ایبسرڈ غزل

ایبسرڈ غزل

ڈھلمل یقین وہ نہ تھا، مجھ کو یقین آ گیا
مجھ کو بھی حوصلہ ملا، مجھ کو یقین آگیا

پیار بہت سا اس نے جب آنکھوں میں اپنی بھرلیا
کہنے کو کچھ رہا نہ تھا ، مجھ کو یقین آ گیا

جانے یہ کیسے ہوگیا، مجھ کو پتہ نہیں چلا
دھیان مرا بٹا لیا ، مجھ کو یقین آ گیا

اس نے کبھی کہا نہ تھا، میں نے بھی کچھ سنا نہ تھا
دل میں مرے جب آگیا ، مجھ کو یقین آ گیا

کس نے کہا تھا اب مجھے یاد ذرا نہیں رہا
بس کچھ نہ پوچھ ناصحا ، مجھ کو یقین آ گیا

ہمدم ہے جب وہی مرا، وہ میری جاں مرا خلیلؔ
کچھ نہ کہا نہ کچھ سنا ، مجھ کو یقین آ گیا​
 
Top