نویں سالگرہ ایک افسانہ روزانہ ۔۔۔ پہاڑوں کی برف

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
2i6lywx.jpg


vkqb6.jpg


2d8gq5z.jpg


m7rg50.jpg


314wazb.jpg


2wfsgn6.jpg


2vtbog3.jpg


2iaskli.jpg
 

اوشو

لائبریرین
پہاڑوں کی برف

میں نے قلم کو کاغذ پر جھکایا ہی تھا کہ آواز آئی۔ "ہے بی بی، خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے۔ تیرا بچہ جیوے۔"
میں نے قلم کو واپس قلمدان میں رکھ دیا۔ اگر اس قلم کی قیمت چالیس پچاس روپے نہ ہوتی تو میں یقینا اسے پٹخ دیتا۔
صبح بارہ ایک بجے تک کی سوچ بچار کے بعد مجھے مزے کا ایک فقرہ سوجھا تھا مگربھکارن کی آواز نے اسے یوں نوچ لیا تھا جیسے پھونک مارنے سے چراغ کی لو غائب ہو جاتی ہے۔
کیا بھلا سا فقرہ تھا! میرے افسانے کا یہ پہلا ہی فقرہ قاری کے ذہن کو جکڑ لیتا۔ ملازم مکان کی تیسری منزل میں تھا۔ بھکارن کی آواز اس تک شاید نہ پہنچ سکتی تھی ورنہ میری ہدایت کے مطابق بھکارن کو، اس طرف سے، دفع ہو جانے کا مشورہ فورا ملتا۔ بھکارن بھی ایک ہی آواز لگا کر شاید چل دی تھی۔
یکایک کھوئے ہوئے فقرے کے چند الفاظ گڈ مڈ صورت میں میرے ذہن میں ابھر۔ ایک جلتی ہوئی دیا سلائی بجھے ہوئے چراغ کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔ اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح صاف تھا۔۔۔۔۔ مگر نہیں، میں نے برف کے رنگ میں کوئی اور رنگ بھی ملایا تھا۔ لالہِ صحرائی کا رنگ، یا شاید شفقِ شام کا رنگ، یا ممکن ہے۔۔۔۔۔،
"ہے بی بی۔ خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے تیرا بچہ جیوے!"
تو وہ کم بخت ابھی تک وہیں نیچے صدر دروازے میں کھڑی تھی۔
دیا سلائی دھوئیں کی ایک منحنی لیکر چھوڑ کر بجھ گئی۔ اور میں پکارا۔
"بی بیاں گھر میں نہیں ہیں۔"
"بی بی نہیں تو بابو، تو ہی خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے۔ ہے سخی تیرا بچہ جیوے۔"
میں خاموش رہا۔ بھکاریوں سے زبان لڑانا میرا شیوہ نہیں۔ ان کے پاس سب سے بڑی دلیل بھوک کی ہوتی ہے۔ اور مجھے اس دلیل کا کوئی جواب نہیں سوجھ سکا۔
کچھ دیر کے بعد ذہن کی دھند میں حرکت پیدا ہوئی اور افسانے کا ابتدائی فقرہ جیسے آنکھیں ملنے لگا۔ اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح
"دے دے نا سخی۔ تو ہی دے دے نا۔" اب کے بھکارن کی آواز جیسے میرے عین سر پر گونجی۔ میں نے دیکھا تو وہ میرے کمرے کے دروازے میں یوں کھڑی تھی کہ اس کا پورا دھڑ باہر سیڑھی پر تھا۔ مجھے اس کا صرف ایک ہاتھ نظر آیا جس سے اس نے کواڑ کو پکڑ رکھا تھا۔ اس ہاتھ کا رنگ پہاڑوں کی برف کا سا تھا، چمکتا ہوا سفید، مگر کہیں کہیں ہلکی سی نیلاہٹ دیتا ہوا۔ یہ شاید اس کی رنگوں کا رنگ تھا، مگر اس کے ناخنوں نے مجھے زیادہ سوچنے کی مہلت نہ دی۔ یہ ناخن میل سے اٹے ہوئے تھے اور کٹے پھٹے دندانہ دار تھے۔ پھر میرے دیکھتے دیکھتے اس کی انگلیوں میں ایک نہایت متوازن حرکت پیدا ہوئی۔۔۔۔۔ تو یہ ایسی بےفکری بھکارن ہے کہ بھیک ملنے تک وقت گزارنے کے لئے کواڑ پر ڈھولک بجانے لگی ہے!۔۔۔۔۔ کیا ایسوں کو بھیک دینا جائز ہے؟۔۔۔۔۔ مگر کیا اتنے سفید ہاتھوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دینا جائز ہے؟۔۔۔۔۔ لیکن کیا ہر مجبوری جائز ہو سکتی ہے ؟
میں نے تکیے کے نیچے سے ایک آنہ اٹھایا اور بولا۔ "یہ لے۔"
وہ بولی۔ "ادھر پھینک دے بابو۔"
نہ جانے مجھے اس بھکارن کے طرزِ عمل پر غصہ سا کیوں آنے لگا تھا۔ میں نے آنہ پھینکنے کی بجائے پٹک دیا۔ یہ آنہ کواڑ پر بج کر کمرے کے اندر، دہلیز سے کوئی ایک گز کے فاصلے پر رکا۔ بھکارن نے سیڑھی پر سے ہی جھک کر ہاتھ بڑھایا۔ یوں اس کے چہرے کا ایک رخ بھی میرے سامنے آ گیا مگر یہ سب کچھ ایک سیکنڈ کے تیسرے حصے میں ہوا۔ یوں لگا جیسے بجلی سی میرے کمرے میں کوند کر اڑ گئی ہے۔ مجھے دروازے تک پہنچنے میں دو سیکنڈ لگے ہوں گے مگر سیڑھیاں خالی تھیں۔ میں پلٹ کر تیزی سے گلی میں کھلنے والی کھڑکی کے پاس آیا۔ وہ گلی کے نکڑ پر جا رہی تھی۔ پاؤں سے ننگی تھی۔ میلے سرخ رنگ کی شلوار پر اس نے سیاہ رنگ کی گھیرے دار قمیض پہن رکھی تھی۔ اور اس کے سر پر پیٹھ پر شلوار ہی کے رنگ کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ پھر وہ دوسری گلی میں مڑ گئی۔
"بھکارن کے چہرے کی یک رخی نے مجھے اپنے افسانے سے ہٹا کر یونانی صنمیات کی دنیا میں لا ڈالا۔ وینس اور سائیکی اور افروڈایٹ۔۔۔۔۔ ہر اساطیری خاتون کے ساتھ یہ چہرہ مماثل ہو جاتا تھا۔ یہ چہرہ جو صرف ایک رخ سے میرے سامنے آیا تھا اور جتنی دیر میں "سامنے" کا لفظ بولا جا سکتا، غائب ہو گیا تھا۔ اس اڑتے ہوئے ثانیے میں میرے ذہن نے اس چہرے کی کتنی تفصیلیں محفوظ کر لی تھیں۔ پتلی اور بےحد سیاہ بھویں، موٹی اور بےحد سیاہ آنکھیں، لمبی اور بےحد سیاہ پلکیں، ستواں ناک میں نتتنوں کا بےحد خفیف ابھار، بےحد سرخ ہونٹ، بےحد نکیلی ٹھوڑی، بےحد سفید گال بالکل پہاڑوں کی برف کی طرح۔
پھر مجھے اپنے آپ پر ہنسی آنے لگی۔ دراصل یہ سب کچھ اس ذہنی فضا کا نتیجہ تھا جو میں نے اپنے افسانے کا آغاز کرتے ہوئے قائم کر لی تھی۔ انسان بھی کتنا بےاختیار جانور ہے! اس پر خود اپنے ذہن کا جبر کتنا شدید ہوتا! لاحول ولا قوۃ۔ میں قلم اٹھا کر افسانے کا پہلا کھویا ہوا فقرہ ڈھونڈنے لگا۔
مگر چراغ کی بجھی لو پہلے کسی کو ملی ہے جو مجھے ملتی۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں افسانے کا پہلا فقرہ نہ لکھ سکا تو شاید ایک یہی افسانہ کیا، میں کبھی کوئی افسانہ نہیں لکھ سکوں گا۔ جیسے یہی ایک کھونٹی تھی جس پر مجھے اپنے خیالوں کا سارا پشتارا ٹانگنا تھا اور اب یہ کھونٹی ٹوٹ گئی ہے تو میرا خیال پتھر بن گیا ہے۔ اور میں پتھروں کے اس بوجھ تلے دوہرا ہوا جا رہا ہوں۔
پھر ردی خریدنے والے نے گلی میں، ایک سانس میں کوئی بیس الفاظ کا فقرہ نہایت کراری آواز میں ادا کیا، اور مجھے اس پر غصہ آ گیا۔ یہ ردی بیچنے والا پچھلے کئی برس سے ہر روز ایک دو بار اس گلی میں سے گزرتا تھا اور میرے مکان کے سامنے ضرور رکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ میں پڑھنے لکھنے والا آدمی ہوں اور ایسے آدمیوں کے ہاں ردی بہت عام مل جاتی ہے۔ میں اس آواز کا عادی تھا۔ افسانہ لکھتے ہوئے بھی میں نے یہ آواز کئی بار سنی تھی اور میرے افسانے کی روانی میں اس نے کبھی کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ مگر آج مجھے اس ردی والے پر اتنا غصہ آیا کہ میں قلم رکھ کر اٹھا کھڑکی میں سے نہایت قہرآلود نظروں سے دیکھنا چاہا مگر میری نظر سب سے پہلے گلی کے نکڑ پر پڑی اور مجھے پہلی بار تجربہ ہوا کہ تصور بھی ٹھوس ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ بھکارن دوسری گلی میں مڑ رہی تھی۔
میں جیسے اس کے تعاقب میں بھاگا۔ میں کتنی گلیوں اور سڑکوں کو طے کرتا ہوا نہ جانے کہاں جا رہا تھا۔ نہ جانے میں ٹریفک سے کیسے بچا اور چوراہوں کو کیسے پار کیا۔ نہ جانے میں نے کتنے سگریٹ کب جلائے اور کہاں پھینکے۔ پھر جب میں مال روڈ کے ایک چوک میں ٹریفک سگنل کی سرخ بتی دیکھ کر رکا تو مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں کہیں جا رہا ہوں۔ میں کہاں جا رہا ہوں؟ "کیوں بھئی، میں کہاں جا رہا ہوں؟" میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔
میں عشق کے سب مرحلوں اور تمام منزلوں سے آگاہ ہوں۔ میں ذرا ذرا سی بات پر رو بھی دیا ہوں اور بڑے بڑے دکھوں کو پی بھی گیا ہوں۔ مگر مجھے ایسی وحشت کا تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک میلی کچیلی، بدبودار اور اجڈ بھکارن کی صرف ایک نیم رخی جھلک نے میرے خون کو کھولاؤ کے نقطے پر پہنچا دیا ہے اور میں وہاں جا رہا ہوں جہاں سے اگر واپس نہ آ سکوں تو شہر کے بچے مجھ پر پتھراؤ کردیں۔ تو کیا یہ سچ کہ ہر انسان میں تھوڑا سا جنون ضرور ہوتا ہے؟ مگر میرا یہی جنون کیا کم ہے کہ جب لوگ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے ہوتے ہیں تو میں افسانہ لکھ رہا ہوتا ہوں۔ اور جب میرے احباب شراب پی رہے ہوتے ہیں تو میں سوچ رہا ہوتا ہوں کہ ان کے لاشعور میں کس قیامت کے رن پڑرہے ہوں گے۔ مجھے جنون کی اسی مقدار پر قانع رہنا چاہئے۔
میں گھر لوٹ آیا۔ میں نے رات کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے لٹے ہوئے افسانے کا پہلا فقرہ سوچنے میں کاٹا۔ مگر جہاں پہاڑوں کی برف میرے ذہن میں آئی وہیں بھکارن نے سیڑھی پر سے ہاتھ بڑھا کر آنہ اٹھایا اور کشتِ خیال میں یونانی اصنام کے چہروں کی ندیاں امڈ پڑیں۔
میں صبح کو یوں بروقت اٹھا جیسے رات پوری نیند سویا ہوں۔ پھر اپنے کمرے میں اس اہتمام سے آ بیٹھا جیسے سورج کے نکلتے ہی دوپہر ہو گئی ہے اور بھکارن اب آتی ہی ہو گی۔ اس مسئلے پر دیر تک میرے اور میرے ذہن کے درمیان خاصی تلخ بحث ہوتی رہی۔ میں کہتا تھا دیکھو تو میرے ہاتھ میں قلم ہے۔ میں تو افسانہ لکھنے بیٹھا ہوں۔ مگر میرا ذہن کہتا تھا کہ نہیں تم جھوٹے ہو تم تو بھکارن کا انتظا کر رہے ہو۔ اس وقت تو میں نے الٹا اپنے ذہن کو جھوٹا ثابت کر دیا تھا۔ مگر جب دوپہر کو بھکارن آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میں اسی کا منتظر ہوں۔
