ہیں کہ پیٹ بھر گیا ہے تاکہ آپ دوبارہ کھانا کھانا بھول نہ جائیں۔ آپ کے بالوں کی بڑھوتری، کانوں کو چکنا رکھنا یا جو بھی کام ہو، آپ کا دماغ مسلسل کرتا رہتا ہے۔ آپ کے جسم کا ہر گوشہ ان کی ذمہ داری ہے۔ جونہی خطرہ سامنے آئے تو یہی خلیے آپ کے دفاع کے لیے اسی وقت آگے بڑھتے ہیں۔ آپ کو بچانے کے لیے وہ اپنی قربانی دیتے ہیں اور روزانہ اربوں کی تعداد میں خلیے آپ کے لیے اپنی جان دیتے ہیں۔ پھر بھی آج تک آپ نے ان خلیوں کا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔ شاید ابھی آپ چند منٹ کا وقفہ لے کر خلیوں کا شکریہ ادا کریں؟
ہمیں اس بارے زیادہ علم نہیں کہ خلیے جو کام بھی کرتے ہیں، وہ کیسے کرتے ہیں، چاہے وہ چربی بنانا ہو، انسولین بنانا ہو یا ہماری زندگی کے لیے ضروری کوئی بھی کام۔ ہمارے جسم میں قریب قریب 2 لاکھ مختلف پروٹین ہوتی ہیں اور ہمیں ان میں سے ابھی شاید 4,000 کے بارے بھی علم نہیں کہ وہ کیا کرتی ہیں۔
خلوی پیمانے پر مسلسل عجوبے سامنے آتے رہتے ہیں۔ قدرتی طور پر نائٹرک ایسڈ انتہائی زہریلا مادہ ہے اور فضائی آلودگی کا اہم جزو۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں جب سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ نائٹرک ایسڈ ہمارے خلیوں میں مسلسل پیدا ہوتا رہتا ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ پہلے پہل تو کسی کو سمجھ نہ آئی لیکن بعض میں پتہ چلا کہ اس کا مقصد خون کے بہاؤ کو قابو میں رکھنا، خلیوں میں توانائی کی سطح برقرار رکھنا، کینسر اور دیگر بیماریوں کے جراثیموں کو مارنا، ہماری سونگھنے کی حس کو برقرار رکھنا اور عضوِ تناسل کا ایستادہ ہونا بھی اسی کا مرہونِ منت ہے۔ اسی سے پتہ چلا کہ نائٹرو گلیسرین جیسی دھماکے دار شئے دل کے درد یعنی انجائنا میں سکون پہنچاتی ہے۔ ہمارے خون میں یہ نائٹرک آکسائیڈ میں بدل کر خون کی نالیوں کی دیواروں کو سکون پہنچاتی ہے تاکہ خون کا بہاؤ باقاعدہ ہو سکے۔ محض دس سال میں ایک زہریلا مادہ انتہائی ضروری دوا بن گیا۔
ہمارے جسم میں محض چند سو مختلف خلیے ہوتے ہیں۔ ان کی شکل اور ان کا حجم بہت فرق ہوتا ہے۔ اعصابی خلیے جو ایک میٹر طویل بھی ہو سکتے ہیں اور خون کے سرخ تھالی نما چھوٹے چھوٹے خلیے یا ہماری بصارت کا سبب بنے والے راڈ نما فوٹو سیل۔ ان کے حجم میں اتنا زیادہ تفاوت ہوتا ہے کہ جب بارآوری کا لمحہ آتا ہے تو سپرم کے سامنے اس سے 85,000 گنا بڑا بیضہ موجود ہوتا ہے۔ تاہم اوسطاً انسانی خلیے کا حجم 20 مائیکران ہوتا ہے جو ایک ملی میٹر کے 200ویں حصے کے برابر ہے اور اسے ہم عام طور پر دیکھ نہیں سکتے۔ تاہم ہر ایک خلیے کے اندر ہزاروں کی تعداد میں اجسام جیسا کہ مائیٹو کونڈریا وغیرہ اور کروڑوں کی تعداد میں مالیکیول ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہماری کھال میں سطح پر موجود سارے کے سارے خلیے ہی مردہ ہوتے ہیں۔ عام قامت کے انسان میں تقریباً دو کلو جتنی مردہ کھال موجود ہوتی ہے جس سے اربوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے روزانہ گرتے رہتے ہیں۔ گھر میں گرد آلود تختے پر انگلی پھیریں تو انگلی پر لگنے والے زیادہ تر یہی ٹکڑے ہوتے ہیں۔
زیادہ تر خلیے ایک ماہ کے لگ بھگ زندہ رہتے ہیں۔ تاہم استثنائی صورت بھی ہے جیسا کہ جگر کے خلیے برسوں زندہ رہتے ہیں تاہم ان کے اندر کے اجزاء ہر چند روز بعد بدل جاتے ہیں۔ اعصابی خلیے آپ کی عمر جتنے ہوتے ہیں۔ پیدائش کے وقت آپ کے دماغ میں ایک سو ارب خلیے ہوتے ہیں جو بارآوری سے مرتے دم تک آپ کے کام آتے ہیں۔ کوئی نیا خلیہ دماغ میں نہیں پیدا ہوتا۔ اندازہ ہے کہ ہر گھنٹے میں ایسے 500 خلیے مرتے ہیں۔ تاہم دماغی خلیوں کے اجزاء مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور ایک ماہ میں سارے کے سارے اجزاء بدل جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نو سال کے عرصے میں ہمارے جسم میں ایک بھی مالیکیول ایسا نہیں ہوتا جو تبدیل نہ ہوا ہو۔ چاہے ہماری عمر جو بھی ہو جائے، خلوی پیمانے پر ہم ہمیشہ ہی کم عمر رہتے ہیں۔
خلیے کے بارے تفصیل دینے والا پہلا شخص رابرٹ ہُک تھا۔ یہ وہی سائنس دان ہے جس نے Inverse square law کی دریافت پر آئزک نیوٹن سے لڑائی کی تھی۔ ہُک نے 68 سالہ زندگی میں بہت سارے کام کیے۔ نہ صرف وہ نظریاتی سائنس دان تھا بلکہ اس نے بہت سارے نئے اوزار بھی بنائے۔ تاہم اس کی کتاب Micrographia: or Some Physiological Descrptions of Miniature Bodies Made by Magnifying Glasses جو 1665 میں شائع ہوئی، اس کی وجہ شہرت بنی۔ اسی کتاب سے عوام کو پہلی بار پتہ چلا کہ ہماری جسمانی ساخت کتنی پیچیدہ اور خوب بنی ہوئی ہے۔
ہُک نے سب سے پہلے خوردبین کی مدد سے پودوں کے خلیے دیکھے جو چھوٹے چھوٹے ڈبوں کی شکل کے تھے۔ اس نے تخمینہ لگایا کہ ایک انچ کارک میں موجود خلیوں کی تعداد 1,25,97,12,000 ہے۔ سائنس کی دنیا میں پہلی بار کسی نے اتنا بڑا ہندسہ استعمال کیا تھا۔ اس وقت خوردبین کو ایجاد ہوئے ایک نسل بیت چکی تھی لیکن ہُک سے قبل کسی نے بھی اتنی طاقتور خوردبین نہیں بنائی تھی۔ سترہویں صدی میں 30 گنا بڑا کر کے دکھانے والی ہُک کی خوردبین اس وقت کی سائنس میں حرفِ آخر مانی جاتی تھی۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک دہائی بعد جب ہُک اور لندن کی رائل سوسائٹی کے دیگر اراکین کو کپڑے کے ایک ان پڑھ تاجر کی طرف سے ولندیزی شہر سے روانہ شدہ تصاویر ملنے لگیں جو 275 گنا بڑا کر کے دکھاتی تھیں تو انہیں کتنی حیرت ہوئی ہوگی۔ یہ بندہ انٹونی وان لیووین ہُک تھا۔ اگرچہ اس کی رسمی تعلیم تو بہت معمولی تھی لیکن مشاہدہ کرنے اور تکنیکی اعتبار سے انتہائی ذہین شخص تھا۔
آج تک یہ بات معمہ ہے کہ کیسے اس دور میں اس شخص نے عام گھریلو استعمال کی چیزوں میں چھوٹے چھوٹے عدسے لگا کر اتنی طاقتور خوردبین کیسے بنا لی ہوگی۔ لیووین ہُک نے ہر تجربے کے لیے نیا آلہ بنایا اور بنانے کا طریقہ ہمیشہ راز رکھا۔ تاہم بعض اوقات اس نے برطانوی سائنس دانوں کو مشورے بھی دیئے کہ وہ اپنے آلات کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں (لیووین ہُک ایک اور ولندیزی فنکار جان ورمیئر کا دوست تھا۔ اوسط درجے کا فنکار ہونے کے باوجود 17ویں صدی کے وسط میں اچانک ہی اس نے روشنی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر مہارت حاصل کر لی جس کی وجہ سے آج تک اس کی تعریف ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ بات ثابت نہیں ہوئی لیکن اندازہ ہے کہ اس نے سوئی چھید کیمرے کے عدسے کی مدد سے عکس کو پردے پر منتقل کرنا سیکھ لیا تھا۔ بعد از مرگ اس کے سامان سے کوئی عدسہ نہیں نکلا۔ تاہم یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مرنے کے بعد اس کے سامان کی دیکھ بھال اور فروخت کی ذمہ داری لیووین ہُک پر آ گئی تھی)۔
40 سال کی عمر سے شروع کرتے ہوئے اگلے پچاس برس تک لیووین ہُک نے رائل سوسائٹی کو ادنٰی ولندیزی زبان میں 200 کے قریب رپورٹیں بھیجیں کیونکہ اسے محض یہی زبان آتی تھی۔ اس نے جو کچھ دیکھا، خوبصورت ڈرائنگ کی شکل میں سوسائٹی کو بھیج دیا لیکن اپنی طرف سے کچھ وضاحت نہ کی۔ اس کی بھیجی ہوئی رپورٹیں روزمرہ زندگی سے تھیں جن میں ڈبل روٹی پر لگنے والی پھپھوندی، شہد کی مکھی کا ڈنگ، خون کے خلیے، دانت، بال، اس کی اپنی تھوک، پاخانہ، مادہ منویہ وغیرہ (جن کے بارے اس نے انتہائی شرمندگی کا اظہار بھی کیا)، تاہم ان میں سے کوئی بھی چیز اس سے قبل خوردبین سے نہ دیکھی گئی تھی۔
1676 میں اس نے پانی کے نمونے میں موجود ننھے جانوروں کا تذکرہ کیا۔ رائل سوسائٹی کے سائنس دانوں کو پورا ایک سال لگا تب کہیں جا کر ان کی خوردبین اس مشاہدے کے قابل ہو سکی۔ لیووین ہُک نے پروٹوزوا دیکھے تھے۔ اس نے پانی کے ایک قطرے میں ان کی تعداد بھی شمار کی جو 82,80,000 تھی۔ اس وقت ہالینڈ میں اس سے کم تعداد میں انسان رہتے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خوردبینی اعتبار سے حیات کتنی وسیع ہے۔
لیووین ہُک کے کام سے متاثر ہو کر بہت سارے لوگوں نے خوردبین سے مشاہدے شروع کر دیے اور جوش کے مارے انہوں نے ایسی چیزیں بھی دیکھنا شروع کر دیں جو سرے سے تھیں ہی نہیں۔ مثلاً ایک مشہور ولندیزی سائنس دان نے دیکھا کہ مادہ منویہ کے اندر چھوٹے چھوٹے انسان ہیں۔ اس دور کے اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ ہم انسان انہی چھوٹے انسانوں کے بہت بڑے نمونے ہیں۔ لیووین ہُک نے ایک بار بارود کا مشاہدہ کرنے کی خاطر چھوٹا سا دھماکہ کیا اور خوردبین کی مدد سے مشاہدہ کرتے ہوئے بینائی کھونے سے بال بال بچا۔
1683 میں اس نے بیکٹیریا دریافت کیے۔ تاہم اگلے ڈیڑھ سو برس تک خوردبین کی تکنیک میں مسائل کی وجہ سے یہ ترقی یہیں تک محدود رہی۔ 1831 میں خلیے کے مرکزے کو پہلی بار سکاٹش ماہرِ نباتات رابرٹ براؤن نے دیکھا۔ براؤن 1773 میں پیدا ہوا اور 1858 میں وفات پائی۔ اس نے خلیے کے مرکزے کو نیوکلیس کہا جو لاطینی زبان کے لفظ نیوکلیا سے نکلا تھا۔ نیوکلیا بیج کو کہتے ہیں۔ 1839 میں پہلی بار جرمن سائنس دان تھیوڈور شوان نے جانا کہ ہر جاندار شئے خلیوں سے بنی ہے۔ تاہم اس نظریے کو 1860 کی دہائی میں اس وقت قبولیت ملی جب فرانس کے لوئیس پاسچر نے یہ بات تجربات سے ثابت کی کہ زندگی پہلے سے موجود زندگی سے ہی آتی ہے، بے جان چیزوں سے نہیں۔ اس نظریے کو خلوی نظریہ یعنی سیل تھیوری کہا جاتا ہے جو جدید حیاتیات کی بنیاد ہے۔
خلیے کو بے شمار تشبیہات دی جاتی ہیں۔ ایک سائنس دان کے خیال میں خلیہ ایک کیمیائی فیکٹری ہے تو دوسرے کے خیال میں ایک انتہائی گنجان آباد شہر۔ خلیہ دونوں بھی ہے اور کوئی بھی نہیں۔ آپ اسے ایک ریفائنری کہہ سکتے ہیں جو انتہائی بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے اور شہر کی مانند بھی کہ جو بہت گنجان آباد ہے اور مختلف قسم کے کاموں سے بھرا ہوا ہے جن کا بظاہر تو کوئی مقصد نظر نہیں آتا ہے لیکن یہ سارے کام ایک خاص نظام کے تحت ہو رہے ہوتے ہیں۔ تاہم اس سے زیادہ پریشان کن جگہ آپ نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ پہلی بات تو یہ کہ خلیے کے اندر اوپر یا نیچے کا کوئی تصور نہیں کیونکہ کششِ ثقل کا خلوی پیمانے پر کوئی وجود نہیں۔ خلیے کے اندر ایک ایٹم جتنی جگہ بھی خالی نہیں ہوتی۔ ہر جگہ کام ہو رہے ہوتے ہیں اور بجلی گزر رہی ہوتی ہے۔ انسان کے اندر بہت ساری برقی توانائی چھپی ہوتی ہے۔ ہمارے کھائی ہوئی خوراک اور ہماری سانس سے آکسیجن کو ملا کر ہمارے خلیے بجلی بناتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چھوتے وقت اس لیے بجلی کا جھٹکا نہیں لگتا کہ یہ بجلی انتہائی چھوٹے پیمانے پر یعنی 0.1 وولٹ اور محض نینو میٹروں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے۔ تاہم اس سب بجلی کو جمع کریں تو فی میٹر اس کی مقدار 2 کروڑ وولٹ بنتی ہے جو ایک عام طوفان میں چھپی ہوتی ہے۔
شکل اور حجم سے قطع نظر، ہر خلیہ ایک ہی طور سے بنا ہوتا ہے۔ ان کے باہر ایک جھلی ہوتی ہے، ایک مرکزہ جہاں جینیاتی مواد جمع رہتا ہے اور ان دونوں کے درمیان سائٹو پلازم ہوتا ہے۔ جھلی کوئی ربڑ جیسی اور مضبوط جھلی نہیں ہوتی بلکہ یہ جھلی ایک خاص قسم کے لائیپڈ سے بنی ہوتی ہے جو عام موٹر آئل جتنی گاڑھی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو حیرت ہو رہی ہے تو یاد رہے کہ خلوی پیمانے پر چیزیں انتہائی مختلف طور سے کام کرتی ہیں۔ مالیکیولی پیمانے پر پانی انتہائی کثیف جیل اور لائیپڈ فولاد کی مانند سخت ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ کبھی خلیے کی سیر کرنے کے قابل ہوں تو آپ کو ہرگز پسند نہیں آئے گا۔ اگر ایٹم مٹر کے دانے کے برابر ہوں تو خلیے کا قطر نصف میل کے برابر ہوگا جس کو سہارنے کے لیے سائیٹو سکیلٹن نامی ڈھانچہ موجود ہوگا۔ اس کے اندر کروڑوں کی تعداد میں مختلف اجسام جن کا حجم باسکٹ بال سے لے کر کار جتنا ہو سکتا ہے، گولی کی رفتار سے حرکت کر رہے ہوں گے۔ کوئی بھی ایسی جگہ آپ کو نہیں ملے گی جہاں ہر سیکنڈ کئی ہزار بار مختلف سمتوں سے آنے والی مختلف چیزیں آپ سے نہ ٹکرا رہی ہوں۔ خلیے کے اپنے اندرونی اجزاء کے لیے یہ خطرناک جگہ ہوتی ہے۔ ڈی این اے کی ہر لڑی کو اوسطاً 4 سے 8 سیکنڈ میں ایک بار نقصان پہنچتا ہے جو ہر روز 10,000 مرتبہ بنتا ہے۔ یہ نقصان کیمیائی یا دیگر مواد سے ہوتا ہے جو لاپروائی سے گزرتے ہیں۔ ایسا ہر نقصان فوری طور پر مرمت کرنا ہوتا ہے ورنہ سیل کے مرنے میں دیر نہیں لگے گی۔
پروٹین یعنی لحمیات بہت متحرک ہوتی ہیں۔ گھومتے، تھرکتے، اڑتے ہوئے یہ ایک دوسرے سے ایک سیکنڈ میں اربوں مرتبہ ٹکراتی ہیں۔ خامرے یعنی اینزائمز پروٹین ہی ہوتے ہیں اور ہر سیکنڈ میں ایک ہزار تک کام کرتے رہتے ہیں۔ انتہائی تیزی سے کام کرتے ہوئے یہ مالیکیولوں کو بار بار بناتے رہتے ہیں اور ایک سے ٹکڑا لیا تو دوسرے میں لگا دیا۔ ایک جگہ کھڑے رہ کر آنے جانے والوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور جو پروٹین ناقابلِ مرمت حد تک خراب ہو جائے، اس پر ایک کیمیائی نشان لگا دیتے ہیں تاکہ اسے تباہ کیا جا سکے۔ جب کسی پروٹین پر یہ مہر لگ جائے تو اس کا رخ پروٹیاسوم کی طرف ہو جاتا ہے جو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس سے نئی پروٹین بنائے گا۔ بعض پروٹین نصف گھنٹہ بھی نہیں رہتیں تو بعض پروٹین ہفتوں تک کام کرتی رہتی ہیں۔ تاہم ان کا وجود پاگل پن کی حد تک تیز ہوتا ہے۔ ایک سائنس دان کے مطابق، ‘مالیکیولی پیمانے پر ہونے والی سرگرمیاں ہم سے اوجھل ہی رہنی چاہیئں کیونکہ ہم ان کی رفتار کا تصور بھی نہیں کر سکتے’۔
تاہم اگر آپ ان کی رفتار کو کم کر دیں تو پھر سمجھ آنے لگ جاتی ہے۔ اس طرح آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر خلیے کے اندر لاکھوں کی تعداد میں لائسو سوم، اینڈو سوم، رائبو سوم، لائگینڈ، پرآکسو سوم، ہر شکل اور ہر حجم کی پروٹین وغیرہ مختلف کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کہیں وہ غذائی اجزاء سے توانائی نکال رہے ہوتے ہیں تو کہیں مختلف چیزیں تیار ہو رہی ہوتی ہیں تو کہیں فضلہ خارج ہو رہا ہوتا ہے تو کہیں بیرونی حملہ آوروں کو نکالا جا رہا ہوتا ہے تو کہیں پیغامات کی ترسیل ہو رہی ہوتی ہے تو کہیں مرمت۔ عموماً ہر خلیے میں 20,000 اقسام کی مختلف پروٹین ہوتی ہیں اور ان میں سے کم از کم 2,000 پروٹین میں سے ہر ایک مزید 50,000 مالیکیول سے بنتی ہے۔ یعنی اگر ہم محض ان پروٹین کے مالیکیول شمار کریں جن میں 50,000 سے زیادہ مالیکیول ہوں تو بھی ایک خلیے میں پروٹین کے مالیکیول کی تعداد 10 کروڑ سے زیادہ بنتی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس پیمانے کی بائیو کیمیکل سرگرمیاں ہمارے اندر جاری و ساری ہوتی ہیں۔
یہ ساری سرگرمیاں انتہائی مشکل ہوتی ہیں۔ آپ کے دل کو ہر گھنٹے میں 343 لیٹر خون پمپ کرنا ہوتا ہے جو 24 گھنٹے میں 8,000 اور سال میں 30 لاکھ لیٹر بنتا ہے جو اولمپک کے لیے درکار چار سوئمنگ پول بھرنے کو کافی ہے۔ اس کا مقصد تمام خلیوں کو آکسیجن سے بھرپور خون کی مسلسل فراہمی ہے۔ یہ محض آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ اگر آپ ورزش کر رہے ہوں تو دل کی دھڑکن 6 گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ یہ آکسیجن مائٹو کونڈریا وصول کرتے ہیں۔ انہیں خلیے کا پاور سٹیشن بھی کہا جاتا ہے اور ہر خلیے میں ان کی اوسط مقدار ایک ہزار ہوتی ہے تاہم خلیے کی قسم اور توانائی کی ضرورت کے مطابق ان کی تعداد کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مائٹو کونڈریا کے بارے ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہ شاید آزاد پھرنے والا بیکٹیریا تھا جو خلیوں میں قید ہو گیا ہے۔ اس وقت اس کا اپنا جینیاتی کوڈ ہے، تقسیم کے اپنے اوقاتِ کار اور اپنی زبان ہے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ہم ان کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی کھائی ہوئی تمام تر خوراک اور آکسیجن انہی کی نظر ہوتی ہے اور یہ اسے اے ٹی پی یعنی ایڈینو سین ٹرائی فاسفیٹ مالیکیول کی شکل میں ڈھالتا ہے۔
آپ نے کبھی اے ٹی پی کا شاید نام بھی نہ سنا ہوگا لیکن یہی توانائی ہے جو آپ کو زندہ اور متحرک رکھتی ہے۔ اے ٹی پی کو یوں سمجھیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے سیل ہیں جو خلیوں کو ان کی مطلوبہ توانائی مہیا کرتے ہیں اور آپ کو ان کی بہت بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ ایک خلیے میں ایک وقت میں تقریباً ایک ارب اے ٹی پی مالیکیول موجود ہوتے ہیں جو محض دو منٹ میں ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے ایک ارب مالیکیول آ جاتے ہیں۔ ہر روز آپ کے جسم میں آپ کے وزن کے نصف کے برابر اے ٹی پی کے مالیکیول پیدا ہوتے ہیں۔ اپنی جلد کی حرارت کو محسوس کیجیے، یہ اے ٹی پی ہی کا کام ہے۔
جب خلیوں کا کام تمام پورا ہو جاتا ہے تو انہیں مار دیا جاتا ہے اور ان کے اجزاء آگے تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کو ایپپ ٹوسس کہتے ہیں۔ ہر روز اربوں خلیے آپ کی بہتری کی خاطر اپنی جان دیتے ہیں۔ تاہم خلیوں کی موت اچانک بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ کسی قسم کی عفونت یعنی انفیکشن۔ تاہم ان کی اکثریت تب مرتی ہے جب انہیں مرنے کا حکم ملتا ہے۔ اگر خلیے کو یہ ہدایت نہ ملے کہ اسے زندہ رہنا ہے اور دوسرے خلیے بھی اسے کوئی ہدایات نہ دیں تو خلیے کی موت لازمی ہو جاتی ہے۔ خلیوں کو تسلی بھی درکار ہوتی ہے۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خلیے کی مطلوبہ طور پر موت نہیں ہوتی اور خلیہ تقسیم ہونا اور پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسے کینسر یعنی سرطان کہتے ہیں۔ کینسر کے خلیے محض گم گشتہ خلیے ہوتے ہیں۔ خلیوں میں ایسی غلطی اکثر ہوتی ہے لیکن جسم کے اندر موجود مختلف عوامل اسے بروقت روک دیتے ہیں۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے کہ خلیے کو قابو کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اوسطاً ہر 10 کروڑ ارب مرتبہ خلوی تقسیم میں سے ایک بار ہی ایسا واقعہ پیش آتا ہے۔ کینسر ہر طرح سے بدقسمتی ہے۔
یہ بات عجیب نہیں کہ خلیوں میں کبھی کبھار ایسی گڑبڑ ہو جاتی ہے بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ خلیے کیسے اتنے طویل عرصے تک بالکل درست کام کرتے رہتے ہیں۔ اس کے پیچھے یہ راز چھپا ہے کہ خلیے مسلسل پیغامات بھیجتے اور دیگر خلیوں کے پیغامات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں جن میں ہدایات، سوالات، تصحیح، مدد کی درخواست، تازہ ترین صورتحال کے بارے معلومات، تقسیم ہونے یا مرنے کے بارے ہدایات وغیرہ اہم ہیں۔ زیادہ تر پیغامات ہارمون یعنی غدودی رطوبتوں کی شکل میں ہوتے ہیں جو کیمیائی مادے ہیں۔ یہ ہارمون انسولین، ایڈرینالین، ایسٹروجن، ٹیسٹاسٹیرون کہیں دور موجود غدودی نظام سے آتے ہیں۔ دیگر پیغامات دماغ سے برقی لہروں کی شکل میں موصول ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خلیے اپنے آس پاس موجود دیگر خلیوں سے بھی رابطہ رکھتے ہیں تاکہ کام تسلی بخش انداز سے جاری رہے۔
حیرت کی بات دیکھیے کہ یہ سب کام بے ہنگم طور پر ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہر خلیہ دوسرے کو ہدایات دے اور اس سے ہدایات لے رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خلیوں کے افعال کے پیچھے ان کی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ تاہم ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ تاہم یہ تمام افعال نہ صرف خلیے کے اندر بلکہ جاندار کے اندر موجود تمام خلیوں کو ایک تسلسل سے جاری رہتے ہیں۔ ابھی ہم اس عمل کو سمجھنا شروع ہی ہوئے ہیں کہ کیسے ارب ہا ارب انفرادی افعال مل کر انسان کو بناتے ہیں۔ یہی تمام افعال نسبتاً چھوٹے پیمانے پر کیڑے مکوڑوں میں بھی انجام پاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہر زندہ چیز ایٹمی انجینئرنگ کا شاہکار ہوتی ہے۔
بے شک بعض چھوٹے جاندار ایسے بھی ہیں جن کے سامنے ہماری خلوی تنظیم بہت چھوٹی لگتی ہے۔ مثلاً اسفنج کے خلیوں کو الگ الگ کر کے کسی مائع میں ڈالیں تو وہ تمام کے تمام کچھ دیر بعد واپس اپنی اصل شکل میں جُڑ جائیں گے۔ بے شک آپ یہ عمل بار بار دہراتے رہیں، ہر بار خلیے دوبارہ اسفنج بن جائیں گے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہر جاندار کی مانند اسفنج بھی زندہ رہنا چاہتی ہے۔
زندگی کی یہ سب خصوصیات انتہائی دلچسپ اور پُرعزم محسوس ہوتی ہیں کہ جن کو ہم ابھی سمجھنا شروع ہوئے ہیں۔ ان سب کے پیچھے ایک بے جان مالیکیول ہوتا ہے جسے ڈی این اے کہتے ہیں جس کو سمجھنے کے لیے ہمیں 160 سال پیچھے برطانوی سائنس دان چارلس ڈارون کے دور میں جانا ہوگا۔ اس کے نظریے کو انسانی تاریخ کا سب سے بہترین خیال مانا گیا ہے لیکن ڈارون نے اس خیال کو لاپرواہی سے 15 سال تک چھپائے رکھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
25 ڈارون کی اچھوتی مثال​
1859 کی گرمیوں کے آخر یا خزاں کے آغاز میں برطانوی مشہور رسالے Quarterly Review کے ایڈیٹر وائٹ ویل ایلوِن کو نیچرسٹ چارلس ڈارون کی نئی کتاب کا مسودہ ملا۔ ایلوِن نے اس کتاب کو شوق سے پڑھا اور اس کے معیار سے اتفاق کیا لیکن اس کا خیال تھا کہ موضوع اتنا محدود ہے کہ زیادہ لوگ اسے پسند نہیں کریں گے۔ اس نے ڈارون سے درخواست کی کہ اسے کبوتروں پر کتاب لکھنی چاہیے۔ اس کی دلیل تھی کہ ‘ہر کوئی کبوتروں میں دلچسپی لیتا ہے۔‘
تاہم اس تجویز کو رد کر دیا گیا اور نومبر 1859 میں On the Origin of Species by Means of Natural Selection, or the Preservation of Favoured Races in the Struggle for Life چھپی۔ اس کی قیمت 15 شلنگ رکھی گئی۔ پہلے ایڈیشن کی تمام یعنی 1250 جلدیں پہلے ہی دن فروخت ہو گئیں۔ اس روز سے یہ کتاب ہمیشہ اشاعت میں رہی ہے اور ہمیشہ ہی اس پر اختلافات رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کتاب ایسے انسان نے لکھی تھی جس کی اصل دلچسپی کیچوے تھے۔ اگر اس نے دنیا کے گرد بحری سفر نہ کیا ہوتا تو اسے کوئی نہ جان پاتا کہ اس نے ساری زندگی کیچوؤں پر تحقیق میں ہی گزار دینی تھی۔
چارلس رابرٹ ڈارون 12 فروری 1809 میں شیوزبیری میں پیدا ہوا (اسی روز کینٹکی میں ابراہام لنکن پیدا ہوا) جو مغربی مڈلینڈز کا ایک پرسکون قصبہ تھا۔ اس کا باپ امیر اور معزز فزیشن تھا۔ ماں کی وفات کے وقت ڈارون کی عمر آٹھ برس تھی۔
ڈارون نے تربیت کے تمام مواقع پائے لیکن اپنے رنڈوے باپ کو ہمیشہ اپنی نالائقی سے تنگ کرتا رہا۔ اس کے باپ کے یہ الفاظ آج تک دہرائے جاتے ہیں کہ ‘تمہیں شکار، کتوں اور چوہوں کا پیچھا کرنے سے فرصت نہیں ہے۔ تم اپنے اور خاندان، سب کے لیے بدنامی بنو گے۔‘ نیچرل ہسٹری میں فطری دلچسپی کے باوجود اس نے اپنے باپ کی خوشی کی خاطر طب کی تعلیم پانے کے لیے ایڈنبرا یونیورسٹی کا رخ کیا لیکن خون اور تکلیف کو زیادہ دیر نہ دیکھ پایا۔ نشہ آور ادویات سے قبل کے دور میں اس نے ایک بچے کو تکلیف کے عالم میں آپریشن سے گزرتے دیکھا۔ ہمیشہ کے لیے یہ منظر اس کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔ اس نے قانون پڑھنے کی کوشش کی مگر اس سے بیزار ہو گیا۔ آخرکار اس نے مذہب میں کیمبرج سے ڈگری لے لی۔
اگر اسے اتفاق سے بحری سفر کی دعوت نہ ملتی تو شاید ساری زندگی وہ پادری بن کر گزار دیتا۔ ڈارون کو ایچ ایم ایس بیگل نامی بحری سروے شپ پر کپتان رابرٹ فٹزرائے کے ساتھی کے طور پر سفر کرنے دعوت ملی کہ کپتان کا تعلق اعلیٰ خاندان سے تھا جو عام افراد سے میل جول نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ فٹزرائے بذاتِ خود انتہائی عجیب انسان تھا کہ اس نے ڈارون کو اس کے ناک کی ساخت کی بنا پر پسند کیا (اس کے خیال میں اس طرح کی ناک کردار کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے)۔ اگرچہ فٹزرائے کی پہلی پسند ڈارون نہیں تھا مگر جب وہ بندہ ساتھ نہ جا پایا تو ڈارون نے اس کی جگہ لے لی۔ آج کے اعتبار سے دونوں کی واحد مماثلت ان کی کم عمری تھی۔ سفر کے وقت فٹزرائے کی عمر 23 اور ڈارون کی 22 سال تھی۔
فٹزرائے کے سرکاری فرائض میں ساحلی علاقوں کا نقشہ بنانا تھا مگر اس کا اصل شوق تخلیق کے متعلق بائبل کے نظریات کی تصدیق کرنا تھا۔ ڈارون کی مذہبی تعلیم اس کے چناؤ کے اہم اسباب میں سے ایک تھی۔ تاہم بعد میں جب پتہ چلا کہ ڈارون کافی آزاد خیال ہونے کے علاوہ شاید سچے دل سے عیسائی بھی نہیں تھا تو دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی گئیں۔
ڈارون نے 1831 تا 1836 بیگل پر سفر کیا جو اس کی زندگی کا اہم ترین تجربہ تھا جو کافی مشکل بھی ثابت ہوا۔ کپتان اور ڈارون کے استعمال میں ایک چھوٹا کیبن تھا جو اتنی اچھی بات نہیں تھی کہ کپتان فٹزرائے پر غصے کے دورے پڑتے تھے اور کبھی خودترسی کے۔ دونوں کے درمیان مسلسل لڑائی ہوتی رہتی تھی جو بعض اوقات دیوانگی کی حد تک چلی جاتی تھی۔ طویل بحری سفروں پر یاسیت کا دورہ پڑنا عام سی بات ہے اور بیگل کے پرانے کپتان نے ایسی ہی کیفیت کے دوران خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔ فٹزرائے کے خاندان میں نفسیاتی مسائل عام تھے۔ اس کے چچا نے ایک دہائی قبل اپنا گلا کاٹ کر خودکشی کر لی تھی (فٹزرائے نے 1865 میں اسی طرح خودکشی کر لی تھی)۔ عام حالات میں بھی کپتان بہت ناقابلِ اعتبار تھا۔ سفر کے اختتام پر جب کپتان نے اچانک ایک لڑکی سے شادی کر لی جس سے بہت پہلے وہ شادی کا وعدہ کر چکا تھا تو ڈارون کو شدید حیرت ہوئی۔ پانچ سال کے پورے سفر کے دوران فٹزرائے نے ایک بار بھی اس لڑکی کا نہ تو نام لیا اور نہ ہی کسی طرح اس کا ذکر کیا۔
باقی ہر اعتبار سے بیگل کا سفر شاندار کامیابی ثابت ہوا۔ ڈارون کے لیے یہ سفر ساری زندگی کا بہترین سفر ثابت ہوا اور ساتھ لائے ہوئے نمونے اتنے تھے کہ ڈارون کو برسوں لگے کہ وہ انہیں ترتیب دے سکے۔ ڈارون اپنے ساتھ انتہائی شاندار عظیم الجثہ قدیم فاسلز لایا، چلی میں مہلک زلزلے سے بچا، ڈولفن کی ایک نئی نوع دریافت کی (اس کا نام فٹزرائے پر Delphinus ftzroyi رکھا)، اینڈیز پہاڑوں میں نفیس اور مفید جغرافیائی پیمائشیں کیں اور کورل یعنی مونگے کی چٹانوں کے بارے نظریہ پیش کیا کہ وہ کم از کم دس لاکھ سال پرانی ہوں گی۔ 1836 میں 27 سال کی عمر میں وہ گھر واپس لوٹا۔ اس کاسفر 5 سال اور 2 دن طویل تھا۔ پھر وہ کبھی انگلینڈ سے باہر نہیں نکلا۔
اس سفر پر واحد کام جو اس نے نہیں کیا، وہ ارتقا کا یا کسی قسم کا نظریہ پیش کرنا تھا۔ ارتقا کا تصور 1930 کی دہائی میں پہلے ہی کئی دہائیاں پرانا ہو چکا تھا۔ ڈارون کا اپنا دادا ایراسموس نے ڈارون کی پیدائش سے بھی قبل ایک نظم ارتقائی اصولوں پر لکھا تھا۔ جب ڈارون سفر سے لوٹا تو اس نے Thomas Malthus کی Essay on the Principle of Population (جس میں بتایا گیا ہے کہ ریاضاتی پیمانے پر بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک کی بڑھتی ہوئی مقدار ناکافی رہے گی) پڑھی جس کے بعد اس نے سوچنا شروع کیا کہ زندگی ایک جہدِ مسلسل کا نام ہے اور فطری چناؤ ہی وہ طریقہ ہے جس کی مدد سے بعض انواع بعض دیگر انواع کی نسبت زیادہ کامیاب یا ناکام رہتی ہیں۔ ڈارون نے یہ بات محسوس کی کہ تمام جاندار خوراک کے ذرائع کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں اور جن انواع کو قدرتی طور پر کوئی خوبی ملی ہو، وہ زیادہ بہتر طریقے سے جی کر بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ اس طرح انواع مسلسل بہتری کی جانب مائل رہتی ہیں۔
یہ نظریہ انتہائی سادہ ہے تاہم اس سے بہت ساری وضاحت ہوتی ہے اور ڈارون نے اس پر اپنی زندگی خرچ کر دی۔ ٹی ایچ ہکسلے کو جب On the Origin of Species پڑھنے کو ملی تو اس کے الفاظ یہ تھے، ‘میں بھی کتنا احمق ہوں کہ اتنی سی بات نہ سوچ سکا۔‘ یہ رائے تب سے گردش میں ہے۔
