اُسلوب کیا ہے؟

الف نظامی

لائبریرین
اُسلوب کیا ہے؟
(پروفیسر نثار احمد فاروقی)

اسلوب ، یا طرزِ نگارش کا مسئلہ ایسا نہیں جس پر کوئی فیصلہ کُن اور دو ٹوک بات کہی جاسکے۔ آسان لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ افکار و خیالات کے اظہار و ابلاغ کا ایسا پیرایہ ہے جو دل نشیں بھی ہو اور منفرد بھی ہو۔ اسی کو انگریزی میں style کہتے ہیں۔ اردو میں اس کے لیے" طرز" یا "اُسلوب" کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی اور جدید فارسی میں اسی کو "سبک" کہتے ہیں۔ ان الفاظ کی اصل پر غور کرنے سے ہی یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ اُسلوب میں ترصیع یا صناعی ornamentation کا مفہوم شامل رہا ہے۔
سب سے پہلا انگریزی لفظ style کو لیجیے یہ ایک یونانی لفظ stilus سے نکلا ہے جو ہاتھی دانت ، لکڑی یا کسی دھات سے بنا ہوا ایک نوکیلا اوزار ہوتا تھا ، جس سے موم کی تختیوں پر حروف و الفاظ یا نقوش کندہ کیے جاتے تھے۔ کچھ لوگ اس کی اصل stylus بتاتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔
" امتداد زمانہ سے وہ آلہ جس سے نقش بٹھایا جاتا تھا ، خود ان نقوش ، یا عبارات کا مفہوم ادا کرنے لگا ، اور ایک عمل جو ابتدا میکانکی تھا رفتہ رفتہ ذہنی یا تصوراتی بن گیا۔ یہ نقوش یا تو اُجاگر ہوتے تھے یا دھندلے اور ناہموار۔ جنہیں بعد کو stylus کے دوسرے کُند حصے سے سدھارا جاتا تھا۔ ادب میں یہی کاٹ چھانٹ ، دماغ سوزی اور باریک بینی خود ادیب کی اپنی ذات کی پرکھ بن جاتی ہے۔(اثر لکھنوی : چھان بین/ 36)
جدید فارسی اور عربی زبان میں اسٹائل کے لیے سَبکَ استعمال ہوتا ہے۔ اصل مصدری معنی میں یہ عربی لفظ ہے ۔ سبک ، یسبک (ضَرَبَ ، یَضرِبُ) کے لغوی معنی ہیں دھات کو پگھلانا اور سانچے میں ڈھالنا۔ چنانچہ ایسا سونا ، جسے کٹھالی میں ڈھال کر میل سے صاف کر لیا جاتا ہے۔ سبیک یا مسبوک کہلاتا ہے اور دھات کی چیزیں ڈھالنے والی Foundry کو مسبکہ کہتے ہیں۔ اس لفظ کے لغوی معنوں کی خصوصیات پر غور کیجیے تو دھات کو تپانا اسے حشو و زوائد سے پاک کرنا ، نکھارنا ، پھر ایک سانچے میں ڈھالنا اور کوئی خوش نما شکل دے دینا ، ایسا عمل ہے جو اچھے اسٹائل میں اسی طرح لفظوں کے ساتھ دہرایا جاتا ہے ، اسی میں اسلوب کی نفاست و لطافت اور پختگی و پایداری کا راز مضمر ہے۔ چنانچہ عربی میں اس کا مفہوم " کلام کو حشو و زوائد سے پاک کرنا" بھی ہے۔
دوسرا لفظ طرز ہے۔ طَرَزَ یطرز (سَمِعَ یسمعُ) لباس فاخرانہ استعمال کرنے کو کہتے ہیں۔ طرز اور تطرز کپڑے پر بیل بوٹے بنانا ، زر دوز
کرنا۔ "الطرازۃ " زردوزی کے لیے اور "المطرز" بیل بوٹے بنانے والے یا زر دوز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسے طور ، طریقہ ، ہیئت یا ترتیب کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا عربی میں کہیں گے "ھذا علی طرازک" یعنی یہ اُس کے طریقے پر ہے۔
طراز عربی جدید میں فیشن کے معنی بھی دیتا ہے۔
یہاں ضمنا یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ یہی طرز عربی سے ترکی زبان میں پہنچا اور طرزی زردوز کے علاوہ خیاط کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا۔ ت ، ط ، اور د کی آوازیں قریب المخرج اور مُتبادل ہیں۔ ترکی سے اردو میں آیا ، وہاں طرزی تھا ، یہاں درزی ہوگیا۔
