ایک باد شاہ اور قاضی کا دلچسپ مکالمہ تاریخ فرشتہ سے

ایک باد شاہ اور قاضی کا دلچسپ مکالمہ ۔ تاریخ فرشتہ سے
بادشاہ کا نام: علاؤالدین
قاضی کا نام: قاضی مغیث الدین۔

zwgo0l.jpg

ml4l08.jpg

2z8n989.jpg
 
اس دور میں بھی حق گوئی کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے۔ نواز شریف کے دوسرے وزارت عظمی کے دور میں ایٹمی دھماکوں کے بعد دھماکوں کے دن کو یاد گار کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس دن کا نام سرکاری طور پر "یوم تکبیر" رکھا گیا۔
اس وقت شریف فیملی کی "اتفاق مسجد" میں علامہ ریاض حسین شاہ صاحب جمعہ کے خطیب تھے۔ کہ سکتے ہیں کہ وہ شریف فیملی سے تنخواہ لیتے تھے۔ انہوں نے اپنے جمعہ کے خطبے کو دوران بتایا کہ اس دن کا نام "یوم تکبیر" شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے۔
 

الشفاء

لائبریرین
بہتر ہوتا اگر یونیکوڈ میں شئیر کرتے!
یہ مشہور کتاب تاریخ فرشتہ سے کیپچر کیا ہے ۔ یونیکوڈ کے لئے تو ٹائپ کرنا پڑے گا ۔ اف اتنی محنت کون کرے اب

تیسرا سوال: بادشاہ نے تیسرا سوال یہ کیا۔ میں نے اپنی امارت کے زمانے میں دیو گڑھ سے جو مال و دولت حاصل کیا ہے اس پر کس کا حق ہے؟ میرا یا رعایا کا۔ وہ میری ملکیت ہے یا بیت المال کی امانت۔
جواب: قاضی مغیث الدین نے کہا۔ “ اس تمام مال و دولت میں آپ کا حق اتنا ہی ہے کہ جتنا ان لوگوں کا جنہوں نے یہ سب کچھ حاصل کرنے میں آپ کی مدد کی۔“ بادشاہ کو یہ جواب پسند نہ آیا اور اس نے کہا۔ “ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے جو رقم میں نے اپنی امارت کے زمانے میں حاصل کی اور جسے شاہی خزانے میں داخل نہیں کیا گیا، وہ کس طرح بیت المال کی امانت ہو سکتی ہے۔ اس پر قاضی صاحب نے جواب دیا۔ بادشاہ اپنی ذاتی کوشش اور قوت و محنت سے جو کچھ حاصل کرتا ہے، اس میں کسی اور کا حصہ نہیں ہوتا، لیکن جو دولت اسلامی لشکر کی مدد سے بادشاہ حاصل کرے اس پر اس کا حق اسی قدر ہوتاہے جس قدر کہ ایک عام لشکری کا۔

چوتھا سوال: لشکر اسلام کی مدد سے جو دولت حاصل کی جائے اس میں میرا اور میری اولاد کا کتنا حصہ ہے؟
جواب: اس سوال کے جواب میں قاضی صاحب نے کہا۔ “ اب محسوس ہو رہا ہے کہ میری موت آ گئی ہے۔ آپ کو میرا پہلا جواب بھی پسند نہیں آیا تھا، اور یہ جواب تو کچھ زیادہ ہی نا پسندیدہ ہو گا۔ علاؤالدین نے یہ سن کر کہا تم میرے سوال کا صحیح صحیح جواب دو اور اپنی جان کو بالکل محفوظ و مامون سمجھو۔“
قاضی مغیث الدین نے کہا۔ “ اس سلسلے میں تین مختلف طریقوں پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ازروئے انصاف دیکھا جائے اور خلفائے راشدین کی تقلید کی جائے تو اس طرح حاصل کی ہوئی دولت سے بادشاہ کو اسی قدر حصہ لینا چاہیے جتنا کہ ایک عام مسلمان کو اور اگر میانہ روی سے کام لیا جائے تو بادشاہ کو ان امیروں کے برابر حصہ لینا چاہیے کہ جنہیں زیادہ حصہ ملتا ہو اور اگر ملکی و سیاسی مصلحتوں کا خیال کیا جائے (جیسا کہ عام طور پر علماء ضعیف روایتوں کے سہارے بادشاہوں کو اس کا شرعی جواز بنا دیتے ہیں) تو بادشاہ امراء کے حصے سے کچھ زیادہ حصہ لے سکتا ہے تاکہ بادشاہ اور عام امراء کے مرتبے میں امتیاز کیا جائے اور شاہی رعب کو برقرار رکھا جائے۔ اس سے زیادہ حصہ لینا بادشاہ کے لیے کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔ بادشاہ کی اولاد کا حق امراء اور مسلمانوں کے برابر ہونا چاہیے۔“ یہ جواب سن کر علاؤالدین بہت خفا ہوا۔ قاضی مغیث الدین نے جواب دیا۔ حضور نے مجھ سے شرعی مسائل کے بارے میں پوچھا تھا، میں نے سب جوابات ازروئے شریعت دیے ہیں۔ لیکن اگر ملکی مصلحت اور سیاسی ضروریات کے پیش نظر میری ذاتی رائے پوچھی جائے تو میں یہ کہوں گا کہ حضور کا عمل بالکل صحیح ہے۔ بادشاہ کے وقار اور اس کے رعب و داب کو قائم رکھنے کے لیے جس قدر دولت بھی صرف ہو گی اسے ملکی انتظامات کے اخراجات میں شمار کرنا چاہیے۔

