اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلیں

کعنان

محفلین
اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلیں
سید قاسم علی شاہ، 18/12/2016
strength-809x404.jpg

جہاں انسان کا دانہ پانی ہوتا ہے، وہاں انسان پہنچ جاتا ہے۔ انسان بسا اوقات حیران ہوتا ہے کہ فلاں جگہ سے مجھے چائے کیوں مل گئی، کھانا کیوں مل گیا، فلاں جگہ سے میں کیوں نہ کھا سکا، فلاں جگہ پر کیوں پہنچا، جب غور کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ دانہ پانی لکھا ہوا تھا۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک بندہ کسی جگہ اپنا کام کر رہا ہوتا ہے اور پھر ایسی جگہ پر پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا، وہ صرف اس وجہ سے وہاں پہنچ جاتا ہے کیوں کہ اس کا وہاں دانہ پانی ہوتا ہے۔ جس طرح رزق کا دانہ پانی ہوتا ہے، وہ اسے مل جاتا ہے، اسی طرح بات چیت کا بھی دانہ پانی ہوتا ہے۔ ہم نے ایک بات کو سیکھنا ہوتا ہے اور وہ بات خاص وقت اور خاص شخص کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، ہم کہیں موجود ہوتے ہیں، قدرت ہمیں لا کر اس کے سامنے کھڑا کر دیتی ہے، اور ہم وہ بات سیکھ لیتے ہیں۔

ہم بچپن سے ہی اپنے تصورات قائم کر لیتے ہیں جیسے کسی کی آنکھیں، کان، بازو، ٹانگیں، منہ اور جسم ٹھیک ہے، وہ سو فیصد ٹھیک ہے، لیکن غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے، دنیا میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کی دو ٹانگیں ہیں، دو بازو ہیں، دو آنکھیں ہیں، دو کان ہیں اور ان کا ذہن بھی ٹھیک ہے، ایسے لوگ اپاہج تو نہیں ہوتے لیکن حقیقت میں اپاہج ہوتے ہیں، اس کے برعکس کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ٹانگوں سے، آنکھوں سے اور بازوؤں سے محروم ہیں لیکن وہ مکمل ہیں کیونکہ اصل میں اپاہج وہ ہے جس کے پاس سب کچھ ہے لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود ان کا استعمال صحیح نہیں ہے۔

ایک اسی سالہ اندھا بھکاری حضرت شیخ سعدی شیرازی ؒ کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہہ رہا ہوتا ہے کہ کاش مجھے اتنی تکلیف والی زندگی نہ ملتی،
آپؒ دستک سن کر دروازے پر آتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ آئے تو تم بھیک مانگنے ہو لیکن یہ کیا بات کر رہے ہو؟
بھکاری نے جواب دیا کہ میں مانگنے نہیں آیا، میرا ایک سوال ہے اس کا جواب چاہیے.
آپؒ نے پوچھا کیا سوال ہے؟
اس نے کہا کہ میری اسی سال عمر ہو گئی ہے لیکن مجھ سے زیادہ بھی بدقسمت کوئی ہو سکتا ہے؟
آپ ؒنے پوچھا کہ تجھے یہ خیال کیسے آیا کہ تو بدقسمت ہے؟
اس نے کہا کہ میری بدقسمتی کی وجہ یہ ہے کہ میری اسی سال عمر ہے لیکن اتنی عمر گزر جانے کے باوجود بھی دنیا کو دیکھنے سے محروم ہوں، اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے؟
آپؒ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ تم سے بڑا بدقسمت وہ ہے جس کے پاس آنکھوں کی بصارت تو ہے لیکن زندگی میں بصیرت نہیں ہے۔

جو لوگ محرومیوں کے باوجود کچھ کر کے دکھاتے ہیں، مغربی معاشرے میں ایسے لوگوں کو بہت پروموٹ کیا جاتا ہے، انہیں بےشمار سہولیات دی جاتی ہیں، وہ سہولیات اچھے روزگار کی صورت میں بھی ہوتی ہیں اور عزت کی صورت میں بھی۔ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو محرومیوں کے باوجود کچھ کر کے دکھاتے ہیں، ان کو پروموٹ نہیں کیا جاتا۔ ہم سمجھتے ہی نہیں کہ ہمیں جو رزق مل رہا ہے، وہ شاید انھی لوگوں کی وجہ سے مل رہا ہو،

حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں ”ایسا ممکن ہے کہ گھر کا ایک ایسا شخص جو کچھ بھی نہ کرتا ہو لیکن ہو سکتا ہے کہ گھر کے سارے افراد اس کا نصیب کھا رہے ہوں.“
کسی نے پوچھا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
فرمایا ”بسا اوقات کوئی برکت والا ہوتا ہے۔“
ہمارا معاشرہ ایک بیمار معاشرہ ہے، یہ طویل عرصہ ارتقائی مراحل میں رہا ہے جس کی وجہ سے یہ آج تک طے ہی نہیں کر سکا کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا؟ حق دار کون ہے اور کون نہیں؟ محرومیوں کے باوجود آگے بڑھنے والے لوگ کتنے قیمتی ہیں، یہ ہمارے لیے کتنا بڑا سرمایہ ہیں اور کتنی بڑی برکت ہیں۔