آواز آئی "ہے سخی، خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے ، تیرا بچہ جیوے۔"
اور سوچا کہ کیا کسی شاعر نے اس سے بہتر شعر بھی کہا ہے؟
عجیب بات ہے کہ نہ تو میں پلنگ پر سے کود کر اٹھا اور نہ میں نے قلم کو قلمدان میں رکھا۔ میں نے بڑے ٹھنڈے انداز میں صرف اتنا کہا۔ "ارے تو آج پھر آ گئی؟"
اس پر مجھے لگا جیسے وہ ہنسی ہے۔ نہایت مختصر مگر نہایت سریلی ہنسی۔ جیسے چینی کی پیالی کو چینی کی پیالی چھو جائے۔ پھر وہ میرے کمرے کے دروازے پر سے بولی۔۔۔۔۔۔ "بابو تیرا بچہ جیوے۔"
میں نے دیکھا تو وہ کمرے کے دروازے میں یوں کھڑی تھی کہ اس کا پورا دھڑ باہر سیڑھی پر تھا۔ مجھے صرف اس کا ایک ہاتھ نظر آیا جس سے اس نے کواڑ پکڑ رکھا تھا۔ اس ہاتھ کا رنگ پہاڑوں کی برف کا سا تھا۔ اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کل سے یہیں کھڑی ہے۔ وہ ازل سے یہیں کھڑی ہے۔
یکایک میں ڈرا کہ وہ کواڑ پر ڈھولک نہ بجانے لگے۔ کل میں نے اس کی انگلیوں کی متوازن حرکت سے اپنی شدید ہتک محسوس کی تھی۔ بھیک اتنی بےنیازی سے نہیں مانگی جاتی، بھکارن کو بھیک سامنے آ کر مانگنی چاہیے۔ طوائفوں تک نے اپنے لئے اخلاق کا ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے۔ بھکارنوں کو کم سے کم بھیک مانگنے کا سلیقہ تو آنا چاہیے۔ سو شاید اس کی بے نیازی کو شکست دینے کے لئے، یا گزشتہ آٹھ پہر کی بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کے لئے یا یونہی بے ارادہ میرے منہ سے نکلا۔
"لے، لے جا۔"
"لا۔" وہ بولی۔ "اللہ تجھے بہت دیوے سخی۔ اللہ تیرا بچہ جیوے سخی۔"
ایک دم وہ ساری کی ساری اندر آ گئی۔ میں اپنے حکم کی تعمیل کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔ میں نے ایک آنہ اتنی تیزی سے اس کی بےحد گلابی ہتھیلی پر گرا دیا جیسے وہ آنے کے انتظار میں ذرا دیر اور اسی طرح میرے سامنے کھڑی رہی تو میں کھڑکی سے کود جاؤں گا۔
مگر وہ آنہ لے کر بھی اسی طرح کھڑی رہی۔ میں نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ شیف پر رکھے ہوئے مٹی کے ایک کھلونے کو دیکھ رہی تھی۔
میں نے اس ایک لمحے میں اس کے سراپا کا اس نظر سے جائزہ لیا کہ کوئی خامی نظر آئے تو اسے اپنے ذہن میں سے نوچ کر پھینکنے میں آسانی ہو۔ مگر یکایک اس نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔ "ہرن ہے؟"
میں نے کہا۔ "نہیں، ہرنی ہے۔"
وہ بے اختیار چینی کی پیالیوں سے چینی کی پیالیاں بجاتی دروازے سے نکل گئی۔ میں تیزی سے کھڑکی میں آیا۔ وہ ایک آنے کو بچوں کی طرح اچھالتی اور جھپٹتی ہوئی جا رہی تھی۔ پھر وہ دوسری گلی میں مڑ گئی۔
عورت فطرت کی نہایت خوبصورت تخلیق ہے مگر حسنِ تخلیق کی داد کا بھی اک قرینہ ہوتا ہے۔ نوشگفتہ پھول کو دیکھ کر ہمارے احساسات کو ایک انگڑائی سی آتی ہے اور ہم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ شفق میں رنگے ہوئے بادلوں کو ہم پیار سے دیکھتے ہیں اور اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ رات کو چھت پر گرتی ہوئی بوندوں کی موسیقی چند لمحوں کے لئے ہمیں آسمانوں سے اترا زینہ سا معلوم ہوتی ہے اور پھر ہم سو جاتے ہیں۔ میں نے خوبصورت عورتوں کو بھی ہمیشہ اس قرینے سے دیکھا ہے۔ حسن کی طرف ذرا سی زیادہ توجہ دیجئے تو پھر آپ کسی اور طرف ذرا مشکل ہی سے متوجہ ہو سکیں گے۔ مگر جب کوئی حسن زبردستی پر اتر آئے تو زندہ رہنے کی دو ہی راہیں باقی رہ جاتی ہیں۔ یا تو حسن سے نفرت کرنے لگو اور بھیڑیے کی طرح مار کھاتے ہوئے مر جاؤ۔ یا پھر دنیا کے دوسرے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لو اور سمندر کے ساحل کی سی زندگی گزار دو کہ وہ فقط ایک کام کرتا ہے۔ وہ سمندر کے مچلتے ہوئے حسن کے لئے اپنا آغوش ہر لمحے کھولے رکھتا۔ کبھی کبھار موجیں اسے چند سیپیاں دے جاتی ہیں مگر پھر ایک اور موج آتی ہے اور ان سیپیوں کو بھی سمیٹ کر لے جاتی ہے۔ اس کے باوجود ساحل کا آغوش ازل سے کھلا ہے اور ظاہر ہے کہ اس یک طرفہ کاروبار میں کوئی قرینہ نہیں ہے۔
یہ سوچ کر کہ حسن کی یہ موج مجھے بھی ساحل کی سی افتادگی کی طرف لیے جا رہی ہے۔ مجھے اپنے آپ پر ایک بار پھر ہنسی آ گئی۔ مجھے تو یہ سوچ کر قلوپطرہ پر بھی ہنسی آ جاتی ہے۔ کہ اس کی ناک ننھی سی تھی۔ اتنی بڑی ملکہ، اتنی ذرا سی ناک کے ساتھ کیسی عجیب لگتی ہو۔ اور میں تو سپارٹا اور ٹرائے کی فوجوں پر بھی یہ سوچ کر مسکرا دیتا ہوں کہ جب ہیلن کی جوانی ڈھل گئی ہو گی تو اسے دیکھ کر طرفین اپنی حماقت پر کیسے کیسے جھنیپتے پھرتے ہوں گی۔ ہنستے ہوئے میں نے قلم اٹھایا اور یوں لکھنے بیٹھ گیا جیسے آج افسانے کا ایک پہلا فقرہ ہی کیا، آخری فقرہ بھی لکھ ڈالوں گا۔
"اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح صاف تھا"۔۔۔۔۔۔ "اس کا رنگ ان پہاڑوں کی برف کی طرح صاف تھا جن پر"۔۔۔۔۔۔۔ "اس کا رنگ پہاڑوں کی اس برف کی طرح صاف تھا ۔۔۔۔۔۔ جو ۔۔۔۔۔۔" ۔۔۔۔۔۔ "اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح اس حد تک صاف تھا کہ ۔۔۔۔۔۔"
اور پھر چینی کی پیالیوں سے چینی کی پیالیاں بجنے لگیں۔
ایک موج آئی اور ساحل کو اپنی یادوں کی نمی بخش کر پلٹ گئی۔
اتنی گلابی، اس قدر گلابی، اس حد تک گلابی ہتھیلی پر صرف ایک آنہ چمکا اور میں نے اپنے آپ کو گالی دے دی۔۔۔۔۔ کمینہ، بڑا حسن کار بنتا ہے۔ فطرت کے اس شہکار کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی قیمت کیا صرف ایک آنہ ہے؟ تُف ہے تجھ پر اور تیری حسن کاری پر۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن کی دوپہر تک کا وقت میں نے اس مجرم کی طرح گزارا جو جرم کرنے کے بعد اپنے اندر جھانکے تو اس کا ضمیر اس پر تھوک دے۔ ان دنوں تو ایک آنے میں چپاتی بھی نہیں آتی!
مگر سارے لاہور میں صرف میں ہی تو نہیں ہوں جس سے اس نے ایک آنہ لیا ہوگا۔ نہ جانے پورے دن میں اس نے کتنوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوں گے؟ تو کیا جس طرح وہ میرے پاس آئی ہے اسی طرح دوسروں کے ہاں بھی جاتی ہو گی؟ سارا شہر مجھے اپنا دشمن نظر آنے لگا۔۔۔۔۔ اچھا تو ذہن میں نراجیت یوں پیدا ہوتی ہے۔
کل رات میری کشتِ خیال میں صرف یونانی اصنام کے چہروں کی ندیاں امڈتی رہی تھیں مگر آج رات تو ادھر ایک چہرہ نمودار ہوتا، ادھر ایک شعلہ سا بھڑک اٹھتا ہے۔ پھر دھواں سا چھا جاتا۔ پھر پتھر سے برستے پھر ایسی آوازیں سی آتیں جیسے کوئی شیشے کی کرچیاں پیس رہا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ کل سارا دن گھر سے باہر رہوں گا۔ کل کسی ڈاکٹر سے بھی مشورہ کروں گا۔ کل نماز بھی پڑھوں گا۔
مگر صبح بہت دیر سے آنکھ کھلی۔ نماز کا وقت نکل چکا تھا۔ نہانے اور ناشتہ کرنے میں بھی خاصی دیر لگی۔ اوپر ہی کی منزل میں بیٹھا اخبار پڑھنا شروع کیا تو دوپہر تک پڑھتا رہا۔ جب ملازم نے آ کر کہا کہ پڑوسی چند منٹ کے لئے اخبار مانگ رہا ہے تو میں نے وقت دیکھا۔ یکایک کسی چیز نے جیسے میرے اندر اچھل کر مجھے کمرے سے باہر دے مارا اور میں سیڑھیوں پر سے اتنی تیزی سے اترا کہ بچے بھی یوں نہیں اترتے ہوں گے۔ اپنا کمرہ کھول کر میں سیدھا کھڑکی کے پاس گیا اور گلی میں جھانکا۔ دو بچے سگریٹ کی ڈبیوں سے مکان بنا رہے تھے۔ اور گلی میں سے ایک بڑھیا گزر رہی تھی جو ہوا سے بھرے ہوئے برقعے میں بہت چھوٹی سی لگ رہی تھی۔
میں پھر کمرے کی طرف لپکا اور ملازم سے پوچھا۔ "کوئی مجھ سے ملنے تو نہیں آیا تھا؟"
وہ بولا۔ "آپ سو تو نہیں رہے تھے صاحب، کہ کوئی آتا تو میں نہ بتاتا۔"
مزید کریدنے کے لئے مجھے کوئی دوسرا قرینے کا سوال نہ سوجھ سکا اور ملازم جیسے اپنے آپ سے کہنے لگا۔ "بس صبح صبح ایک سبزی والا آیا تھا یا اخبار والا یا پھر ابھی ابھی وہ منگتی آئی تھی۔۔۔۔۔" مجھے اپنی طرف گھورتا دیکھ کر وہ بولا۔ "کوئی بھی تو نہیں آیا صاحب۔ کیا آپ نے کسی کو وقت دے رکھا تھا؟"
میں جواب دئیے بغیر پلٹ آیا۔ تو وہ آئی بھی اور چلی بھی گئی! تو وہ اتنی غیر اہم تھی کہ اس کے آنے کے باوجود کوئی نہیں آیا تھا۔
کیا فرشتوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ آج کے دن کو بھی میری زندگی میں شمار کریں۔
سیڑھیوں پر سے آہستہ آہستہ اترتا ہوا میں گلی میں آیا۔ پھر دوسری گلی میں سے ہوتا ہوا سڑک پر آیا۔ اور دور دور تک نظریں دوڑائیں کہ شاید وہ کسی راہگیر کا دامن تھامے کھڑی ہو۔ شاید کسی دکان کے سامنے پڑی ہوئی سڑی چیزوں میں سے کوئی کم سڑی ہوئی چیز چن رہی ہو۔ شاید وہ کسی درخت کے تنے کے ساتھ لگ کر اداس کھڑی ہو کہ آج اس کی لگی بندھی آمدنی میں سے ایک آنہ کٹ گیا۔
سڑک پر معمول کی زندگی رواں تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اور واقعی کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انسانوں کے اندر کے طوفان اند کے اندر ہی چلتے رہتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر سے اس کا طوفان باہر آ جائے تو کیسی قیامت برپا ہو جائے۔
