اینا سنوڈن ایک بھولی بھٹکی داستان

جاسوسی یقینا ایک مہم جوئی بھی ہے ۔ایسی مہم جوئی کا شوق تو کئی لوگ پالتے ہیں لیکن عملی زند گی میں قدم رکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس شوق میں انسان کا سکون ہی غارت نہیں ہوتا جان ہمہ وقت ہتھیلی پر رہتی اورچلی بھی جاتی ہے ، کئی لوگ ایک دوسرے کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لگائی بجھائی کرتے ہیں۔وہ اس کو بھی جاسوسی کا درجہ دیتے ہیں۔ یہ جاسوسی نہیں لعنت ہے جس کا عکس ان کی شکلوں سے بھی عیاں ہوتاہے ۔ایجنسیوں کے مخبر اور پولیس کے ٹاﺅٹ بھی خود کو لارنس آف عریبیہ ،ہیمفرے اور ماتا ہری جیسا جاسوس گردانتے ہیں حالانکہ ان کی حیثیت کرائے کے ٹٹو سے زیادہ نہیں البتہ جو واقعتا ملکی و قومی مفاد اور انسانیت کی بھلائی کے پیش نظر دین دشمن اور وطن فروشوں کی سرگرمیوں سے متعلقہ اداروں کو آگاہ کرتے ہیں وہ بے نام ہوتے ہوئے بھی قابلِ احترام ہیں۔​

ماتا ہری کو اس کے شوق ،کسی اور جذبے یا حالات نے پہلی جنگ عظیم میں جاسوسہ بنا دیا۔ اس کا اصل نام مارگریتھا جیرٹ روئی ڈازیلے ہے۔ولندیزی انڈونیشی مخلوط النسل رقاصہ بنیادی طور پر جرمنی کی جاسوسہ تھی لیکن نہایت چالاکی سے فرانس اور جرمنی کی جاسوسی دونوں دشمن ممالک کے لیے کرنے لگی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس نے فرانسیسی اور اتحادیوں کے اہم جنگی راز جرمنوں تک پہنچائے۔ ماتا ہری رقص کے دوران جب لبادہ کھول دیتی تو اس سے فرانسیسی افواج کو یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوج فرانس پر ٹینکوں سے حملہ کرنے والی ہے ۔اگر وہ جسم کے کسی اور کپڑے کو اتار کر ہوا میں بلند کر دیتی تو اس سے یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوجیں ہوائی حملہ کرنے والی ہیں۔ ماتا ہری کا فرانس میں ٹرائل ہوا، سزا سنائی گئی اور اپنے دور کی ہوشربا حسینہ اور دلربا رقاصہ کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کے گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ٹرائل کے دوران جو کچھ سامنے آیا وہ دنیا سے مخفی رکھا گیا تاہم یہ کہا گیا کہ سوسال بعد ماتا ہری کے ٹرائل کے حقائق افشاءکردئیے جائیں گے ۔یہ 100سال 2017 میں پورے ہورہے ہیں۔
ماتا ہری نے 1910ء میں جزیرہ بالی میں ایک بچی کو جنم دیا جس کا نام بندا رکھا گیا۔ بندا ماتا ہری کی اکلوتی بیٹی تھی۔ جسے ماتا ہری صرف ڈیڑھ سال کی عمر میں ایک عزیز رشتے دار کے سپرد کر کے پیرس چلی گئی۔ پھر کبھی ان ماں بیٹی کی ملاقات نہ ہوئی۔ بندا کو اپنی ماں کی شکل تک یاد نہیں تھی۔ بس اسے اتنا معلوم تھا کہ اس کی ماں ایک کلب ڈانسر تھی۔ جس کے ڈانس کی شہرت بہت دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ماں کا
ایک خط تھا ۔ ماتا ہری نے اسے خط میں تاکید کی تھی کہ وہ کسی کو بھی نہ بتائے کہ وہ ماتا ہری کی بیٹی ہے۔بندا اپنی ایک منہ بولی خالہ کے پاس رہتی تھی۔ اسے اسی خالہ نے ہی پالا تھا۔بالآخر وہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلی جس پر چل کر اس کی ماں انجام کو پہنچی تھی۔اس نے بھی کئی ممالک کے لئے جاسوسی کی۔ بالآخرشمالی کوریا میں اسے امریکہ کی جاسوسہ کے طور پر گرفتار کرلیا گیا اور پھر بندا کو کوئی مقدمہ چلائے بغیر فوجی فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر جس مہینے، جس تاریخ اور جس وقت ماتا ہری کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تھا، ٹھیک اسی مہینے اسی تاریخ اور اسی وقت اس کی بیٹی بندا کو بھی فائرنگ کرکے بھون دیا گیا۔
