ایک نظر ادھر بھی ۔۔۔۔ اصلاح کی درخواست

ام اویس

محفلین
ترا یوں مانگنا دعوت مری جاں مجھ پہ بھاری ہے
کہ تو ہے پیٹ کا بندہ کبابوں کا شکاری ہے

کہیں پالے اگر خوشبو کسی کھانے وغیرہ کی
بنالوں پیٹ کا ایندھن یہی دھن تجھ پہ طاری ہے

کہیں ہو مرغ سالم یا کہیں تقسیم بوٹی میں
لبوں پر پھر اسے کھانے کی بس تکرار جاری ہے

کڑاہی ہو کہ تکہ ہو پلاؤ ہو کہیں پکتا
نظر سے بچ نہ پائے کچھ نظر کا وار کاری ہے

اڑانا ہے کہاں مرغا کہاں چانپیں میسر ہوں
پریشاں ذہن پر ہر پل یہی اک بوجھ بھاری ہے

سموسہ اور پکوڑا بھی بچانا تجھ سے مشکل ہے
کہ اس کے ساتھ سوڈے دودھ کی بھرتی بھی جاری ہے

تسلسل یوں ہے کھانے کا کہیں جاکر نہ یہ ٹوٹے
رواں سورج کے ڈھلنے سے تا بانگ مرغ جاری ہے

ترا فریاد کرنا یہ کہ روزے سے ہوں میں یارو
بے چینی تو ہے کھابوں کی گو نام اف طاری ہے
 
بہت مزے دار نظم ہے محترمہ ام اویس ۔ داد قبول فرمائیے۔ بس آخری دو اشعار کے لیے ہماری صلاح حاضر ہے

کہ افطاری تری تا بانگِ مرغِ صبح جاری ہے

دُہائی دے رہا ہے بھوک کی روزے میں بھی ایسے
کہ بے چینی ہے کھابوں کی، زباں پہ ضعف طاری ہے
 
دوسرے شعر میں پیٹ کا ایندھن ترکیب ٹھیک معلوم نہیں ہوتی، اور ہوتی بھی ہے تو بہت بعید ہے، یعنی پہلے پیٹ کو جہنم فرض کیا جائے (جہنم بھرنا محاورے کے پیش نظر) پھر کھانے کو اس جہنم کے لیے ایندھن فرض کیا جائے، اس کے بعد بھی مراعات فوت ہو جائے گی کہ ایندھن تو خیر جہنم کو مزید بھڑکانے کا کام دیتا ہے، لیکن کھانا کھانے سے کیا بھوک مزید بڑھتی ہے؟ بلکہ مٹ جاتی ہے۔ تو اس تشبیہ میں اگر جہنم پیٹ ہے، ایندھن کھانا ہے اور آگ بھوک ہے تو وجہ شبہ قائم ہونی چاہیے۔
-
تیسرے شعر میں اولاً تو یہ دیکھیے کہ کسی چیز میں تقسیم کے معنی روز مرے کے حساب سے وہ ہیں جو جمع منہا اور ضرب کے ساتھ مستعمل ہیں۔ یہاں آپ نے جن معنوں میں استعمال کیا ہے وہ معنی اس روز مرے کے ہیں: کسی چیز کی تقسیم، یہاں، بوٹی کی تقسیم، بوٹی میں تقسیم نہیں۔ دوسرے مصرعے میں لفظ پھر بھرتی معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کسی اور فعل کا تذکرہ نہیں، پھر کا جواز دو افعال کے درمیان ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کھانے کا عمل دانتوں سے متعلق ہے لبوں سے نہیں۔ لہٰذا لبوں پر کھانے کی تکرار جاری ہے، یہ جملہ غلط ہے۔ اور پھر تکرار اب محاورے میں لڑنے بھڑنے کے معنوں میں مستعمل ہے، اگر اپنے اسم کے بغیر استعمال ہو تو۔
-
چہارم میں، لفظ پلاؤ کا عطف سے محروم رہ جانا ہے۔ جبکہ صحت اس جملے میں ہے: کڑھائی ہو کہ تکہ ہو کہ پلاؤ، یا یہ جملہ، کڑھائی ہو، تکہ ہو کہ پلاؤ
-
چھٹے میں، جب دوسرا مصرع شروع ہو رہا ہے "کہ" سے اس کا مطلب ہے کہ لفظ "کہ" کیونکہ کا مخفف اور تعلیلیہ ہے۔ یعنی مشکل ہے کی علت بیان ہونا چاہیے تھی اس کے بعد۔
-
ساتویں شعر کے دوسرے مصرعے میں، رواں اور جاری سے ایک ہی بات کی تکرار ہے۔
-
آخری مصرع گو جذبات میں بہہ گیا!
-
الغرض شعر میں زبان کی صحت کو مصلحت پر قربان نہ کرنا فن کاری ہے :) یہ باتیں ذائقے کے لیے ہیں، اصلاح تو استاد جی فرمائیں گے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بطور اصلاح تو میں وہی کہوں گا جو خلیل میاں کہہ چکے ہیں۔ ان کی صلاح قابل قبول ہے۔
عزیزم مہدی سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مزاح کے ساتھ رعایت سے کام لینا ضروری محسوس کرتا ہوں۔ گر کچھ خامی بھی ہوئی تو اسے بھی مزاح کی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے، اس لیے اتنا تکنیکی ہونے کی ضرورت نہیں۔ ویسے تمہارے نکات خوب ہیں!!
ام اویس کی نظم کی داد تو بھول ہی گیا!! لکھتی رہیں۔ سنجیدہ بھی لکھیں تو زیادہ سنجیدگی سے اصلاح کی نظر ڈالی جا سکے
 