مزے کی بات یہ دیکھیے کہ ڈارون نے Survival of the fittest کی اصطلاح کبھی استعمال نہیں کی (تاہم اسے پسند ضرور کیا)۔ یہ اصطلاح 1864 میں اس کی کتاب On the Origin of Species چھپنے کے بعد Herbert Spencer نے اپنی کتاب Principles of Biology میں متعارف کرائی تھی۔ Evolution یعنی ارتقا کی اصطلاح اس نے اپنی کتاب کے چھٹے ایڈیشن میں متعارف کرائی تھی اور تب تک یہ اصطلاح مقبولِ عام ہو چکی تھی۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ڈارون نے اپنا نظریہ ہرگز گیلاپیگوس کی چڑیوں کی چونچ دیکھ کر نہیں پیش کیا تھا۔ عام طور پر کہانی کچھ اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ گیلاپیگوس کے مختلف جزائر کی سیر کرتے ہوئے ڈارون نے چڑیوں کی چونچ میں فرق دیکھا جو مقامی خوراک کے لیے بہترین بنی ہوئی ہوتی تھیں، مثلاً ایک جزیرے پر چڑیوں کی چونچ چھوٹی اور سخت تھی تاکہ وہ مختلف پھلیوں کو توڑ سکے تو دوسرے جزیرے پر چڑیوں کی چونچ لمبی اور پتلی تھی تاکہ مختلف دراڑوں سے خوراک نکال سکیں۔ اسی سے ڈارون نے اندازہ لگایا کہ یہ چڑیاں اس طرح نہیں بنائی گئی تھیں بلکہ انہوں نے خود کو اس طرح ڈھال لیا۔
درحقیقت ان پرندوں نے خود کو ایسے بنا لیا تھا لیکن ڈارون نے اسے نہیں محسوس کیا۔ بیگل کے سفر کے موقع پر ڈارون یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا تھا اور ماہرِ فطرت نہیں بنا تھا۔ اس لیے وہ یہ نہ جان سکا کہ گیلاپیگوس کے جزائر کی چڑیاں دراصل ایک ہی نسل کی ہیں۔ ڈارون کے دوست اور پرندوں کے ماہر John Gould نے دیکھا کہ ڈارون کی دریافت کردہ چڑیوں کے پاس مختلف صلاحیتیں ہیں۔ بدقسمتی سے اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ڈارون نے یہ چیز نہ محسوس کی (اس نے یہی غلطی کچھوؤں کے ساتھ بھی کی تھی)۔ اس مسئلے کو حل ہوتے ہوتے برسوں لگے۔
ایسی بے شمار لاپرواہیوں اور اپنے ساتھ لائے ہوئے بے شمار کریٹوں کو ترتیب دینے میں اتنا عرصہ لگ گیا کہ اپنی واپسی کے پانچ سال بعد 1842 میں ڈارون نے اپنے نئے نظریے کی بنیاد ڈالنا شروع کی۔ پھر اسی بنیاد کو اس نے 230 صفحات تک پھیلانے میں دو سال لگائے۔ پھر اس نے ایک عجیب کام کیا کہ ان تمام چیزوں کو ایک طرف رکھ کر اگلے پندرہ سال دیگر چیزوں پر توجہ دینا شروع کر دی۔ اس کے دس بچے پیدا ہوئے اور اس نے سمندری مخلوق Barnacles پر ایک تفصیلی کتاب لکھی۔ پھر اس پر عجیب سے دورے پڑنا شروع ہو گئے کہ وہ مستقل بے چین ہونے لگا اور خفقان کا شکار ہوتا رہا۔ ان دوروں میں ہمیشہ جی متلانا، بے ترتیب دھڑکن، دردِ شقیقہ، تھکاوٹ، لرزہ، آنکھوں کے سامنے دھبے بننا، سانس پھولنا، سر کا ہلکا ہونا اور مایوسی بھی شامل ہوتے تھے۔
اس بیماری کی اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو پائی۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ شاید جنوبی امریکہ کی سیر کے دوران اسے کسی حشرے سے Chagas کی بیماری لگ گئی ہو۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ اس کی بیماری جسمانی سے زیادہ ذہنی تھی۔ خیر، جو بھی ہو، اس کی تکلیف اصل تھی۔ اکثر وہ بیس منٹ سے زیادہ ٹک کر کام نہ کر سکتا تھا اور بعض اوقات تو اتنا بھی بیٹھنا اس کے لیے ممکن نہ ہوتا۔
اس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ عجیب و غریب علاجوں میں گزرا، کبھی وہ یخ بستہ پانی میں ڈبکیاں لگاتا تو کبھی سرکہ سونگھتا اور کبھی اپنے جسم پر دھاتی تاریں لپیٹ کر خود کو بجلی کے ہلکے جھٹکے پہنچاتا۔ اپنے گھر سے اس نے نکلنا چھوڑ دیا۔ نئے گھر منتقلی کے وقت پہلا کام اس نے یہ کیا کہ اپنی کھڑکی کے باہر آئینہ لگایا تاکہ ملاقاتیوں کو دیکھ سکے اور ممکن ہو تو ان سے ملاقات سے بچ سکے۔
ڈارون نے اپنے نظریے کو اپنے تک محدود رکھا کیونکہ اسے علم تھا کہ یہ نظریہ عام ہوتے ہی طوفان کھڑا کر دے گا۔ 1844 میں اس نے اپنے نوٹس ایک جگہ بند کر دیے کیونکہ انہی دنوں ایک کتاب Vestiges of the Natural History of Creation سے پڑھے لکھے طبقے میں بہت لے دے ہوئی کیونکہ اس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ کسی خدائی مداخلت کے بغیر انسان دیگر پرائیمیٹس سے نکلا ہے۔ تاہم مصنف کو اس بارے پہلے سے اندازہ تھا اس لیے اس نے کتاب چھپوانے سے قبل اپنے نام کو خفیہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اگلے چالیس برس تک اس کے قریبی دوستوں کو بھی اس کتاب کے اصل مصنف کے بارے پتہ نہ چل سکا۔ کئی لوگوں کو ڈارون پر شبہ تھا تو کئی لوگوں کے خیال میں پرنس البرٹ نے یہ کتاب لکھی تھی۔ تاہم اس کتاب کا اصل مصنف ایک سکاٹش پبلشر تھا جس کا نام رابرٹ چیمبرز تھا۔ اپنا نام چھپانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی کمپنی بائبل چھاپنے میں پیش پیش تھی (ڈارون ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جس نے درست اندازہ لگایا۔ جس دن ڈارون یہ کتاب خریدنے پہنچا، اسی روز اور اسی وقت چیمبرز نے انتہائی بے چینی سے نئے ایڈیشن کو دیکھا جس سے ڈارون نے جانا)۔ اس کتاب پر نہ صرف برطانیہ بلکہ ہر جگہ مشکلات پیدا کیں۔ Edenburgh Review نے اپنا ایک تقریباً پورا شمارہ یعنی 85 صفحات اس کی تردید پر چھاپے۔ ٹی ایچ ہکسلے نے بھی اس بات سے لاعلم ہوتے ہوئے کہ مصنف اس کا دوست ہے، پر کافی زہریلے انداز سے بحث کی ۔
ڈارون کا اپنا مسودہ شاید اس کی وفات تک بند رہتا، مگر مشرقِ بعید سے موصول ہونے والے ایک عجیب معاملے نے اسے مجبور کر دیا۔ 1858 میں اسے ایک نیچرلسٹ الفریڈ رسل ولاس نے ایک خط بھیجا اور اس کے ساتھ ایک مقالہ بھی تھا جس کا عنوان On the Tendency of Varieties to Depart Indefinitely from the Original Type تھا۔ اس مقالےکا متن حیران کن حد تک ڈارون کے اپنے مقالے سے مشابہہ تھا۔ حتیٰ کہ بعض فقرے من و عن مشترک تھے۔ ڈارون نے مایوسی سے کہا، ‘میں نے کبھی ایسی حیران کن مماثلت نہیں دیکھی۔ اگر ولاس نے 1842 میں میرے مسودے کو دیکھا ہوتا تو اس سے بہتر خلاصہ نہ پیش کر سکتا۔‘
عام اندازے کے برعکس ولاس اور ڈارون ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے۔ دونوں کے درمیان خط و کتابت چل رہی تھی اور کئی بار ولاس نے مختلف نمونے بھی ڈارون کو بھیجے تھے۔ انہی تحریری ملاقاتوں میں ڈارون نے صاف الفاظ میں ولاس کو بتا دیا تھا کہ انواع کی پیدائش کو وہ مکمل طور پر اپنا شعبہ سمجھتا ہے، ‘اس سال گرمیوں میں اس عنوان پر مجھے لکھتے ہوئے بیس برس ہو جائیں گے کہ انواع اور اقسام ایک دوسرے سے کیوں اور کیسے مختلف ہوتی ہیں۔ میں اب اسے چھپوانے کا سوچ رہا ہوں۔‘ اس نے بتایا، حالانکہ اس کا چھپوانے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں تھا۔
ولاس ڈارون کی بات کو پوری طرح نہ سمجھ سکا۔ اگر سمجھ بھی لیتا تو بھی اسے کیا علم ہوتا کہ دونوں کے نظریات اتنے مماثل ہوں گے کہ جس پر ڈارون بیس برس سے کام کر رہا ہے۔
ڈارون عجیب کشمکش کا شکار ہو گیا۔ اگر وہ اپنی تحقیق کو اس لیے چھپواتا کہ اس کی اولیت برقرار رہتی تو شاید وہ اپنے دوست کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہوتا۔ اگر وہ ایک طرف ہو جاتا تو اتنی طویل تحقیق کا سہرا اسے نہ مل پاتا۔ ولاس کے اپنے الفاظ میں اس کا نظریہ محض لمحاتی سوچ کا نتیجہ تھا جبکہ ڈارون نے برسوں تک احتیاط سے اس پر کام کر کے اسے بنایا تھا۔ معاملہ بہت عجیب ہو گیا تھا۔
سونے پر سہاگہ، ڈارون کا سب سے چھوٹا بیٹا جس کا نام چارلس تھا، لال بخار کا شکار ہو گیا۔ 28 جون کو اسی مرض سے اس کی جان چلی گئی۔ بچے کی بیماری اور دیگر پریشانیوں کے باوجود ڈارون کے پاس اتنا وقت تھا کہ اس نے اپنے دوستوں چارلس لائل اور جوزف ہُکر کو خط لکھے کہ وہ ایک طرف ہٹنے کو تیار ہے مگر اس طرح اس کی ساری محنت رائیگاں جائے گی۔ لائل اور ہُکر نے تجویز دی کہ کیوں نہ ڈارون اور ولاس مل کر اس نظریے کو پیش کریں۔ دونوں کی ملاقات کا مقام بھی تجویز ہو گیا جو کہ لینائن سوسائٹی کے اجلاس میں پڑھا جاتا۔ یکم جولائی 1858 کو ڈارون اور ولائس کا نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ ڈارون خود نہ آیا کہ اس روز وہ اپنی بیوی کے ہمراہ اپنے بیٹے کی تدفین میں لگا تھا۔
ڈارون اور ولاس کا نظریہ اس روز کی ملاقات کے سات نکات میں سے ایک تھا۔ اسی طرح ایک اور عنوان انگولا کی نباتات کے بارے تھا۔ کمرے میں 30 کے لگ بھگ لوگوں میں سے کسی کو بھی اندازہ نہ ہو پایا وہ اس صدی کی اہم ترین سائنسی دریافت کو سن رہے ہیں۔ بات ختم ہونے پر کسی نے اس پر بحث نہ کی۔ نہ ہی بعد میں کسی نے اسے توجہ دی۔ ڈارون نے بعد میں خوش ہو کر لکھا کہ ڈبلن میں پروفیسر ہفٹن نے اس پر دو صفحہ کا مضمون لکھا اور کہا کہ ‘جو کچھ نیا ہے وہ غلط ہے اور جو سچ ہے، وہ سب پرانا ہے۔‘
ولاس جو کہ اس وقت تک مشرق بعید میں تھا اور اسے ان سب باتوں کا بہت بعد میں علم ہوا، نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اس کے خیال میں اتنا بھی بہت تھا کہ اس نظریے میں اس کا نام بھی لیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ اس نظریے کو ‘ڈارونزم‘ کہتا رہا۔
عجیب بات دیکھیے کہ ڈارون سے بھی بیس برس قبل سکاٹش باغبان پیٹرک میتھیو نے قدرتی چناؤ کے اصولوں کے بارے ایک کتاب میں لکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈارون ابھی بیگل والے سفر پر روانہ ہونے لگا تھا۔ بدقسمتی سے یہ کتاب Naval Timber and Aroboriculture تھا جو نہ صرف ڈارون بلکہ پوری دنیا سے چھپی رہی۔ تاہم جب ڈارون کا نظریہ مشہور ہوا تو میتھیو نے فوراً ہر کسی کو بتانا شروع کر دیا کہ یہ نظریہ اس کا ہے۔ جب ڈارون کو پتہ چلا تو اس نے بلاجھجھک معذرت کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا، ‘میرا نہیں خیال کہ میں نے یا کسی اور نے جناب میتھیو کی تحریر پڑھی ہو جو کہ مختصر انداز میں Naval Timber and Arborculture کے ضمیمے میں لکھی گئی تھی۔‘
ولاس نے اگلے پچاس سال تک بطور نیچرلسٹ اور مفکر کے طور پر کام جاری رکھا اور بعض اوقات بہت اچھے کام بھی کیے مگر اس کا رحجان بتدریج روحانیت اور غیر ارضی مخلوقات کی جانب ہوتا گیا اور سائنسی دنیا نے اس پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ اس طرح یہ نظریہ محض ڈارون کا ہو کر رہ گیا۔
ڈارون کو اس کے نظریات کی وجہ سے مسلسل مشکلات کا سامنا رہا۔ وہ خود کو شیطان کی دکان کہا کرتا تھا اور یہ بھی کہ اس کا نظریہ پیش کرنا ایسے ہی تھا جیسے کسی قتل کا اقرار کرنا۔ سب سے زیادہ اس کی بیوی کو تکلیف پہنچی جو بہت مذہبی اور نیک خاتون تھی۔ اس کے باوجود بھی اس نے اپنے مسودے کو پھیلا کر کتاب کی شکل دینے پر کام جاری رکھا۔ شروع میں اس نے کتاب کا نام An Abstract of an Essay on the Origin of Species and Varieties through Natural Selection کا نام دیا۔ عنوان اتنا عجیب اور غیر دلچسپ تھا کہ پبلشر نے محض 500 جلدیں چھاپنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم بعد میں جب مسودہ اور نسبتاً بہتر عنوان پیش کیا گیا تو اس نے 1250 جلدیں چھاپیں۔
On the Origin of Species تجارتی اعتبار سے کامیاب مگر تنقیدی اعتبار سے زیادہ کامیاب نہ ثابت ہوئی۔ ڈارون کے نظریے میں دو مشکلات تھیں۔ پہلی تو یہ کہ اس کے لیے درکار وقت لارڈ کیلون دینے کو تیار نہیں تھا اور دوسرا اس میں فاسل ثبوت نہ ہونے کے برابر تھے۔ تنقید نگاروں نے ڈارون سے پوچھا کہ اگر انواع مسلسل بہتری کی جانب مائل ہیں تو درمیانی کڑیاں کہاں ہیں (جب یہ ساری بحث ہو رہی تھی تو جرمنی میں بویریا میں مزدوروں کو آرکیوٹیرکس کا ڈھانچہ ملا جو پرندوں اور ڈائنوساروں کے درمیان کی مخلوق سمجھی جاتی ہے۔ اس کے دانت بھی تھے اور پر بھی۔ اگرچہ یہ بہت اہم دریافت تھی مگر محض ایک ڈھانچہ یا فاسل ساری بحث کا فیصلہ کرنے کے لیے ناکافی تھا)؟ حقیقت میں اس دور کے ریکارڈ کے مطابق جانداروں کا وجود براہ راست کیمبرین انفجار سے شروع ہوتا تھا۔
اب ڈارون کو دیکھیے کہ بغیر کسی ثبوت کے یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ قدیم سمندروں میں لاتعداد مخلوقات پائی جاتی تھیں جنہیں ہم اس لیے تلاش نہیں کر پا رہے کہ کسی وجہ سے وہ محفوظ نہ رہ پائیں۔ ڈارون کا خیال تھا کہ اور کوئی صورت ممکن ہی نہیں۔ اس نے غلطی سے یہ سمجھا کہ ‘قبل از کیمبرین دور کے سمندر اتنے صاف تھے کہ ان میں تلچھٹ نہ ہونے کی وجہ سے جاندار محفوظ نہ رہ پائے۔‘
ڈارون کے قریبی دوست بھی اس وجہ سے پریشان تھے۔ ایڈم سیج وِک نے کیمبرج میں ڈارون کو پڑھایا تھا اور اسے ویلز کے جغرافیائی دورے پر بھی 1831 میں لے کر گیا تھا، نے بتایا کہ ڈارون کی کتاب سے اسے خوشی سے زیادہ تکلیف پہنچی ہے۔ لوئیس اگاسیز جو کہ مشہور سوئس ماہرِ متحجرات تھا، کے خیال میں ڈارون کا نظریہ بہت کمزور تھا۔ لائل نے افسوس سے کہا، ‘ڈارون بہت دور نکل گیا ہے۔‘
ٹی ایچ ہکسلے کو بھی ڈارون کا نظریہ پسند نہ آیا کہ اس میں بہت زیادہ وقت درکار تھا۔ ہکسلے کا تعلق Saltationist گروہ سے تھا جن کے خیال میں ارتقائی تبدیلیاں بتدریج نہیں بلکہ فوری ہوتی ہیں۔ ان کا سوال یہ ہوتا تھا کہ ارتقائی عمل کے دوران بننے والی آدھی آنکھ یا ایک پر کا جانور کو کیا فائدہ ہوتا؟ ہاں اگر پوری آنکھ یا دو پر ایک ساتھ نمودار ہوں تو متعلقہ جانور کو فائدہ پہنچتا۔
یہ نظریہ ہکسلے جیسے بندے کے لیے عجیب تھا کہ اس سے ملتا جلتا اعتراض ایک مشہور مذہبی عالم ولیم پیلی نے 1802 میں دیا تھا۔ اس اعتراض میں اس نے کہا کہ اگر آپ کو زمین پر پڑی ایک گھڑی ملتی ہے اور چاہے آپ نے پہلے کبھی گھڑی نہ دیکھی ہو، پھر بھی اسے دیکھتے ہی آپ جان لیں گے کہ اس گھڑی کو کسی ذہین مخلوق نے بنایا ہے۔ اسی طرح فطرت میں پائے جانے والے پیچیدہ جاندار اپنی جگہ اپنے خالق کا ثبوت ہیں۔ یہ اعتراض اتنا بھاری تھا کہ اس سے ڈارون کو کافی مشکلات محسوس ہوئیں۔ اس نے اپنی کتاب میں اس بات کا کھلے عام اعتراف کیا کہ ‘فطری چناؤ سے آنکھ جیسی پیچیدہ چیز بتدریج نہیں پیدا ہو سکتی۔‘
اس کے باوجود ڈارون نے اصرار جاری رکھا کہ تبدیلی بتدریج ہی آتی ہے مگر اپنی کتاب کے ہر نئے ایڈیشن میں اس نے ارتقا کے دورانیے کو بڑھاتے جانے پر ہی زور دیا۔ نتیجتاً اس کا نظریہ عوامی دلچسپی کھونے لگا۔ سائنس دان اور مؤرخ جیفری شوارٹز کے مطابق ‘ساتھی نیچرل ہسٹورین اور ماہرینِ ارضیات کی بچی کچھی حمایت بھی ڈارون نے کھو دی۔‘
طرفہ تماشا دیکھیے کہ اس کی کتاب کا نام On the Origin of Species تھا اور واحد موضوع جس پر کتاب نے روشنی نہیں ڈالی، انواع کی ابتدا تھی۔ اس کتاب میں اس بات کی اچھی وضاحت موجود تھی کہ انواع کیسے بہتر اور برتر بنتی ہیں لیکن اس سے نئی انواع کی ابتدا کیسے ہوتی ہے، پر ڈارون خاموش رہا۔ ایک سکاٹش انجینئر فلیمنگ جینکن نے اس مسئلے کو محسوس کیا اور اس بارے ڈارون کی خاموشی پر اعتراض اٹھایا۔ ڈارون کی سوچ یہ تھی کہ ایک جاندار میں آنے والی اضافی خاصیت اس کی اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی جاتی ہے اور اس طرح نوع مضبوط تر ہوتی جاتی ہے۔ جینکن نے بتایا کہ ایک جاندار کی اچھی خوبی ملاپ کی وجہ سے کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گی۔ یعنی اگر شراب کو پانی میں ملایا جائے تو شراب مزید گاڑھی تو نہیں ہوگی۔ اس ملغوبے میں مزید پانی ملایا جائے تو شراب مزید کمزور ہوتی جائے گی اور یہ سلسلہ جاری رہے تو جلد ہی شراب کا نشان تک غائب ہو جائے گا۔ وقتاً فوقتاً آنے والی تبدیلی جلد ہی مٹ جائے گی۔ اس لیے فطری چناؤ کے لیے کوئی اور وجہ بھی ہونی چاہیے جو اس وقت تک نامعلوم تھی۔
ڈارون اور دیگر کی لاعلمی میں 1٫200 کلومیٹر دور وسطی یورپ میں گریگر مینڈل نامی ایک پادری اس مسئلے کے حل کی تیاری میں تھا۔
مینڈل 1822 میں غریب کسان گھرانے میں پیدا ہوا جو آسٹرین سلطنت کے اس حصے میں رہائش پذیر تھا جو آج چیک ریپبلک کا حصہ ہے۔ درسی کتب میں مینڈل کا ذکر ایک مذہبی عالم کے طور پر ملتا ہے جو اپنی رہائش گاہ کے باغیچے میں موجود مٹر کے پودوں کی چند خصوصیات کو دیکھ کر چونکا تھا۔ تاہم حقیقت میں مینڈل باقاعدہ تربیت یافتہ سائنس دان تھا اور اس نے طبعیات اور ریاضی کی تعلیم وی آنا کی یونیورسٹی سے حاصل کی تھی اور اپنے تجربات کو سائنسی انداز سے کرتا تھا۔ اس کے علاوہ برنو میں جہاں وہ 1843 سے رہائش پذیر تھا، مشہور علمی درسگاہ تھی۔ اس کی لائبریری میں 20٫000 کتب موجود تھیں اور یہاں سنجیدہ سائنسی تحقیق ہوتی تھی۔
تجربہ شروع کرنے سے قبل مینڈل نے دو برس لگا کر مطلوبہ بیج جمع کیے جو سات مختلف اور خالص اقسام کے مٹروں پر مشتمل تھے۔ اس کے ساتھ دو مستقل نائبین تھے اور اس نے 30٫000 پودوں کی اپنے ساتھ اور دوسرے پودوں کے ساتھ افزائشِ نسل کی۔ یہ کام بہت نازک تھا کہ انہیں کسی بھی قسم کی غلط افزائشِ نسل سے بچنا تھا اور بیجوں، پتوں، تنوں، پھولوں اور پھلیوں کی شکل و صورت اور ان کی نشوونما میں آنے والی ہر تبدیلی کا بھی خیال رکھنا تھا۔ مینڈل بخوبی جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
تاہم اس نے لفظ ‘جین‘ کبھی استعمال نہیں کیا۔ یہ لفظ 1913 میں سب سے پہلے انگریزی کی طبی ڈکشنری میں پہلے نمودار ہوا۔ تاہم اس نے ‘غالب‘ اور ‘مغلوب‘ کی اصطلاحات متعارف کرائیں۔ اس نے بتایا کہ ہر بیج میں دو خصوصیات یا عوامل ہوتے ہیں۔ ایک کو غالب اور دوسرے کو مغلوب کہا جاتا ہے۔ جب انہیں ملایا جائے تو اگلی نسل پر ہونے والے اثرات کے بارے پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔
ان نتائج کو مینڈل نے ریاضاتی کلیے میں بدلا۔ ان تجربات پر اس نے کل آٹھ سال خرچ کیے اور اپنے نتائج کو پھولوں، مکئی اور دیگر پودوں پر بھی کامیابی سے آزمایا۔ اس کا طریقہ کار انتہائی سائنسی تھا۔ جب اس نے اپنے نتائج کو فروری اور مارچ 1865 میں نیچرل ہسٹری سوسائٹی کی میٹنگ میں پیش کیے تو سب نے اسے سنا تو سہی مگر توجہ بالکل نہیں دی، حالانکہ پودوں کی افزائشِ نسل ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا اہم ترین مشغلہ تھا۔
جب مینڈل کی رپورٹ چھپی تو اس نے ایک کاپی بطورِ خاص سوئس ماہرِ نباتات کارل ویلہم وون ناگیلی کو بھیجی کہ اس کی مدد سے اس رپورٹ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہونا تھا۔ بدقسمتی سے ناگیلی کو مینڈل کی رپورٹ کی اہمیت کا احساس نہ ہو سکا۔ اس نے مینڈل سے کہا کہ وہ ہاک ویڈ نامی پودے پر یہ تجربات دوبارہ کرے۔ مینڈل نے فرمانبرداری سے اس ہدایت پر عمل کیا مگر اسے فوراً ہی احساس ہو گیا کہ یہ پودا ایسے تجربات کے لیے بالکل غیر موزوں ہے۔ ظاہر ہے کہ یا تو ناگیلی نے مینڈل کی رپورٹ پڑھی ہی نہیں یا پھر اس پر توجہ نہیں دی۔ بددل ہو کر مینڈل نے وراثتی خصوصیات پر کام چھوڑ دیا اور اس نے بہترین اقسام کی سبزیاں اگانا، شہد کی مکھیوں، چوہوں اور سورج کے دھبوں کا مشاہدہ شروع کر دیا۔ آخرکار اسے ایبٹ بنا دیا گیا۔
تاہم عام تصور کے برعکس مینڈل کے نتائج کو یکسر نظرانداز بھی نہیں کیا گیا۔ اس کے مطالعے نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں بہت شاندار جگہ پائی کہ اس دور میں سائنسی اعتبار سے یہ انسائیکلوپیڈیا بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جرمن ولہلم اولبرز فوک نے اپنے اہم مقالے میں بار بار اس کا ذکر کیا۔ مینڈل نے نظریات کو کبھی اتنا غیر اہم نہیں سمجھا گیا کہ وہ بالکل ہی بھلا دیے جاتے۔ اس لیے جب حالات سازگار ہوئے تو اس کا نظریہ آسانی سے اوپر آ گیا۔
ایک دوسرے سے لاعلم ہونے کے باوجود ڈارون اور مینڈل نے 19ویں صدی کی حیاتیاتی سائنس کی بنیاد رکھی۔ ڈارون نے دیکھا کہ تمام جاندار ایک دوسرے سے متعلق ہیں اور ان سب کی ابتدا ایک ہی جاندار سے ہوئی تھی۔ مینڈل کے کام سے پتہ چلا کہ یہ سب کیسے ہوا۔ یہ دونوں مل کر بھی کام کر سکتے تھے کہ مینڈل کے پاس ڈارون کی کتاب کا جرمن ترجمہ موجود تھا اور اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اس نے یہ کتاب پوری طرح پڑھی تھی اور اس بات کا واضح امکان ہے کہ اس نے اپنے کام کو ڈارون کے کام کے ساتھ ملا کر بھی دیکھا ہوگا، مگر اس نے رابطے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ڈارون کے بارے بھی علم ہے کہ اس نے فوک کا مقالہ پڑھا تھا کہ جس میں جگہ جگہ مینڈل کے کام کا حوالہ دیا گیا تھا، لیکن اس نے مینڈل کی تحقیق کو اپنی تحقیق سے جوڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
ایک بات جو کہ ڈارون کے حوالے سے ہر جگہ مشہور ہے کہ انسان کی ابتدا بندر سے ہوئی کے بارے محض ایک جگہ اشارہ لکھا تھا۔ تاہم ڈارون کے نظریات سے یہ بات اخذ کر لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا اور جلد ہی اس پر بحث شروع ہو گئی۔
اصل شغل تب لگا جب 30 جون 1860 کو آکسفورڈ میں برطانوی انجمن برائے ترقی سائنس کی میٹنگ ہوئی۔ رابرٹ چیمبرز نے ہکسلے کو شریک ہونے پر اصرار کیا۔ تاہم ہکسلے کو علم نہیں تھا کہ چیمبرز نے ہی وہ مشہور کتاب لکھی ہے کہ جس پر بحث ہونی تھی۔ ڈارون حسبِ معمول غائب تھا۔ میٹنگ کا مقام آکسفورڈ کا زوآلوجیکل میوزیم تھا۔ ایک ہزار سے زیادہ افراد جمع تھے اور کئی سو افراد کو دروازے سے لوٹا دیا گیا۔ لوگوں کو علم تھا کہ کوئی اہم بات ہونے والی ہے۔ تاہم انہیں پہلے دو گھنٹے نیویارک یونیورسٹی کے جان ولیم ڈریپر کی طویل اور بیزار کر دینے والی تقریر سننی پڑی جس میں اس نے اس نے یورپ کی ذہانت کو ڈارون کے نظریات کی رو سے جانچا۔
آخرکار آکسفورڈ کا بشپ سیموئل ولبرفورس تقریر کو اٹھا۔ ولبرفورس کے کان پہلے سے ڈارون کے مخالف رچرڈ اوون نے اچھی طرح بھر دیے تھے (یا اندازہ یہی ہے) کہ وہ ایک روز قبل اس سے ملنے ولبرفورس کے گھر گیا تھا۔ اس سے آگے کے واقعات زیادہ واضح نہیں۔ تاہم مقبولِ عام خیال یہ ہے کہ ولبرفورس نے دورانِ تقریر ہکسلے کا رخ کر کے کہا وہ اپنے دادا یا دادی میں سے کس کی نسبت سے بندروں سے رشتہ جوڑنا پسند کرتا ہے۔ اگرچہ یہ محض ایک طنز تھا لیکن ہکسلے نے اسے چیلنج سمجھا۔ ہکسلے کے اپنے الفاظ میں، اس نے اپنے ساتھ بیٹھے بندے کو سرگوشی کی، ‘خدا نے آج اسے میرے حوالے کر دیا ہے۔‘
تاہم دیگر لوگوں کے بقول ہکسلے غصے اور رنج سے کانپنے لگا۔ تاہم اس کا جواب یہ تھا کہ وہ کسی ایسے بندے سے نسبت جوڑنے سے کہ جو اپنی ذاتی جہالت کو ایسے سنجیدہ سائنسی مقام پر تماشا بنانے کے لیے استعمال کرے، کی بجائے بندر سے تعلق جوڑنا زیادہ پسند کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ تبصرہ انتہائی بیہودہ سمجھا گیا اور ہلڑ مچ گیا۔ ایک خاتون بیہوش ہو گئی۔ رابرٹ فٹزرائے جو کہ ڈارون کے ساتھ 25 سال قبل بیگل کے سفر پر گیا تھا، نے بائبل اٹھائی اور لوگوں کو بائبل کے واسطے دے کر ٹھنڈا کرنے لگا (فٹزرائے ان دنوں نئے بنے ہوئے موسمیات کے محکمے کے سربراہ کے طور پرطوفانوں کے بارے مقالہ پیش کرنے آیا تھا)۔ بعد میں دونوں جانب نے اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کیا۔
بعد میں 1871 میں ڈارون نے اپنی کتاب The Descent of Man میں انسانوں کا تعلق بندروں سے جوڑا۔ یہ کافی نڈر تبصرہ تھا کہ اس وقت تک اس بارے کوئی بھی فاسل ثبوت نہیں مل سکا تھا۔ اس وقت تک کے قدیم ترین انسان جرمنی سے ملنے والے نیندرتھال کی جبڑے اور کچھ ہڈیاں تھیں۔ زیادہ تر محققین نے ان کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ یہ کتاب پچھلی کتاب سے بھی زیادہ متنازعہ ثابت ہوئی مگر اس وقت تک لوگ اتنے سمجھدار ہو چکے تھے کہ زیادہ شور و غل نہیں مچا۔
اپنے آخری برسوں میں ڈارون نے دیگر موضوعات پر کام جاری رکھا اور فطری چناؤ پر کم ہی بات کی۔ بہت زیادہ عرصے تک وہ پرندوں کی بیٹ کا عمیق معائنہ کرتا رہا تاکہ جان سکے کہ براعظموں کے درمیان کیسے بیج پھیلتے ہیں۔ اس نے کئی سال کیڑوں کو سمجھنے پر خرچ کیے۔ ایک تجربے میں اس نے کیڑوں کو پیانو بجا کر دکھایا تاکہ ان پر تھرتھراہٹ اور آواز کا اثر جان سکے۔ سب سے پہلے اسی نے ثابت کیا کہ کیڑے ہمارے زمین کی زرخیزی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ‘ان سے زیادہ شاید ہی کسی اور جانور نے کرہ ارض کی تاریخ میں اس سے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہو‘، اس نےاپنی کتاب The Formation of Vegetable Mould Through the Action of Worms (1881) میں لکھا۔ یہ کتاب اس کی پہلی کتاب سے کہیں زیادہ مقبول ہوئی۔ ڈارون کی دوسری کتب On the Various Contrivances by which British and Foreign Orchids Are Fertilised by Insects (1882), Expressions of the Emotions in Man and Animals (1872) شامل ہیں۔ آخری کتاب کی 5٫300 جلدیں پہلے روز فروخت ہوئیں۔ اس کے علاوہ اس نے The Effects of Cross and Self Fertilization in the Vegetable Kingdom (1876) لکھی جس میں اس نے مینڈل کے کام سے ملتے جلتے تجربات کیے لیکن اس کے معیار کو نہ پہنچ سکا۔ اس نے ایک اور کتاب The Power of Movement in Plants بھی لکھی۔ اس کے علاوہ اس نے باہمی افزائشِ نسل پر کافی کام کیا کیونکہ یہ اس کی ذاتی دلچسپی تھی۔ اس کی شادی اس کی اپنی عم زاد سے ہوئی تھی اور اس کے خیال میں اس کے بچوں کے کئی پیدائشی مسائل کی وجہ بھی یہی تھی۔
ڈارون کو اس کی زندگی میں ہی تکریم مل گئی تھی۔ تاہم اس کی وجہ اس کی کتاب On the Origin of Species یا The Descent of Man نہیں بنیں۔ جب رائل سوسائٹی نے اسے کاپلی تمغہ دینے کا فیصلہ کیا تو وہ اس کے ارتقائی نظریات کی بجائے جغرافیہ، علم الحیوانات اور علم النباتات پر کیے گئے کام پر دیا گیا۔ لینائن سوسائٹی نے بھی اسے تمغہ دیا لیکن اس کے نظریات سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی۔ اسے کبھی نائٹ کا خطاب نہ مل سکا لیکن اسے ویسٹ منسٹر ایبی میں دفن کیا گیا اورا س کے ساتھ والی قبر نیوٹن کی ہے۔ ڈاؤن میں اپریل 1882 کو ڈارون کا انتقال ہوا۔ دو سال بعد مینڈل بھی چل بسا۔
1930 اور 1940 کی دہائی سے قبل ڈارون کے نظریات مقبولِ عام نہ ہو سکے۔ مقبولیت کی وجہ Modern Synthesis کا نظریہ تھا جو ڈارون اور مینڈل کے علاوہ دیگر سائنس دانوں کے نظریات کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ مینڈل کو بھی بعد از مرگ شہرت نصیب ہوئی۔ 1900 میں یورپ میں کام کرنے والے تین سائنس دانوں نے تقریباً بیک وقت مینڈل کے کام کو تلاش کیا۔ اس کی وجہ کچھ یہ تھی کہ ایک ولندیزی ہیوگو ڈی وریز نے مینڈل کے کام کو اپنے نام سے منسوب کیا تو اس کے مخالف سائنس دان نے فوراً بھانڈہ پھوڑ دیا کہ اصل کام مینڈل نے کیا تھا۔
اب دنیا یہ سمجھنے کے لیے تیار ہو رہی تھی کہ انسان کیسے موجودہ حالت تک پہنچا۔ عجیب بات دیکھیے کہ بیسویں صدی کے آغاز تک دنیا کے ذہین ترین سائنس دان ہمیں یہ نہ بتا سکتے تھے کہ بچے کہاں سے آتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ وہی لوگ تھے جن کے خیال میں سائنس اپنے بامِ عروج کو پہنچ چکی تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
26 زندگی کا مادہ​
اگر آپ کے والدین نے عین اسی لمحے، شاید نینو سیکنڈ کی حد تک درست لمحے جنسی ملاپ نہ کیا ہوتا تو آج آپ یہاں نہ ہوتے۔ اسی طرح ان کے والدین، والدین کے والدین اور اسی طرح ان سے پیچھے تمام تر والدین پر بھی یہ اصول لاگو ہوتا ہے۔
اب ذرا تاریخ میں پیچھے کی جانب نظر دوڑائیے۔ آپ آج سے آٹھ نسل پیچھے جائیں تو وہ دور چارلس ڈارون اور ابراہم لنکن کی نسل سے ہوگا اور آپ کے شجرے میں موجود کم از کم 250 افراد براہِ راست منسلک ہو چکے ہوں گے کہ ان کے بروقت جنسی ملاپ سے آپ وجود میں آئے۔ شیکسپیئر تک جانے تک آپ کے خاندان میں 16٫384 افراد ملوث ہو چکے ہوں گے جن کے جنسی ملاپ سے آپ کی نسل آپ تک پہنچی۔
بیس نسل پیچھے جائیں تو ایسے افراد کی تعداد 10٫48٫576 ہو چکی ہوگی۔ اس سے 5 نسل مزید پیچھے یہ تعداد 3٫35٫54٫432 ہو چکی ہوگی۔ 30 نسل پیچھے جائیں تو آپ کے آباؤ اجداد کی کل تعداد ایک ارب سے زیادہ ہو چکی ہوگی۔ یاد رہے کہ یہ تمام افراد براہ راست آپ کے والدین اور ان کے والدین ہوں گے، ان کے عم زاد، چچا، خالائیں، ماموں وغیرہ جیسے رشتے یہاں شمار نہیں ہو رہے۔ 64 نسل پیچھے جانے کا مطلب ہے کہ ہم رومن دور تک پہنچ رہے ہیں اور اس وقت یہ تعداد کھربوں تک پہنچ جائے گی۔ تاہم یہاں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تعداد تو کرہ ارض پر پیدا ہونے والے آج تک کے تمام تر انسانوں سے زیادہ ہے۔
اس طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ آپ کو یہ بات مان لینی ہوگی کہ آپ کی نسل بالکل ہی خالص نہیں۔ محرمات کے ساتھ مباشرت (مغربی معاشرے میں اپنے عم زاد کے ساتھ شادی کو محرمات کے ساتھ مباشرت کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔ شاید یہ تصور وہیں سے آیا ہے، مترجم) کے بغیر آپ یہاں تک نہ پہنچ سکتی۔ اتنے لاکھوں یا کروڑوں آبا و اجداد میں سے بہت دفعہ ایسا ہوگا ہوگا کہ مادری جانب کے کسی رشتہ دار نے پدری جانب کے کسی رشتہ دار سے بچے پیدا کیے ہوں گے۔ اگر آپ آج اپنے ہی ملک اور اپنی ہی نسل کے کسی انسان کے ساتھ رہتے ہیں تو اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ آپ دونوں کہیں نہ کہیں سے رشتہ دار ضرور ہوں گے۔ اب اگر آپ کسی بس میں ہوں یا پارک یا کیسے کیفے میں، تو آپ کے آس پاس موجود زیادہ تر لوگ آپ کے کسی نہ کسی طرح ضرور رشتہ دار نکلیں گے۔ جب کوئی بندہ یہ شیخی بگھارے کہ اس کی نسل شیکسپیئر سے نکلی ہے تو آپ بھی بلا جھجھک کہہ دیں کہ آپ کا خاندان بھی اسی سے متعلق ہے۔ بنیادی طور پر ہم سبھی ایک ہی خاندان سے متعلق ہیں۔