آج ایڈورڈ سنوڈن کی صورت میں جاسوسی کی ایک نئی داستان سامنے آئی ہے جس میں جرات،خطرات ،سنسنی اور رومانس سب کچھ موجودہے ۔ 29 سالہ ایڈورڈ سنوڈن کی پرورش جنوبی کیرولائنا کے شہر الزبتھ میں ہوئی۔اس کے بعد میری لینڈ میں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی’این ایس اے‘ کے ہیڈکوارٹرز کے ساتھ فورٹ میئڈ منتقل ہوگئے۔ایڈروڈ سنوڈن نے میری لینڈ کے کمیونٹی کالج سے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی تاکہ ہائی سکول کا ڈپلومہ حاصل کرنے کے لیے ضروری کریڈٹ آورز حاصل کر سکیں لیکن انہوں نے اپنا کورس مکمل نہیں کیا۔انہوں نے سال دو ہزار تین میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور سپیشل فورسز کے ساتھ تربیت شروع کی لیکن تربیت کے دوران ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں جس پر انہیںاس فورس سے الگ ہونا پڑا۔انہوں نے اپنی پہلی نوکری نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے میری لینڈ یونیورسٹی میں واقع خفیہ مرکز میں گارڈ کے طور پر شروع کی اور اس کے بعد خفیہ ایجنسی سی آئی اے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سکیورٹی کے شعبے میں کام کیا۔ جہاں اس کے فرائض میں اپنے ہی شہریوںکی جاسوسی کرنا شامل تھا،ایک موقع پر وہ اپنے کام سے دلبرداشتہ ہوگیااور تمام خطرات مول لیتے ہوئے اس نے اپنی حکومت کی ایسی سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔2013ء کے اوائل میں سنوڈن نے گارجین کے اخبار نویس گلن گرینوالڈ کو پیغام بھیجا کہ اس کے پاس امریکی جاسوسی کے بارے میں مواد ہے مگر وہ صرف پی جی پی کے ذریعے سے رابط کرنا چاہتا ہے۔ گرینوالڈ اس طریقہ سے نابلد تھا، چنانچہ رابطہ میں تاخیر ہوئی تو سنوڈن نے گارجین اور واشنگٹن پوسٹ کو 41صفحات پر مشتمل مواد بھیج دیا۔ دونوں اخباروں نے امریکی سرکار سے رابطہ کیا اور صرف دو تین صفحات شائع کرنے کی جراءت ہی کر سکے۔ سنوڈن کی سرگرمیوں کا بھانڈہ پھوٹا تو وہ ہوائی سے ہانگ کانگ چلا گیا۔ جہاں اس نے گریندوالڈ سے ملاقات کی۔ امریکی حکام نے سنوڈن پر جاسوسی کی فردِ جرم عائد کرتے ہوئے اس کا گزرنامہ منسوخ کر دیا۔ تاہم سنوڈن ہانگ کانگ سے ماسکو فرار ہو گیا، جہاں اس نے 21ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ امریکہ کے دھمکانے پر اکثر ممالک نے حامی نہ بھری تاہم لاطینی امریکاکے دو ممالک نکاراگوا اور وینزویلا کے صدور نے سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کی مگردبے الفاظ میں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سنوڈن کو پناہ دینے کے لئے راضی ہیں۔ سنوڈن نے روس میں پناہ کی درخواست کی جس پر امریکی حکومت نے روس کو باز رہنے کو کہا اور یقین دلایا کہ سنوڈن کو وطن واپسی پر اذیت دی جائے گی نہ ہی سزائے موت، اس لیے پناہ کی درخواست مسترد کر کے اسے ہمارے حوالے کردیا جائے ۔اس پر روسی صدر پیوٹن نے جواب دیا کہ روس اپنے ہاں پناہ لینے والے کو دوسرے ملک کے حوالے نہیںکرتا اور نہ کسی نے کسی کو کبھی روس کے حوالے کیا ہے۔جولائی2013ءمیں سنوڈن کو روس نے امریکی مخالفت کے باوجود پناہ دے دی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ سنوڈن نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا؟کیا سنوڈن کے دل میں عام شہریوں کے لئے اتنادرد تھا کہ اس کے لئے اس نے اپنی زندگی اور اپنی خوشیاں داﺅپر لگادیں یا پھر وہ کسی کے مفادات کے لئے کام کررہا تھا؟ امریکا نے اسے ایک غدار کہا ۔ان سوالوں کے جواب میں سنوڈن کا کہنا ہے” میں چاہتا ہوں کہ ہر شہری ایک آزادانہ زندگی بسرکرے۔