اُمید افزا اور ہمت بڑھانے والے اشعار

جاسمن

لائبریرین
ابھی پروں میں اڑانوں کا زور زندہ ہے
اداس چاند سے کہہ دو چکور زندہ ہے
۔
رفیق سندیلوی
 
مصیبت بھی راحت فزا ہو گئی ہے
تیری آرزو رہنما ہو گئی ہے

یہ وہ راستہ ہے دیارِ وفا کا
جہاں بادِ صر صر صبا ہوگئی ہے

ترے رتبہ دانِ محبت کی حالت
تیرے شوق میں کیا سے کیا ہوگئی ہے

پہنچ جائیں گے انتہا کو بھی حسرت
جب اس راہ کی ابتدا ہو گئی ہے

حسرت موہانی
 

ہادیہ

محفلین
جو یقین کی راہ پر چل پڑےانہیں منزلوں نے بھی پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے
 

جاسمن

لائبریرین
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں

اے نظامِ کہن کے فرزندو!
اے شبِ تار کے جگر بندو!

یہ شبِ تار جاوداں تو نہیں،
یہ شبِ تار جانے والی ہے،
تا بکے تیرگی کے افسانے،
صبحِ نو مسکرانے والی ہے،

اے شبِ تار کے جگر گوشو!
اے سحر دشمنو، ستم کوشو!

صبح کا آفتاب چمکے گا،
ٹوٹ جائے گا جہل کا جادو،
پھیل جائے گی ان دیاروں میں،
علم و دانش کی روشنی ہر سو،

اے شبِ تار کے نگہبانو!
شمعِ عہدِ‌زیاں کے پروانو!
شہرِ ظلمات کے ثناء خوانو!
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں،
اور کچھ دیر صبح پر ہنس لو،
اور کچھ دیر۔۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں!!
 

جاسمن

لائبریرین
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں

اے نظامِ کہن کے فرزندو!
اے شبِ تار کے جگر بندو!

یہ شبِ تار جاوداں تو نہیں،
یہ شبِ تار جانے والی ہے،
تا بکے تیرگی کے افسانے،
صبحِ نو مسکرانے والی ہے،

اے شبِ تار کے جگر گوشو!
اے سحر دشمنو، ستم کوشو!

صبح کا آفتاب چمکے گا،
ٹوٹ جائے گا جہل کا جادو،
پھیل جائے گی ان دیاروں میں،
علم و دانش کی روشنی ہر سو،

اے شبِ تار کے نگہبانو!
شمعِ عہدِ‌زیاں کے پروانو!
شہرِ ظلمات کے ثناء خوانو!
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں،
اور کچھ دیر صبح پر ہنس لو،
اور کچھ دیر۔۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں!!
حبیب جالب
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
(اقبال)
 

فاتح

لائبریرین
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں

اے نظامِ کہن کے فرزندو!
اے شبِ تار کے جگر بندو!

یہ شبِ تار جاوداں تو نہیں،
یہ شبِ تار جانے والی ہے،
تا بکے تیرگی کے افسانے،
صبحِ نو مسکرانے والی ہے،

اے شبِ تار کے جگر گوشو!
اے سحر دشمنو، ستم کوشو!

صبح کا آفتاب چمکے گا،
ٹوٹ جائے گا جہل کا جادو،
پھیل جائے گی ان دیاروں میں،
علم و دانش کی روشنی ہر سو،

اے شبِ تار کے نگہبانو!
شمعِ عہدِ‌زیاں کے پروانو!
شہرِ ظلمات کے ثناء خوانو!
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں،
اور کچھ دیر صبح پر ہنس لو،
اور کچھ دیر۔۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں!!
حبیب جالب کی یہ نظم پڑھ کے فیض کی نظم "و یبقیٰ وجہ ربک( ہم دیکھیں گے)" یاد آتی ہے۔
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اُن کے پاس جاتے ہیں مگر آہِستہ آہستہ

ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ

دریچوں کو تو دیکھو چِلمنوں کے راز کو سمجھو
اُٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ
مصطفٰی زیدی
 
Top