نویں سالگرہ ایک افسانہ۔۔۔ روزانہ: اعلانوں بھرا شھر: پہلا صفحہ

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہفتہ لائبریری کا آغاز ایک دلچسپ سلسلے بعنوان " ایک افسانہ ۔۔۔ روزانہ" سے کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ محترم محمد احمد بھائی نے تجویز کیا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے سات افسانوں کو منتخب کیا اور ان کے اسکین فراہم کئے۔ یہ اسکین صفحات یہاں پیش کئے جائیں گے اور قطع نظر اس کے کہ آپ لائبریری رکن ہیں یا نہیں آپ تمام اراکین محفل کو دعوت ہے کہ آپ ان صفحات کو ٹائپ کیجئے اور انہیں پروف ریڈ کیجئے۔ اگر آپ اراکین محفل روزانہ کی بنیاد پر ایک مکمل افسانہ تحریر اور پروف ریڈ کر سکے تو اختتام ہفتہ پر سات افسانوں پر مشتمل ایک ای بک لائبریری کا حصہ بن جائے گی۔

تو آئیے پھر آغاز کرتے ہیں اور اس سلسلے میں پہلے افسانے کا عنوان ہے " اعلانوں بھرا شہر"۔ یہ افسانہ کل تین صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا صفحہ یہاں شامل کیا گیا ہے۔ اس صفحہ کی ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ مکمل کرنا آج کا ہدف ہے۔ آپ اراکین محفل میں سے جو رکن اس صفحہ کو ٹائپ کرنا چاہیں اور آج ہی ٹائپنگ مکمل کر سکیں وہ یہاں اپنے نام نشاندہی کر دیں۔ اسی طرح جو رکن اس صفحہ کی ٹائپنگ کے بعد پروف ریڈنگ کرنا چاہیں وہ بھی اپنا نام یہاں نشاندہی کردیں۔ شکریہ

ٹائپ کیا ہوا متن اورتصحیح کیا ہوا متن اسی دھاگے میں ارسال کرنا ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پہلا صفحہ

2hhktmt.jpg
 
سیدہ شگفتہ بٹیا، بہتر ہوگا اگر ایک افسانے کے سارے صفحات ایک ہی لڑی میں ارسال فرما دیں۔ اگر ہر صفحے کے لیے علیحدہ لڑیاں بنائیں تو سالگرہ کے زمرے میں باقی اور لوئی لڑی نظر نہیں آئے گی اور سبھی کو کوفت کا سامنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ ایک ایک پیغام ایک ایک لڑی سے چننا آپ کے لیے سہل ہوتا ہو لیکن یہ تجربہ کئیوں کے لیے خوشگوار نہیں ہے، لہٰذا آپ کو چاہیے کہ دوسروں کا خیال ضرور رکھیں۔ :) :) :)
 

اوشو

لائبریرین
اعلانوں بھرا شہر
سلیم آغا قزلباش

لاؤڈ سپیکر پر دن بھر اعلانات نشر کرتے رہنا، یہی اس کی نوکری تھی۔ بعض اوقات وقفے وقفے سے اسے مختلف نوعیت کے اعلانات کرنا پڑے تھے، مثلا ۔۔۔۔"آج شہر میں "زچہ بچہ نگہداشت" کے نئے مرکز کی تعمیر کا آغاز ہو رہ اہے، معروف سماجی شخصیت محترمہ خوش بخت اس کا سنگ بنیاد رکھیں گی، اہل شہر سے اس مبارک موقع پر شرکت کی استدعا ہے۔۔۔۔" بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف آج بعد از دوپہر کمپنی باغ سے ایک جلوس نکالا جا رہا ہے۔ جلوس کی قیادت مشہور رہنما جناب "ہرفرن مولا" کریں گے اور بعد میں شرکاء سے خطاب فرمائیں گے۔ عوام سے پرزور اپیل کی جاتی ہے کہ اس میں شرکت فرما کر یکجہتی کا ثبوت دیں۔" "حضرات، ایک خوشخبری سنئیے۔ صرف سات یوم میں تمام بیماریوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کرشماتی گولی عجوبہ کا کورس مکمل کریں اور تپِ دق، یرقان، تپِ محرکہ، فالج، لقوہ، خونی پیچش اور دیگر اعصابی کمزوریوں سے مکمل چھٹکارا حاصل کریں۔ ملنے کا پتہ: دواخانہ کشف و کرامات بالمقابل گورستان"۔ مگر جب وہ کسی کی گمشدگی کا لاؤڈ سپیکر پر اعلان کرتا تو اسے بےچینی محسوس ہونے لگتی۔ جب پہلی بار اس نے ایک گمشدہ شخص کے بارے میں اعلان کیا تھا تو اس کی عجیب سی حالت ہو گئی تھی۔۔۔ "حضرات! ایک ضروری اعلان سنیئے۔" اکھڑے سانسوں اور لڑکھڑاتی زبان سے اس نے غالبا تین چار مرتبہ اس جملے کو اٹک اٹک کر دہرایا تھا۔ تھوڑے وقفے کے بعد جب اس کی زبان کی لکنت اور آواز کی لرزش کم ہوئی تو اس نے ایک گہرا سانس لیا اور رندھی ہوئی آواز میں اعلان کو یوں مکمل کیا۔۔۔ "ایک شخص جس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہے، سر کے بال کھچڑی، رنگ گندمی اور قد درمیانہ ہے، سفید قمیص پہنے ہوئے! پاؤں میں چمڑے کی چپل، بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتا ہے۔ اگر کسی کو اس کے بارے میں کچھ پتا ہو تو براہِ مہربانی قریبی تھانے میں رابطہ قائم کریں۔ اطلاع پہنچانے والے کو حسبِ توفیق انعام بھی دیا جائے گا۔ "اعلان کو چند مرتبہ دہرانے کے بعد جب اس نے اپنے چاروں طرف بھنبھناتے ہوئے، کاروبارِ دنیا مصروف انسانی انبوہ کو بغور دیکھنا شروع کیا تو یہ جان کر اسے سخت اچنبھا ہوا کہ جس حلیے کے آدمی کی گمشدگی کا اعلان وہ کر رہا تھا، اس سے ملتے جلتے سینکڑوں لوگ، گلیوں بازاروں میں گھوم پھر رہے تھے۔ تو کیا یہ سب لوگ گمشدہ ہیں! حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس دن آس پاس سے گزرتے ہوئے لاتعداد نفوس اسے ایسے بھی دکھائی دئیے کہ اس کا دل بے اختیار چاہا کہ روک کر ان کا نام پتا دریافت کرے، مگر اسے ہمت نہ پڑی۔
اسے جب کبھی اتفاق سے کسی بچے کی گمشدگی کا اعلان کرنا پڑتا تو وہ موم بتی کی طرح اندر سے پگھلنے لگتا۔ شاید اس لئے کہ وہ آج بھی اندر سے ایک ایسا بچہ تھا جو لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گیا تھا۔ باپ کی صورت اسے بالکل یاد نہیں رہی تھی، صرف اس کی نوکدار گھنی مونچھوں کی ایک دھندلی سی تصویر اس کے ذہن کے کسی کونے میں مکڑی کے جالے کی طرح لٹکی رہ گئی تھی،
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سعود بھائی اس بارے میں تو پہلے ہی ڈسکس ہو چکا ہے کہ طویل عنوانات یہاں ارسال نہیں ہوں گے بلکہ لائبریری میں ارسال کیے جائیں گے۔ تاہم لائبریری میں صرف لائبریری اراکین ہی ارسال کر سکتے ہیں جبکہ یہ ایکٹیویٹی تمام اراکین محفل کے لیے ہے لہذا آپ لائبریری میں ہی کسی زمرہ کو تمام اراکین محفل کے لیے قابل رسائی بنا سکیں تو آسانی ہو جائے گی جیسا کہ پہلے بھی ایسا ہی ایک زمرہ لائبریری میں موجود تھا۔ بصورت دیگر لائبریری سے ہٹ کر کسی دیگر زمرہ کی نشاندہی کر دیں جہاں ان عنوانات کو ارسال کیا جا سکے جو تمام اراکین محفل کے لیے قابل رسائی ہو ارسال کرنے کے ذیل میں۔ شکریہ
 