میں ایسے معاشرے میں نہیں رہنا چاہتا جہاں اس قسم کا کام کیا جائے۔میں ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا جہاں ہر وہ چیز جو میں کروں یا کہوں اس کو ریکارڈ کیا جائے۔امریکا نہ صر ف اپنے شہریوں بلکہ دیگر ممالک کی خفیہ دستاویز کی نگرانی بھی کرتا ہے۔اس میں پاکستان کے علاوہ ایران اور چین بھی شامل ہیں۔ سی آئی اے نے ایران اور چین کی ای میلز بھی ہیک کیں تاکہ ان کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کی جاسکے۔اس سکینڈل کو تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈ ل قرار دیاجارہا ہے۔ میں اپنے کئے پر پشیمان نہیں ہوں۔آزادی ہر شخص کا حق ہے اور کوئی بھی حکومت اس سے اس کا یہ حق نہیں چھین سکتی۔ میں نے جنیوا میں جو زیادہ تر دیکھا، اس نے واقعتاً مجھے اس فریب سے باہر نکال دیا کہ کس طرح میری حکومت کام کرتی ہے اور اس کا دنیا پر کیا اثر ہوتا ہے۔مجھے اندازہ ہوا کہ میں ایک ایسی چیز کا حصہ ہوں جس کا فائدے کی بجائے بہت زیادہ نقصان ہے۔میں نے عوام میں جانے کا پہلے فیصلہ کیا تھا لیکن یہ دیکھنے کے لیے انتظار کیا کہ آیا سال دو ہزار آٹھ کے انتخاب میں صدر اوباما کے آنے کے بعد امریکہ کے نقطہ نظر میں تبدیلی آتی ہے لیکن صدر اوباما نے اپنے پیشرو کی پالیسوں کو جاری رکھا“
سنوڈن کو امریکی شہریوں کی طرف سے متضاد رد عمل اور آرا کا سامنا ہے۔کئی لوگ اس اقدام سے خوش اور اسے اپنا ہیرو مانتے ہیں۔دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ شہریوں کے تحفظ کیلئے حکومت کو کچھ بھی کرنے کا حق ہے اور انہیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں۔یورپی یونین نے اس غلط حرکت پر امریکا سے وضاحت طلب کی جس پر نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے دہشتگردی کے کئی واقعات ناکام بنائے گئے ہیں اور ایسا شہریوں کی حفاظت کے لئے کیاگیا۔ سنوڈن کی اس درجہ پزیرائی ہورہی ہے کہ ان کی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ یورپ میں انسانی حقوق کے ایک بڑے انعام سخاروف کے لیے نامزد گی ہوئی تھی ۔یہ انعام خواتین کو تعلیم کا حق دلانے کے لیے کوشاں پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی نے جیت لیا ۔یورپی پارلیمان میں گرین گروپ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے ایڈورڈ سنوڈن کو امریکی جاسوسی نظام کے بارے میں راز افشا کرنے پر اس انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔سنوڈن کی نامزدگی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی طرف سے امریکہ کے جاسوسی کرنے کے اقدام کے بارے میں راز افشا کرنا انسانی حقوق اور یورپی شہریوں کی ایک بڑی خدمت تھی۔آزادیِ اظہار کے لیے دیا جانے والا یورپی یونین کا یہ ایوارڈ روسی ماہرِ طبیعیات آندرے سخاروف کی یاد میں دیا جاتا ہے۔پچاس ہزار یورو مالیت کا یہ ایوارڈ یورپ میں حقوقِ انسانی کا سب سے بڑا ایوارڈ مانا جاتا ہے۔
اس سارے قصے میں کس کا کیا مفاد تھا ؟ اس پر بحث ہوتی رہے گی ۔ مگر ایک سابق روسی جاسوسہ اور آج کی معروف ماڈل اینا چیپمین کے سنوڈن سے شادی کے پروپوزل نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ایک ہفت روزہ میں رابی خالد سنوڈن اینا کے پوان چڑھتے معاشقے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؛۔اینا کو اپنے خوابوں کا شہزادہ مل گیا اس نے کیسے یہ جا ن لیا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے ساتھ وہ اپنی زندگی کو بانٹ سکتی ہے۔ اس نے دیکھا ، سنا اور یکا یک اس کے درِ دل پر دستک دے دی ۔یہ کہانی کسی فلم کی نہیں نہ ہی کو ئی افسانہ ہے بلکہ یہ آج کے عالمی تناظر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبروں میں سے ایک ہے اب اس خبر کو پڑھنے والے آگے کیا ہوا کے اشتیاق میں مبتلا ہیں۔دونوں کا شوق ایک،کام ایک ہے سو اس کے ساتھ ایک ہی لڑی میں پروئے جانے کے لیے روسی دوشیزہ بے قرار ہے۔ د نیا کے سب سے آزاد خیال اور لبرل ملک امریکا کی جانب سے شہریوں کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ریکارڈ کئے جانے کے راز افشا کرنے والے سی آئی اے کے سابق ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرروس کی سابق جاسوسہ ،آج کی ماڈل اور اداکارہ اینا چیمپین نے شادی کا پروپوزل دیا ہے اور اسے ایک ہیرو مخاطب کرتے ہوئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ وہ امریکا کی نظر میں غدار سہی لیکن اس کے لئے ایک ہیروہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔اینانے لکھا ہے کہ وہ سنوڈن سے بہت متاثرہے اور اسے خوشی ہوگی اگر وہ اس سے شادی کرلیں۔
اینا چیپمین کی اس پسند کے پیچھے یقینا کچھ ایسے راز اور کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ان دونوں میں مشترک ہیں۔اینا2010میں نیویارک میں ایک سٹیٹ ایجنٹ کے طور پر کام کررہی تھیں۔وہ روس کے لئے امریکا کی جاسوسی کرتی تھیں۔امریکانے جاسوسی کے الزام میں انہیں گرفتار کیااورکئی روز تک زیر حراست رکھا۔ان کی گرفتاری کی کہانی ابھی ایسی ہی ڈرامائی ہے۔ایف بی آئی کو شک ہوا کہ اینا ایک جاسوس ہے۔اس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اپنا ایک ایجنٹ جاسوس بنا کر اس کے پاس بھیجا جس نے ایناکوایک پاسپورٹ دیا اور کہاکہ اسے دوسرے جاسوس تک پہنچا دے۔اینا نے وہ پاسپورٹ قبول کرلیا اورکہا کہ وہ یہ ضرور پہنچا دے گی۔اس طرح یہ بات کھل گئی کہ اس کا تعلق اسی گروپ سے ہے جو امریکا کی جاسوسی کررہا ہے۔اینا کو حراست میں لے لیاگیا اور پھر کچھ عرصے بعد قیدیوں کے تبادلے کی صورت میں ڈی پورٹ کردیاگیا۔وطن واپسی کے بعد اینا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنے ملک کے لئے کام کررہی تھیں۔روس واپس جا کر اینا نے ماڈلنگ کو اپنا پیشہ بنایا اورماڈلنگ کے ساتھ ساتھ وہ ایک ٹی وی شو بھی کرتی ہیں۔انہوں نے سنوڈن کو یہ آفر بھی کی ہے کہ وہ ان کے شو میں اپنا موقف دے کر اپنی پوزیشن کلئیر کرسکتے ہیں۔
23فروری1982کو روس میں پیدا ہونے والی اینا چیپمین کے والدنیروبی میں سوویت ایمبیسی میں ملازم تھے۔اینا نے ماسکو یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا اور پھر2010 میں نیویارک چلی گئیں۔وہاں ان کی ملاقات الیکس چیپمین سے ہوئی۔دونوں کے درمیان روابط بڑھے اور انہوں نے شادی کرلی۔اس شادی کے نتیجے میں اینا کوبرطانوی پاسپورٹ اور دہری شہریت بھی مل گئی جس سے انہیں اپنے ملک کے لئے کام کرنے میں آسانی ہوگئی لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔جب ایناکو امریکا کی جاسوسی کے الزام میں دھرلیا گیا تواس وقت روسی حسینہ سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں اور ان کی تصاویر نے دنیا بھر کے اخبارات میں تھرتھلی مچا دی تھی۔اب ایک اور تھرتھلی دیکھئے دو جاسوسوں کی شادی کی صورت میں کب مچتی ہے۔آپ کا کیا خیال ہے کہ سنوڈن اپنے وطن کا غدار ہے یا
وفادار میں تو ان لوگوں کے خیالات کا حامی ہوں جو سنوڈن کو اس کے ملک کا غدار سمجھتے ہیں۔


نوائے وقت سنڈے میگزین 27-10-2103
 
آخری تدوین:
