ایک غزل چند اشعار کے اضافوں کے ساتھ

ایک نسبتاََ پرانی غزل چند اشعار کے اضافوں کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
وہ اپنی ابروِ خمدار کو عنواں میں رکھتے ہیں
تو ہم اب گردشِ پرکار کو امکاں میں رکھتے ہیں

مرے سوزِ دروں کا حال کیا پوچھو، وہ حالت ہے
تپش ایسی تو شعلےِ آتشِ جولاں میں رکھتے ہیں

مماثل ہو نہ جائیں اک چھلکتے جام کے ، سو ہم
تمھاری یاد کو خُفتَہ، شبِ حجراں میں رکھتے ہیں

نفس یک دو نفس کی زندگانی کا بھروسہ کیا
طلب دنیا کی کیوں بندے دلِ ناداں میں رکھتے ہیں

فراخی کیا بتاتا ہے، عدن کے باغ کی واعظ
ہم ایسی وسعتیں تو تنگئی داماں میں رکھتے ہیں

مجھے دے لذّتِ آشوب وہ لطفِ فُغاں، جس کو
چھپا کر چشمِ آدم سے مَلَک داماں میں رکھتے ہیں

لبِ ساحل سے تھوڑی دور ہے ریگِ رواں پیاسی
اور ایسی تشنگی ہم دل کے ہر ارماں میں رکھتے ہیں

گرہ رشتوں میں ہے کاشف مگر حیرت ہے، ہم پھر بھی
اسے شامل دعاؤں میں ہر اک امکاں میں رکھتے ہیں

سیّد کاشف
14، April 2017
 

عاطف ملک

محفلین
مرے سوزِ دروں کا حال کیا پوچھو، وہ حالت ہے
تپش ایسی تو شعلےِ آتشِ جولاں میں رکھتے ہیں
واہ کیا بات ہے:)
فراخی کیا بتاتا ہے، عدن کے باغ کی واعظ
ہم ایسی وسعتیں تو تنگئی داماں میں رکھتے ہیں
سب سے اچھا لگا یہ شعر:in-love::in-love::in-love:
مجھے دے لذّتِ آشوب وہ لطفِ فُغاں، جس کو
چھپا کر چشمِ آدم سے مَلَک داماں میں رکھتے ہیں
آشوب اور چشم کو ایک ساتھ دیکھ کر ڈاکٹر خوش ہوا ;):p
بہت اچھی غزل کہی ہے۔
داد قبول کیجیے کاشف بھائی!
 
بہت عمدہ کاشف بھائی.
نفس یک دو نفس کی زندگانی کا بھروسہ کیا
طلب دنیا کی کیوں بندے دلِ ناداں میں رکھتے ہیں


فراخی کیا بتاتا ہے، عدن کے باغ کی واعظ
ہم ایسی وسعتیں تو تنگئی داماں میں رکھتے ہیں

لبِ ساحل سے تھوڑی دور ہے ریگِ رواں پیاسی
اور ایسی تشنگی ہم دل کے ہر ارماں میں رکھتے ہیں


گرہ رشتوں میں ہے کاشف مگر حیرت ہے، ہم پھر بھی
اسے شامل دعاؤں میں ہر اک امکاں میں رکھتے ہیں
 
خوب!!! "اور ایسی تشنگی ہم دل کے ہر ارماں میں رکھتے ہیں"
شکریہ طارق بھائی
بہت عمدہ کاشف بھائی.
سلامت رہیں تابش بھائی۔ آپ کی تعریف میرے لئے سند ہے !
ماشاءاللہ۔بہت زبردست غزل ہے۔
جزاک اللہ۔
نوازش۔
 
Top