سعود بھائی اس بارے میں تو پہلے ہی ڈسکس ہو چکا ہے کہ طویل عنوانات یہاں ارسال نہیں ہوں گے بلکہ لائبریری میں ارسال کیے جائیں گے۔ تاہم لائبریری میں صرف لائبریری اراکین ہی ارسال کر سکتے ہیں جبکہ یہ ایکٹیویٹی تمام اراکین محفل کے لیے ہے لہذا آپ لائبریری میں ہی کسی زمرہ کو تمام اراکین محفل کے لیے قابل رسائی بنا سکیں تو آسانی ہو جائے گی جیسا کہ پہلے بھی ایسا ہی ایک زمرہ لائبریری میں موجود تھا۔ بصورت دیگر لائبریری سے ہٹ کر کسی دیگر زمرہ کی نشاندہی کر دیں جہاں ان عنوانات کو ارسال کیا جا سکے جو تمام اراکین محفل کے لیے قابل رسائی ہو ارسال کرنے کے ذیل میں۔ شکریہ
سوال یہ ہے کہ مختصر عنوانات کے ہر صفحے کو زبردستی علیحدہ لڑیوں میں منقسم کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ایسا کیا پریشانی ہے جو ان مختصر افسانوں کے تمام صفحات ایک ہی لڑی میں پوسٹ کرنے اور اسی میں سارے کام کروانے کی راہ میں حارج ہے؟ :) :) :)
 
آپ نے دو پیراگراف پر مشتمل تمہید اس افسانے کے تمام صفحات کی علیحدہ لڑیوں میں ہو بہو نقل کی ہے۔ اس پر طرہ اینکہ تیسرے صفحے کی لڑی کو "آخری" صفحہ لکھا ہے، جس کے چلتے بغیر لڑی کھول کر دیکھے، فہرست دیکھ کر کسی کے فرشتے بھی اندازہ نہیں لگا سکتے آخری صفحے سے پہلے والا صفحہ دوسرا رہا ہوگا یا دو ہزارواں۔ :) :) :)
 

