ایک دن

شمشاد

لائبریرین
زرقا جلدی جلدی قدم اٹھانے لگی تو مجو بولا ------ “ زرقا اتنی جلدی کیا ہے؟ کون جانے یہ دوپہر، یہ تنہائی کے لمحے کبھی پھر ملیں نہ ملیں ------ “

زرقا کی رفتار کسی نے باگ کھینچ کر ڈھیلی کر دی۔

“ میرے خط مل جاتے ہیں ناں ؟“

“ جی ------ “ زرقا نے ہولے سے کہا۔

“ کیا کروں اماں جی کے ڈر سے جو لکھنا چاہتا ہوں وہ لکھ نہیں سکتا“ مجو نے جلدی سے کہا۔

زرقا نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔

“ تیری خاطر مجھے گھر کے تمام افراد کو باری باری خط لکھنا پڑتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے۔ میرے وجود پر بھی اور میرے جذبات پر بھی ------ “

زرقا خاموشی سے چلتی رہی۔ وہ مجو کی ساری باتیں اپنے لوحِ محفوظ پر کندہ کرتی جا رہی تھی۔

“ ذرا وہ ٹاپس مجھے بھی تو دکھاؤ جن کی شیریں اس قدر تعریف کر رہی تھی “ مجو نے کہا۔

“ وہ تو یونہی ------ فضول‌“ زرقا کا گلا رندھ گیا اور وہ جملہ ختم نہ کر سکی۔

“ تم نہ دکھاؤ، ہم نے دیکھ لیئے ہیں۔ کبھی عورت کی زیبائش بھی چھپی ہے ؟“

زرقا یکدم رک گئی۔ عورت کے متعلق کچھ بھی کہنا اس کے حضور میں بے ادبی کے مترادف تھا۔ مجو نے زرقا کا چہرہ اس لمحے میں کچھ اس طرح دیکھا کہ یہ چہرہ ہمیشہ کے لیئے اس کے ذہن میں جاگزیں ہو گیا۔ ہلکی ہلکی لپ سٹک، خشک بال جو ڈھیلے ڈھیلے چوٹی میں سے نکل کر گردن پر پڑے تھے، موٹی موٹی آنکھیں رونے کے بعد پانی کا چھینٹا لگانے سے سوج گئی ہوں۔

اور گردن کے آس پاس پھیلے ہوئے بالوں میں وہ چمکتے سے جگنو ------

ان جگنوں کو زرقا کے کانوں سے چمٹا دیکھ کر مجو کا جی چاہا کہ انہیں اپنی ہتھیلی میں یوں بھینچے کہ وہ اس کے گوشت میں اتر جائیں اور پھر لہو میں زرقا کے جسم کی حدت بن کر گردش کرنے لگیں۔

“ زرقا ------ !“
“ جی ! ------ “
“ زرقا ایک چیز مانگوں، دو گی ؟“

“ کہیئے ؟ “ گھبرا کر زرقا نے اس کی طرف دیکھا اور پھر منہ موڑ کر اماں کی طرف نظر کی۔ ککو اور رانی اماں کو لیئے گھونگھے والے کی دوکان پر کھڑی تھیں اور حبیب میرزا دوکاندار سے کچھ مول تول کر رہے تھے۔

“ زرقا مجھے اپنے کانوں کے ٹاپس دے دو ------ “

“ دونوں ؟ ------“ حیرت سے زرقا نے پوچھا۔

“ چلو ایک ہی سہی ------ “

“ آپ کو کیوں چاہیے ------ ؟“ زرقا نے سوال کیا۔

“ میں تمہاری نشانی رکھوں گا ------ “

زرقا کچھ پشیمان سے ہو کر بولی ------ “ مجو جی ------ یہ تو بڑے مہنگے ہیں۔ اماں پہننے ہی نہیں دیتیں۔ وہ تو میں نے آج زبردستی پہن لیے ہیں “

مجو نے ہنس کر کہا ------ “ تحفہ اور نشانی ہمیشہ مہنگی ہونی چاہئیے زکی۔ اس طرح اس کی وقعت دونی ہو جاتی ہے۔ کچھ تو چیز کی قیمت کے باعث اور کچھ دلی لگاؤ کی خاطر “

“ آپ ------ آپ میرا رومال لے لیجیئے ------ “ اس نے ریشمی رومال ڈرتے ڈرتے اس کی طرف بڑھانے کی کوشش کی۔

مجو نے رومال لیا، ناک کو لگایا، اس میں سے تیز خوشبو آ رہی تھی۔

رومال لوٹاتے ہوئے مجو بولا ------ “ یہ رومال تمارا نہیں ہے۔ اس میں سے کسی بدیشی سینٹ کو خوشبو آتی ہے۔ “ پھر اس نے ذرا رک کر کہا “ ٹاپس دے دیتیں تو میں اس کا ٹائی پِن بنوا کر پہنتا ------ اور تمہیں دعائیں دیتا اور اگر کبھی پیسے کی کمی آ جاتی تو اس کے دس ہزار وصول کر لیتا ------ “

“ ہائے اللہ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ “ زرقا روہانسی ہو کر بولی۔

مجو نے اونچا سا قہقہہ لگایا اور زور سے لیلی کو آواز دی ------ “ لیلی لیلی ٹھرو بھئی میں بھی آ رہا ہوں ------ زکی بیگم تمہاری مجبوری ہے ورنہ جو چیز مجھے اچھی لگتی ہے وہ میں یوں اُڑا لیا کرتا ہوں“ اس نے چٹکی بجا کر زرقا کو دکھائی اور پھر ساحل کنارے مٹھائی کا لفافہ رکھ کر پتلون کے پایئنچے اونچے کرنے لگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سمندر سویا ہوا تھا۔ لہریں اس طرح آ کر ساحل کو چھوتیں جیسے کوئی بچہ ٹب میں ہاتھ ڈال کر لہریں پیدا کر رہا ہو۔ دھوپ کڑی تھی اور اگر ہوا نہ چلتی تو ساحل کنارے کافی گرمی ہوتی۔ ابرق ‌جیسی چمکتی ریت دور دور تک جگمگا رہی تھی۔ جب پانی کی لہر سمندر جانب بڑھتی تو یہ چاندی ملی ریت بھی بل کھاتی آتی اور پھر ساحل پر آ کر کسی تھکے ہوئے بچے کی طرح سو جاتی۔

لیلی اور شیریں پہلے سے شلواریں اڑسے ٹخنے ٹخنے پانی میں کھڑی تھیں۔ مجو کو اپنی طرف آتے دیکھ کر شیریں بولی ------ “ لڑائی ہو گئی “

“ چپ کر شیطان مجو بھائی آ رہے ہیں “ لیلی نے کہنی کا ٹھوکا دے کر کہا۔

مجو نے ان دونوں کے نزدیک پہنچ کر ایک بار پلٹ کر دیکھا۔ زرقا ساحل کنارے بالکل تنہا کھڑی تھی۔ اس کا سیاہ چوڑیوں بھرا ایک بازو برقعے سے باہر تھا۔ سمندری ہوا میں دھاری دار قمیص اور برقعے کا نقاب اڑ رہا تھا۔ مجو کو لگا کہ وہ کہیں پردیس چلا ہے اور زرقا اسے الوداع کہنے آئی ہے۔ لیکن الوداع کے لیئے اٹھنے والا بازو اٹھ نہیں سکا اور بے جان ہو کر گر گیا ہے۔

“ آئیے مجو بھائی چلیں ------ “

مجو لیلی کی جانب آ کر کھڑا ہو گیا۔

“ میں تو آگے نہیں جاؤں گی، یہیں ٹھیک ہے۔ ------ “ لیلی بولی۔

“ یہ بہت ڈرتی ہے مجو بھائی قسم سے ------ “ شیریں نے کہا۔

“ ڈر کاہے کا ؟“ ------ مجو نے پوچھا ------ “ جو لہر سمندر میں لے جاتی ہے وہ واپس بھی لاتی ہے۔ سمندر دھرتی کی امانت ہمیشہ واپس کر دیتا ہے لیلی ------ “

ہائے اللہ یہ زرقا آپا کیوں باہر کھڑی ہیں ؟“ شیریں نے کہا۔

پھر اپنی زبان میں اس نے لیلی سے بات کی ------ “ میں انہیں لیکر آتی ہوں تم چلو ------ “

مجو نے لیلی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ قدم قدم پر اس کا رنگ پھیکا پڑ جاتا اور وہ مجو سے کہتی ------ “ بس مجو بھائی اس بار میں لہر کے ساتھ ہی واپس جاؤں گی ------ “

“ تُو تو بالکل چوہیا ہے لیلی۔ میں نے تیرا ہاتھ جو پکڑ رکھا ہے “

“ قسم سے مجو بھائی اب تو پانی گھٹنے گھٹنے آ گیا ہے بھئی اب بس ----- “

“ ذرا سا اور چل پگلی ------ یہ ڈرنے کا احساس بڑا صحت مند ہوتا ہے۔ بس ذرا سا اور ------ “
 

شمشاد

لائبریرین
جب لیلی اور مجو پانی کی لہروں میں ہٹکورے کھاتے واپس آئے تو شیریں اور زرقا ٹخنے ٹخنے پانی میں کھڑی تھیں۔ لیلی کا چہرہ خوف سے گھبرایا ہوا تھا اور اس کی شلوار گھٹنے گھٹنے تک ریت اور پانی میں لت پت تھی۔ ساحل کے کنارے ککو اور رانی جوتیاں اتار رہی تھیں اور اماں جی ایک کرسی پر بیٹھی سستا رہی تھیں۔ حبیب میرزا کا کچھ پتہ نہ تھا۔ وہ شاید چائے کا انتظام کرنے چلا گیا تھا۔

“ توبہ زرقا آپا ------ اتنا زور کا پانی آتا ہے توبہ ------ “ لیلی چلائی۔

شیریں پانی میں اُچھل کر بولی ------ “ مجو بھائی دیکھیئے مچھلی ------ مچھلی وہ گئی ------ “

مجو نے مڑ کر دیکھا تو ایک لہر کے ساتھ ساتھ چند ایک گھونگھے اور ایک چاندی جیسی انگلی بھر مچھلی بہتی چلی آ رہی تھی۔ مجو اس مچھلی کے پیچھے پیچھے ساحل کی طرف چل دیا۔ مچھلی نیم مردہ ہو رہی تھی۔ جب لہر اسے ساحل کی وراثت بنا کر چھوڑ چلی تو اس نے اسے اٹھا کر ہتھیلی پر رکھ لیا۔ اور وہ اسے مٹھی میں دبائے زرقا کی طرف چلنے لگا۔ مچھلی اس کی بند ہتھیلی میں گدگدیاں سی کر رہی تھی۔ لڑکیوں کے قریب پہنچ کر اس نے مچھلی کو زرقا پر اچھال دیا اور وہ پانی میں گرتے گرتے بچی۔

“ ہائے مجو ------ “ وہ گلابی ہو کر بولی۔

“ خوب مجو بھائی خوب “ شیریں نے تالی بجا کر کہا۔

“ آؤ شیریں پانی میں چلیں ------ “ زرقا نے آہستہ سے کہا۔

“ لیلی نے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ------ “ مجھے تو کوئی ایک لاکھ روپے دے تو بھی مجو بھائی کے ساتھ نہ جاؤں۔ توبہ یہ منجدھار میں ہاتھ چھوڑنے والے ہیں۔ “