میں واپس اپنی گلی میں آیا تو بچوں نے سگریٹ کی ڈبیوں سے پنج منزلہ مکان تعمیر کر لیا تھا۔ اور میرے ساتھ والے مکان کے دروازے پر ایک بی بی ردی والے کے ہاتھ اپنی اولاد کی پرانی کاپیاں بیچ رہی تھی۔
اور وہ میرے مکان کی دہلیز پر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ تو میری خیرات اس کے لئے اتنی اہم ہے؟۔۔۔۔۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور بیٹھے بیٹھے ایک طرف ہٹ کر مجھے راستہ دے دیا۔ اس کے پاؤں اتنے میلے تھے جیسے وہ غلطی سے کسی دوسرے کے پاؤں لگا کر چلی آئی ہے۔ البتہ آج اس کے ہاتھ دھلے ہوئے تھے اور ناخن کٹے ہوئے ہیں۔" میں نے یوں فاتحانہ انداز میں کہا جیسے محض میرے پاس آنے کی تقریب میں اس نے اپنے پیکر میں یہ خاص اصلاح کی ہے۔
اور اس نے اپنے ہاتھ یوں گود میں چھپا لئے جیسے کہیں سے چرا کر لائی ہے اور پکڑی گئی ہے۔ پھر چینی کی پیالی سے چینی کی پیالی چھو گئی اور میں اوپر لپکا۔ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر میں نے اسے بلانا چاہا مگر پھر رک گیا۔ جیسے میرے منہ سے ایک بھی لفظ نکلا تو سارے شہر میں گونج جائے گا۔ پھر میں نے اسے اشارتا اوپر آنے کو کہا اور وہ ادھر آنے لگی، مگر مجھے دروازے میں کھڑا دیکھا تو دو سیڑھیاں چھوڑ کر رک گئی۔ اس نے بھویں اٹھا کر اوپر میری طرف دیکھا اور میں یوں ایک طرف ہٹ گیا جیسے نہ ہٹا تو کہیں نیچے ڈوب جاؤں گا۔
میں نے اپنے تکئیے کے نیچے سے ایک اٹھنی اٹھائی اور اس کی طرف بڑھا دی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا مگر اٹھنی دیکھ کر کھینچ لیا۔ "نہیں بابو، میرے پاس بھان نہیں ہے۔"
"تم اٹھنی لے لو۔" میں نے اس کے بھولپن سے خوش ہو کر کہا۔
"پوری؟" اس نے پوچھا۔
میں نے مسکرا کر کہا۔ "ہاں۔ تمہارے پاس بھان جو نہیں ہے۔"
ایک آنہ لینے والی بھکارن کے لئے اٹھنی ایسی ہے جیسے ایک افسانہ نگار کی ایک لاکھ کی لاٹری نکل آئے۔ سو میں نے طے کر لیا کہ اس نے اٹھنی کے لئے ہاتھ پھیالا تو اسے کلائی سے پکڑ لوں گا۔ اور ظاہر ہے جائز طور سے پکڑوں گا۔ کیوں کہ میرے پورے اٹھ آنے اس کے پاس ہوں گے۔ پھر جب میں اس کی کلائی اپنی گرفت میں لے لوں گا تو اس سے کہوں گا۔ میں اس سے کہوں گا۔۔۔۔۔ میرے افسانے کا پہلا فقرہ ایک کوندے کی طرح میرے ذہن میں چمکا اور پہاڑوں کی برف پر شفق برس پڑی۔ مگر قبل اس کے کہ میرا ذہن پورے فقرے کو سنبھالتا میں نے دیکھا وہ جا رہی ہے۔
"اٹھنی تو لیتی جاؤ۔" میں کچھ ایسے لہجے میں بولا جیسے کوئی ننگا عشقیہ شعر پڑھ رہا ہوں۔
وہ پلٹ کر اور دروازے میں سے جھانک کر بولی۔ "لے تو لی سخی۔"
یہ میں نے بہت بعد میں سوچا کہ میرے اٹھنی دکھانے اور اس کے جانے کی ایک صدی میں وہ ایک لمحہ کب وارد ہوا تھا۔ جب میں نے اٹھنی دی تھی۔ اور جب میں نے یہ سکہ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا تو اس کی کلائی پکڑنے کا فیصلہ کیوں یاد نہیں رہا تھا۔
پھر ایک دم مجھے احساس ہوا کہ میرا کچھ کھو گیا ہے۔ اٹھنی کے علاوہ وہ میرے افسانے کا پہلا فقرہ بھی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ وہ مجھے صرف اپنا چہرہ دے گئی تھی جو اس کے جانے کے بعد دیر تک دروازے میں سے جھانکتا رہا۔ پھر وقفے وقفے سے دکھائی دینے لگا، پھر دھندلا گیا۔ پانچویں دن تو وہ بالکل غائب ہو گیا۔
میں نے چھٹے اور ساتویں دن شہر کی سب لائبریریوں میں یونانی سنگ تراشی پر لکھی ہوئی ضخیم کتابیں چھان ماریں مگر مجھے وینس، سائیکی اور افرڈوائیٹ کے چہروں میں وہ چہرہ نظر نہ آیا، جو ان سب سے کسی نہ کسی تفصیل میں مختلف تھا۔ شاید بھکارن کے نتھنوں کے خفیف ابھار نے اس کی ناک کے دونوں طرف وینس کی ناک کے مقابلے میں زیادہ متناسب قوسیں پیدا کر دی تھیں۔ یا شاید سائیکی کی گردن بھکارن کی گردن کے مقابلے میں کوتاہ تھی اور میلی بھی۔ یا ممکن ہے افرڈوائیٹ کے مقابلے میں بھکارن کے ہونٹوں کے گوشے زیادہ گہرے، زیادہ جذباتی تھے۔ میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بھکارن کا چہرہ اپنے مجموعی تاثر کی صورت میں مجھے ضرور یاد تھا۔ مگر جب میں اس کی صرف آنکھوں یا صرف گالوں یا صرف ہونٹوں کے بارے میں سوچتا تو سارا چہرہ برف کی طرح پگھلنے لگتا۔
ساتویں دن شام کے قریب مجھ پر یکایک انکشاف ہوا کہ میں نہایب بےمعنی زندگی گزار رہا ہوں۔ چہرے غالب کے شعر نہیں ہوتے کہ جب چاہو اٹھا کر پڑھ لو۔ یہ تو سامنے آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ چہرے تو لمحے ہیں اور لمحے کب واپس آئے ہیں۔ تم نے ایک چہرہ دیکھا۔ مانا کہ یہ بےحد حسین، بےحد عجیب چہرہ تھا، لیکن جیسے یہ چہرہ، جس کے بارے میں تم سوچ تک نہ سکتے تھے کہ کسی عورت کا ایسا چہرہ بھی ہو گا، یکایک تمہارے سامنے آیا اور گزر گیا، اسی طرح کئی اور چہرے آتے رہیں گے اور گزرتے رہیں گے اور اگر تم ہر چہرے پر سے نظریں ہٹانا بھول گئے تو آخر ایک روز تمہیں معلوم ہو گا کہ تمہارے ہمدردوں نے تمہیں پاگل خانے بھجوا دیا ہے۔
ہفتے میں یہ پہلی رات تھی جب میں سکون سے سویا۔ جب اٹھا تو سورج کافی چڑھ آیا تھا۔ ناشتے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے افسانے کا پہلا فقرہ لکھنے بیٹھ گیا۔ جلتی ہوئی ایک دیا سلائی، بجھے ہوئے چراغ کی طرف بڑھی اور پہاڑوں پر برف چمکنے لگی۔ ہر طرف ہزاروں آئینے لگ گئے۔ جن میں ہزاروں سورج چمک رہے تھے۔ پھر خیرگی کے اس طوفان میں ایک چہرہ ابھرا اور آواز آئی۔۔۔۔۔ "ہے سخی!"
میں پلنگ پر سے کود کر اترا اور دروازے میں سے جھانکا۔ پھر بجلی کی سی تیزی سے سیڑھیاں اتر کر گلی میں پہنچ گیا۔ پھر دوسری گلی میں چلا گیا۔ پھر سڑک پر آ گیا۔ وہاں معمول کی زندگی رواں تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اور واقعی کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔ صرف اتنی سی بات ہوئی تھی کہ محلے کے ایک تانگے والے نے میرے پاس آ کر حیرت سے پوچھا۔ "کیوں بابوجی، خیریت تو ہے؟ آپ ننگے پاؤں کیوں کھڑے ہیں؟"
تانگے والے نے میرے ننگے پاؤں دیکھ لئے تھے، مگر میرے ذہن کو، جو زخم زخم ہو رہا تھا، ایک تانگے والا کیا، کسی نے بھی نہ دیکھا۔ کوئی کسی کے زخم نہیں دیکھتا۔ شاید اس لئے کہ زخم دیکھنے دکھانے کی چیز نہیں ہیں۔ یا شاید اس لئے کہ سب کے اپنے اپنے زخم ہوتے ہیں۔
تو کیا یہ زخم جو میرے ذہن میں ہے کسی اور کے ذہن میں بھی ہے؟ اگر ہے تو وہ کہاں ہے کہ میں اسے اپنے سینے سے لگا کر ذرا سا رو لوں۔ انسان آخر زخموں کے ان ناتوں کو کیوں چھپائے پھرتے ہیں جو ظاہر ہوں تو سب انسان پیار سے ایک دوسرے کو لپٹا لیں۔
تانگے والے کو کوئی جواب دئیے بغیر میں واپس اپنے کمرے میں آیا۔ اور بستر پر سر سے پاؤں تک چادر اوڑھ کر یوں پھیل کر لیٹ گیا جیسے کڑے کوسوں کا سفر طے کر کے آ رہا ہوں۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ذہن سے رجوع کیا، مگر اس نے بھی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ سب سو رہے تھے۔ چاروں طرف نہایت ڈراؤنا سناٹآ مسلط تھا۔ آج ردی والا بھی کہیں مر گیا تھا۔
میں نے غنودگی کے عالم میں دیکھا کہ بھکارن میرے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے۔ "خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے سخی، تیرا بچہ جیوے۔"
میں نے چادر نوچ کر پھینک دی۔ وہ دروازے پر سچ مچھ کھڑی تھی۔ اور کہہ رہی تھی۔ "خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے سخی، تیرا بچہ جیوے۔"
میں کچھ ایسے لہجے میں بولا جیسے وہ باقاعدہ میرے نکاح میں ہے اور میں اس سے ہر قسم کی جواب طلبی کر سکتا ہوں۔ "تم اتنے دنوں کہاں تھیں؟" میں نے ڈانٹ کر پوچھا۔ "کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج تم پورے ایک ہفتہ کے بعد میرے پاس آئی ہو؟"
میرے لہجے کا اثر صرف اس کی آنکھوں پر ہوا جو کسی گلابی دوا کے حلقے میں سجی ہوئی تھیں۔ ان آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوئی، وہ چمک جو انتہائی پیار یا انتہائی غصے یا انتہائی ڈر کی حالت میں پیدا ہوتی ہے۔
"بولو، کہاں تھیں تم؟" میں کڑکا
"میں تو یہیں تھی بابو۔ اور کہاں تھی۔" وہ بچے کی طرح بولی۔
"تو پھر تم ایک ہفتے تک آئیں کیوں نہیں؟" میں نے اسی لہجے میں پوچھا۔
اور وہ بولی۔ "میں اٹھنی جو لے گئی تھی سخی۔ ایک آنہ اس دن کا باقی سات دنوں کے ۔ آج آٹھواں دن تھا تو آ گئی۔"
بھکارن کا چہرہ پھرکی طرح گھوما اور ایک آن میں پہاڑوں کی برف تڑاخ پڑاخ کر چٹخی اور اس کے بڑے بڑے چٹانوں کے سے تودے چیختے چنگھاڑتے ہوئے آئے اور میرے سر پر ٹوٹنے لگے۔۔۔۔۔
وحشیوں کی طرح میں نے بستر پر سے تکیہ اٹھا کر دور پھینک دیا اور اس کے نیچے پانچ پانچ دس دس روپے کے جتنے بھی نوٹ رکھے تھے انہیں مٹھی میں لے کر بھکارن کی طرف بڑھا، اس کی کلائی کو لکڑی کی طرح پکڑ کر میں نے یہ نوٹ اس کی مٹھی میں ٹھونس دیے اور چیخا۔
"ان روپوں میں جتنے بھی آنے ہیں۔ اتنے دنوں سے اگر تم ایک دن بھی پہلے یہاں آئیں تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔ جا، دفع ہو جا۔"
1964ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدہ شگفتہ ، محمداحمد
 