اوشو

لائبریرین
مکمل افسانہ

اعلانوں بھرا شہر
سلیم آغا قزلباش​

لاؤڈ سپیکر پر دن بھر اعلانات نشر کرتے رہنا، یہی اس کی نوکری تھی۔ بعض اوقات وقفے وقفے سے اسے مختلف نوعیت کے اعلانات کرنا پڑے تھے، مثلا ۔۔۔۔"آج شہر میں "زچہ بچہ نگہداشت" کے نئے مرکز کی تعمیر کا آغاز ہو رہ اہے، معروف سماجی شخصیت محترمہ خوش بخت اس کا سنگ بنیاد رکھیں گی، اہل شہر سے اس مبارک موقع پر شرکت کی استدعا ہے۔۔۔۔" بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف آج بعد از دوپہر کمپنی باغ سے ایک جلوس نکالا جا رہا ہے۔ جلوس کی قیادت مشہور رہنما جناب "ہرفرن مولا" کریں گے اور بعد میں شرکاء سے خطاب فرمائیں گے۔ عوام سے پرزور اپیل کی جاتی ہے کہ اس میں شرکت فرما کر یکجہتی کا ثبوت دیں۔" "حضرات، ایک خوشخبری سنئیے۔ صرف سات یوم میں تمام بیماریوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کرشماتی گولی عجوبہ کا کورس مکمل کریں اور تپِ دق، یرقان، تپِ محرکہ، فالج، لقوہ، خونی پیچش اور دیگر اعصابی کمزوریوں سے مکمل چھٹکارا حاصل کریں۔ ملنے کا پتہ: دواخانہ کشف و کرامات بالمقابل گورستان"۔ مگر جب وہ کسی کی گمشدگی کا لاؤڈ سپیکر پر اعلان کرتا تو اسے بےچینی محسوس ہونے لگتی۔ جب پہلی بار اس نے ایک گمشدہ شخص کے بارے میں اعلان کیا تھا تو اس کی عجیب سی حالت ہو گئی تھی۔۔۔ "حضرات! ایک ضروری اعلان سنیئے۔" اکھڑے سانسوں اور لڑکھڑاتی زبان سے اس نے غالبا تین چار مرتبہ اس جملے کو اٹک اٹک کر دہرایا تھا۔ تھوڑے وقفے کے بعد جب اس کی زبان کی لکنت اور آواز کی لرزش کم ہوئی تو اس نے ایک گہرا سانس لیا اور رندھی ہوئی آواز میں اعلان کو یوں مکمل کیا۔۔۔ "ایک شخص جس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہے، سر کے بال کھچڑی، رنگ گندمی اور قد درمیانہ ہے، سفید قمیص پہنے ہوئے! پاؤں میں چمڑے کی چپل، بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتا ہے۔ اگر کسی کو اس کے بارے میں کچھ پتا ہو تو براہِ مہربانی قریبی تھانے میں رابطہ قائم کریں۔ اطلاع پہنچانے والے کو حسبِ توفیق انعام بھی دیا جائے گا۔ "اعلان کو چند مرتبہ دہرانے کے بعد جب اس نے اپنے چاروں طرف بھنبھناتے ہوئے، کاروبارِ دنیا مصروف انسانی انبوہ کو بغور دیکھنا شروع کیا تو یہ جان کر اسے سخت اچنبھا ہوا کہ جس حلیے کے آدمی کی گمشدگی کا اعلان وہ کر رہا تھا، اس سے ملتے جلتے سینکڑوں لوگ، گلیوں بازاروں میں گھوم پھر رہے تھے۔ تو کیا یہ سب لوگ گمشدہ ہیں! حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس دن آس پاس سے گزرتے ہوئے لاتعداد نفوس اسے ایسے بھی دکھائی دئیے کہ اس کا دل بے اختیار چاہا کہ روک کر ان کا نام پتا دریافت کرے، مگر اسے ہمت نہ پڑی۔
اسے جب کبھی اتفاق سے کسی بچے کی گمشدگی کا اعلان کرنا پڑتا تو وہ موم بتی کی طرح اندر سے پگھلنے لگتا۔ شاید اس لئے کہ وہ آج بھی اندر سے ایک ایسا بچہ تھا جو لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گیا تھا۔ باپ کی صورت اسے بالکل یاد نہیں رہی تھی، صرف اس کی نوکدار گھنی مونچھوں کی ایک دھندلی سی تصویر اس کے ذہن کے کسی کونے میں مکڑی کے جالے کی طرح لٹکی رہ گئی تھی،البتہ ماں کا خاکہ سفید ٹوپی کے گھیردار برقع میں لپٹے ایک دودھیا پیکر کے روپ میں اس کے دل و دماغ کے پالنے میں جوں کا توں محفوظ تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لاؤڈ سپیکر پر مختلف اعلانات نشر کرنے کی ذمے داری نبھاتے ہوئے، اگر اتفاق سے اس کی وضع کی کوئی سفید برقع پوش خاتون کہیں نظر آ جاتی تو نہ جانے کیوں اسے یہی گمان ہوتا کہ اس کی ماں آج بھی گلیوں بازاروں میں پریشان حال اسے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ ایک بار تو اس وضع قطع کی ایک برقع پوش خاتون کو پاس سے گزرتے ہوئے دیکھ کر اس کے منہ سے بے اختیار "اماں" نکل گیا تھا، مگر یہ لفظ ایک گھٹی ہوئی چیخ کی صورت، شور شرابے میں تحلیل ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔ اس کو فقط اتنا یاد رہا تھا کہ چند لمحوں کے لئے اس کی ماں نے اپنی انگلی اس کے ہاتھ سے چھڑائی تھی، شاید وہ بزاز کی دکان سے کپڑا خرید رہی تھی۔ اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہا تھا۔ وہ تو بس ایک نرم و نازک تنکے کی طرح، ہجوم کے تند و تیز ریلے میں بہتا ہی چلا گیا تھا۔ انسانی ہجوم کے اس ریلے میں متعدد برقع پوش عورتیں بھی موجود تھیں۔ وہ کبھی کسی ایک برقع پوش کے پیچھے کچھ دور تک روتا بسورتا چلے جاتا اور جب اسے پتا چلتا کہ وہ اس کی ماں نہیں تو وہ کسی دوسری برقع پوش کا پیچھا کرنے لگتا اور اسی تعاقب میں وہ نہ جانے کہاں سے کہاں نکل گیا! مہ و سال کا دھارا بہتا رہا اور اس کا بچپن ایک بےبادبان کشتی کی طرح ہچکولے کھاتا گزرتا چلا گیا۔
زندگی کے ابتدائی سال اس نے ایک یتیم خانے میں بسر کئے۔ پھر وہ وہاں سے بھاگ نکلا اور ایک مضافاتی علاقے کی مسجد سے وابستہ ہو گیا۔ مسجد کے مولوی صاحب ایک ہمدرد آدمی تھے۔ انہوں نے اس کے کھانے پینے کا بندوبست کر دیا اور اسے لکھنا پڑھنا بھی سکھا دیا۔ چند سال اس نے مولوی صاحب کی سرپرستی میں سکون و اطمینان سے کاٹے۔ مگر ایک دن مولوی جی کو اس کی کسی بدتمیزی پر اچانک غصہ آ گیا اور انہوں نے چھڑی سے اس کی پٹائی کر دی۔ اگلے دن وہ کسی کو بتائے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ کچھ عرصہ ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد اس نے شہر کی راہ پکڑی اور وہاں پہنچ کر کسی نہ کسی طرح ایک ڈھابے میں گاہکوں کو کھانا کھلانے کی نوکری حاصل کر لی۔ کئی سال تک وہ یہ نوکری کرتا رہا۔ لیکن پھر اچانک ڈھابے کا مالک، خان بابا اچانک بیمار پڑ گیا اور کچھ عرصہ بعد چل بسا اور یوں ڈھابا بند ہو گیا۔۔۔ اب وہ پوری طرح جوان ہو چکا تھا اور ہر طرح کی محنت مزدوری کر کے روٹی کما سکتا تھا۔ ضرورت اور حالات کے مطابق اس نے ہر قسم کا کام کیا، مگر اس کے پاؤں کی گردش برقرار رہی۔ آخرکار اسے لاؤڈسپیکر کے ذریعے سارے شہر میں طرح طرح کے اعلانات نشر کرنے کی ملازمت مل گئی اور یہ ملازمت حاصل کر کے اسے ایک انجانی تسکین کا احساس ہونے لگا۔ خاص طور پر جب وہ کسی گمشدہ بچے کے بارے میں اعلان کرتا تو اس کی آواز میں بھرپور درد امنڈ آتا۔ اس ملازمت سے اس کی ایک نفسیاتی اور جذباتی وابستگی قائم ہو گئی تھی۔ نسبتا کم ماہوار تنخواہ ملنے کے باوجود وہ پوری دیانتداری سے اس کام کو انجام دیتا تھا۔ گمشدہ لوگوں کی بازیابی میں بالواسطہ طریقے سے معاونت کر کے اسے بےپایاں طمانیت قلب حاصل ہوتی تھی۔ تاہم کچھ عرصہ سے نہ جانے کیوں، لاپتا اور گمشدہ افراد کے سلسلے میں اعلانات نشر کرتے ہوئے اسے کچھ یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے شہر کے بیشتر لوگ لاپتا ہو چکے ہیں، یعنی گھروں میں ہوں تو باہر کے معاملات اور مسائل میں گم رہتے ہیں اور گھروں سے باہر ہوں تو ان کا ذہن گھر کی کھونٹی سے بندھا رہتا ہے، گویا وہ وہاں نہیں ہوتے جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔
وہ جس کھولی نما کوارٹر میں گزشتہ کئی سال سے سر چھپائے ہوئے تھا، اس کی چھت کافی عرصہ سے مرمت کا تقاضا کر رہی تھی۔ تاہم ہر بار جب وہ اس کی مرمت کرانے کا ارادہ کرتا تو کوئی نہ کوئی ایسی مصیبت گلے پڑ جاتی کہ اس مقصد کے لئے پس انداز کئے ہوئے روپے خرچ ہو جاتے اور چھت کا مسئلہ وہیں کا وہیں اٹکا رہ جاتا۔ غریب آدمی کے سر پر چاہے کسی کا ہاتھ ہو یا نہ ہو چھت کا سایہ ضرور قائم رہنا چاہیے۔ ایک شام بڑا زبردست طوفان آیا۔ لگتا تھا، مکانوں کی چھتیں اڑ جائیں گی۔ طوفان باد و باراں کےساتھ اولے بھی خوب برسے، زمین سفید ہو گئی، جیسے ابابیلوں نے سارے شہر پر سفید کنکروں کی بوچھاڑ کر دی ہو۔ بجلی کی رو بھی منقطع ہو گئی۔ اس کا چار سالہ بیٹا ڈر کے مارے رونے لگا اور روتے ہوئے ماں کی گود میں گھس کر بیٹھ گیا۔ اچانک چھت کی کڑیاں یک بیک کڑکڑائیں، پھر کچھ مٹی اور چند اینٹیں نیچے آ گریں۔ اس کی بیوی کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں۔ وہ خود دن بھر کا تھکا ماندہ ہونے کے بعد گہری نیند میں تھا۔ اس کی بیوی نے ہذیانی آواز میں چلاتے ہوئے شانہ جھنجھوڑ کر اسے جگایا۔ صورت حال سے باخبر ہوتے ہی وہ بدحواس ہو گیا، لیکن پھر فورا بیوی اور بچے سمیت کوارٹر سے نکل آیا۔ بمشکل تمام وہ کوارٹر سے باہر نکلے ہی تھے کہ اس کی چھت دھڑام سے زمیں بوس ہو گئی۔ ساتھ کے کوارٹروں کے مزدور پیشہ مکین بھی گھبرا کر باہر نکل آئے اور ان کا ٹھٹھ لگ گیا۔ اس حادثے سے ابھی وہ پوری طرح سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو بے تحاشا آوازیں دیتے ہوئے سنا۔ وہ مٹھو کا نام پکارے جا رہی تھی۔ کیا ہوا اس کے بیٹے کو! یہ سوچ کر وہ تیزی سے لوگوں کو جمگھٹ کو چیرتا ہوا آواز کے تعاقب میں لپکا۔ اس کی بیوی حواس باختہ فٹ پاتھ پر کھڑی مٹھو مٹھو پکارے چلی جا رہی تھی، مگر خود مٹھو کا کہیں نام و نشاں تک نہیں تھا۔ باہر کے طوفان کا زور تو تقریبا ٹوٹ گتیا تھا، مگر اس کی زندگی میں بھونچال آ گیا تھا۔ مٹھو نہ جانے کیسے اپنی اماں کا ہاتھ چھڑا کر گہرے اندھیرے میں کہیں گم ہو گیا تھا۔ وہ شاید کوارٹر کی چھت اچانک دھڑام سے گرنے، لوگوں کے وہاں یکدم اکٹھا ہونے اور افراتفری برپا ہو جانے کے باعث ڈر کر بھاگ گیا تھا۔ آس پاس کی گلیوں میں اسے ڈھونڈنے کے بعد وہ سڑکوں پر اس کی تلاش میں نکل پڑا۔ راہ گیروں کو روک روک کر، انہیں مٹھو کا پورا حلیہ بتا کر اس کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کرتا رہا، مگر اس کی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ غم اور تھکن کے بوجھ سے وہ نڈھال ہو چکا تھا، لیکن وہ پھر بھی خود کو جیسے تیسے گھسیٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ مٹھو کی تلاش میں نہ جانے کب تک وہ ننگے پاؤں سڑکوں پر بھٹکتا رہا، اس بات کا اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ تب اچانک وہ دونوں ہاتھوں کا لاؤڈ سپیکر بنا کر اعلان کرنے لگا۔ "حضرات! حضرات! ایک لڑکا، ایک مٹھو عمر چار سال، رنگ گندمی، پیارا پیارا چہرہ۔ مٹھو۔ مٹھو۔" اس کی آواز رندھ گئی اور لاؤڈ اسپیکر والے ہاتھ منہ سے ہٹ کر ہوا میں جھولنے لگے، مگر پھر غیر ارادی طور پر یا کسی غیبی قوت کے اشارے پر اس کے پاؤں قریبی ریلوے اسٹیشن کی جانب اٹھنے لگے، وہاں پہنچ کر وہ ریلوے کی کینٹین کے پاس رک گیا۔ چند ساعتوں تک خالی خالی ویران نظروں سے چاروں طرف دیکھتا رہا اور پھر جس طرح مایوسی کے گھور اندھیرے میں امید کے جگنو کی ٹمٹماہٹ اچانک نمودار ہو جاتی ہے، اس کی نظریں وہاں ایک ایسے منظر پر پڑیں جسے دیکھ کر حیرت اور خوشی سے وہ دم بخود ہو کر رہ گیا۔۔۔۔ اس کی بیوی کینٹین کے کونے میں پڑے لکڑی کے ایک سالخوردہ بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی اور مٹھو اپنی ماں کی گود میں آرام سے بیٹھا بسکٹ کتر کتر مزے سے کھائے چلا جا رہا تھا۔ دفعتا اسے یوں لگا کہ وہ بچہ جو تیس سال قبل ماں سے بچھڑ گیا تھا، آج اسے ایک ماں ایک دوسرے روپ میں دوبارہ مل گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدہ شگفتہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوال یہ ہے کہ مختصر عنوانات کے ہر صفحے کو زبردستی علیحدہ لڑیوں میں منقسم کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ایسا کیا پریشانی ہے جو ان مختصر افسانوں کے تمام صفحات ایک ہی لڑی میں پوسٹ کرنے اور اسی میں سارے کام کروانے کی راہ میں حارج ہے؟ :) :) :)