اس کے علاوہ ہم ایک دوسرے سے انتہائی حد تک مشابہہ ہیں۔ اگر آپ اپنے جینز کو کسی دوسرے انسان سے ملائیں تو 99.9 فیصد جینز ایک ہوں گے۔ 0.1 کا فرق ہی ہے جو ہمیں ہماری انفرادی شخصیت عطا کرتا ہے۔ انسانی جینوم پر حالیہ برسوں میں بہت کام ہوا ہے۔ مگر انسانی جینوم جیسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اگر ہر انسان کا جینوم سو فیصد ایک جیسا ہوتا تو ہم سبھی ایک جیسے دکھائی دیتے۔ جینیاتی اعتبار سے یہ انتہائی چھوٹا سا فرق ہی اصل اہمیت رکھتا ہے جو ہمیں بطور انسان مختلف اور بطور نوع ایک جیسا بناتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ جینوم کیا ہے اور جین کیا ہوتے ہیں؟ چلیے، خلیے سے شروع کرتے ہیں۔ خلیے کے اندر مرکزہ ہوتا ہے اور مرکزے کے اندر کروموسوم۔ انسانی خلیے کے مرکزے میں کروموسومز کی تعداد 46 ہوتی ہے جن میں سے 23 ماں اور 23 باپ کی طرف سے آپ کو ملتے ہیں۔ ہر کروموسوم پیچیدگی کا شاندار نمونہ ہوتا ہے۔ انتہائی معمولی تبدیلیوں کے سوا ہر خلیے میں موجود کروموسوم 99.999 فیصد تک مماثل ہوتے ہیں (استثنائی خلیوں میں خون کے سرخ خلیے، کچھ مدافعتی خلیے اور تولیدی خلیے ہوتے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر پورے جینیاتی مواد کو نہیں اٹھائے پھرتے)۔ کروموسومز میں ہمیں بنانے اور زندہ رکھنے کے سلسلے میں مکمل ہدایات موجود ہوتی ہیں۔ کروموسوم ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ یعنی ڈی این اے کے لمبے لمبے دھاگوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اسے عرفِ عام میں ‘کرہ ارض کا سب سے غیر معمولی مالیکیول‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ڈی این اے کے وجود کا واحد مقصد اپنی نقلیں تیار کرنا ہے۔ ڈی این اے کی بہت بڑی مقدار ہمارے اندر موجود ہوتی ہے۔ ہر خلیے میں موجود کروموسوم کو اگر سیدھا لکیر کی شکل میں لایا جائے تو دو میٹر طویل لکیر بنے گی۔ ڈی این اے کی ہر لکیر میں 3.2 ارب الفاظ کے برابر ہدایات لکھی ہوتی ہیں۔ ان سے بننے والی ممکنہ اشکال کی تعداد 101,92,00,00,000 ہوتی ہے جو اتنی بڑی تعداد ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے سے شرطیہ مختلف ہوتا ہے۔ یہ تعداد اتنی بڑی ہے کہ 1 کے پیچھے 3 ارب صفر لگے ہوئے ہیں۔ ڈی نوو کے الفاظ میں ‘اگر آپ اس ہندسے کو لکھنا چاہیں تو عام حجم کی 5٫000 کتب درکار ہوں گی۔ ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو دیکھیں۔ آپ کے جسم میں موجود خلیوں کی تعداد 10٫000 کھرب ہے اور ہر خلیے میں دو میٹر جتنے کروموسوم موجود ہیں۔ شاید آپ کو پھر اندازہ ہو کہ آپ کا وجود بھی ایک معجزہ ہے۔ اگر آپ کے جسم کے تمام تر ڈی این اے کو سیدھی لکیر میں پرویا جائے تو زمین سے چاند تک کئی بار کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ کے جسم میں ڈی این اے لگ بھگ 20 ارب کلومیٹر کے برابر ہے۔
آپ کے جسم کو ڈی این اے بنانے سے خاص شغف ہے اور اس کے بغیر آپ زندہ بھی نہیں پاتے۔ تاہم ڈی این اے بذاتِ خود زندہ نہیں۔ کوئی بھی مالیکیول زندہ نہیں ہوتا اور ڈی این اے تو بطورِ خاص زندہ نہیں۔ ماہرِ جینیات رچرڈ لیونٹن کے مطابق، ‘زندہ کائنات میں ڈی این اے ان مالیکیولوں میں سرِفہرست ہے کہ جو کسی قسم کے تعامل کے قابل نہیں ہوتے۔‘ اسی لیے ڈی این کو برسوں پرانے خون کے نشانات سے اور نیندرتھال کی قدیم اور بوسیدہ ہڈیوں سے بھی کامیابی سے نکالا جا سکتا ہے۔ شاید اسی لیے سائنس دانوں کو یہ جاننے میں اتنا طویل عرصہ لگا کہ زندگی کی بنیاد ہی ڈی این اے ہے۔
ڈی این اے کے بارے ہماری معلومات آپ کی توقع سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ 1869 میں جب سوئس سائنس دان جان فریڈریک میشر نے جرمنی کی یونیورسٹی میں کام کر رہا تھا تو اس نے ڈی این اے دریافت کیا۔ اس وقت وہ جراحی میں استعمال ہونے والی پٹیوں پر لگی ہوئی پیپ کا خوردبینی جائزہ لے رہا تھا کہ اس نے ایسا مادہ دیکھا جو وہ شناخت نہ کر سکا اور اسے نیوکلین کا نام دیا (چونکہ یہ مادہ مرکزے میں تھا)۔ اس وقت تو میشر نے زیادہ توجہ نہیں دی لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات اس کے ذہن میں موجود رہی۔ 23 سال بعد اپنے چچا کو خط لکھتے ہوئے اس نے خیال ظاہر کیا کہ شاید یہ مالیکیول ہی وراثت کے ذمہ دار ہوں۔ تاہم یہ خیال اتنا قبل از وقت تھا کہ اُس وقت کسی نے توجہ نہیں دی۔
اگلی نصف صدی کے زیادہ تر حصے میں یہ خیال زوروں پر رہا کہ وراثت میں ڈی این کا کردار انتہائی معمولی ہوگا۔ اس کی وجہ اس کا انتہائی سادہ ہونا تھا۔ اس میں کل چار بنیادی اجزاء ہیں جنہیں نیوکلیوٹائیڈ کہا جاتا ہے۔ یعنی زندگی کی کتاب چار الفاظ سے لکھی گئی ہے۔ اب سوچیں کہ زندگی جیسی پیچیدہ چیز اتنی سادہ زبان سے کیسے لکھی جا سکتی ہے (اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے مورس کوڈ میں آپ نقطوں اور وقفوں کو ملا کر الفاظ بناتے ہیں، ویسے ہی)۔ اس وقت تک ڈی این اے کا کوئی کام معلوم نہیں ہو پایا تھا۔ اس وقت تک سمجھا جاتا تھا کہ ڈی این اے مرکزے میں بیکار بیٹھا کروموسومز سے جڑا رہتا ہے اور شاید ہی کچھ کرتا ہو۔ اس وقت یہ خیال تھا کہ شاید مرکزے میں موجود پروٹین ہی اصل اہمیت کی حامل تھیں۔
تاہم ڈی این اے کو نظرانداز کرنے میں دو قباحتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ اس کی بہت بڑی مقدار، لگ بھگ دو میٹر جتنی طوالت ہر خلیے میں موجود تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ خلیوں کے نزدیک کسی نہ کسی اعتبار سے اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ دوسرا یہ بھی کہ بار بار ڈی این اے گھوم پھر کر سامنے آتا تھا۔ اس سلسلے میں بطورِ خاص دو تجربات بہت اہم تھے کہ ایک میں نمونیا اور دوسرے میں بیکٹیریا کو متاثر کرنے والے وائرس استعمال کیے گئے تھے اور دونوں میں ڈی این اے نے اپنی اہمیت کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ جو عام نظریے کے برعکس تھا۔ بہرحال ان تجربات سے واضح ہوا کہ ڈی این اے کسی نہ کسی طرح پروٹین بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور زندگی کے لیے پروٹین کی اہمیت انتہائی بنیادی ہے۔ تاہم پروٹین مرکزے کے باہر بنتی ہیں جو کہ ڈی این اے سے اتنا دور ہوتی ہیں کہ ڈی این اے انہیں براہ راست نہیں بنا سکتا۔
کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ ڈی این اے اپنے پیغامات کو کیسے پروٹین تک بھیجتا ہے۔ اب ہمیں اس کا جواب مل چکا ہے کہ یہ کام آر این اے یعنی رائبو نیوکلیک ایسڈ کرتا ہے اور ڈی این اے اور پروٹین کے درمیان ترجمان کا کام کرتا ہے۔ حیاتیات کا یہ بہت عجیب پہلو ہے کہ ڈی این اے اور پروٹین ایک ہی زبان نہیں جانتے۔ لگ بھگ 4 ارب سال سے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے اور مل کر کام کرتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے، جیسے ایک سپینش بولتا ہو تو دوسرے کی زبان ہندی ہو۔ اس لیے دونوں کے رابطے کی خاطر آر این اے کا ہونا لازمی ہے۔ اس طرح آر این اے مترجم کی طرح کام کرتے ہوئے ڈی این اے کی ہدایات کو پروٹین کی زبان میں منتقل کرتا ہے تاکہ پروٹین انہیں سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہو سکیں۔
تاہم واپس اپنی اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں جہاں 1900 کے ابتداء میں ابھی ہمیں ان چیزوں کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں تھی اور نہ ہی وراثت سے منسلک کسی بات کا علم تھا۔
اس سلسلے میں کسی انتہائی ذہین بندے کا تجربات پر آمادہ ہونا لازمی تھا کہ جس کی مدد سے تحقیقات آگے بڑھ پاتیں۔ حسنِ اتفاق سے ایسا ہی ایک شخص اسی دور میں یہ کام کرنے کو تیار ہو رہا تھا اور وہ اس کام کو کرنے کا اہل بھی تھا۔ اس کا نام تھامس ہنٹ مورگن تھا اور 1904 میں کروموسوم پر یادگار تجربات شروع کر دیے۔ چار سال قبل مینڈل کے تجربات دوبارہ منظرِعام پر آئے تھے اور ابھی جین کو بطور لفظ قبول کیے جانے میں دس سال باقی رہتے تھے۔
1888 میں کروموسوم اتفاق سے دریافت ہوئے کہ وہ بڑی آسانی سے رنگ قبول کر لیتے تھے اور خوردبین میں بہ آسانی دکھائی دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کا نام کروموسوم رکھا گیا۔ اس صدی کے آغاز سے سائنس دان اس بارے کافی پرامید تھے کہ کروموسوم ہی وراثتی خصوصیات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن کسی کو اس بات کا سو فیصد یقین نہیں تھا کہ ایسا ہی ہوتا ہے یا ایسا کیسے ہوتا ہے۔
مورگن نے تجربے کی غرض سے ایک نازک اور ننھی سی مکھی چنی جسے Drosophila melanogaster یعنی عام مکھی کہا جاتا ہے۔ ہم اس مکھی کو اس وجہ سے جانتے ہیں کہ اسے ہمارے مشروبات میں ڈوب مرنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ لیبارٹری میں اس کے استعمال کو پسند کیا جاتا ہے کہ ان کی افزائشِ نسل اور پرورش پر کوئی خرچہ نہیں آتا اور دودھ کی خالی بوتلوں میں لاکھوں مکھیاں آسانی سے رہ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دس دن میں انڈے سے بالغ ہو جاتی ہیں اور ان میں کل چار کروموسوم پائے جاتے ہیں جس سے تحقیق میں بہت سہولت رہتی ہے۔
ایک چھوٹی سی لیبارٹری (جسے مکھیوں کا کمرہ کہا جاتا تھا) میں کام شروع کیا۔ یہ لیبارٹری نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی میں واقع تھی۔ سو مورگن اور اس کے ساتھیوں نے لاکھوں کی تعداد میں ان مکھیوں کی افزائشِ شروع کر دی۔ ہر مکھی کو پکڑ کر پھر محدب عدسے کی مدد سے جانچا جاتا کہ ان میں کسی قسم کی وراثتی تبدیلیاں تو نہیں ہو رہیں۔ چھ سال تک یہ لوگ ان مکھیوں میں کسی قسم کی میوٹیشن لانے میں مصروف رہے اور ہر ممکن طریقہ اپنایا۔ ان مکھیوں پر تابکاری اور ایکس رے شعاعیں ڈالی گئیں، انہیں تیز روشنی اور تاریکی میں پالا گیا، ان کو بڑے تنوروں میں آہستہ آہستہ گرم کیا گیا، انہیں مرکز گریز مشینوں میں گھمایا گیا، لیکن ہر طرف سے ناکامی ہوئی۔ مایوس ہو کر مورگن اپنے تجربات کو ختم کرنے والا تھا کہ اچانک ایک ایسی میوٹیشن واقع ہوئی جو اگلی نسل کو منتقل ہو سکتی تھی۔ اس مکھی کی آنکھیں سرخ ہونے کی بجائے سفید تھیں۔ اس طرح اس مکھی کو استعمال کرتے ہوئے مورگن اور اس کے ساتھیوں مکھیوں کی مختلف نسلوں میں مختلف تبدیلیاں لائے اور کامیابی سے ان تبدیلیوں کا تجزیہ کیا۔ اس طرح انہوں نے انفرادی کروموسوم اور مخصوص خصوصیات کے مابین تعلق کو دریافت کیا۔ آخرکار انہی کی محنت سے ثابت ہوا کہ وراثت کے عمل میں کروموسوم مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
تاہم اب ایک اور مسئلہ پیدا ہوا کہ یہ عجیب و غریب جین اور ان کو بنانے والے ڈی این اے کیا ہیں۔ ان کو الگ کر کے ان کا تجزیہ کرنا بہت زیادہ پیچیدہ کام نکلا۔ 1933 میں جب مورگن کو اس کے کام کے لیے نوبل انعام دیا گیا تو اس وقت بہت سارے محققین کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ آیا جین ہیں بھی سہی یا نہیں۔ ایک بار مورگن نے لکھا، ‘اس بات پر کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہے کہ جین کیا ہیں اور آیا وہ حقیقی ہیں یا فرضی۔‘ بظاہر یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ سائنس دان زندگی کے بارے اتنی بنیادی بات کو قبول کرنے میں کتنے متذبذب تھے۔ آج ہم یاداشت اور خیال کے بارے عین اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ تو یقین ہے کہ یاداشت اور خیال موجود ہیں، لیکن ان کی شکل کیا ہوگی، اس بارے کچھ نہیں جانتے۔ طویل عرصے تک جین کے بارے یہی مشکلات تھیں۔ مورگن کے رفقائے کاروں کے نزدیک یہ خیال کہ اپنے جسم سے ایک خلیہ نکال کر اس میں موجود کروموسوم اور جین کا مشاہدہ کرنا اتنا ہی احمقانہ خیال تھا جتنا کہ یہ سوچنا کہ ہم اپنی ایک سوچ کو پکڑ کر خوردبین سے اس کا تجزیہ شروع کر دیں۔
تاہم یہ بات سچ تھی کہ خلوی تقسیم کے علم میں کروموسوم کا کچھ نہ کچھ عمل دخل تھا۔ آخرکار 1944 میں 15 سالہ محنت کے بعد مین ہٹن کے راک فیلر ادارے کی ٹیم نے کینیڈین اوسوالڈ ایوری کی زیرنگرانی ایک انتہائی پیچیدہ تجربے کی مدد سے بے ضرر بیکٹیریا کا ایک دوسرے نقصان دہ بیکٹیریا کے ڈی این اے سے ملاپ کر کے اسے مستقل طور پر مضر بنا دیا۔ اس طرح یہ بات ثابت ہو گئی کہ ڈی این اے محض ایک بیکار مالیکیول نہیں بلکہ وارثت کے لیے اہم چیز ہے۔ بعد میں آسٹریائی نژاد بائیوکیمسٹ اِروِن چارجیف نے کہا کہ ایوری کی دریافت دراصل دو نوبل انعاموں کی مستحق تھی۔
بدقسمتی سے ایوری کو اپنے ہی ادارے میں ایک رفیقِ کار کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کا نام الفریڈ مرسکی تھا اور اس نے ہر جگہ نہ صرف اس کے کام کو جھٹلایا بلکہ اپنی پوری کوشش کی کہ ایوری کو نوبل انعام نہ مل سکے۔ اس سلسلے میں اس نے سٹاک ہوم کے کیرولینسکا ادارے میں اپنے تعلقات استعمال کیے۔ اس وقت تک ایوری کی عمر 66 برس ہو چکی تھی اور اس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ مرسکی کا سامنا نہ کر سکنے کی وجہ سے اس نے اپنے عہدے سے استعفٰی دیا اور منظرِ عام سے غائب ہو گیا۔ تاہم دنیا بھر میں ہونے والے مزید تجربات اس کے نتائج کو درست ثابت کر رہے تھے اور جلد ہی ڈی این اے کے ڈھانچے کو دریافت کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی۔
1950 کی دہائی میں یہ بات تقریباً یقینی سمجھی جاتی تھی کہ کالٹیک کے لائنس پاؤلنگ نے ہی ڈی این اے کی ساخت کو دریافت کرنا ہے۔ مالیکیولوں کی ساخت جاننے میں مہارتِ تامہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اور ایکس رے کرسٹلوگرافی کا بانی بھی تھا۔ یہی تکنیک ڈی این اے کی ساخت جاننے میں کلیدی اہمیت کی حامل تھی۔ اپنے انتہائی بہترین کیریئر میں اس نے دو نوبل انعام جیتے (پہلا انعام 1954 میں کیمسٹری میں اور دوسرا 1962 میں امن کا) لیکن کسی نامعلوم وجہ سے وہ اس خیال کی جانب مائل ہو گیا کہ ڈی این اے کی ساخت میں دو لڑیاں نہیں بلکہ تین لڑیاں ہیں اور اس طرح وہ اپنے مقصد سے دور ہوتا گیا۔ اس دریافت کا سہرہ برطانیہ کے چار سائنس دانوں کے سر بندھا جو نہ تو ایک ٹیم تھے اور نہ ہی ایک دوسرے سے بات کرتے تھے اور اس شعبے میں زیادہ تر اناڑی بھی تھے۔
ان چاروں میں سے سب سے زیادہ سائنسی پسِ منظر رکھنے والا بندہ ماؤریس ولنکنز تھا جس نے دوسری جنگِ عظیم میں ایٹم بم کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔ روزالنڈ فرینکلن اور فرانسز کرک نے برطانوی حکومت کے لیے کام کیا، کرک نے پھٹنے والی بارودی سرنگوں اور فرینکلن نے کوئلے کی کانوں میں کام کیا۔
ان میں سب سے زیادہ عجیب شخصیت جیمز واٹسن کی تھی جو امریکی تھا۔ جیمز نے یونیورسٹی آف شکاگو میں 15 سال کی عمر میں داخلہ لیا اور 22 سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کر لی اور پھر کیمبرج کی مشہورِ زمانہ کیونڈش لیب سے منسلک ہو گیا۔ 1951 میں اس کی عمر 23 سال تھی اور اس کے بال بکھرے ہوتے تھے اور انتہائی شرمیلا بندہ تھا۔
کرک عمر میں 12 سال بڑا اور ابھی تک ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے محروم تھا۔ واٹسن کے بقول کرک ضدی، بات بات پر بحث کرنے والا اور بے صبرا ہونے کے علاوہ زیادہ پسند بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ اس نے بائیوکیمسٹری میں کوئی تعلیم نہیں پائی تھی۔
انہوں نے یہ بات جان لی تھی کہ اگر آپ ڈی این اے کی ساخت کو جان لیتے ہیں تو اس کا کام بھی پتہ چل جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ یہ کام محض سوچنے سے ہی ہو جائے اور اگر کچھ کرنا بھی پڑے تو محض اتنا کیا جائے جو لازم ہو۔ واٹسن نے اپنی سوانح حیات The Double Helix میں لکھا، ‘میری خواہش تھی کہ جین کا حل تلاش کرنے کے لیے مجھے ذرا سی بھی کیمسٹری نہ پڑھنی پڑے۔‘ انہیں ڈی این اے پر کام کے لیے کہا تو کیا جاتا البتہ انہیں ایک بار اس کام سے روکا ضرور گیا تھا۔ واٹسن بظاہر کرسٹلوگرافی کی تکنیک پر عبور حاصل کر رہا تھا اور کرک کے ذمے ایکس رے کی مدد سے بڑے مالیکیولوں کی ساخت جاننا تھا۔
اگرچہ ڈی این اے کے اسرار کو حل کرنے کی زیادہ تر شہرت کرک اور واٹسن کو ملتی ہے مگر ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ ان کے مخالفین کا کام تھا۔ ابتدا میں ان سے کہیں آگے ان کے مخالفین تھے جو لندن کے کنگز کالج میں کام کرتے تھے۔ یہاں ہم ولکنز اور فرینکلن کی بات کر رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والا ولکنز خاموش طبعیت اور الگ تھلگ رہنے والا انسان تھا۔ 1998 میں پی بی ایس کی ڈاکومنٹری جو ڈی این اے کی ساخت کی دریافت پر بنائی گئی تھی (اسی کام کی وجہ سے اسے کرک اور واٹسن کے ساتھ نوبل انعام دیا گیا تھا)، نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا۔
ان سب میں فرینکلن انتہائی پراسرار شخصیت تھی۔ واٹسن نے اپنی کتاب The Double Helix میں لکھا کہ فرینکلن انتہائی غیر ذمہ دار، خفیہ رہنے والی، انتہائی حد تک غیر دوستانہ اور انتہائی غیر جاذبِ نظر تھی۔ اس کے خیال میں، ‘اگر فرینکلن اپنے لباس پر ذرا سی بھی توجہ دیتی تو بہت خوبصورت دکھائی دیتی۔‘ لیکن فرینکلن اس معاملے میں انتہائی سخت تھی اور سرخی تک نہیں لگاتی تھی۔
لیکن ڈی این کی ممکنہ ساخت کے بارے دنیا بھر میں سب سے بہترین تصاویر فرینکلن کی لی ہوئی تھیں جو اس نے ایکس رے کرسٹلوگرافی کی تکنیک سے بنائی تھیں۔ اس تکنیک کا بانی لائنس پاؤلنگ تھا۔ کرسٹلوگرافی کی مدد سے کرسٹل میں موجود ایٹموں کی تصویر کشی کی جاتی ہے لیکن ڈی این اے کے مالیکیول کا معاملہ بہت ٹیڑھا تھا۔ صرف فرینکلن ہی اس سلسلے میں اچھے نتائج پا رہی تھی لیکن ولکنز کی بیچارگی دیکھیے کہ فرینکلن نے یہ نتائج اسے دکھانے سے یکسر انکار کر دیا۔
اگر فرینکلن اپنے نتائج کو کسی کو دکھانا نہیں چاہتی تھی تو اس کا قصور بھی نہیں تھا۔ 1950 کی دہائی تک کنگز میں خواتین محققین کو ناپسند کیا جاتا تھا۔ چاہے وہ جتنی بھی تجربہ کار ہوں یا کامیاب ہوں، انہیں کالج کے سینئر والے کامن روم میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ اپنا کھانا تک جس جگہ کھاتی تھیں، اسے واٹسن نے بدبودار جیل سے مشابہہ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ نہ صرف اسے کہا جاتا بلکہ اس پر کافی دباؤ بھی تھا کہ وہ اپنے نتائج کو دیگر تین مردوں کے ساتھ شیئر کرے۔ کرک کے اپنے الفاظ میں ‘میں ہمیشہ اسے اپنے سے کم تر سمجھتا تھا۔‘ ان تین میں سے دو کا تعلق ایک مخالف ادارے سے تھا اور تیسرا کھلے عام ان دو کی حمایت کرتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے فرینکلن اپنے نتائج کو ہمیشہ تالے میں بند رکھتی تھی۔
ولکنز اور فرینکلن کی اس چپقلش کا فائدہ کرک اور واٹسن نے اٹھایا۔ اگرچہ یہ دونوں ولکنز کے شعبے میں بے شرمی سے مداخلت کر رہے تھے لیکن پھر بھی ولکنز نے ان کا ساتھ دیا جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ فرینکلن کا رویہ روز بروز عجیب ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے نتائج سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ ڈی این اے کی ساخت ہیلکس یعنی بل دار ہے مگر اس نے ہمیشہ یہی اصرار کیا کہ ایسا نہیں۔ 1952 کے گرما میں ولکنز کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث بننے والا فرینکلن کا نوٹس دیکھیے جو اس نے کالج کے شعبہ طبعیات کے باہر لگایا، ‘افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ آج بروز جمعہ، 18 جولائی 1952 کو ڈی این اے کے ہیلکس کی موت واقع ہو چکی ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر ایم ایچ ایف ولکنز مرحوم کے بارے بات کریں گے۔‘
ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کے بعد جنوری 1953 میں ولکنز نے فرینکلن کی اجازت اور علم کے بغیر واٹسن کو اس کی بنائی ہوئی تصاویر دکھائی۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی اہم مدد تھی جو واٹسن کو ملی۔ کئی سال بعد واٹسن نے کہا کہ یہ کلیدی واقعہ تھا اور اسی سے ہم آگے بڑھے۔ ڈی این اے کی بنیادی ساخت سے واقفیت اور اس کی شکل کے مختلف پہلوؤں سے واقفیت کے بعد واٹسن اور کرک کا کام بہت آسان ہو گیا۔ ہر چیز ان کے سامنے آسان ہوتی گئی۔ ایک بار تو پاؤلنگ انگلینڈ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہو چکا تھا جہاں اگر ان کی ملاقات ہو جاتی تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا اور اس کا کام آسان ہو جاتا مگر یہ میکارتھی دور تھا۔ نیویارک میں ایئرپورٹ پر اسے روک کر اس کا پاس پورٹ ضبط کر لیا گیا کہ اس کی آزاد خیالی کے باعث اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔ کرک اور واٹسن کی خوش قسمتی دیکھیے کہ کیونڈش میں پاؤلنگ کا بیٹا کام کرتا تھا جو انتہائی سادگی سے انہیں مستقل اپنے باپ کے کام سے آگاہ کرتا رہتا تھا۔
تاہم پیچھے رہ جانے کے ڈر سے کرک اور واٹسن نے اپنی کاوشیں مزید تیز کر دیں۔ یہ بات عام ہو چکی تھی کہ ڈی این اے چار اجزا سے بنتا ہے جو ایڈی نین، گوانین، سائٹوسین اور تھائی مین کہلاتے ہیں۔ یہ اجزا ایک مخصوص ترتیب سے جڑتے ہیں۔ ان اجزا کو کارڈ بورڈ پر مختلف شکلوں میں کاٹ کر انہوں نے بالاخر جان لیا کہ یہ تمام اجزا کیسے جڑتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے جو نمونہ بنایا وہ شاید موجودہ سائنس میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس میں دھاتی پلیٹوں کو پیچوں کی مدد سے بل دار شکل میں جوڑا گیا تھا۔ انہوں نے ولکنز، فرینکلن اور دنیا بھر کو دعوت دی۔ ایک نظر میں ہی پتہ چل جاتا تھا کہ انہوں نے معرکہ سر کر لیا ہے۔ بے شک یہ انتہائی ذہین کام تھا چاہے انہیں فرینکلن کی مدد ملتی یا نہ ملتی۔
25 اپریل 1953 کو Nature میں واٹسن اور کرک نے 900 الفاظ کا مضمون بعنوان A Structure of Deoxyribose Nuvcleic Acid لکھا۔ اس کے ساتھ ولکنز اور فرینکلن کے مضامین الگ سے چھپے۔ اس وقت دنیا میں بہت سارے معرکے سر ہو رہے تھے۔ سر اینڈمنڈ ہیلری ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والا تھا اور ملکہ الزبتھ دوم کچھ عرصے بعد ملکہ بنی، اس لیے زندگی کے بنیادی راز کی دریافت کو توجہ نہ مل سکی۔ News Chronicle کے علاوہ اسے ہر جگہ نظر انداز کیا گیا۔
روزالنڈ فرینکلن کو نوبل انعام نہ مل سکا کہ اس کا انتقال 1958 میں محض 37 سال کی عمر میں بیضہ دانی کے کینسر سے ہو گیا تھا۔ نوبل انعام بعد از مرگ نہیں دیے جاتے۔ یہ کینسر یقینی طور پر ایکس رے کی زیادتی سے ہوا تھا جس سے بچا جا سکتا تھا۔ اس کی سوانحِ حیات کے مطابق فرینکلن نے شاید ہی کبھی سیسے کا لباس استعمال کیا ہو اور وہ بے جھجھک اکثر ایکس رے کی بوچھاڑ کے سامنے چلی جاتی تھی۔ اوسوالڈ ایوری کو بھی نوبل انعام نہ مل سکا مگر وہ اتنا زندہ رہا کہ اپنے کام کی قبولیت کو دیکھ سکے۔ اس کا انتقال 1955 میں ہوا۔
واٹسن اور کرک کی دریافت 1980 کی دہائی میں جا کر مصدقہ بنی۔ کرک نے اپنی ایک کتاب میں لکھا، ‘ہمارے بنائے ہوئے ڈی این اے کے نمونے کے درست ہونے کے امکان سے درست ہونے کے اچھے امکانات اور پھر درست کہلائے جانے میں 25 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔‘
ڈی این اے کی ساخت کے سمجھے جانے کے بعد جینیات میں ترقی تیز ہو گئی اور 1968 تک سمجھا جانے لگا کہ جینیات پر کام اب ختم ہونے والا ہے۔
جبکہ حقیقت میں یہ کام ابھی شروع ہوا تھا۔ آج بھی ڈی این اے کے بارے بہت کچھ ہمیں معلوم نہیں یا یوں کہہ لیں کہ اس کا بہت بڑا حصہ ہمیں کوئی کام کرتا نہیں دکھائی دیتا۔ ہمارے ڈی این اے کا لگ بھگ 97 فیصد حصہ بے معنی اور طویل لڑیوں پر مشتمل ہے۔ کہیں کہیں ایسے حصے ملتے ہیں جو اہم کاموں کو چلاتے ہیں۔ یہی جینز ہیں جو ابھی تک ہم سے پوشیدہ ہیں۔
جین محض پروٹین بنانے کی ہدایات ہوتے ہیں۔ یہ کام وہ انتہائی باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ اس کی تشبیہ عموماً پیانو سے دی جاتی ہے کہ ہر جین پیانو کے ایک سر کی مانند ہے جس سے ہمیشہ ایک ہی آواز آتی ہے۔ لیکن جیسے پیانو میں مختلف سروں کو ملا کر دھن تیار کی جاتی ہے، اسی طرح مختلف جین کو ملا کر بھی ان گنت نئے مجموعے بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی سے دنیا کی سب سے عجیب دھن بنی ہے جسے ہم انسانی جینوم کہتے ہیں۔
بعض اوقات یہ فرض کیا جاتا ہے کہ جینوم جسم کو بنانے اور چلانے والی ہدایات کا مجموعہ ہے۔ اس طرح کروموسوم ابواب کا کام دیتے ہیں اور جین پروٹین بنانے کی ہدایات۔ جن حروف کی مدد سے یہ ہدایات لکھی جاتی ہیں، وہ چار نیوکلیوٹائیڈ پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں ایڈی نین، تھائی مین، گوانین اور سائٹوسین کہا جاتا ہے۔ اپنے کام کے برعکس یہ کوئی عجوبے نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر گوانین پرندوں کی بیٹ میں بکثرت پایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام پڑا ہے۔
ڈی این اے کے مالیکیول کے بارے ہر کوئی جانتا ہے کہ بل دار سیڑھی کی شکل ہے۔ اسے ڈبل ہیلیکس کہا جاتا ہے۔ اس سیڑھی کے اطراف ایک خاص قسم کی چینی سے بنی ہیں جو ڈی آکسی رائبوز کہلاتی ہے۔ سارا ہیلکس ایک نیوکلیک ایسڈ ہے، اسی وجہ سے اس کا نام ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ پڑا۔ اس ‘سیڑھی‘ پر لگے ڈنڈے دو اساسی نوعیت کے ہوتے ہیں جو سیڑھی کی اطراف کو درمیان میں جوڑتے ہیں۔ ان کے ملاپ کی محض دو صورتیں ہوتی ہیں: گوانین کے ساتھ سائٹوسین اور تھائی مین کے ساتھ ہمیشہ ایڈینین ہوتی ہے۔ جس ترتیب سے یہ سیڑھی پر جڑے ہوتے ہیں، یہی چیز ڈی این اے کوڈ کہلاتی ہے۔ اسی کے تجزیے کا کام انسانی جینوم پراجیکٹ کہلایا۔
ڈی این اے کی اصل اہمیت اس کی اپنی نقلیں تیار کرنا ہے۔ جب بھی نیا ڈی این اے مالیکیول تیار کرنے کا وقت آتا ہے، سیڑھی کے دونوں کنارے درمیان سے ٹوٹ جاتے ہیں جیسے زپ کو کھولا گیا ہو۔ دونوں نصف پھر اپنے لیے جوڑے تلاش کرتے ہیں۔ چونکہ ہر نیوکلیوٹائڈ ایک مخصوص ساتھی سے مل سکتا ہے، اس لیے نئے ساتھی کی تلاش آسان ہو جاتی ہے۔ اگر ہمارے پاس ڈی این اے کا ایک نصف ہو تو ہم بڑی آسانی سے دوسرا نصف پا سکتے ہیں۔ اگر اس کی پہلی لڑی میں گوانین ہو تو ہمیں علم ہو جائے گا کہ ہماری مطلوبہ دوسرے نصف میں پہلی لڑی سائٹوسین کی ہونی چاہیے۔ اس طرح آپ یکے بعد دیگرے تمام جوڑے بنا سکتے ہیں اور ڈی این اے کا نیا مالیکیول تیار ہو جائے گا۔ یہی چیز قدرتی طور پر خود بخود ہوتی ہے مگر یہ عمل انتہائی سریع ہوتا ہے اور چند سیکنڈ میں پورا ہو جاتا ہے۔
ہمارا ڈی این اے تقریباً ہمیشہ اپنی بالکل درست نقل تیار کرتا ہے مگر بعض اوقات، یعنی دس لاکھ میں سے ایک بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدھ لفظ کہیں غلط ہو جاتا ہے۔ اسے سنگل نیوکلیوٹائڈ پولی مارفزم یا SNP کہا جاتا ہے۔ بائیو کیمسٹ اسے Snip کہتے ہیں۔ عموماً یہ snip بیکار ڈی این اے میں چھپ جاتا ہے اور اس سے کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں پہنچتا۔ تاہم بعض اوقات یہ کسی کارآمد جگہ پر واقع ہوتا ہے۔ اسی سے ہمیں بعض اوقات جینیاتی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ تاہم ان سے عین ممکن ہے کہ کوئی اچھی تبدیلی آئے، مثلاً جلد کا رنگ ماحول سے زیادہ ہم آہنگ ہو جائے یا بلندی پر رہنے والے جانور میں خون کے سرخ خلیوں کی تعداد بڑھ جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایسی تبدیلیاں جمع ہوتی رہتی ہیں اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر فرق پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔
درستگی اور اغلاط کے درمیان توازن عموماً برقرار رہتا ہے۔ اگر بہت زیادہ اغلاط ہوں تو جاندار زندہ نہیں رہ پائے گا اور اگر ایسی تبدیلیاں بہت کم ہوں تو بھی اس کے آگے بڑھنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ اسی طرح استحکام اور جدت کے درمیان بھی توازن رہنا چاہیے۔ اگر بلندی پر رہنے والے افراد میں خون کے سرخ خلیوں کی تعداد بڑھ جائے تو انہیں سانس لینے میں سہولت ہوتی ہے کیونکہ خون کے سرخ خلیے آکسیجن کو منتقل کرتے ہیں۔ مگر زیادہ مقدار سے خون گاڑھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر بہت زیادہ سرخ خلیے پیدا ہو جائیں تو خون تیل جتنا گاڑھا ہو جائے گا۔ اس طرح دل پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ اس طرح بلندی پر رہنے والے لوگوں کے لیے سانس لینا تو آسان ہو جاتا ہے مگر ان کے دل کو زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈارون کا فطری چناؤ یہی تھا۔ اسی وجہ سے ہم سب ایک دوسرے سے اتنے مماثل ہیں۔ ارتقا آپ کو بہت زیادہ مختلف نہیں بننے دیتا، یا پھر نئی انواع پیدا ہوتی ہیں۔