زرقا نے چور نگاہوں سے مجو کی طرف دیکھا۔

“ سچ آپا ------ وہاں لے جا کر مجھے کہنے لگے جاؤ لیلی میں آ جاؤں گا تھوڑی دیر بعد ------ توبہ میرا کلیجہ اچھل کر حلق میں آ گیا آپا ------ سچ !“

حبیب میرزا کہیں سے سوڈے کی بوتلیں کھلوا کر لے آئے تھے اور ہاتھ کے اشارے سے انہیں بلا رہے تھے۔ ککو اور رانی نے اپنی اپنی بوتلیں سنبھالیں اور بھاگتی ہوئی پانی میں آ گئیں۔

رانی نے بڑی معصومیت سے پوچھا ------ “ آپا ہمیں بھی دکھاؤ مچھلی ------ کیسی مچھلی تھی مجو بھائی “ مجو نے ہنس کر زکی کی طرف اشارہ کیا اور قدرے توقف سے بولا ------ “ تمہاری آپا نے دوپٹہ میں چھپا رکھی ہے یہ بڑی مچھلی ہے۔“

شیریں نے ککو کو کندھے سے پکڑ کر کہا۔ “ اسی لیئے موتیوں والی فراک پہن کر آئی ہے کہ ریت میں اس کا ناس مارے؟“

ککو نے نظریں سوڈے کی بوتل پر جما کر بڑی سماجت سے کہا ---- “ آپا سچ میں گہرے پانی میں نہیں جاؤں گی۔ بھیگ گئی تو میرا ذمہ۔“

“ ارے تم کہاں چلیں بڑی بی ----- “ شیریں نے لیلی کو ساحل کی طرف جاتے دیکھ کر پوچھا۔

“ جناب مجھے تو معاف کیجئے میں تو آرام سے سوڈا پیوں گی۔ حبیب بھائی بلا رہے ہیں کب سے“

بڑی شوخی سے مجو نے سوال کیا ------ “ اور ہمارے ساتھ نہیں چلو گی پانیوں میں ------ “

“ آپ زکی آپا کا حوصلہ بندھائیں، بھئی ان کا چوہے ایسا دل ہے بلی کو دیکھ کر رونے لگتی ہیں۔ ہم تو اب گیلی ریت کا گھروندا بنائیں گے۔“

لیلی ہاتھوں سے پائنچے اٹھائے اماں جی کی طرف چلی گئی۔ زرقا اور شیریں ہاتھ پکڑے کھڑی تھیں۔ مجو ککو اور رانی کے ساتھ مل کر مچھلیاں ڈھونڈنے میں مشغول ہو گیا۔ ہر بار جب لہر ساحل تک آتی اور چھوٹے چھوٹے گھونگھے سپیاں اور ننھی منی چاندی جیسی مچھلیاں اپنی جلو میں لاتی تو تینوں اس کے پیچھے بھاگتے۔ کہ مشغلہ کتنی ہی دیر جاری رہا۔ زرقا اور شیریں پانی میں کھڑے کھڑے سوڈا پی چکیں تو شیریں نے ساحل کی طرف آواز دی “ حبیب بھائی آپ نمک ہیں کیا؟“

حبیب نے ہنس کر پوچھا ------ “ میں سمجھا نہیں تمہاری بات شیریں۔؟“

“ پانی میں اگر آپ کے گھل جانے کا امکان نہ ہوتا تو آپ بھی آتے ------ “

حبیب نے بڑی حریص نظروں سے زرقا کے ننگے ٹخنوں کو دیکھا اور پھر پتہ نہیں کیا مصلحت جان کر چلایا ------ “ بھئی تم ہو آؤ، میں اماں جی کے پاس بیٹھا ہوں۔“

اماں جی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر شفقت بھرے لہجے میں بولیں، “ تم بھی کھیل کود آؤ۔“

“ آپ چلتیں تو میں بھی چلتا ------ “

“ بھئی میں تو پیروں کی وجہ سے معذور ہوں۔ ادھر پانی میں اُتری، ادھر ان میں درد اٹھا “

حبیب نے پایاب پانی میں کھڑی زرقا کو کنکھیوں سے دیکھا اور لمبی سانس بھر کر بولا ------ “ مجھے بھی کوئی ایسا شوق نہیں ! “

ککو اور رانی تو ساحل کنارے تھوڑے پانیوں میں کھیلتی رہیں لیکن شیریں، زرقا اور مجو گہرے پانیوں کی طرف چلے۔ شیریں درمیان تھی۔ ایک جانب مجو نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور دوسری جانب زکی نے۔ جب یہ گہرے پانیوں کی طرف چلے تو مجو نے ایک بار زرقا کا ہاتھ پکڑنے کی ہلکی سی کوشش کی تھی۔ لیکن زرقا کو یوں لگا جیسے اماں جی سوڈے کی بوتل کے اوپر سے سیدھی اس کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ وہ جلدی سے ہٹ کر شیریں کی طرف ہو گئی۔

جب وہ تینوں واپس لوٹے تو رانی اور ککو نے پھر چلا کر مچھلیوں کی آمد کا مژدہ سنایا۔ زرقا ہولے سے بڑبڑائی ------ “ ہائے چھوڑیئے بھی مچھلیاں ------ مچھلیاں کوئی تُک بھی ہے ------“

وہ تینوں پایاب پانی میں کھڑے تھے۔ ابرق جیسی چمکتی ریت ساحل کی طرف بڑھنے والی ریت میں بل کھات پارے کی طرح جگمگاتی بڑھتی جا رہی تھی۔ یکدم کسی بہت ہی چمک دار چیز نے عین زرقا کے پیروں تلے شکل دکھائی اور پھر بل کھاتی ساحل کی طرف چلی۔

“ کیسی چمکدار مچھلی ہے ------ میں تو اسے ضرور پکڑوں گا۔“

مجو نے اس چمک دار مچھلی کت تعاقب میں بڑھتے ہوئے کہا۔

لیکن شیریں نے پتنگ کی ڈور سمجھ کر جیسے اس کا ہاتھ کھنچا اور بولی ------ “ واقعی آپ تو بچہ ہیں مجو بھائی، مچھلی پکڑنے سے کیا ہوتا ہے ؟ ------ “

“ ہوتا ہے کچھ ------ جب مچھلی ہتھیلی میں گدگدی کرتی ہے تو عجب اضطراب سا ہوتا ہے ------ “
مجو بولا۔

“ بس اس بار تو میری اور آپا کی خاطر نہ پکڑیئے ------ “

“ بہت اچھا سرکار ہم تو حکم کے غلام ہیں !“

چمکدار مچھلی ساحل تک گئی، وہاں چند لمحے رُکی، پھر پلٹنے والی لہر میں بل کھاتی لہراتی خدا جانے کہاں غائب ہو گئی۔

زرقا نے ساحل کی طرف جاتے ہوئے سر پر دوپٹہ کر لیا اور آہستہ سے بولی ------ “ توبہ ہوا بھی یہاں کتنی ہے، دوپٹہ سر پر تو ٹکتا ہی نہیں۔ ذرا اپنے بالوں کی پِن دینا شیریں میں ذرا دوپٹہ ٹکا لوں ------ “

زرقا سر پر پِن کے ساتھ دوپٹہ اٹکاتی واپس ساحل کی طرف جا رہی تھی اور اس کا بائیں کان کا ننھا سا ٹاپس ابرق جیسی ریت میں بل کھاتا لہراتا آزادی کے گیت گاتا سمندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔

دور دور تک سمندر محو رقص تھا۔ اُسے معلوم نہ تھا کہ اس اکیلے ٹاپس کی قیمت دس ہزار ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سمندر کے ناچ کو نہ طبلے کی تھاپ کی ضرورت تھی نہ سازوں کی ہم آہنگی کی۔ اس کے اپنے سینے کو چیرتا، دھڑکتا، لہکتا ایک ایسا نغمہ موجزن تھا جس کے زیروبم پر کسی مشتاق رقاصہ کی طرح وہ ہولے ہولے قدم بڑھاتا ننھی ننھی ٹھوکریں مارتا تھیا تھیا کرتا وہ ساحل کی طرف بڑھتا۔ پھر بڑے نامعلوم انداز میں اس کی چال تبدیل ہو جاتی۔ ننھی ننھی ٹھوکریں بھرپور ادائیگی سے بوجھل ہو جاتیں اور وہ ہاتھ بڑھا بڑھا کر بڑی گھن گرج کے ساتھ ترشول کھینچ کر شو شمبھو شو شمبھو کرتا مٹیالی اور سنہری ریت کو اپنی جلو میں لپیٹتا ساحل تک پہنچتا۔ اُس کے پلو میں گھونگھے، سیپیاں، ننھی ننھی مچھلیاں بندھی ہوتیں۔ پھر ان تحفوں سمیت وہ ساحل کی دیوی کے سامنے آرتی اتارنے کے لیئے آ کھڑا ہوتا تو اس کا طمطراق، ساری اکڑ اور اشانتی بِنتی میں بدل جاتی۔ وہ ہاتھ جھکا کر گھٹنوں کے بل ساحل کی دیوی کے سامنے سرنگوں ہو جاتا۔ پلے سے بندھے ہوئے گھونگھے، سیپیاں اور ننھی ننھی چمکدار مچھلیاں ریت پر بکھر جاتیں اور وہ سر نیہوڑاے تر آنکھیں لیئ چھوٹے چھوٹے قدم دھرتا یوں لوٹ جاتا جیسے اس نے ساحل کی دیوی کے قدم چوم کر اس کا اپمان کیا ہو۔ ------ یہ رقص ورز ازل سے جاری تھا۔ روز ازل سے ساحل کی دیوی ویسے ہی بیٹھی تھی۔ وہ نہ تو بے نیاز ہو کر لوٹ رہی تھی اور نہ ہی اس نے بازو پھیلا کر کبھی سمندر کو گلے لگایا تھا۔

سمندر کے پھیلائے ہوئے گھونگھے سیپیاں اور ننھی ننھی چمکدار مچھلیاں ساحل کی دیوی کے قدموں میں دھری تھیں ------ لیکن ایک تحفہ سمندر بھی ساحل کی دیوی سے چرا کر لے گیا تھا۔ اُس کی لہروں میں ابرق جیسی ریت میں چمکتا بل کھاتا لہراتا آزادی کے گیت گاتا ایک ٹاپس ان گہرائیوں کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں کی اتھاہ کو خود سمندر نہ جانتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
لیلی نے گیلی ریت میں سے اپنے دونوں پاؤں نکالے۔ دو کھلے دروازوں والا سیلہ گھروندہ بھدی ناک کی طرح ٹکر ٹکر جھانکھنے لگا۔ کچھ ہی دور بے روغن کی میز کرسی پر اس کی بہنیں بیٹھی تھیں، چائے کا دور چل رہا تھا۔ مٹھائی کے وہ لفافے جو حبیب میرزا صبح لایا تھا اب خالی ہو کر ریت پر پڑے تھے۔ مجو بھائی نے جیب میں سے تاش نکال لیا تھا اور وہ اسے پھینٹ پھینٹ کر چابکدستی سے پتہ غائب کر رہے تھے۔ کبھی وہ رانی سے پتہ نکلواتے، کبھی اماں جی سے، کبھی حبیب میرزا سے ------ شیریں ککو اور لیلی ہر بار بے ایمانی وے دو دو پتے نکالتی تھیں۔ اس لیئے اب وہ ان طرف نہ بڑھتے تھے۔ ہاں جب کبھی وہ زرقا کی طرف جاتے تو جیسے تاش کی بجائے ان کے ہاتھوں میں ان کا دل ہوتا اور وہ زکی کے سامنے اسے پیش کر کہتے “ زکی کوئی پتہ نکال لو ------ ساری تاش تمہاری ہے ! “