چونکہ ابھی تک لائبریری کے مختلف مراحل مینویلی ہی انجام دئے جاتے ہیں اور ہمارے پاس کوئی خودکار نظام موجود نہیں ہے اس پس منظر میں ایک ہی دھاگے میں طویل عنوانات پر کام دشواریوں کو کئ گنا زیادہ بڑھا دیتا ہے تاہم ایک بار پھر اس تجربے کاآزما لینے میں کوئی حرج نہیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سعود بھائی اس بارے میں تو پہلے ہی ڈسکس ہو چکا ہے کہ طویل عنوانات یہاں ارسال نہیں ہوں گے بلکہ لائبریری میں ارسال کیے جائیں گے۔ تاہم لائبریری میں صرف لائبریری اراکین ہی ارسال کر سکتے ہیں جبکہ یہ ایکٹیویٹی تمام اراکین محفل کے لیے ہے لہذا آپ لائبریری میں ہی کسی زمرہ کو تمام اراکین محفل کے لیے قابل رسائی بنا سکیں تو آسانی ہو جائے گی جیسا کہ پہلے بھی ایسا ہی ایک زمرہ لائبریری میں موجود تھا۔ بصورت دیگر لائبریری سے ہٹ کر کسی دیگر زمرہ کی نشاندہی کر دیں جہاں ان عنوانات کو ارسال کیا جا سکے جو تمام اراکین محفل کے لیے قابل رسائی ہو ارسال کرنے کے ذیل میں۔ شکریہ

سعود بھائی، یہی سوال ایک بار پھر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مکمل افسانہ