آخری تدوین:
عزیزم مہدی سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مزاح کے ساتھ رعایت سے کام لینا ضروری محسوس کرتا ہوں۔ گر کچھ کامی بھی ہوئی تو اسے بھی مزاح کی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے، اس لیے اتنا تکنیکی ہونے کی ضرورت نہیں۔ ویسے تمہارے نکات خوب ہیں!!
حضور :)
 

ام اویس

محفلین
دوسرے شعر میں پیٹ کا ایندھن ترکیب ٹھیک معلوم نہیں ہوتی، اور ہوتی بھی ہے تو بہت بعید ہے، یعنی پہلے پیٹ کو جہنم فرض کیا جائے (جہنم بھرنا محاورے کے پیش نظر) پھر کھانے کو اس جہنم کے لیے ایندھن فرض کیا جائے، اس کے بعد بھی مراعات فوت ہو جائے گی کہ ایندھن تو خیر جہنم کو مزید بھڑکانے کا کام دیتا ہے، لیکن کھانا کھانے سے کیا بھوک مزید بڑھتی ہے؟ بلکہ مٹ جاتی ہے۔ تو اس تشبیہ میں اگر جہنم پیٹ ہے، ایندھن کھانا ہے اور آگ بھوک ہے تو وجہ شبہ قائم ہونی چاہیے۔
-
تیسرے شعر میں اولاً تو یہ دیکھیے کہ کسی چیز میں تقسیم کے معنی روز مرے کے حساب سے وہ ہیں جو جمع منہا اور ضرب کے ساتھ مستعمل ہیں۔ یہاں آپ نے جن معنوں میں استعمال کیا ہے وہ معنی اس روز مرے کے ہیں: کسی چیز کی تقسیم، یہاں، بوٹی کی تقسیم، بوٹی میں تقسیم نہیں۔ دوسرے مصرعے میں لفظ پھر بھرتی معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کسی اور فعل کا تذکرہ نہیں، پھر کا جواز دو افعال کے درمیان ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کھانے کا عمل دانتوں سے متعلق ہے لبوں سے نہیں۔ لہٰذا لبوں پر کھانے کی تکرار جاری ہے، یہ جملہ غلط ہے۔ اور پھر تکرار اب محاورے میں لڑنے بھڑنے کے معنوں میں مستعمل ہے، اگر اپنے اسم کے بغیر استعمال ہو تو۔
-
چہارم میں، لفظ پلاؤ کا عطف سے محروم رہ جانا ہے۔ جبکہ صحت اس جملے میں ہے: کڑھائی ہو کہ تکہ ہو کہ پلاؤ، یا یہ جملہ، کڑھائی ہو، تکہ ہو کہ پلاؤ
-
چھٹے میں، جب دوسرا مصرع شروع ہو رہا ہے "کہ" سے اس کا مطلب ہے کہ لفظ "کہ" کیونکہ کا مخفف اور تعلیلیہ ہے۔ یعنی مشکل ہے کی علت بیان ہونا چاہیے تھی اس کے بعد۔
-
ساتویں شعر کے دوسرے مصرعے میں، رواں اور جاری سے ایک ہی بات کی تکرار ہے۔
-
آخری مصرع گو جذبات میں بہہ گیا!
-
الغرض شعر میں زبان کی صحت کو مصلحت پر قربان نہ کرنا فن کاری ہے :) یہ باتیں ذائقے کے لیے ہیں، اصلاح تو استاد جی فرمائیں گے۔

بہت بہت شکریہ ۔۔۔ اصلاح کے لیے ۔
دوسرے شعرمیں پیٹ کے ایندھن سے میری مراد بعینہ یہی ہے جو آپ نے بیان فرمائی ۔ کیونکہ جن میں حرص بڑھ جاتی ہے ان کے پیٹ کے جہنم کبھی نہیں بھرتے ۔۔۔ اب حرص خواہ مال کی ہو یا کھابوں کی یہ کھانے والے پر منحصر ہے ۔
تیسرے شعر میں ۔۔۔ مرغ مسلم ہو یا مرغ بوٹی میں تقسیم ہو ۔۔۔ اور تکرار سےمراد لڑائی ہی ہے ۔ کھانے پر اصرار لبوں سے کیا جائے گا نا ۔۔۔