جاسوسی یقینا ایک مہم جوئی بھی ہے ۔ایسی مہم جوئی کا شوق تو کئی لوگ پالتے ہیں لیکن عملی زند گی میں قدم رکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس شوق میں انسان کا سکون ہی غارت نہیں ہوتا جان ہمہ وقت ہتھیلی پر رہتی اورچلی بھی جاتی ہے ، کئی لوگ ایک دوسرے کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لگائی بجھائی کرتے ہیں۔وہ اس کو بھی جاسوسی کا درجہ دیتے ہیں۔ یہ جاسوسی نہیں لعنت ہے جس کا عکس ان کی شکلوں سے بھی عیاں ہوتاہے ۔ایجنسیوں کے مخبر اور پولیس کے ٹاؤٹ بھی خود کو لارنس آف عریبیہ، ہیمفرے اور ماتا ہری جیسا جاسوس گردانتے ہیں حالانکہ ان کی حیثیت کرائے کے ٹٹو سے زیادہ نہیں البتہ جو واقعتاً ملکی و قومی مفاد اور انسانیت کی بھلائی کے پیش نظر دین دشمن اور وطن فروشوں کی سرگرمیوں سے متعلقہ اداروں کو آگاہ کرتے ہیں وہ بے نام ہوتے ہوئے بھی قابلِ احترام ہیں۔

ماتا ہری کو اس کے شوق ،کسی اور جذبے یا حالات نے پہلی جنگ عظیم میں جاسوسہ بنا دیا۔ اس کا اصل نام مارگریتھا جیرٹ روئی ڈازیلے ہے۔ولندیزی انڈونیشی مخلوط النسل رقاصہ بنیادی طور پر جرمنی کی جاسوسہ تھی لیکن نہایت چالاکی سے فرانس اور جرمنی کی جاسوسی دونوں دشمن ممالک کے لیے کرنے لگی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس نے فرانسیسی اور اتحادیوں کے اہم جنگی راز جرمنوں تک پہنچائے۔ ماتا ہری رقص کے دوران جب لبادہ کھول دیتی تو اس سے فرانسیسی افواج کو یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوج فرانس پر ٹینکوں سے حملہ کرنے والی ہے ۔اگر وہ جسم کے کسی اور کپڑے کو اتار کر ہوا میں بلند کر دیتی تو اس سے یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوجیں ہوائی حملہ کرنے والی ہیں۔ ماتا ہری کا فرانس میں ٹرائل ہوا، سزا سنائی گئی اور اپنے دور کی ہوشربا حسینہ اور دلربا رقاصہ کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کے گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ٹرائل کے دوران جو کچھ سامنے آیا وہ دنیا سے مخفی رکھا گیا تاہم یہ کہا گیا کہ سوسال بعد ماتا ہری کے ٹرائل کے حقائق افشاءکردئیے جائیں گے ۔یہ 100سال 2017 میں پورے ہورہے ہیں۔

ماتا ہری نے 1910ء میں جزیرہ بالی میں ایک بچی کو جنم دیا جس کا نام بندا رکھا گیا۔ بندا ماتا ہری کی اکلوتی بیٹی تھی۔ جسے ماتا ہری صرف ڈیڑھ سال کی عمر میں ایک عزیز رشتے دار کے سپرد کر کے پیرس چلی گئی۔ پھر کبھی ان ماں بیٹی کی ملاقات نہ ہوئی۔ بندا کو اپنی ماں کی شکل تک یاد نہیں تھی۔ بس اسے اتنا معلوم تھا کہ اس کی ماں ایک کلب ڈانسر تھی۔ جس کے ڈانس کی شہرت بہت دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ماں کاایک خط تھا ۔ ماتا ہری نے اسے خط میں تاکید کی تھی کہ وہ کسی کو بھی نہ بتائے کہ وہ ماتا ہری کی بیٹی ہے۔بندا اپنی ایک منہ بولی خالہ کے پاس رہتی تھی۔ اسے اسی خالہ نے ہی پالا تھا۔بالآخر وہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلی جس پر چل کر اس کی ماں انجام کو پہنچی تھی۔اس نے بھی کئی ممالک کے لئے جاسوسی کی۔ بالآخرشمالی کوریا میں اسے امریکہ کی جاسوسہ کے طور پر گرفتار کرلیا گیا اور پھر بندا کو کوئی مقدمہ چلائے بغیر فوجی فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر جس مہینے، جس تاریخ اور جس وقت ماتا ہری کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تھا، ٹھیک اسی مہینے اسی تاریخ اور اسی وقت اس کی بیٹی بندا کو بھی فائرنگ کرکے بھون دیا گیا۔