میرے اور آپ کے جین میں موجود 0.1 فیصد فرق انہی snips کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ اپنے ڈی این اے کو کسی بھی دوسرے انسان سے ملاتے ہیں تو وہ بھی 99.9 فیصد ایک جیسا ہوگا۔ عموماً یہ snips ہر انسان میں مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں۔ جتنے لوگوں سے آپ اپنے ڈی این اے کو ملاتے جائیں گے، ہر انسان میں مزید مختلف قسم کے snips ہوں گے جو اور بھی مختلف جگہوں پر واقع ہوئے ہوں گے۔ اس لیے انسانی جینوم کا کوئی وجود نہیں۔ ہر انسان کا جینوم دوسرے سے مختلف ہے۔ یعنی ایک انسانی جینوم کی بجائے چھ ارب انسانی جینوم ہیں۔ ہم نہ صرف 99.9 فیصد ایک جیسے ہیں بلکہ بائیو کیمسٹ ڈیوڈ کوکس کے الفاظ میں ‘کہا جا سکتا ہے کہ انسانوں میں کوئی بھی چیز مشترک نہیں۔‘
تاہم ابھی ہمیں اس بات کا جواب نہیں مل سکا کہ ہمارے ڈی این اے کا کیوں اتنا کم حصہ کارآمد ہے۔ بظاہر یہ بات بہت عجیب لگتی ہے مگر سچ یہی ہے کہ زندگی کا مقصد شاید ڈی این اے کی نقلیں تیار کرنا ہے۔ ہمارے ڈی این اے کا 97 فیصد حصہ بیکار ہے اور میٹ رڈلی کے الفاظ میں ‘اس کا مقصد صرف اور صرف اپنی نقلیں تیار کرنا ہے(اس بیکار ڈی این اے کا ایک فائدہ ہے کہ اسے جینیاتی شناخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیسیسٹر یونیورسٹی کے ایلک جیفریز نے اس کا یہ فائدہ حادثاتی طور پر دریافت کیا تھا۔ 1986 میں جب جیفریز جینیاتی بیماریوں کے تجزیے میں مصروف تھا تو پولیس نے اس سے رابطہ کر کے پوچھا کہ کیا وہ دو قتل کے مشتبہ ملزم کی شناخت میں مدد کر سکتا ہے۔ اسے فوراً ہی علم ہو گیا کہ اس کی تکنیک یہ کام بخوبی کر سکتی ہے۔ ایک نوجوان بیکر کولن پچ فورک کو دو قتل کے جرم میں دو بار عمر قید کی سزا دی گئی)۔‘ یعنی ہمارے ڈی این اے کا زیادہ تر حصہ ہماری بجائے اپنے لیے زندہ ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ ہم نے پہلے بھی دیکھا تھا کہ زندگی محض ہونے کا نام ہے اور ڈی این اے ہی اسے ایسا کراتا ہے۔
جب ڈی این اے جین بنانے کی ہدایات دیتا ہے تو بھی بقول سائنس دان، یہ کام متعلقہ جاندار کی بھلائی یا اس کے کام کے خیال سے نہیں کرتا۔ سب سے عام جین ایک پروٹین ہے جسے Reverse Transcriptase کہا جاتا ہے، کا انسانوں کے لیے کوئی معلوم فائدہ نہیں ہے۔ البتہ اس کا ایک نقصان ضرور ہے کہ ریٹرو وائرس جیسا کہ ایچ آئی وی کے لیے وائرس کے لیے یہ پروٹین انسانی نظام میں رسائی کا چور راستہ مہیا کرتی ہے۔
یعنی ہماری بہت ساری توانائی ایسی چیز کی تیاری پر لگتی ہے جو ہمارے لیے مفید ہونا تو کجا، بعض اوقات ہمارے لیے خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ ہمارے جسم اسے بنانے پر مجبور ہیں کہ انہیں ڈی این اے کی طرف سے حکم ملتا ہے۔ ہم ان کی مرضی پر چلنے پر مجبور ہیں۔ انسانی جین کی نصف تعداد جو کہ کسی بھی معلوم جاندار سے زیادہ ہے، اپنی نقلیں تیار کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی ایسا مفید نہیں کرتی جو ہمیں معلوم ہو۔
تمام جاندار کسی نہ کسی حد تک اپنے جین کے غلام ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے سالمن اور مکڑیاں اور دیگر بہت سارے جاندار جنسی ملاپ کی خاطر مرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اپنی نسل کو آگے بڑھانے اور اپنے جین کو پھیلانے کی خواہش فطرت میں سب سے طاقتور ہے۔ شیرون بی نولینڈ کے مطابق ‘سلطنتیں زوال پذیر ہوتی ہیں، عظیم دھنیں بنائی جاتی ہیں اور اسی طرح کے دیگر کاموں کے پیچھے صرف ایک ہی خواہش کی تکمیل ہوتی ہے۔‘ ارتقائی نکتہ نظر سے اپنے جین کو آگے پھیلانے کا انعام جنسی تولید ہے۔
ابھی سائنس دان اس خبر کو قبول کرنے کو تیار ہو رہے تھے کہ ہمارے ڈی این اے کا زیادہ تر حصہ بیکار ہے کہ مزید عجیب خبریں موصول ہونا شروع ہو گئیں۔ پہلے جرمنی اور پھر سوئٹزرلینڈ میں سائنس دانوں نے انتہائی عجیب تجربات شروع کیے جن کے نتائج بالکل بھی عجیب نہیں تھے۔ ایک تجربے میں انہوں نے چوہے کی آنکھ کو بنانے والے جین کو نکال کر عام مکھی کے لاروے میں ڈالا۔ خیال تھا کہ انتہائی عجیب نتائج نکلیں گے۔ عجیب بات دیکھیے کہ چوہے کی آنکھ والے جین نے مکھی میں مکھی کی آنکھ بنائی۔ سوچیے کہ دو جاندار کہ جن کے جین کم از کم 50 کروڑ سال قبل الگ ہو گئے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ ایسے جین بدلنے کے قابل تھے جیسے دونوں بہنیں ہوں۔
جہاں کہیں بھی محققین نے دیکھا، ہر جگہ یہی ہو رہا تھا۔ انہوں نے انسانی جین کو مکھیوں میں ڈالا اور مکھیوں نے اسے ایسے قبول کیا جیسے وہ ان کا اپنا ہو۔ 60 فیصد سے زیادہ جین ایسے ہیں جو مکھیوں میں پائے جاتے ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ انسانی جین کسی نہ کسی طرح چوہوں میں بھی پائے جاتے ہیں (انسانوں میں دم بنانے والے جین موجود ہیں، صرف انہیں چالو کرنے کی دیر ہے)۔ ہر شعبے میں کام کرنے والے محققین، چاہے وہ کیڑوں پر کام کر رہے ہوں یا انسان پر، اکثر ایک جیسے ہی جین پر کام کر رہے ہوتے تھے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہر قسم کی زندگی ایک ہی بلیو پرنٹ سے نکالی گئی ہے۔
مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ کچھ ماسٹر کنٹرول جین ہوتے ہیں جن کا کام جسم کے مختلف حصوں کو بنانا ہوتا ہے۔ انہیں ہومیوٹک یا ہوکس جین کہا جاتا ہے۔ ہوکس جین سے یہ راز حل ہوا ہے کہ ایک ہی بار آور خلیے سے بننے والے اربوں خلیوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ کس خلیے نے کہاں جا کر کیا کام کرنا ہے۔ یہ راز بہت طویل عرصے سے سائنس دانوں کو چکرائے ہوئے تھا کہ کیسے ایک خلیہ جگر کا حصہ بنتا ہے تو دوسرا لمبا نیوران اور تیسرا خون کا خلیہ بنتا ہے چوتھا پر کا حصہ بنتا ہے۔ ہوکس جین انہیں بتاتے ہیں کہ کس نے کیا کرنا ہے۔
مزے کی با ت دیکھیے کہ جینیاتی مواد کی مقدار یا ترتیب سے ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کوئی جاندار کتنا پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ انسان میں کل 46 کروموسوم ہوتے ہیں جبکہ بعض فرن ایسے ہیں جن میں کروموسوم کی تعداد 600 سے زیادہ ہوتی ہے۔ لنگ فش جو پیچیدہ جانوروں میں سب سے کم ترقی یافتہ ہے، میں ہماری نسبت 40 گنا زیادہ ڈی این اے ہے۔ اسی طرح ایک اور خزندے Newt میں ہماری نسبت 5 گنا زیادہ ڈی این اے پایا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ جین کی تعداد کی نسبت ان کا کام زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بات بہت مفید ہے کیونکہ پہلے سوچا جاتا تھا کہ انسانی جین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور مزید جین دریافت ہو سکتے ہیں، مگر انسانی جینوم پراجیکٹ کے تحت پتہ چلا کہ 35٫000 سے 40٫000 سے جین پائے جاتے ہیں۔ گھاس میں اتنے ہی جین پائے جاتے ہیں۔ یہ بات شاید آپ کے لیے دھچکے کا باعث ہو۔
آپ کے علم میں یہ بات ضرور آئی ہوگی بہت ساری انسانی بیماریاں جین سے منسلک کی جاتی ہیں۔ بہت سارے سائنس دانوں نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے موٹاپے، شیزوفرینیا، ہم جنس پرستی، جرائم، تشدد، الکوہلک، چوری اور بے گھر رہنے کے جین بھی تلاش کر لیے ہیں۔ اس کی انتہائی صورت 1980 میں Science نامی رسالے میں چھپی تھی کہ خواتین جینیاتی اعتبار سے ریاضی میں مردوں سے پیچھے ہیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ایسی باتیں جاننا اتنا آسان نہیں ہے۔
اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اگر ایک جین قد یا کسی بیماری سے متعلق ہوتا تو اسے الگ کر کے اس کی مرمت کی جا سکتی تھی۔ بدقسمتی سے 35٫000 یا 40٫000 جین اگر الگ الگ کام کر رہے ہوں تو ان سے انسان جیسی پیچیدہ مخلوق نہیں تیار کی جا سکتی۔ جین ایک دوسرے سے مل کر کام کرتے ہیں۔ بعض بیماریاں جیسا کہ ہیموفیلیا، پارکنسنز کی بیماری، ہفنگٹن کی بیماری اور سسٹک فائبروسز جیسی بیماریاں واحد جین کی خرابی سے پیدا ہوتی ہیں مگر اصولی طور پر اس طرح کے خراب جین چھانٹی سے عمل سے گزر کر رد کر دیے جاتے ہیں تاکہ پوری آبادی کو نقصان نہ پہنچ سکے۔ ہماری قسمت سے لے کر ہماری آنکھوں کے رنگ تک، یہ سب کام واحد جین نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر طے کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان سب کو تلاش کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے اپنی مرضی کے بچے پیدا کرنا ابھی مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم جتنا بھی اس معاملے میں معلومات پا رہے ہیں، مسائل اتنے ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے سوچنے کے انداز سے بھی ہمارے جین کی کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔ کسی آدمی کی داڑھی بڑھنے کی رفتار کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ سیکس کے بارے کتنا سوچتا ہے (جنسیت کے بارے سوچنے سے ٹیسٹیسٹرون کی مقداربڑھ جاتی ہے)۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ وہ ایمبریو چوہوں سے اہم ترین جین نکال دیں تو بھی نہ صرف چوہے بالکل تندرست پیدا ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ اپنے بہن بھائیوں سے بھی زیادہ آگے نکل جاتے ہیں جن کے جین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہوتی تھی۔ جب کئی اہم جین کو تباہ کر دیا جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرے جین لے لیتے ہیں۔ بطور جاندار، یہ بات ہمارے لیے بہت اچھی خبر ہے۔ لیکن خلیوں کے کام کو سمجھنے کے اعتبار سے یہ خبر بری ہے کہ اس طرح جین کے کام کرنے سے متعلق ایک اضافی پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے اور جین کے کام کو ہم ابھی سمجھنا شروع ہوئے ہیں۔
انہی پیچیدگیوں کی وجہ سے انسانی جینوم کو ڈی کوڈ کرنے کا کام محض ابتدا ہے۔ ایم آئی ٹی کے ایرک لینڈر کے مطابق ‘جینوم اعضا کی فہرست کا نام ہے کہ جسم کن اعضا سے مل کر بنتا ہے لیکن ان کے کام کے بارے کچھ نہیں بتاتا۔ ہمیں جسم کے کام کرنے کے بارے معلومات درکار ہیں کہ یہ کام کیسے ہوتے ہیں۔ ابھی ہم اس سے بہت دور ہیں۔‘
اب سارا زور انسانی پروٹیوم کو جاننے پر لگ رہا ہے۔ پروٹیوم کا تصور ہی اتنا نیا ہے کہ یہ لفظ دس سال قبل موجود ہی نہیں تھا۔ پروٹیوم اس لائبریری کا نام ہے جس میں پروٹین تیار کرنے کی معلومات ہوتی ہیں۔ Scientific Ameriacan نے 2002 کے موسمِ بہار میں لکھا، ‘بدقسمتی سے پروٹیوم کا تجزیہ انسانی جینوم سے بہت زیادہ مشکل ہے۔‘
تاہم یہ بات کرنے کا انتہائی آسان پہلو ہے۔ پروٹین کے بارے آپ کو یاد ہوگا کہ زندگی کی بنیاد ہیں۔ کسی بھی خلیے میں ایک وقت میں شاید دس کروڑ سے زیادہ پروٹین کام کر رہی ہوں گی۔ اب اندازہ کیجیے کہ ہر خلیے میں کتنی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں۔ مزید مسئلہ یہ بھی ہے کہ جین کی مانند پروٹین کا کام نہ صرف ان کی کیمسٹری بلکہ ان کی ساخت پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ کام کرنے کے لیے پروٹین کو نہ صرف تمام ضروری اجزاء درکار ہوتے ہیں بلکہ انہیں مناسب طریقے سے جڑا ہونا چاہیے اور انتہائی مخصوص شکل میں تہہ بھی ہونا چاہیے۔ تہہ سے شاید آپ کو غلط فہمی ہو، مگر یہ انتہائی پیچیدہ جیومیٹری کی شکل ہوتی ہے جس میں پروٹین بل کھاتی، چکراتی اور ایسی ایسی شکلوں میں ہوتی ہے کہ وہ تہہ شدہ تولیے سے کم اور مڑے تڑے ہینگر سے زیادہ مشابہہ ہوتی ہے۔
مزید براں پروٹین حیاتیاتی دنیا کی بے وفا مخلوق ہوتی ہے۔ اپنی مرضی اور میٹابولک حالات کے مطابق وہ فاسفورس، گلائیکوز، ایسیٹائل، سلفیٹ یا دیگر شکلیں اختیار کر سکتی ہیں۔ ان کو ایسا رویہ اپنانے پر مجبور کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اگر آپ تھوڑی سی وائن پی لیں تو پروٹین کی مقدار اور ان کا کام بدل سکتا ہے۔ شرابی کے لیے تو یہ شاید سرور کی بات ہو مگر پروٹین کا کام سمجھنے والے سائنس دانوں کے لیے ان کا کام مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
یہ سب انتہائی ناممکن حد تک پیچیدہ ہے۔ تاہم ان سب کی بنیاد سادہ ہے۔ یہ سب کیمیائی تعامل جو خلیے کو سرگرم رکھتے ہیں، ڈی این اے کے پیغامات کو آر این اے کی مدد سے بدلا جانا اور دیگر چیزیں صرف ایک بار ارتقا سے گزری ہیں اور اس کے بعد ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مرحوم فرانسیسی ماہرِ جینیات جیکوئس مونڈ کے مطابق ‘جو چیز بیکٹیریا کے لیے درست ہے، وہ ہاتھی کے لیے بھی درست ہوگی۔‘
ہر زندہ چیز کا بنیادی پلان ایک ہے۔ ہر جاندار جدوجہد، ایڈجسٹمنٹ اور تبدیلیوں کا شاہکار ہوتا ہے جو 3.8 ارب سال کے عمل سے گزر کر آیا ہوتا ہے۔ ہم پھلوں اور سبزیوں سے بھی بہت مشابہہ ہیں۔ کیلے میں ہونے والے نصف کیمیائی تعاملات وہی ہیں جو ہمارے اندر ہوتے ہیں۔
ہر زندہ چیز ایک ہی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حصہ ششم: ہم تک آنے والا راستہ​


بندر کی اولاد؟ اف خدایا، میری دعا ہے کہ یہ غلط ہو، تاہم اگر یہ درست ہے تو پھر اسے لوگ نہ جان سکیں۔
ورسسٹر کے بشپ کی بیوی کے تائثرات، جب اسے ڈارون کا نظریہ ارتقاء سمجھایا گیا​


27 برفانی دور​
میں نے خواب دیکھا جو بالکل بھی خواب نہیں تھا۔ دمکتا سورج بجھ چکا تھا اور ستارے آوارہ گھوم رہے تھے۔
بائرن، تاریکی
1815 کو انڈونیشیا کے جزیرے سمباوا میں تمبورا نامی خوبصورت اور پرسکون پہاڑ اچانک پھٹا تو اس کے دھماکے اور اس سے متعلقہ سونامیوں سے ایک لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج تک انسان نے اس سے بڑی تباہی نہیں دیکھی۔ گذشتہ دس ہزار سال کی یہ بدترین تباہی تھی جو آتش فشاں پہاڑ سے ہوئی۔ اس کی تباہی سینٹ ہیلنز سے 150 گنا زیادہ اور ہیروشیما پر گرائے جانے والے 60,000 ایٹم بموں کے برابر تھی۔ اس دور میں خبریں آسانی سے نہیں پھیلتی تھیں اور جب 7 ماہ بعد دی ٹائمز نے خبر دی تو وہ محض ایک تاجر کے خط پر مشتمل تھی۔ تاہم اس وقت تک تمبورا کے اثرات محسوس کیے جانے لگے تھے۔ اس سے نکلنے والی آتش فشانی راکھ، پتھر اور گرد وغیرہ کے 240 مکعب کلومیٹر مقدار نے بالائی فضاء میں پھیل کر سورج کی روشنی کو روکنا شروع کر دیا اور زمین کا درجہ حرارت گرنے لگا۔ غروبِ آفتاب کے مناظر رنگین ہوتے تھے تاہم دنیا بھر میں اس کے منفی اثرات مرتب ہونے لگے۔ اس موت جیسی خاموشی سے متاثر ہو کر بائرن نے مندرجہ بالا اشعار لکھے۔
بہار نہ آئی اور گرمیوں میں بھی درجہ حرارت نہ بڑھا۔ 1816 کو بناء گرمیوں کا سال کہا گیا۔ ہر طرف فصلیں تباہ ہو گئیں۔ آئرلینڈ میں قحط اور پھر ٹائفائیڈ کی وباء سے 65,000 افراد ہلاک ہوئے۔ نیو انگلینڈ میں اس سال کو اٹھارہ سو اور فروز ٹو ڈیتھ کہا گیا۔ جون تک صبح سویرے پالا جما ہوا دکھائی دیتا تھا اور بوئے جانے والے بیج بھی اگنے میں ناکام رہے۔ چارے کی کمی سے مویشی مرنے لگے یا انہیں قبل از وقت ذبح کیا جانے لگا۔ ہر اعتبار سے یہ سال تباہی کا سال تھا۔ کسانوں کے لیے جدید دور کا بھیانک خواب۔ اس کے باوجود پوری دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں ہونے والی کمی ایک درجہ سے بھی کم تھی۔ تب جا کر کہیں سائنس دانوں کا احساس ہوا کہ زمین کے درجہ حرارت کا نظام بہت نازک ہے۔
19ویں صدی بہت سرد تھی۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں پہلے ہی دو سو سال کا عرصہ چھوٹا برفانی دور کہلاتا تھا اور اس دوران دریائے تھیمز بھی جم گیا تھا اور ڈچ نہروں پر لوگ سکیٹنگ کرتے تھے۔ چونکہ لوگوں کو دیر سے سمجھ آتی ہے اس لیے ارضیات دان بھی اس بات کو دیر سے سمجھے کہ ہمارے آس پاس کی سرزمین کی شکل بنانے میں گلیشیئروں کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور یہ بھی کہ اس وقت کی سردی اتنی ہوتی تھی کہ سرمائی کھیل تک رک جاتے تھے۔
انہیں یہ تو علم تھا کہ ماضی میں کچھ عجیب بات ہوئی تو ہے۔ یورپی سرزمین بے شمار بے قاعدگیوں سے بھری پڑی ہے۔ قطبی رینڈیئر کی ہڈیاں فرانس کے جنوبی گرم علاقے سے ملی ہیں۔ ناممکن جگہوں پر بڑی چٹانوں کی موجودگی وغیرہ کے سلسلے میں عجیب عجیب دلیلیں دی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر ڈی لُک نے بتایا کہ اونچی چٹانوں پر موجود دیو قامت پتھر دراصل غاروں کے دہانے پر اٹکے ہوتے تھے اور ہوا کے دباؤ سے اچھل کر اتنی بلندی پر جا گرتے تھے۔
عظیم برطانوی ارضیات دان آرتھر ہلم نے بتایا کہ اگر 18ویں صدی کے بابائے ارضیات جیمز ہٹن نے سوئٹزرلینڈ کا چکر لگایا ہوتا تو وہ فوراً ہی تراشی ہوئی وادیوں، چمکتے پتھریلے راستوں اور دیگر شواہد سے جان لیتا کہ یہ سب برفانی تہوں کے گزرنے سے بنے ہیں۔ بدقسمتی سے جیمز ہٹن کو سفر کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہٹن نے فوراً یہ خیال مسترد کر دیا کہ بڑے بڑے پتھر پانی کے بہاؤ کی وجہ سے ہزار میٹر بلندی تک جا پہنچے۔ اس کا استدلال تھا کہ پوری دنیا کا پانی بھی اگر جمع ہو جائے تو بھی ایک معمولی سا پتھر نہیں تیر سکتا۔ اسی وجہ سے اس نے پہلے پہل عالمگیر پیمانے پر گلیشیئروں کے وجود کا دعویٰ کیا جبکہ اکثریت کے خیال میں پہاڑوں پر بنی لکیریں دراصل گاڑیوں کے گزرنے یا کیلوں والے جوتے پہن کر گزرنے سے بنے ہیں۔
مقامی کسانوں کو سائنسی نظریات کا علم نہیں تھا اور وہ اس بارے بہتر جانتے تھے۔ ایک نیچرلسٹ جین ڈی کارپینٹر نے بتایا کہ وہ 1834 میں ایک مقامی لکڑہارے کے ساتھ کسی جگہ سے گزر رہا تھا تو راستے میں چٹانی پتھر دکھائی دیے۔ لکڑہارے نے بتایا کہ یہ پتھر تھوڑا آگے موجود ایک اور جگہ سے آئے ہیں۔ جب کارپینٹر نے پوچھا کہ یہ پتھر یہاں پہنچے کیسے تو لکڑہارے نے فوراً جواب دیا کہ گلیشیئر اسے یہاں تک لے آئے ہیں کیونکہ ماضی میں گلیشیئر یہاں تک پھیلے ہوئے تھے۔
کارپینٹر اس جواب سے بہت خوش ہوا کیونکہ اس کا اپنا نظریہ بھی یہی تھا۔ تاہم جب اس نے اس نظریے کو سائنس دانوں کے سامنے رکھا تو سارے ہی اس کے خلاف نکلے۔ کارپینٹر کے قریبی دوست لوئیس اگاسز نے پہلے پہل تو مخالفت کی لیکن پھر اس نظریے پر ایمان لے آیا۔
اگاسز نے پیرس میں تعلیم پائی اور سوئٹزرلینڈ کے ایک کالج میں نیچرل ہسٹری کا پروفیسر لگ گیا۔ اس کا ایک اور دوست ماہرِ نباتات کارل شمپر تھا جس نے 1837 میں پہلے پہل آئس ایج یعنی برفانی دور کا نام متعارف کرایا۔ اس نے نظریہ پیش کیا کہ شواہد کے مطابق قدیم وقتوں میں برف محض سوئس ایلپس تک ہی نہیں بلکہ یورپ، ایشیاء اور شمالی امریکہ کے زیادہ تر حصے پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے تحقیقی کاغذات اگاسز کو دیے اور پھر اس پر جی بھر کر پچھتایا کیونکہ اس کے نظریے کا زیادہ تر سہرہ اگاسز کے سر بندھنے لگا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سائنسی دریافت کے تین مراحل ہوتے ہیں: پہلا تو یہ کہ لوگ اسے غلط سمجھ کر توجہ نہیں دیتے، دوسرا یہ کہ وہ اس کی اہمیت کو جان بوجھ کر جھٹلانے لگتے ہیں اور تیسرا یہ کہ اس کا سہرہ غلط بندے کے سر بندھتا ہے۔
وجہ کچھ بھی ہو، اگاسز نے سائنس کی اس شاخ کو اپنا لیا۔ گلیشیئر کی حرکات کو سمجھنے کی غرض سے اس نے گہری وادیوں، کھائیوں، اونچے اونچے پہاڑوں، غرض ہر جگہ کا چکر لگایا۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ وہ اور اس کی ٹیم بہت سارے پہاڑوں کو سب سے پہلے سر کرنے والی بنی۔ اس کے باوجود تقریباً ہر جگہ ہی اس کے نظریے کے خلاف خوب مزاحمت ہوئی۔ اس کے دوست نے مشورہ دیا کہ وہ اسے چھوڑ کر اپنے اصل مضمون یعنی فاسل مچھلیوں کو لوٹ جائے تاہم اگاسز دھن کا پکا تھا۔
اگاسز کے نظریے کو برطانیہ میں سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جہاں بلامبالغہ شاید ہی کسی نے گلیشیئر دیکھا ہو اور اس سے پیدا ہونے والے دباؤ کا مشاہدہ کیا ہو۔
دھن کے پکے اگاسز نے اپنے نظریے کا پرچار جاری رکھا لیکن اس کی مخالفت بھی اسی طرح زور و شور سے جاری رہی۔ 1840 میں اس نے گلاسگو میں سائنس کی ترقی کی میٹنگ میں اپنا نظریہ پیش کیا تو عظیم چارلس لائل نے اس کی کھلی مخالفت کی۔ اگلے سال ایڈنبرا کی جغرافیائی سوسائٹی نے یہ قرارداد منظور کی کہ اس نظریے میں بے شک کوئی جان ہو، لیکن اس کا اطلاق سکاٹ لینڈ پر نہیں ہوتا۔
تاہم بعد میں لائل نے اپنا خیال بدل لیا۔ اپنی آبائی جاگیر سے گزرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ اس کے پاس موجود جمع پتھروں کے بارے صرف گلیشیئر والا نظریہ ہی لاگو ہوتا ہے۔ کایا پلٹ ہونے کے بعد اس نے ہمت ہار دی اور عوامی سطح پر اس کی حمایت سے کنارہ کش ہو گیا۔ اگاسز کے لیے وقت بہت دشوار تھا۔ اس کی شادی ناکام ہو رہی تھی۔ شمپر اس پر اپنی تحقیق کی چوری کا الزام کھلے بندوں لگا رہا تھا۔ اس کا قریبی دوست کارپینٹر اس سے بول چال ختم کر چکا تھا اور سب سے عظیم ارضیات دان اس کی حمایت میں کھلے عام نہیں کھڑا ہوا۔
1846 میں اگاسز امریکہ پہنچا جہاں اس نے لیکچر دیے اور جس شہرت کا وہ حقدار تھا، اسے ملی۔ ہارورڈ نے اسے پروفیسر کا عہدہ دیا اور اس کے لیے بہترین عجائب گھر بنوایا۔ یہاں کی طویل سردیوں نے اس کے نظریے کی قبولیت آسان بنائی۔ اس کی آمد کے چھ سال بعد ایک سائنسی مہم گرین لینڈ گئی اور اس نے دریافت کیا کہ گرین لینڈ کا زیادہ تر حصہ اسی طرح کی برفانی تہوں سے ڈھکا ہے جس کے بارے اگاسز نے اپنا نظریہ پیش کیا تھا۔ آخرکار اس کے نظریے کو قبولیت ملنے لگی۔ تاہم اس نظریے میں ایک بات ناقابلِ فہم تھی کہ آخر یہ برفانی دور کس وجہ سے آئے۔
1860 کی دہائی میں برطانیہ کے رسائل اور جرائد میں مختلف موضوعات پر جیمز کرول نے مضامین بھیجنے شروع کر دیے۔ ان میں سے ایک مضمون میں اس نے بتایا کہ زمین کے مدار میں معمولی سی تبدیلیوں سے زمین پر کیسے برفانی دور آ سکتا ہے۔ سائنسی حلقوں نے فوراً ہی ان مضامین کی سائنسی اہمیت کو پہچان لیا اور شاید ان کے لیے یہ بات باعثِ تعجب اور کسی حد تک شرمندگی کا باعث ہوگی جب انہیں پتہ چلا کہ یہ مضامین لکھنے والا کوئی سائنس دان نہیں بلکہ یونیورسٹی کا خاکروب تھا۔
1821 میں پیدا ہونے والا کرول بہت غریب تھا اور اس کا تعلیمی سلسلہ 13 سال کی عمر میں ختم ہو گیا۔ اس نے بعد میں بڑھئی، انشورنس ایجنٹ، ہوٹل کے رکھوالے وغیرہ جیسی نوکریاں کیں اور آخرکار یونیورسٹی کا خاکروب بنا۔ کسی نہ کسی طرح اس نے اپنے بھائی کو اپنی جگہ کام پر لگایا اور زیادہ تر وقت وہ یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھا طبعیات، میکانیات، فلکیات، ہائیڈروسٹیٹکس اور دیگر مقبولِ عام سائنسی علوم پڑھتارہا۔ اس کا علم اتنا بڑھ گیا کہ اس نے ان موضوعات پر مضامین لکھنے شروع کر دیے اور اس کا زیادہ زور زمین کی گردش اور اس سے پیدا ہونے والی موسمیاتی اثرات پر تھا۔
کرول نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین کی گردشی حرکت کا یکے بعد دیگرے گول سے بیضوی اور بیضوی سے گول ہونا دراصل برفانی دور کی آمد اور رخصت سے متعلق ہے۔ اس سے قبل کسی سائنس دان نے زمینی موسم پر بیرونی اثرات کا جائزہ نہیں لیا تھا۔ کرول کی وجہ سے برطانوی لوگوں کو یہ بات سمجھ آئی کہ ماضی بعید میں زمین پر برف بہت جگہوں پر موجود تھی۔ جب کرول کی ذہانت اور فطانت کے چرچے عام ہوئے تو سکاٹ لینڈ کے جیولاجیکل سروے نے اسے نوکری دی اور ہر طرف سے اس پر اعزازات کی بارش ہونے لگی۔ اسے رائل سوسائٹی آف لندن اور نیو یارک اکیڈمی آف سائنس کا فیلو بنایا گیا۔ اس کے علاوہ اسے یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز نے اعزازی ڈگری بھی دی اور اعزازات کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔
بدقسمتی سے جب اگاسز کا نظریہ یورپ میں قبول ہونا شروع ہوا تو اگاسز نے دنیا بھر میں گلیشیئروں کے ایسے ثبوت تلاش کر لیے جو ممکن ہی نہیں تھے۔ حتیٰ کہ خطِ استوا پر بھی اسے گلیشیئر کے ثبوت ملے۔ یعنی پوری دنیا ہی ایک وقت میں جم گئی اور حیات ختم ہو گئی جسے خدا نے بعد میں دوبارہ بنایا۔ تاہم اس کے پاس موجود شواہد اس کے برخلاف تھے۔ اس کے باوجود امریکہ میں اس کی شہرت اور عزت اتنی بڑھ گئی کہ اسے دیوتا سمجھا جانے لگا۔ 1873 میں اس کی وفات کے بعد ہارورڈ نے اس کی جگہ پوری کرنے کے لیے تین الگ الگ پروفیسر رکھے۔
یہ بات عام ہے کہ نظریات وقت کے ساتھ ساتھ گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔ اگاسز کے مرنے کے دس سال بعد ہارورڈ میں اس کی جگہ آنے والے ایک ارضیات دان نے لکھا، ‘گلیشیئر کے اثرات کے بارے نظریہ چند سال قبل کتنا مشہور تھا اور آج گلیشیئر سے متعلق ارضیات دان اسے بے جھجھک رد کر رہے ہیں’۔
مسئلے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کرول کی پیمائش کے مطابق آخری برفانی دور 80,000 سال قبل ہونا چاہیے تھا جبکہ جغرافیائی شواہد کے مطابق اس کے بعد بھی کسی وجہ سے متاثر ہوئی تھی۔ برفانی دور کی ابتداء کی معقول وجہ کے بناء یہ پورا نظریہ ہی ایک طرح سے متروک ہو گیا۔ اگر سربیئن نژاد میلوٹن میلانکووچ نامی ایک میکینکل انجینئر نہ ہوتا تو یہ معاملہ مزید لٹکا رہتا۔ اگرچہ میلانکووچ کو فلکیات یا اس کی سائنس کا کچھ علم نہیں تھا لیکن 1900 کے اوائل میں اس نے اس مضمون میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اس نے جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ کرول کا نظریہ غلط نہیں بلکہ انتہائی سادہ ہے۔
جب زمین خلاء میں اپنے محور اور سورج کے گرد گردش کرتی ہے تو نہ صرف مدار کی لمبائی اور شکل فرق ہو سکتی ہے بلکہ اس کے علاوہ سورج کی طرف ہونے والے حصوں میں بھی باقاعدہ ترتیب سے تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ان سب وجوہات کی بناء پر زمین کے کسی خاص حصے پر سورج کی کرنیں پڑنے کی شدت اور دورانیہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ تین عوامل زمین کا ترچھا پن، سورج کے گرد مدار میں حرکت اور زمین کے اپنے محور پر گردش سے ہونے والی مداخلت اور گردش میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق ہے جو طویل دورانیے میں زمین کے مقام کو متاثر کرتے ہیں۔ میلانکووچ نے اس بارے سوچنا شروع کر دیا کہ کیا یہ سب عوامل برفانی دور کی آمد اور رخصت پر کسی طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ مسئلہ یہ تھا کہ یہ برفانی دور یکساں دورانیے کے نہیں تھے۔ ایک بیس ہزار، دوسرا چالیس ہزار اور تیسرا ایک لاکھ سال بعد تھا اور مزید یہ بھی کہ ہر دور ایک دوسرے سے کئی ہزار سال کم یا زیادہ عرصے پر مشتمل تھا۔ یعنی ان کے بارے درست معلومات کا مطلب انتہائی طویل اور پیچیدہ اعداد و شمار اور حساب کتاب کرنا تھا۔ میلانکووچ نے زمین کے ہر عرض بلد پر سورج سے آنے والی روشنی کی مقدار اور دورانیے کا کم از کم دس لاکھ سال کا حساب کرتے ہوئے مندرجہ بالا تین متغیرات بھی ذہن میں رکھنے تھے۔
خوش قسمتی سے یہ کام میلانکووچ کی طبعیت سے میل کھاتا تھا۔ اگلے 20 سال تک، تعطیلات کے دوران بھی اس نے پنسل اور پیمانے کی مدد سے یہ کام جاری رکھا۔ آج کل کے جدید کمپیوٹر پر یہی کام ایک یا دو دن میں ہو جاتا۔ شروع میں تو اسے یہ سارا حساب اپنے فارغ وقت میں کرنا پڑتا تھا لیکن 1914 میں جب پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی تو سربیائی فوج میں اس کی ریزرو حیثیت کی وجہ سے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے 4 سال اس نے بڈاپسٹ میں گھریلو نظربندی میں گزارے۔ تاہم اس نظربندی کا مقصد یہ تھا کہ ہفتے میں ایک بار وہ مقامی پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ کرے۔ باقی سارا وقت فارغ تھا جو اس نے ہنگیرین اکیڈمی آف سائنس کی لائبریری میں گزارا۔ اسے دنیا کا خوش قسمت ترین جنگی قیدی بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس ساری جفاکشی کا نتیجہ 1930 میں Mathematical Climatology and the Astronomical Theory of Climatic Changes نامی کتاب کی شکل میں شائع ہوا۔ میلانکووچ کا اندازہ درست نکلا کہ زمین کی گردش اور برفانی ادوار کے مابین تعلق تھا۔ اکثر لوگوں کی مانند اس نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا کہ برفانی ادوار سردیوں کے بتدریج سرد تر اور طویل تر ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ تاہم روسی نژاد جرمن ماہرِ موسمیات ولادیمیر کوپن نے بتایا کہ یہ عمل اس سے کہیں زیادہ نازک اور پریشان کن تھا۔