اب اسلوب کا لفظ دیکھیے۔ یہ طریقہ ، راستہ ، روش اور ڈھنگ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسالیب اس کی جمع ہے۔ یہ فی الاصل کسی متعین و متیقن روش کے لیے ہے۔ اسی لیے جب عربی میں کہتے ہیں " انفہُ فی اُسلوب" یعنی اس کی ناک ایک ہی ڈھنگ سے رہتی ہے (یا وہ زیادہ مغرور ہے) تو اس میں انفرادیت کا تصور بھی شامل ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ ادب میں کسی مخصوص اندازِ نگارش کے واسطے بولا جاتا ہے۔ جس میں لکھنے والے کی شخصیت کے منفرد خط و خال نظر آئیں۔
ہندی میں اس مفہوم کو لفظ --- پورا کرتا ہے۔ سنسکرت میں اب بھی زیادہ تر یہی لفظ اسلوب کے مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن مغربی اصول نقد و نظر کی اشاعت کے بعد ہندی میں سبک یا طرز کے لیے "شیلی "بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ ہندی میں (اپنے موجودہ مفہوم کے لیے) زیادہ پرانا نہیں۔ اگرچہ اس کی اصل لفظ شیل ہے جو اصول ، برتاو ، ڈھب اور ڈھنگ کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ جیسے پنج شیل میں ہے شیلی کا مفہوم عین مین وہی ہے جو عربی میں اسلوب کا ہے۔
ان الفاظ کی تشریح و تعریف میں اتنی لمبی تمہید سے مدعا یہ تھا کہ اسٹائل کے لیے ہندی ، سنسکرت ، عربی ، فارسی ، انگریزی وغیرہ میں جو لفظ استعمال ہوتے ہیں وہ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی اسلوب بغیر تصنع ، کاوش (یا آورد) کے بغیر نہیں بنتا۔
اردو میں اس کے لیے ایک لفظ انداز بھی مستعمل ہے۔ میر تقی میر اردو کا پہلا شاعر ہے جس نے یہ لفظ ان مخصوص معنوں میں استعمال کیا تھا۔
"ششم انداز است ، کہ ما اختیار کردہ ایم۔ آں محیط ہمہ صنعتہاست۔ تجنیس ، ترصیع ، تشبیہ ، صفائے گفتگو ، فصاحت ، بلاغت ، ادا بندی ، خیال وغیرہ ایں ہا ہمہ در ضمنِ ہمین است و فقیر ہم ازیں وطیرہ محظوظم ---"(میر : نکات الشعراء ، طبع ثانی / 180)
اس میں کوئی شک نہین کہ " اردو کے شاعروں میں سب سے پہلے میر نے طرز کو اہمیت دی اور سختی سے کار بند رہا بعد ازاں دوسروں نے تتبع کیا" ( اثر لکھنوی ، چھان بین /37)
اگر چہ میر نے لفظ انداز ان مخصوص معنوں میں نہیں لکھا تھا جو اب اس سے مستفاد ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے اسے ایہام اور "ریختہ ہندی و فارسی آمیختہ" کے مقابلے میں استعمال کیا ہے اور خود ہی وضاحت کردی ہے کہ یہ تمام صنائع کو محیط ہے۔ میر کے ذہن میں اس کی تعریف اسٹائل کے مروجہ مفہوم سے یقینا مختلف رہی ہوگی ، لیکن انہوں نے "انداز" کی جو خصوصیات بیان کی ہیں ان پر غور کرنے سےظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس لفظ کا اطلاق بڑے وسیع مفہوم پر کرتے ہیں۔ یہ دراصل مصوری کی اصطلاح ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا:
"اگر معاملہ مجھ پر چھوڑ دیا جائے تو میں Form کے لیے صورت کا لفظ اختیار کروں گا۔ صورت حکمت کی ایک اصطلاح ہے۔ اس کی تین قسمیں ہیں ، صورت ذہنیہ یا علمیہ ، صورت نوعیہ اور صورت جسمیہ۔ یہ مکمل ترین " ساخت" ہوگی ۔ ہیئت کسی ایسی صورت کو کہا جائے گا جس کا تعلق دیکھنے والی آنکھ سے اور دیکھنے والے کے تصور سے زیادہ ہے یعنی جو چیز دیکھنے والے کو جس طرح نظر آئے یہ اس کی ہیئت ہوگی۔ داخلی ہیئت کے لیے میں مصوری کی دو اصطلاحوں کی تجویز کروں گا۔ اول "انگیز" اس خاکے کو کہتے ہیں جو رنگ بھرنے سے پہلے تیار ہوتا ہے۔ انداز وہ مجموعی تاثر جو ایک حسین جسم کے مکمل انعکاس کا مظہر ہوتا ہے۔ مصحفی نے جب یہ کہا تھا کہ