کیا فرشتوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ آج کے دن کو بھی میری زندگی میں شمار کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو میں نے طے کر لیا کہ اس نے اٹھنی کے لئے ہاتھ پھیلایا تو اسے کلائی سے پکڑ لوں گا۔ اور ظاہر ہے جائز طور سے پکڑوں گا۔ کیوں کہ میرے پورے اٹھ آنے اس کے پاس ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرے غالب کے شعر نہیں ہوتے کہ جب چاہو اٹھا کر پڑھ لو۔ یہ تو سامنے آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ چہرے تو لمحے ہیں اور لمحے کب واپس آئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی کسی کے زخم نہیں دیکھتا۔ شاید اس لئے کہ زخم دیکھنے دکھانے کی چیز نہیں ہیں۔ یا شاید اس لئے کہ سب کے اپنے اپنے زخم ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتہائی خوبصورت جملے۔ بہت اعلیٰ۔ شاندار شراکت
قاسمی صاحب کا نام بھی لکھ دی جیے
 

محمداحمد

لائبریرین
پروف ریڈ مکمل
----------

پہاڑوں کی برف
احمد ندیم قاسمی​

میں نے قلم کو کاغذ پر جھکایا ہی تھا کہ آواز آئی۔ "ہے بی بی، خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے۔ تیرا بچہ جیوے۔"
میں نے قلم کو واپس قلمدان میں رکھ دیا۔ اگر اس قلم کی قیمت چالیس پچاس روپے نہ ہوتی تو میں یقینا اسے پٹخ دیتا۔
صبح بارہ ایک بجے تک کی سوچ بچار کے بعد مجھے مزے کا ایک فقرہ سوجھا تھا مگربھکارن کی آواز نے اسے یوں نوچ لیا تھا جیسے پھونک مارنے سے چراغ کی لو غائب ہو جاتی ہے۔
کیا بھلا سا فقرہ تھا! میرے افسانے کا یہ پہلا ہی فقرہ قاری کے ذہن کو جکڑ لیتا۔ ملازم مکان کی تیسری منزل میں تھا۔ بھکارن کی آواز اس تک شاید نہ پہنچ سکتی تھی ورنہ میری ہدایت کے مطابق بھکارن کو، اس طرف سے، دفع ہو جانے کا مشورہ فورا ًملتا۔ بھکارن بھی ایک ہی آواز لگا کر شاید چل دی تھی۔
یکایک کھوئے ہوئے فقرے کے چند الفاظ گڈ مڈ صورت میں میرے ذہن میں ابھرے۔ ایک جلتی ہوئی دیا سلائی بجھے ہوئے چراغ کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔ اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح صاف تھا۔۔۔۔۔ مگر نہیں، میں نے برف کے رنگ میں کوئی اور رنگ بھی ملایا تھا۔ لالہِ صحرائی کا رنگ، یا شاید شفقِ شام کا رنگ، یا ممکن ہے۔۔۔۔۔،
"ہے بی بی۔ خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے تیرا بچہ جیوے!"
تو وہ کم بخت ابھی تک وہیں نیچے صدر دروازے میں کھڑی تھی۔
دیا سلائی دھوئیں کی ایک منحنی لیکر چھوڑ کر بجھ گئی۔ اور میں پکارا۔
"بی بیاں گھر میں نہیں ہیں۔"
"بی بی نہیں تو بابو، تو ہی خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے۔ ہے سخی تیرا بچہ جیوے۔"
میں خاموش رہا۔ بھکاریوں سے زبان لڑانا میرا شیوہ نہیں۔ ان کے پاس سب سے بڑی دلیل بھوک کی ہوتی ہے۔ اور مجھے اس دلیل کا کوئی جواب نہیں سوجھ سکا۔
کچھ دیر کے بعد ذہن کی دھند میں حرکت پیدا ہوئی اور افسانے کا ابتدائی فقرہ جیسے آنکھیں ملنے لگا۔ اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح
"دے دے نا سخی۔ تو ہی دے دے نا۔" اب کے بھکارن کی آواز جیسے میرے عین سر پر گونجی۔ میں نے دیکھا تو وہ میرے کمرے کے دروازے میں یوں کھڑی تھی کہ اس کا پورا دھڑ باہر سیڑھی پر تھا۔ مجھے اس کا صرف ایک ہاتھ نظر آیا جس سے اس نے کواڑ کو پکڑ رکھا تھا۔ اس ہاتھ کا رنگ پہاڑوں کی برف کا سا تھا، چمکتا ہوا سفید، مگر کہیں کہیں ہلکی سی نیلاہٹ دیتا ہوا۔ یہ شاید اس کی رنگوں کا رنگ تھا، مگر اس کے ناخنوں نے مجھے زیادہ سوچنے کی مہلت نہ دی۔ یہ ناخن میل سے اٹے ہوئے تھے اور کٹے پھٹے دندانہ دار تھے۔ پھر میرے دیکھتے دیکھتے اس کی انگلیوں میں ایک نہایت متوازن حرکت پیدا ہوئی۔۔۔۔۔ تو یہ ایسی بےفکری بھکارن ہے کہ بھیک ملنے تک وقت گزارنے کے لئے کواڑ پر ڈھولک بجانے لگی ہے!۔۔۔۔۔ کیا ایسوں کو بھیک دینا جائز ہے؟۔۔۔۔۔ مگر کیا اتنے سفید ہاتھوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دینا جائز ہے؟۔۔۔۔۔ لیکن کیا ہر مجبوری جائز ہو سکتی ہے ؟
میں نے تکیے کے نیچے سے ایک آنہ اٹھایا اور بولا۔ "یہ لے۔"
وہ بولی۔ "ادھر پھینک دے بابو۔"
نہ جانے مجھے اس بھکارن کے طرزِ عمل پر غصہ سا کیوں آنے لگا تھا۔ میں نے آنہ پھینکنے کی بجائے پٹک دیا۔ یہ آنہ کواڑ پر بج کر کمرے کے اندر، دہلیز سے کوئی ایک گز کے فاصلے پر رکا۔ بھکارن نے سیڑھی پر سے ہی جھک کر ہاتھ بڑھایا۔ یوں اس کے چہرے کا ایک رخ بھی میرے سامنے آ گیا مگر یہ سب کچھ ایک سیکنڈ کے تیسرے حصے میں ہوا۔ یوں لگا جیسے بجلی سی میرے کمرے میں کوند کر اڑ گئی ہے۔ مجھے دروازے تک پہنچنے میں دو سیکنڈ لگے ہوں گے مگر سیڑھیاں خالی تھیں۔ میں پلٹ کر تیزی سے گلی میں کھلنے والی کھڑکی کے پاس آیا۔ وہ گلی کے نکڑ پر جا رہی تھی۔ پاؤں سے ننگی تھی۔ میلے سرخ رنگ کی شلوار پر اس نے سیاہ رنگ کی گھیرے دار قمیض پہن رکھی تھی۔ اور اس کے سر پر پیٹھ پر شلوار ہی کے رنگ کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ پھر وہ دوسری گلی میں مڑ گئی۔
"بھکارن کے چہرے کی یک رخی نے مجھے اپنے افسانے سے ہٹا کر یونانی صنمیات کی دنیا میں لا ڈالا۔ وینس اور سائیکی اور افروڈایٹ۔۔۔۔۔ ہر اساطیری خاتون کے ساتھ یہ چہرہ مماثل ہو جاتا تھا۔ یہ چہرہ جو صرف ایک رخ سے میرے سامنے آیا تھا اور جتنی دیر میں "سامنے" کا لفظ بولا جا سکتا، غائب ہو گیا تھا۔ اس اڑتے ہوئے ثانیے میں میرے ذہن نے اس چہرے کی کتنی تفصیلیں محفوظ کر لی تھیں۔ پتلی اور بےحد سیاہ بھویں، موٹی اور بےحد سیاہ آنکھیں، لمبی اور بےحد سیاہ پلکیں، ستواں ناک میں نتونسں کا بےحد خفیف ابھار، بےحد سرخ ہونٹ، بےحد نکیلی ٹھوڑی، بےحد سفید گال بالکل پہاڑوں کی برف کی طرح۔
پھر مجھے اپنے آپ پر ہنسی آنے لگی۔ دراصل یہ سب کچھ اس ذہنی فضا کا نتیجہ تھا جو میں نے اپنے افسانے کا آغاز کرتے ہوئے قائم کر لی تھی۔ انسان بھی کتنا بےاختیار جانور ہے! اس پر خود اپنے ذہن کا جبر کتنا شدید ہوتا! لاحول ولا قوۃ۔ میں قلم اٹھا کر افسانے کا پہلا کھویا ہوا فقرہ ڈھونڈنے لگا۔
مگر چراغ کی بجھی لو پہلے کسی کو ملی ہے جو مجھے ملتی۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں افسانے کا پہلا فقرہ نہ لکھ سکا تو شاید ایک یہی افسانہ کیا، میں کبھی کوئی افسانہ نہیں لکھ سکوں گا۔ جیسے یہی ایک کھونٹی تھی جس پر مجھے اپنے خیالوں کا سارا پشتارا ٹانگنا تھا اور اب یہ کھونٹی ٹوٹ گئی ہے تو میرا خیال پتھر بن گیا ہے۔ اور میں پتھروں کے اس بوجھ تلے دوہرا ہوا جا رہا ہوں۔
پھر ردی خریدنے والے نے گلی میں، ایک سانس میں کوئی بیس الفاظ کا فقرہ نہایت کراری آواز میں ادا کیا، اور مجھے اس پر غصہ آ گیا۔ یہ ردی بیچنے والا پچھلے کئی برس سے ہر روز ایک دو بار اس گلی میں سے گزرتا تھا اور میرے مکان کے سامنے ضرور رکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ میں پڑھنے لکھنے والا آدمی ہوں اور ایسے آدمیوں کے ہاں ردی بہت عام مل جاتی ہے۔ میں اس آواز کا عادی تھا۔ افسانہ لکھتے ہوئے بھی میں نے یہ آواز کئی بار سنی تھی اور میرے افسانے کی روانی میں اس نے کبھی کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ مگر آج مجھے اس ردی والے پر اتنا غصہ آیا کہ میں قلم رکھ کر اٹھا کھڑکی میں سے نہایت قہرآلود نظروں سے دیکھنا چاہا مگر میری نظر سب سے پہلے گلی کے نکڑ پر پڑی اور مجھے پہلی بار تجربہ ہوا کہ تصور بھی ٹھوس ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ بھکارن دوسری گلی میں مڑ رہی تھی۔
میں جیسے اس کے تعاقب میں بھاگا۔ میں کتنی گلیوں اور سڑکوں کو طے کرتا ہوا نہ جانے کہاں جا رہا تھا۔ نہ جانے میں ٹریفک سے کیسے بچا اور چوراہوں کو کیسے پار کیا۔ نہ جانے میں نے کتنے سگریٹ کب جلائے اور کہاں پھینکے۔ پھر جب میں مال روڈ کے ایک چوک میں ٹریفک سگنل کی سرخ بتی دیکھ کر رکا تو مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں کہیں جا رہا ہوں۔ میں کہاں جا رہا ہوں؟ "کیوں بھئی، میں کہاں جا رہا ہوں؟" میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔
میں عشق کے سب مرحلوں اور تمام منزلوں سے آگاہ ہوں۔ میں ذرا ذرا سی بات پر رو بھی دیا ہوں اور بڑے بڑے دکھوں کو پی بھی گیا ہوں۔ مگر مجھے ایسی وحشت کا تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک میلی کچیلی، بدبودار اور اجڈ بھکارن کی صرف ایک نیم رخی جھلک نے میرے خون کو کھولاؤ کے نقطے پر پہنچا دیا ہے اور میں وہاں جا رہا ہوں جہاں سے اگر واپس نہ آ سکوں تو شہر کے بچے مجھ پر پتھراؤ کردیں۔ تو کیا یہ سچ کہ ہر انسان میں تھوڑا سا جنون ضرور ہوتا ہے؟ مگر میرا یہی جنون کیا کم ہے کہ جب لوگ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے ہوتے ہیں تو میں افسانہ لکھ رہا ہوتا ہوں۔ اور جب میرے احباب شراب پی رہے ہوتے ہیں تو میں سوچ رہا ہوتا ہوں کہ ان کے لاشعور میں کس قیامت کے رن پڑرہے ہوں گے۔ مجھے جنون کی اسی مقدار پر قانع رہنا چاہئے۔
میں گھر لوٹ آیا۔ میں نے رات کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے لٹے ہوئے افسانے کا پہلا فقرہ سوچنے میں کاٹا۔ مگر جہاں پہاڑوں کی برف میرے ذہن میں آئی وہیں بھکارن نے سیڑھی پر سے ہاتھ بڑھا کر آنہ اٹھایا اور کشتِ خیال میں یونانی اصنام کے چہروں کی ندیاں امڈ پڑیں۔