ایک ٹریننگ میں لوگوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھانے کو کہا گیا، جب ان لوگوں نے کھانا کھایا تو سب رونے لگ پڑے، کوچ نے کہا کہ دوستو دیکھو ابھی آپ نے پوری زندگی میں ایک دن اور ایک دن میں ایک کھانا آنکھوں پر پٹی باندھ کا کھایا ہے تو ذرا سوچیے کہ جس کی آنکھیں نہیں ہیں، اس نے پوری زندگی میں کیسے کھانا کھایا ہو گا؟
پھر انہیں کہا گیا کہ اپنی ٹانگیں باندھیں اور کام کریں، انہیں آدھ گھنٹہ گزارنا مشکل ہو گیا، جب رسی کھولی گئی تو کوچ نے کہا کہ اندازہ لگائیے، جو ٹانگوں سے محروم ہے وہ کس تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہے؟ تم ان ٹانگوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کی قدر نہیں کرتے،
پھر کہا گیا کہ تھوڑی دیر کےلیے اپنی سانس کو بند کر لیں، اور اس وقت تک بند رکھیں جب تک تکلیف نہ ہونی شروع ہو جائے،
(جب آکسیجن کم ہوتا ہے تو فیصلہ سازی کی قوت پر اثر پڑتا ہے، اور دماغ کا توازن خراب ہو جاتا ہے) جب پانچ سات بار اس طرح کروایا گیا تو کہا گیا کہ ذرا دیکھیں دنیا کیسی نظر آ رہی ہے ، انہیں لگ رہا تھا جیسے ساری دنیا گھوم رہی ہے، کوچ نے کہا کہ مجھے بتائیں جو بندہ ذہنی طور پر تھوڑا سا معذور ہے، ذرا اس کی تکلیف کا اندازہ لگائیے کہ وہ ایک لمحے میں کتنی تکلیف سے گزر رہا ہوتا ہے۔

ایک دن لیلیٰ لنگر بانٹ رہی تھی، لنگر لینے والوں کی لائن میں مجنوں بھی کاسہ لیے کھڑا تھا، جب مجنوں کی باری آئی تو لیلیٰ نے اسے لنگر دینے کی بجائے اس کا کاسہ توڑ دیا، مجنوں بہت خوش ہوا، دوسروں نے پوچھا کہ تم کیوں خوش ہوئے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ لیلیٰ نے جو سلوک میرے ساتھ کیا ہے، تمہارے ساتھ نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص تھوڑا معذور ہے، اسے یہ بات ذہن میں نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہے؟ اسے سوچنا چاہیے کہ اتنی مخلوق میں اللہ تعالیٰ نے صرف مجھے چنا، اور اسی سلوک کی وجہ سے میرا اللہ تعالیٰ سے تعلق بن گیا، اور یہ تعلق مجھے اس کی زیادہ یاد دلاتا ہے، یہ کتنی بڑی سعادت کی بات ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی کاسہ توڑ کر اپنا تعلق دیا ہے، تو یہ برا سودا نہیں ہے۔

بہت ساری دعائیں ایسی ہیں جو ”یا ربی“ سے شروع ہوتی ہیں، اگر اس کا ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہے “اے میرے رب“، اگر زندگی میں ہم کہیں ”میری ماں“ تو احساس محسوس ہوتا ہے یا کہیں ”میرا بیٹا“ تو احساس محسوس ہوتا ہے یا کہیں ”میرا بھائی“ تو احساس محسوس ہوتا ہے لیکن جب یہ کہا جائے کہ ”میرا رب“ اور احساس نہ جاگے تو پھر سوالیہ نشان ہے۔ اس کا مطلب ہے، اس سے تعلق نہیں قائم کیا۔ جب تعلق قائم نہیں کیا تو پھر گلہ کرنا نہیں بنتا کیونکہ اس نے تھوڑی سی محرومی دے کر اپنا خاص قرب دیا ہے، اگر کوئی دوری ہے تو صرف ہماری طرف سے ہی ہے، اس کی طرف سے نہیں۔

حضرت شیخ سعدی ؒ کہیں جا رہے تھے، پاؤں میں جوتی نہیں تھی، انہوں نے گلہ کیا کہ اے میرے مالک میرے پاؤں میں جوتی نہیں ہے، ابھی ذرا کچھ آگے ہی گئے تھے کہ ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں نہیں تھے، آپؒ فورا سجدے میں گر گئے اور دعا کی کہ میرے مالک تیرا شکر ہے، اگر جوتی نہیں ہے تو کوئی بات نہیں، پاؤں تو ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں ”جو مقام گلہ ہوتا ہے اصل میں وہی مقام شکر ہوتا ہے“ جو شخص اپنی زندگی سے گلہ کو ختم کر لیتا ہے، اور کہتا ہے کہ اے میرے مالک! اگر میں تیری نگاہِ خاص میں ہوں تو میرے لیے یہی کافی ہے، ایسے شخص کے لیے راستے آسان ہو جاتے ہیں۔