اعلانوں بھرا شہر
سلیم آغا قزلباش​

لاؤڈ سپیکر پر دن بھر اعلانات نشر کرتے رہنا، یہی اس کی نوکری تھی۔ بعض اوقات وقفے وقفے سے اسے مختلف نوعیت کے اعلانات کرنا پڑے تھے، مثلا ۔۔۔۔"آج شہر میں "زچہ بچہ نگہداشت" کے نئے مرکز کی تعمیر کا آغاز ہو رہ اہے، معروف سماجی شخصیت محترمہ خوش بخت اس کا سنگ بنیاد رکھیں گی، اہل شہر سے اس مبارک موقع پر شرکت کی استدعا ہے۔۔۔۔" بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف آج بعد از دوپہر کمپنی باغ سے ایک جلوس نکالا جا رہا ہے۔ جلوس کی قیادت مشہور رہنما جناب "ہرفرن مولا" کریں گے اور بعد میں شرکاء سے خطاب فرمائیں گے۔ عوام سے پرزور اپیل کی جاتی ہے کہ اس میں شرکت فرما کر یکجہتی کا ثبوت دیں۔" "حضرات، ایک خوشخبری سنئیے۔ صرف سات یوم میں تمام بیماریوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کرشماتی گولی عجوبہ کا کورس مکمل کریں اور تپِ دق، یرقان، تپِ محرکہ، فالج، لقوہ، خونی پیچش اور دیگر اعصابی کمزوریوں سے مکمل چھٹکارا حاصل کریں۔ ملنے کا پتہ: دواخانہ کشف و کرامات بالمقابل گورستان"۔ مگر جب وہ کسی کی گمشدگی کا لاؤڈ سپیکر پر اعلان کرتا تو اسے بےچینی محسوس ہونے لگتی۔ جب پہلی بار اس نے ایک گمشدہ شخص کے بارے میں اعلان کیا تھا تو اس کی عجیب سی حالت ہو گئی تھی۔۔۔ "حضرات! ایک ضروری اعلان سنیئے۔" اکھڑے سانسوں اور لڑکھڑاتی زبان سے اس نے غالبا تین چار مرتبہ اس جملے کو اٹک اٹک کر دہرایا تھا۔ تھوڑے وقفے کے بعد جب اس کی زبان کی لکنت اور آواز کی لرزش کم ہوئی تو اس نے ایک گہرا سانس لیا اور رندھی ہوئی آواز میں اعلان کو یوں مکمل کیا۔۔۔ "ایک شخص جس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہے، سر کے بال کھچڑی، رنگ گندمی اور قد درمیانہ ہے، سفید قمیص پہنے ہوئے! پاؤں میں چمڑے کی چپل، بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتا ہے۔ اگر کسی کو اس کے بارے میں کچھ پتا ہو تو براہِ مہربانی قریبی تھانے میں رابطہ قائم کریں۔ اطلاع پہنچانے والے کو حسبِ توفیق انعام بھی دیا جائے گا۔ "اعلان کو چند مرتبہ دہرانے کے بعد جب اس نے اپنے چاروں طرف بھنبھناتے ہوئے، کاروبارِ دنیا مصروف انسانی انبوہ کو بغور دیکھنا شروع کیا تو یہ جان کر اسے سخت اچنبھا ہوا کہ جس حلیے کے آدمی کی گمشدگی کا اعلان وہ کر رہا تھا، اس سے ملتے جلتے سینکڑوں لوگ، گلیوں بازاروں میں گھوم پھر رہے تھے۔ تو کیا یہ سب لوگ گمشدہ ہیں! حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس دن آس پاس سے گزرتے ہوئے لاتعداد نفوس اسے ایسے بھی دکھائی دئیے کہ اس کا دل بے اختیار چاہا کہ روک کر ان کا نام پتا دریافت کرے، مگر اسے ہمت نہ پڑی۔
اسے جب کبھی اتفاق سے کسی بچے کی گمشدگی کا اعلان کرنا پڑتا تو وہ موم بتی کی طرح اندر سے پگھلنے لگتا۔ شاید اس لئے کہ وہ آج بھی اندر سے ایک ایسا بچہ تھا جو لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گیا تھا۔ باپ کی صورت اسے بالکل یاد نہیں رہی تھی، صرف اس کی نوکدار گھنی مونچھوں کی ایک دھندلی سی تصویر اس کے ذہن کے کسی کونے میں مکڑی کے جالے کی طرح لٹکی رہ گئی تھی،البتہ ماں کا خاکہ سفید ٹوپی کے گھیردار برقع میں لپٹے ایک دودھیا پیکر کے روپ میں اس کے دل و دماغ کے پالنے میں جوں کا توں محفوظ تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لاؤڈ سپیکر پر مختلف اعلانات نشر کرنے کی ذمے داری نبھاتے ہوئے، اگر اتفاق سے اس کی وضع کی کوئی سفید برقع پوش خاتون کہیں نظر آ جاتی تو نہ جانے کیوں اسے یہی گمان ہوتا کہ اس کی ماں آج بھی گلیوں بازاروں میں پریشان حال اسے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ ایک بار تو اس وضع قطع کی ایک برقع پوش خاتون کو پاس سے گزرتے ہوئے دیکھ کر اس کے منہ سے بے اختیار "اماں" نکل گیا تھا، مگر یہ لفظ ایک گھٹی ہوئی چیخ کی صورت، شور شرابے میں تحلیل ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔ اس کو فقط اتنا یاد رہا تھا کہ چند لمحوں کے لئے اس کی ماں نے اپنی انگلی اس کے ہاتھ سے چھڑائی تھی، شاید وہ بزاز کی دکان سے کپڑا خرید رہی تھی۔ اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہا تھا۔ وہ تو بس ایک نرم و نازک تنکے کی طرح، ہجوم کے تند و تیز ریلے میں بہتا ہی چلا گیا تھا۔ انسانی ہجوم کے اس ریلے میں متعدد برقع پوش عورتیں بھی موجود تھیں۔ وہ کبھی کسی ایک برقع پوش کے پیچھے کچھ دور تک روتا بسورتا چلے جاتا اور جب اسے پتا چلتا کہ وہ اس کی ماں نہیں تو وہ کسی دوسری برقع پوش کا پیچھا کرنے لگتا اور اسی تعاقب میں وہ نہ جانے کہاں سے کہاں نکل گیا! مہ و سال کا دھارا بہتا رہا اور اس کا بچپن ایک بےبادبان کشتی کی طرح ہچکولے کھاتا گزرتا چلا گیا۔
زندگی کے ابتدائی سال اس نے ایک یتیم خانے میں بسر کئے۔ پھر وہ وہاں سے بھاگ نکلا اور ایک مضافاتی علاقے کی مسجد سے وابستہ ہو گیا۔ مسجد کے مولوی صاحب ایک ہمدرد آدمی تھے۔ انہوں نے اس کے کھانے پینے کا بندوبست کر دیا اور اسے لکھنا پڑھنا بھی سکھا دیا۔ چند سال اس نے مولوی صاحب کی سرپرستی میں سکون و اطمینان سے کاٹے۔ مگر ایک دن مولوی جی کو اس کی کسی بدتمیزی پر اچانک غصہ آ گیا اور انہوں نے چھڑی سے اس کی پٹائی کر دی۔ اگلے دن وہ کسی کو بتائے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ کچھ عرصہ ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد اس نے شہر کی راہ پکڑی اور وہاں پہنچ کر کسی نہ کسی طرح ایک ڈھابے میں گاہکوں کو کھانا کھلانے کی نوکری حاصل کر لی۔ کئی سال تک وہ یہ نوکری کرتا رہا۔ لیکن پھر اچانک ڈھابے کا مالک، خان بابا اچانک بیمار پڑ گیا اور کچھ عرصہ بعد چل بسا اور یوں ڈھابا بند ہو گیا۔۔۔ اب وہ پوری طرح جوان ہو چکا تھا اور ہر طرح کی محنت مزدوری کر کے روٹی کما سکتا تھا۔ ضرورت اور حالات کے مطابق اس نے ہر قسم کا کام کیا، مگر اس کے پاؤں کی گردش برقرار رہی۔ آخرکار اسے لاؤڈسپیکر کے ذریعے سارے شہر میں طرح طرح کے اعلانات نشر کرنے کی ملازمت مل گئی اور یہ ملازمت حاصل کر کے اسے ایک انجانی تسکین کا احساس ہونے لگا۔ خاص طور پر جب وہ کسی گمشدہ بچے کے بارے میں اعلان کرتا تو اس کی آواز میں بھرپور درد امنڈ آتا۔ اس ملازمت سے اس کی ایک نفسیاتی اور جذباتی وابستگی قائم ہو گئی تھی۔ نسبتا کم ماہوار تنخواہ ملنے کے باوجود وہ پوری دیانتداری سے اس کام کو انجام دیتا تھا۔ گمشدہ لوگوں کی بازیابی میں بالواسطہ طریقے سے معاونت کر کے اسے بےپایاں طمانیت قلب حاصل ہوتی تھی۔ تاہم کچھ عرصہ سے نہ جانے کیوں، لاپتا اور گمشدہ افراد کے سلسلے میں اعلانات نشر کرتے ہوئے اسے کچھ یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے شہر کے بیشتر لوگ لاپتا ہو چکے ہیں، یعنی گھروں میں ہوں تو باہر کے معاملات اور مسائل میں گم رہتے ہیں اور گھروں سے باہر ہوں تو ان کا ذہن گھر کی کھونٹی سے بندھا رہتا ہے، گویا وہ وہاں نہیں ہوتے جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔
وہ جس کھولی نما کوارٹر میں گزشتہ کئی سال سے سر چھپائے ہوئے تھا، اس کی چھت کافی عرصہ سے مرمت کا تقاضا کر رہی تھی۔ تاہم ہر بار جب وہ اس کی مرمت کرانے کا ارادہ کرتا تو کوئی نہ کوئی ایسی مصیبت گلے پڑ جاتی کہ اس مقصد کے لئے پس انداز کئے ہوئے روپے خرچ ہو جاتے اور چھت کا مسئلہ وہیں کا وہیں اٹکا رہ جاتا۔ غریب آدمی کے سر پر چاہے کسی کا ہاتھ ہو یا نہ ہو چھت کا سایہ ضرور قائم رہنا چاہیے۔ ایک شام بڑا زبردست طوفان آیا۔ لگتا تھا، مکانوں کی چھتیں اڑ جائیں گی۔ طوفان باد و باراں کےساتھ اولے بھی خوب برسے، زمین سفید ہو گئی، جیسے ابابیلوں نے سارے شہر پر سفید کنکروں کی بوچھاڑ کر دی ہو۔ بجلی کی رو بھی منقطع ہو گئی۔ اس کا چار سالہ بیٹا ڈر کے مارے رونے لگا اور روتے ہوئے ماں کی گود میں گھس کر بیٹھ گیا۔ اچانک چھت کی کڑیاں یک بیک کڑکڑائیں، پھر کچھ مٹی اور چند اینٹیں نیچے آ گریں۔ اس کی بیوی کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں۔ وہ خود دن بھر کا تھکا ماندہ ہونے کے بعد گہری نیند میں تھا۔ اس کی بیوی نے ہذیانی آواز میں چلاتے ہوئے شانہ جھنجھوڑ کر اسے جگایا۔ صورت حال سے باخبر ہوتے ہی وہ بدحواس ہو گیا، لیکن پھر فورا بیوی اور بچے سمیت کوارٹر سے نکل آیا۔ بمشکل تمام وہ کوارٹر سے باہر نکلے ہی تھے کہ اس کی چھت دھڑام سے زمیں بوس ہو گئی۔ ساتھ کے کوارٹروں کے مزدور پیشہ مکین بھی گھبرا کر باہر نکل آئے اور ان کا ٹھٹھ لگ گیا۔ اس حادثے سے ابھی وہ پوری طرح سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو بے تحاشا آوازیں دیتے ہوئے سنا۔ وہ مٹھو کا نام پکارے جا رہی تھی۔ کیا ہوا اس کے بیٹے کو! یہ سوچ کر وہ تیزی سے لوگوں کو جمگھٹ کو چیرتا ہوا آواز کے تعاقب میں لپکا۔ اس کی بیوی حواس باختہ فٹ پاتھ پر کھڑی مٹھو مٹھو پکارے چلی جا رہی تھی، مگر خود مٹھو کا کہیں نام و نشاں تک نہیں تھا۔ باہر کے طوفان کا زور تو تقریبا ٹوٹ گتیا تھا، مگر اس کی زندگی میں بھونچال آ گیا تھا۔ مٹھو نہ جانے کیسے اپنی اماں کا ہاتھ چھڑا کر گہرے اندھیرے میں کہیں گم ہو گیا تھا۔ وہ شاید کوارٹر کی چھت اچانک دھڑام سے گرنے، لوگوں کے وہاں یکدم اکٹھا ہونے اور افراتفری برپا ہو جانے کے باعث ڈر کر بھاگ گیا تھا۔ آس پاس کی گلیوں میں اسے ڈھونڈنے کے بعد وہ سڑکوں پر اس کی تلاش میں نکل پڑا۔ راہ گیروں کو روک روک کر، انہیں مٹھو کا پورا حلیہ بتا کر اس کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کرتا رہا، مگر اس کی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ غم اور تھکن کے بوجھ سے وہ نڈھال ہو چکا تھا، لیکن وہ پھر بھی خود کو جیسے تیسے گھسیٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ مٹھو کی تلاش میں نہ جانے کب تک وہ ننگے پاؤں سڑکوں پر بھٹکتا رہا، اس بات کا اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ تب اچانک وہ دونوں ہاتھوں کا لاؤڈ سپیکر بنا کر اعلان کرنے لگا۔ "حضرات! حضرات! ایک لڑکا، ایک مٹھو عمر چار سال، رنگ گندمی، پیارا پیارا چہرہ۔ مٹھو۔ مٹھو۔" اس کی آواز رندھ گئی اور لاؤڈ اسپیکر والے ہاتھ منہ سے ہٹ کر ہوا میں جھولنے لگے، مگر پھر غیر ارادی طور پر یا کسی غیبی قوت کے اشارے پر اس کے پاؤں قریبی ریلوے اسٹیشن کی جانب اٹھنے لگے، وہاں پہنچ کر وہ ریلوے کی کینٹین کے پاس رک گیا۔ چند ساعتوں تک خالی خالی ویران نظروں سے چاروں طرف دیکھتا رہا اور پھر جس طرح مایوسی کے گھور اندھیرے میں امید کے جگنو کی ٹمٹماہٹ اچانک نمودار ہو جاتی ہے، اس کی نظریں وہاں ایک ایسے منظر پر پڑیں جسے دیکھ کر حیرت اور خوشی سے وہ دم بخود ہو کر رہ گیا۔۔۔۔ اس کی بیوی کینٹین کے کونے میں پڑے لکڑی کے ایک سالخوردہ بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی اور مٹھو اپنی ماں کی گود میں آرام سے بیٹھا بسکٹ کتر کتر مزے سے کھائے چلا جا رہا تھا۔ دفعتا اسے یوں لگا کہ وہ بچہ جو تیس سال قبل ماں سے بچھڑ گیا تھا، آج اسے ایک ماں ایک دوسرے روپ میں دوبارہ مل گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدہ شگفتہ