میں صبح کو یوں بروقت اٹھا جیسے رات پوری نیند سویا ہوں۔ پھر اپنے کمرے میں اس اہتمام سے آ بیٹھا جیسے سورج کے نکلتے ہی دوپہر ہو گئی ہے اور بھکارن اب آتی ہی ہو گی۔ اس مسئلے پر دیر تک میرے اور میرے ذہن کے درمیان خاصی تلخ بحث ہوتی رہی۔ میں کہتا تھا دیکھو تو میرے ہاتھ میں قلم ہے۔ میں تو افسانہ لکھنے بیٹھا ہوں۔ مگر میرا ذہن کہتا تھا کہ نہیں تم جھوٹے ہو تم تو بھکارن کا انتظا کر رہے ہو۔ اس وقت تو میں نے الٹا اپنے ذہن کو جھوٹا ثابت کر دیا تھا۔ مگر جب دوپہر کو بھکارن آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میں اسی کا منتظر ہوں۔
آواز آئی "ہے سخی، خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے ، تیرا بچہ جیوے۔"
اور سوچا کہ کیا کسی شاعر نے اس سے بہتر شعر بھی کہا ہے؟
عجیب بات ہے کہ نہ تو میں پلنگ پر سے کود کر اٹھا اور نہ میں نے قلم کو قلمدان میں رکھا۔ میں نے بڑے ٹھنڈے انداز میں صرف اتنا کہا۔ "ارے تو آج پھر آ گئی؟"
اس پر مجھے لگا جیسے وہ ہنسی ہے۔ نہایت مختصر مگر نہایت سریلی ہنسی۔ جیسے چینی کی پیالی کو چینی کی پیالی چھو جائے۔ پھر وہ میرے کمرے کے دروازے پر سے بولی۔۔۔۔۔۔ "بابو تیرا بچہ جیوے۔"
میں نے دیکھا تو وہ کمرے کے دروازے میں یوں کھڑی تھی کہ اس کا پورا دھڑ باہر سیڑھی پر تھا۔ مجھے صرف اس کا ایک ہاتھ نظر آیا جس سے اس نے کواڑ پکڑ رکھا تھا۔ اس ہاتھ کا رنگ پہاڑوں کی برف کا سا تھا۔ اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کل سے یہیں کھڑی ہے۔ وہ ازل سے یہیں کھڑی ہے۔
یکایک میں ڈرا کہ وہ کواڑ پر ڈھولک نہ بجانے لگے۔ کل میں نے اس کی انگلیوں کی متوازن حرکت سے اپنی شدید ہتک محسوس کی تھی۔ بھیک اتنی بےنیازی سے نہیں مانگی جاتی، بھکارن کو بھیک سامنے آ کر مانگنی چاہیے۔ طوائفوں تک نے اپنے لئے اخلاق کا ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے۔ بھکارنوں کو کم سے کم بھیک مانگنے کا سلیقہ تو آنا چاہیے۔ سو شاید اس کی بے نیازی کو شکست دینے کے لئے، یا گزشتہ آٹھ پہر کی بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کے لئے یا یونہی بے ارادہ میرے منہ سے نکلا۔
"لے، لے جا۔"
"لا۔" وہ بولی۔ "اللہ تجھے بہت دیوے سخی۔ اللہ تیرا بچہ جیوے سخی۔"
ایک دم وہ ساری کی ساری اندر آ گئی۔ میں اپنے حکم کی تعمیل کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔ میں نے ایک آنہ اتنی تیزی سے اس کی بےحد گلابی ہتھیلی پر گرا دیا جیسے وہ آنے کے انتظار میں ذرا دیر اور اسی طرح میرے سامنے کھڑی رہی تو میں کھڑکی سے کود جاؤں گا۔
مگر وہ آنہ لے کر بھی اسی طرح کھڑی رہی۔ میں نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ شیف پر رکھے ہوئے مٹی کے ایک کھلونے کو دیکھ رہی تھی۔
میں نے اس ایک لمحے میں اس کے سراپا کا اس نظر سے جائزہ لیا کہ کوئی خامی نظر آئے تو اسے اپنے ذہن میں سے نوچ کر پھینکنے میں آسانی ہو۔ مگر یکایک اس نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔ "ہرن ہے؟"
میں نے کہا۔ "نہیں، ہرنی ہے۔"
وہ بے اختیار چینی کی پیالیوں سے چینی کی پیالیاں بجاتی دروازے سے نکل گئی۔ میں تیزی سے کھڑکی میں آیا۔ وہ ایک آنے کو بچوں کی طرح اچھالتی اور جھپٹتی ہوئی جا رہی تھی۔ پھر وہ دوسری گلی میں مڑ گئی۔
عورت فطرت کی نہایت خوبصورت تخلیق ہے مگر حسنِ تخلیق کی داد کا بھی اک قرینہ ہوتا ہے۔ نوشگفتہ پھول کو دیکھ کر ہمارے احساسات کو ایک انگڑائی سی آتی ہے اور ہم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ شفق میں رنگے ہوئے بادلوں کو ہم پیار سے دیکھتے ہیں اور اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ رات کو چھت پر گرتی ہوئی بوندوں کی موسیقی چند لمحوں کے لئے ہمیں آسمانوں سے اترا زینہ سا معلوم ہوتی ہے اور پھر ہم سو جاتے ہیں۔ میں نے خوبصورت عورتوں کو بھی ہمیشہ اس قرینے سے دیکھا ہے۔ حسن کی طرف ذرا سی زیادہ توجہ دیجئے تو پھر آپ کسی اور طرف ذرا مشکل ہی سے متوجہ ہو سکیں گے۔ مگر جب کوئی حسن زبردستی پر اتر آئے تو زندہ رہنے کی دو ہی راہیں باقی رہ جاتی ہیں۔ یا تو حسن سے نفرت کرنے لگو اور بھیڑیے کی طرح مار کھاتے ہوئے مر جاؤ۔ یا پھر دنیا کے دوسرے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لو اور سمندر کے ساحل کی سی زندگی گزار دو کہ وہ فقط ایک کام کرتا ہے۔ وہ سمندر کے مچلتے ہوئے حسن کے لئے اپنا آغوش ہر لمحے کھولے رکھتا۔ کبھی کبھار موجیں اسے چند سیپیاں دے جاتی ہیں مگر پھر ایک اور موج آتی ہے اور ان سیپیوں کو بھی سمیٹ کر لے جاتی ہے۔ اس کے باوجود ساحل کا آغوش ازل سے کھلا ہے اور ظاہر ہے کہ اس یک طرفہ کاروبار میں کوئی قرینہ نہیں ہے۔
یہ سوچ کر کہ حسن کی یہ موج مجھے بھی ساحل کی سی افتادگی کی طرف لیے جا رہی ہے۔ مجھے اپنے آپ پر ایک بار پھر ہنسی آ گئی۔ مجھے تو یہ سوچ کر قلوپطرہ پر بھی ہنسی آ جاتی ہے۔ کہ اس کی ناک ننھی سی تھی۔ اتنی بڑی ملکہ، اتنی ذرا سی ناک کے ساتھ کیسی عجیب لگتی ہو۔ اور میں تو سپارٹا اور ٹرائے کی فوجوں پر بھی یہ سوچ کر مسکرا دیتا ہوں کہ جب ہیلن کی جوانی ڈھل گئی ہو گی تو اسے دیکھ کر طرفین اپنی حماقت پر کیسے کیسے جھنیپتے پھرتے ہوں گی۔ ہنستے ہوئے میں نے قلم اٹھایا اور یوں لکھنے بیٹھ گیا جیسے آج افسانے کا ایک پہلا فقرہ ہی کیا، آخری فقرہ بھی لکھ ڈالوں گا۔
"اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح صاف تھا"۔۔۔۔۔۔ "اس کا رنگ ان پہاڑوں کی برف کی طرح صاف تھا جن پر"۔۔۔۔۔۔۔ "اس کا رنگ پہاڑوں کی اس برف کی طرح صاف تھا ۔۔۔۔۔۔ جو ۔۔۔۔۔۔" ۔۔۔۔۔۔ "اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح اس حد تک صاف تھا کہ ۔۔۔۔۔۔"
اور پھر چینی کی پیالیوں سے چینی کی پیالیاں بجنے لگیں۔
ایک موج آئی اور ساحل کو اپنی یادوں کی نمی بخش کر پلٹ گئی۔
اتنی گلابی، اس قدر گلابی، اس حد تک گلابی ہتھیلی پر صرف ایک آنہ چمکا اور میں نے اپنے آپ کو گالی دے دی۔۔۔۔۔ کمینہ، بڑا حسن کار بنتا ہے۔ فطرت کے اس شہکار کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی قیمت کیا صرف ایک آنہ ہے؟ تُف ہے تجھ پر اور تیری حسن کاری پر۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن کی دوپہر تک کا وقت میں نے اس مجرم کی طرح گزارا جو جرم کرنے کے بعد اپنے اندر جھانکے تو اس کا ضمیر اس پر تھوک دے۔ ان دنوں تو ایک آنے میں چپاتی بھی نہیں آتی!
مگر سارے لاہور میں صرف میں ہی تو نہیں ہوں جس سے اس نے ایک آنہ لیا ہوگا۔ نہ جانے پورے دن میں اس نے کتنوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوں گے؟ تو کیا جس طرح وہ میرے پاس آئی ہے اسی طرح دوسروں کے ہاں بھی جاتی ہو گی؟ سارا شہر مجھے اپنا دشمن نظر آنے لگا۔۔۔۔۔ اچھا تو ذہن میں نراجیت یوں پیدا ہوتی ہے۔
کل رات میری کشتِ خیال میں صرف یونانی اصنام کے چہروں کی ندیاں امڈتی رہی تھیں مگر آج رات تو ادھر ایک چہرہ نمودار ہوتا، ادھر ایک شعلہ سا بھڑک اٹھتا ہے۔ پھر دھواں سا چھا جاتا۔ پھر پتھر سے برستے پھر ایسی آوازیں سی آتیں جیسے کوئی شیشے کی کرچیاں پیس رہا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ کل سارا دن گھر سے باہر رہوں گا۔ کل کسی ڈاکٹر سے بھی مشورہ کروں گا۔ کل نماز بھی پڑھوں گا۔
مگر صبح بہت دیر سے آنکھ کھلی۔ نماز کا وقت نکل چکا تھا۔ نہانے اور ناشتہ کرنے میں بھی خاصی دیر لگی۔ اوپر ہی کی منزل میں بیٹھا اخبار پڑھنا شروع کیا تو دوپہر تک پڑھتا رہا۔ جب ملازم نے آ کر کہا کہ پڑوسی چند منٹ کے لئے اخبار مانگ رہا ہے تو میں نے وقت دیکھا۔ یکایک کسی چیز نے جیسے میرے اندر اچھل کر مجھے کمرے سے باہر دے مارا اور میں سیڑھیوں پر سے اتنی تیزی سے اترا کہ بچے بھی یوں نہیں اترتے ہوں گے۔ اپنا کمرہ کھول کر میں سیدھا کھڑکی کے پاس گیا اور گلی میں جھانکا۔ دو بچے سگریٹ کی ڈبیوں سے مکان بنا رہے تھے۔ اور گلی میں سے ایک بڑھیا گزر رہی تھی جو ہوا سے بھرے ہوئے برقعے میں بہت چھوٹی سی لگ رہی تھی۔
میں پھر کمرے کی طرف لپکا اور ملازم سے پوچھا۔ "کوئی مجھ سے ملنے تو نہیں آیا تھا؟"
وہ بولا۔ "آپ سو تو نہیں رہے تھے صاحب، کہ کوئی آتا تو میں نہ بتاتا۔"
مزید کریدنے کے لئے مجھے کوئی دوسرا قرینے کا سوال نہ سوجھ سکا اور ملازم جیسے اپنے آپ سے کہنے لگا۔ "بس صبح صبح ایک سبزی والا آیا تھا یا اخبار والا یا پھر ابھی ابھی وہ منگتی آئی تھی۔۔۔۔۔" مجھے اپنی طرف گھورتا دیکھ کر وہ بولا۔ "کوئی بھی تو نہیں آیا صاحب۔ کیا آپ نے کسی کو وقت دے رکھا تھا؟"
میں جواب دئیے بغیر پلٹ آیا۔ تو وہ آئی بھی اور چلی بھی گئی! تو وہ اتنی غیر اہم تھی کہ اس کے آنے کے باوجود کوئی نہیں آیا تھا۔
کیا فرشتوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ آج کے دن کو بھی میری زندگی میں شمار کریں۔
سیڑھیوں پر سے آہستہ آہستہ اترتا ہوا میں گلی میں آیا۔ پھر دوسری گلی میں سے ہوتا ہوا سڑک پر آیا۔ اور دور دور تک نظریں دوڑائیں کہ شاید وہ کسی راہگیر کا دامن تھامے کھڑی ہو۔ شاید کسی دکان کے سامنے پڑی ہوئی سڑی چیزوں میں سے کوئی کم سڑی ہوئی چیز چن رہی ہو۔ شاید وہ کسی درخت کے تنے کے ساتھ لگ کر اداس کھڑی ہو کہ آج اس کی لگی بندھی آمدنی میں سے ایک آنہ کٹ گیا۔