چہارم ۔۔۔ طالب علمانہ سوال ہے ۔ کیا حرف عطف کا ہر بار آنا ضروری ہے ؟

چھٹا
سموسہ اور پکوڑا بھی بچانا تجھ سے مشکل ہے
چڑھا کر دودھ سوڈے کو انہیں کی آنی باری ہے

یا
سموسہ اور پکوڑا بھی بچانا تجھ سے مشکل ہے
پی کر دودھ سوڈے کو انہیں کی آنی باری ہے

ساتواں ۔۔۔ آٹھواں ۔۔ بالکل صحیح ۔۔۔ اعتراض قبول ہے
بہت شکریہ
 

ام اویس

محفلین
ترا یوں مانگنا دعوت مری جاں مجھ پہ بھاری ہے
کہ تو ہے پیٹ کا بندہ کبابوں کا شکاری ہے

کہیں پالے اگر خوشبو کسی کھانے وغیرہ کی
بنالوں پیٹ کا ایندھن یہی دھن تجھ پہ طاری ہے

کہیں ہو مرغ سالم یا کہیں تقسیم بوٹی میں
لبوں پر پھر اسے کھانے کی بس تکرار جاری ہے

کڑاہی ہو کہ تکہ یا پلاؤ ہو کہیں پکتا
نظر سے بچ نہ پائے کچھ نظر کا وار کاری ہے

اڑانا ہے کہاں مرغا کہاں چانپیں میسر ہوں
پریشاں ذہن پر ہر پل یہی اک بوجھ بھاری ہے

سموسہ اور پکوڑا بھی بچانا تجھ سے مشکل ہے
چڑھا کر دودھ سوڈے کو انہیں کی آنی باری ہے

تسلسل یوں ہے کھانے کا کہیں جاکر نہ یہ ٹوٹے
کہ افطاری تری تا بانگِ مرغِ صبح جاری ہے

دُہائی دے رہا ہے بھوک کی روزے میں بھی ایسے
کہ بے چینی ہے کھابوں کی زباں پہ ضعف طاری ہے
 

ام اویس

محفلین
بہت مزے دار نظم ہے محترمہ ام اویس ۔ داد قبول فرمائیے۔ بس آخری دو اشعار کے لیے ہماری صلاح حاضر ہے

کہ افطاری تری تا بانگِ مرغِ صبح جاری ہے

دُہائی دے رہا ہے بھوک کی روزے میں بھی ایسے
کہ بے چینی ہے کھابوں کی، زباں پہ ضعف طاری ہے

اصلاح کے لیے بہت شکریہ ۔۔۔ بہت شکریہ
 

ام اویس

محفلین
چرا کر تجھ سے سب نظریں کچھ ایسے بھاگ لیتے ہیں
لڑے وہ آنکھ بیگم سے حسینہ کو جو ماری ہے
 

ام اویس

محفلین
نہاری ہو یا پائے سن کے باچھیں کھل سی جاتی ہیں
مگر جو دال سبزی ہو تو معدے پر گرانی ہے
 

ام اویس

محفلین
ترا یوں مانگنا دعوت مری جاں مجھ پہ بھاری ہے
کہ تو ہے پیٹ کا بندہ کبابوں کا شکاری ہے

کہیں پالے اگر خوشبو کسی کھانے وغیرہ کی
بنالوں پیٹ کا ایندھن یہی دھن تجھ پہ طاری ہے

کہیں ہو مرغ سالم یا کہیں تقسیم بوٹی میں
لبوں پر پھر اسے کھانے کی بس تکرار جاری ہے

کڑاہی ہو کہ تکہ یا پلاؤ ہو کہیں پکتا
نظر سے بچ نہ پائے کچھ نظر کا وار کاری ہے

اڑانا ہے کہاں دنبہ کہاں چانپیں میسر ہوں
پریشاں ذہن پر ہر پل یہی اک بوجھ بھاری ہے

نہاری ہو یا پائے سن کے باچھیں کھل سی جاتی ہیں
مگر جو دال سبزی ہو تو معدے پر گرانی ہے

سموسہ اور پکوڑا بھی بچانا تجھ سے مشکل ہے
چڑھا کر دودھ سوڈے کو انہیں کی آنی باری ہے

تسلسل یوں ہے کھانے کا کہیں جاکر نہ یہ ٹوٹے
کہ افطاری تری تا بانگِ مرغِ صبح جاری ہے

دُہائی دے رہا ہے بھوک کی روزے میں بھی ایسے
کہ بے چینی ہے کھابوں کی زباں پہ ضعف طاری ہے

چرا کر تجھ سے سب نظریں کچھ ایسے بھاگ لیتے ہیں
لڑے جب آنکھ بیگم سے حسینہ کو جو ماری ہے

نظر تیری ندیدی گرچہ سارا سال رہتی ہے
مگر رمضان سے اس کی بڑی ہی خاص یاری ہے
 
Top