آئین برائے گھریلو امور

نکتہ ور

محفلین
کچھ عرصہ پہلے کسی نے ایک فیس بک پوسٹ پر مبنی میسج بھیجا۔ انگریزی میں لکھی دلچسپ پوسٹ تھی۔ تحریر سے اندازہ ہوتا تھا کہ مغربی معاشرے سے تعلق رکھنے والے کسی عمر رسیدہ شخص نے اسے رقم کیا ہے۔ انگریزی لفظ گرینڈ فادر کے فہم میں دادا، نانا دونوں آ جاتے ہیں۔ کسی گرینڈ فادر ہی نے اپنے پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسوں کے لئے ہلکے پھلکے انداز میں گھر کے یہ قوانین بنائے ہوں گے۔ پانچ سات نکات تھے، کچھ اس طرح ''ممی، ڈیڈی نامی مخلوق کو اس گھر میں رہنے کی اجازت نہیں، بچوں کو چھوڑ کر وہ چلتے بنیں۔ ناشتہ صبح سات کے بجائے دس گیارہ بجے ملے گا، جب بچے اپنی مرضی سے سو کر اٹھیں۔ اسی طرح رات کا کھانا انہیں رات بارہ بجے بھی دیا جا سکتا ہے۔ بیڈ پر اچھلنے کودنے پر کوئی پابندی نہیں، جی بھر کر جمپنگ کی جائے، آئس کریم یا میٹھا کھانے کے آخر میں لینے پر کوئی پابندی نہیں، اسے مانگنے پر سب سے پہلے سرو کیا جائے گا۔ گرینڈ فادر کے گھر چھٹی کا دن مناتے ہوئے جی بھر کر مستی کی جائے، دادی سے کہانیاں سنی جائیں، مزے مزے کے پکوان کھائے جائیں اور خوب لطف اٹھایا جائے۔ پڑھنا لکھنا منع ہے، سکول بیگ (بستے) لانے کی کوئی ضرورت نہیں، برتن گرانے، کھڑکیوں کے شیشے توڑنے پر کوئی سزا نہیں وغیرہ وغیرہ‘‘۔ وہ دستور نامہ پڑھ کر بے اختیار اپنا بچپن اور بزرگوں کی محبت یاد آ جاتی تھی۔ جس خوش نصیب کو رب تعالیٰ نے دادا، دادی یا نانا، نانی بنایا ہے، اپنے ننھے پھولوں سے وہ کھیلتے اور زندگی کی خوشیاں کشید کرتے ہیں، وہی اس گرینڈ فادر رولز سے حقیقی لطف اٹھا سکتے ہیں۔
یہ تو خیر ہلکے پھلکے شگفتہ سے قوانین تھے اور مغربی معاشرے‘ جہاں بچے عام طور سے الگ رہتے اور بزرگ جوڑا الگ فلیٹ میں رہنے پر مجبور ہے، کے لئے تو کارآمد ہو سکتے ہیں‘ لیکن ہمارے مشرقی معاشرے میں، جہاں آج بھی مشترکہ خاندانی نظام بڑی حد تک قائم ہے، خاص کر بزرگ ساتھ ہی رہتے ہیں، وہاں تو اس قدر آزادی دینا ممکن ہے اور نہ ہی اس طرح بچوں کی تربیت۔ سال چھ ماہ یا مہینے دو کے بعد ایک دن گزارنے کے لئے البتہ ایسا دوستانہ ماحول تخلیق کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ گھر کے لئے ویسے قوانین بنانے چاہئیں‘ جو سب کے لئے ہوں۔ پچھلے دنوں دو تین ایسے لوگوں کے گھر جانا ہوا، جہاں ایک باقاعدہ تحریری دستور گھر کی دیوار پر آویزاں تھا۔ ایک عزیز کے گھر کے لائونج میں ہاتھ سے لکھا ہوا مختلف قوانین پر مشتمل ایک کاغذ دیوار پر لگا تھا۔ اس کے اوپر آئین برائے گھریلو امور لکھا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ گھر کے بڑوں نے بچوں کو ترغیب دی اور ان کے کہنے پر بچوں نے گھر کے لئے ایک آئین مرتب کیا، جس کی سب سختی سے پابندی کرتے تھے۔ اس کی تحریک شاید کسی انٹرنیٹ تحریر سے ملی تھی۔ چند ایک چیزیں واضح الفاظ میں لکھی گئی تھیں، جیسے جس نے کوئی چیز نکالی وہی اسے واپس رکھے، کوئی دراز کھولی، بندکرے، کچھ گر گیا تو اٹھائے، دودھ، چائے چھلک گئی تو صاف کی جائے۔ بچوں نے کچن میں کچھ بنایا ہے تو اس کے بعد کچن کو پہلے کی طرح صاف کرنا بھی ان سب کی ہی ذمہ داری ہے، وغیرہ وغیرہ۔
دو تین دن پہلے ایک معروف فیس بک بلاگر محمد سلیم شانتو نے ایک دلچسپ پوسٹ شیئر کی۔ وہ لکھتے ہیں، ''ڈاکٹر عبدالکریم بکار صاحب شامی شہری ہیں اور معاشرے میں ذات و اجتماعی تعلق/تربیت اور اسلامی احیاء پر ریسرچر۔ دنیا بھر میں اپنے منفرد مقالات کی بنا پر جانے پہچانے جاتے ہیں، اسی موضوع پر چالیس سے زیادہ کتابوں کے مولف ہیں۔ سعودی عرب کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھا چکے ہیں۔ کئی ٹی وی چینلز پر اپنے اختیار کردہ شعبے کے بانی اور سینکڑوں رسالوں اور اخبارات کی جان ہیں۔ آپ کہتے ہیں: والدین ہرگز ہرگز اس بات کے انتظار میں نہ رہیں کہ تربیت گاہیں اپنے فرائض پورے کرکے ان کی اولاد کو اچھا شہری بنائیں، انہیں خود اس ذمہ داری کو پورا کرنا ہو گا کہ انفرادی طور پر اپنے بچوں کو معاشرے کا ذمہ دار فرد بنائیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ والدین گھروں میں ہی کچھ ایسے ہلکے پھلکے قانون بنا دیں جن پر عمل کرکے بچوں کے کردار میں پختگی آئے اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے اس ضمن میں چند لوائح العمل تیار کئے ہیں، والدین کو ان میں جو مناسب لگیں وہ اختیار کر لیں یا ان میں ترمیم و اضافہ کر لیں۔
01: گھر کا ہر فرد نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے گا۔
02: ''براہ مہربانی‘‘ اور ''شکریہ‘‘ کے کلمات بنیادی ضوابط ہوں گے جن سے کوئی بھی بری نہیں ہو گا۔
03: کوئی ''مار پٹائی‘‘ ، ''گالم گلوچ‘‘ یا کوئی بھی ''لعن طعن‘‘ والی ایسی بات نہیں ہوگی جس سے بدذوقی کا احساس ہو۔
04: اپنے محسوسات اور خیالات کو ادب و احترام اور وضاحت کے ساتھ بتا دیجئے۔
05: جو کوئی بھی جس جس چیز کو (دروازہ، کھڑکی، ڈبہ، پلیٹ) کھولے گا اْسے بند بھی کرے گا، کچھ گر جائے تو اْسے اٹھائے گا اور جگہ کو اْس سے زیادہ صاف کر کے رکھے گا جیسے پہلے تھی۔
06: آپ کا کمرہ خالص آپ کی ذمہ داری ہے۔
07: جو کوئی بات کرے گا اْسے ٹوکے بغیر سنی جائے گی اور بات کو درمیان میں سے کوئی نہیں کاٹے گا۔
08: گھر میں داخل اور جاتے وقت سلام کرنا ہوگا۔
09: گھر کا ہر فرد روزانہ قرآن مجید کی کچھ تلاوت کرے گا۔
10: جو ہم سے ملنے آئے وہ ہمارے قوانین کا احترام کرے۔