زکی بڑی آہستگی سے بغیر مجو کے ہاتھ کو چھوئے ایک پتہ نکالتی اور میز پر رکھ دیتی ------ پھر لمحہ بھر کو کھیل رک جاتا۔ مجو تاش پھنٹتا، پتے الٹ پلٹ کر دیکھتا۔ اور جب وہ زکی کا پتہ بتانے کے لیئے اس کے کان میں سرگوشی کرتا تو وہ پتے کی بات ہی نہ ہوتی۔ ----

ہر بار جب مجو زکی کے کان میں پتہ بتانے کے لیئے جھکتا تو لیلی اپنے گھروندے کی طرف دیکھتی اور پھر اسے لات مار کر توڑ دیتی ------

ابھی کل تک وہ بالکل بچی تھی۔ اس نے دو چوٹیاں کر لی تھیں، لمبے کرتے اور کھلے پائینچون کی شلوار پہن لی تھی۔ فسٹ ایئر میں پڑھتی تھی، لیکن اس کی ذہنی عمر ککو اور رانی جتنی ہی تھی۔ آج وہ سمندر کے گہرے پانیوں سے اپنے وجود کا احساس اور عجب قسم کی تنہائی کا روگ سمیٹ کر واپس آ گئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ہفتے کی شام اور اتوار کی شام میں کل چوبیس گھنٹے کا فرق ہے لیکن ابھی چوبیس گھنٹے پہلے میں کتنی خوش تھی۔ مجھے اپنے کپڑوں سے عشق تھا، مجھے اپنی پروفیسروں سے محبت تھی ---- مجھے زندگی کی ہر گھڑی ہر لمحہ عزیز تھا۔ اور آج کُل چوبیس گھنٹے بعد زندگی نے جیسے چولا بدل کر خاکستری روپ دھار لیا تھا ۔ اس میں نہ کوئی خوشی نہ کوئی غم تھا۔ ایک سوگوار خالی خولی کیفیت تھی اور بس۔

اس روگ کی وجہ کچھ مجو بھائی نہ تھے ------ یا شاید وہ یہی سمجھتی تھی۔ یہ روگ تو اس آگاہی سے پیدا ہوا تھا کہ اب زندگی پہلے سی نہیں رہی۔ اب راتوں کو خواہ مخواہ نیند کھل جائے گی اور اُسے احساس ہو گا کہ اس کا دل سمندر کی مانند ہے۔ اس میں چاروں طرف سر مارنے والی لہریں ہیں لیکن کسی میں بھی اتنی سکت نہیں کہ وہ آسمان پر چمکنے والے چودھویں کے چاند کو چھو سکے۔ اسے آج پہلی بار زکی آپا پر رشک آ رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کی اگر انسان کسی کے مضبوط اور گرم ہاتھ میں ہاتھ ڈالے سمندر میں اتُر بھی جائے تو بھلا خوف کیسا ؟ اس طرح اترتے اترتے لوگ سیپیوں میں بند ہو کر سمندر کی تہہ میں جا اترتے ہوں گے اور پھر ؟

پتہ نہیں مجو بھائی کے ہاتھ کا گرم لمس اس کی آگاہی کا باعث ہوا یا کسی نہ کسی دن انسان کو جاگنا ہو ہوتا ہے۔

ایک بار پھر زکی کے کان میں جھک کر مجو نے اس کا پتہ بتایا۔

اور ایک بار پھر لیلی نے سیلی مٹی کے گھروندے پر لات مار دی۔
 

شمشاد

لائبریرین
دور سے کوئی بیسویں مرتبہ شیریں نے چلا کر کہا ------ “ اب آ جاؤ لیلی یہاں بڑا مزہ ہو رہا ہے ------ “ اور اس کے اندر خوشی کے خلاف احتجاج کرنے والی ضد نے پکارا ------ “ تم مزے کرو ------ میں بہت خوش ہوں ------ “

پھر حبیب میرزا اٹھ کر لیلی کے پاس آ گئے۔ وہ اس گھر کے ملاح تھے۔ جب کسی کشتی کو الگ تھلگ دیکھ پاتے تو جھٹ وارد ہو جاتے۔ اب بھی آ کر انہوں نے پوچھا ----- “ کیوں لیلی چلتی کیوں نہیں؟“

“ مجھے ریت کے گھروندے بڑے اچھے لگتے ہیں حبیب بھائی“

حبیب ہنس کر بولے ------ “ خیر اگلی اتوار پھر سہی، وہاں پکچر کا پروگرام بن رہا ہے، سب تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں ------ “

لیلی نے اٹھ کر کپڑے جھاڑے اور سیلی مٹی میں اپنے پیروں کے نشانات پر نظر جمائی ---- جگانے والا ہاتھ چاہے کسی کا ہو، ہوتا گرم ہے۔

اس کے جی نے آہستہ سے کہا یہاں سے آج ریت کے گھروندے بنانے کا کھیل ختم ہوا ------ گھروندا ایسی چیز نہیں جسے انسان اکیلا بنا سکے۔ اور جو گھروندے اکیلے بنتے ہیں وہ ہمیشہ کمزور ہوتے ہیں !
 

شمشاد

لائبریرین
زرقا کے کمرے میں سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی پوری کھلی تھی اور گلناری پردے ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اندر بلب روشن تھا اور کھڑکی میں سے روشنی کا تختہ اتر کر اندھیری رات میں سوئی ہوئی سڑک پر اجالا کر رہا تھا۔ لیلی کا پلنگ کھڑکی کی ایک جانب اور زرقا کا پلنگ دوسری جانب تھا۔ اماں جی کے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے ساتھ عین الماری کے ساتھ شیریں کی چھوٹی سی چارپائی بچھی تھی۔ ڈرائینگ روم میں کھلنے والے دروازے کے پاس تینوں بہنوں کے ٹرنک اوپر تلے رکھے تھے اور ان پر سفید غلاف بڑے قرینے سے بچھے تھے۔

سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے سامنے وہ چھوٹی میز بھی پڑی تھی جس پر لیلی اور شیریں اپنی کتابیں رکھتی تھیں۔ اور جس پر کہنی ٹکا کر زرقا اس وقت سڑک کو دیکھا کرتی تھی جب مجو کے آنے کا وقت ہوتا۔ لیلی اپنے پلنگ پر بیٹھی سلیپروں میں سے ریت جھاڑتی ہوئی بولی ------ “ مجھے تو ایسی فلمیں اچھی لگتی ہیں بس ۔ “

زرقا اپنے پلنگ پر ان کی طرف پشت کیئے بیٹھی تھی اور اور رات کی قمیص پہن رہی تھی۔ گلے میں سر ڈالتے ہی اس نے چمک کر لیلی کی طرف دیکھا اور ڈانٹتے ہوئے کہا ------ “ ایسی فلمیں اچھی لگتی ہیں عریاں، فحش !“ شیریں نے ان کی باتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہ لی اور شیشے میں منہ دیکھ دیکھ کر کریم ملتی رہی۔

“ آپا ------ بھلا آپ عریانی کسے کہتی ہیں ؟ “ لیلی نے پوچھا۔

“ تو کیا عریانی صرف جسم کی ہوتی ہے؟ جذبات کی عریانی بھی اتنی ہی شرمناک ہوتی ہے لیلی۔ “

لیلی نے اپنی چوٹیاں کھولتے ہوئے کہا ------ “ آپا؟ زکی آپا۔ میں پوچھتی ہوں آخر کیا بات تھی ان جذبات میں ؟“

“ کم از کم یہ امریکن فلمیں بہت فحش ہوتی ہیں۔“

“ آپا ------ تو آپ کو وہ فلمیں اچھی لگتی ہیں جن میں تین تین منٹ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گانے گائے جاتے ہیں۔ پہروں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگا جاتا ہے۔ اور پھر بھی ہیرو ہیروئن ایک دوسرے کے قریب آ کر یون بریک لگاتے ہیں گویا ایک دوسرے کو چھونے کی خاطر انہوں نے تعاقب کیا ہی نہ تھا، جیسے چھونا گناہ ہو ؟“

“ گناہ نہیں تو اور کیا ثواب ہے ؟“ زرقا لیلی کی دیدہ دلیری پر حیران ہو کر بولی۔

“ ہائے بند کرو یہ بحث توبہ ------ سینما گھر سے آپ دونوں چھڑی ہوئی ہیں۔“ انگلیوں سے رخساروں کی مالش کرتے ہوئے شیریں نے کہا۔

لیلی نے اس کی پرواہ نہ کی۔ آج ہی تو اس نے زندگی کا اتنا بڑا راز پایا تھا۔ آج ہی تو پہلی بار اس پر آگہی کا دروازہ کھلا تھا۔ اس نے بڑے رعب سے کہا۔ “ آپا، آپا میں تمہیں کیسے سمجھاؤں؟ مجھے سمجھانا نہیں آتا۔ لیکن جو کچھ میں سمجھتی ہوں آپا وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ یہ ہے کہ کئی لمس ایسے ہوتے ہیں جو بڑے پاک ہوتے ہیں، بیحد اور کبوتر کی طرح گرم ہوتے ہیں۔“

“ اور اس فلم میں جو چوما چاٹی تھی وہ بھی طیب تھی کیا۔“ زرقا نے سرہانے پر سر رکھتے ہوئے پوچھا۔

“ خدارا بتی بجھاؤ، یہ کیا بک بک جھک جھک ہے۔“ شیریں لیٹتے ہوئے بولی۔

لیکن لیلی پلنگ پر بیٹھی رہی۔ اسے آپا کی ذہنیت پر ترس آ رہا تھا۔

“ آپا یہ ان کا کلچر ہے۔“

“ کلچر کی آڑ لے کر ان کی محبت روحانیت سے خالی ہو چکی ہے۔ “ زرقا نے جوش میں آ کر کہا۔

“ محبت کبھی روحانیت سے تہی نہیں ہوتی آپا چاہے کچھ بھی ہو ------“

زرقا کہنی ٹکا کر بیٹھ گئی اور بولی ------ “ لیلی تم ابھی فسٹ ایئر میں ہو، تمہیں ان باتوں کی سوجھ بوجھ نہیں۔ میں جانتی ہوں کہ روحانیت صرف مشرق کے ورثے میں آئی ہے۔ صرف مشرق کی محبت پاک ہے۔“

“ آپا تم تیاگ کی باتیں کر رہی ہو۔ مشرق کی محبت تیاگ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں “ آج خدا جانے لیلی کو یہ باتیں کیسے سوجھ رہی تھیں۔ ابھی کل تک وہ تیاگ جیسے لفظ کا استعمال تک نہ جانتی تھی۔

“ یعنی تم تیاگ کا تمسخر اڑا رہی ہو اپنے بھانویں۔“ زرقا بھی لیلی کو باتوں پر حیران ہو رہی تھی۔