کوپن کے مطابق برفانی دور کی وجوہات شدید سردیوں کی بجائے ٹھنڈی گرمیوں میں پوشیدہ ہیں۔ اگر ٹھنڈی گرمیوں میں پچھلی سردیوں کی برف نہ پگھل سکے تو ان جگہوں پر موجود برف کی تہہ سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کی بجائے خلاء میں واپس بھیج دے گی جس سے ٹھنڈ بڑھے گی اور اگلی سردیاں شدید تر ہو جائیں گی۔ اس طرح یہ اثر خود بخود بڑھتا چلا جائے گا۔ جب برف کی تہہ جم جائے گی تو وہاں درجہ حرارت مزید گر جائے گا اور زیادہ برف گرے گی ۔ گلیشیئروں کے ماہر جیون شلٹز کے مطابق، ‘اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ برفانی تہہ میں کتنی برف ہوتی ہے بلکہ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ برف کی کتنی مقدار باقی بچتی ہے’۔ اندازہ ہے کہ ایک سال کی ٹھنڈی گرمیوں سے بھی برفانی دور شروع ہو سکتا ہے۔ جو برف پگھل نہ سکے، وہ سورج کی شعاعیں منعکس کرتی رہتی ہے اور درجہ حرارت مزید گرتا جاتا ہے۔ یہ عمل از خود بڑھوتری والا ہے اور اسے روکا نہیں جا سکتا اور جب ایک بار یہ عمل شروع ہو جائے تو پھر ہمارے پاس بڑھتے گلیشیئر اور برفانی دور کا آغاز ہوتا ہے۔
1950 کی دہائی میں جب قدیم تاریخوں کی جانچ کا علم ابھی اتنا بہتر نہیں ہوا تھا، میلانکووچ کے ادوار کے بارے جاننا ممکن نہ رہا۔ اسی وجہ سے میلانکووچ اور اس کے حساب کتاب لوگوں کے ذہن سے محو ہوتے گئے۔ 1958 میں اپنی وفات کے وقت تک میلانکووچ اپنے حساب کی درستگی کے بارے کسی کو یقین نہ دلا سکا۔ اس دور کے ماہرِ موسمیات یا ارضیات دانوں میں شاید ہی کوئی اس ماڈل پر یقین رکھتا ہو۔ 1970 کی دہائی میں جب پوٹاشیم -آرگان کی مدد سے سمندری تہہ میں جمع مواد کی تاریخ کی جانچ کی گئی تو پھر جا کر میلانکووچ کا ماڈل درست ثابت ہوا۔
تاہم برفانی ادوار کی وضاحت کے لیے میلانکووچ ماڈل کافی نہیں۔ اس میں اور بھی کئی عوامل شامل ہوتے ہیں جن میں براعظموں کی منتقلی، قطبین پر موجود زمین وغیرہ، اور ان کے بارے ہمیں نہ ہونے کے برابر معلومات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ شمالی امریکہ، یوریشیا اور گرین لینڈ کو محض 500 کلومیٹر شمال میں منتقل کر دیں تو مستقل اور یقینی برفانی دور شروع ہو جائے گا۔ اچھا موسم ہماری خوش قسمتی ہوتا ہے۔ برفانی ادوار کے وسط میں ہونے والے بہتر موسم کے بارے اس سے بھی کم معلومات ہیں۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ انسانی تاریخ جس میں زراعت، شہروں کی ابتداء، تحریر، سائنس وغیرہ، سب کے سب برفانی ادوار کے درمیان صرف ایک اچھے موسم میں پروان چڑھے۔ اس سے قبل کے یہ اچھے موسم کم سے کم 8,000 سال طویل تھے۔ ہمارا یہ عرصہ اب 10,000 سال گزار چکا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم آج بھی برفانی دور میں زندہ ہیں۔ اگرچہ یہ برفانی دور بہت سکڑ چکا ہے۔ آج سے 20,000 سال قبل برفانی دور کی انتہاء میں زمین کا 30 فیصد حصہ برف سے ڈھکا تھا۔ آج بھی زمین کا 10 فیصد حصہ برف سے ڈھکا ہے اور مزید 14 فیصد پرما فراسٹ یعنی مستقل جمی ہوئی حالت میں ہے۔ زمین پر پینے کے پانی کا تین چوتھائی حصہ آج بھی برفانی تہوں میں چھپا ہوا ہے جو دونوں قطبین پر چھائی ہوئی ہے۔ آج بھی ہمیں بے شمار ایسی جگہوں پر مستقل گلیشیئر ملتے ہیں ہیں جو نسبتاً گرم ہیں، مثلاً نیوزی لینڈ۔ بظاہر عام سی دکھائی دینے والی یہ بات ہمارے سیارے کے لیے بہت غیر معمولی ہے۔
زمین کی تاریخ میں کچھ عرصہ قبل تک زمین پر کہیں بھی مستقل برف کا کوئی وجود نہیں تھا۔ موجودہ برفانی دور آج سے 4 کروڑ سال قبل شروع ہوا اس کی شدت بدلتی رہی۔ ہر برفانی دور اپنے سے پہلے والے برفانی دور کے شواہد مٹا دیتا ہے۔ تاہم ابھی ہم جانتے ہیں کہ زمین پر گذشتہ 25 لاکھ سال کے دوران کم از کم 17 شدید نوعیت کے برفانی دور آئے ہیں اور یہ عرصہ افریقہ میں ہومو اریکٹس سے موجودہ انسانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ موجودہ دور کے دو اہم اسباب ملتے ہیں۔ پہلا ہمالیہ کا بلند ہونا اور دوسرا پانامہ کا بلند ہونا۔ ہمالیہ کے بلند ہونے سے ہوا کا بہاؤ رکا تو پانامہ کے بلند ہونے سے سمندروں کے درمیان پانی کا بہاؤ متاثر ہوا۔ ہندوستان کسی زمانے میں جزیرہ ہوتا تھا لیکن 2,000 کلومیٹر دور ایشیائی براعظم میں جا گھسا۔ اس سارے عمل میں ساڑھے چار کروڑ سال لگے۔ اس سے نہ صرف ہمالیہ بلند ہوا بلکہ تبت کی سطح مرتفع بھی اس کے پیچھے بلند ہوئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس بلند علاقے کا اپنا درجہ حرارت بھی بلند ہوا اور اس نے ٹھنڈی ہواؤں کا رخ شمالی امریکہ کی طرف موڑ دیا جہاں سردیاں طویل اور شدید ہو گئیں۔ تقریباً 50 لاکھ سال قبل پانامہ سمندر کی سطح کو بلند ہونا شروع ہوا جس سے شمالی اور جنوبی امریکہ کے درمیان خلاء بھر گیا۔ اس کے علاوہ بحر الکاہل اور بحرِ اوقیانوس کے درمیان گرم پانی کی بحری رو متاثر ہوئی اور کم از کم نصف دنیا میں بارش کا معمول متاثر ہوا۔ اس کا ایک پہلو تو یہ نکلا کہ افریقہ خشک سالی کا شکار ہو گیا جس سے بندروں کو درختوں سے نیچے اترنا اور نئے بننے والے گھاس کے میدانوں میں رہنا سیکھنا پڑا۔
سمندروں اور براعظموں کے موجودہ مقام پر ہونے سے یہ بات واضح ہے کہ برفانی دور ہمارے مستقبل کا حصہ ہوگا۔ جان میکفی کے مطابق مستقل گرم موسم کے آنے سے قبل ہم کم از کم 50 مزید برفانی ادوار سے گزریں گے جن میں سے ہر ایک کا دورانیہ ایک لاکھ سال کے لگ بھگ ہوگا۔
5 کروڑ سال قبل زمین پر برفانی دور بے قاعدہ تھے لیکن وہ بھی عظیم ہوتے تھے۔ 2.2 ارب سال قبل ایک ایسا دور آیا جس کے بعد ایک ارب سال کے لگ بھگ موسم نسبتاً گرم رہا۔ پھر اگلا برفانی دور پچھلے سے بھی شدید تر تھا۔ اس کی شدت کو سائنس دان کرائیو جینین یعنی سپر آئس ایج کہتے ہیں۔ اس دور کی زمین کو برفانی گولا کہا جاتا ہے۔
برفانی گولا کہنے سے شاید اس کی شدت واضح نہ ہو سکے۔ نظریہ یہ کہتا ہے کہ سورج کی تابکاری میں محض 6 فیصد کی کمی اور زمین پر سبز مکانی گیسوں کی پیداوار کے خاتمے یا ان کو محفوظ نہ رکھ سکنے کی وجہ سے زمین سے حرارت خارج ہونے لگی۔ ہر طرف برف چھا گئی۔ درجہ حرارت منفی 45 ڈگری تک گرا۔ شمالی اور جنوبی علاقوں میں سمندر پر 800 میٹر تک جبکہ خطِ استوا پر برف کی تہہ دسیوں میٹر موٹی تھی۔
مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جغرافیائی شواہد پورے یقین سے بتاتے ہیں کہ اس دور میں برف ہر جگہ بشمول خطِ استوا موجود تھی۔ تاہم حیاتیاتی شواہد بھی اتنے ہی یقین سے بتاتے ہیں کہ اس دور میں کہیں نہ کہیں پانی سطح پر ضرور موجود تھا۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ سائنو بیکٹیریا اس دور سے آسانی سے گزرے حالانکہ وہ ضیائی تالیف کے عمل سے زندہ رہتے ہیں۔ برف چاہے جتنی بھی شفاف ہو، چند گز کی موٹائی کے بعد اتنی دھندلا جاتی ہے کہ کہ روشنی گزر ہی نہیں سکتی۔ ایک امکان تو یہ ہے کہ شاید بعض جگہوں پر سمندر اس لیے نہ جم سکا کہ اس کے بالکل نیچے گرم پانی کے اخراجی سوراخ ہوں یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ہر طرف برف جمی ہو لیکن انتہائی شفاف ہو۔ قدرتی طور پر اس طرح کی انتہائی شفاف برف ہمیں کئی جگہوں پر ملتی ہے۔
اگر زمین ہر طرح سے جم بھی گئی ہو تو بھی یہ سوال تنگ کرتا ہے کہ پھر دوبارہ کیسے گرم ہوئی؟ برفانی سیارہ اتنی زیادہ شمسی حرارت کو منعکس کرتا ہے کہ اسے ہمیشہ جما رہنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ زمین کے اندر سے مدد ملی ہو جو ٹیکٹانک پلیٹوں پر مشتمل ہے۔ خیال یہ ہے کہ آتش فشانوں کی وجہ سے زمین دوبارہ پگھلی ہوگی۔ آتش فشانی مادہ اور لاوا اور گرم گیسیں وغیرہ جمی ہوئی برفانی تہوں کو توڑ کر اوپر پہنچے ہوں گے اور ان کی حرارت سے برف پگھلی ہوگی اور کرہ فضائی دوبارہ بن گیا ہوگا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس برفانی دور کا اختتام کیمبرین دور پر ہوا جو زمین پر حیات کے لیے بہار کی مانند تھا۔ شاید یہ سب اتنا سہل بھی نہیں تھا۔ جوں جوں زمین گرم ہوتی گئی، موسم وحشیانہ حد تک بدلتا رہا۔ بہت بڑے سمندری طوفان آتے ہوں گے اور فلک بوس عمارتوں جتنی بڑی لہریں بنتی رہی ہوں گی اور بارش کی مقدار انتہائی زیادہ رہی ہوگی۔
اس سارے دور میں چپٹے کیڑے اور سیپیاں گہرے سمندر میں گرم سوراخوں سے ایسے چپکی رہی ہوں گی جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔ تاہم خشکی اور پانی کے دیگر جاندار معدومیت کی حد کو پہنچ گئے ہوں گے۔ تاہم ایسا کب ہوا، اس بارے کہنا ممکن نہیں کیونکہ اسے گزرے بہت طویل عرصہ ہو چکا ہے۔
اس برفانی دور کے مقابلے میں بعد کے برفانی دور بہت چھوٹے تھے تاہم آج کے اعتبار سے ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ وسکونسن کی برفانی چادر جس نے یورپ اور شمالی امریکہ کے زیادہ تر حصے چھپائے ہوئے تھے، بعض جگہوں پر 3 کلومیٹر موٹی تھی اور سالانہ 120 میٹر کی رفتار سے سرک رہی تھی۔ اندازہ کیجئے کہ کیسی دکھائی دیتی ہوگی۔ اس کے اگلے سرے پر برف 800 میٹر موٹی ہوگی۔ سوچیے کہ اتنی اونچی دیوار کے سامنے کھڑے ہونا کیسا لگے گا۔ اس کے پیچھے کروڑوں مربع کلومیٹر جتنی مزید برف ہوگی جو اسے آگے کو دھکیل رہی ہوگی۔ اس برفانی چادر میں سے بمشکل چند بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیاں ہی دکھائی دیتی ہوں گی۔ براعظم اس وزن کے نیچے دبے ہوں گے اور اب برفانی تہہ کے ہٹنے کے 12,000 سال بعد بھی براعظم ابھی واپس اپنی جگہ پر ابھر رہے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے کی برف نے نہ صرف پتھر، چٹانیں اور دیگر اشیاء کو دوسری جگہوں پر پہنچایا بلکہ وادیاں اور کھائیاں بھی بنائیں۔ شاید اسی وجہ سے اگاسز سے پہلے کسی کو اس بات کا خیال تک نہیں آیا۔ اگر برفانی چادریں ایک بار پھر سے حرکت میں آ جائیں تو ہمارے پاس انہیں روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا۔ 1964 میں الاسکا کے علاقے پرنس ولیم ساؤنڈ میں ایک بڑے گلیشیئر کے نیچے زلزلہ آیا جو پورے براعظم شمالی امریکہ میں محسوس کیا گیا۔ اس کی شدت 9.2 تھی۔ فالٹ لائن پر زمین 6 میٹر تک بلند ہو گئی۔ ٹیکساس میں تالابوں سے پانی چھلک گیا۔ پرنس ولیم ساؤنڈ کے گلیشیئر پر کیا اثر پڑا؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ اسی رفتار سے چلتے رہے۔
طویل عرصے تک یہ سوچ رہی تھی کہ برفانی دور کے آغاز اور اختتام سینکڑوں یا ہزاروں سال لمبے ہوتے تھے۔ تاہم ایسا نہیں ہے۔ گرین لینڈ کی برفانی تہوں سے لیے گئے نمونوں سے ہم گذشتہ ایک لاکھ سال کے موسم کا جائزہ لے سکتے ہیں اور یہ جائزہ کسی طور بھی خوش آئند نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر عرصہ زمین کا موسم اتنا اچھا اور پرسکون نہیں رہا جیسا کہ ہماری انسانی تہذیب کے وقت رہا ہے۔ موسم میں اچانک ہی گرمی اور سردی کی شدت آتی رہی تھی۔
12,000 سال آخری بڑے برفانی دور کے اختتام پر زمین جب تیزی سے گرم ہونے لگی پھر اچانک دوبارہ شدید سرد ہو گئی۔ یہ عرصہ ہزار سال کے لگ بھگ جاری رہا اور پھر درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے لگا۔ اس دور میں 20 سال میں دنیا کا اوسط درجہ حرارت 4 ڈگری بڑھا۔ اس دور کو سائنسی زبان میں ‘ینگر دریا’ کہتے ہیں۔ دریا قسم کے آرکٹک پودے برفانی تہہ ہٹنے کے بعد سب سے پہلے اگتے ہیں۔ 4 ڈگری بظاہر تو زیادہ نہیں لگتا لیکن یہ دو دہائیوں میں سکینڈے نیویا کو بحیرہ روم جیسا بنا سکتا ہے۔ مقامی طور پر تو تبدیلیاں اور بھی تیز تھیں۔ گرین لینڈ کی برفانی تہوں کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ بعض جگہوں پر تو 10 سال میں 8 ڈگری تک بھی فرق پڑا جس سے بارش کی مقدار اور پودوں کے اگنے پر بہت فرق پڑا۔ کم آباد سیارے پر اس کے اثرات بہت زیادہ محسوس ہوئے ہوں گے۔ آج کے دور میں اگر ایسا ہو تو یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کیا ہوگا۔
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمیں اس بارے بالکل بھی اندازہ نہیں کہ زمین کا درجہ حرارت اتنی تیزی سے بدلنے کے پیچھے کیا عوامل ہو سکتے ہیں۔ الزبتھ کولبرٹ نے نیو یارکر میں لکھا، ‘کوئی بھی بیرونی قوت، حتیٰ کہ ہمارے وہم و گمان میں موجود کوئی قوت بھی اس قابل نہیں کہ وہ زمین کے درجہ حرارت میں اتنی بڑی تبدیلی لا سکے’۔
ایک نظریہ کہتا ہے کہ ینگر دریا والے دور کے آغاز میں برف پگھلنے سے سمندر میں میٹھے پانی کی مقدار بڑھی جس سے سمندر کی ترشی کم ہوئی اور نتیجتاً خلیجی بحری رو نے اپنا رخ ایسے بدلا جیسے کوئی ڈرائیور سامنے سے آتی ہوئی گاڑی سے بچنے کے لیے موڑ کاٹتا ہے۔ خلیجی رو سے محروم ہونے کے بعد شمالی علاقوں میں موسم زیادہ سرد ہو گیا۔ تاہم یہ نظریہ اس بارے خاموش ہے کہ جب ہزار سال بعد زمین پھر گرم ہوئی تو خلیجی رو نے اپنا رخ پھر کیوں نہیں بدلا۔ بس ہمیں یہ پتہ ہے کہ اس کا نتیجہ ہمارے موجودہ دور کی شکل میں نکلا جہاں ہم رہ رہے ہیں۔
یہ فرض کرنا ٹھیک نہیں کہ موسم ہمیشہ ایسے ہی رہے گا۔ کچھ سائنس دانوں کا تو یہ خیال ہے کہ ہماری صورتحال اس وقت مزید خراب ہو رہی ہے۔ اب آپ سوچیں گے کہ اگر گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت سامنے آئے تو اس کا فائدہ ملے گا۔ تاہم کولبرٹ کے مطابق، ‘موسم جب اتنا ناقابلِ بھروسہ ہو تو پھر اس پر اتنے بڑے پیمانے کا تجربہ کرنا مناسب نہیں’۔ ایک نظریے کے مطابق تو برفانی دور کا آغاز ہوتا ہی اس وقت ہے جب درجہ حرارت بڑھنے لگیں۔ یعنی زیادہ گرمی سے زیادہ پانی بخارات کی شکل میں اڑے گا جس سے بننے والے بادل سورج کی زیادہ شعاعیں روکیں گے اور بالائی اور شمالی علاقوں میں زیادہ برف جمع ہوگی۔ گلوبل وارمنگ سے الٹا شمالی امریکہ اور شمالی یورپ مزید ٹھنڈے ہو جائیں گے۔
موسم بہت سارے متغیرات سے مل کر بنتا ہے جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کم یا زیادہ ہوتی سطح، براعظموں کی حرکت، شمسی تعامل، میلانکووچ کے ادوار وغیرہ اور ان کا ماضی سے مقابلہ کرنا اتنا مشکل ہے کہ مستقبل میں ان کی پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں۔ بہت ساری باتیں تو ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ مثال کے طور پر انٹارکٹیکاجب قطب جنوبی پر پہنچا تو 2 کروڑ سال تک وہاں نباتات اگتی رہی تھیں اور زمین پر برف کا نشان تک نہیں تھا۔ اصولی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں۔
بعض ڈائنو ساروں کا دور بھی عجیب تر ہے۔ برطانوی ارضیات دان سٹیفن ڈروری نے دیکھا کہ قطب شمالی سے 10 ڈگری عرض بلد تک کے جنگلوں میں بہت بڑے ڈائنو سار رہتے تھے۔ ڈروری کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ان علاقوں میں ہر سال تین ماہ تک تاریکی چھائی رہتی ہے۔ یہ بھی شواہد ہیں کہ ان علاقوں میں سردیاں نسبتاً شدید ہوتی تھیں۔ آکسیجن آئسو ٹوپ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ الاسکا کے فیئر بینکس کا موسم Cretaceous دور میں بھی لگ بھگ اسی طرح تھا جیسا کہ اب ہے۔ یا تو ڈائنو سار ہر سال طویل مسافت طے کر کے آتے جاتے تھے یا پھر سال کا زیادہ تر حصہ برف سے ڈھکے علاقے میں رہتے ہوں گے۔ اس دور میں آسٹریلیا زیادہ جنوب میں تھا اور وہاں سے گرم علاقے کو ہجرت کرنا بھی ممکن نہیں۔ عجیب بات ہے کہ وہاں ڈائنو سار کیسے زندہ رہے ہوں گے۔
ایک بات یاد رہے کہ اگر کسی وجہ سے بھی اب برفانی دور شروع ہوا تو اس مرتبہ پہلے سے بہت زیادہ پانی موجود ہے جو برف بنے گا۔ شمالی امریکہ کی عظیم جھیلیں، خلیج ہڈسن، کینیڈا کی لاتعداد جھیلیں وغیرہ سب کی سب پچھلے برفانی دور سے قبل نہیں تھیں کہ اس عمل کو تیز بناتیں، بلکہ برفانی دور کے خاتمے پر بنی ہیں۔
دوسری جانب اگر موجودہ برف پگھلنے لگتی ہے تو ایک اور مسئلہ پیدا ہوگا۔ اگر تمام تر برف پگھل جائے تو سمندروں کی سطح 60 میٹر بلند ہو جائے گی جو 20 منزلہ عمارت کی بلندی ہے۔ دنیا کے تمام تر ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ مغربی انٹارکٹک کی برفانی تہہ پگھل جائے۔ اس کے آس پاس سمندر کا درجہ حرارت پچاس برسوں میں 2.5 ڈگری جتنا بڑھ چکا ہے اور تہہ کے ٹوٹنے کے واقعات بڑھتے جار ہے ہیں۔ برف کے نیچے کی جغرافیائی شکل و صورت کی وجہ سے ایسا ہونے کے مزید امکانات بھی ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو دنیا کے سمندروں کی سطح 4.5 سے 6 میٹر تک بلند ہو جائے گی۔
ہمیں تو یہ بھی علم نہیں ہے کہ مستقبل میں ہمارے لیے شدید سردی پوشیدہ ہے کہ شدید گرمی۔ البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہم اس وقت تلوار کی دھار پر چل رہے ہیں۔
سیارے کے لیے تو برفانی تہیں خوشخبری ہوتی ہیں کہ برفانی تہیں چٹانوں کو پیس کر نئی اور زرخیز مٹی پیدا کرتی ہیں جہاں ہزاروں نئی انواع کی خوراک چھپی ہوتی ہے۔ برفانی تہیں ہجرت کے عمل کو مہمیز کرتی ہیں اور سیارے کو متحرک رکھتی ہیں۔ ٹم فلینلی کے مطابق، ‘کسی بھی براعظم کے لوگوں کی قسمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ماضی میں کتنا شدید برفانی دور رہا ہے۔ آئیے اب ہم بندروں کی ایک نوع کو دیکھتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
28 حیرت انگیز دو پایہ​
1887 کی کرسمس سے ذرا قبل ایک ولندیزی ڈاکٹر ماری یوجین فرانکوئز تھامس ڈبیوس (ولندیزی ہونے کے باوجود اس کی پیدائش فرانسیسی بولنے والے بیلجیم کے ایک شہر میں ہوئی تھی) سماٹرا پہنچا جو ولندیزی ایسٹ انڈیز میں تھا۔ اس کا ارادہ یہاں سے دنیا کے قدیم ترین انسان کی تلاش تھا۔
اس ساری کہانی میں بہت سی باتیں عجیب تھیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس سے قبل کسی نے قدیم انسان کی ہڈیاں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ابھی تک ملنے والے تمام تر شواہد حادثاتی طور پر ملے تھے اور اس کے علاوہ ڈبیوس کے پسِ منظر میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ وہ یہ کام کرنے کا سوچتا۔ اس کی تعلیم علم الابدان سے متعلق تھی نہ کہ متحجرات یعنی فاسلز سے متعلق۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں تھا کہ اگر قدیم انسان کی ہڈیاں ملیں بھی تو وہ عام جگہوں کے برعکس ایک جزیرے نما سے ملیں گی۔ روزگار، ایسٹ انڈیز کے بارے محض ایک خیال اور یہ علم کہ سماٹرا غاروں سے بھرا ہوا ہے اور ایسی جگہوں سے اب تک کئی قدیم انسانی ڈھانچے ملے ہیں (انسان کو Hominidae خاندان میں رکھا گیا ہے۔ اس کے اراکین کو انسان نما کہا جاتا ہے جس میں موجود ہر مخلوق چمپانزی سے زیادہ ہم سے مشابہہ تھی)، ڈبیوس کے یہاں آنے کی وجوہات تھیں۔ سب سے بڑی اور متحیر کن بات دیکھیے کہ اس نے اپنا مقصود پا لیا۔
جب ڈبیوس نے یہ فیصلہ کیا تو اس وقت تک انسانی فاسل ریکارڈ نہ ہونے کے برابر تھا یعنی نیندرتھال کے پانچ ادھورے ڈھانچے، ایک نامعلوم انسان نما مخلوق کا ادھورا جبڑا اور برفانی دور کے انسانوں کے چھ ڈھانچے جو حال ہی میں فرانس میں کرومیگنان کے علاقے سے ریلوے کارکنوں نے ایک غار میں تلاش کیے تھے۔ نیندرتھال کا سب سے بہترین ڈھانچہ لندن میں محفوظ تھا۔ اسے 1848 میں جبرالٹر میں چٹانوں کو دھماکے سے اڑاتے ہوئے مزدوروں کو یہ ڈھانچہ ملا تھا۔ اس کا محفوظ رہ جانا ایک معجزہ تھا مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ جبرالٹر کی سائنٹیفک سوسائٹی میں اس کے بارے مختصر بات ہوئی اور پھر اسے ہنٹیرین میوزم بھیج دیا گیا جہاں نصف صدی سے زیادہ عرصے سے محفوظ تھا۔ اس پر ہونے والا کام محض وقتاً فوقتاً ہونے والی جھاڑ پونچھ تھا۔ 1907 میں اس کا پہلا رسمی تعارف لکھا گیا جو ایک ماہرِ ارضیات ولیم سولاس نے لکھا اور اس کی علم الابدان سے متعلق تعلیم واجبی تھی۔
اس طرح قدیم انسان کی دریافت کا سہرا جرمنی کی وادی نیندر کو ملا اور عجیب بات دیکھیے کہ یونانی زبان میں نیندر کا مطلب ‘نیا انسان‘ ہے۔ یہاں 1856 میں ایک اور جگہ مزدوروں نے ایک چٹان پر کام کرتے ہوئے جو دریائے ڈسل کی جانب تھی کچھ عجیب سی ہڈیاں دکھائی دیں۔ انہوں نے یہ ہڈیاں مقامی سکول کے استاد کو دے دیں۔ اس استاد کو ایسی چیزوں سے خصوصی دلچسپی تھی۔ اس استاد کا نام جان کارل فلروٹ تھا۔ اس نے فوراً ہی پہچان لیا کہ یہ کسی نئی قسم کے انسان کی ہڈیاں ہیں۔ ان کی اہمیت پر کچھ عرصہ کافی بحث ہوتی رہی۔
اکثریت نے تو ان ہڈیوں کو قدیم ماننے سے انکار کر دیا۔ بون یونیورسٹی کے پروفیسر آگسٹ میئر، جو کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا، نے اصرار کیا کہ یہ ہڈیاں محض منگول فوجی کی ہیں جو 1814 میں جرمنی میں جنگ کے دوران زخمی ہو کر ان غاروں میں پہنچ کر مر گیا۔ یہ سن کر ٹی ایچ ہکسلے نے اس پر پھبتی کسی کہ کتنا اچھا فوجی تھا کہ زخمی ہونے کے بعد 60 فٹ اونچی چوٹی پر چڑھا، اپنی وردی اور ہتھیار اتار پھینکے اور غار میں گھس کر اس کا منہ بند کیا اور خود کو دو فٹ مٹی کے نیچے دفن کر دیا۔ نیندرتھال کی ابرو والی اونچی ہڈی سے ایک اور ماہر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شاید یہ بازو کے بمشکل مندمل ہونے والے پرانے زخم کی تکلیف سے ہوا ہوگا (قدیم انسان کے وجود سے انکار کرنے کی خاطر ماہرین کسی بھی قسم کی بکواس پر یقین کرنے کو تیار تھے۔ جب ڈبیوس سماٹرا روانہ ہونے والا تھا، اسی دوران ایک اور قدیم ڈھانچے کے دریافت ہونے پر اسے اسکیمو کا ڈھانچہ قرار دے دیا گیا۔ اب سوچیے کہ جنوب مغربی فرانس میں اسکیمو کہاں سے آیا۔ درحقیقت یہ اولین کرو میگنان انسان کا ڈھانچہ تھا)۔
اس پسِ منظر کے ساتھ ڈبیوس نے قدیم انسانی ہڈیوں کی تلاش شروع کی۔ تاہم اس نے خود کھدائی کرنے کی بجائے ولندیزی حکام کی جانب سے دیے گئے 50 مجرموں سے کھدائی کرائی۔ ایک سال تک وہ لوگ سماٹرا میں کام کرتے رہے اور پھر جاوا منتقل ہو گئے۔ وہاں 1891 میں ڈبیوس کی ٹیم کو قدیم انسانی کھوپڑی کا ایک حصہ ملا کہ ڈبیوس خود کم ہی ایسی جگہوں پر جاتا تھا۔ اسے اب Trinil skullcap کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ پوری کھوپڑی نہیں تھی مگر اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس کے نقوش واضح طور پر غیر انسانی تھے مگر دماغ کا حجم کسی بھی بندر نما جانور سے کہیں بڑا تھا۔ ڈبیوس نے اسے Anthropithecus erectus (بعد میں تکنیکی وجوہات کی بنا پر نام بدل کر Pithecanthropus erectus رکھ دیا گیا) کا نام دیا اور اسے انسانوں اور بندروں کے درمیان کی گمشدہ کڑی قرار دے دیا۔ جلد ہی اسے ‘جاوا مین‘ کہا جانے لگا۔ آج اسے Homo erectus کہا جاتا ہے۔
اگلے سال ڈبیوس کے مزدوروں کو ایک تقریباً پوری ران کی ہڈی ملی جو بہت حد تک جدید لگتی تھی۔ بہت سارے ماہرین کے خیال میں یہ قدیم نہیں بلکہ جدید ہی ہے اور جاوا مین سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر یہ erectus کی ہی ہڈی ہے تو ایسی ہڈی آج تک دوبارہ نہیں ملی۔ تاہم اسی ہڈی کو بنیاد بنا کر ڈبیوس نے نتیجہ نکالا کہ Pithecanthropus سیدھا چلتا تھا۔ بعد میں یہ نتیجہ درست ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ کھوپڑی کے ایک ٹکڑے اور ایک دانت کی مدد سے اس نے پوری کھوپڑی کا خاکہ تیار کیا اور وہ خاکہ بھی حیران کن حد تک درست نکلا۔
1895 میں ڈبیوس یورپ لوٹا تو اسے امید تھی کہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا مگر ردِ عمل اس کی توقع کے عین برعکس تھا۔ زیادہ تر سائنس دانوں نے اس کا فخریہ رویہ اور اپنے نتائج پیش کرنے کے انداز کو شدید ناپسند کیا۔ ان کے خیال میں یہ کھوپڑی کا حصہ کسی بندر نما مخلوق کا تھا نہ کہ قدیم انسانی۔ تاہم مدد کی خاطر اس نے سٹراس برگ کی یونیورسٹی کے ایک ماہرِ علم الابدان گستاف شوالب سے اس کھوپڑی کا مکمل نمونہ بنانے کی درخواست کی۔ ڈبیوس کی مایوسی دیکھیے کہ شوالب نے اس پر ایک مختصر مقالہ لکھا اور اس مقالے کو ڈبیوس کی نسبت کہیں زیادہ پذیرائی ملی اور اسے ہر جگہ لیکچر دینے کو بلایا جانے لگا جیسے یہ کھوپڑی اس نے خود تلاش کی ہو۔ شدید مایوس اور افسردہ ہو کر ڈبیوس نے ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں علمِ ارضیات کے پروفیسر کی نوکری کر لی اور اگلے بیس سال تک کسی کو ان فاسلز کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی۔ 1940 میں اپنی موت تک وہ ناخوش رہا۔
اس دوران آدھی دنیا کے فاصلے پر 1924 کے اواخر میں ریمونڈ ڈارٹ کو ایک بچے کی مکمل کھوپڑی بھیجی گئی۔ ڈارٹ آسٹریلیا میں پیدا ہوا اور جوہانسبرگ میں ایک یونیورسٹی میں علم الابدان کے شعبے کا سربراہ تھا۔ یہ کھوپڑی صحرائے کالاہاری میں چونے کی کھدائی سے ملی تھی۔ اس کھوپڑی میں نچلا جبڑا اور چہرے کے نقوش بھی صاف تھے۔ ڈارٹ نے فوراً جان لیا کہ یہ کھوپڑی Homo erectus کی نہیں بلکہ ایک اور بندر نما مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے خیال میں یہ کھوپڑی 20 لاکھ سال پرانی تھی اور اسے Australopithecus africanus یا ‘افریقہ کا جنوبی بندر نما انسان‘ کہا۔ Nature میں اس نے لکھا کہ یہ کھوپڑی بڑی حد تک انسانی لگتی ہے اور اس کے لیے ایک نیا خاندان Homo simiadae بنایا جائے۔
تاہم حکام نے ڈارٹ کے ساتھ ڈبیوس سے بھی برا سلوک کیا۔ اس کے نظریے اور اس کی ذات سے منسلک ہر چیز ان کے لیے غصے کا سبب تھی۔ سب سے پہلے تو اس نے یہ تجزیہ خود کیا تھا اور دنیا بھر کے چوٹی کے ماہرین میں سے کسی سے بھی مدد نہیں مانگی۔ دوسرا اس کا چنا ہوا نام Australopithecus لاعلمی پر مبنی تھی کہ اس میں یونانی اور لاطینی جڑیں تھیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہ نظریہ اس وقت کے معلوم نظریات کے عین برعکس تھا۔ انسان اور بندر کے بارے یہ طے کیا جا چکا تھا کہ وہ آج سے ڈیڑھ کروڑ سال قبل الگ ہو گئے تھے۔ اب اگر انسان افریقہ سے نکلے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم سبھی سیاہ فام نسل سے نکلے ہیں۔ یہ بات اُس وقت کے علم کے عین متضاد تھی۔
رابرٹ بروم نامی ایک فزیشن اور پیلنٹالوجسٹ ڈارٹ کا اہم اور واحد حامی تھا۔ تاہم بروم اپنی نوعیت کا ایک سنکی تھا۔ اس کی عادت تھی کہ فیلڈ ورک کرتے ہوئے وہ اپنے تمام تر کپڑے اتار دیتا تھا کہ اکثر ایسی جگہیں بہت گرم ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کی عادت تھی کہ اپنے غریب مریضوں پر وہ مختلف تجربات کرتا رہتا اور جب اکثر جب مریض مر جاتے تو انہیں اپنے صحن میں دفن کر دیتا تاکہ بعد میں نکال کر ان کا تجزیہ کر سکے۔
بروم کو آثارِ قدیمہ میں باقاعدہ مہارت حاصل تھی اور چونکہ وہ بھی جنوبی افریقہ میں رہتا تھا، اس لیے اس نے خود جا کر یہ کھوپڑی دیکھی۔ اس نے فوراً ہی اس کی اہمیت جان لی اور ڈارٹ کی حمایت میں نکل کھڑا ہوا مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اگلے پچاس سال تک سائنس دانوں نے اس کھوپڑی کو انسان کی بجائے بندر کی کھوپڑی ہی مانے رکھا۔ زیادہ تر درسی کتب میں اس کا ذکر تک نہیں ہوا۔ پانچ سال کی محنت کے بعد ڈارٹ نے ایک مقالہ لکھا مگر کوئی اسے چھاپنے پر تیار نہ ہوا۔ آخرکار اس نے مقالہ چھاپنے کی خواہش کو دل سے نکال دیا۔ آج آثارِ قدیمہ کے بڑے خزانوں میں سے ایک یہ کھوپڑی برسوں تک اس کے رفیقِ کار کی میز پر پیپر ویٹ کا کام کرتی رہی۔
1924 میں جب ڈارٹ نے اپنی دریافت کا اعلان کیا تو اس وقت تک قدیم انسانوں کو چار درجات میں بانٹا گیا تھا: Homo heidelbergensis, Homo rhodesiensis، نیندر تھال اور ڈبیوس کا جاوا مین۔ تاہم اب صورتحال بدلنے والی تھی۔
پہلے چین میں ایک کینیڈا نژاد شوقیہ ماہر ڈیوڈسن بلیک نے مقامی مشہور جگہ ڈریگن بون ہل یعنی ڈریگن کی ہڈیوں والی پہاڑی کی چھان بین کی۔ اس جگہ سے پرانی ہڈیوں کا ملنا عام سی بات تھی۔ بدقسمتی سے ان ہڈیوں کو تلاش کرنے کے بعد ان کا مطالعہ کرنے کی بجائے انہیں پیس کر مقامی ادویات میں ملا دیا جاتا تھا۔ سوچیے کہ Homo erectus کی کتنی نایاب ہڈیاں عام سی ادویات میں استعمال ہو چکی ہوں گی۔ بلیک کی آمد سے قبل اس جگہ کی کافی کھدائی ہو چکی تھی پھر بھی اس نے ایک فاسل شدہ دانت تلاش کر لیا اور اسے بنیاد بنا کر اس نے Sinanthropus pekinensis کی دریافت کا اعلان کیا اور اسے جلد ہی پیکنگ مین کہا جانے لگا۔
بلیک کے اصرار پر اس جگہ مزید کھدائی کی گئی اور بہت ساری ہڈیاں ملیں۔ بدقسمتی سے جب جاپانیوں نے پرل ہاربر پر 1941 میں حملہ کیا تو تمام ہڈیاں ضائع ہو گئیں کیونکہ جب وہ ان ہڈیوں کو ملک سے نکال رہے تھے تو جاپانیوں نے انہیں پکڑ لیا۔ جب ان کے سامان سے محض ہڈیاں برآمد ہوئیں تو انہوں نے ہڈیوں والا صندوق وہیں سڑک کنارے چھوڑ دیا اور قیدی ساتھ لے گئے۔ اس دن کے بعد یہ صندوق کبھی نہیں دیکھا گیا۔