11: گھر کا کوئی بھی فرد اپنے کمروں میں جا کر کچھ نہیں کھائے گا۔
12: رات کو (00:00) یعنی بارہ بجے کے بعد کوئی بھی نہیں جاگے گا۔
13: سمارٹ فون اور ڈیوائسز صرف (00:00) سے لے کر (00:00) کے درمیان میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔
14: والدین کے لیے احتراما کھڑا ہونا، اْن کے سر پر بوسہ دینا یا اْن کے ہاتھ چومنا ضروری شمار ہوگا۔
15: مل کر بیٹھے وقت میں کسی قسم کی مواصلاتی ڈیوائس (فون/پیڈ) کا استعمال منع ہوگا۔
16: کھانے پینے کے وقت میں سب کی حاضری اور شمولیت ضروری ہوگی۔
17: رات کو (00:00) کے بعد کسی قسم کی تعلیمی سرگرمی کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
18: گھر کے سارے افراد گھر اور گھر میں موجود ہر شئے کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔
19: اپنا کام ہر کوئی خود کرے گا، کوئی کسی دوسرے پر حکم نہیں جھاڑے گا ہاں مگر گھر کے سربراہان اپنا کام کسی کو کہہ سکتے ہیں۔
20: خاندان اور اْس کی ضروریات کسی بھی دوسری ضرورت پر مقدم اور پہلے کی جانے والی شمار ہوں گی۔
21: کوئی بھی کسی کے کمرے یا علیحدگی والی جگہ پر دروازہ کھٹکھٹائے یا اس کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔
ایک اور عرب سکالر ڈاکٹر محمد راتب نابلسی کہتے ہیں کہ میں نے اس مضمون کو بہت ہی مفید پایا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اسے اہمیت دیں کیونکہ اولاد کی تربیت ایک ایسا مشکل کام ہے جسے ہفتے کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے کرنا ہوتا ہے۔‘‘
آخر میں صرف اتنا ہی کہ گھر کے لئے آئین بنانا آسان کام نہیں، اسے بنانے کے بعد اس پر عمل کرانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ والدین کو تحمل اور برداشت سے کام لینا ہوگا اور سب سے پہلے اپنے اوپر اس کا اطلاق کریں۔ گھر میں کسی'' مقدس گائے ‘‘ کی گنجائش نہیں۔ شروع میں بچوں کو کچھ مسائل پیش آئیں گے، ڈسپلن کا پابند بنانا کٹھن ہوتا ہے، مگر بتدریج چیزیں بہتر ہوتی جائیں گی۔ آئین کے ساتھ کھڑے رہنے ، اس پر عمل درآمد کرنے کے عزم کی معاشروں کے ساتھ گھر اور افراد کو یکساں ضرورت پڑتی ہے۔کامیابی تب ہی مقدر بنتی ہے۔

ربط
 

زیک

مسافر
مغربی معاشرے‘ جہاں بچے عام طور سے الگ رہتے اور بزرگ جوڑا الگ فلیٹ میں رہنے پر مجبور ہے، کے لئے تو کارآمد ہو سکتے ہیں‘ لیکن ہمارے مشرقی معاشرے میں، جہاں آج بھی مشترکہ خاندانی نظام بڑی حد تک قائم ہے، خاص کر بزرگ ساتھ ہی رہتے ہیں، وہاں تو اس قدر آزادی دینا ممکن ہے اور نہ ہی اس طرح بچوں کی تربیت۔
ہاہاہاہا

پاکستانی اور امریکی بچے دونوں دیکھے ہیں۔ عام طور پر جتنے امریکی بچے تمیزدار ہیں اتنے ہی پاکستانی بچے بدتمیز۔
 
Top