کوئی انداز سے مارا تو کوئی ناز سے مارا​
تو اس میں انداز کو اس مجموعی حسن و خوبی کا قائم مقام بنایا ہے جس کے لیےہمارے ذخیرہ الفاظ میں کوئی اور لفظ موجود نہیں ہے" ( رسالہ ادب لطیف ، لاہور ، سالنامہ 1958 ء)
ڈاکٹر عبد اللہ نے بھی "غزل کی ہیئت کے سوال" پر بحث کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔ یہاں جھگڑا اسٹائل سے زیادہ Form کا تھا لیکن انداز کے لیے انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ہمارے خیال کی تصدیق کرتا ہے۔
اب دیکھنا یہ چاہیے کہ مختلف زمانوں میں style کی کیا تعریف کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشہور قول ڈاکٹر بوفان Buffon کا ہے جو اس نے 1750ء میں فرنچ اکاڈمی کے افتتاحی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
Le style est L'Home Meme "یعنی اسلوب خود انسان ہے"
اس تعریف سے بوفان کا مطلب یہ تھا کہ مصنف کی شخصیت اپنے تمام نشیب و فراز اور رنگ و آہنگ کے ساتھ الفاظ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ لوکس نے اپنی کتاب style ڈاکٹر بوفان کے اس قول کی شرح میں خواہ مخواہ کی گنجلک پیدا کر دی ہے۔ مثلا Gorse نے انسائیکلوپیڈیا بڑیٹانیکا میں بتایا ہے کہ ڈاکٹر بوفان اصل میں ایک Biologist تھا اور یہ جملہ اس کی کتاب Natural History کا ہے اور بوفان کا مطلب یہ تھا کہ اسٹائل ہی وہ چیز ہے جس نے انسان کی گفتگو کو شیر کی ایک آہنگ دھاڑ اور چڑیوں کی یکساں چہچاہٹ سے ممتاز کردیا ہے۔ گویا بوفان نے یہ بات کہ "اسلوب خود انسان ہے" حیاتیاتی نقطہ نظر سے کہی تھی ، جمالیاتی نظریے سے نہیں۔
Gorse کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے Lucas کہتا ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ بوفان کا ہر گز یہ نظریہ نہیں تھا کہ انسان ہی اسٹائل رکھتا ہے چڑیاں نہیں رکھتیں۔
یہ جملہ بھی اس کی کتاب "نیچرل ہسٹری" کا نہیں بلکہ "Discours Sur Le Style " کا ہے جو فرنچ اکادمی کے افتتاحی جلسے کا خطبہ تھا۔ یہ ضرور ہے کہ بوفان کے ان الفاظ میں ابہام ہے۔ البتہ ایمرسن نے یہی بات زیادہ واضح الفاظ میں کہی ہے۔
(journals V X P 457)
A man's Style in his mind's voice
اسلوب کو "ذہنی آواز" کہنا یوں بھی زیادہ قرین حقیقت ہے کہ اس میں انفرادیت اور افتاد ذہنی کا پرتو دونوں ہی اس کی سفارش کرتے ہیں۔ فلابیر نے کہا تھا کہ ایک فعل ، ایک اسم اور ایک حرف ، ایک ہی مطلب کو ادا کرنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔
یہ ذہن و مزاج کا اختلاف ہی ہے جو طرز ادا میں علیحدگی اور انفرادیت پیدا کرتا ہے۔ ملک الشعراء محمد تقی بہار نے اسی بات کو یوں کہا ہے:
"سبک در اصطلاح ادبیات ، عبارت ست از روشِ خاص ادراک و بیانِ افکار بوسیلہ ترکیبِ کلمات و انتخابِ الفاظ و طرز تعبیر۔ سبک بیک اثرِ ادبی وجہ خاص خود را از لحاظِ صورت و معنی القاء می کند و آں نیز بنوبہ خویش وابستہ بہ طرز تفکر گویندہ یا نویسندہ دربارہ حقیقت می باشد (محمد تقی بہار : سبک شناسی جلد اول مقدمہ / د ، طبع تہران)