اسی دوران جاوا میں ڈبیوس کی کھدائی والی جگہ پر رالف وون کونگز والڈ کی زیرِنگرانی مزید کھدائی کر کے قدیم انسانوں کی بہت ساری ہڈیاں نکالی گئیں جنہیں سولو لوگ کہا گیا کہ یہ مقام دریائے سولو کے کنارے تھا۔ اس کی دریافتیں اور بھی چشم کشا ہوتیں مگر اس نے ایک بنیادی غلطی کر دی تھی۔ اس نے مقامی لوگوں کو قدیم انسانوں کی ہڈی کے ہر ٹکڑے کے بدلے 10 سینٹ دینے کا وعدہ کیا اور پھر اس نے بعد میں دیکھا کہ لوگ ہڈیوں کے بڑے ٹکڑوں کو پورے جوش و خروش سے توڑ کر کئی چھوٹے ٹکڑے بنا رہے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکیں۔
آئندہ سالوں میں اور بھی کئی قسم کے قدیم انسان دریافت ہوئے اور بہت سارے نام متعارف کرائے گئے: Homo aurignacensis, Australopithecus transvaalensis, Paranthropus crassidens, Zinjanthropus boisei وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں ۔ تقریباً ہر ایک ہی نئے جینس اور نئی نوع سے تعلق رکھتا تھا۔ 1950 کی دہائی تک انسان نما مخلوقات کی قسمیں سو سے بڑھ چکی تھیں۔ مزید الجھن دیکھیے کہ اکثر یہ اقسام گڈمڈ ہو جاتی تھیں کہ ماہرین کام کے دوران ان کی تقسیم کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے ان میں تبدیلیاں کرتے رہتے تھے۔ سولو لوگوں کو کبھی Homo soloensis, Homo primigenius asiaticus, Homo neanderthalensis soloensis, Homo sapiens soloensis, Homo erectus erectus اور پھر Homo erectus بھی کہا جاتا رہا ہے۔
ترتیب کی خاطر 1960 میں یونیورسٹی آف شکاگو کے ایف کلارک ہوول نے ارنسٹ مائر اور دیگر کے کہنے پر قدیم انسان نما مخلوقات کو دو گروہوں یا جینس میں بانٹ دیا۔ ان کے نام Australopithecus اور Homo تجویز ہوئے اور انواع کو ان میں بانٹ دیا گیا۔ جاوا اور پیکنگ مین دونوں کو Homo erectus میں رکھا گیا۔ کچھ عرصے تک تو یہ ترتیب ٹھیک چلتی رہی۔ مگر پھر اس کا وقت بھی پورا ہو گیا۔
دس سال کے نسبتاً سکون کے بعد پیلیو اینتھراپی میں پھر نت نئی دریافتیں ہونا شروع ہوئیں اور یہ ابھی تک جاری و ساری ہیں۔ نئی دریافت ہونے والی اقسام میں Homo ergaster, Homo louisleakeyi, Homo rudolfensis, Homo microcranus اور Homo antecessor کے علاوہ Australopithecines کی بھی کئی اقسام دریافت ہوئیں۔ تمام اقسام کو ملا کر آج انسان نما مخلوقات کی کل تعداد لگ بھگ 20 ہے مگر بدقسمتی سے کوئی بھی ان پر متفق نہیں کہ یہ بیس اقسام کون کون سی ہیں۔
اس کے علاوہ ان امور میں کوئی ایسی جماعت نہیں کہ جس کو حرفِ آخر مانا جا سکے۔ اس لیے نام وہی استعمال ہوتا ہے جو زیادہ قابلِ قبول ہو۔ تاہم ایسا کم ہی ہوتا ہے۔
اس مسئلے کی سب سے اہم وجہ شواہد کی کمی ہے۔ وقت کے آغاز سے اب تک اربوں کی تعداد میں انسان اور انسان نما مخلوقات پیدا ہوئی ہیں اور ہر ایک نے جینیاتی اعتبار سے کچھ نہ کچھ تبدیلی متعارف کرائی ہے۔ ان تمام تبدیلیوں سے ان انسانوں اور انسان نما مخلوقات کے بارے معلومات لینے کے لیے ہمارے پاس موجود شواہد انتہائی محدود ہیں، شاید کل 5٫000 افراد۔ جب میں نے نیو یارک کے امریکی میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ایک ذمہ دار ٹیٹرسال سے پوچھا کہ کل انسانی اور انسان نما مخلوقات کی باقیات کتنی ہیں تو اس نے جواب دیا، ‘ایک پک اپ میں سارے شواہد سما جائیں گے۔‘
اگر وقت اور مقام کے اعتبار سے یہ شواہد برابر وقفوں سے پائے جاتے ہوں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ Homo erectus کرہ ارض پر 10 لاکھ سال سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہے لیکن اگر ہم اپنے پاس موجود شواہد کی بنیاد پر ان کی تعداد کا جائزہ لیں تو تیس یا چالیس افراد بنیں گے۔ یاد رہے کہ یہ مخلوق مغربی یورپ سے مشرقی چین تک کے علاقے پر پائی جاتی تھی۔ Homo habilis کے ہمیں کل دو جزوی ڈھانچے اور کچھ ہاتھ پیر کی ہڈیاں ملی ہیں۔ جتنے عرصے سے ہماری تہذیب شروع ہوئی ہے، اس حساب سے تو ہمارے وجود کے کوئی بھی شواہد نہیں ملیں گے۔
‘یورپ میں انسان نما مخلوق کی کھوپڑیاں جارجیا میں ملی ہیں جو 17 لاکھ سال پرانی ہیں اور اس کے بعد اگلے 10 لاکھ سال کے وقفے کے بعد ہمیں اگلے شواہد سپین سے ملے جو کہ براعظم کے عین دوسرے کنارے پر ہے۔ پھر تین لاکھ سال کے وقفے کے بعد جرمنی سے Homo heidelbergensis ملا۔ یہ سب ایک دوسرے سے کم ہی مشابہہ ہیں۔ ان بکھرے ہوئے شواہد سے ہم پوری پوری انواع کے بارے تحقیقات کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں ان انواع کے بارے ہمیں شاید ہی کچھ علم ہو کہ کون سی انواع ہم تک پہنچیں اور کون کون سی انواع راستے میں ہی معدوم ہو گئیں۔‘ ٹیٹرسال نے بتایا۔
شواہد کی کمی کی وجہ سے ہی جب کوئی نئی دریافت ہوتی ہے تو وہ دیگر شواہد سے اتنا مختلف ہوتی ہے۔ اگر ہمارے پاس ہزاروں کی تعداد میں ان مخلوقات کے ڈھانچے ہوں اور وہ ہر جگہ مناسب وقفوں سے بکھرے ہوئے ہوں تو ہمارا کام آسان ہو سکتا ہے۔ نئی نوع آہستہ آہستہ اور پہلے سے موجود انواع سے بنتی ہے اور اچانک ہی پیدا نہیں ہوتی، حالانکہ ہمارا فاسل ریکارڈ یہی بتاتا ہے۔ جب نئی نوع پہلے سے موجود نوع سے الگ ہوتی ہے تو اس دورانیے کے جاندار کو پہچاننا آسان نہیں۔ وہ دونوں انواع سے مشابہہ ہوتے بھی ہیں اور دونوں سے الگ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ Homo erectus کے آخری دور کی مخلوق کا Homo sapiens سے مقابلہ کریں تو کبھی وہ دونوں انواع سے مشابہہ لگتا ہے تو کبھی دونوں سے الگ۔ اسی طرح اگر سامنے محض ایک ہڈی ہو تو نر یا مادہ کے علاوہ یہ فیصلہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کس نوع سے تعلق رکھتی ہوگی۔
اتنے کم شواہد کی موجودگی کی بنا پر سائنس دان ان ہڈیوں کے آس پاس موجود اشیا کو بنیاد بنا کر اندازے لگاتے ہیں۔ تاہم یہ بھی انتہائی مبہم کام ہے۔ ایلکن واکر اور پیٹ شپ مین نے لکھا ہے کہ اگر کسی نوع کے جاندار کی ہڈیوں کے پاس موجود اوزاروں سے انہیں ملایا جائے تو پتہ چلے گا کہ زیادہ تر قدیم اوزار ہرنوں نے بنائے تھے۔
ان شواہد کے ناقابلِ اعتبار ہونے کا سب سے بڑا ثبوت Homo habilis ہے۔ ان ہڈیوں کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔ ان کی ارتقا دو الگ سمتوں میں ہو رہی تھی۔ ان میں نروں کی ہڈیاں ثابت کرتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ زیادہ انسان نما اور کم بندر نما ہوتے جا رہے تھے جبکہ مادہ کی ہڈیوں سے پتہ چلتا ہے کہ عین اسی دوران وہ زیادہ سے زیادہ بندر نما اور کم انسان نما ہوتی جا رہی تھیں۔ بعض ماہرین habilis کو الگ سے نہیں مانتے۔ ٹیٹرسال اور جیفری شوارٹز اس شاخ کو ‘ردی کی ٹوکری‘ کہتے ہیں کہ جہاں ہر قسم کے غیر متعلقہ فاسلز ڈال دیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو ماہرین اسے الگ نوع مانتے ہیں، وہ بھی اس بات پر متفق نہیں کہ آیا یہ ہمارے جینس سے تعلق رکھتی تھی یا کوئی ایسی ذیلی شاخ تھی جو کہ وقت کے ساتھ معدوم ہو گئی۔
اس کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ انسانی فطرت بھی ہے۔ ہر سائنس دان ان دریافتوں کو اپنی مرضی سے ایسے بیان کرتا ہے جو اس کی اپنی تعریف کا سبب بن سکیں۔ شاید ہی کوئی پیلنٹالوجسٹ ہو جو اعلان کرے کہ اس نے قدیم ہڈیاں دریافت کی ہیں کہ جن میں کوئی خاص بات نہیں۔ جان ریڈر نے اپنی کتاب Missing Links میں لکھا ہے کہ ‘یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے نئی دریافتیں دراصل اپنے دریافت کنندہ کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔‘
اس طرح قدیم انسان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا امر ہو کہ جس پر بحث نہ ہوتی ہو۔ ہم صرف ایک بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کسی حد تک معلوم ہے کہ ہم کون ہیں اور بطور نوع کیسے پیدا ہوئے۔
بطور جاندار، اپنی تاریخ کے 99.99999 فیصد وقت ہم اور چمپانزی ایک ہی تھے۔ تاہم چمپانزیوں کی ابتدا کے بارے کچھ بھی علم نہیں، تاہم جو چمپانزیوں کا پسِ منظر ہے، وہی ہمارا بھی ہے۔ پھر 70 لاکھ سال قبل کچھ اہم واقعہ ہوا۔ افریقہ کے استوائی جنگلات سے نئی جانداروں کا ایک گروہ باہر نکلا اور گھاس کے کھلے میدانوں میں پھیل گیا۔
یہ جاندار Australopithecines تھے اور اگلے 50 لاکھ سال تک یہ کرہ ارض کی سب سے غالب نوع بنے رہے (Austral کا سابقہ لاطینی میں جنوب کو ظاہر کرتا ہے)۔ یہ مخلوق کئی اقسام کی تھی جن میں سے بعض نرم و نازک تھے تو بعض سخت جان اور مضبوط، تاہم سب ہی سیدھا چلنے کے قابل تھے۔ ان کی بعض انواع دس لاکھ سال سے زیادہ زندہ رہیں تو بعض انواع محض چند لاکھ سال سال بعد ختم ہو گئیں۔ تاہم یہ بات یاد رہے کہ ان میں سے ناکام ترین نوع بھی ہم سے کئی گنا زیادہ عرصہ زندہ رہی تھی۔
سب سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہنے والے انسان نما مخلوق کا دورانیہ 31.8 لاکھ سال تھا جس کے بارے 1974 میں ایتھوپیا سے ڈونلڈ جانسن کی زیرِ نگرانی ٹیم نے باقیات دریافت کیں۔ اسے باضابطہ طور پر A.L. (Afar Locality یعنی جہاں دریافت ہوا، اس مقام کا نام) 288-1 کا نام دیا گیا۔ اس ڈھانچے کو عرفِ عام میں لوسی کہا جاتا ہے۔ جانسن کو اس دریافت کی اہمیت پر کبھی شک نہیں ہوا اور اس نے کہا کہ ‘لوسی ہماری قدیم ترین بزرگ ہے اور انسان اور بندر کے درمیان کی گمشدہ کڑی۔‘
لوسی پست قامت تھی اور اس کا قد محض ساڑھے تین فٹ تھا۔ اگرچہ وہ سیدھا چل سکتی تھی مگر کتنی آسانی سے، بحث طلب امر ہے۔ بظاہر اسے درختوں پر چڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ اس کی کھوپڑی غائب ہے اور اس کے دماغ کے حجم کے بارے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ زیادہ تر کتب میں درج ہے کہ لوسی کا 40 فیصد ڈھانچہ ملا ہے مگر بعض جگہوں پر نصف اور بعض پر دو تہائی ڈھانچہ بھی لکھا ہے۔ بی بی سی کی ٹی وی ڈاکومنٹری میں غلط طور پر اسے پورا ڈھانچہ کہا گیا۔
انسانی جسم میں 206 ہڈیاں ہوتی ہیں لیکن ان میں سے بہت ساری ہڈیاں ایک سے زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ اگر ہمارے پاس دائیں ران کی ہڈی ہو تو ہمیں بائیں ران کی ہڈی کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس طرح ایک سے زیادہ قسم کی ہڈیاں نکال دی جائیں تو کل منفرد ہڈیاں 120 بچ جاتی ہیں۔ اسے نصف ڈھانچہ کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی اگر ہم لوسی کی ہر ہڈی کا ریزہ بھی الگ سے ہڈی مان لیں تو ہمارے پاس اس نصف ڈھانچے کا محض 28 فیصد بچتا ہے (پورے ڈھانچے کا محض 20 فیصد)۔
ایلن واکر نے اپنی کتاب The Wisdom of the Bones میں لکھا ہے کہ اس نے ایک بار جانسن سے پوچھا کہ 40 فیصد ڈھانچے کا ہندسہ کہاں سے آیا۔ اس نے بتایا کہ لوسی کے ہاتھ کی 106 ہڈیوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا ہے کیونکہ اس دور کے جاندار کے ہاتھ اور پیر بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم ترین عضو تھے۔ بہرحال، لوسی کے بارے ہمیں انتہائی کم معلومات ہیں۔ مزے کی بات دیکھیے کہ لوسی کو محض اس لیے اس لیے مادہ مانا جاتا ہے کہ اس کی جسامت مختصر تھی۔
لوسی کی دریافت کے دو سال بعد میری لیکی کو تنزانیہ میں دو جانداروں کے پیر کے نشانات ملے جس کے بارے اندازہ ہے کہ وہ ایک ہی نسل کے قدیم انسان تھے۔ جب یہ انسان یہاں سے گزرے تو اس وقت پھٹتے ہوئے آتش فشاں سے نکلنے والی راکھ بہہ رہی تھی۔ بعد میں جب یہ راکھ سخت ہوئی تو ان کے قدموں کے نشانات لگ بھگ 23 میٹر جتنے رقبے پر محفوظ رہ گئے۔
نیویارک کے امیریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں اس کی نقل تیار کی گئی ہے۔ اس جگہ دو پوری جسامت کے چمپانزی نما اور بالوں سے بھرے جسم والی مخلوقات کو گزرتا دکھایا گیا ہے۔ تاہم ان کے انداز و اطوار انسانوں سے مشابہ ہیں۔ نر نے اپنا بائیاں ہاتھ مادہ کے شانے پر رکھا ہوا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان جذباتی لگاؤ تھا۔
یہ منظر اتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے کہ ایک لمحے کو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ قدموں کے نشانات کے سوا باقی سب کچھ فرضی اور تخیلاتی ہے۔ اس مخلوق کے جسم پر بال، چہرے کے نقوش (انسانی ناک یا بندر نما ناک)، چہرے کے تاثرات، جلد کا رنگ، ان کی جسامت اور خاتون کی چھاتیاں بھی، سب کی سب تخیل کی پیداوار ہیں۔ ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ جوڑا تھے۔ خاتون سمجھی جانی والی مخلوق ہو سکتا ہے کہ بچہ ہو۔ یہ بھی محض اندازہ ہے کہ وہ Australopithecines ہوں گے کہ اس جگہ کسی اور انسان نما مخلوق کا کوئی ثبوت نہیں۔
مجھے کسی نے بتایا تھا کہ انہیں اس لیے اس طور پر دکھایا گیا تھا کہ زنانہ مجسمہ بار بار گر رہا تھا۔ مگر ٹیٹرسال نے بتایا کہ ایسا نہیں۔ ‘ہمیں یقین تو نہیں کہ مرد کا بازو عورت کےشانے پر تھا مگر دونوں کے قدموں کی لمبائی سے پتہ چلتا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب اور ایک ساتھ چل رہے تھے کہ ایک دوسرے کو چھو سکتے تھے۔ چونکہ یہ کھلا علاقہ تھا اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ غیرمحفوظ محسوس کر رہے ہوں۔ اسی وجہ سے ایسا منظر پیدا کیا گیا۔‘
جب میں نے پوچھا کہ ایسے مناظر بناتے ہوئے اسے عجیب نہیں لگتا کہ کافی کچھ اپنی طرف سے ڈال دیا جاتا ہے تو اس کا جواب تھا کہ ‘آپ کو علم نہیں کہ چھوٹے چھوٹے امور جیسا کہ نیندرتھال کے ابرو تھے یا نہیں، پر کتنی بحث ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ منظر بناتے ہوئے ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس منظر میں اس مخلوق کی کیفیات کی عکاسی کریں اور یہ بتائیں کہ ممکنہ طور پر وہ ایسے دکھائی دیتے تھے۔ اگر میں یہ منظر دوبارہ بناؤں تو انہیں زیادہ بندر نما دکھاؤں گا کہ یہ مخلوق انسان نہیں بلکہ دو پیر پر چلنے والے بندر تھے۔‘
کچھ ہی عرصہ قبل تک یہ بات یقینی تھی کہ ہم لوسی اور اس جیسی دیگر مخلوقات سے نکلے ہیں مگر اب ماہرین کو اس میں شبہ ہے۔ بعض اعضا جیسا کہ دانت وغیرہ سے ہمیں شک ہوتا ہے کہ وہ ہمارے مشترک اجداد تھے مگر دیگر اعضا میں زیادہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً انسانی ران کی ہڈی کا بالائی حصہ بندروں سے مشابہہ ہے لیکن لوسی سے بہت مختلف۔ اب اگر لوسی ہمارے اور بندروں کے درمیان کی مخلوق تھی تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ارتقا کے درمیان دس لاکھ سال کے لیے ران کی ہڈی کی شکل بدل گئی ہو اور پھر واپس اصل شکل میں آ گئی ہو۔‘ ٹیٹرسال اور شوارٹز نے اپنی کتاب Extinct Humans میں لکھا۔ ان کے خیال میں لوسی کا ہمارے آبا و اجداد سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی لوسی زیادہ چل پھر سکتی ہوگی۔
‘لوسی اور اس کی قبیل کی مخلوق انسانوں سے کہیں مختلف انداز سے چلتی ہوگی۔ جب یہ انسان نما مخلوقات ایک درخت سے دوسرے درخت کو جاتی ہوں گی تو انہیں دو پیروں پر چلنے پر مجبور ہونا پڑتا ہوگا۔‘ ٹیٹرسال نے کہا۔ تاہم جانسن کے خیال میں ایسا نہیں۔ ‘لوسی کے کولہے کی ہڈی اور اس سے جڑنے والے پٹھوں کی ترتیب ایسی تھی کہ اس کے لیے درخت پر چڑھنا بہت مشکل ہوتا ہوگا۔‘ اس نے کہا۔
2001 اور 2002 میں مسائل گھمبیر ہو گئے جب چار انتہائی نئے نمونے دریافت ہوئے۔ ایک کینیا کی جھیل ترکانا کے پاس فاسلز کے لیے مشہور مقام سے دریافت ہوا اور اسے Kenyathropus platyops (کینیا کا چپٹے چہرے والا) کہا گیا اور اس کا دور لوسی والا تھا ۔ اس سے اندازہ لگایا گیا کہ شاید یہ ہمارا جدِ امجد ہو اور لوسی محض ایک ذیلی شاخ، جو ناکام رہی۔ 2001 میں ہی Ardipithecus ramidus kadabba دریافت ہوا جو 52 سے 58 لاکھ سال پرانا تھا۔ Orrorin tugenensis 60 لاکھ سال پرانا نکلا اور اسے کچھ عرصہ تک قدیم ترین انسان نما مانا گیا ہے۔ 2002 کی گرمیوں میں فرانسیسی ٹیم نے چاڈ کے صحرائے جراب میں کام کرتے ہوئے تقریباً 70 لاکھ سال پرانا ڈھانچہ پایا اور اسے Sahelanthropus tchadensis کہا گیا۔ واضح رہے کہ اس جگہ پہلے کبھی کوئی فاسل نہیں ملے تھے (کچھ ناقدین کے مطابق یہ انسان نما نہیں بلکہ بندروں کی ابتدائی شکل تھی اس لیے اسے Sahelipithecus کہا جانا چاہیے)۔ یہ تمام جاندار بہت قدیم اور ابتدائی ساخت والے تھے لیکن یہ سب دو پیروں پر چلتے تھے۔ یعنی دو پیروں پر چلنے کا عمل ہمارے اندازے سے سے بھی پہلے سے شروع ہو چکا تھا۔
دو پیروں پر چلنے کا عمل بہت مشکل اور خطرناک ہے۔ اس کے لیے کولہے کی ہڈیوں کی ترتیب اور ساخت بدلتی ہے تاکہ سارا وزن سہار سکے۔ مطلوبہ مضبوطی کی خاطر مادہ میں پیدائش کی نالی نسبتاً تنگ ہونی چاہیے۔ اس سے دو فوری اور ایک طویل مدتی اثر پڑتا ہے۔ اول تو یہ کہ اس سے پیدائش کے دوران ماں کو بہت درد سہنا پڑتا ہے اور اس سے زچہ اور بچہ کی جان کو لاحق خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ بچے کی پیدائش کی خاطر اس کا دماغ نسبتاً چھوٹا ہونا چاہیے، مگر اس سے بچہ فوری طور پر کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے کہ طویل مدت تک ماں کو بچے کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور اسی وجہ سے نر اور مادہ کے درمیان طویل رفاقت کی ضرورت پڑتی ہے۔
جب آپ اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتے ہوں اور پیدائش کے وقت Australopithecine کے دماغ کا حجم مالٹے کے برابر ہو (دماغ کا کل حجم کافی مبہم اصطلاح ہے۔ ہاتھی اور وہیل کے دماغ ہم سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں مگر ہم سے زیادہ ذہین نہیں۔ اصل اہمیت جسم اور دماغ کی نسبت ہوتی ہے۔ ایک نسل A. africanus کے دماغ کا حجم 450 سی سی تھا جو کہ گوریلا سے کم ہے۔ مگر یاد رہے کہ اس نسل کا جسمانی وزن 45 کلو ہوتا تھا اور گوریلا 150 کلو سے بھی زیادہ وزنی ہو سکتے ہیں) تو یہ غیر ضروری خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
سو لوسی اور اس کی قبیل کے دیگر انسان نما جاندار درختوں سے نیچے کیوں اترے؟ شاید ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ بچا ہو۔ پاناما کی بتدریج اٹھتی ہوئی سطح سے بحرالکاہل سے بحرِ اوقیانوس کے درمیان پانی کا بہاؤ رک گیا تھا اور اس سے بحرِ منجمد شمالی کو گرم پانی کا بہاؤ تھمنے سے شمالی نصف کرے پر انتہائی تیزی سے برفانی دور نازل ہو گیا تھا۔ افریقہ میں اس کا اثر یہ ہوا کہ موسم سرد اور خشک ہوتے گئے جس سے جنگلات گھاس کے میدانوں میں بدلنے لگے۔ جان گرِبن کے بقول، ‘لوسی اور اس کے ہم نسلوں نے جنگلات کو نہیں چھوڑا بلکہ جنگلات انہیں چھوڑ گئے۔‘
تاہم گھاس کے کھلے میدانوں میں آنے سے لوسی اور اس کے ہم نسلوں کو زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیدھا کھڑا انسان نما مخلوق زیادہ بہتر دیکھ سکتا ہے مگر اس کے دشمن بھی اسے زیادہ بہتر دیکھ سکتے ہیں۔ آج بھی بطور نوع ہم لوگ فطرت میں خطرات کا شکار زیادہ ہوتے ہیں۔ تقریباً ہر بڑا جانور ہم سے زیادہ طاقتور، زیادہ چست اور زیادہ تیز دانت رکھتا ہے۔ حملے کے وقت جدید انسان کے پاس محض دو فائدے ہیں۔ ہمارے پاس اچھا دماغ ہے جس سے ہم بہتر حکمتِ عملی تیار کر سکتے ہیں۔ دوسرا ہمارے پاس ہاتھ ہیں جس سے ہم تکلیف دینے والی چیزیں پھینک سکتے ہیں۔ ہم واحد مخلوق ہیں جو فاصلے سے بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس طرح جسمانی طور پر ہمارا کمزور ہونا اتنا برا بھی نہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ درخت سے اترنے کے بعد طاقتور دماغ کے ارتقا کا راستہ کھل گیا ہوگا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ 30 لاکھ سال تک لوسی اور اس کے قبیلے کے انسان نما Australopithecines نہ ہونے کے برابر تبدیل ہوئے۔ ان کا دماغ بھی نہ بڑھا اور نہ ہی اس بات کے کوئی ثبوت ملے ہیں کہ انہوں نے کوئی اوزار استعمال کرنا سیکھا ہوگا۔ عجیب بات دیکھیے کہ 10 لاکھ سال تک Australopithecines ان انسان نما دیگر انواع کے ساتھ زندہ رہے جو اوزار استعمال کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
20 سے 30 لاکھ سال قبل کے ایک وقت افریقہ میں انسان نما 6 مختلف اقسام آباد تھیں۔ ان میں سے محض ایک باقی بچی جو Homo ہے اور جو اس مرحلے سے 20 لاکھ سال قبل نکلی۔ Australopithecines اور Homo 10 لاکھ سال تک ایک ساتھ پائے جاتے رہے اور پھر اچانک Homo جیسی طاقتور، خوبصورت اور اچھی مخلوق اچانک منظرِعام سے غائب ہو گئی۔ میٹ رڈلے کے خیال میں ‘ہم انہیں کھا گئے۔‘
روایتی طور پر مانا جاتا ہے کہ Homo کے سلسلے کی ابتدا Homo habilis (جس کے بارے ہمیں شاید ہی کوئی معلومات ہوں) سے ہوئی جو Homo sapiens پر آ کر منتج ہوئی۔ اس کا مطلب ‘سوچنے والا انسان‘ ہے۔ ان دونوں کے درمیان اس کی لگ بھگ چھ مختلف اقسام آتی ہیں۔
Homo habilis کو یہ نام 1964 میں لوئیس لیکی نے دیا تھا کہ یہ پہلی معلوم مخلوق ہے جس نے سادہ سے اوزار استعمال کیے تھے۔ یہ مخلوق انسان سے زیادہ چمپانزی سےمشابہ تھی۔ تاہم اس کا دماغ لوسی سے 50 فیصد زیادہ بڑا تھا اور اسے اُس دور کا آئن سٹائن کہا جا سکتا ہے۔ اس بارے کوئی علم نہیں کہ انسان نما مخلوقات میں دماغ اچانک کیوں بڑھنے لگا۔ بہت عرصے تک سمجھا جاتا رہا کہ دو پیروں پر چلنا اور دماغ کا بڑا حجم آپس میں براہ راست منسلک ہیں کہ جنگلات سے نکل کر کھلے میدان میں آنے سے لاحق خطرات کے پیشِ نظر دماغ بڑھنے لگا۔ تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ یکے بعد دیگرے ایسی مثالیں ملتی رہیں کہ دو پیروں پر چلنے والی مخلوقات کا دماغ نہیں بڑھا۔ یعنی ان دو امور کا باہمی کوئی تعلق نہیں۔
‘ہمیں علم نہیں کہ دماغ کا حجم بڑھنے کیا وجہ تھی۔‘ ٹیٹرسال نے کہا۔ بڑے دماغ اگرچہ پورے جسم کی کمیت کا محض 2 فیصد ہوتے ہیں مگر جسم کی توانائی کا 20 فیصد استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم چکنائی کا استعمال چھوڑ دیں تو ہمارا دماغ کبھی اس کی شکایت نہیں کرے گا کہ اسے چکنائی کی ضرورت نہیں۔ تاہم دماغ کو گلوکوز بڑی مقدار میں درکار ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے دوسرے اعضا بھوکے رہ جائیں۔ ‘لالچی دماغ کی وجہ سے جسم کو مسلسل فاقہ کشی کا خطرہ رہتا ہے مگر دماغ کو بھوکا رکھنے کا مطلب موت ہے۔‘ گائے براؤن نے لکھا۔ بڑے دماغ کے لیے زیادہ خوراک درکار ہے اور زیادہ خوراک کا مطلب زیادہ خطرات۔
ٹیٹرسال کا خیال ہے کہ دماغ کا بڑا حجم محض ایک ارتقائی حادثہ تھا۔ سٹیفن جے گولڈ کی طرح اس کا بھی خیال ہے کہ اگر ہم وقت میں پیچھے کو جائیں تو اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ہماری جیسی مخلوق ظہور پذیر ہو۔
‘انسانوں کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول ہے کہ ہم ارتقائی شاہکار نہیں بلکہ محض حادثاتی طور پر پیدا ہونے والی ایک مخلوق ہیں۔ ہماری پیدائش کوئی اٹل امر نہیں تھا۔ اپنی خوشی کی خاطر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ارتقا کا عمل دراصل ہماری پیدائش کی خاطر ہوا ہے۔ 1970 کی دہائی تک ماہرینِ بشریات بھی یہی سوچتے رہے تھے۔ 1991 تک ایک مشہور درسی کتاب The Stages of Evolution میں سی لورنگ بریس نے بتایا کہ Australopithecines کے علاوہ باقی ہر لڑی میں مسلسل بہتری ہوتی جا رہی ہے اور ہر نسل اپنی اگلی نسل کو بہتر سے بہتر بناتی رہی ہے۔ بے شک بہت ساری ذیلی شاخیں کسی اہم موڑ تک پہنچے بنا ہی ختم ہو گئیں۔
خوش قسمتی سے ہماری لڑی نے اپنا سفر جاری رکھا۔ ہماری لڑی نے اوزار استعمال کرنا سیکھا۔ اسے Homo erectus کہتے ہیں اور اسے یوجین ڈبیوس نے 1891 میں جاوا سے دریافت کیا۔ مختلف ذرائع اس کے دور کو 18 لاکھ سال سے 20٫000 سال قبل تک کا دور مانتے ہیں۔
Java Man مصنفین کے مطابق Homo erectus ہی دراصل حدِ فاضل ہے۔ اس سے قبل کی تمام مخلوقات بندر نما تھیں اور اس کے بعد سے ہر مخلوق انسان نما ہے۔ اسی نے سب سے پہلے شکار کرنا شروع کیا، اسی نے سب سے پہلے آگ استعمال کی، اسی نے سب سے پہلے پیچیدہ اوزار بنانے شروع کیے، اسی نے کیمپ سائٹس کے نشان چھوڑے، اسی نے کمزور اور بیمار ساتھیوں کی دیکھ بھال شروع کی، لمبے بازو اور ٹانگوں کے علاوہ جسمانی اعتبار سے انسانوں سے کہیں زیادہ طاقتور تھے اور ان میں وسیع علاقوں میں کامیابی سے پھیلنے کی خواہش اور ذہانت بھی تھی۔ دیگر انسان نما مخلوقات کے لیے یہ نسل لمبی چوڑی اور خوفناک ہونے کے علاوہ تیز بھی تھی۔ ان کے دماغ اس وقت تک کی کسی بھی دیگر مخلوق سے زیادہ تیز تھے۔
پین سٹیٹ یونیورسٹی کے ایلن واکر کے مطابق ‘اپنے دور کے انتہائی کامیاب شکاری ڈائنو سار کی مانند تھے۔ اگر آپ ان کی آنکھوں میں جھانکیں تو آپ ان کی نظر میں محض ایک شکار تھے۔‘ واکر کے خیال میں یہ مخلوق ایک بالغ جسم کے ساتھ بچے کا ذہن رکھتی تھی۔
اگرچہ اس مخلوق کے بارے ایک صدی سے سے معلومات تھیں مگر یہ معلومات محض ادھورے ٹکڑوں سے اخذ کی گئی تھیں جس سے ایک پورا ڈھانچہ بھی نہ بن سکتا تھا اور نہ ہی موجودہ انسان کے جدِ امجد مان کر اسے کوئی اہمیت دی گئی تھی۔ کینیا میں جھیل ترکانا (پرانا نام جھیل رڈولف)کی ایک دور افتادہ وادی اس وقت قدیم انسان نما مخلوق کی باقیات کے حوالے سے بہت مشہور تھی مگر کسی نے اس پر اُس وقت توجہ نہ دی۔ جب رچرڈ لیکی کے جہاز کو اپنا راستہ بدل کر اس وادی کے اوپر سے گزرنا پڑا تو اس نے یہاں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک مہم کو جانچ کے لیے بھیجا گیا جسے شروع میں ناکامی ہوئی۔ مگر پھر لیکی کے سب سے مشہور فاسل تلاش کرنے والے کامویا کیمیو کی نظر جھیل سے کہیں دور ایک پہاڑی پر ایک انسان نما مخلوق کی کھوپڑی کے ابرو والے حصے پر پڑی۔ اگرچہ ایسی جگہوں پر کامیابی کی امید نہیں ہوتی مگر کیمیو کی خاطر انہوں نے کھدائی کی تو حیران کن طور پر وہاں سے Homo erectus کا تقریباً پورا ڈھانچہ ملا۔ یہ شاید 9 سے 12 سال کی عمر کے لڑکے کا ڈھانچہ تھا جو آج سے 15 لاکھ 40 ہزار سال قبل مرا تھا۔ ٹیٹرسال کے مطابق ‘اس ڈھانچے کی ساخت مکمل طور پر جدید انسان کی ساخت سے مماثل تھی۔ یہ ترکانا لڑکا یقیناً ہم میں سے ایک تھا۔‘
جھیل ترکانا سے ہی کیمیو کو KNM-ER 1808 بھی ملا جو 17 لاکھ سال پرانا ایک مادہ کا ڈھانچہ ہے۔ اس کی تحقیق سے محققین کو علم ہوا کہ یہ نسل ہماری امیدوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور دلچسپ تھی۔ اس عورت کی ہڈیاں عجیب حالت میں تھیں اور لگتا تھا کہ یہ Hypervitaminosis A کے مرض کا شکار تھی۔ یہ بیماری کسی درندے کے جگر کو کھانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نسل گوشت خور تھی۔ ہڈیوں میں بیماری کے اثرات سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ عورت شاید کئی ہفتے یا کئی مہینوں تک اس بیماری میں مبتلا رہی تھی۔
اسی نسل کی کھوپڑیوں سے کچھ ماہرین کے خیال میں اس نسل کے دماغ میں بروکا کا حصہ پیدا ہو چکا تھا۔ یہ حصہ دماغ کے سامنے ہوتا ہے اور بولنے کے عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ چمپانزیوں میں یہ حصہ نہیں پایا جاتا۔ ایلن واکر کے خیال میں ریڑھ کی ہڈی کی ساخت کے مطابق اس کا حجم اتنا نہیں تھا کہ یہ مخلوق بول سکتی، شاید یہ مخلوق چمپانزیوں کی طرح کسی اور انداز سے گفتگو کرتی ہوگی۔ تاہم رچرڈ لیکی جیسے ماہرین کے خیال میں یہ مخلوق بات چیت کرتی تھی۔
کچھ عرصے تک یہی خیال رہا کہ یہ مخلوق ہی واحد انسانی مخلوق تھی۔ مہم جوئی کی شائق یہ قوم انتہائی کم وقت میں پورے کرہ ارض پر پھیل گئی۔ کچھ فاسلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مخلوق جس وقت افریقہ سے نکلی، عین اسی وقت یا اس سے ذرا قبل وہ جاوا تک پہنچ چکی تھی۔ اس سے بعض ماہرین کو امید بندھی ہے کہ ہماری نسل افریقہ سے نہیں بلکہ ایشیا سے نکلی ہوگی۔ تاہم یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ آج تک اس سے پرانی کوئی بھی مخلوق افریقہ کے علاوہ اور کہیں نہیں پائی گئی کہ جس سے ارتقا کے عمل سے یہ نسل پیدا ہوئی ہو۔ ایشیائی انسان نما مخلوق اچانک ہی نمودار ہوئی تھی۔ خیر، ایشیا میں اس مخلوق کا وجود محض اس کے پھیلاؤ کی سمت کی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جاوا مین اتنی جلدی افریقہ کیسے پہنچے؟
اس بارے کئی ممکنہ وجوہات بتائی گئی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ مخلوق افریقہ میں معلوم دور سے بھی پہلے سے پائی جاتی ہو اور ہمیں محض اس کے شواہد نہیں مل پائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جاوا مین کی تاریخ غلط جانچی گئی ہو۔