پانچواں سوال: علاؤالدین نے کہا۔ “ میرا یہ معمول ہے کہ جو لشکری ضرورت کے وقت حاضر نہیں ہوتا میں اس سے سزا کے طور پر تین سال کا معاوضہ واپس لے لیتا ہوں۔ باغیوں ، مفسدوں اور سرکشوں کو میں ان کے ساتھیوں ، ہمراہیوں اور بیوی بچوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیتا ہوں اور ایسے مجرموں کی تمام دولت حاصل کر کے شاہی خزانے میں داخل کر دیتا ہوں۔ باغیوں سے میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں کرتا اور ان کا نام و نشان مٹا کر ملک میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہوں۔ شرابیوں، بدکاروں اور چوروں کو میں شدید سزائیں دیتا ہوں ، میرا خیال ہے کہ تم اس سب باتوں کو شرع اسلام کے خلاف کہو گے؟ قاضی صاحب یہ باتیں سن کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے، ایک کونے میں جا کر اپنے سر کو ہاتھوں پر رکھ کر زمیں بوس ہوئے اور بڑے ادب کے ساتھ بادشاہ کو جواب دیا۔ “ حضور نے جو باتیں بیان فرمائی ہیں وہ شریعت کے احکام کے خلاف ہیں۔“ بادشاہ یہ جواب سن کر بہت ہی سٹ پٹایا اور بوکھلا کر حرم سرا کی طرف چلا گیا۔
قاضی صاحب بھی پریشانی کے عالم میں وہاں سے رخصت ہوئے اور جلد از جلد اپنے گھر پہنچے۔ انہیں اپنی زندگی کا اب کوئی یقین نہ تھا۔ انہوں نے اپنے اہل و عیال سے ہمیشہ کے لیے رخصت طلب کی اور اپنے قتل کے شاہی فرمان کا انتظار کرنے لگے۔ وہ اسی انتظار میں خدا سے لو لگائے بیٹھے تھے کہ دوسرے علاؤالدین نے انہیں دربار میں بلایا اور خلاف توقع و امید انہیں شاہی لطف و کرم سے نوازا گیا۔ خاصے کا جامہ زردوزی اور ایک ہزار تنگہ انعام دیا۔ علاؤالدین نے قاضی صاحب سے فرمایا۔ “ اگرچہ میں علم سے بالکل نا آشنا اور شرعی مسائل سے قطعاً ناواقف ہوں لیکن مسلمان اور مسلمان کا بیٹا ہوں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن دنیا کے معاملات اور خاص طور پر ہندوستان کی مہمات صرف شرعی مسائل پر عمل کرنے سے حل نہیں ہو سکتیں۔ جب تک سیاست کے شدید ترین قواعد سے کام نہ لیا جائے ملک میں امن و امان قائم رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ محض مذہبی وعظ اور نصیحتوں سے اس زمانے کے لوگ سیدھے راستے پر نہیں آ سکتے۔ یہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ فاسق اور بدکار لوگ زناکاری کے والہ و شیدا ہیں، غصہ ، قید اور مار پیٹ سے یہ لوگ بدکاری سے توبہ نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگوں عبرت کے لیے ان میں سے چند کو ناکارہ کر دیتا ہوں۔۔۔
 
Top