لیلی جھلا کر بولی ------ “ تیاگ کا تمسخر کون اڑا رہا ہے آپا؟ لیکن آپ محبت کی مادی برکتوں سے کیوں منکر ہیں؟“

زرقا لیلی کی بحث سے تنگ آ چکی تھی۔ اس نے آنکھیں موند لیں اور سوچا۔ لیلی بھلا اس محبت کو کیسے سمجھ سکتی ہے جو ہمیشہ سلگتی ہے، سلگتی ہے اور سلگتی ہی چلی جاتی ہے۔ ایسی محبت جس کا دوسرا نام انتظار ہے۔ ایسی محبت جو ایک طرف سہمی ہوئی اس لیئے کھڑی رہتی ہے کہ کہیں ملوث ہاتھ اس کی روحانیت کو تباہ نہ کر دے ------ وہ محبت جو وصل سے اس لیئے ڈرتی ہے کہ اس کی تپسیا کا رنگ بھنگ نہ ہو جائے ------ بھلا جب لیلی یہ باتیں ہی نہیں سمجھتی، جب لیلی نے پانچ سال اس آگ میں سلگ کر ہی نہیں دیکھا تو وہ میرا نقطہ نظر کیا خاک سمجھے گی۔

لیلی نے بند آنکھوں والی اپنی بڑی بہن کی جانب دیکھا۔ وہ کتنی خوبصورت لگ رہی تھی۔ گلناری پردوں کی سُرخی مائل حدت اس کی جلد پر آتشیں غبار پھیلا رہی تھی۔ آنکھوں کے پپوٹے رخساروں کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ گردن کی سفید صراحی میں ایک رگ پھڑک رہی تھی۔ کسی بلوریں مینا میں شہد کی دھار اتر رہی تھی۔ لیلی کا جی چاہا کہ اپنی بہن کے اس شہد آگیں گلے پر اپنے لب رکھ دے اور پھر اتنا روئے اتنا روئے کہ اس کی ساری تنہائی ساری اداسی ان آنسوؤں میں بہہ جائے۔ وہ اپنے پلنگ پر سے آہستہ سے اٹھی۔

شیریں نے چڑ کر ان کی طرف سے پشت کر لی اور چلا کر کہا ------ “ ہائے توبہ بند کر دو بتی۔ خدا قسم تم لوگوں کو تو کسی اور کا دھیان ہی نہیں۔“

لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کی بڑی بہنوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا تو اس نے آنکھیں بند کر لیں ------ اور پھر تھوڑی دیر بعد سو گئی۔ لیلی آہستہ سے اٹھ کر زرقا کے پلنگ پر جا بیٹھی تو گھبرا کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔

“ بس اب سو جاؤ لیلی میں بہت تھک گئی ہوں۔“

لیلی زرقا کے دائیں بائیں ہاتھ رکھ کر اس پر جھک گئی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ------ “ آپا ایک بات کہوں؟“

“ کہو ! ------ “ گھبرا کر زرقا نے نگاہیں جھکا لیں۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔

“ آپا کبھی کبھی تو تم مجھے اتنی پیاری لگتی ہو کہ میرا جی چاہتا ہے تمہیں چوم لوں۔ ---- “

زرقا معصومیت سے ہنس پڑی۔

“ آپا ------ بُرا تو نہ مانو گی ؟“

“ کہو ناں ؟“

“ آپا ------ تم مجھے اتنی پیاری لگتی ہو تو کیا مجو بھائی کا جی نہ چاہتا ہو گا کہ ۔۔۔۔۔۔ “

زرقا اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ دوستی کا لمحہ دونوں کے قریب آیا اور پھر لوٹ گیا۔

“ تم نے ایسی بات کیا سوچ کر کہی لیلی ------ “

“ آپا ------ مجو بھائی انسان ہیں آپ انہیں دیوتا کیوں سمجھتی ہیں؟“

زرقا اپنا تکیہ اور چادر اٹھاتے ہوئے بولی۔ “ میں ایک لمحہ اور اس کمرے میں نہ گزاروں گی۔ تم نے مجو کو کیا سمجھا ہے ؟“

“ اگر مجو دیوتا نہ ہوتا تو کیا میں اس سے محبت کرتی ؟ ------ آج مجو کو جانتے مجھے پانچ سال ہو گئے ہیں لیکن اس نے کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی جو میرے لیئے کسی قسم کی پریشانی کا باعث بنتی۔ اگر ۔۔۔۔۔۔ اگر ۔۔۔۔۔۔ “

لیلی اپنے پلنگ پر واپس چلی گئی اور اپنے آپ سے بولی ------ “ آپا تم میری بات نہ سمجھنے پر تلی ہو۔“

زرقا نے تکیہ اور چادر اٹھا کر دروازے کا رخ کیا اور دروازے کے قریب رک کر بولی ------ “ بہنوں کو آپس میں چاہے کتنی بھی محبت کیوں نہ ہو، کتنی بھی بے تکلفی کیوں نہ ہو، پھر بھی لیلی ایک قسم کا حجاب لازمی ہے۔“

“ کہاں چلی ہو آپا؟“

“ سٹور میں سوؤں گی میں آج سے“ زرقا بولی۔

“ یہیں سو جاؤ آپا میں اب نہ بولوں گی۔ مجھے معاف کر دو۔“

لیکن جب زرقا چلی گئی اور لیلی نے کمرے کی بتی بجھا دی تو بستر کا رُخ کرنے کی بجائے وہ کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی اور سڑک پر اترنے والے روشنی کے اس تختے کو دیکھنے لگی جس میں دو چوٹیوں والی ایک لڑکی کا سایہ پڑ رہا تھا۔

------ اس سائے نے لمبا سا سانس لے کر کہا ------ “ ابھی کل میں کتنی خوش تھی ! ------ ابھی کل تک مجھے معلوم نہ تھا کہ کسی کا گرم ہاتھ جب پانیوں میں لے جاتا ہے تو پانی سے خوف نہیں آتا۔ لیکن کئی اور خوف جاگ اٹھتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
رات بہت جا چکی تھی۔ سارا گھر خاموشی میں لپٹا ہوا تھا۔

مجو جب بھی اپنی خالہ کے ہاں آتا تو ڈرائنگ روم کے دیوان پر بستر بچھا کر سوتا تھا۔ لیکن آج اسے نیند نہ آ رہی تھی۔ ڈبہ بھر سگرٹیں پینے کے بعد گلے میں جلن ہونے لگی تھی اور سینے میں سے دھونکنی کی سی آواز آتی تھی۔ اس گھر کے در و دیوار سے زرقا کی بو باس آ رہی تھی۔ اور اس بو باس میں عجب حلاوت تھی، ایسی حلاوت جو دھونسے ہوئے گلے کے لیئے امرت رس کا کام دیتی تھی۔

شام کا فلم اس پر عجب تاثر چھوڑ گیا تھا۔ From Here to Eternity کا وہ سین جہاں برٹ لنکاسٹر سمندر کنارے ڈبراکر سے والہانہ اظہارِ محبت کرتا ہے اس کے لیئے عجب کش مکش کا باعث بنا ہوا تھا۔ شام کو وہ بھی تو پانیوں میں اترا تھا، لیکن اب اس کا بند بند درد کر رہا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اس جہنم کی آگ سے تو موت بہتر ہے۔ کم از کم ایک بار فیصلہ تو ہو ہی جاتا ہے ------

جب کبھی وہ کوئی رسالہ یا کتاب الماری میں سے نکال کر پڑھنے لگتا تو اس کے سامنے سمندر کی طوفانی لہریں اور پھر محبت کی وارفتگی میں لپٹے ہوئے دو شخص آ جاتے۔ وہ سوچنے لگتا کہ بفرضِ محال زرقا اور میں اس طرح سمندر کنارے تنہا رہ بھی جائیں تو کیا زرقا اس والہانہ، جنونی عشق کی متحمل ہو سکتی ہے جو بعض اوتات میرے دل میں راتوں رات موجزن رہتا ہے؟ اور کیا زرقا او وارفتگی کی حامل بھی ہو سکتی ہے جو محض اُس عورت کو نصیب ہوتی ہے جس نے زندگی میں سب کچھ کھو دیا ہو، جس کی کوکھ بانجھ ہو چکی ہو، زندگی ایک لق و دق صحرا ہو اور وہ آخری بار ہمک کر، بلبلا کر چاند کو حاصل کرنے کی کوشش کرئے۔

مجو کا حلق کچھ اس طرح سے خشک ہو چکا تھا کہ بار بار تھوک نگلنے کے بعد اب تھوک بھی حلق سے نیچے نہ گزرتا تھا۔ اس نے سرہانے پڑا ہوا چھوٹا سا بیڈ لیمپ جلایا۔ دیوان نے نیچے دھرے ہوئے سلیپر ڈھونڈے ، ان میں پیر ٹھونسے اور پھر غسلخانے میں جانے کے لیئے تیار ہو گیا۔

منہ ہاتھ دھو کر جب اس نے بار بار کلی کی اور پانی پیا تو اُسے لگا ساتھ والے سٹور میں کسی نے دروازہ کھولا، روشنی کا دروازے برابر تختہ صحن میں سرچ لائیٹ کی طرح پڑا، پھر پٹ بند ہو گئے، لیکن دونوں در آدھ کھلے ہونٹوں کی طرح روشنی کی فٹ بھر لکیر صحن پر ڈالتے رہ گئے اور مجو نے محسوس کیا اس دروازے کے پیچھے سے کسی نے جھانک کر دیکھا اور پھر دروازہ اچھی طرح بند کیئے بغیر ہی لوٹ گیا۔

پانی پینے کے بعد مجو لمحہ بھر کو سٹور کے ادھ کھلے دروازہ کے سامنے رُکا، اندر بڑی کم روشنی کا بلب روشن تھا۔ دیوار کے ساتھ ساتھ لنٹل کی سل پر چھوٹے بڑے ہر سائیز کے ٹرنک پڑے ہوئے تھے۔ اور ان ٹرنکوں پر جھالردار سفید غلاف بڑے قرینے سے یوں پڑے تھے گویا مقبروں پر چادریں چڑھی ہوں۔ کمرے میں سے پرچون کی دوکان کی خوشبو کے بھبھاکے اُٹھ رہے تھے۔ ان خوشبووں کے درمیان آم اور لیموں کے اچار کے بڑے مرتبانوں کے ساتھ زرقا چارپائی بچھائے اوندھی لیٹی تھی۔ اس کی چوٹی رخسار کو چھوتی ہوئی تکیئے کے نیچے فرش کو چھو رہی تھی۔ رخساروں پر پلکوں کے لمبے لمبے سائے تھے اور وہ دونوں ہتھیلیوں پر ٹھوڑی جمائے گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔

جس وقت مجو نے دروازہ ہولے سے بند کیا، اس کی نیت یہی تھی کہ وہ اس سوئی ہوئی بچی کی لٹکتی چوٹی کو آنکھوں سے ہٹا کر واپس چلا جائے گا۔ دروازہ اس نے محض اس ڈر سے بند کر لیا تھا مبادا کوئی اس کی طرح غسلخانے کا رخ کرئے اور سٹور کی بتی جلتی دیکھ کر اندر آ جائے۔

لیکن جونہی اس نے دروازے کی کنڈی لگائی، زکی چوکنی ہو کر اٹھ بیٹھی اور دوپٹہ تلاش کرنے لگی۔