سڑک پر معمول کی زندگی رواں تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اور واقعی کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انسانوں کے اندر کے طوفان اند کے اندر ہی چلتے رہتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر سے اس کا طوفان باہر آ جائے تو کیسی قیامت برپا ہو جائے۔
میں واپس اپنی گلی میں آیا تو بچوں نے سگریٹ کی ڈبیوں سے پنج منزلہ مکان تعمیر کر لیا تھا۔ اور میرے ساتھ والے مکان کے دروازے پر ایک بی بی ردی والے کے ہاتھ اپنی اولاد کی پرانی کاپیاں بیچ رہی تھی۔
اور وہ میرے مکان کی دہلیز پر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ تو میری خیرات اس کے لئے اتنی اہم ہے؟۔۔۔۔۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور بیٹھے بیٹھے ایک طرف ہٹ کر مجھے راستہ دے دیا۔ اس کے پاؤں اتنے میلے تھے جیسے وہ غلطی سے کسی دوسرے کے پاؤں لگا کر چلی آئی ہے۔ البتہ آج اس کے ہاتھ دھلے ہوئے تھے اور ناخن کٹے ہوئے تھے۔" آج تو تمھارے ناخن کٹے ہوئے ہیں۔" میں نے یوں فاتحانہ انداز میں کہا جیسے محض میرے پاس آنے کی تقریب میں اس نے اپنے پیکر میں یہ خاص اصلاح کی ہے۔
اور اس نے اپنے ہاتھ یوں گود میں چھپا لئے جیسے کہیں سے چرا کر لائی ہے اور پکڑی گئی ہے۔ پھر چینی کی پیالی سے چینی کی پیالی چھو گئی اور میں اوپر لپکا۔ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر میں نے اسے بلانا چاہا مگر پھر رک گیا۔ جیسے میرے منہ سے ایک بھی لفظ نکلا تو سارے شہر میں گونج جائے گا۔ پھر میں نے اسے اشارتا اوپر آنے کو کہا اور وہ ادھر آنے لگی، مگر مجھے دروازے میں کھڑا دیکھا تو دو سیڑھیاں چھوڑ کر رک گئی۔ اس نے بھویں اٹھا کر اوپر میری طرف دیکھا اور میں یوں ایک طرف ہٹ گیا جیسے نہ ہٹا تو کہیں نیچے ڈوب جاؤں گا۔
میں نے اپنے تیےے کے نیچے سے ایک اٹھنی اٹھائی اور اس کی طرف بڑھا دی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا مگر اٹھنی دیکھ کر کھینچ لیا۔ "نہیں بابو، میرے پاس بھان نہیں ہے۔"
"تم اٹھنی لے لو۔" میں نے اس کے بھولپن سے خوش ہو کر کہا۔
"پوری؟" اس نے پوچھا۔
میں نے مسکرا کر کہا۔ "ہاں۔ تمہارے پاس بھان جو نہیں ہے۔"
ایک آنہ لینے والی بھکارن کے لئے اٹھنی ایسی ہے جیسے ایک افسانہ نگار کی ایک لاکھ کی لاٹری نکل آئے۔ سو میں نے طے کر لیا کہ اس نے اٹھنی کے لئے ہاتھ پھیاریا تو اسے کلائی سے پکڑ لوں گا۔ اور ظاہر ہے جائز طور سے پکڑوں گا۔ کیوں کہ میرے پورے اٹھ آنے اس کے پاس ہوں گے۔ پھر جب میں اس کی کلائی اپنی گرفت میں لے لوں گا تو اس سے کہوں گا۔ میں اس سے کہوں گا۔۔۔۔۔ میرے افسانے کا پہلا فقرہ ایک کوندے کی طرح میرے ذہن میں چمکا اور پہاڑوں کی برف پر شفق برس پڑی۔ مگر قبل اس کے کہ میرا ذہن پورے فقرے کو سنبھالتا میں نے دیکھا وہ جا رہی ہے۔
"اٹھنی تو لیتی جاؤ۔" میں کچھ ایسے لہجے میں بولا جیسے کوئی ننگا عشقیہ شعر پڑھ رہا ہوں۔
وہ پلٹ کر اور دروازے میں سے جھانک کر بولی۔ "لے تو لی سخی۔"
یہ میں نے بہت بعد میں سوچا کہ میرے اٹھنی دکھانے اور اس کے جانے کی ایک صدی میں وہ ایک لمحہ کب وارد ہوا تھا۔ جب میں نے اٹھنی دی تھی۔ اور جب میں نے یہ سکہ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا تو اس کی کلائی پکڑنے کا فیصلہ کیوں یاد نہیں رہا تھا۔
پھر ایک دم مجھے احساس ہوا کہ میرا کچھ کھو گیا ہے۔ اٹھنی کے علاوہ وہ میرے افسانے کا پہلا فقرہ بھی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ وہ مجھے صرف اپنا چہرہ دے گئی تھی جو اس کے جانے کے بعد دیر تک دروازے میں سے جھانکتا رہا۔ پھر وقفے وقفے سے دکھائی دینے لگا، پھر دھندلا گیا۔ پانچویں دن تو وہ بالکل غائب ہو گیا۔
میں نے چھٹے اور ساتویں دن شہر کی سب لائبریریوں میں یونانی سنگ تراشی پر لکھی ہوئی ضخیم کتابیں چھان ماریں مگر مجھے وینس، سائیکی اور افرڈوائیٹ کے چہروں میں وہ چہرہ نظر نہ آیا، جو ان سب سے کسی نہ کسی تفصیل میں مختلف تھا۔ شاید بھکارن کے نتھنوں کے خفیف ابھار نے اس کی ناک کے دونوں طرف وینس کی ناک کے مقابلے میں زیادہ متناسب قوسیں پیدا کر دی تھیں۔ یا شاید سائیکی کی گردن بھکارن کی گردن کے مقابلے میں کوتاہ تھی اور میلی بھی۔ یا ممکن ہے افرڈوائیٹ کے مقابلے میں بھکارن کے ہونٹوں کے گوشے زیادہ گہرے، زیادہ جذباتی تھے۔ میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بھکارن کا چہرہ اپنے مجموعی تاثر کی صورت میں مجھے ضرور یاد تھا۔ مگر جب میں اس کی صرف آنکھوں یا صرف گالوں یا صرف ہونٹوں کے بارے میں سوچتا تو سارا چہرہ برف کی طرح پگھلنے لگتا۔
ساتویں دن شام کے قریب مجھ پر یکایک انکشاف ہوا کہ میں نہایب بےمعنی زندگی گزار رہا ہوں۔ چہرے غالب کے شعر نہیں ہوتے کہ جب چاہو اٹھا کر پڑھ لو۔ یہ تو سامنے آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ چہرے تو لمحے ہیں اور لمحے کب واپس آئے ہیں۔ تم نے ایک چہرہ دیکھا۔ مانا کہ یہ بےحد حسین، بےحد عجیب چہرہ تھا، لیکن جیسے یہ چہرہ، جس کے بارے میں تم سوچ تک نہ سکتے تھے کہ کسی عورت کا ایسا چہرہ بھی ہو گا، یکایک تمہارے سامنے آیا اور گزر گیا، اسی طرح کئی اور چہرے آتے رہیں گے اور گزرتے رہیں گے اور اگر تم ہر چہرے پر سے نظریں ہٹانا بھول گئے تو آخر ایک روز تمہیں معلوم ہو گا کہ تمہارے ہمدردوں نے تمہیں پاگل خانے بھجوا دیا ہے۔
ہفتے میں یہ پہلی رات تھی جب میں سکون سے سویا۔ جب اٹھا تو سورج کافی چڑھ آیا تھا۔ ناشتے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے افسانے کا پہلا فقرہ لکھنے بیٹھ گیا۔ جلتی ہوئی ایک دیا سلائی، بجھے ہوئے چراغ کی طرف بڑھی اور پہاڑوں پر برف چمکنے لگی۔ ہر طرف ہزاروں آئینے لگ گئے۔ جن میں ہزاروں سورج چمک رہے تھے۔ پھر خیرگی کے اس طوفان میں ایک چہرہ ابھرا اور آواز آئی۔۔۔۔۔ "ہے سخی!"
میں پلنگ پر سے کود کر اترا اور دروازے میں سے جھانکا۔ پھر بجلی کی سی تیزی سے سیڑھیاں اتر کر گلی میں پہنچ گیا۔ پھر دوسری گلی میں چلا گیا۔ پھر سڑک پر آ گیا۔ وہاں معمول کی زندگی رواں تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اور واقعی کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔ صرف اتنی سی بات ہوئی تھی کہ محلے کے ایک تانگے والے نے میرے پاس آ کر حیرت سے پوچھا۔ "کیوں بابوجی، خیریت تو ہے؟ آپ ننگے پاؤں کیوں کھڑے ہیں؟"
تانگے والے نے میرے ننگے پاؤں دیکھ لئے تھے، مگر میرے ذہن کو، جو زخم زخم ہو رہا تھا، ایک تانگے والا کیا، کسی نے بھی نہ دیکھا۔ کوئی کسی کے زخم نہیں دیکھتا۔ شاید اس لئے کہ زخم دیکھنے دکھانے کی چیز نہیں ہیں۔ یا شاید اس لئے کہ سب کے اپنے اپنے زخم ہوتے ہیں۔
تو کیا یہ زخم جو میرے ذہن میں ہے کسی اور کے ذہن میں بھی ہے؟ اگر ہے تو وہ کہاں ہے کہ میں اسے اپنے سینے سے لگا کر ذرا سا رو لوں۔ انسان آخر زخموں کے ان ناتوں کو کیوں چھپائے پھرتے ہیں جو ظاہر ہوں تو سب انسان پیار سے ایک دوسرے کو لپٹا لیں۔
تانگے والے کو کوئی جواب دئیے بغیر میں واپس اپنے کمرے میں آیا۔ اور بستر پر سر سے پاؤں تک چادر اوڑھ کر یوں پھیل کر لیٹ گیا جیسے کڑے کوسوں کا سفر طے کر کے آ رہا ہوں۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ذہن سے رجوع کیا، مگر اس نے بھی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ سب سو رہے تھے۔ چاروں طرف نہایت ڈراؤنا سناٹامسلط تھا۔ آج ردی والا بھی کہیں مر گیا تھا۔
میں نے غنودگی کے عالم میں دیکھا کہ بھکارن میرے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے۔ "خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے سخی، تیرا بچہ جیوے۔"
میں نے چادر نوچ کر پھینک دی۔ وہ دروازے پر سچ مچھ کھڑی تھی۔ اور کہہ رہی تھی۔ "خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے سخی، تیرا بچہ جیوے۔"
میں کچھ ایسے لہجے میں بولا جیسے وہ باقاعدہ میرے نکاح میں ہے اور میں اس سے ہر قسم کی جواب طلبی کر سکتا ہوں۔ "تم اتنے دنوں کہاں تھیں؟" میں نے ڈانٹ کر پوچھا۔ "کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج تم پورے ایک ہفتہ کے بعد میرے پاس آئی ہو؟"
میرے لہجے کا اثر صرف اس کی آنکھوں پر ہوا جو کسی گلابی دوا کے حلقے میں سجی ہوئی تھیں۔ ان آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوئی، وہ چمک جو انتہائی پیار یا انتہائی غصے یا انتہائی ڈر کی حالت میں پیدا ہوتی ہے۔
"بولو، کہاں تھیں تم؟" میں کڑکا
"میں تو یہیں تھی بابو۔ اور کہاں تھی۔" وہ بچے کی طرح بولی۔
"تو پھر تم ایک ہفتے تک آئیں کیوں نہیں؟" میں نے اسی لہجے میں پوچھا۔
اور وہ بولی۔ "میں اٹھنی جو لے گئی تھی سخی۔ ایک آنہ اس دن کا باقی سات دنوں کے ۔ آج آٹھواں دن تھا تو آ گئی۔"
بھکارن کا چہرہ پھرکی کی طرح گھوما اور ایک آن میں پہاڑوں کی برف تڑاخ پڑاخ کر چٹخی اور اس کے بڑے بڑے چٹانوں کے سے تودے چیختے چنگھاڑتے ہوئے آئے اور میرے سر پر ٹوٹنے لگے۔۔۔۔۔
وحشیوں کی طرح میں نے بستر پر سے تکیہ اٹھا کر دور پھینک دیا اور اس کے نیچے پانچ پانچ دس دس روپے کے جتنے بھی نوٹ رکھے تھے انہیں مٹھی میں لے کر بھکارن کی طرف بڑھا، اس کی کلائی کو لکڑی کی طرح پکڑ کر میں نے یہ نوٹ اس کی مٹھی میں ٹھونس دیے اور چیخا۔
"ان روپوں میں جتنے بھی آنے ہیں۔ اتنے دنوں سے اگر تم ایک دن بھی پہلے یہاں آئیں تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔ جا، دفع ہو جا۔"
1964ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پروف ریڈ مکمل
----------