محسن نواز صاحب تین سال کی عمر میں پولیو کا شکار ہو گئے، پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اس لیے بچوں کی کہانیاں لکھنی شروع کر دیں، جب ان کی پہلی کہانی ماہنامہ پھول میں چھپ کر آئی تو وہ آنکھوں سے بھی محروم ہو گئے،
(ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ کسی کی کہانی چھپ کر آئے، اور وہ پڑھ ہی نہ سکے تو اس کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات اور کیا ہو سکتی ہے)۔

ایک دن محلے کی ایک عورت ان کےگھر آئی اور ان کی والدہ سے کہنے لگی ”آپ محسن کے لیے دعا کیوں نہیں کرتیں.“
محسن صاحب کی والدہ نے کہا ”کون سی دعا“
اس نے کہا ”یہی کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس بلالے“،
محسن کی والدہ نے کہا ”تم کیسی باتیں کر رہی ہو“
اس عورت نے کہا ”یہ تو کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے، آنکھیں ہیں نہ ٹانگیں، تم پربوجھ ہے، کب تک یہ بوجھ اٹھاتی رہو گی“،
محسن صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت میں اس عورت کی باتیں سن رہا تھا، میں نے اسی لمحے فیصلہ کیا کہ اگر ٹانگیں نہیں ہیں، آنکھیں نہیں ہیں تو کیا ہوا جو باقی ہے، میں اس سے بہترین کرنے کی کوشش کروں گا، میرے لیے یہ کافی ہے۔
محسن نواز صاحب نے دل لگا کر پڑھنا شروع کر دیا، علم کی طلب اتنی سچی تھی کہ وہ خالی کیسٹیں خریدتے اور دوستوں کو کہتے کہ کتاب کو اپنی آواز میں ریکارڈ کر دو، میں یاد کر لوں گا، اس طرح کیسٹوں کے ذریعے محسن نواز کتابیں یاد کرنے لگے، یہاں تک کہ انہیں 1500 کتابیں زبانی یاد ہو گئیں،
(کہاں ایک کتاب کا پڑھنا اور کہاں 1500 کتابوں کو یاد کر لینا)۔ آج وہی محسن نواز صاحب جن کی ٹانگیں اور آنکھیں نہیں ہیں، وہ ریڈیو پر پروگرام کرتے ہیں، اور ایک کمپنی میں پی آر کے مینجر ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص نا امید ہے تو صرف دس منٹ ان کے پاس بیٹھ جائے، اس کی ناامیدی ختم ہو جائے گی۔ کیا ہوا اگر آپ محروم ہیں، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، آج فیصلہ کریں، جو نہیں بدلا جا سکتا، اسے قبول کر لیں، وہ مالک کی رضا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے جلد راضی ہوتا ہے۔

ہینڈی کیپ وہ ہے جو سوچ کا ہینڈی کیپ ہے، ہینڈی کیپ وہ ہے جس کی فکر ہینڈی کیپ ہے، ہینڈی کیپ وہ ہے جو ناامید ہے، ہینڈی کیپ وہ ہے جس کے پاس امنگ نہیں ہے، ہینڈی کیپ وہ ہے جس کے پاس موٹیویشن نہیں ہے، اور ہینڈی کیپ وہ ہے جس کے پاس زندگی میں کچھ کرنے کا جذبہ نہیں ہے۔ منزلیں دور نہیں ہوتیں، صرف ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دو ہی مقام ہوتے ہیں، روزگار لینا یا روزگار دینا، ارادہ کریں کہ میں نے روزگار دینے والا بننا ہے۔ زندگی میں چھوٹی ڈیل نہ کریں، مالک بننے کا سوچیں۔

ایک شخص کی بیوی کو آرٹ کا کام سیکھنے کا بہت شوق تھا، اس شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم کیا ادھر ادھر جا کر سیکھتی رہتی ہو، چھوڑو گھر میں رہا کرو. بیوی نے کہا کہ مجھے اس کا شوق ہے تو شوہر نے کہا کہ میری اچھی جاب ہے، تمہیں اس جاب کے ہوتے ہوئے کیا ضرورت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بس مجھے شوق ہے۔ شادی کے آٹھ سال بعد اس شخص کی اچانک نوکری ختم ہو گئی، جس کی وجہ سے ان کے مالی حالات خراب ہونے لگے. بیوی نے جو کچھ سیکھا ہوا تھا، اسی سے اپنا کام شروع کر دیا. وہ کام چل پڑا، جلد ہی اس نے اپنے پاس کام کرنے والی عورتیں رکھ لیں، اس کا کام اتنا معیاری تھا کہ اس نے ایک چھوٹی سی فیکٹری قائم کر لی، ان کا سارا مال باہر جانا شروع ہو گیا. شوہر نے شکر ادا کیا کہ ادھر میری نوکری چھوٹی اور ادھر میں نے نوکریاں دینی شروع کر دیں۔

آج سے وعدہ کریں کہ ہم نے اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلنا ہے، اور باقی کی زندگی کو شکر، مقصد، ارادے، خیر اور برکت والی زندگی بنانا ہے۔

ح
 
Top