“ آپ نے دروازہ کیوں بند کر دیا“

زرقا کے چہرے پر ہلدی کا غبار چھا گیا۔

“ مجھے تم سے کچھ کہنا لے زکی۔“

“ کہیئے “

اس نے اکتا کر کہا۔

“ میں یہاں بیٹھ جاؤں تمہاری چارپائی پر؟“

زرقا خاموش رہی اور مجو اس کی چارپائی پر یوں بیٹھا جیسے کوئی پیر و مرشد کے پاس دو زانو ہو کر بیٹھتا ہے۔

“ کہیئے ؟“

زرقا چادر میں اپنے گھٹنے اور بازو چھپاتی ہوئی بولی۔

“ کچھ دیر تو مجھے خاموشی سے اس نعمت کا شکریہ ادا کر لینے دو کہ بالآخر میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ------ “

“ میں دروازہ کھول دیتی ہوں، اندر گرمی ہو گئی ہے۔ “ زرقا نے اٹھتے ہوئے کہا۔

اور جب زرقا دروازہ کھولنے کے لیئے اٹھ رہی تھی، تو مجو کو اس بے اعتباری پر کچھ اس طرح غصہ آیا کہ اُس لمحے اس کے جی میں انسان کی ازلی درندگی نے سر اٹھایا۔ اور اس کا جی چاہا کہ پانچ سال کی ساری تپسیا کو اس درندگی اور وحشت کے سپرد کر دے۔ زرقا کو اس پر اتنا ہی اعتماد تھا؟ کیا مڈل کلاس کی لڑکی مرد کو ہمیشہ درندہ ہی سمجھتی رہے گی؟
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن پھر دوسرے لمحے اس کی نظر زرقا کے گلے پر پڑی عین بائیں جانب کان کی لو سے کچھ نیچے زرقا کی ایک رگ بری طرح پھڑک رہی تھی۔ شہد کی دھار کسی بلوریں مینا میں اتر رہی تھی۔

مجو نے آہستہ سے زرقا کو اپنے بازؤوں میں لے لیا اور شہد کی اس دھار پر اپنے کڑوے اور خشک ہونٹ رکھ دیئے۔

زرقا کے لیئے جیسے سٹور کا بلب فیوز ہو گیا۔ سارے فلیٹ کی بتیاں غائب ہو گئیں۔ چاند پنہاہیوں میں غوطہ لگا گیا۔ ساری کائنات اندھیرے میں ڈوب گئی۔ اور وہ بپھری ہوئی زخم خوردہ شیرنی کی طرح مجو سے علیحدہ ہو گئی اور گردن ہلاتے ہوئے بولی ------ “ آپ کو دیوتا سمجھ کر میں نے آپ کی پرستش شروع کر دی تھی ------ “

منوڑے والے پیر کے حضور مانگی ہوئی دعا پوری ہو چکی تھی۔

خلوب کا لمحہ آ کر بیت چکا تھا۔

مجو کی نظروں میں عجب قسم کی سرد مہری تھی۔ اس نے طنز بھرے لہجے میں کہا ------ “ پھر تو تم نے پانچ سال دھوکا کھایا زرقا میں تو انسان ہوں ------ گوشت پوست کا بنا ہوا انسان نہایت ادنی ------ نہایت“

زرقا سسکیاں بھرتے ہونے بولی ------ “ لیلی بھی یہی کہتی ہے ------ “

مجو نے کہا ------ “ پھر تو لیلی تم سے سیانی ہے۔“

زرقا بپھری ہوئی دروازے تک پہنچی، نہایت احتیاط سے اس نے چٹخنی اس طرح اتار لی کی ہلکا سا شور بھی نہ ہوا، پھر وہ کُھلا پٹ دکھاتے ہوئے بولی ------ “ مجو ! میں اُمید کرتی ہوں کہ صبح تم یہاں نہ ہو گے۔“

“ زرقا ! “ اس بات کی مجو کو ہرگز توقع نہ تھی۔

“ زرقا ! “

“ تم نے میرا آئیڈیل توڑ دیا ہے۔ تم نے میری پرستش کو گناہ آلود ہاتھوں سے ملوث کر دیا ہے ---- تم نے ۔۔۔۔۔ تم نے ۔۔۔۔۔ “

زرقا کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہنے لگے۔
مجو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ------ “ اگر تم میرے قرب سے اتنی پریشان نہ ہوتیں زرقا تو اس وقت میں تمہارے آنسو اپنی پلکوں سے پونچھتا۔“

زرقا پیچھے ہٹی جیسے آگ کا شعلہ اُسے چھو گیا تھا۔

“ میں کہہ رہی ہوں مجو یہ گھر چھوڑ کر چلے جاؤ، صبح کی روشنی تمہیں یہاں نہ دیکھے۔“

“ اس وقت بھلا میں کہاں جاؤں زکی؟“

“ میں نہیں جانتی، انور کے پاس چلے جاؤ، کہیں بھی چلے جاؤ ------ بس چلے جاؤ۔“

مجو نے دروازے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ------ “ پانچ سال کی محبت کا یہی صلہ ہوتا ہے کیا ؟“

زرقا نے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا لیا اور بلک کر بولی ------ “ تم نے بھی پانچ سال کی تپسیا کا اچھا صلہ دیا ------ مجو! اگر تمہاری ہوس میں ذرا بھی محبت کا شائبہ ہے، تو خدا کے لیئے چلے جاؤ۔“
“ اور اگر میں چلا گیا تو کیا تم سمجھ لو گی کہ مجھے تم سے محبت تھی ----- یعنی اس ہوس کے واقعہ سے پہلے ؟“

“ ہاں ! ------ “

مجو نے جھک کر اس کی مانگ کو ایک بار الوداعی بوسہ دینا چاہا لیکن پھر ہاتھوں میں منہ دیئے روتی ہوئی زرقا کو چھوڑ کر وہ اماں جی کے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ اور وہ جانتا تھا کہ عین رانی کی تپائی پر رات ہی کو لیلی نے اسپرو کا ایک پیکٹ رکھا تھا۔ اماں جی نے آنکھیں کھولیں پھر کروٹ بدل کر سو گئیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
جس وقت لالو کویت والوں کے فلیٹ کی سیڑھیوں میں پہنچا، رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ اگر لالو شام کو ان کے پڑوسیوں کو ہاکس بے کی طرف جاتے نہ دیکھ لیتا تو شائد وہ اس وقت یہاں آنے کا تردد بھی نہ کرتا۔

وہ اس فلیٹ کے کونے کھدروں سے واقف تھا۔ آہستہ آہستہ وہ کویت والوں کے پڑوسیوں کے فلیٹ کے سامنے جا پہنچا۔ یہاں سامنے والے شہ نشین کے ساتھ ساتھ لٹک کر وہ پڑوسیوں کے فلیٹ میں اس جگہ پہنچا جہاں ان کی دیوار اوپر کو اٹھتی تھی۔ دیوار بالشت بھر اس کے قد سے اونچی تھی۔ وہ شہ نشین کے ساتھ لٹک کر یہاں اس لیئے پہنچا تھا کہ سامنے والی بلڈنگ کی تیز روشنی ان فلیٹوں پر پڑتی تھی۔ شہ نشین کے چھجے پر گلہری کی طرح پاؤں جما کر ایک بار اس نے نیچے کی طرف نظر کی۔ سڑک کتنی دور کیسی سنگین نظر آتی تھی۔ اس نے نظریں بند کر لیں۔ پھتو کی بتائی ہوئی ساری ترکیبوں کو ذہن میں پھرایا، چیتے کی طرح جست بھری اور دیوار پر دونوں ہاتھ ٹکا لیئے۔

ہاتھوں کا اٹکنا تھا کہ دیوار لالو کے وجود تلے آ گئی۔ پڑوسیوں کے گھر میں مکمل اندھیرا تھا۔ لالو گربہ پائی کے ساتھ دیوار سے اترا، دھپ کی سی آواز آئی۔ تنور میں کسی نے فِیدے کے ساتھ روٹی لگائی اور بس !

لالو نے باورچی خانے کے سامنے پڑی ہوئی گھڑونچی پر سے گھڑا انڈیل کر پانی پیا۔ اس سے پہلے وہ کبھی ایسے کام پر نہ نکلا تھا اور پھتو کی ساری تربیت کے باوجود اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں مرچیں سی لگ رہی تھیں اور بار بار اُسے وہم سا ہو جاتا کہ اسے ہچکی لگ جائے گی۔

اس ہچکی کی آواز سن کر ساری بلڈنگ جاگ اٹھے گی اور وہ پکڑا جائے گا۔

اسے اچھی طرح علم تھا کہ کویت والوں کے فلیٹ میں اور اس فلیٹ کے درمیان جو لکڑی کی دیوار ہے وہ بوسیدہ ہے، اسے آسانی سے کھولا جا سکتا ہے اور پھر اسے یوں بند بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی کو شبہ تک نہ گزرے کہ چور ادھر سے آیا تھا ------ ان تمام باتوں کے باوجود وہ دیوار کے ساتھ اکڑوں ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کی نظروں میں رکھی کا چہرہ بار بار ابھر رہا تھا۔ مٹی، دھول اور چیکٹ سے بکھرے ہوئے بالوں میں ایک معصوم سا چہرہ !

جب بٹوارہ ہوا تھا تو وہ آٹھ مہینے کی تھی۔ لالو اسے اپنی گود میں اٹھا کر اپنے دیس لایا تھا۔ جہاں کہیں خطرہ زیادہ ہوتا وہ اُسے کھیس کی بُکل میں چھپا لیتا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ بے رحم لوگ لڑکیاں بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اور پھر یہ لڑکیاں کبھی بھائیوں سے نہیں ملتیں، یہ لڑکیاں پھر کبھی بھائیوں کے سہرے نہیں گاتیں۔ ------ اور دوسرے مذہب کے آدمی ان کا ایمان تک چھین لیتے ہیں اور وہ پھر کبھی گھر لوٹ کر نہیں آتیں۔ ان کے بھائی بارڈر پار بلاتے ہیں لیکن وہ نہیں آ سکتیں۔

اس وقت وہ نہ تو ایمان کے معنی جانتا تھا نہ ہی اسے اچھی طرح علم تھا کی عصمت کیا چیز ہوتی ہے؟ ایمان کسے کہتے ہیں؟ اسے تو اتنا بھی پتہ نہ تھا کہ آخر لڑکیوں کو جب بھائی بلاتے ہیں تو وہ آتی کیوں نہیں؟ لیکن لاعلمی کے باوجود وہ سوچتا تھا کی اگر اللہ رکھی ہمارے پاس نہ رہی تو میں دودھ جلیبیاں کسے کھلاؤں گا؟ سکول سے واپسی پر کھٹی میٹھی گولیاں کس کے لیئے لاؤں گا۔ ماں جو بھی خرچ دیتی تھی وہ اسے کبھی خرچ نہ کرتا تھا۔ کبھی تو اللہ رکھی کے غبارہ لے آتا، کبھی گولیاں اور کبھی رنگین توتا ساتھ ہوتا جو ربڑ کی پتلی سی تار سے بندھا ہوتا اور چھوٹے چھوٹے جھٹکوں پر ڈبکیاں لگاتا تھا۔ توتے کو دیکھ کر رکھی بہت خوش ہوتی، اچھل اچھل کر اسے چھونے کی کوشش کرتی، تالیاں پیٹتی، لیکن لالو توتا اس کے ہاتھ میں نہ دیتا۔ جونہی وہ رکھی کے ہاتھ میں آ جاتا وہ غوں غوں کر کے اسے اپنے گنتی کے دانتوں سے پھاڑنے لگتی۔ کچا رنگ دھل دھل کر اس کی فراک کو گندہ کرنے لگتا اور ماں جھڑک کر کہتی ---- “ لال دین ! تجھے کچھ ہوش نہیں لڑکے سارے کپڑے خراب ہو جائیں گے رکھو رانی کے! ------ “