"انفرادیت " اسلوب کی روح ہے اور بڑا بحث طلب مسئلہ بھی ہے۔ اگر اسے جزئی تفصیلات کی حد تک وضاحت سے بیان کیا جائے تو یہ ادب سے زیادہ عملی نفسیات کا سوال بن جاتا ہے۔ یوں تو ہر شخص کی ایک شخصیت بھی ہوتی ہے اور کسی نہ کسی درجے میں ندرت و انفرادیت رکھتا ہے اور اسلوب خواہ وہ تحریر کا ہو یا تقریر کا ، ایک ایسا وسیلہ ہے جس سے انسان اپنی شخصیت کا اثر دوسروں پر ڈالتا ہے۔ یعنی جب وہ لکھتا ہے تو اس کا ذہن اور مزاج الفاظ و عبارات میں منتقل ہو جاتے ہیں اور اس کی شخصیت اپنا عمل شروع کر دیتی ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا لازما ہر اسلوب میں انفرادیت ہوتی ہے؟ آسکر وائلڈ کہتا ہے کہ انسان میں جو چیز سب سے زیادہ کمیاب ہے وہ اس کی انفرادیت یا "اپنا پن " ہے ، اکثر لوگ حقیقیت میں دوسروں کا چربہ ہیں۔ان کے خیالات مستعار ہیں ، زندگیاں نقلی ہیں اور جذبات بھی ایک "اقتباس" سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ ایسی صورت میں شاذ و نادر ہی کوئی تحریر مطلق انفرادیت کا نمونہ ہو سکتی ہے۔ آسان و سلیس نثر میں انفرادیت نمایاں کر دینا اس لیے بھی زیادہ مشکل ہے کہ لکھنے والی کی شخصیت اگر بہت "کڑھی ہوئی" نہیں ہے تو وہ الفاظ کے لباس میں بھی آسانی سے منتقل نہیں ہوگی۔ غالب نے اپنے خطوط میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ اب بھی ہماری زبان میں رائج ہیں اور ان کے استعمال پر بھی کسی کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اس التزام پر سختی سے کاربند رہے کہ صرف وہی الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرے گا جو غالب نے کیے تھے ، تب بھی وہ غالب کی کامیابی کا شاید سواں حصہ پانے میں بھی ناکام رہے گا۔ وجہ یہی ہے کہ غالب کے اسلوب کی نقل کے لیے اتنی ہی نکھری ہوئی انفرادیت اور گونجتی ہوئی شخصیت بھی ضروری ہے۔ آسان نثر میں انفرادیت مشکل سے پیدا ہوتی ہے اور پر تکلف نثر میں نقالی کا اندیشہ رہتا ہے۔ اردو نثر میں جن صنعتوں کا آج سے ایک صدی پہلے رواج رہا ہے وہ تو اب محض "تبرک" ہیں۔ البتہ جدید محاسن میں تشبیہ و استعارے کو زیادہ وقعت دی گئی ہے۔ لیکن استعارے میں ندرت سب سے کم ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ کلام میں سب سے زیادہ جزالت اور اثر پیدا کر سکتا ہے۔ اس کی خوبی یہ ہونی چاہیے کہ یہ تشبیہ یا استعارہ لکھنے والی کی "ذاتی ملکیت" معلوم ہونے لگے۔ اگر ایسا ہو تو اس کے اسلوب میں بے پناہ تاثیر کے علاوہ قاری کے لیے ذہنی مسرت کا بھی بڑا سامان ہوگا۔
اسلوب میں الفاظ کی ترتیب اور انتخاب کا سلیقہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور اسی پر اسلوب کا دارومدار بھی ہے۔"انتخابِ الفاظ" کے بارے میں ہومر نے کہا تھا کہ:
nor one word be changed but for worse
الفاظ کے انتخاب اور درو بست کا یہ کمال حافظ ، سعدی ، فردوسی ، میر اور انیس کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ نثر میں غالب ، آزاد(محمد حسین) اور ابوالکلام کی تحریرون کو پیش کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ اردو کا کوئی نثر نگار اردو کے شاعروں کی طرح الفاظ کے انتخاب کا اعلی معیار نہیں پیش کرتا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ نثر کی نسبت نظم میں فکر و تامل کے لیے زیادہ مہلت ہوتی ہے اور کبھی کبھی عروض کی پابندیاں بھی مناسب الفاظ تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہیں جو موقع اور مناسبت کے علاوہ صوتی اعتبار سے بھی ہم آہنگ ہوں۔
انتخابیت کے لیے علم اور تجربے کی بھی ضرورت ہے۔ اسی لیے میں نے شروع میں اس بات پر زور دیا تھا کہ کہ اچھا اسٹائل بغیر صنعت ، آورد اور محنت و کاوش کے نہیں بن سکتا۔ گویا وہ مصنف کے ذہن کی گونج بعد میں ہے ، محنت اور مرصع کاری کا طالب پہلے ۔ میرے خیال کی تائید ایڈورڈ گبن کی تشریح سے بھی ہوتی ہے
(Gibbon Miscellaneous works , V.1 , p 145)
سوئفٹ کے نزدیک تو اسٹائل عبارت ہی انتخاب سے ہے وہ اُسلوب کی تعریف "صحیح لفظ ، صحیح جگہ پر" proper words in proper places کرتا ہے (swift definition of a good style)
الفاظ کے انتخاب میں ان کی صوتی کیفیت اور تازگی ، اور معنی بندی سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے۔ ان میں یہ صلاحیت ہو کہ خیال کو مصور کر دیں۔ اگر ان کی صوتی کیفیت کا پورا لحاظ رکھا جائے تو عبارت میں زور ، دل نشینی اور اثر انگیزی پیدا کی جاسکتی ہے۔ مثلا ظفر علی خان کا یہ شعر ، جس میں جنگل سنسان ہونے کا نقشہ ایسے مناسب لفظوں میں کھینچا گیا ہے کہ شاید اس سے بہتر پیرایہ ممکن نہ ہو​
ہو کا عالم تھا وہاں ، کرتا تھا جنگل بھائیں بھائیں​
سنسنی اٹھتی تھی سُن سُن کر ہوا کی سائیں سائیں​