آج ایڈورڈ سنوڈن کی صورت میں جاسوسی کی ایک نئی داستان سامنے آئی ہے جس میں جرات،خطرات ،سنسنی اور رومانس سب کچھ موجودہے ۔ 29 سالہ ایڈورڈ سنوڈن کی پرورش جنوبی کیرولائنا کے شہر الزبتھ میں ہوئی۔اس کے بعد میری لینڈ میں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی’این ایس اے‘ کے ہیڈکوارٹرز کے ساتھ فورٹ میئڈ منتقل ہوگئے۔ایڈروڈ سنوڈن نے میری لینڈ کے کمیونٹی کالج سے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی تاکہ ہائی سکول کا ڈپلومہ حاصل کرنے کے لیے ضروری کریڈٹ آورز حاصل کر سکیں لیکن انہوں نے اپنا کورس مکمل نہیں کیا۔انہوں نے سال دو ہزار تین میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور سپیشل فورسز کے ساتھ تربیت شروع کی لیکن تربیت کے دوران ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں جس پر انہیں اس فورس سے الگ ہونا پڑا۔انہوں نے اپنی پہلی نوکری نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے میری لینڈ یونیورسٹی میں واقع خفیہ مرکز میں گارڈ کے طور پر شروع کی اور اس کے بعد خفیہ ایجنسی سی آئی اے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سکیورٹی کے شعبے میں کام کیا۔ جہاں اس کے فرائض میں اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کرنا شامل تھا، ایک موقع پر وہ اپنے کام سے دلبرداشتہ ہوگیااور تمام خطرات مول لیتے ہوئے اس نے اپنی حکومت کی ایسی سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔2013ء کے اوائل میں سنوڈن نے گارجین کے اخبار نویس گلن گرینوالڈ کو پیغام بھیجا کہ اس کے پاس امریکی جاسوسی کے بارے میں مواد ہے مگر وہ صرف پی جی پی کے ذریعے سے رابط کرنا چاہتا ہے۔ گرینوالڈ اس طریقہ سے نابلد تھا، چنانچہ رابطہ میں تاخیر ہوئی تو سنوڈن نے گارجین اور واشنگٹن پوسٹ کو 41صفحات پر مشتمل مواد بھیج دیا۔ دونوں اخباروں نے امریکی سرکار سے رابطہ کیا اور صرف دو تین صفحات شائع کرنے کی جرات ہی کر سکے۔ سنوڈن کی سرگرمیوں کا بھانڈہ پھوٹا تو وہ ہوائی سے ہانگ کانگ چلا گیا۔ جہاں اس نے گریندوالڈ سے ملاقات کی۔ امریکی حکام نے سنوڈن پر جاسوسی کی فردِ جرم عائد کرتے ہوئے اس کا گزرنامہ منسوخ کر دیا۔ تاہم سنوڈن ہانگ کانگ سے ماسکو فرار ہو گیا، جہاں اس نے 21ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ امریکہ کے دھمکانے پر اکثر ممالک نے حامی نہ بھری تاہم لاطینی امریکاکے دو ممالک نکاراگوا اور وینزویلا کے صدور نے سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کی مگردبے الفاظ میں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سنوڈن کو پناہ دینے کے لئے راضی ہیں۔ سنوڈن نے روس میں پناہ کی درخواست کی جس پر امریکی حکومت نے روس کو باز رہنے کو کہا اور یقین دلایا کہ سنوڈن کو وطن واپسی پر اذیت دی جائے گی نہ ہی سزائے موت، اس لیے پناہ کی درخواست مسترد کر کے اسے ہمارے حوالے کردیا جائے ۔ اس پر روسی صدر پیوٹن نے جواب دیا کہ روس اپنے ہاں پناہ لینے والے کو دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرتا اور نہ کسی نے کسی کو کبھی روس کے حوالے کیا ہے۔ جولائی2013ءمیں سنوڈن کو روس نے امریکی مخالفت کے باوجود پناہ دے دی۔