------ وہ ہنس کر کہتا ------ “ لیکن ماں دیکھ تو سہی خوش کتنا ہوتی ہے توتے کو دیکھ کر !“

ماں کے جھڑکنے کے باوجود وہ قریباً روز ہی اکنی کا توتا لایا کرتا تھا۔ پھر ایک دن اچانک ماں نے کہہ دیا ------ “ مجھے پتہ ہے تو اس کی جان لے کر رہے گا ------ ہزار بار کہہ چکی ہوں توتا نہ لایا کر، لیکن تجھے تو ضد ہے میری ہر بات سے ------ “

“ ماں دیکھ تو کیسی خوش ہو رہی ہے ------ “

“ ہاں خوش ہو رہی ہے اور مر جائے گی تو تُو خوش ہو لینا، پتہ نہیں اس میں زہر ہوتا ہے زہر ------ “

“ کس میں زہر ہوتا ہے ماں اس توتے میں؟“ لالو نے گھبرا کر پوچھا۔

“ کچے رنگ میں اور کس میں ؟“

لالو کے باپ نے حقہ کی نَے علیحدہ کر کے کہا ------ “ لال کی ماں ! دیکھ تو بچہ کیسا سہم گیا ہے۔ زہر وہر کوئی نہیں ہوتا بیٹے، بس کپڑے خراب ہوتے ہیں۔ “

تب لالو کا باپ زندہ تھا اور اگر وہ آج زندہ ہوتا تو شاید آج بھی کوئی اس کی پیٹھ پر تھپکی دے کر کہتا لالو ! زندگی زہر سے عبارت نہیں ------ یہاں انسان اپنی عزت خراب کرنے سے ڈرتا ہے ------ لیکن لالو کو تو تب بھی اپنے باپ کی بات پر اعتبار نہ آیا تھا تو اب کیا آتا۔ اُس دن کے بعد وہ پھر کبھی رکھی کے لیئے توتا نہ لا سکا۔ اور اس وقت وہ ڈر رہا تھا کہ جو کچھ آج میں رکھی کے لیئے لے کر جاؤں گا اگر اسکا رنگ بھی کچا ہوا تو ؟
 

شمشاد

لائبریرین
بٹوارے کے ہاتھوں بچائی ہوئی اللہ رکھی جس کے پھولے پھولے گالوں میں کبھی وہ چٹکی بھر لیتا تھا تو لہو کی بوندیں رخسار پر جم کر رہ جاتیں تھیں۔ اس چٹی گوری اللہ رکھی کی رنگت اب دار چینی جیسی ہو گئی تھی۔ چچا کے گھر برتن مانجھتے مانجھتے اس کے ہاتھوں میں گہری لکیریں کیچووں کی طرح پھیل گئی تھیں۔ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھتی تھی اور خدا جانے کب سوتی تھی؟ لالو نے ایک عرصہ سے اُسے مسکراتے بھی نہ دیکھا تھا ------ اور ماں کو یہ فکر تھی کہ وہ اسے چچا کے ہی لڑکے سے بیاہے گی۔ چچا کا بیٹا بشیرا اومنی بس میں ڈرائیور تھا۔ جب گھر آتا تویوں گرج کر رکھی کو بلاتا جیسے وہ ان کی لونڈی ہو جیسے انہوں نے رکھی کو روٹیوں کے عوض خرید لیا ہو۔ لالو کو تو یہی خیال تھا کہ چچا کے گھر پہنچ کر وہ بھی سکول جایا کرے گا اور واپسی پر رکھی کے لیئے میٹھی گولیاں لایا کرئے گا لیکن ------ صبح سے شام تک چچا کے گھر میں نوکروں کی طرح کام کرنے کے بعد اُسے رکھی کے لیئے دو پیسے بھی نہ ملتے تو وہ گھر سے بھاگ نکلنے کے خواب دیکھا کرتا۔

جس روز وہ ماں کی آخری انگوٹھی بیچ کر کراچی کے لیئے تیار ہوئے تو لالو کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ رکھی پیچھے رہ جائے گی۔ اس نے ماں کی منتیں کیں، لاکھ بار سمجھایا لیکن مان کی وہی ضد رہی کہ پردیس میں سیانی لڑکی کو لے جانا ٹھیک نہیں۔ آخر اپنے گھر میں ہے۔ جب ہم کچھ مال لے کر آئیں گے تو اسی گھر میں اسے دلہن بنا کر بشیر کے سپرد کر دیں گے پھر اب کرایہ خرچ کر کے کیوں ساتھ لے جائیں، ان ہی پیسوں سے اس کا کچھ بن جائے گا۔

اب بھی لالو کی نظروں میں رکھی کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ اس نے جابجا سے پھٹا ہوا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ کانوں کے اردگرد گردن پر مٹیالے چکٹ جمے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی۔

لالو نے اس پر جھک کر پوچھا تھا “ بتا کراچی سے تیرے لیئے کیا لاؤں رکھی؟“ تو آنکھوں میں سہمے ہوئے آنسو گالوں پر بہہ نکلے۔ وہ لالو کے بازو سے یوں چمٹ گئی جیسے اس بازو سے علیحدہ نہ ہونے کی قسم کھا چکی تھی ! ------

لالو نے رکھی کے رخسار کو ہتھیلی سے تھپتھپا کر کہا تھا “ رکھی میں تیرے ہی لیئے تو کراچی چلا ہوں۔ وہاں سنا ہے لوگ نوکروں کو بہت بہت تنخواہیں دیتے ہیں۔ اتنا پیسہ لے کر آؤں گا تیرے لیئے اتنا پیسہ -------- “

“ مجھے پیسہ نہیں چاہیئے لالو“ وہ سسکیاں بھرتی ہوئی بولی۔

“ ارے پگلی پیسہ نہ ہو تو چاچا تجھے کب چھوڑے گا؟ میں اس لالچی کے منہ پر پیسے پھینک کر تجھے ساتھ لے جاؤں گا۔۔۔۔۔ رکھی ۔۔۔۔۔۔ رکھی ۔۔۔۔۔۔ رکھی ۔۔۔۔۔۔ “

لیکن رکھی اس کے ساتھ چمٹی ہوئی روتی رہی۔ اس کا دنیا میں کوئی سہارا باقی نہ رہا تھا۔

“ دیکھ میں تجھے کار والے صاحب سے بیاہوں گا۔ بیوقوف ایسے صاحب سے جس کا بشیر ڈرائیور ہو گا رکھی“ رکھی نے ڈبڈبائی ہوئی نظریں اوپر اٹھائیں، مسکرانے کی کوشش کی لیکن دو موٹے موٹے آنسو اس کے گالوں پر آ گرے۔

لالو کی نظروں میں اب بھی رکھی کی شکل گھوم رہی تھی ------ اور اسے اپنی بہن کے ساتھ کیا ہوا وعدہ لکڑی کی دیوار کھولنے کی دعوت دے رہا تھا۔ بھلا وہ دیوار پار نہ جاتا تو اور کرتا بھی کیا؟ اس نے جی سے پوچھا۔ کویت والے بہت اچھے تھے۔ تنخواہ بھی دیتے تھے۔ لیکن تنخواہ میں سے دس روپے رکھی کو بھیجنے کے بعد آخر اس کے پاس بچتا ہی کیا تھا۔ وہ تو اگر پھتو کا سہارا نہ ملتا تو کراچی جیسی جگہ میں دو دن کاٹنے بھی محال ہو جاتے۔ پھتو اسے کیا ملا جیسے رکھی سے کئے ہوئے وعدے کے ایفا کا سہارا مل گیا۔ وہ ہولے ہولے رینگ رینگ کر اس دیوار کے سائے میں آ بیٹھا۔

سٹور کی بتی جلے جا رہی تھی۔

بس اس بتی کے بجھنے کی دیر تھی اور پھر راہ بالکل صاف تھی۔ اماں جی کی چارپائی تلے اور رانی بی بی کی الماری کے ساتھ جو ٹرنک تھا اس میں زرقا بی بی کا سارا جہیز پڑا ہوا تھا۔ کویت سے آیا ہوا ریشم، پشمینہ کمخواب اور زری کے سوٹ، شنیل کی قمیصیں، غرارے اور زیور ------ زیور کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا۔ خان صاحب ہر بار کویت سے سونا لاتے تو بیسیوں چوڑیاں، نکلس اور بالیاں وغیرہ بنتیں۔ زیادہ زیور تو بنک میں محفوظ تھا لیکن لالو کو خوب علم تھا کہ پانچ سات ہزار کا زیور ابھی تک چمڑے کے سوٹ کیس میں موجود ہے۔

سٹور کی بتی جل رہی تھی ------ پھر دروازہ بند ہو گیا۔

لالو نے لکڑی کے تختوں پر تھوڑا سا دباؤ ڈالا۔ تختے لکڑی کے ڈنڈے سے علیحدہ ہو گئے اور سر نکالنے کا راستہ پیدا ہو گیا۔ لالو نے اس میں سے سر نکالا اور زنبور سے ڈھیلے ڈھالے کیل نکالنے لگا۔ پھر ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا ۔ گہری نیلی دھاریوں والا نائیٹ سوٹ پہنے مجو میاں باہر نکلے۔ اُن کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھوں کے نیچے گڑھے تھے اور ان کی چال سے لگتا تھا جیسے انہوں نے کوئی نشہ کر رکھا تھا۔ چال لڑکھڑائی ہوئی تھی اور وہ بالوں میں ہاتھ پھیر رہے تھے۔ لالو نے انہیں دیکھتے ہی سر اندر کر لیا۔ اگر اس وقت مجو بھائی کو خیال ہوتا تو انہیں باورچی خانے کی دیوار میں سے ایک تختہ غائب نظر آتا لیکن وہ سیدھے غسلخانے میں گھس گئے۔

سٹور کا دروازہ کھلا، ورشنی کا تختہ صحن میں پڑا، زرقا بی بی سیاہ دھاریوں والی قمیص میں نمودار ہوئی۔ انہوں نے باورچی خانے کی جانب نظر کی اور پھر ادھ کُھلا پٹ چھوڑ کر اندر لیٹ گئیں۔ لالو سہم کر اور پیچھے ہو گیا۔ پھر مجو بھائی منہ دھو کر باہر نکلے اور سٹور کے ادھ کھلے دروازے کو بند کر کے ڈرائینگ روم میں چلے گئے۔

لالو نے کُھلے تختے میں سے اندر چہرہ نکالا۔ زنبور سے دو تختے اور ادھیڑے اور سیدھا اماں جی کے کمرے میں چلا گیا۔ اسے خوب علم تھا کہ اماں جی کے پلنگ تلے بوقت ضرورت چھپنے کی کتنی خگہ ہے۔