اس میں "ہو" ، "بھائیں بھائیں" ، "سنسنی" ، "سن سن کر" اور "سائیں سائیں" یہ سب الفاظ بھر پور صوتی کیفیت رکھتے ہیں۔​
فارسی کا یہ شعر:​
زہ نقارہ آواز آمد بروں​
کہ دون ست ، دوست است ، گردوں دوں​
اسی طرح شاہنامے کے بہت سے اشعار جو کسی جذبے کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں جیسے(حقارت آمیز غصے کی تصویر)​
ز شیرِ شتر خوردن دسُوسمار​
عرب را بجائے رسیدست کار​
کہ ملکِ کیاں را کنند آرزد​
تفو! بر تو اے چرخ گرداں تفو!​
اور میر کے وہ اشعار جن میں "تصویریت" ہے۔ یہ سب نمونے انتخابِ الفاظ کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ اچھے خیال کا حسن پوری طرح دوسرے کے ذہن میں منتقل کرنے کے لیے اچھے الفاظ بہت ضروری ہیں۔ الگزنڈر پوپ کی نظم کا یہ جملہ ایک بار لارڈ چسٹر فیلڈ نے بھی اپنے ایک خط میں (24 نومبر 1749ء کو) لکھا تھا کہ​
Expression is the dress of thought , and still appears more decent as more suitable​
اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر فلابیر نے کہا کہ " طرز و اسلوب خیال کا لباس ہی نہیں ، اس کی کھال ہے" یعنی اگر وہ نہیں تو نرا خیال جذامی معلوم ہوگا۔ اسٹائل کی اہمیت پر زور دینے والوں میں الگزنڈر اسمتھ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتا کہ : "خیال سے زیادہ پائیدار اور لازوال شے ، ادب میں اسلوب ہے"​
لیکن اس تمام بحث کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اسٹائل محض صنعت گری ، ترصیع ، محنت ، انتحاب الفاظ یا "بازی ء الفاظ" ہے Joubert کی یہ بات بھی توجہ کی مستحق ہے کہ الفاظ کا صحیح استعمال مناسب خیال کے بغیر نہیں ہوسکتا اسی لیے وہ کہتا ہے کہ "کوئی اچھا لفظ استعمال کرنے سے پہلے اس کی اچھی جگہ تلاش کرو"
بعض مخصوص الفاظ کسی مصنف کے ذہن کا آئینہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی دو طرح کے ہیں یا تو وہ عام استعمال کے الفاظ ہوں گے مگر ایک مصنف کی تحریر میں اتنی بار آئیں گے کہ اس کی مخصوص افتادِ ذہنی ، رجحانِ طبعی اور زاویہ فکر کا نشان بن جائیں گے۔ یا بعض مصنفوں کے فن پاروں میں نئے اور غیر مانوس الفاظ ایسی خوبی اور خوب صورتی سے استعمال ہوں گے کہ نہ صرف ان کے اسٹائل کو دل پسند اور دل نشیں بنا دیں گے بلکہ ان کی انفرادیت کو بہت نمایاں کر دیں گے۔ اس کی مثال اردو میں ، مہدی افادی ، سجاد انصاری ، عبد الحق ، رشید احمد صدیقی اور ابوالکلام آزاد کی تحریروں میں ملتی ہے۔ مہدی اور سجاد الفاظ وضع کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں لیکن ابوالکلام آازد وضع الفاظ کے ساتھ ساتھ پرانے سکوں کو نئی صیقل دے کر چلانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ وہ ناموس الفاظ کو نگینوں کی طرح جڑ دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے مہدی افادی کا اختراعی کارنامہ لائق تحسین ہے کیونکہ الفاظ کی وضع و تراش بہت نازک کام ہے۔ Ben Jonson نے کہا تھا کہ نئے الفاظ وضع کرنا اور انہیں رواج دینا بہت محنت اور کم فائدے کا کھیل ہے کیوں کہ اگر وہ نئے الفاظ قبولِ عام کی عزت پاگئے تو واضع کو اس کا کریڈیٹ شاذ و ناذ ہی ملتا ہے لیکن اگر نامقبول ہوئے تو اس کے لیے نفرت و حقارت یقینی ہے!
ہمارا موضوع اگرچہ صرف "طرزِ نگارش" سے بحث کرتا ہے ، لیکن ہم نے اسٹائل کی مجرد تعریف اور اس کے عناصر و اجزائے ترکیبی سے تفصیلی بحث اس لیے کی ہے کہ اس پس منظر میں اسٹائل کے بنیادی عناصر اور ان کی اہمیت واضح ہو سکے۔
----
"انتخابِ الفاظ" کا معاملہ یقینا اسٹائل میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے ، یہ انتخاب موضوع کی مناسبت کے علاوہ نثر کے داخلی تقاضوں کے لحاظ سے بھی ہوتا ہے ، جہاں تک الفاظ کی مجرد حیثیت کا تعلق ہے انہیں "مانوس" یا "نامانوس" کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ، یہ تقسیم ان کے بے جا استعمال سے شروع ہوتی ہے۔ اسی لیے بین جانسن نے کہا تھا کہ ادیب کا کام یہ ہے کہ نئی باتوں کو مانوس اور مانوس کو نیا بنا کر پیش کرے۔
اور یہ جو کہا گیا کہ کسی زبان میں کوئی دو لفظ مترادف نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے۔ اُنس ، محبت ، عشق ، جنون ، الفت ، شیفتگی یہ سب ایک ہی جذبے کے مختلف مدارج کو ظاہر کرتے ہیں اور ان میں بہت نازک فرق بھی ہے جسے وجدان ہی محسوس کر سکتا ہے ، الفاظ بیان نہیں کرسکتے۔ انیس کی مرثیہ نگاری سے بحث کرتے ہوئے مولانا شبلی مرحوم نے اس کی بہت سی مثالیں دی ہیں۔ مثلا "اوس" اور "شبنم" ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن دونوں میں جو لطیف وجدانی فرق ہے وہ محلِ استعمال پر ہی کھلتا ہے۔
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزا ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا

(جاری ہے)
 

حسینی

محفلین
علم الاسلوب ٍ اب مکمل اک علم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔۔ اور مختلف زبانوں میں اس حوالے سے کتابوں کی پوری لائبریری پائی جاتی ہے۔
لیکن اردو زبان میں ۔ شاید میری لا علمی ہو۔ اس حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔۔ جبکہ عرب جامعات میں اس مضمون کی ادبیات کے طلاب کو باقاعدہ تدریس کی جاتی ہے۔

بہت اچھی شراکت ہے۔۔۔ بہت شکریہ
 

محدثہ

محفلین
علم الاسلوب ٍ اب مکمل اک علم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔۔ اور مختلف زبانوں میں اس حوالے سے کتابوں کی پوری لائبریری پائی جاتی ہے۔
لیکن اردو زبان میں ۔ شاید میری لا علمی ہو۔ اس حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔۔ جبکہ عرب جامعات میں اس مضمون کی ادبیات کے طلاب کو باقاعدہ تدریس کی جاتی ہے۔

بہت اچھی شراکت ہے۔۔۔ بہت شکریہ
لیکن اسلوب کی اصطلاح علوم القرآن میں کب آئی؟ کیا متقدمین میں سے کسی نے اسلوب پر کتابت کی ہے؟
 
Top