تاہم یہ بات یقینی ہے کہ آج سے 10 لاکھ سال سے بھی قبل دو پیروں پر چلنے والی ایک مخلوق افریقہ سے نکلی اور تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ ان کی رفتار اتنی تیز تھی کہ شاید ایک دن میں 40 کلومیٹر کا اوسط فاصلہ طے کرتے رہے ہوں گے جبکہ راستے میں پہاڑ، دریا، صحرا اور دیگر رکاوٹیں بھی آتی ہوں گی اور خوراک کا حصول بھی وقت لیتا ہوگا۔ یہ بات خصوصی توجہ کی طالب ہے کہ یہ مخلوق بحرِ احمر کے مغربی جانب کے علاقے کو کیسے عبور کر پائی ہوگی کہ یہ علاقہ اُس وقت آج کی نسبت کہیں زیادہ خشک اور دشوار گزار تھا۔ عجیب بات دیکھیے کہ جن وجوہات کی بنا پر اس مخلوق نے افریقہ کو چھوڑا، اسی وجہ نے ان کے سفر کو مشکل تر بنا دیا۔ تاہم کسی نہ کسی طرح یہ مخلوق ہر رکاوٹ اور ہر مشکل کو عبور کرتی ہوئی بڑھتی رہی۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے مگر اس کے بعد کے واقعات میں اتنی بحث اور اتنی مشکلات ہیں کہ اس کے بارے ہم اگلے باب میں بات کریں گے۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ 50 لاکھ سال کی ارتقا سے یہ مخلوق آج کا انسان بنی اور پھر بھی چمپانزی سے اس کے جینیاتی مواد کی مشابہت 98.4 فیصد ہے۔ زیبرے اور گھوڑے کے درمیان زیادہ فرق ہے مگر انسانوں اور چمپانزی میں اس سے کم فرق پایا جاتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
29 بے چین بندر​
لگ بھگ آج سے پندرہ لاکھ سال قبل ایک انسان نما مخلوق نے عجیب کام کیا۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور اس کی مدد سے دوسرے پتھر کو تراشنا شروع کر دیا۔ اس طرح بیضوی شکل کی دستی کلہاڑی بن گئی۔ یہ انتہائی سادہ تو تھی مگر اسے دنیا کا پہلا جدید اوزار مانا جاتا ہے۔
یہ ایجاد اپنے ہم عصر اوزاروں سے اتنا آگے کی چیز تھی کہ جلد ہی دوسروں نے بھی اس کی نقالی کرتے ہوئے اپنے لیے ایسے اوزار بنانے لگے۔ جلد ہی ایسے معاشرے بن گئے جن کا کم ہی یہی اوزار بنانا تھا۔ آئن ٹیٹرسال کے مطابق ‘وہ انہیں ہزاروں کی تعداد میں بناتے تھے‘۔ افریقہ میں بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں آپ ان سے کترائے بنا نہیں گزر سکتے۔ یہ بات حیرت کا سبب ہے کہ اس اوزار کو بنانے پر کافی محنت لگتی ہے۔ ان کی تعداد کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید ان کے بنانے کے عمل سے انہیں مزہ آتا ہوگا۔
ٹیٹرسال کے کام والے کمرے میں ایک بہت بڑی نقل رکھی ہے۔ اس کی لمبائی شاید آدھا میٹر اور چوڑائی 20 سینٹی میٹر ہے اور اس کی شکل نیزے کی انی سے مشابہہ ہے۔ چونکہ یہ نقل فائبر گلاس سے بنائی گئی تھی، اس لیے بہت ہلکی تھی۔ تاہم تنزانیہ سے ملنے والا اصل ہتھیار 11 کلو وزنی تھا۔ ٹیٹرسال نے بتایا کہ ‘بطور ہتھیار تو یہ ناقابلِ استعمال تھا کہ دو افراد مل کر اسے اٹھاتے اور پھر اس کا استعمال بہت تھکا دینے والا ہوتا‘۔
‘پھر اس کا کیا استعمال رہا ہوگا؟‘
ٹیٹرسال نے کندھے اچکائے اور مسکراتے ہوئے بولا، ‘معلوم نہیں، شاید اس کی کوئی علامتی اہمیت ہو؟ ہم محض سوچ ہی سکتے ہیں۔‘
ان کلہاڑیوں کو آچیولین ٹولز کہا جاتا ہے کہ یہ جنوبی فرانس کے علاقے سینٹ آچیول سے ملی تھیں۔ اس سے پرانے اوزار جو سادہ تر تھے، اولڈوان اوزار کہلاتے ہیں کہ وہ تنزانیہ میں اولڈوائی کے درے سے ملے تھے۔ پرانی درسی کتب میں اولڈوان اوزاروں کے بارے لکھا تھا کہ وہ گول مٹول اور کند ہوتے تھے۔ مگر اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ان کے تیز دھار والے کنارے اس جگہ موجود ہیں جو شاید اصل پتھر سے ٹوٹ کر گر گئے ہوں گے۔
اب یہاں سے مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ جب قدیم انسان افریقہ سے ایک لاکھ سال قبل نکلنا شروع ہوئے اور ان کی نسل سے ہم پیدا ہوئے، تو وہ اپنے ساتھ آچیولین اوزار لائے۔ ان اولین Homo sapiens کو اپنے اوزار بہت پسند تھے اور وہ انہیں بہت طویل فاصلے تک ساتھ لے جاتے تھے۔ بعض اوقات تو اگر انہیں کہیں مناسب پتھر مل جاتا تو اٹھا لیتے کہ بعد میں اس سے اوزار بنا لیں گے۔ انہیں ٹیکنالوجی سے شغف تھا۔ یہ اوزار اب بھی افریقہ، یورپ، وسطی اور مغربی ایشیا میں تو ملتے ہیں لیکن کبھی بھی مشرقِ بعید میں نہیں ملے جو انتہائی حیران کن ہے۔
1940 کی دہائی میں ہارورڈ کے ماہر آثارِ قدیمہ ہالم مویوس نے مویوس خط کھینچا جس کے ایک طرف وہ علاقے تھے جہاں آچیولین اوزار پائے جاتے تھے اور دوسری جانب نہیں۔ یہ لکیر یورپ اور وسطی ایشیا میں جنوب مشرق کی جانب بڑھتی جاتی ہے اور کلکتہ اور بنگلہ دیش کے پاس جا کر رکتی ہے۔ اس لکیر کے دوسری جانب جنوبی مشرقی ایشیا اور چین میں اولڈوان اوزار ہی ملتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ Homo sapiens اس مقام سے بھی بہت آگے تک گئے تھے مگر وہ اپنے پسندیدہ اوزار ساتھ کیوں نہیں لے گئے؟ یہ اوزار ان کے ساتھ اس مقام تک تو تھے۔
تاہم جلد ہی علم ہو گیا کہ یہ اکیلی پریشانی نہیں۔ مزید پریشانیاں سائنس دانوں کی منتظر تھیں۔ آسٹریلیا میں مغربی نیو ساؤتھ ویلز میں ایک ماہرِ ارضیات جم باؤلر 1968 میں گھوم رہا تھا کہ خشک جھیل منگو کی تہہ میں اسے کچھ عجیب سا دکھائی دیا۔ یہ کسی انسان کی ہڈیاں تھیں۔ اس وقت تک یہ عام معلوم تھا کہ انسان آسٹریلیا آج سے لگ بھگ 8٫000 سال پہلے آئے تھے مگر جھیل منگو کو خشک ہوئے 12٫000 سال گزر چکے تھے۔ پھر کوئی انسان یہاں ایسی بنجر اور دشوار جگہ پر کیا کر رہا تھا؟
کاربن ڈیٹنگ سے پتہ چلا کہ ان ہڈیوں کا مالک جب یہاں آیا تھا تو یہ جھیل 20 کلومیٹر طویل تھی اور اس میں پانی اور مچھلیوں کی بہتات تھی اور جھیل کنارے خوب گھنے درخت ہوا کرتے تھے۔ تاہم حیرت کی بات دیکھیے کہ یہ ہڈیاں 23٫000 سال پرانی نکلیں۔ اس کے پاس ایک اور مقام پر موجود دیگر ہڈیاں 60٫000 سال تک پرانی ثابت ہوئیں۔ یہ سب انتہائی حد تک ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ جب سے انسان یا انسان نما مخلوقات پیدا ہوئی ہیں، آسٹریلیا ہمیشہ سے ایک جزیرہ رہا ہے۔ یہاں پہنچنے والے ہر انسان کو کھلے سمندر کو عبور کرنا لازم ہے۔ اب سوچیے کہ کھلے سمندر کی چوڑائی سو کلومیٹر کے لگ بھگ ہے اور نئے جزیرے پر آبادی قائم کرنے کی خاطر کافی تعداد میں لوگوں کو یہ سو کلومیٹر کا کھلا سمندر عبور کرنا لازمی تھا اور یہ بھی کہ انہیں اس بات کا کیا علم، کہ سو کلومیٹر دور ایک جزیرہ ان کا منتظر ہے؟ مزید یہ کہ یہاں اترنے کے بعد ان لوگوں نے 3٫000 کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے (فرض کیا جاتا ہے کہ وہ شمالی ساحل پر اترے ہوں گے جہاں سمندر کو عبور کرنا سب سے مختصر تھا) کیا۔ اندازہ ہے کہ یہ لوگ 60٫000 سال سے بھی بہت پہلے شاید یہاں پہنچ گئے ہوں۔
یہ لوگ یہاں کیسے پہنچے اور ان کی آمد کا سبب کیا ہے، کے بارے ہم کچھ نہیں جانتے۔ ماہرینِ بشریات کے مطابق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ لوگ نہ تو بول سکتے تھے اور نہ ہی مل جُل کر نئے جزیرے پر جانے کے لیے اتنی مضبوط کشتی تیار کرنے کے قابل تھے کہ جا کر نئے جزیرہ پر براعظم کو آباد کر سکیں۔
ایلن تھورن سے جب ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا، ‘قبل از تاریخ کے انسانوں کی ہجرت کے بارے بہت کچھ ہمیں معلوم نہیں۔ جب 18ویں صدی میں ماہرینِ بشریات پاپوا نیو گنی گئے تو انہوں نے انتہائی ناقابلِ عبور جگہوں پر بھی انسان آباد دیکھے جو شکرقندی اگاتے تھے۔ شکرقندی جنوبی امریکہ سے نکلی ہے، مگر یہ پاپوا نیو گنی کیسے پہنچی؟ ہمیں اس بارے کچھ بھی علم نہیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے اندازوں سے بھی کہیں پہلے سے لوگ آزادی اور تیزی سے مختلف جغرافیائی مقامات پر سفر کرتے رہے تھے اور تقریباً یقینی طور پر ایک دوسرے سے جنسی روابط بھی استوار کرتے ہوں گے۔
ہمیشہ کی طرح یہاں بھی فاسل کی کمی بنیادی مسئلہ ہے۔ ‘دنیا کے بہت کم علاقے ایسے ہیں جہاں طویل عرصے کے لیے انسانی باقیات محفوظ رہ سکیں۔ اگر ہدار اور اولدوانی جیسے مقامات مشرقی افریقہ میں نہ ہوتے تو ہمیں نہ ہونے کے برابر معلومات ہوتیں۔ جب آپ ان مقامات کے علاوہ کہیں اور دیکھتے ہیں تو نہ ہونے کے برابر انسانی باقیات ملتی ہیں۔ پورے انڈیا سے تین لاکھ سال پرانے محض ایک انسان کی باقیات ملی ہیں۔ عراق اور ویتنام کے درمیان یہ علاقہ لگ بھگ 5٫000 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور ہمیں اس علاقے میں ایک ڈھانچہ انڈیا سے اور دوسرا ازبکستان سے ملا ہے۔ اب اس سے کیا تحقیقات کی جا سکتی ہیں؟ اس لیے ہمیں ان چند علاقوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جہاں انسانی باقیات کی کثرت ہے، مثلاً عظیم وادئ شق، آسٹریلیا میں منگو ۔ اب سوچیں کہ ان نقاط کو ملانے کے لیے ماہرینِ بشریات کو کتنی مشکل ہوتی ہوگی‘۔ تھورن نے بتایا۔ اس نے چھوٹی سی سفید گوٹی (نچلے ہونٹ کے نیچے تھوڑے سے بال) رکھی ہوئی تھی اور اطوار دوستانہ تھے۔
انسانی ہجرت کا مقبولِ عام نظریہ جو کہ ماہرین میں بھی یکساں قبول ہے، یہ ہے کہ یورپ اور ایشیا میں انسان دو لہروں کی صورت میں پھیلے۔ پہلی لہر میں Homo erectus نے افریقہ کو بہت پہلے چھوڑا، شاید بطور نوع پیدا ہوتے ہی، شاید بیس لاکھ سال قبل۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ مختلف جگہوں پر آباد ہوتے گئے اور ان سے مزید نئی اقسام پیدا ہوتی گئیں جن میں ایشیا میں جاوا مین اور پیکنگ مین اہم ہیں، Homo heidelbergensis اور پھر Homo neanderthalensis یورپ میں پیدا ہوئے۔
پھر ایک لاکھ سال قبل ایک اور عجیب واقعہ ہوا کہ ہمارے آبا و اجداد افریقی میدانوں سے ابھرے اور افریقہ سے باہر کا رخ کیا۔ یہ دوسری لہر تھی۔ جہاں جہاں یہ نئی نوع پہنچی، انہوں نے پہلے سے موجود نسبتاً کم تر انواع کو ختم کرنا شروع کر دیا۔ یہ واضح نہیں کہ یہ کام ہوا کیسے۔ ہم قتلِ عام کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ پرانی انواع مقابلہ نہیں کر سکیں اور دیگر وجوہات کے ساتھ ان کی معدومیت ہوئی۔ ‘شاید ہماری وجہ سے انہیں چیچک لگی ہو۔ ہم اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ آج ہم موجود ہیں اور وہ نہیں۔‘ ٹیٹرسال نے کہا۔
ہمارے اپنے ان ابتدائی آبا و اجداد کے بارے ہمارا علم دیگر انسان نما مخلوقات کی نسبت بہت کم ہے۔ اس بارے ایک جگہ ٹیٹرسال نے لکھا کہ ‘انسانی ارتقا کا آخری مرحلہ یعنی ہماری نوع کی پیدائش ہی سب سے زیادہ خفیہ ہوئی ہے۔ اس بات پر کوئی بھی اتفاق نہیں کرتا کہ بطور نوع ہم فاسل ریکارڈ میں کہاں سے شروع ہوتے ہیں۔ بہت ساری کتب میں یہ وقت آج سے 1٫20٫000 سال پہلے کا درج ہے جب جنوبی افریقہ میں دریائے کلاسیز کے منبع سے کچھ باقیات دریافت ہوئی تھیں۔ تاہم اس بارے کوئی اتفاقِ رائے نہیں کہ یہ جدید انسان ہی تھے۔
Homo sapiens کے پہلے غیر متنازعہ ثبوت ہمیں موجودہ دور کے اسرائیل میں ملتے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ میں ہے۔ یہ باقیات لگ بھگ ایک لاکھ سال پرانی ہیں تاہم ان کے بارے ماہرین کا خیال ہے کہ ‘عجیب، مشکل سے شناخت کے قابل اور ان کے بارے کم معلومات ہیں‘۔ اس علاقے میں نیندرتھال پہلے سے آباد تھے اور ان کا بنایا ہوا ایک اوزار اتنا عمدہ تھا کہ موجودہ انسانوں نے اسے اپنا لیا۔ نیندرتھال کی کوئی بھی باقیات آج تک شمالی افریقہ سے نہیں مل سکیں لیکن ان کا بنایا ہوا یہ اوزار جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی تو ان اوزاروں کو یہاں تک لایا ہوگا، شاید موجودہ انسان لائے ہوں۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کئی ہزاروں سال تک نیندرتھال اور موجودہ انسان ایک ساتھ آباد رہے تھے۔ اسی دوران موجودہ انسانوں نے نیندرتھال کے اوزاروں کا بخوشی استعمال جاری رکھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں کوئی بڑی برتری حاصل نہیں تھی۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ دس لاکھ سال قبل یہ آچیولین اوزار مشرقِ وسطیٰ سے تو ملتا ہے مگر یورپ میں اس کی آمد محض تین لاکھ سال پرانی ہے۔ ان لوگوں کے پاس ٹیکنالوجی تو تھی، پھر اوزار نہ بنانا سمجھ سے باہر ہے۔
طویل عرصے تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کرومیگنن (یورپ میں جدید انسانوں کا نام) نیندرتھال کو اپنے آگے آگے بھگاتے رہے اور آخرکار مغربی کنارے پر پہنچ کر انہیں ختم کر دیا کہ ان کے پاس راہِ فرار ختم ہو گئی تھی۔ تاہم عجیب بات یہ ہے کہ جب موجودہ انسان مشرق سے آ رہے تھے تو اسی وقت وہ مغربی کنارے پر بھی موجود تھے۔ ‘ان دنوں یورپ بالکل خالی تھا۔ ان کی تمام تر آمد و رفت کے باوجود ان کے باہم ملاقات کا نہ ہونے کے برابر امکان تھا۔‘ ٹیٹرسال نے بتایا۔ مزید عجیب بات یہ ہے کہ کرومیگنن لوگوں کی آمد جس وقت ہوئی، اسے Boutellier وقفہ کہا جاتا ہے۔اس دوران یورپ معتدل موسم کے بعد ایک اور لمبے اور طویل سرمائی دورانیے کو تیار ہو رہا تھا۔ ان کے یورپ آمد کی چاہے جو بھی وجہ ہو، خوشگوار موسم نہیں ہو سکتا۔
خیر، کرومیگنن لوگوں کی وجہ سے نیندرتھال لوگ معدوم ہو کر رہ گئے، اگرچہ اس بارے ہمیں کوئی واضح شواہد نہیں ملتے۔ نیندرتھال بہت سخت جان تھے۔ ہزاروں سال تک وہ ایسے موسمی حالات میں رہتے رہے تھے کہ جہاں موجودہ دور کے انسانوں میں محض قطبی سائنس دان اور قطبی مہم جو زندہ رہ پاتے ہیں۔ شدید ترین برفانی دور میں عام برفانی طوفان ہری کین کی رفتار سے چلتے تھے۔ اکثر درجہ حرارت منفی 45 ڈگری سے بھی نیچے گر جاتا۔ جنوبی انگلینڈ کی برف پوش وادیوں میں قطبی ریچھ دندناتے پھرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ نیندرتھال ایسے علاقوں سے تو پسپا ہو گئے تھے مگر جن علاقوں میں رہتے تھے، وہ موجودہ سائبیریا کے سرمائی موسم جیسے ہوتے تھے۔ نیندرتھال بہت تکالیف سہتے تھے اور 30 برس سے زیادہ تو اکا دکا ہی زندہ رہ پاتا تھا۔ تاہم بطور نوع کے، یہ لوگ انتہائی سخت جان اور ناقابلِ تسخیر تھے۔ ایک یا دو لاکھ سال تک یہ نوع زندہ رہی اور جبرالٹر سے لے کر ازبکستان تک کا علاقہ ان سے بھرا ہوا تھا۔ بطور نوع، یہ بہت کامیاب رہے تھے۔
تاہم یہ کیا تھے اور کیسے دکھائی دیتے تھے، کے بارے بہت بحث ہوتی ہے۔ انیسویں صدی کے وسط تک عام خیال تھا کہ یہ مخلوق کم عقل، سر اور شانے جھکا کر چلنے والی، پیر گھسیٹنے والی اور بندر نما تھی اور اسے ہم پتھر کے دور کا آدمی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم ایک تکلیف دہ حادثے کے بعد سائنس دانوں کا نظریہ بدل گیا۔ 1947 میں فرانسیسی نژاد الجیرین سائنس دان صحارا میں ایک جگہ کام کر رہا تھا۔ دوپہر کو گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے وہ اپنے جہاز کے پر کے نیچے سائے میں بیٹھ گیا۔ اسی دوران گرمی کی شدت سے جہاز کا ٹائر پھٹا اور پر اس کے بالائی جسم پر بہت زور سے لگا۔ پیرس پہنچ کر جب اس نے اپنی گردن کا ایکس رے کرایا تو اس کے اپنے مہرے عین اسی طرح دکھائی دیے جیسے نیندرتھال کے تھے۔ اب یا تو اس کی جسمانی ساخت بہت پرانی اور نیندرتھال سے مشابہہ تھی یا پھر نیندرتھال کے کھڑے ہونے کے انداز کو غلط سمجھا گیا۔ اصل میں دوسری بات درست تھی۔ نیندرتھال کے مہرے بالکل بھی بندروں جیسے نہیں تھے۔ اب بعض اوقات نیندرتھال کے بارے کچھ سائنس دانوں کی رائے بدلنے لگی۔
ابھی تک یہ عام تصور پایا جاتا ہے کہ نیندرتھال نہ تو ذہین تھے اور نہ ہی اس قابل تھے کہ براعظم میں آنے والی نئی مخلوق Homo sapiens کا سامنا کر سکتے۔ ایک نئی کتاب کا اقتباس ملاحظہ کیجیے: ‘Homo sapiens نے نیندرتھال کی جسمانی مضبوطی کا مقابلہ اپنے لباس، بہتر طاقت اور بہتر پناہ گاہوں سے کیا۔ نیندرتھال کی بھاری جسامت کی وجہ سے انہیں زیادہ خوراک درکار ہوتی تھی‘۔ یعنی مصنف یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ جن وجوہات کی بناء پر گذشتہ ایک لاکھ سال سے نیندرتھال پھل پھول رہے تھے، اچانک ان کی خامیاں بن گئیں۔
ایک اور بات جس پر شاید ہی کبھی توجہ دی جاتی ہو، وہ نیندرتھال کا دماغی حجم ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق موجودہ انسان کے دماغ کا حجم 1.4 لٹر ہوتا ہے جبکہ نیندرتھال کے دماغ کا حجم 1.8 لٹر تھا۔ Homo erectus اور Homo sapiens کے دماغ کا فرق اس سے کم تھا جبکہ Homo erectus کو ہم بمشکل انسان مانتے ہیں۔ اس بارے کہا جاتا ہے کہ اگرچہ ہمارے دماغ ان سے چھوٹے ہیں مگر ہم ان کا بہتر استعمال کر سکتے ہیں۔ بطور مصنف، میں نے انسانی ارتقا کے حق میں ایسی دلیل آج تک نہیں دیکھی۔
آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوگا کہ اگر نیندرتھال اتنے مضبوط، تغیر پذیر اور دماغ کے حجم کے اعتبار سے بڑے تھے تو پھر وہ آج زندہ کیوں نہیں؟ ایک ممکنہ (مگر کافی متنازعہ) نظریہ یہ ہے کہ وہ موجود ہیں۔ ایلن تھورن اس نظریے کے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے۔ اس نظریے کو کثیر العلاقائی نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق انسانی ارتقا ایک مسلسل عمل ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے Australipithecines ارتقا کے بعد Homo habilis بنے اور Homo heidelbergensis آگے چل کر Homo neanderthalensis بنے، اسی طرح موجودہ Homo sapiens اسی طرح کی دیگر قدیم Homo مخلوقات سے نکلا ہے۔ اس طرح Homo erectus کوئی الگ سے نوع نہیں تھی بلکہ ایک عارضی مرحلہ تھا۔ اس طرح موجودہ چینی لوگ ایشیائی Homo erectus سے پیدا ہوئے اور موجودہ یورپی لوگ یورپی Homo erectusسے پیدا ہوئے۔ تھورن کے خیال میں ‘افریقہ سے محض ایک نسل کے Homo sapiens نکلے‘۔
تاہم اس نظریے کے مخالفین کے خیال میں یہ غلط ہے کہ اس طرح ہر جگہ اور ہر جزیرے میں انسانوں کی مختلف اقسام مختلف ارتقائی مراحل سے گزری ہوں گی۔ کچھ کے خیال میں یہ نظریہ نسل پرستانہ ہے اور علم البشریات نسل پرستی سے بہت مشکل سے چھٹکارا پا سکا تھا۔
کُون کو چاہے ذاتی طور پر جیسا بھی لگتا ہو، مگر اس کے نظریے کے مطابق بعض نسلیں دوسروں سے افضل اور بہتر ہیں۔ آج یہ انتہائی متنازعہ سمجھا جانے والا نظریہ ماضی میں بہت معزز سمجھی جانی والی جگہوں پر مقبول رہا ہے۔ ابھی میرے سامنے 1961 کی شائع شدہ ایک کتاب The Epic of Man موجود ہے جس میں لائف میگزین کے مضامین کا ایک سلسلہ ہے۔ اس کے مطابق ‘رہوڈیشین آدمی آج سے 25٫000 سال قبل تک زندہ تھا اور عین ممکن ہے کہ وہ افریقیوں کا جدِ امجد بھی رہا ہو۔ اس کے دماغ کا حجم Homo sapiens کے آس پاس تھا۔‘ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ افریقی جس مخلوق سے ارتقا پذیر ہوئے ہیں، وہ انسان سے مماثل مخلوق تھی۔
تاہم تھورن کے خیال میں اس نظریے میں ذرا برابر بھی نسل پرستی نہیں کیونکہ اس وقت کے انسان مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہتے تھے۔ اس طرح ان کے آپس میں تعلقات جنسی نوعیت تک بھی پہنچ جاتے ہوں گے۔ سو اس طرح یہ تمام نسلیں ایک ہی تھیں۔ یعنی جب کیپٹن کُک آسٹریلیا پہنچا تو اس نے کسی دوسری نوع کے انسان کو نہیں بلکہ اپنی ہی نوع کے انسان کو دیکھا جو جسمانی طور پر اس سے کچھ مختلف تھے۔
تھورن کے خیال میں، اگر آپ فاسل ریکارڈ دیکھیں تو ایک مسلسل تغیر دکھائی دیتا ہے۔ ‘تین لاکھ سال پرانی ایک کھوپڑی یونان سے ملی ہے۔ اسے ایک پہلو سے دیکھیں تو Homo erectus اور دوسرے پہلو سے دیکھیں تو Homo sapiens کی لگتی ہے۔ یہی چیز ہمیں بتاتی ہے کہ مختلف انواع ارتقا میں ملتی جلتی ہیں نہ کہ ایک نوع کے دوسری نوع سے بدلے جانے پر۔‘
اس سلسلے میں سب سے بہترین شواہد جو ہو سکتے ہیں وہ یہ کہ یہ انواع ایک دوسرے کے ساتھ افزائشِ نسل کرتی تھیں۔ مگر فاسلوں سے ایسا ثابت کرنا یا اسے غلط ظاہر کرنا آسان نہیں۔ 1999 میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے پرتگال سے ایک چار سالہ بچے کا ڈھانچہ دریافت کیا جو 24٫500 سال قبل مر چکا تھا۔ اس کی جسمانی ساخت ویسے تو جدید انسانوں والی تھی مگر اس میں نیندرتھال کی بھی کچھ خصوصیات موجود تھیں، مثلاً اس کی ٹانگیں غیر معمولی طور پر مضبوط تھیں، دانتوں کی ساخت بیلچے نما تھی اور (اس بات پر ہر کوئی متفق نہیں) اس کی کھوپڑی کے پیچھے ایک ایسی چھوٹا سا گڑھا نما تھا جو نیندرتھال تک محدود ہے۔ سینٹ لوئیس میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی کے ایرک ٹرنکاس، جو کہ نیندرتھال پر حرفِ آخر مانا جاتا ہے، نے اعلان کیا کہ یہ بچہ جدید انسانوں اور نیندرتھال کے مابین جنسی تولید کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم دیگر ماہرین کے مطابق نیندرتھال اور جدید انسانی نقوش زیادہ نہیں ملے ہوئے تھے۔ ایک نے لکھا: ‘اگر آپ خچر کو دیکھیں تو اس کا اگلا حصہ گدھے جیسا نہیں اور نہ ہی پچھلا حصہ گھوڑے جیسا ہے۔‘
آئن ٹیٹرسال کے مطابق یہ محض ‘گٹھے جسم کا بچہ تھا‘۔ وہ اس بات کو تو مانتا ہے کہ نیندرتھال اور موجودہ انسانوں کے مابین ہلکا پھلکا جسمانی تعلق تو رہا ہوگا مگر اس طرح کے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے افزائشِ نسل نہیں کر سکتے (ایک امکان یہ ہے کہ کرومیگنن اور نیندرتھال کے کروموسوم کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے۔ ایسا اکثر تب ہوتا ہے جب ایک دوسرے سے مماثل نسلوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہو۔ مثلاً گھوڑے کے 64 اور گدھے کے 62 کروموسوم ہوتے ہیں۔ ان کے ملاپ سے خچر پیدا ہوتا ہے جس کے 63 کروموسوم ہوتے ہیں اور وہ افزائشِ نسل نہیں کر سکتا)۔ اس نے بتایا، ‘میرے علم میں پورے عالمِ حیاتیات میں کوئی بھی دو مخلوقات ایسی نہیں جو ایک ہی نوع سے تعلق رکھتی ہوں، ایک دوسرے سے اتنی مختلف بھی ہوں۔‘
فاسل ریکارڈ سے جب کوئی خاص فائدہ نہ ہوا تو سائنس دان اب جینیاتی مطالعے کی طرف بالعموم اور مائٹوکونڈریل ڈی این اے کی طرف بالخصوص رخ کر رہے ہیں۔ مائٹو کونڈریل ڈی این اے کو 1964 میں دریافت کیا گیا اور 1980 کی دہائی میں جا کر پتہ چلا کہ اس کو بطور مالیکیولر کلاک کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ استعمال برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنس دانوں نے دریافت کیا۔ اس کے علاوہ یہ ڈی این اے صرف مادہ سے اپنے بچوں کو منتقل ہوتا ہے اور باپ کے ڈی این اے سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس میں میوٹیشن یعنی تغیر کی شرح عام ڈی این اے سے لگ بھگ 20 گنا زیادہ تیز ہے جس سے اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ آسان ہو جاتا ہے۔ ان تغیرات کی شرح کو جانچ کر ہم پورے انسانی قبائل اور گروہوں کی جینیاتی تاریخ اور ان کے آپس کے تعلق کو جان سکتے ہیں۔
1987 میں برکلے کی ایک ٹیم نے مرحوم ایلن ولسن کی زیرِ نگرانی 147 افراد کے مائٹوکونڈریل ڈی این اے کا تجزیہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ موجودہ انسان آج سے 1٫40٫000 سال قبل افریقہ میں نمودار ہوئے تھے اور آج موجود تمام تر انسان اسی نسل سے نکلے ہیں۔ یہ نتیجہ کثیر العلاقائی نظریے کے لیے سخت ثابت ہوا۔ تاہم جلد ہی ماہرین نے اس تجربے کے نتائج کی جانچ شروع کر دی۔ اس تجربے کی سب سے بڑی خامی جو سامنے آئی، وہ یہ تھی کہ اس تجربے میں استعمال ہونے والے افریقی افراد دراصل افریقی امریکی تھے جن کے ڈی این اے میں گذشتہ چند صدیوں کے دوران بہت زیادہ تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔ پھر تغیرات کی شرح اور رفتار پر بھی اعتراضات اٹھنے لگے۔
1992 تک اس مطالعے کو عموماً نظرانداز کیا جانے لگا۔ تاہم جینیاتی تجزیے کی تکنیک میں بہتری لائی جانے لگی اور 1997 میں میونخ کی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اصل نیندرتھال انسان کے بازو کی ایک ہڈی سے ڈی این اے نکال لیا۔ اب ثبوت پکا ہو گیا۔ میونخ والے تجزیے سے پتہ چلا کہ نیندرتھال کا ڈی این اے زمین پر موجود کسی بھی دوسرے ڈی این اے سے یکسر مختلف ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ انسانوں اور نیندرتھال کے مابین کوئی جینیاتی تعلق نہیں رہا۔ کثیر العلاقائی نظریے کو اس سے شدید دھچکا پہنچا۔
2000 کے اواخر میں Nature اور دیگر سائنسی جرائد میں ایک سوئیڈش تحقیق چھپی جس میں 53 افراد کے مائٹوکونڈریل ڈی این اے کے تجزیے سے ثابت کیا گیا تھا کہ موجودہ انسان لگ بھگ ایک لاکھ سال قبل افریقہ میں پیدا ہوئے اور آج کی تمام تر نسل ان دس ہزار افراد سے نکلی ہے۔ کچھ عرصے بعد ایرک لینڈر جو کہ وائٹ ہیڈ انسٹی ٹیوٹ/ایم آئی ٹی کے جینیاتی تحقیق کے مرکز کا سربراہ تھا، نے بتایا کہ موجودہ یورپی افراد ان محض چند سو افریقیوں سے پیدا ہوئے جو شاید 25٫000 سال قبل افریقہ سے یورپ آئے تھے۔
ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ ہماری نسلِ انسانی میں انتہائی کم جینیاتی تغیر ہے۔ ایک ماہر نے لکھا کہ ‘پوری نسلِ انسانی کی نسبت 55 چمپانزیوں کے محض ایک گروہ میں اس سے کہیں زیادہ جینیاتی تغیر ہے۔‘ شاید ہماری نسل ایک محدود گروہ سے ماضی قریب میں پیدا ہوئی ہے اور اسی وجہ سے ہمیں جینیاتی تغیر کا زیادہ وقت نہیں مل سکا۔
تاہم منگو افراد، جن کی ہڈیاں آسٹریلیا میں دریافت ہوئی تھیں، کے پاس ہمیں متحیر کرنے کو بہت کچھ تھا۔ 2001 کے اوائل میں تھورن اور اس کے ساتھیوں نے آسٹریلیا کی قومی یونیورسٹی میں ان ہڈیوں سے ڈی این اے نکال کر اس پر تحقیق کی اور ثابت کیا کہ یہ ڈی این اے ‘جینیاتی اعتبار سے مختلف ہے۔‘ یہ ہڈیاں 62٫000 سال پرانی تھیں۔
اس تحقیق کے مطابق، منگو افراد دیکھنے میں ہمارے جیسے تھے اور ان کے جسمانی اعضا بھی ہم جیسے تھے، مگر ان کا جینیاتی شجرہ ہم سے مختلف ہے۔ ان کا مائٹوکونڈریل ڈی این اے موجودہ انسانوں میں نہیں پایا جاتا، جن کے بارے یقین ہے کہ وہ افریقہ سے ماضی قریب میں آئے تھے۔
‘اس سے تمام چیزیں ایک بار پھر تلپٹ ہو گئیں‘، تھورن سے خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی۔
پھر دیگر مسائل کھڑے ہونے لگے۔ آکسفورڈ کی ماہرِ حیاتیاتی بشریات روزالنڈ ہارڈنگ جب موجودہ انسانوں کے ایک خاص جین کا مطالعہ کر رہی تھی تو اس نے دیکھا کہ ایشیائی اور آسٹریلیائی افراد میں اس کی دو تبدیل شدہ اقسام موجود ہیں۔ اسے اس بات کا یقین ہے کہ یہ جین آج سے دو لاکھ سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل موجودہ شکل میں آ گیا تھا۔ موجودہ Homo sapiens اس وقت تک اس علاقے میں نہیں پہنچے تھے۔ ایشیائی افراد میں یہ جین آنے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ان کے اجداد میں قدیم انسان نما مخلوقات جیسا کہ جاوا مین وغیرہ شامل رہے ہیں۔ دلچسپ بات دیکھیے کہ یہی تبدیل شدہ جین آکسفورڈ شائر کی موجودہ آبادی میں بھی پایا جاتا ہے۔
جب میں اس بات پر الجھا تو میں رہنمائی لینے آکسفورڈ میں مس ہارڈنگ سے ملنے گیا۔ ہارڈنگ کا تعلق برسبن، آسٹریلیا سے ہے۔
‘معلوم نہیں۔ بحیثیتِ مجموعی ریکارڈ سے ہمیں یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ ایشیا سے باہر ہوا ہے۔ مگر بہت سارے ایسے مسائل ہیں کہ ماہرینِ جینیات ان پر بات کرنا اچھا نہیں سمجھتے۔ اگر ہم سمجھنے کو تیار ہوں تو بہت ساری معلومات سامنے آ سکتی ہیں۔ مگر ہم ابھی اس کے لیے تیار نہیں۔ ابھی ہم یہ کام شروع کر رہے ہیں۔‘ میرے سوال پوچھنے پر اس نے چھوٹتے ہی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ جب میں نے سوال پوچھا کہ ایشیائی جین آکسفورڈ شائر کی آبادی میں کہاں سے آئے ہیں تو اس نے جواب گول کر دیا اور کہا، ‘اس موقع پر ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاملہ بہت الجھا ہوا ہے اور ہم اس کی وجہ نہیں جانتے۔‘
ہماری ملاقات 2002 میں ہوئی۔ تب آکسفورڈ کے ایک اور سائنس دان برائن سائکس نے مشہور کتاب لکھی جس کا نام The Seven Daughters of Eve اور مائٹوکونڈریل ڈی این اے کے مطالعے سے اس نے ثابت کیا کہ تقریباً ساری ہی یورپی آبادی کی ابتدا سات خواتین سے ہوئی جو 10٫000 سے 45٫000 سال پہلے کے دور سے تھیں۔ اس دور کو سائنس دان قدیم حجری دور کہتے ہیں۔ سائکس نے ان تمام خواتین کے نام بھی رکھے جو اُرسُلا، زینیا، یاسمین وغیرہ تھے اور ان کی زندگی کی تفصیل بھی بیان کی (مثلاً اُرسُلا اپنی ماں کی دوسری اولاد تھی۔ پہلا بچہ دو سال کا تھا جب اسے ایک تیندوا ہڑپ کر گیا تھا)۔