اور پھر اس کے پاس پھتو والا رومال بھی تو تھا۔ اس نے ایک بار پھر شلوار کے نیفے میں اڑسے ہوئے رومال کو ٹٹولا ------ آہستہ سے اسے نکالا اور پھر اماں جی پر جھک گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
لیلی سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی میں گم سم کھڑی تھی۔

اس نے کوئی ہزارویں مرتبہ جی میں سوچا کہ کسی طرح زرقا آپا کو منا کر لے ہی آؤں لیکن آج نجانے کیا بات تھی کہ کسی کو منانا آسان نہ تھا۔ ابھی کل اگر زرقا آپا یوں ناراض ہو جاتیں تو وہ کسی نہ کسی طرح انہیں منا ہی لاتی۔ لیکن چوبیس گھنٹوں نے اس کی انا جگا دی تھی اور چڑھے چاند کی روشنی میں بپھرنے والی سمندری موجوں کی طرح اس کا جی بے قابو ہو رہا تھا۔ لاسٹ سیٹر ڈے ------ سنڈے ۔۔۔۔۔۔ لاسٹ سیٹر ڈے ------ سنڈے ۔۔۔۔۔۔

شیریں کب کی سو چکی تھی۔ سمندر سے آنے والی ہوائیں پردے جھلا رہی تھیں اور لیلی کے کان کائنات کی دھڑکتی خاموشی کو غور سے سُن رہے تھے۔

ابھی کل شام تک وہ بالکل بچہ تھی۔ اسے کالج کی کتابیں، سہلیاں، وہاں کے مشاغل دل و جان سے عزیز تھے اور آج جیسے کالج لکڑیوں کا چھلا ہوا پھونس تھا جو فضول سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔

آج اسے یہ مہینے کا آخری ہفتہ پچھلے جنم کا کوئی دن لگ رہا تھا۔

صرف چوبیس گھنٹے میں زندگی کی تمام قدریں بدل چکی تھیں۔

آج اسے ایک عجیب سا واقعہ یاد آ رہا تھا۔ ان دنوں ابا جی کویت سے آئے ہوئے تھے۔ وہ سب صحن میں بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ پھر فلموں کی باتیں ہونے لگیں۔ تو ابا جی بولے ------ “ ارے بابا تم لوگوں نے کیا فلمیں دیکھنا ہیں، فلمیں تو نیو تھیٹرز سے بن کر آیا کرتی تھیں۔ فلمیں تو بردا اور سہگل سے بنتی تھیں۔“

“ ابا جی وہی سہگل جس کی غزلیں ریڈیو پر لگتی ہیں؟ ککو نے پوچھا تھا۔

ابا جی عربوں کا لمبا سا چغہ پہنے ہوئے تھے۔ کویت سے واپسی پر ایسے کئی توب ان کے ساتھ ہوتے ---- جنہیں کئی بار ان کی غیر موجودگی میں لیلی اور شیریں پہن کر ڈرامے کیا کرتی تھیں۔ کویت سے صرف روپیہ، ریشمی کپٹر اور سونا ہی نہیں آتا تھا، وہاں سے عرب تہذیب کے کچھ ایسے جزو بھی ان کے فلیٹ میں آ گئے تھے جن کے بغیر اب اس گھر کا ماحول مکمل نہ تھا۔ چوغے کو ٹانگوں پر ٹھیک کرتے ہوئے ابا جی نے کہا ------ “ تم سہگل کو بطور گلوکار جانتی ہو۔ اور ہم اسے ایک عظیم ایکٹر کی حثییت سے جانتے ہیں۔ اگر تم نے اس کا فلم دیوداس دیکھا ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔ “

لیلی ان دنوں فلمی رسالے بہت پڑھتی تھی فوراً بول اٹھی ------ “ اباجی اسی نام کا ایک فلم آج کل ہندوستان میں بن رہا ہے ----- اور اس میں دلیپ کمار ہے ابا جی دلیب کمار !“

“ ارے بابا اب کیا دیوداس بنے گا ------! وہ فلم ایک بار بن گیا تھا غلطی سے کہیں “

پھر اسی رات جب کھانا کھانے کے بعد اباجی اپنے بستر پر لیٹ گئے تہ لیلی نے ان سے دیوداس کی کہانی سُنی ------ کہانی سننے کے بعد اس پر ذرا سا بھی اثر نہ ہوا تھا۔ اور سہ کتنی ہی دیر بیٹھی سوچتی رہی تھی کہ آخر من کا میت جب نہیں آتا تو ایسی چنتا کیوں لگ جاتی ہے۔ انسان زندگی سے اتنا بے پرواہ کیوں ہو جاتا ہے کی اسے ٹھیک طور سے سیڑھیاں بھی نظر نہیں آتیں اور وہ لڑھکتا ہوا یوں گرتا ہے کہ پھر اٹھنے کی سکت باقی نہیں رہتی۔

لیکن آج رہ رہ کر اس کی نظروں کے سامنے دیوداس کی اس محبوبہ کا نقشہ آ رہا تھا جو تھال میں پھل پھول لیئے پوجا کو جاتی ہو گی ------ جس کے من کا میت جب نہ آیا تو اس نے واویلا مچایا نہ شور کیا بلکہ سونی راہوں پر آخری نظر ڈال کر سسرال رخصت ہو گئی۔ زندگی کے بھرپور تقاضوں کو پورا کرتی رہی۔ اپنے شوہر کے جوان سال بیٹے کی ماں بنی اور کچھ نہ بولی ------

لیکن ایک دن جب من کا میت نشے میں مست بیل گاڑی موڑ کر اس کے دوار آیا۔ وہ اپنے دیوداس کو ملنے چلی لیکن محبت نے اس کی آنکھیں دھندلا دیں اور وہ سیڑھیوں سے یوں لڑھکی کہ اس کا جسم تو من کے میت کا استقبال نہ کر سکا لیکن اس کی روح چتا کی آگ میں پہنچ کر جلائی گئی اور وہاں پہنچ گئی جہاں محبت پر خاموشی کا پہرہ نہ تھا۔ جہاں من کے میت کے بچھڑنے کا خوف نہیں تھا ------ جہاں انتظار کی گھڑیاں نہیں تھیں۔

لیلی نے نگاہیں اندھیرے میں لپٹی ہوئی سڑک پر ڈالیں۔ ابھی یہاں سے اس کے من کا میت آ ہی تو جائے گا۔ کچھ ہی دور بندر روڈ کی کچھ بتیاں اب بھی جگمگا رہی تھیں۔ وہاں سے دبا دبا شور یہاں تک پہنچ رہا تھا۔ لیکن لیلی کا اس گہما گہمی سے کچھ تعلق نہ تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آج سے پہلے مجھے اس تنہائی کا احساس کیوں نہ تھا؟ آج سے پہلے میں نے کسی من کے میت کی چاہ کیوں نہ کی تھی۔ آج سے پہلے مجھے زرقا آپا کی خوش بختی پر رشک کیوں نہ آیا تھا؟ ایک دن ------ محض چوبیس گھنٹوں نے اسے اس کے کھوکھلے وجود، بے معنی اندازِ زیست اور غلط نظریوں کا احساس دلا دیا تھا۔

لیلی کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ شام سے وہ ایک اضطراب بھری کیفیت میں جیئے جا رہی تھی۔ شام کو سینما گھر میں اس نے دو گولیاں اسپرو کی نگلی تھیں لیکن کچھ بھی افاقہ نہ ہوا تھا۔ پھر اس نے ذہن پر زور ڈال کر سوچا کی آخر میں نے وہ باقی کی گولیاں کہاں رکھی تھیں؟ اور جب اسے یاد آ گیا تو وہ پردہ اٹھا کر اماں جی کے کمرے میں گئی تھی۔

مجو بھائی گردن جھکائے کمرے سے باہر نکل رہے تھے۔

لیلی دبے پاؤں واپس لوٹ آئی اور پھر کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔

تھوڑی دیر بعد ڈرائینگ روم میں کھلبلی مچ گئی۔ چیزوں کے گرنے پڑنے کی آواز آئی۔ کتابیں پٹاخ پٹاخ گریں اور پھر سوٹ کیس بند کرنے کی ہلکی سے آواز آئی۔ لیلی کا دل زور زور سے بجنے لگا۔

یہ ساتھ والے کمرے میں کیا ہو رہا ہے اس نے سوچا۔

اگر یہ آج کا دن نہ ہوتا تو شاید وہ دندناتی ہوئی مجو بھائی کے کمرے میں چلی جاتی۔ لیکن اب وہ بڑی لڑکی ہو گئی تھی۔ اب یوں دلیرانہ کسی کے کمرے میں جانا اس کے لیئے ممکن نہ رہا تھا۔

معاً اس کی نظر نیچے سڑک پر جانے والے پر پڑی۔

جانے والے نے کمر پر ایک اٹیچی کیس اٹھا رکھا تھا، بغل میں ایک گٹھڑی تھی اور اس نے شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ اس کا قد مجو بھائی جتنا تھا اور چال بالکل ویسی تھی۔ وہ اسی بلڈنگ میں سے نکل کر کہیں جا رہا تھا۔ لیلی کا دل دھک سے رہ گیا۔

اس نے آہستہ سے ڈرائینگ روم کا دروازہ کھولا ------
مجو بھائی جا چکے تھے اور سارے میں ویرانی اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اُس کے اپنے ایک ہاتھ میں گرم ہاتھ کا لمس سنسنانے لگا۔

لیلی اپنے کمرے میں واپس آ گئی اور چپ چاپ بستر پر لیٹ گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صبح جب زرقا کی آنکھ کھلی تو گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔

اور کوئی زور زور سے اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ رات کو دیر تک روتے رہنے کے باعث اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور سر میں شدید درد تھا۔ اُس کا بند بند دکھ رہا تھا اور حلق میں عجیب قسم کی کڑواہٹ تھی۔

اس نے اپنی لٹکی ہوئی چوٹی کو ہاتھ سے تکیئے پر کھینچتے ہوئے آہستہ سے کہا ------ “ توبہ صبح ہی صبح کیا ہو گیا شیریں آہستہ بولو خدا کے لیئے آہستہ۔“

شیریں نے اس کے دروازے کے ساتھ منہ لگا کر آواز دی ------ “ آپا ------ زرقا آپا رات چوری ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولیئے جلدی“

دوپٹہ اوڑھے بغیر زرقا نے پٹاخ سے دروازہ کھول دیا۔ ککو، رانی، اماں جی اور لیلی سب صحن میں جمع تھیں۔ سفید بڑا ٹرنک برآمدے میں پڑا تھا اور ایک چادر اور چند ربن فرش پر دھرے تھے۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اماں جی کے پاس ہی ان کی عزیز سہیلی بڑا لمبا سا چہرہ بنائے کھڑی تھی۔

زرقا کو دیکھتے ہی اماں چلائیں ------ “ دیکھا تم نے اس مجو حرامزادے کے کرتوت ------ “

“ کیا ہوا اماں ؟“ وہ دل پر ہاتھ رکھ پر آگے بڑھی۔

ککو نے جلدی سے کہا ------ “ آپا ۔۔۔۔۔۔ آپا مجو بھائی آپ کا سارا جہیز چُرا لے گئے۔“

“ کون کہتا ہے؟“ زرقا نے بپھر کر پوچھا۔

“ اس کے کرتوت کہتے ہیں۔ اور کون کہے گا ! بھلا راتوں رات کہاں غائب ہو گیا حرامزادہ“