اوشو بھائی، بہت خوشی ہوئی آپ کا کام دیکھ کر! بہت ہی عمدہ بہت ہی شاندار کاوش!
 

محمداحمد

لائبریرین
میں نے یہ افسانہ سیدہ شگفتہ بہن کے بتائے ہوئے اصول کے تحت عمومی طور پر پروف ریڈ کر لیا ہے ( پڑھ لیا ہے)۔ اور سوائے ایک آدھ معمولی اغلاط کے یہ بالکل ٹھیک ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پروف ریڈ مکمل:
-----------

اعلانوں بھرا شہر
سلیم آغا قزلباش​

لاؤڈ سپیکر پر دن بھر اعلانات نشر کرتے رہنا، یہی اس کی نوکری تھی۔ بعض اوقات وقفے وقفے سے اسے مختلف نوعیت کے اعلانات کرنا پڑے تھے، مثلا ۔۔۔۔"آج شہر میں "زچہ بچہ نگہداشت" کے نئے مرکز کی تعمیر کا آغاز ہو رہاہے، معروف سماجی شخصیت محترمہ خوش بخت اس کا سنگ بنیاد رکھیں گی، اہل شہر سے اس مبارک موقع پر شرکت کی استدعا ہے۔۔۔۔" بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف آج بعد از دوپہر کمپنی باغ سے ایک جلوس نکالا جا رہا ہے۔ جلوس کی قیادت مشہور رہنما جناب "ہرفن مولا" کریں گے اور بعد میں شرکاء سے خطاب فرمائیں گے۔ عوام سے پرزور اپیل کی جاتی ہے کہ اس میں شرکت فرما کر یکجہتی کا ثبوت دیں۔" "حضرات، ایک خوشخبری سنیئے۔ صرف سات یوم میں تمام بیماریوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کرشماتی گولی عجوبہ کا کورس مکمل کریں اور تپِ دق، یرقان، تپِ محرکہ، فالج، لقوہ، خونی پیچش اور دیگر اعصابی کمزوریوں سے مکمل چھٹکارا حاصل کریں۔ ملنے کا پتہ: دواخانہ کشف و کرامات بالمقابل گورستان"۔ مگر جب وہ کسی کی گمشدگی کا لاؤڈ سپیکر پر اعلان کرتا تو اسے بےچینی محسوس ہونے لگتی۔ جب پہلی بار اس نے ایک گمشدہ شخص کے بارے میں اعلان کیا تھا تو اس کی عجیب سی حالت ہو گئی تھی۔۔۔ "حضرات! ایک ضروری اعلان سنیئے۔" اکھڑے سانسوں اور لڑکھڑاتی زبان سے اس نے غالبا تین چار مرتبہ اس جملے کو اٹک اٹک کر دہرایا تھا۔ تھوڑے وقفے کے بعد جب اس کی زبان کی لکنت اور آواز کی لرزش کم ہوئی تو اس نے ایک گہرا سانس لیا اور رندھی ہوئی آواز میں اعلان کو یوں مکمل کیا۔۔۔ "ایک شخص جس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہے، سر کے بال کھچڑی، رنگ گندمی اور قد درمیانہ ہے، سفید قمیص پہنے ہوئے! پاؤں میں چمڑے کی چپل، بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتا ہے۔ اگر کسی کو اس کے بارے میں کچھ پتا ہو تو براہِ مہربانی قریبی تھانے میں رابطہ قائم کریں۔ اطلاع پہنچانے والے کو حسبِ توفیق انعام بھی دیا جائے گا۔ "اعلان کو چند مرتبہ دہرانے کے بعد جب اس نے اپنے چاروں طرف بھنبھناتے ہوئے، کاروبارِ دنیا میں مصروف انسانی انبوہ کو بغور دیکھنا شروع کیا تو یہ جان کر اسے سخت اچنبھا ہوا کہ جس حلیے کے آدمی کی گمشدگی کا اعلان وہ کر رہا تھا، اس سے ملتے جلتے سینکڑوں لوگ، گلیوں بازاروں میں گھوم پھر رہے تھے۔ تو کیا یہ سب لوگ گمشدہ ہیں! حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس دن آس پاس سے گزرتے ہوئے لاتعداد نفوس اسے ایسے بھی دکھائی دئیے کہ اس کا دل بے اختیار چاہا کہ روک کر ان کا نام پتہ دریافت کرے، مگر اسے ہمت نہ پڑی۔

اسے جب کبھی اتفاق سے کسی بچے کی گمشدگی کا اعلان کرنا پڑتا تو وہ موم بتی کی طرح اندر سے پگھلنے لگتا۔ شاید اس لئے کہ وہ آج بھی اندر سے ایک ایسا بچہ تھا جو لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گیا تھا۔ باپ کی صورت اسے بالکل یاد نہیں رہی تھی، صرف اس کی نوکدار گھنی مونچھوں کی ایک دھندلی سی تصویر اس کے ذہن کے کسی کونے میں مکڑی کے جالے کی طرح لٹکی رہ گئی تھی،البتہ ماں کا خاکہ سفید ٹوپی کے گھیردار برقع میں لپٹے ایک دودھیا پیکر کے روپ میں اس کے دل و دماغ کے پالنے میں جوں کا توں محفوظ تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لاؤڈ سپیکر پر مختلف اعلانات نشر کرنے کی ذمے داری نبھاتے ہوئے، اگر اتفاق سے اس کی وضع کی کوئی سفید برقع پوش خاتون کہیں نظر آ جاتی تو نہ جانے کیوں اسے یہی گمان ہوتا کہ اس کی ماں آج بھی گلیوں بازاروں میں پریشان حال اسے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ ایک بار تو اس وضع قطع کی ایک برقع پوش خاتون کو پاس سے گزرتے ہوئے دیکھ کر اس کے منہ سے بے اختیار "اماں" نکل گیا تھا، مگر یہ لفظ ایک گھٹی ہوئی چیخ کی صورت، شور شرابے میں تحلیل ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔ اس کو فقط اتنا یاد رہا تھا کہ چند لمحوں کے لئے اس کی ماں نے اپنی انگلی اس کے ہاتھ سے چھڑائی تھی، شاید وہ بزاز کی دکان سے کپڑا خرید رہی تھی۔ اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہا تھا۔ وہ تو بس ایک نرم و نازک تنکے کی طرح، ہجوم کے تند و تیز ریلے میں بہتا ہی چلا گیا تھا۔ انسانی ہجوم کے اس ریلے میں متعدد برقع پوش عورتیں بھی موجود تھیں۔ وہ کبھی کسی ایک برقع پوش کے پیچھے کچھ دور تک روتا بسورتا چلے جاتا اور جب اسے پتا چلتا کہ وہ اس کی ماں نہیں تو وہ کسی دوسری برقع پوش کا پیچھا کرنے لگتا اور اسی تعاقب میں وہ نہ جانے کہاں سے کہاں نکل گیا! مہ و سال کا دھارا بہتا رہا اور اس کا بچپن ایک بےبادبان کشتی کی طرح ہچکولے کھاتا گزرتا چلا گیا۔