جب میں نے ہارڈنگ سے اس کتاب کے بارے رائے لی تو اس کی مسکراہٹ خاصی طویل تھی مگر اس نے انتہائی محتاط انداز سے جواب دیا، ‘خیر، اس مشکل مضمون کو عام فہم بنانے کے لیے ہمیں اس کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس بات کا بھی معمولی سا امکان تو ہے کہ وہ درست ہو۔ تاہم ایک جین سے لیا گیا مواد اتنی زیادہ تفصیلات نہیں بتا سکتا۔ اگر آپ مائٹوکونڈریل ڈی این اے کو پچھلی نسلوں کی طرف لے جائیں تو وہ آپ کو ایک مخصوص مقام تک لے جائے گا چاہے آپ اسے اُرسُلا کہیں یا تارا یا جو بھی دل چاہے۔ لیکن اگر آپ ڈی این اے کا ایک اور حصہ لیں تو وہ آپ کو بالکل ہی دوسری جگہ لے جائے گا۔‘
اس بات سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر ہم لندن سے کوئی سڑک پکڑتے ہیں اور وہ شاہراہ ہمیں مثال کے طور پر شمال کو لے جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ لندن آنے والے کچھ اشخاص شمال سے ضرور آئے ہوں گے مگر یہ فرض کرنا بیوقوفی ہوگی کہ لندن آنے والا ہر انسان شمال سے آیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ سو مختلف مقامات سے لندن آ سکتے ہیں۔ اس طرح ہارڈنگ کے بقول، ہر جین ایک الگ راستے کی نشاندہی کرتا ہے اور ہم ان راستوں کا نقشہ بنانا شروع ہوئے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ‘اکیلا جین کبھی بھی پوری کہانی نہیں بتا سکتا۔‘
‘یعنی جینیاتی تحقیق پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے؟‘
‘عمومی طور پر آپ ان پر اعتبار کر سکتے ہیں۔ تاہم ان سے اس طرح کے بڑے نتائج اخذ نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ اکثر لوگ کر لیتے ہیں۔‘
اس کے خیال میں ‘یہ کہنا بہتر رہے گا کہ 95 فیصد انسان افریقہ سے آئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ دونوں فریقین نے سائنس پر ظلم کیا ہے کہ انہوں نے محض اپنے نظریے کو ہی درست مانا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کل کلاں ثابت ہو کہ دونوں ہی جزوی طور پر درست تھے۔ اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ افریقہ سے ایک سے زیادہ مرتبہ لوگ نکلے اور دنیا کے مختلف علاقوں کو منتقل ہوئے اور آپس میں افزائشِ نسل کی۔ ان سب کو ترتیب دینا اتنا آسان نہیں ہوگا۔‘
عین اسی وقت قدیم ترین ہڈیوں سے ڈی این اے کے حصول کی بابت سوال اٹھ رہے تھے۔ ایک ماہر نے Nature رسالے میں لکھا کہ ایک ماہرِ آثارِ قدیمہ سے اس کے ساتھی نے ایک قدیم کھوپڑی کے بارے پوچھا کہ آیا یہ پالش شدہ ہے یا نہیں تو اس نے کھوپڑی کو زبان سے چاٹ کر جواب دیا کہ ہاں۔ ‘اس عمل میں موجودہ انسانی ڈی این اے کھوپڑی پر لگ گیا‘ اور مستقبل میں اس کھوپڑی پر تحقیق کا عمل رک گیا۔ میں نے ہارڈنگ سے اس بارے پوچھا۔ ‘ہاں، یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ یہ کھوپڑی پہلے سے آلودہ ہو چکی ہوگی۔ ‘جب آپ کسی ہڈی کو ہاتھ لگاتے ہیں تو وہ آلودہ ہو جاتی ہے۔ اس پر سانس لی جائے تو وہ بھی وہ آلودہ ہو جائے گی۔ ہماری لیبارٹریوں کا زیادہ تر پانی اسے آلودہ کر سکتا ہے۔ سو فیصد یقین کے ساتھ کام کرنے کی خاطر آپ کو اس ہڈی کو نکالنے اور اس پر ٹیسٹ کرنے کا عمل وہیں موقعے پر اور سٹیرائل یعنی پاک و صاف لیبارٹری پر کرنا ہوتا ہے۔ دنیا کا مشکل ترین کام کسی نمونے کو آلودگی سے بچانا ہے۔‘
‘سو یہ سب دعوے بالکل غلط سمجھے جائیں؟‘ میں نے پوچھا۔
‘بالکل‘۔ اس نے جواب دیا۔
اگر آپ فوری طور پر یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی جڑوں کے بارے اتنا کم کیوں جانتے ہیں تو اس کے لیے ایک جگہ تجویز کرتا ہوں۔ یہ جگہ کینیا میں نیلی نگونگ پہاڑیوں کے سرے پر نیروبی کے جنوب مغرب کی جانب واقع ہے۔ شہر سے جب شاہراہ پر باہر نکلتے ہیں تو سامنے افق تک پھیلے زرد افریقی میدان سامنے آتے ہیں۔
اس جگہ کو عظیم وادئ شق کہا جاتا ہے جو 3٫000 میل طویل اور افریقہ کے مشرق میں ہے۔ یہ ٹیکٹانک حرکت افریقہ کو ایشیا سے دور کر رہی ہے۔ نیروبی سے 65 کلومیٹر دور اور وادی کے تپتے ہوئے پیندے پر ایک جگہ ہے جس کا نام اولورگیزیلی ہے۔ اس جگہ کبھی ایک بہت بڑی جھیل ہوا کرتی تھی۔ جھیل خشک ہونے کے بہت بعد 1919 میں ایک ماہرِ ارضیات جے ڈبلیو گریگری اس علاقے میں معدنیات کی تلاش میں نکلا ہوا تھا کہ اسے ایک کھلا میدان دکھائی دیا جہاں عجیب قسم کے کالے پتھر ایسے ترتیب سے رکھے تھے جیسے کسی انسان نے رکھے ہوں۔ اس نے آچیولین اوزار بنانے کی ایک قدیم ترین جگہ دریافت کر لی تھی جس کے بارے ٹیٹرسال نے مجھے بتایا تھا۔
اتفاق کی بات دیکھیے کہ میں بھی 2002 میں اس جگہ کو دیکھنے گیا۔ ان دنوں میں کینیا ایک بین الاقوامی خیراتی ادارے چیرٹی کے کچھ منصوبوں کو دیکھنے گیا ہوا تھا۔ میرے میزبانوں کو علم تھا کہ مجھے انسانی ابتداء جاننے میں خاصی دلچسپی ہے، اس لیے انہوں نے دورے میں اس جگہ کی سیر بھی شامل کر دی تھی۔
اس دریافت کے بیس سال بعد مشہورِ زمانہ میاں بیوی لوئیس اور میری لیکی نے اس جگہ دکھائی شروع کر دی جو ابھی تک جاری ہے۔ اس جگہ دس ایکڑ جتنی جگہ پر لاکھوں برس تک بے شمار اوزار بنائے جاتے رہے۔ یہ دورانیہ آج سے بارہ لاکھ سال قبل سے دو لاکھ سال قبل پر محیط تھا۔ اس جگہ موسمی حالات سے بچانے کی خاطر ٹین کی چادریں کھڑی کی گئی ہیں اور اوزاروں کو محفوظ رکھنے کی خاطر باڑ لگا دی گئی ہے۔ مگر تمام تر اوزار عین اسی جگہ موجود ہیں جہاں ان کے خالقین نے چھوڑا تھا۔
کینیا کے قومی عجائب گھر کی جانب سے ایک نوجوان ماہر جیلانی نگالی کو میرے رہنما کے طور پر ساتھ بھیجا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ کلہاڑی بنانے والے کوارٹز اور پگھلے آتش فشاں والے پتھر اس وادی میں نہیں پائے جاتے۔ ‘انہیں یہ پتھر دس کلومیٹر دور دو پہاڑوں سے لانے پڑتے تھے۔‘ اس نے بتایا۔
اب یہ لوگ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے تھے، اس کے بارے ہمیں کچھ علم نہیں۔ عجیب بات ہے کہ وہ اتنی دور سے پتھر یہاں لاتے تھے اور یہ بات اس سے بھی عجیب تر ہے کہ کام کے لیے یہ جگہ انہوں نے یہاں خود بنائی۔ لیکی نے وہ جگہیں بھی تلاش کیں جہاں کلہاڑیاں تیار ہوتی تھیں اور وہ جگہیں بھی جہاں کند کلہاڑیوں کو تیز کیا جاتا تھا۔ اس جگہ کو آپ ایک فیکٹری یا کارخانہ سمجھ سکتے ہیں جو لگ بھگ دس لاکھ سال تک چلتا رہا۔
اس عمل کی نقالی کرتے ہوئے یہ بات صاف پتہ چلتی ہے کہ ان کلہاڑیوں کو بنانے کا عمل ماہرین کے لیے بھی کافی پیچیدہ تھا۔ ایک کلہاڑی بنانے پر کئی گھنٹے لگتے ہوں گے اور پھر بھی عجیب بات دیکھیے کہ یہ کلہاڑی کاٹنے کے لیے مناسب نہیں تھی۔ اب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ دس لاکھ سال تک یہاں ایک ایسا کام ہوتا رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں بے شمار اوزار بنائے گئے جن کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ یاد رہے کہ دس لاکھ سال کا عرصہ اتنا طویل ہے کہ بطور انسان ہمیں ایک نوع کا درجہ اختیار کیے ابھی چند لاکھ سال ہوئے ہیں اور بطور معاشرہ چند ہزار برس سے ہم جمع ہونا شروع ہوئے ہیں۔
یہ لوگ کون تھے؟ اس بارے ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ یہ لوگ Homo erectus تھے کہ اس کے علاوہ اور کوئی نسل ممکن نہیں۔ اپنے عروج کے دور میں ان ماہر کاریگروں کا دماغ آج کے دور کے ایک نوزائیدہ بچے کے برابر رہا ہوگا۔ تاہم اس بارے ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ساٹھ سال سے اس علاقے میں تلاش ہو رہی ہے اور کبھی کسی انسان نما مخلوق کی ایک بھی ہڈی یہاں سے نہیں مل سکی۔ اب پتھروں سے اوزار بنانے پر انہوں نے چاہے جتنا بھی وقت صرف کیا ہو، کہیں اور جا کر مرے ہوں گے۔
‘بہت عجیب بات ہے نا۔‘ جیلانی نگالی نے مجھے خوشی خوشی بتایا۔
یہ لوگ آج سے 2 لاکھ سال قبل تب معدوم ہوئے جب جھیل خشک ہو گئی اور عظیم وادئ شق ان کے لیے بہت گرم ہونے لگی۔ تاہم بطور نوع، ان کے دن گنے جا چکے تھے۔ دنیا میں پہلی بار حقیقی اشرف المخلوقات کا درجہ رکھنے والی Homo sapiens کا ظہور ہونے والا تھا۔ ہر چیز بدلنے والی تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
30 خدا حافظ​
1680 کی دہائی کے اوائل میں جب ایڈمنڈ ہیلی، کرسٹوفر رن اور رابرٹ ہُک لندن کے کافی ہاؤس میں بیٹھنا شروع ہوئے تو ان کی گفتگو کا نتیجہ آئزک نیوٹن کی مشہورِ زمانہ کتاب Principia، ہنری کیونڈش کی جانب سے زمین کا وزن معلوم کرنے اور پچھلے صفحات میں درج زیادہ تر چیزوں کی صورت میں نکلا۔ تاہم عین اسی وقت بحرِ ہند میں مڈغاسکر سے 1٫300 کلومیٹر دور ماریشس کے جزیرے میں ایک نسبتاً کم اہم سنگِ میل عبور ہو رہا تھا۔
یہاں کوئی ملاح یا اس کے پالتو جانور آخری ڈوڈو پرندوں کے شکار میں مصروف تھے۔ یہ پرندہ بہت بھولا بھالا اور معصوم تھا جس کی وجہ سے اس کا شکار انتہائی آسان تھا۔ لاکھوں سالوں سے اس جزیرے پر باقی دنیا سے الگ تھلگ اور پرامن طور پر رہنے والے اس پرندے کو انسانی فطرت کا اندازہ نہیں تھا۔
ہمیں نہ تو حالات کا علم ہے اور نہ ہی اس سال کا معلوم ہے کہ جب آخری پرندہ بھی شکار ہوا۔ سو ہمیں یقین نہیں کہ پہلے نیوٹن کی کتاب آئی یا پھر آخری ڈوڈو پہلے شکار ہوا۔ البتہ دونوں واقعات لگ بھگ ایک ہی وقت ہوئے۔ اگر آپ اصرار کریں تو انسانی فطرت کی عظمت کے ساتھ ساتھ کمینگی کی وضاحت کے لیے بہتر مثالیں تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔ ایک طرف تو یہ نوع خلا کی وسعتوں کو چھان کر نت نئے انکشافات کرنے میں مصروف ہے تو دوسری جانب بلا وجہ انتہائی معصوم اور بے ضرر جانداروں کو بغیر سوچے سمجھے صفحہ ہستی سے مٹا رہی ہے۔ ڈوڈو کتنا معصوم پرندہ تھا، اس کے بارے اتنا کہنا کافی ہے کہ ایک ڈوڈو کو پکڑ کر کہیں بٹھا دیں تو اس کا شور سن کر آس پاس موجود تمام تر پرندے پہنچ جاتے۔
ڈوڈو کی بے حرمتی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ 1755میں جب آخری معلوم ڈوڈو بھی ہلاک ہو چکا، آکسفورڈ کے ایشمولین میوزیم کے ڈائریکٹر نے فیصلہ کیا کہ بھس بھرے ڈوڈو سے بہت زیادہ بو آ رہی ہے، سو اس نے یہ آتشدان میں ڈال دیا۔ شومئی قسمت، یہ آخری ڈوڈو تھا جو زندہ یا مردہ، ہمارے پاس محفوظ تھا۔ پاس سے گزرتے ہوئے ایک ملازم نے جب یہ منظر دیکھا تو ڈوڈو کو بچانے کی کوشش کی۔ مگر اس کے ہاتھ صرف اس کا سر اور ایک بازو آیا۔
اس نوعیت کی حماقتوں کی بنا پر آج ہمیں سو فیصد یقین سے معلوم نہیں کہ ڈوڈو کیسا دکھائی دیتا ہوگا۔ اس بارے ہمارے پاس انتہائی کم معلومات ہیں۔ ڈوڈو کے بارے زیادہ تر معلومات ملاحوں سے، تین چار آئل پینٹنگ اور ڈوڈو کے چند خشک شدہ ٹکڑے ہی ہمارا کل اثاثہ ہیں۔ نیچرلسٹ ایچ ای سٹرکلینڈ کے مطابق ہمیں بعض قدیم سمندری بلاؤں اور ڈائنوساروں کے بارے ڈوڈو سے کہیں زیادہ علم ہے جبکہ یہ پرندہ ہمارے ماضی قریب تک زندہ تھا اور اس کو بچانے کے لیے محض ہماری عدم موجودگی کافی تھی۔
ڈوڈو کے بارے ہمیں جو معلومات ہیں، وہ یہ ہیں: ڈوڈو ماریشس میں رہتا تھا، فربہہ ہونے کے باوجود لذیذ نہیں تھا اور کبوتر کے خاندان کا سب سے بڑا پرندہ تھا۔ تاہم اس کے وزن کو کبھی سائنسی اعتبار سے نہیں ماپا گیا۔ بچی کھچی باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پرندہ اڑھائی فٹ اونچا اور اڑھائی فٹ لمبا تھا۔ اڑ نہ سکنے کے باعث اس کا گھونسلہ زمین پر ہوتا تھا اور انسانوں کے ساتھ آئے ہوئے بندر، سور اور کتے اس کے انڈوں اور بچوں پر ہاتھ صاف کرتے تھے۔ 1683 میں شاید یہ پرندہ معدوم ہو گیا تھا مگر 1693 تک یہ بات یقینی طور پر ثابت ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ہمیں کچھ علم نہیں۔ ہمیں اس کی افزائشِ نسل کے بارے کچھ معلوم نہیں، نہ ہی اس کی خوراک، کن علاقوں میں پایا جاتا تھا، اس کی آواز کیسی ہوگی؟ ہمارے پاس تو اس کا ایک انڈہ تک نہیں بچا۔
اس پرندے کو پہلی بار دیکھے جانے سے لے کر اس کے معدوم ہو جانے تک کا عرصہ کل 70 سال بنتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ ہمارے پاس ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچانے کا ہزاروں برسوں کا تجربہ ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ حضرتِ انسان کتنا نقصان دہ ہے، مگر پچھلے 50٫000 برسوں میں ہم جہاں بھی گئے ہیں،جانور انتہائی بڑے پیمانے پر ختم ہونے لگے ہیں۔
امریکہ میں بڑے جانوروں کے 30 جنرا، جن میں بہت بڑے جانور بھی شامل ہیں، پچھلے دس سے بیس ہزار سال میں انسان آمد کے ساتھ ہی معدوم ہو گئے ہیں۔ شمالی اور جنوبی امریکہ میں جب سے انسان پتھر کے اوزار اور گروہوں کی شکل میں آنا شروع ہوا، بڑے جانوروں کی تین چوتھائی اقسام ناپید ہو چکی ہیں۔ یورپ اور ایشیا میں جانوروں کو انسان سے خبردار ہونے کا زیادہ وقت ملا تھا، یہ تباہی 80 فیصد سے زیادہ ہے اور آسٹریلیا میں 95 فیصد۔
چونکہ ابتدا میں شکاری گروہ بہت چھوٹے ہوتے تھے اور جانوروں کی تعداد انتہائی زیادہ (بعض ماہرین کے خیال میں محض سائبیریا میں ٹنڈرا کے علاقے میں اندازا 1 کروڑ میمتھ منجمد حالت میں موجود ہیں) تھی، اس لیے ان کی معدومیت میں انسان کے علاوہ بھی دیگر عوامل ہونے چاہیں، جیسا کہ موسمی تبدیلیاں یا پھر وبائی بیماریاں۔ امریکی میوزیم برائے نیچرل ہسٹری کے روس میکفی کے مطابق: ‘خطرناک جانوروں کا شکار محض ضرورت کے مطابق کیا جاتا ہے۔‘ دیگر ماہرین کے خیال میں جانوروں کی معصومیت کی وجہ سے ان کا شکار انتہائی آسان رہا ہوگا۔
بعض جانوروں کا بچانا تو انتہائی آسان تھا۔ سوچیے، کہ ایسے زمینی سلاتھ جو دو منزلہ اونچے ہوں، چھوٹی کار کی جسامت کے کچھوے، 6 میٹر لمبی گوہ جو مغربی آسٹریلیا میں سڑک کنارے بیٹھی ہوتی، کتنا خوبصورت لگتا؟ افسوس، یہ سب جانور ناپید ہو چکے۔ آج پوری دنیا میں خشکی پر رہنے والے ایک ٹن یعنی ہزار کلو سے زیادہ وزنی جانوروں کی محض چار اقسام باقی ہیں جو کہ ہاتھی، گینڈے، دریائی گھوڑے اور زرافے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا انسان کا وجود دیگر جانوروں کے لیے تباہی کا سبب ہے؟ شاید اس کا جواب ہاں ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے ماہر پیلنٹالوجسٹ ڈیوڈ راپ کے مطابق، زمین پر حیاتاتی تاریخ میں ہر چار سال میں ایک نوع اوسطاً ناپید ہوتی ہے۔ رچرڈ لیکی اور راجر لیون نے اپنی کتاب The Sixth Extinction میں لکھا ہے کہ انسان کے ہاتھوں ناپید ہونے والی انواع کی شرح اس سے 1٫20٫000 فیصد زیادہ ہے۔
1990 کی دہائی کے وسط میں آسٹریلیا کے نیچرلسٹ ٹم فلینری (اب جنوبی آسٹریلیا کے ایڈیلیڈ میوزیم کا سربراہ) یہ جان کر حیران ہوا کہ ہم ماضی قریب کی مختلف اقسام کے ناپید ہونے کے بارے کتنا کم جانتے ہیں۔ ‘ہر جگہ ریکارڈ میں خالی جگہیں موجود ہیں اور جیسا کہ ڈوڈو کے ساتھ ہوا، کئی انواع تو درج ہی نہیں ہو پائیں۔‘ اس نے 2002 کے اوائل میں ملاقات پر مجھے بتایا۔
فلینری نے اپنے ایک فنکار دوست پیٹر شوٹن کو اپنے ساتھ ملایا اور دنیا بھر کے عجائب گھروں میں موجود ناپید جانوروں کے بارے مہم پر نکل کھڑا ہوا تاکہ یہ جان سکے کہ کون سے جانور ناپید ہو چکے ہیں، کون سے باقی بچے ہیں اور کن کے بارے ہمیں معلومات ہی نہیں۔ چار سال تک دونوں کھالوں، حنوط شدہ جانوروں، بدبودار بھس بھرے مجسموں، پرانی تحاریر اور ان سے منسلک تصاویر وغیرہ، غرض ہر ممکن چیز کی چھان بین کرتے رہے۔ شوٹن نے ہر جانور کی اصل حجم کے مطابق تصاویر بنائیں جبکہ فلینری نے ان کے بارے معلومات درج کیں۔ نتیجہ کے طور پر A Gap in Nature نامی مشہور کتاب کے طور پر نکلا۔ اس کتاب میں گذشتہ تین سو سال کے دوران ناپید ہونے والے جانوروں کی تفصیلات درج ہیں۔
بعض جانوروں کے ریکارڈ بہت اچھے تھے کہ کسی نے انہیں کئی برس یا کبھی بھی ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ سٹیلر کی سمندری گائے ناپید ہونے والے آخری انتہائی بڑے جانوروں میں ایک تھی۔ اس کی شکل والرس کی مانند تھی۔ اس کی جسامت بہت بڑی تھی اور اس کی لمبائی 9 میٹر کے قریب اور وزن لگ بھگ 10 ٹن ہوتا تھا۔ تاہم اس کے بارے ہمیں 1741 میں تب پتہ چلا جب ایک روسی جہاز بحیرہ بیرنگ کے دھند والے جزائر کمانڈر کے پاس تباہ ہوا جہاں یہ جانور پائے جاتے تھے۔
خوش قسمتی سے جہاز پر نیچرلسٹ بھی موجود تھا جسے یہ جانور بہت پسند آئے۔ اس نے انتہائی تفصیلی نوٹس لیے اور مادہ کے جنسی اعضا تک کے بارے تفصیل بیان کی تاہم نر کے جنسی اعضا کسی وجہ سے رہ گئے۔ اس نے ایک جانور کی کھال کا ٹکڑا بھی محفوظ کر لیا تاکہ ہمیں اس بارے پوری طرح علم ہو سکے۔ تاہم ہم ہمیشہ اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔
تاہم سٹیلر ان جانوروں کو بچا نہ سکا۔ ان کا بہت زیادہ شکار کیا جاتا تھا اور سٹیلر کی دریافت کے 27 سال بعد اس نسل کا آخری جانور بھی ناپید ہو گیا۔ تاہم بہت سارے جانوروں کے بارے ہمیں کچھ بھی علم نہیں، مثلاً ڈارلنگ ڈاؤنز ہوپنگ ماؤس، چیتھم آئی لینڈ سوان، بڑے کچھوؤں کی پانچ اقسام اور پتہ نہیں کون کون سے جانور ایسے ہیں کہ ہمیں ان کا محض نام معلوم ہے۔
فلینری اور شوٹن نے یہ بات بھی دیکھی کہ بہت ساری معدومیت کے پیچھے کوئی ظلم یا بیکار کی تباہی نہیں بلکہ نری حماقت تھی۔ 1894 میں نیوزی لینڈ کے دو جزائر کے درمیان ایک جگہ لائٹ ہاؤس بنایا گیا۔ اس کے رکھوالے کی بلی عجیب قسم کے پرندے پکڑ لاتی تھی۔ رکھوالے نے کچھ پرندے ولنگٹن کے عجائب گھر کو بھجوائے تو ان کا نگران یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ یہ انتہائی نایاب اور دنیا کے واحد نہ اڑ سکنے والے پرندے تھے جو درختوں پر گھونسلہ بناتے تھے۔ اس نگران نے فوری طور پر مطلوبہ جگہ کا رخ کیا تو پتہ چلا کہ بلی ان تمام پرندوں کو ہلاک کر چکی تھی۔ آج ہمارے پاس اس پرندے کے کل 12 بھس بھرے نمونے عجائب گھر میں موجود ہیں۔
خیر، ان پرندوں کا کچھ تو نشان باقی ہے۔ بے شمار انواع کے ختم ہونے کے بارے ہمیں تب پتہ چلتا ہے جب وہ ناپید ہو چکے ہوتے ہیں۔ شمالی امریکہ کے ایک طوطے کی مثال لے لیں۔ زمرد کے رنگ کا یہ طوطا شمالی امریکہ کا سب سے خوبصورت پرندہ تھا اور اپنے عروج کے دور میں اس کی تعداد مسافر کبوتروں کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ تاہم کیرولینا میں اس طوطے کو نقصان دہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا شکار اس لیے آسان تھا کہ ان کا جھنڈ ایک دوسرے کے بالکل قریب اڑتا تھا اور جب کارتوس چلایا جائے تو اوپر جا کر پھر فوراً اپنے مرے ساتھیوں کو دیکھنے لوٹتے تھے۔
18ویں صدی کی مشہورِ زمانہ کتاب American Ornithology میں چارلس ولسن پیل نے لکھا ہے کہ کس طرح اس نے بار بار اپنی بندوق اس درخت پر چلائی جہاں یہ طوطے بیٹھے تھے:
ہر بار جب کارتوس چلانے پر مردہ طوطوں کی بارش ہوتی۔ باقی پرندے اڑ کر چند چکر لگاتے اور پھر اپنے مردہ ساتھیوں کی خبرگیری کو پہنچ جاتے۔ آخرکار مجھے ان پر بہت ترس آیا اور میں نے شکار ختم کر دیا۔
19ویں صدی کی دوسری دہائی تک ان طوطوں کا اتنا بے رحمانہ شکار کیا گیا کہ محض چند پرندے پنجروں میں زندہ رہ گئے۔ آخری طوطے کا نام انکا تھا جو سنسنیاٹی کے چڑیا گھر میں 1918 میں مرا (اسی چڑیا گھر میں چار سال قبل آخری مسافر کبوتر بھی مرا تھا)۔ انتہائی اکرام کے ساتھ اس میں بھس بھری گئی مگر اس کے بعد علم نہیں کہ انکا کہاں گیا۔ یہ چڑیا گھر سے ہی غائب ہو گیا۔
اب ذرا غور کیجیے کہ ولسن کو پرندوں سے انتہائی محبت تھی مگر وہ اتنی بڑی تعداد میں طوطوں کا شکار محض اس لیے کرتا تھا کہ اسے اچھا لگتا تھا۔ بہت طویل عرصے تک جو افراد کسی زندہ جانور میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے، وہی اس کے ناپید ہونے کا سبب بھی بنتے۔
اس سلسلے میں سب سے مشہور یا بدنامِ زمانہ کہہ لیں، مثال لیونل والٹر روتھ چائلڈ کی ہے۔ مشہور بینکر خاندان سے اس کا تعلق تھا اور اس نے ساری زندگی 1868 سے 1937 تک اپنے گھر کی نرسری میں گذاری اور ہمیشہ اپنے بچپن والا فرنیچر استعمال کرتا رہا اور 135 کلو وزنی ہوتے ہوئے بھی اپنے بچپنے والے بستر پر سوتا تھا۔
اسے نیچرل ہسٹری سے عشق تھا اور اس سے متعلق نمونے بہت شوق سے جمع کرتا تھا۔ اس نے باقاعدہ تربیت یافتہ بندوں کی فوج بھرتی کی ہوئی تھی (جو چار سو ملازمین تک پہنچ جاتی تھی) جو دنیا بھر سے اسے ہر قسم کے نئے جاندار تلاش کر کے بھیجتی۔ اس کا اصل زور پرندوں پر ہوتا تھا۔ ڈبے بھر بھر کر پرندے اور جانور اسے بھیجے جاتے جہاں وہ اپنے بہت سارے نائبین کے ساتھ مل کر ان کا تفصیلی تجزیہ اور مطالعہ کرتا اور اس بارے مسلسل کتب، مقالے اور مضامین لکھتا جاتا جن کی کل تعداد 1٫200 سے زیادہ تھی۔ اس نے کل 20 لاکھ سے زیادہ جانوروں اور پرندوں کا تجزیہ کیا اور سائنسی فہرست میں 5٫000 انواع کا اضافہ کیا۔
یاد رہے کہ روتھ چائلڈ کی کوششیں نہ تو سب سے زیادہ وسیع تھیں اور نہ ہی سب سے زیادہ مہنگی۔ اس کام پر سب سے زیادہ خرچہ کرنے والا بندہ ہف کمنگ تھا جو بہت دولت مند برطانوی تھا۔ اسے مختلف چیزیں جمع کرنے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے ایک بہت بڑا بحری جہاز بنایا اور اس پر عملہ بھرتی کر کے اسے دنیا کے سفر پر روانہ کر دیا کہ اسے جہاں سے جو چیز بھی ملے، جمع کرتا جائے۔ پرندے، پودے، اور ہر طرح جانور اور بالخصوص خول اس فہرست کا حصہ تھے۔ اس کے بے مثال مجموعے میں شامل بارنیکل کا مجموعہ بعد میں ڈارون کو ملا اور اسی سے اس نے تحقیق شروع کی۔
تاہم روتھ چائلڈ کو سائنسی اعتبار سے برتری حاصل تھی۔ تاہم زیادہ تر یہ برتری جانوروں اور پرندوں کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ 1890 کی دہائی میں اس نے ہوائی میں دلچسپی لینا شروع کی۔ بدقسمتی سے ہوائی سے زیادہ نازک ماحول پورے کرہ ارض پر کہیں اور نہیں کہ لاکھوں سال سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے یہاں 8٫800 اقسام کے منفرد جانور اور پودے آباد ہیں۔ روتھ چائلڈ کی اہم ترین دلچسپی کا محور جزیرے کے خوبصورت پرندے تھے جن کی آبادی عام طور پر انتہائی محدود اور مخصوص جگہوں پر ہی ہوتی تھی۔
ہوائی کے پرندوں کی بدقسمتی کے اسباب میں ان کی انفرادیت، پسندیدگی اور نایاب ہونے کے علاوہ ان کا انتہائی آسانی سے پکڑا جانا تھا۔ ایک خاص قسم کی چڑیا جو کہ عام حالات میں بہت شرمیلی اور چھپ کر رہنے والی ہوتی ہے، کو جب اپنی آواز سے مماثل آواز سنائی دے تو فوراً ہی زمین پر اتر آتی تھی۔ 1896 میں اس نسل کا آخری پرندہ روتھ چائلڈ کے سب سے بہترین شکاری نے مارا۔ اسی خاندان کا ایک اور پرندہ اس سے پانچ سال قبل ناپید ہو گیا تھا۔ یہ پرندہ اتنا نایاب تھا کہ آج تک اس کا ایک ہی پرندہ دیکھا گیا ہے جو روتھ چائلڈ کے ذخیرے کے لیے شکار کیا گیا تھا۔ روتھ چائلڈ کی اس جزیرے پر دلچسپی کے دس بارہ سالوں کے دوران کم از کم 9 اقسام کے پرندے ناپید ہو گئے۔
اس ظلم میں روتھ چائلڈ اکیلا نہیں تھا۔ کئی دوسرے افراد اس سے کئی ہاتھ آگے تھے۔ 1907 میں ایلنسن برائن نے لکھا کہ جب اسے پتہ چلا کہ Black Mamo نامی پرندے کے آخری تین پرندے اس نے شکار کر لیے ہیں تو اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ یہ پرندہ محض ایک دہائی قبل ہی دریافت ہوا تھا۔
اس دور میں یہ سمجھنا بہت دشوار تھا کہ کسی بھی جانور سے ذرا سا بھی خطرہ محسوس ہوتا تو اس پر انعام مقرر کر دیا جاتا تھا۔ 1890 میں نیو یارک ریاست نے پہاڑی شیر پر سو انعام مقرر دیے، حالانکہ یہ بات صاف ہو چکی تھی کہ یہ جانور پہلے ہی شکار کی کثرت کے سبب ناپید ہونے کے قریب ہے۔ 1940 کی دہائی تک بہت ساری ریاستیں کسی بھی قسم کے شکاری جانور کے شکار پر انعامات دیا کرتی تھیں۔ ویسٹ ورجینیا ہر اس فرد کو کالج کا سالانہ وظیفہ دیا کرتی تھی جو سب سے زیادہ مردہ ‘کیڑے‘ پیش کرتا۔ یاد رہے کہ ‘کیڑے‘ سے مراد کوئی بھی ایسی چیز، جسے نہ تو فارموں میں پالا جاتا ہو اور نہ ہی بطور پالتو جانور رکھا جاتا ہو۔
تاہم Bachman’s Warbler نامی ایک انتہائی خوبصورت آواز والی جنوبی امریکہ کی چڑیا اس کی بدترین مثال ہے۔ اس پرندے کی تعداد کبھی زیادہ نہیں رہی اور 1930 کی دہائی میں یہ پرندہ ناپید سمجھا جانے لگا۔ پھر 1939 میں انتہائی دور مقامات پر پرندوں کے دو شوقین افراد کو دو پرندے دکھائی دیے۔ دونوں نے انہیں فوراً ہلاک کر دیا۔
تباہی کا یہ جنون محض امریکہ تک محدود نہیں تھا۔ آسٹریلیا میں تسمانین ٹائیگر کی ہلاکت پر انعام کا سلسلہ آخری جانور کی ہلاکت سے کچھ عرصہ قبل روکا گیا تھا۔ یہ جانور کتے جیسا ہوتا ہے اور اس پر شیر کی طرح دھاریاں ہوتی ہیں۔ آخری تسمانین ٹائیگر 1936 میں ہوبارٹ کے ایک پرائیوٹ چڑیا گھر میں مرا۔ آپ تسمانین میوزیم اور آرٹ گیلری میں جا کر پوچھیں کہ تسمانین ٹائیگر کیسا تھا تو آپ کو چند تصاویر اور 61 سیکنڈ جتنی ایک پرانی وڈیو دکھائی جائے گی۔ یہ واحد تھیلی دار گوشت خور جانور تھا جو جدید دور تک زندہ رہا۔ جب آخری جانور مرا تو ہفتہ وار صفائی کے دوران اس کی لاش کو بھی ٹھکانے لگا دیا گیا۔
اس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کوئی جاندار پیدا کر کے اس کائنات میں اس کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہوں تو اس کام کے لیے کبھی کسی انسان کے ذمے مت لگائیے گا۔
بدقسمتی سے انسان کو ہی اسی کام کے لیے چنا گیا ہے۔ اسے آپ قسمت کہہ لیں، مقدر یا کچھ اور۔ جہاں تک ہم دیکھ سکتے ہیں، صرف ہم ہی اس کام کے قابل ہیں۔ یعنی ایک طرف تو ہم اس کائنات کی بہترین تو دوسری طرف ہم ہی بدترین مخلوق ہیں۔
ہم نہ صرف دیگر جانداروں کا خیال رکھنے میں ناکام رہتے ہیں بلکہ ہمیں ان کی زندگی میں یا ان کی موت کے بعد بھی ان کا کوئی خیال نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ جان پاتے ہیں کہ فلاں جاندار ناپید کیسے ہوا اور اب کون سا جاندار ناپید ہوگا اور کون سا نہیں۔ نہ ہی ہم یہ جان پاتے ہیں کہ معدومیت کے اس عمل میں ہمارا کیا کردار رہا ہے۔ 1979 میں نورمن میئرز نے اپنی کتاب The Sinking Ark میں بتایا ہے کہ ہر ہفتے دو مختلف انواع انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ناپید ہو رہی ہیں۔ 1990 کی دہائی میں اس نے یہ تعداد بڑھا کر 600 کر دی تھی (اس میں پرندے، جانور، پودے، غرض ہر طرح کے جاندار آ جاتے ہیں)۔ بعض ماہرین نے یہ تعداد 1٫000 فی ہفتہ بتائی ہے۔ 1995 میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 400 سال کے دوران جانوروں کی 500 اور پودوں کی 650 سےز یادہ انواع ناپید ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ میں اعداد و شمار کے بارے بالعموم اور استوائی خطے کے جانداروں کی تعداد کے درست ہونے کے بارے بالخصوص شبہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ تقریباً سارے ماہرین کے مطابق یہ اندازے انتہائی کم ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بالکل بھی علم نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ ہم نے یہ نقصان دہ سرگرمیاں کب شروع کیں۔ نہ ہی ہمیں اپنی موجودہ سرگرمیوں کے بارے کچھ خبر ہے اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ موجودہ سرگرمیوں سے مستقبل میں کیا اثرات پڑیں گے۔ ہمیں صرف ایک بات کا یقین ہے کہ یہ واحد سیارہ ہے جہاں ہم رہ سکتے ہیں اور ہم واحد نوع ہیں جو کسی قسم کی بہتری لا سکتی ہے۔ ایڈورڈ او ولسن نے اپنی کتاب The Diversity of Life میں لکھا ہے:‘ایک سیارہ، ایک تجربہ‘۔
اگر اس کتاب سے کوئی سبق سیکھا جا سکتا ہے تو یہ کہ ہم انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ہم موجود ہیں۔ ہم سے مراد تمام جاندار۔ بطور انسان تو ہم دوہرے خوش قسمت ہیں کہ ہم نہ صرف اپنے وجود سے آگاہ ہیں بلکہ اس کو کئی طرح سے بہتر بنانے کے قابل بھی ہیں۔ اس بات کا ہمیں اب احساس ہونا شروع ہوا ہے۔
اس ‘بامِ عروج‘ تک پہنچنے میں ہمیں انتہائی کم وقت لگا ہے۔ موجودہ انسان کو پیدا ہوئے جو وقت گزرا ہے، وہ کائنات کی کل عمر کا 0.01 فیصد سے بھی کم ہے۔ نہ ہونے کے برابر۔ تاہم اس کے لیے ہمیں خوش قسمتی کی انتہائی طویل زنجیر درکار تھی۔
ہم اس کے آغاز پر موجود ہیں۔ تاہم اصل کام اختتام سے بچنا ہے۔ اس کام کے لیے ہمیں خوش قسمتی سے کہیں زیادہ اور چیزیں درکار ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اس کی ای بک بھی بن گئی ہے۔ لیکن ا لوڈ بار بار فیل ہو گیا ہے۔ دو حصوں میں تقسیم کرنے پر بھی۔ اب تین حصوں میں کوشش کروں گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کی ای بک بھی بن گئی ہے۔ لیکن ا لوڈ بار بار فیل ہو گیا ہے۔ دو حصوں میں تقسیم کرنے پر بھی۔ اب تین حصوں میں کوشش کروں گا۔
میرے پاس بنی بنائی حالت میں رکھی ہے۔ اگر آپ کا ای میل ایڈریس مل جائے تو بھیج دوں؟ مگر میری بنائی ہوئی ای بک کافی سادہ سی ہوتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
مجھے اپنی ہی ای بک پسند ہے، پروف ریڈنگ اور تصحیح شدہ۔ ابھی کوشش کرتا ہوں اپ لوڈ کرنے کی۔ در اصل یہاں انٹر نیٹ کی سپیڈ کم ہے۔ علی گڑھ میں
 
Top