“ اماں ------“ زرقا نے رات کی تفصیلات بیان کرنے کے لیئے منہ کھولا۔

“ رہنے دو “ ------ اماں کڑک کر بولیں “ دونگری صاحب کے گھر جا کر حبیب کو فون کرو۔“

“ مجو ایسا نہیں کر سکتے اماں ------ مجو ۔۔۔۔۔۔ “

“ خاموش رہو آئی بڑی مجو کی طرفدار ------ دیکھئے بہن رات میری آنکھ پل بھر کے لیئے کھلی تو میں نے دیکھا تھا ------ مجھے خیال ہوا شاید اسپرو کی گولی لینے آیا ہے ------ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ کمبخت زرقا کے جہیز پر ہاتھ صاف کرنے آیا ہے ------ بدمعاش، شہدا ------ “

لیکن جہیز تو اُسے ہی ملتا ------ اگر آپ ۔۔۔۔۔۔ “ امی کی سہیلی رک رک کر بولی۔

“ بس جی اس سے اتنی دیر بھی برداشت نہ ہو سکی ------ ارے شیریں تُو وہاں کیا کھڑی ہے فون کیا حبیب کو ! ------ “

“ ہاں اماں جی کر آئی ہوں، وہ آتے ہی ہوں گے اب ------ “

پھر اماں جی اپنی سہیلی کو اپنی تمام نیکیاں اور بہن کی ساری غریبی کا کچا چٹھہ سنانے بیٹھ گئیں۔ ککو اور رانی خالی ٹرنک کو بار بار کھولتیں اور ربن جھاڑ کر واپس ڈال دیتیں۔ ویسے اس چوری نے اتنی مسرت تو بخش دی تھی کہ آج سکول جانا موقوف ہو گیا تھا۔

زرقا ہولے ہولے ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئی۔

ابھی کل زندگی کتنی پُر بہار تھی۔ اس کے چھوٹے اٹیچی میں مجو کے خط تھے۔ اس کے دل میں یادوں کے خزینے تھے اور اب یہ سارے خط، یہ تمام یادیں ایک دم ملوث ہو کر سخت گھناؤنی ہو گئی تھیں۔ اس کی نظروں میں وہ شعبدہ باز مجو گھوم رہا تھا جو ساحل کنارے تاش کا پتہ غائب کر رہا تھا ------ اس کے ہاتھوں میں تاش کے پتوں کی چلت پھرت اتنی تیز تھی کو یوں لگتا تھا جیسے وہ ازل کا رہزن ہے۔ ------ تب زرقا کو خیال آیا تھا کہ مجو تاش کے پتے کی طرح میرا دل غائب کر کے لے گیا اور اب ------ اب وہ سوچ رہی تھی مجو؟ ۔۔۔۔۔۔

مجو کیا صندوقوں میں سے چیزیں بھی غائب کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ کیا مجو ۔۔۔۔۔۔ کیا مجو ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا دل دھڑک دھڑک کر کہہ رہا تھا مجو ایسے نہیں کر سکتا ------ مجو یوں نہیں کر سکتا ------ مجو دیوتا نہ ہو لیکن مجو انسان تو ہے ------ اور انسان اتنے رذیل نہیں ہوتے ------

جب وہ فلیٹ کی سیڑھیاں اترنے والی تھی تو لیلی دروازہ کھول کر اس کے مقابل آ گئی۔ لیلی کی آنکھوں میں تازہ آنسوؤں کی چمک تھی۔ اس نے اہستہ سے کہا ۔

“ آپا ------ کہاں چلی ہو؟“

“ نیچے ------ “

“ کیوں آپا ؟ ------ “ لیلی نے پوچھا

پھر اس کی نظریں تنگ ہو گئیں۔ اُس نے زرقا کے کان پر سے بال اٹھائے اور آنکھیں سکوڑ کر بولی ------ “ آپا رات مجو بھائی سٹور میں گئے تھے کیا ؟“

زرقا نے نگاہیں جھکا کر بمشکل تمام کہا ------ “ ہاں ------ “

لیلی لب بیھنچ کر جیسے اپنے آپ سے بولی ------ “ اب مجھے یقین ہو گیا ہے ------ اب مجھے یقین ہو گیا ہے ۔“

“ کس بات کا یقین لیلی؟“ زرقا نے پوچھا۔

“ آپ کا ٹاپس کہاں ہے بائیں کان کا ------ ؟“

زرقا نے لمحہ بھر کو اپنے آپ کو جھٹلانا چاہا جیسے ٹاپس اپنی جگہ موجود ہو! لیکن پھر اس نے آہستہ سے ہاتھ اٹھایا اور خالی کان کی لَو کو چھو کر گرا دیا۔

لیلی بولی ------ “ رات جب مجو بھائی اماں کے کمرے سے نکلے ہیں، میں بھی وہاں گئی تھی۔ مجھے اسپرو کی ضرورت تھی ------ لیکن انہیں جاتا دیکھ کر میں لوٹ آئی پھر میں کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی آپا ------ اور میں نے مجو بھائی کو فلیٹ سے اترتے دیکھا۔ ان کی پیٹھ پر ایک اٹیچی کیس اور بغل میں کوئی گٹھڑی سی تھی ------ اب میں چپ نہ رہوں گی ۔۔۔۔۔۔ اب میں چپ نہ رہوں گی ------ آپا میں مجو بھائی کو دیوتا سمجھتی تھی، وہ تو انسان بھی نہ نکلے ------ “

پھر پٹاخ سے دروازہ اپنے پیچھے بند کرتی لیلی اندر چلی گئی۔

زرقا ہولے ہولے سیڑھیاں اترنے لگی۔ اس کا ایک ایک پاؤں زنجیروں سے بندھا تھا اور کمر کی جانب سے اسے کوئی گھسیٹ رہا تھا۔

اس کی نظروں میں سمندر کی بڑھتی سمٹتی شور مچاتی لہریں تھیں۔ پاؤں ابرق الود ریت کا بھربھرا پن محسوس کر رہے تھے اور مجو اس سے کان کا ٹاپس مانگ رہا تھا ------ اب بھی اس کے کانوں میں مجو کی آواز صاف آ رہی تھی ------

“ زرقا بیگم تمہاری مجبوری میری مجبوری ہے ورنہ جو چیز مجھے اچھی لگتی ہے وہ میں یوں اُڑا لیا کرتا ہوں ------ “
 

شمشاد

لائبریرین
حبیب اسے سیڑھیوں میں ملا اور چھوٹتے ہی بولا ------ “ کمال ہے پروفیسر صاحب ۔۔۔۔۔۔ بھی ایسے ہو سکتے تھے ------“

زرقا کے پاؤں سیڑھیوں پر جم گئے۔ اس نے سہارے کے لیئے ایک ہاتھ ریلنگ پر رکھ کر پوچھا۔

“ میرزا صاحب آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟“

حبیب میرزا نے بوکھلا کر کہا ------ “ ہاں ------ زرقا ۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں ------ دل و جان سے ! “

“ تو پھر آپ کو میری ایک شرط ماننا ہو گی ------ “

“ کہیئے ------ جو شرط بھی ہو گی میں سر کے بل پوری کروں گا ------ فرمائیے “

زرقا نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو چھپانے کی خاطر منہ پرے کر لیا اور بمشکل بولی ------ “ اماں آپ کو تھانے میں رپورٹ لکھوانے بھیجیں گی ------ اور ۔۔۔۔۔۔ اور آپ وہ رپورٹ نہیں لکھوائیں گے “

زرقا کی آنکھوں میں آنسو پھیل گئے۔

“ ضرور ضرور ------ میں وعدہ کرتا ہوں۔ یہ تو میرے اپنے بس کی بات ہے“ وہ چٹکی بجا کر بچوں کی سی تازگی سے اوپر چڑھ گیا۔

لیکن یہ چٹکی زرقا کے کان کے پاس بجی اور اس نے اس کا ٹاپس اتار لیا ------ پھر کان تلے ایک ٹھنڈا بوسہ دہکنے لگا۔ زرقا کے آنسو رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ وہ ریلنگ کا سہارا لیئے کھڑی تھی۔ شاید اُسے کسی انسان سے کبھی بھی محبت نہ ہو سکتی تھی۔

جب تک مجو دیوتا رہا اس کے من کے سنگھاسن پر برا جمان رہا۔

اور اب ذلت کی گہرائیوں میں اُتر کر وہ اس کے پیروں سے چمٹا ہوا تھا۔ اُس کے آنسوؤں پر حکمرانی کر رہا تھا۔ اور گلے کے قریب ایک رگ تھی کہ دھڑکتی چلی جا رہی تھی۔ مینا پر شہد کی دھار ٹپک رہی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ٹرین حیدرآباد سٹیشن پر رُکی ہوئی تھی۔ مجو کی سیٹ پر ایک پرانا اٹیچی کیس اور ایک چھوٹی سی گٹھڑی تھی جس میں ریت میں سنے ہوئے اس کے کپڑے تھے۔ اس کا سارا وجود جیسے چوری ہو گیا تھا۔ صرف انور کے دیئے ہوئے پچاس روپئے جیب میں تھے۔ وہ رات کو جب چپکے سے فلیٹ سے نکلا تو سوچ رہا تھا کہ جو لڑکی ایک بوسے کی متحمل نہیں ہو سکتی وہ شادی جیسے رگڑ کھانے، الٹا لٹکانے، آزمانے اور آزمائے جانے والے رشتے کی متحمل کیسے ہو گی؟ اس نے پانچ سال کے بعد یہی سوچا کہ ایسی نازک لڑکی پر مزید اپنی محبت کا بوجھ ڈالنا ظلم ہو گا۔ اسی فیصلے پر پہنچ کر اس نے اپنا مختصر سامان اٹھایا۔

اور جس وقت وہ کمرے سے نکلا اسی وقت لالو نے ماں جی کے تخت پوش کے نیچے سے سفید کویتی بکس یوں نکالا کہ اماں جی کو آواز تک نہ آئی۔

مجو نے چہرہ نکال کر باہر دیکھا۔ سامنے رنگین مٹی کا نازک صراحیوں والا اپنا سارا مال پونچھ پونچھ کر لگا رہا تھا۔ ابھی کل کی بات تھی یہاں دو امریکن عورتیں ان صراحیوں کا سودا کر رہی تھیں۔ ان کے لکیر دار فراک گھٹنوں سے نیچے تنگ اور بغلوں تلے بہت زیادہ کھلے تھے۔

آج مجو نے پیٹ پھر کر چائے پی رکھی تھی۔ اور اسے حلوہ پوری والے سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی۔ وہ ٹرین سے اترا اور ایک نازک سی صراحی خرید لی۔ اس کے کولہے، گردن اور بند بند منہ اُسے پرسوں بھی بہت پسند آیا تھا۔ لیکن پرسوں کی پسند اور آج کی پسند میں بڑا فرق تھا۔ آج اس نے چپکے سے یہ صراحی خرید لی تھی۔

اور جب ٹرین سٹیشن چھوڑ کر آگے بڑھی اور بنجر زمین، بجلی کے کھمبے، دھونسی ہوئی جھاڑیاں پیچھے کی طرف بھاگنے لگیں تو وہ کھڑکی میں گیا اور آہستہ سے کوری صراحی ہاتھ سے چھوڑ دی۔

ٹرین کے شور میں صراحی کے ٹوٹنے کی رتی بھر آواز نہ آئی۔
 
Top