زندگی کے ابتدائی سال اس نے ایک یتیم خانے میں بسر کئے۔ پھر وہ وہاں سے بھاگ نکلا اور ایک مضافاتی علاقے کی مسجد سے وابستہ ہو گیا۔ مسجد کے مولوی صاحب ایک ہمدرد آدمی تھے۔ انہوں نے اس کے کھانے پینے کا بندوبست کر دیا اور اسے لکھنا پڑھنا بھی سکھا دیا۔ چند سال اس نے مولوی صاحب کی سرپرستی میں سکون و اطمینان سے کاٹے۔ مگر ایک دن مولوی جی کو اس کی کسی بدتمیزی پر اچانک غصہ آ گیا اور انہوں نے چھڑی سے اس کی پٹائی کر دی۔ اگلے دن وہ کسی کو بتائے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ کچھ عرصہ ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد اس نے شہر کی راہ پکڑی اور وہاں پہنچ کر کسی نہ کسی طرح ایک ڈھابے میں گاہکوں کو کھانا کھلانے کی نوکری حاصل کر لی۔ کئی سال تک وہ یہ نوکری کرتا رہا۔ لیکن پھر اچانک ڈھابے کا مالک، خان بابا اچانک بیمار پڑ گیا اور کچھ عرصہ بعد چل بسا اور یوں ڈھابا بند ہو گیا۔۔۔ اب وہ پوری طرح جوان ہو چکا تھا اور ہر طرح کی محنت مزدوری کر کے روٹی کما سکتا تھا۔ ضرورت اور حالات کے مطابق اس نے ہر قسم کا کام کیا، مگر اس کے پاؤں کی گردش برقرار رہی۔ آخرکار اسے لاؤڈسپیکر کے ذریعے سارے شہر میں طرح طرح کے اعلانات نشر کرنے کی ملازمت مل گئی اور یہ ملازمت حاصل کر کے اسے ایک انجانی تسکین کا احساس ہونے لگا۔ خاص طور پر جب وہ کسی گمشدہ بچے کے بارے میں اعلان کرتا تو اس کی آواز میں بھرپور درد امنڈ آتا۔ اس ملازمت سے اس کی ایک نفسیاتی اور جذباتی وابستگی قائم ہو گئی تھی۔ نسبتا کم ماہوار تنخواہ ملنے کے باوجود وہ پوری دیانتداری سے اس کام کو انجام دیتا تھا۔ گمشدہ لوگوں کی بازیابی میں بالواسطہ طریقے سے معاونت کر کے اسے بےپایاں طمانیت قلب حاصل ہوتی تھی۔ تاہم کچھ عرصہ سے نہ جانے کیوں، لاپتا اور گمشدہ افراد کے سلسلے میں اعلانات نشر کرتے ہوئے اسے کچھ یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے شہر کے بیشتر لوگ لاپتا ہو چکے ہیں، یعنی گھروں میں ہوں تو باہر کے معاملات اور مسائل میں گم رہتے ہیں اور گھروں سے باہر ہوں تو ان کا ذہن گھر کی کھونٹی سے بندھا رہتا ہے، گویا وہ وہاں نہیں ہوتے جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔

وہ جس کھولی نما کوارٹر میں گزشتہ کئی سال سے سر چھپائے ہوئے تھا، اس کی چھت کافی عرصہ سے مرمت کا تقاضا کر رہی تھی۔ تاہم ہر بار جب وہ اس کی مرمت کرانے کا ارادہ کرتا تو کوئی نہ کوئی ایسی مصیبت گلے پڑ جاتی کہ اس مقصد کے لئے پس انداز کئے ہوئے روپے خرچ ہو جاتے اور چھت کا مسئلہ وہیں کا وہیں اٹکا رہ جاتا۔ غریب آدمی کے سر پر چاہے کسی کا ہاتھ ہو یا نہ ہو چھت کا سایہ ضرور قائم رہنا چاہیے۔ ایک شام بڑا زبردست طوفان آیا۔ لگتا تھا، مکانوں کی چھتیں اڑ گئیں۔ طوفان باد و باراں کےساتھ اولے بھی خوب برسے، زمین سفید ہو گئی، جیسے ابابیلوں نے سارے شہر پر سفید کنکروں کی بوچھاڑ کر دی ہو۔ بجلی کی رو بھی منقطع ہو گئی۔ اس کا چار سالہ بیٹا ڈر کے مارے رونے لگا اور روتے ہوئے ماں کی گود میں گھس کر بیٹھ گیا۔ اچانک چھت کی کڑیاں یک بیک کڑکڑائیں، پھر کچھ مٹی اور چند اینٹیں نیچے آ گریں۔ اس کی بیوی کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں۔ وہ خود دن بھر کا تھکا ماندہ ہونے کے بعد گہری نیند میں تھا۔ اس کی بیوی نے ہذیانی آواز میں چلاتے ہوئے شانہ جھنجھوڑ کر اسے جگایا۔ صورت حال سے باخبر ہوتے ہی وہ بدحواس ہو گیا، لیکن پھر فورا بیوی اور بچے سمیت کوارٹر سے نکل آیا۔ بمشکل تمام وہ کوارٹر سے باہر نکلے ہی تھے کہ اس کی چھت دھڑام سے زمیں بوس ہو گئی۔ ساتھ کے کوارٹروں کے مزدور پیشہ مکین بھی گھبرا کر باہر نکل آئے اور ان کا ٹھٹھ لگ گیا۔ اس حادثے سے ابھی وہ پوری طرح سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو بے تحاشا آوازیں دیتے ہوئے سنا۔ وہ مٹھو کا نام پکارے جا رہی تھی۔ کیا ہوا اس کے بیٹے کو! یہ سوچ کر وہ تیزی سے لوگوں کو جمگھٹ کو چیرتا ہوا آواز کے تعاقب میں لپکا۔ اس کی بیوی حواس باختہ فٹ پاتھ پر کھڑی مٹھو مٹھو پکارے چلی جا رہی تھی، مگر خود مٹھو کا کہیں نام و نشاں تک نہیں تھا۔ باہر کے طوفان کا زور تو تقریبا ٹوٹ گاا تھا، مگر اس کی زندگی میں بھونچال آ گیا تھا۔ مٹھو نہ جانے کیسے اپنی اماں کا ہاتھ چھڑا کر گہرے اندھیرے میں کہیں گم ہو گیا تھا۔ وہ شاید کوارٹر کی چھت اچانک دھڑام سے گرنے، لوگوں کے وہاں یکدم اکٹھا ہونے اور افراتفری برپا ہو جانے کے باعث ڈر کر بھاگ گیا تھا۔ آس پاس کی گلیوں میں اسے ڈھونڈنے کے بعد وہ سڑکوں پر اس کی تلاش میں نکل پڑا۔ راہ گیروں کو روک روک کر، انہیں مٹھو کا پورا حلیہ بتا کر اس کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کرتا رہا، مگر اس کی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ غم اور تھکن کے بوجھ سے وہ نڈھال ہو چکا تھا، لیکن وہ پھر بھی خود کو جیسے تیسے گھسیٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ مٹھو کی تلاش میں نہ جانے کب تک وہ ننگے پاؤں سڑکوں پر بھٹکتا رہا، اس بات کا اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ تب اچانک وہ دونوں ہاتھوں کا لاؤڈ سپیکر بنا کر اعلان کرنے لگا۔ "حضرات! حضرات! ایک لڑکا، ایک مٹھو عمر چار سال، رنگ گندمی، پیارا پیارا چہرہ۔ مٹھو۔ مٹھو۔" اس کی آواز رندھ گئی اور لاؤڈ اسپیکر والے ہاتھ منہ سے ہٹ کر ہوا میں جھولنے لگے، مگر پھر غیر ارادی طور پر یا کسی غیبی قوت کے اشارے پر اس کے پاؤں قریبی ریلوے اسٹیشن کی جانب اٹھنے لگے، وہاں پہنچ کر وہ ریلوے کی کینٹین کے پاس رک گیا۔ چند ساعتوں تک خالی خالی ویران نظروں سے چاروں طرف دیکھتا رہا اور پھر جس طرح مایوسی کے گھور اندھیرے میں امید کے جگنو کی ٹمٹماہٹ اچانک نمودار ہو جاتی ہے، اس کی نظریں وہاں ایک ایسے منظر پر پڑیں جسے دیکھ کر حیرت اور خوشی سے وہ دم بخود ہو کر رہ گیا۔۔۔۔ اس کی بیوی کینٹین کے کونے میں پڑے لکڑی کے ایک سالخوردہ بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی اور مٹھو اپنی ماں کی گود میں آرام سے بیٹھا بسکٹ کتر کتر مزے سے کھائے چلا جا رہا تھا۔ دفعتا اسے یوں لگا کہ وہ بچہ جو تیس سال قبل ماں سے بچھڑ گیا تھا، آج اسے ایک ماں ایک دوسرے روپ میں دوبارہ مل گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Top