یہ بات قابل غور ہے کہ سنوڈن نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا؟کیا سنوڈن کے دل میں عام شہریوں کے لئے اتنادرد تھا کہ اس کے لئے اس نے اپنی زندگی اور اپنی خوشیاں داؤ پر لگادیں یا پھر وہ کسی کے مفادات کے لئے کام کررہا تھا؟ امریکا نے اسے ایک غدار کہا ۔ان سوالوں کے جواب میں سنوڈن کا کہنا ہے” میں چاہتا ہوں کہ ہر شہری ایک آزادانہ زندگی بسرکرے۔میں ایسے معاشرے میں نہیں رہنا چاہتا جہاں اس قسم کا کام کیا جائے۔میں ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا جہاں ہر وہ چیز جو میں کروں یا کہوں اس کو ریکارڈ کیا جائے۔امریکا نا صر ف اپنے شہریوں بلکہ دیگر ممالک کی خفیہ دستاویز کی نگرانی بھی کرتا ہے۔اس میں پاکستان کے علاوہ ایران اور چین بھی شامل ہیں۔ سی آئی اے نے ایران اور چین کی ای میلز بھی ہیک کیں تاکہ ان کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کی جاسکے۔ اس سکینڈل کو تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈ ل قرار دیاجارہا ہے۔ میں اپنے کئے پر پشیمان نہیں ہوں۔آزادی ہر شخص کا حق ہے اور کوئی بھی حکومت اس سے اس کا یہ حق نہیں چھین سکتی۔ میں نے جنیوا میں جو زیادہ تر دیکھا، اس نے واقعتاً مجھے اس فریب سے باہر نکال دیا کہ کس طرح میری حکومت کام کرتی ہے اور اس کا دنیا پر کیا اثر ہوتا ہے۔مجھے اندازہ ہوا کہ میں ایک ایسی چیز کا حصہ ہوں جس کا فائدے کی بجائے بہت زیادہ نقصان ہے۔میں نے عوام میں جانے کا پہلے فیصلہ کیا تھا لیکن یہ دیکھنے کے لیے انتظار کیا کہ آیا سال دو ہزار آٹھ کے انتخاب میں صدر اوباما کے آنے کے بعد امریکہ کے نقطہ نظر میں تبدیلی آتی ہے لیکن صدر اوباما نے اپنے پیشرو کی پالیسوں کو جاری رکھا“

سنوڈن کو امریکی شہریوں کی طرف سے متضاد رد عمل اور آرا کا سامنا ہے۔کئی لوگ اس اقدام سے خوش اور اسے اپنا ہیرو مانتے ہیں۔دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ شہریوں کے تحفظ کیلئے حکومت کو کچھ بھی کرنے کا حق ہے اور انہیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں۔یورپی یونین نے اس غلط حرکت پر امریکا سے وضاحت طلب کی جس پر نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے دہشتگردی کے کئی واقعات ناکام بنائے گئے ہیں اور ایسا شہریوں کی حفاظت کے لئے کیاگیا۔ سنوڈن کی اس درجہ پزیرائی ہورہی ہے کہ ان کی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ یورپ میں انسانی حقوق کے ایک بڑے انعام سخاروف کے لیے نامزدگی ہوئی تھی ۔یہ انعام خواتین کو تعلیم کا حق دلانے کے لیے کوشاں پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی نے جیت لیا ۔یورپی پارلیمان میں گرین گروپ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے ایڈورڈ سنوڈن کو امریکی جاسوسی نظام کے بارے میں راز افشا کرنے پر اس انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔سنوڈن کی نامزدگی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی طرف سے امریکہ کے جاسوسی کرنے کے اقدام کے بارے میں راز افشا کرنا انسانی حقوق اور یورپی شہریوں کی ایک بڑی خدمت تھی۔آزادیِ اظہار کے لیے دیا جانے والا یورپی یونین کا یہ ایوارڈ روسی ماہرِ طبیعیات آندرے سخاروف کی یاد میں دیا جاتا ہے۔پچاس ہزار یورو مالیت کا یہ ایوارڈ یورپ میں حقوقِ انسانی کا سب سے بڑا ایوارڈ مانا جاتا ہے۔

اس سارے قصے میں کس کا کیا مفاد تھا ؟ اس پر بحث ہوتی رہے گی ۔ مگر ایک سابق روسی جاسوسہ اور آج کی معروف ماڈل اینا چیپمین کے سنوڈن سے شادی کے پروپوزل نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ایک ہفت روزہ میں رابی خالد سنوڈن اینا کے پوان چڑھتے معاشقے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اینا کو اپنے خوابوں کا شہزادہ مل گیا اس نے کیسے یہ جا ن لیا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے ساتھ وہ اپنی زندگی کو بانٹ سکتی ہے۔ اس نے دیکھا ، سنا اور یکا یک اس کے درِ دل پر دستک دے دی ۔ یہ کہانی کسی فلم کی نہیں نہ ہی کو ئی افسانہ ہے بلکہ یہ آج کے عالمی تناظر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبروں میں سے ایک ہے اب اس خبر کو پڑھنے والے آگے کیا ہوا کے اشتیاق میں مبتلا ہیں۔ دونوں کا شوق ایک،کام ایک ہے سو اس کے ساتھ ایک ہی لڑی میں پروئے جانے کے لیے روسی دوشیزہ بے قرار ہے۔ دنیا کے سب سے آزاد خیال اور لبرل ملک امریکا کی جانب سے شہریوں کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ریکارڈ کئے جانے کے راز افشا کرنے والے سی آئی اے کے سابق ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرروس کی سابق جاسوسہ ،آج کی ماڈل اور اداکارہ اینا چپمین نے شادی کا پروپوزل دیا ہے اور اسے ایک ہیرو مخاطب کرتے ہوئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ وہ امریکا کی نظر میں غدار سہی لیکن اس کے لئے ایک ہیروہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اینانے لکھا ہے کہ وہ سنوڈن سے بہت متاثرہے اور اسے خوشی ہوگی اگر وہ اس سے شادی کرلیں۔

اینا چیپمین کی اس پسند کے پیچھے یقینا کچھ ایسے راز اور کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ان دونوں میں مشترک ہیں۔ اینا2010میں نیویارک میں ایک سٹیٹ ایجنٹ کے طور پر کام کررہی تھیں۔وہ روس کے لئے امریکا کی جاسوسی کرتی تھیں۔امریکانے جاسوسی کے الزام میں انہیں گرفتار کیااورکئی روز تک زیر حراست رکھا۔ ان کی گرفتاری کی کہانی ابھی ایسی ہی ڈرامائی ہے۔ ایف بی آئی کو شک ہوا کہ اینا ایک جاسوس ہے۔ اس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اپنا ایک ایجنٹ جاسوس بنا کر اس کے پاس بھیجا جس نے ایناکوایک پاسپورٹ دیا اور کہاکہ اسے دوسرے جاسوس تک پہنچا دے۔ اینا نے وہ پاسپورٹ قبول کرلیا اورکہا کہ وہ یہ ضرور پہنچا دے گی۔ اس طرح یہ بات کھل گئی کہ اس کا تعلق اسی گروپ سے ہے جو امریکا کی جاسوسی کررہا ہے۔اینا کو حراست میں لے لیاگیا اور پھر کچھ عرصے بعد قیدیوں کے تبادلے کی صورت میں ڈی پورٹ کردیاگیا۔ وطن واپسی کے بعد اینا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنے ملک کے لئے کام کررہی تھیں۔ روس واپس جا کر اینا نے ماڈلنگ کو اپنا پیشہ بنایا اورماڈلنگ کے ساتھ ساتھ وہ ایک ٹی وی شو بھی کرتی ہیں۔ انہوں نے سنوڈن کو یہ آفر بھی کی ہے کہ وہ ان کے شو میں اپنا موقف دے کر اپنی پوزیشن کلئیر کرسکتے ہیں۔
23فروری1982کو روس میں پیدا ہونے والی اینا چیپمین کے والدنیروبی میں سوویت ایمبیسی میں ملازم تھے۔ اینا نے ماسکو یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا اور پھر2010 میں نیویارک چلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات الیکس چیپمین سے ہوئی۔ دونوں کے درمیان روابط بڑھے اور انہوں نے شادی کرلی۔ اس شادی کے نتیجے میں اینا کوبرطانوی پاسپورٹ اور دہری شہریت بھی مل گئی جس سے انہیں اپنے ملک کے لئے کام کرنے میں آسانی ہوگئی لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ جب ایناکو امریکا کی جاسوسی کے الزام میں دھرلیا گیا تواس وقت روسی حسینہ سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں اور ان کی تصاویر نے دنیا بھر کے اخبارات میں تھرتھلی مچا دی تھی۔ اب ایک اور تھرتھلی دیکھئے دو جاسوسوں کی شادی کی صورت میں کب مچتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ سنوڈن اپنے وطن کا غدار ہے یا وفادار میں تو ان لوگوں کے خیالات کا حامی ہوں جو سنوڈن کو اس کے ملک کا غدار سمجھتے ہیں۔


نوائے وقت سنڈے میگزین 27-10-2103
 
Top