پہاڑوں کی برف
احمد ندیم قاسمی​

میں نے قلم کو کاغذ پر جھکایا ہی تھا کہ آواز آئی۔ "ہے بی بی، خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے۔ تیرا بچہ جیوے۔"
میں نے قلم کو واپس قلمدان میں رکھ دیا۔ اگر اس قلم کی قیمت چالیس پچاس روپے نہ ہوتی تو میں یقینا اسے پٹخ دیتا۔
صبح بارہ ایک بجے تک کی سوچ بچار کے بعد مجھے مزے کا ایک فقرہ سوجھا تھا مگربھکارن کی آواز نے اسے یوں نوچ لیا تھا جیسے پھونک مارنے سے چراغ کی لو غائب ہو جاتی ہے۔
کیا بھلا سا فقرہ تھا! میرے افسانے کا یہ پہلا ہی فقرہ قاری کے ذہن کو جکڑ لیتا۔ ملازم مکان کی تیسری منزل میں تھا۔ بھکارن کی آواز اس تک شاید نہ پہنچ سکتی تھی ورنہ میری ہدایت کے مطابق بھکارن کو، اس طرف سے، دفع ہو جانے کا مشورہ فورا ًملتا۔ بھکارن بھی ایک ہی آواز لگا کر شاید چل دی تھی۔
یکایک کھوئے ہوئے فقرے کے چند الفاظ گڈ مڈ صورت میں میرے ذہن میں ابھرے۔ ایک جلتی ہوئی دیا سلائی بجھے ہوئے چراغ کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔ اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح صاف تھا۔۔۔۔۔ مگر نہیں، میں نے برف کے رنگ میں کوئی اور رنگ بھی ملایا تھا۔ لالہِ صحرائی کا رنگ، یا شاید شفقِ شام کا رنگ، یا ممکن ہے۔۔۔۔۔،
"ہے بی بی۔ خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے تیرا بچہ جیوے!"
تو وہ کم بخت ابھی تک وہیں نیچے صدر دروازے میں کھڑی تھی۔
دیا سلائی دھوئیں کی ایک منحنی لیکر چھوڑ کر بجھ گئی۔ اور میں پکارا۔
"بی بیاں گھر میں نہیں ہیں۔"
"بی بی نہیں تو بابو، تو ہی خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے۔ ہے سخی تیرا بچہ جیوے۔"
میں خاموش رہا۔ بھکاریوں سے زبان لڑانا میرا شیوہ نہیں۔ ان کے پاس سب سے بڑی دلیل بھوک کی ہوتی ہے۔ اور مجھے اس دلیل کا کوئی جواب نہیں سوجھ سکا۔
کچھ دیر کے بعد ذہن کی دھند میں حرکت پیدا ہوئی اور افسانے کا ابتدائی فقرہ جیسے آنکھیں ملنے لگا۔ اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح
"دے دے نا سخی۔ تو ہی دے دے نا۔" اب کے بھکارن کی آواز جیسے میرے عین سر پر گونجی۔ میں نے دیکھا تو وہ میرے کمرے کے دروازے میں یوں کھڑی تھی کہ اس کا پورا دھڑ باہر سیڑھی پر تھا۔ مجھے اس کا صرف ایک ہاتھ نظر آیا جس سے اس نے کواڑ کو پکڑ رکھا تھا۔ اس ہاتھ کا رنگ پہاڑوں کی برف کا سا تھا، چمکتا ہوا سفید، مگر کہیں کہیں ہلکی سی نیلاہٹ دیتا ہوا۔ یہ شاید اس کی رنگوں کا رنگ تھا، مگر اس کے ناخنوں نے مجھے زیادہ سوچنے کی مہلت نہ دی۔ یہ ناخن میل سے اٹے ہوئے تھے اور کٹے پھٹے دندانہ دار تھے۔ پھر میرے دیکھتے دیکھتے اس کی انگلیوں میں ایک نہایت متوازن حرکت پیدا ہوئی۔۔۔۔۔ تو یہ ایسی بےفکری بھکارن ہے کہ بھیک ملنے تک وقت گزارنے کے لئے کواڑ پر ڈھولک بجانے لگی ہے!۔۔۔۔۔ کیا ایسوں کو بھیک دینا جائز ہے؟۔۔۔۔۔ مگر کیا اتنے سفید ہاتھوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دینا جائز ہے؟۔۔۔۔۔ لیکن کیا ہر مجبوری جائز ہو سکتی ہے ؟
میں نے تکیے کے نیچے سے ایک آنہ اٹھایا اور بولا۔ "یہ لے۔"
وہ بولی۔ "ادھر پھینک دے بابو۔"
نہ جانے مجھے اس بھکارن کے طرزِ عمل پر غصہ سا کیوں آنے لگا تھا۔ میں نے آنہ پھینکنے کی بجائے پٹک دیا۔ یہ آنہ کواڑ پر بج کر کمرے کے اندر، دہلیز سے کوئی ایک گز کے فاصلے پر رکا۔ بھکارن نے سیڑھی پر سے ہی جھک کر ہاتھ بڑھایا۔ یوں اس کے چہرے کا ایک رخ بھی میرے سامنے آ گیا مگر یہ سب کچھ ایک سیکنڈ کے تیسرے حصے میں ہوا۔ یوں لگا جیسے بجلی سی میرے کمرے میں کوند کر اڑ گئی ہے۔ مجھے دروازے تک پہنچنے میں دو سیکنڈ لگے ہوں گے مگر سیڑھیاں خالی تھیں۔ میں پلٹ کر تیزی سے گلی میں کھلنے والی کھڑکی کے پاس آیا۔ وہ گلی کے نکڑ پر جا رہی تھی۔ پاؤں سے ننگی تھی۔ میلے سرخ رنگ کی شلوار پر اس نے سیاہ رنگ کی گھیرے دار قمیض پہن رکھی تھی۔ اور اس کے سر پر پیٹھ پر شلوار ہی کے رنگ کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ پھر وہ دوسری گلی میں مڑ گئی۔
"بھکارن کے چہرے کی یک رخی نے مجھے اپنے افسانے سے ہٹا کر یونانی صنمیات کی دنیا میں لا ڈالا۔ وینس اور سائیکی اور افروڈایٹ۔۔۔۔۔ ہر اساطیری خاتون کے ساتھ یہ چہرہ مماثل ہو جاتا تھا۔ یہ چہرہ جو صرف ایک رخ سے میرے سامنے آیا تھا اور جتنی دیر میں "سامنے" کا لفظ بولا جا سکتا، غائب ہو گیا تھا۔ اس اڑتے ہوئے ثانیے میں میرے ذہن نے اس چہرے کی کتنی تفصیلیں محفوظ کر لی تھیں۔ پتلی اور بےحد سیاہ بھویں، موٹی اور بےحد سیاہ آنکھیں، لمبی اور بےحد سیاہ پلکیں، ستواں ناک میں نتونسں کا بےحد خفیف ابھار، بےحد سرخ ہونٹ، بےحد نکیلی ٹھوڑی، بےحد سفید گال بالکل پہاڑوں کی برف کی طرح۔
پھر مجھے اپنے آپ پر ہنسی آنے لگی۔ دراصل یہ سب کچھ اس ذہنی فضا کا نتیجہ تھا جو میں نے اپنے افسانے کا آغاز کرتے ہوئے قائم کر لی تھی۔ انسان بھی کتنا بےاختیار جانور ہے! اس پر خود اپنے ذہن کا جبر کتنا شدید ہوتا! لاحول ولا قوۃ۔ میں قلم اٹھا کر افسانے کا پہلا کھویا ہوا فقرہ ڈھونڈنے لگا۔
مگر چراغ کی بجھی لو پہلے کسی کو ملی ہے جو مجھے ملتی۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں افسانے کا پہلا فقرہ نہ لکھ سکا تو شاید ایک یہی افسانہ کیا، میں کبھی کوئی افسانہ نہیں لکھ سکوں گا۔ جیسے یہی ایک کھونٹی تھی جس پر مجھے اپنے خیالوں کا سارا پشتارا ٹانگنا تھا اور اب یہ کھونٹی ٹوٹ گئی ہے تو میرا خیال پتھر بن گیا ہے۔ اور میں پتھروں کے اس بوجھ تلے دوہرا ہوا جا رہا ہوں۔
پھر ردی خریدنے والے نے گلی میں، ایک سانس میں کوئی بیس الفاظ کا فقرہ نہایت کراری آواز میں ادا کیا، اور مجھے اس پر غصہ آ گیا۔ یہ ردی بیچنے والا پچھلے کئی برس سے ہر روز ایک دو بار اس گلی میں سے گزرتا تھا اور میرے مکان کے سامنے ضرور رکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ میں پڑھنے لکھنے والا آدمی ہوں اور ایسے آدمیوں کے ہاں ردی بہت عام مل جاتی ہے۔ میں اس آواز کا عادی تھا۔ افسانہ لکھتے ہوئے بھی میں نے یہ آواز کئی بار سنی تھی اور میرے افسانے کی روانی میں اس نے کبھی کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ مگر آج مجھے اس ردی والے پر اتنا غصہ آیا کہ میں قلم رکھ کر اٹھا کھڑکی میں سے نہایت قہرآلود نظروں سے دیکھنا چاہا مگر میری نظر سب سے پہلے گلی کے نکڑ پر پڑی اور مجھے پہلی بار تجربہ ہوا کہ تصور بھی ٹھوس ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ بھکارن دوسری گلی میں مڑ رہی تھی۔
میں جیسے اس کے تعاقب میں بھاگا۔ میں کتنی گلیوں اور سڑکوں کو طے کرتا ہوا نہ جانے کہاں جا رہا تھا۔ نہ جانے میں ٹریفک سے کیسے بچا اور چوراہوں کو کیسے پار کیا۔ نہ جانے میں نے کتنے سگریٹ کب جلائے اور کہاں پھینکے۔ پھر جب میں مال روڈ کے ایک چوک میں ٹریفک سگنل کی سرخ بتی دیکھ کر رکا تو مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں کہیں جا رہا ہوں۔ میں کہاں جا رہا ہوں؟ "کیوں بھئی، میں کہاں جا رہا ہوں؟" میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔
میں عشق کے سب مرحلوں اور تمام منزلوں سے آگاہ ہوں۔ میں ذرا ذرا سی بات پر رو بھی دیا ہوں اور بڑے بڑے دکھوں کو پی بھی گیا ہوں۔ مگر مجھے ایسی وحشت کا تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک میلی کچیلی، بدبودار اور اجڈ بھکارن کی صرف ایک نیم رخی جھلک نے میرے خون کو کھولاؤ کے نقطے پر پہنچا دیا ہے اور میں وہاں جا رہا ہوں جہاں سے اگر واپس نہ آ سکوں تو شہر کے بچے مجھ پر پتھراؤ کردیں۔ تو کیا یہ سچ کہ ہر انسان میں تھوڑا سا جنون ضرور ہوتا ہے؟ مگر میرا یہی جنون کیا کم ہے کہ جب لوگ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے ہوتے ہیں تو میں افسانہ لکھ رہا ہوتا ہوں۔ اور جب میرے احباب شراب پی رہے ہوتے ہیں تو میں سوچ رہا ہوتا ہوں کہ ان کے لاشعور میں کس قیامت کے رن پڑرہے ہوں گے۔ مجھے جنون کی اسی مقدار پر قانع رہنا چاہئے۔
میں گھر لوٹ آیا۔ میں نے رات کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے لٹے ہوئے افسانے کا پہلا فقرہ سوچنے میں کاٹا۔ مگر جہاں پہاڑوں کی برف میرے ذہن میں آئی وہیں بھکارن نے سیڑھی پر سے ہاتھ بڑھا کر آنہ اٹھایا اور کشتِ خیال میں یونانی اصنام کے چہروں کی ندیاں امڈ پڑیں۔
میں صبح کو یوں بروقت اٹھا جیسے رات پوری نیند سویا ہوں۔ پھر اپنے کمرے میں اس اہتمام سے آ بیٹھا جیسے سورج کے نکلتے ہی دوپہر ہو گئی ہے اور بھکارن اب آتی ہی ہو گی۔ اس مسئلے پر دیر تک میرے اور میرے ذہن کے درمیان خاصی تلخ بحث ہوتی رہی۔ میں کہتا تھا دیکھو تو میرے ہاتھ میں قلم ہے۔ میں تو افسانہ لکھنے بیٹھا ہوں۔ مگر میرا ذہن کہتا تھا کہ نہیں تم جھوٹے ہو تم تو بھکارن کا انتظا کر رہے ہو۔ اس وقت تو میں نے الٹا اپنے ذہن کو جھوٹا ثابت کر دیا تھا۔ مگر جب دوپہر کو بھکارن آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میں اسی کا منتظر ہوں۔
آواز آئی "ہے سخی، خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے ، تیرا بچہ جیوے۔"
اور سوچا کہ کیا کسی شاعر نے اس سے بہتر شعر بھی کہا ہے؟
عجیب بات ہے کہ نہ تو میں پلنگ پر سے کود کر اٹھا اور نہ میں نے قلم کو قلمدان میں رکھا۔ میں نے بڑے ٹھنڈے انداز میں صرف اتنا کہا۔ "ارے تو آج پھر آ گئی؟"
اس پر مجھے لگا جیسے وہ ہنسی ہے۔ نہایت مختصر مگر نہایت سریلی ہنسی۔ جیسے چینی کی پیالی کو چینی کی پیالی چھو جائے۔ پھر وہ میرے کمرے کے دروازے پر سے بولی۔۔۔۔۔۔ "بابو تیرا بچہ جیوے۔"
میں نے دیکھا تو وہ کمرے کے دروازے میں یوں کھڑی تھی کہ اس کا پورا دھڑ باہر سیڑھی پر تھا۔ مجھے صرف اس کا ایک ہاتھ نظر آیا جس سے اس نے کواڑ پکڑ رکھا تھا۔ اس ہاتھ کا رنگ پہاڑوں کی برف کا سا تھا۔ اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کل سے یہیں کھڑی ہے۔ وہ ازل سے یہیں کھڑی ہے۔
یکایک میں ڈرا کہ وہ کواڑ پر ڈھولک نہ بجانے لگے۔ کل میں نے اس کی انگلیوں کی متوازن حرکت سے اپنی شدید ہتک محسوس کی تھی۔ بھیک اتنی بےنیازی سے نہیں مانگی جاتی، بھکارن کو بھیک سامنے آ کر مانگنی چاہیے۔ طوائفوں تک نے اپنے لئے اخلاق کا ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے۔ بھکارنوں کو کم سے کم بھیک مانگنے کا سلیقہ تو آنا چاہیے۔ سو شاید اس کی بے نیازی کو شکست دینے کے لئے، یا گزشتہ آٹھ پہر کی بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کے لئے یا یونہی بے ارادہ میرے منہ سے نکلا۔
"لے، لے جا۔"
"لا۔" وہ بولی۔ "اللہ تجھے بہت دیوے سخی۔ اللہ تیرا بچہ جیوے سخی۔"
ایک دم وہ ساری کی ساری اندر آ گئی۔ میں اپنے حکم کی تعمیل کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔ میں نے ایک آنہ اتنی تیزی سے اس کی بےحد گلابی ہتھیلی پر گرا دیا جیسے وہ آنے کے انتظار میں ذرا دیر اور اسی طرح میرے سامنے کھڑی رہی تو میں کھڑکی سے کود جاؤں گا۔
مگر وہ آنہ لے کر بھی اسی طرح کھڑی رہی۔ میں نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ شیف پر رکھے ہوئے مٹی کے ایک کھلونے کو دیکھ رہی تھی۔
میں نے اس ایک لمحے میں اس کے سراپا کا اس نظر سے جائزہ لیا کہ کوئی خامی نظر آئے تو اسے اپنے ذہن میں سے نوچ کر پھینکنے میں آسانی ہو۔ مگر یکایک اس نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔ "ہرن ہے؟"
میں نے کہا۔ "نہیں، ہرنی ہے۔"
وہ بے اختیار چینی کی پیالیوں سے چینی کی پیالیاں بجاتی دروازے سے نکل گئی۔ میں تیزی سے کھڑکی میں آیا۔ وہ ایک آنے کو بچوں کی طرح اچھالتی اور جھپٹتی ہوئی جا رہی تھی۔ پھر وہ دوسری گلی میں مڑ گئی۔
عورت فطرت کی نہایت خوبصورت تخلیق ہے مگر حسنِ تخلیق کی داد کا بھی اک قرینہ ہوتا ہے۔ نوشگفتہ پھول کو دیکھ کر ہمارے احساسات کو ایک انگڑائی سی آتی ہے اور ہم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ شفق میں رنگے ہوئے بادلوں کو ہم پیار سے دیکھتے ہیں اور اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ رات کو چھت پر گرتی ہوئی بوندوں کی موسیقی چند لمحوں کے لئے ہمیں آسمانوں سے اترا زینہ سا معلوم ہوتی ہے اور پھر ہم سو جاتے ہیں۔ میں نے خوبصورت عورتوں کو بھی ہمیشہ اس قرینے سے دیکھا ہے۔ حسن کی طرف ذرا سی زیادہ توجہ دیجئے تو پھر آپ کسی اور طرف ذرا مشکل ہی سے متوجہ ہو سکیں گے۔ مگر جب کوئی حسن زبردستی پر اتر آئے تو زندہ رہنے کی دو ہی راہیں باقی رہ جاتی ہیں۔ یا تو حسن سے نفرت کرنے لگو اور بھیڑیے کی طرح مار کھاتے ہوئے مر جاؤ۔ یا پھر دنیا کے دوسرے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لو اور سمندر کے ساحل کی سی زندگی گزار دو کہ وہ فقط ایک کام کرتا ہے۔ وہ سمندر کے مچلتے ہوئے حسن کے لئے اپنا آغوش ہر لمحے کھولے رکھتا۔ کبھی کبھار موجیں اسے چند سیپیاں دے جاتی ہیں مگر پھر ایک اور موج آتی ہے اور ان سیپیوں کو بھی سمیٹ کر لے جاتی ہے۔ اس کے باوجود ساحل کا آغوش ازل سے کھلا ہے اور ظاہر ہے کہ اس یک طرفہ کاروبار میں کوئی قرینہ نہیں ہے۔
یہ سوچ کر کہ حسن کی یہ موج مجھے بھی ساحل کی سی افتادگی کی طرف لیے جا رہی ہے۔ مجھے اپنے آپ پر ایک بار پھر ہنسی آ گئی۔ مجھے تو یہ سوچ کر قلوپطرہ پر بھی ہنسی آ جاتی ہے۔ کہ اس کی ناک ننھی سی تھی۔ اتنی بڑی ملکہ، اتنی ذرا سی ناک کے ساتھ کیسی عجیب لگتی ہو۔ اور میں تو سپارٹا اور ٹرائے کی فوجوں پر بھی یہ سوچ کر مسکرا دیتا ہوں کہ جب ہیلن کی جوانی ڈھل گئی ہو گی تو اسے دیکھ کر طرفین اپنی حماقت پر کیسے کیسے جھنیپتے پھرتے ہوں گی۔ ہنستے ہوئے میں نے قلم اٹھایا اور یوں لکھنے بیٹھ گیا جیسے آج افسانے کا ایک پہلا فقرہ ہی کیا، آخری فقرہ بھی لکھ ڈالوں گا۔
"اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح صاف تھا"۔۔۔۔۔۔ "اس کا رنگ ان پہاڑوں کی برف کی طرح صاف تھا جن پر"۔۔۔۔۔۔۔ "اس کا رنگ پہاڑوں کی اس برف کی طرح صاف تھا ۔۔۔۔۔۔ جو ۔۔۔۔۔۔" ۔۔۔۔۔۔ "اس کا رنگ پہاڑوں کی برف کی طرح اس حد تک صاف تھا کہ ۔۔۔۔۔۔"
اور پھر چینی کی پیالیوں سے چینی کی پیالیاں بجنے لگیں۔
ایک موج آئی اور ساحل کو اپنی یادوں کی نمی بخش کر پلٹ گئی۔
اتنی گلابی، اس قدر گلابی، اس حد تک گلابی ہتھیلی پر صرف ایک آنہ چمکا اور میں نے اپنے آپ کو گالی دے دی۔۔۔۔۔ کمینہ، بڑا حسن کار بنتا ہے۔ فطرت کے اس شہکار کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی قیمت کیا صرف ایک آنہ ہے؟ تُف ہے تجھ پر اور تیری حسن کاری پر۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن کی دوپہر تک کا وقت میں نے اس مجرم کی طرح گزارا جو جرم کرنے کے بعد اپنے اندر جھانکے تو اس کا ضمیر اس پر تھوک دے۔ ان دنوں تو ایک آنے میں چپاتی بھی نہیں آتی!
مگر سارے لاہور میں صرف میں ہی تو نہیں ہوں جس سے اس نے ایک آنہ لیا ہوگا۔ نہ جانے پورے دن میں اس نے کتنوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوں گے؟ تو کیا جس طرح وہ میرے پاس آئی ہے اسی طرح دوسروں کے ہاں بھی جاتی ہو گی؟ سارا شہر مجھے اپنا دشمن نظر آنے لگا۔۔۔۔۔ اچھا تو ذہن میں نراجیت یوں پیدا ہوتی ہے۔
کل رات میری کشتِ خیال میں صرف یونانی اصنام کے چہروں کی ندیاں امڈتی رہی تھیں مگر آج رات تو ادھر ایک چہرہ نمودار ہوتا، ادھر ایک شعلہ سا بھڑک اٹھتا ہے۔ پھر دھواں سا چھا جاتا۔ پھر پتھر سے برستے پھر ایسی آوازیں سی آتیں جیسے کوئی شیشے کی کرچیاں پیس رہا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ کل سارا دن گھر سے باہر رہوں گا۔ کل کسی ڈاکٹر سے بھی مشورہ کروں گا۔ کل نماز بھی پڑھوں گا۔
مگر صبح بہت دیر سے آنکھ کھلی۔ نماز کا وقت نکل چکا تھا۔ نہانے اور ناشتہ کرنے میں بھی خاصی دیر لگی۔ اوپر ہی کی منزل میں بیٹھا اخبار پڑھنا شروع کیا تو دوپہر تک پڑھتا رہا۔ جب ملازم نے آ کر کہا کہ پڑوسی چند منٹ کے لئے اخبار مانگ رہا ہے تو میں نے وقت دیکھا۔ یکایک کسی چیز نے جیسے میرے اندر اچھل کر مجھے کمرے سے باہر دے مارا اور میں سیڑھیوں پر سے اتنی تیزی سے اترا کہ بچے بھی یوں نہیں اترتے ہوں گے۔ اپنا کمرہ کھول کر میں سیدھا کھڑکی کے پاس گیا اور گلی میں جھانکا۔ دو بچے سگریٹ کی ڈبیوں سے مکان بنا رہے تھے۔ اور گلی میں سے ایک بڑھیا گزر رہی تھی جو ہوا سے بھرے ہوئے برقعے میں بہت چھوٹی سی لگ رہی تھی۔
میں پھر کمرے کی طرف لپکا اور ملازم سے پوچھا۔ "کوئی مجھ سے ملنے تو نہیں آیا تھا؟"
وہ بولا۔ "آپ سو تو نہیں رہے تھے صاحب، کہ کوئی آتا تو میں نہ بتاتا۔"
مزید کریدنے کے لئے مجھے کوئی دوسرا قرینے کا سوال نہ سوجھ سکا اور ملازم جیسے اپنے آپ سے کہنے لگا۔ "بس صبح صبح ایک سبزی والا آیا تھا یا اخبار والا یا پھر ابھی ابھی وہ منگتی آئی تھی۔۔۔۔۔" مجھے اپنی طرف گھورتا دیکھ کر وہ بولا۔ "کوئی بھی تو نہیں آیا صاحب۔ کیا آپ نے کسی کو وقت دے رکھا تھا؟"
میں جواب دئیے بغیر پلٹ آیا۔ تو وہ آئی بھی اور چلی بھی گئی! تو وہ اتنی غیر اہم تھی کہ اس کے آنے کے باوجود کوئی نہیں آیا تھا۔
کیا فرشتوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ آج کے دن کو بھی میری زندگی میں شمار کریں۔
سیڑھیوں پر سے آہستہ آہستہ اترتا ہوا میں گلی میں آیا۔ پھر دوسری گلی میں سے ہوتا ہوا سڑک پر آیا۔ اور دور دور تک نظریں دوڑائیں کہ شاید وہ کسی راہگیر کا دامن تھامے کھڑی ہو۔ شاید کسی دکان کے سامنے پڑی ہوئی سڑی چیزوں میں سے کوئی کم سڑی ہوئی چیز چن رہی ہو۔ شاید وہ کسی درخت کے تنے کے ساتھ لگ کر اداس کھڑی ہو کہ آج اس کی لگی بندھی آمدنی میں سے ایک آنہ کٹ گیا۔
سڑک پر معمول کی زندگی رواں تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اور واقعی کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انسانوں کے اندر کے طوفان اند کے اندر ہی چلتے رہتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر سے اس کا طوفان باہر آ جائے تو کیسی قیامت برپا ہو جائے۔
میں واپس اپنی گلی میں آیا تو بچوں نے سگریٹ کی ڈبیوں سے پنج منزلہ مکان تعمیر کر لیا تھا۔ اور میرے ساتھ والے مکان کے دروازے پر ایک بی بی ردی والے کے ہاتھ اپنی اولاد کی پرانی کاپیاں بیچ رہی تھی۔
اور وہ میرے مکان کی دہلیز پر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ تو میری خیرات اس کے لئے اتنی اہم ہے؟۔۔۔۔۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور بیٹھے بیٹھے ایک طرف ہٹ کر مجھے راستہ دے دیا۔ اس کے پاؤں اتنے میلے تھے جیسے وہ غلطی سے کسی دوسرے کے پاؤں لگا کر چلی آئی ہے۔ البتہ آج اس کے ہاتھ دھلے ہوئے تھے اور ناخن کٹے ہوئے تھے۔" آج تو تمھارے ناخن کٹے ہوئے ہیں۔" میں نے یوں فاتحانہ انداز میں کہا جیسے محض میرے پاس آنے کی تقریب میں اس نے اپنے پیکر میں یہ خاص اصلاح کی ہے۔
اور اس نے اپنے ہاتھ یوں گود میں چھپا لئے جیسے کہیں سے چرا کر لائی ہے اور پکڑی گئی ہے۔ پھر چینی کی پیالی سے چینی کی پیالی چھو گئی اور میں اوپر لپکا۔ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر میں نے اسے بلانا چاہا مگر پھر رک گیا۔ جیسے میرے منہ سے ایک بھی لفظ نکلا تو سارے شہر میں گونج جائے گا۔ پھر میں نے اسے اشارتا اوپر آنے کو کہا اور وہ ادھر آنے لگی، مگر مجھے دروازے میں کھڑا دیکھا تو دو سیڑھیاں چھوڑ کر رک گئی۔ اس نے بھویں اٹھا کر اوپر میری طرف دیکھا اور میں یوں ایک طرف ہٹ گیا جیسے نہ ہٹا تو کہیں نیچے ڈوب جاؤں گا۔
میں نے اپنے تیےے کے نیچے سے ایک اٹھنی اٹھائی اور اس کی طرف بڑھا دی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا مگر اٹھنی دیکھ کر کھینچ لیا۔ "نہیں بابو، میرے پاس بھان نہیں ہے۔"
"تم اٹھنی لے لو۔" میں نے اس کے بھولپن سے خوش ہو کر کہا۔
"پوری؟" اس نے پوچھا۔
میں نے مسکرا کر کہا۔ "ہاں۔ تمہارے پاس بھان جو نہیں ہے۔"
ایک آنہ لینے والی بھکارن کے لئے اٹھنی ایسی ہے جیسے ایک افسانہ نگار کی ایک لاکھ کی لاٹری نکل آئے۔ سو میں نے طے کر لیا کہ اس نے اٹھنی کے لئے ہاتھ پھیاریا تو اسے کلائی سے پکڑ لوں گا۔ اور ظاہر ہے جائز طور سے پکڑوں گا۔ کیوں کہ میرے پورے اٹھ آنے اس کے پاس ہوں گے۔ پھر جب میں اس کی کلائی اپنی گرفت میں لے لوں گا تو اس سے کہوں گا۔ میں اس سے کہوں گا۔۔۔۔۔ میرے افسانے کا پہلا فقرہ ایک کوندے کی طرح میرے ذہن میں چمکا اور پہاڑوں کی برف پر شفق برس پڑی۔ مگر قبل اس کے کہ میرا ذہن پورے فقرے کو سنبھالتا میں نے دیکھا وہ جا رہی ہے۔
"اٹھنی تو لیتی جاؤ۔" میں کچھ ایسے لہجے میں بولا جیسے کوئی ننگا عشقیہ شعر پڑھ رہا ہوں۔
وہ پلٹ کر اور دروازے میں سے جھانک کر بولی۔ "لے تو لی سخی۔"
یہ میں نے بہت بعد میں سوچا کہ میرے اٹھنی دکھانے اور اس کے جانے کی ایک صدی میں وہ ایک لمحہ کب وارد ہوا تھا۔ جب میں نے اٹھنی دی تھی۔ اور جب میں نے یہ سکہ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا تو اس کی کلائی پکڑنے کا فیصلہ کیوں یاد نہیں رہا تھا۔
پھر ایک دم مجھے احساس ہوا کہ میرا کچھ کھو گیا ہے۔ اٹھنی کے علاوہ وہ میرے افسانے کا پہلا فقرہ بھی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ وہ مجھے صرف اپنا چہرہ دے گئی تھی جو اس کے جانے کے بعد دیر تک دروازے میں سے جھانکتا رہا۔ پھر وقفے وقفے سے دکھائی دینے لگا، پھر دھندلا گیا۔ پانچویں دن تو وہ بالکل غائب ہو گیا۔
میں نے چھٹے اور ساتویں دن شہر کی سب لائبریریوں میں یونانی سنگ تراشی پر لکھی ہوئی ضخیم کتابیں چھان ماریں مگر مجھے وینس، سائیکی اور افرڈوائیٹ کے چہروں میں وہ چہرہ نظر نہ آیا، جو ان سب سے کسی نہ کسی تفصیل میں مختلف تھا۔ شاید بھکارن کے نتھنوں کے خفیف ابھار نے اس کی ناک کے دونوں طرف وینس کی ناک کے مقابلے میں زیادہ متناسب قوسیں پیدا کر دی تھیں۔ یا شاید سائیکی کی گردن بھکارن کی گردن کے مقابلے میں کوتاہ تھی اور میلی بھی۔ یا ممکن ہے افرڈوائیٹ کے مقابلے میں بھکارن کے ہونٹوں کے گوشے زیادہ گہرے، زیادہ جذباتی تھے۔ میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بھکارن کا چہرہ اپنے مجموعی تاثر کی صورت میں مجھے ضرور یاد تھا۔ مگر جب میں اس کی صرف آنکھوں یا صرف گالوں یا صرف ہونٹوں کے بارے میں سوچتا تو سارا چہرہ برف کی طرح پگھلنے لگتا۔
ساتویں دن شام کے قریب مجھ پر یکایک انکشاف ہوا کہ میں نہایب بےمعنی زندگی گزار رہا ہوں۔ چہرے غالب کے شعر نہیں ہوتے کہ جب چاہو اٹھا کر پڑھ لو۔ یہ تو سامنے آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ چہرے تو لمحے ہیں اور لمحے کب واپس آئے ہیں۔ تم نے ایک چہرہ دیکھا۔ مانا کہ یہ بےحد حسین، بےحد عجیب چہرہ تھا، لیکن جیسے یہ چہرہ، جس کے بارے میں تم سوچ تک نہ سکتے تھے کہ کسی عورت کا ایسا چہرہ بھی ہو گا، یکایک تمہارے سامنے آیا اور گزر گیا، اسی طرح کئی اور چہرے آتے رہیں گے اور گزرتے رہیں گے اور اگر تم ہر چہرے پر سے نظریں ہٹانا بھول گئے تو آخر ایک روز تمہیں معلوم ہو گا کہ تمہارے ہمدردوں نے تمہیں پاگل خانے بھجوا دیا ہے۔
ہفتے میں یہ پہلی رات تھی جب میں سکون سے سویا۔ جب اٹھا تو سورج کافی چڑھ آیا تھا۔ ناشتے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے افسانے کا پہلا فقرہ لکھنے بیٹھ گیا۔ جلتی ہوئی ایک دیا سلائی، بجھے ہوئے چراغ کی طرف بڑھی اور پہاڑوں پر برف چمکنے لگی۔ ہر طرف ہزاروں آئینے لگ گئے۔ جن میں ہزاروں سورج چمک رہے تھے۔ پھر خیرگی کے اس طوفان میں ایک چہرہ ابھرا اور آواز آئی۔۔۔۔۔ "ہے سخی!"
میں پلنگ پر سے کود کر اترا اور دروازے میں سے جھانکا۔ پھر بجلی کی سی تیزی سے سیڑھیاں اتر کر گلی میں پہنچ گیا۔ پھر دوسری گلی میں چلا گیا۔ پھر سڑک پر آ گیا۔ وہاں معمول کی زندگی رواں تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اور واقعی کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔ صرف اتنی سی بات ہوئی تھی کہ محلے کے ایک تانگے والے نے میرے پاس آ کر حیرت سے پوچھا۔ "کیوں بابوجی، خیریت تو ہے؟ آپ ننگے پاؤں کیوں کھڑے ہیں؟"
تانگے والے نے میرے ننگے پاؤں دیکھ لئے تھے، مگر میرے ذہن کو، جو زخم زخم ہو رہا تھا، ایک تانگے والا کیا، کسی نے بھی نہ دیکھا۔ کوئی کسی کے زخم نہیں دیکھتا۔ شاید اس لئے کہ زخم دیکھنے دکھانے کی چیز نہیں ہیں۔ یا شاید اس لئے کہ سب کے اپنے اپنے زخم ہوتے ہیں۔
تو کیا یہ زخم جو میرے ذہن میں ہے کسی اور کے ذہن میں بھی ہے؟ اگر ہے تو وہ کہاں ہے کہ میں اسے اپنے سینے سے لگا کر ذرا سا رو لوں۔ انسان آخر زخموں کے ان ناتوں کو کیوں چھپائے پھرتے ہیں جو ظاہر ہوں تو سب انسان پیار سے ایک دوسرے کو لپٹا لیں۔
تانگے والے کو کوئی جواب دئیے بغیر میں واپس اپنے کمرے میں آیا۔ اور بستر پر سر سے پاؤں تک چادر اوڑھ کر یوں پھیل کر لیٹ گیا جیسے کڑے کوسوں کا سفر طے کر کے آ رہا ہوں۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ذہن سے رجوع کیا، مگر اس نے بھی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ سب سو رہے تھے۔ چاروں طرف نہایت ڈراؤنا سناٹامسلط تھا۔ آج ردی والا بھی کہیں مر گیا تھا۔
میں نے غنودگی کے عالم میں دیکھا کہ بھکارن میرے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے۔ "خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے سخی، تیرا بچہ جیوے۔"
میں نے چادر نوچ کر پھینک دی۔ وہ دروازے پر سچ مچھ کھڑی تھی۔ اور کہہ رہی تھی۔ "خدا کی راہ میں ایک آنہ دے دے سخی، تیرا بچہ جیوے۔"
میں کچھ ایسے لہجے میں بولا جیسے وہ باقاعدہ میرے نکاح میں ہے اور میں اس سے ہر قسم کی جواب طلبی کر سکتا ہوں۔ "تم اتنے دنوں کہاں تھیں؟" میں نے ڈانٹ کر پوچھا۔ "کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج تم پورے ایک ہفتہ کے بعد میرے پاس آئی ہو؟"
میرے لہجے کا اثر صرف اس کی آنکھوں پر ہوا جو کسی گلابی دوا کے حلقے میں سجی ہوئی تھیں۔ ان آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوئی، وہ چمک جو انتہائی پیار یا انتہائی غصے یا انتہائی ڈر کی حالت میں پیدا ہوتی ہے۔
"بولو، کہاں تھیں تم؟" میں کڑکا
"میں تو یہیں تھی بابو۔ اور کہاں تھی۔" وہ بچے کی طرح بولی۔
"تو پھر تم ایک ہفتے تک آئیں کیوں نہیں؟" میں نے اسی لہجے میں پوچھا۔
اور وہ بولی۔ "میں اٹھنی جو لے گئی تھی سخی۔ ایک آنہ اس دن کا باقی سات دنوں کے ۔ آج آٹھواں دن تھا تو آ گئی۔"
بھکارن کا چہرہ پھرکی کی طرح گھوما اور ایک آن میں پہاڑوں کی برف تڑاخ پڑاخ کر چٹخی اور اس کے بڑے بڑے چٹانوں کے سے تودے چیختے چنگھاڑتے ہوئے آئے اور میرے سر پر ٹوٹنے لگے۔۔۔۔۔
وحشیوں کی طرح میں نے بستر پر سے تکیہ اٹھا کر دور پھینک دیا اور اس کے نیچے پانچ پانچ دس دس روپے کے جتنے بھی نوٹ رکھے تھے انہیں مٹھی میں لے کر بھکارن کی طرف بڑھا، اس کی کلائی کو لکڑی کی طرح پکڑ کر میں نے یہ نوٹ اس کی مٹھی میں ٹھونس دیے اور چیخا۔
"ان روپوں میں جتنے بھی آنے ہیں۔ اتنے دنوں سے اگر تم ایک دن بھی پہلے یہاں آئیں تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔ جا، دفع ہو جا۔"
1964ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top