ايک اور امريکی منصوبہ

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امریکہ اور پاکستان کے مابین قلات –کوئٹہ-چمن ہائی وے کی بحالی کا معاہدہ

یو ایس ایڈ اس اہم تجارتی شاہراہ کی مرمت کیلئے ۹۰ ملین ڈالر کی رقم فراہم کرے گا

Quetta_Kalat_Chaman_Highway.jpg


اسلام آباد (۱۲ مئی ۲۰۱۴ء)___آج پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن اور پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال چوہدری نے این۔۲۵ شاہراہ کی تکمیل کے منصوبے کے معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت چمن کو کوئٹہ کے ذریعے قلات سے منسلک کیا جائیگا۔ اس منصوبے کے تحت اس اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبہ کی تعمیر کیلئے ۶۴ملین ڈالرز کی رقم حکومت پاکستان کو فراہم کی جائیگی جبکہ اضافی ۲۶ ملین ڈالر مستقبل میں مختص کئے جائینگے۔

این۔۲۵ شاہراہ کی مرمت سے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان اہم تجارتی گزرگاہ بحال ہو گی ،جبکہ یہ شاہراہ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے ہوتی ہوئی کراچی تک جائےگی۔اس سےشاہراہ کے ساتھ موجود شہروں اور آبادیوں کو تقویت ملے گی اور مواصلاتی اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو وسعت ملے گی اور صحت عامہ، تعلیم اور دیگر سماجی خدمات تک رسائی میں بہتری آئے گی۔

امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے معاہدے پر دستخط کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دورن کہا کہ امریکہ کو پاکستانی حکومت کے ساتھ اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبے کی تعمیر نو میں اشتراک کار پر فخر ہے ۔یہ شاہراہ پایہ تکمیل کو پہنچنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اشتراک کار کو مزید مستحکم کرے گی کیونکہ یہ پاکستان کے عوام اور ان کی آئندہ نسلوں کام آئے گی۔

اس منصوبے کے تحت امریکی حکومت ، یو ایس ایڈ کے ذریعے اس ۲۴۷ کلو میٹر طویل سڑک کے باقی ماندہ ۱۱۱کلومیٹر کی تعمیر کیلئے مالی امداد فراہم کرے گی۔ اس منصوبے پر کام کا آغاز۲۰۰۴ء شروع ہواتھالیکن ۲۰۱۰ ء میں امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے اس پر کام کو روک دیا گیا تھا۔ پاکستانی ادارہ برائے قومی شاہرات اس تمام منصوبے کی تعمیر کا ذمہ دار ہو گا اور تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس کی تکمیل کو یقینی بنائے گا۔

اس شاہراہ کیلئے مالی امداد امریکی کے اس مستحکم پاکستان پروگرام کا حصہ ہے جس کا مقصددور دراز علاقوں میں اہم عوامی بنیادی ڈھانچے کی بحالی ہے۔ اب تک امریکی حکومت نے لگ بھگ ۹۰۰ کلو میٹر لمبی علاقائی سڑکوں بشمول افغانستان اور پاکستان کے درمیان چار اہم شاہراہوں اور فاٹا میں ۴۷۴ کلو میڑ لمبی شاہراہوں کی تعمیر اور مرمت کیلئے مالی امداد فراہم کر چکی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

طالوت

محفلین
فضول خرچیوں اور حماقتوں کے عادی اور ناک تلک قرضوں میں ڈوبے اس ملک کا 5 ارب ڈالر سے کچھ نہیں ہوگا نہ ہی پچاس ارب ڈالر سے کچھ۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

1017121_672554996137995_261052019_n.jpg

امریکہ کی کی جانب سے سبزیاں اگانے والے پاکستانی کاشتکاروں کیلئے اعانت

اسلام آباد (۱۵ مئی ۲۰۱۴ء)___ امریکہ نےامریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یوایس ایڈ)کے ذریعے اسلام آباد میں منعقدہ ویجیٹیبل فیئر ۲۰۱۴ء میں پاکستانی کاشتکاروں کی جانب سے بے موسمی قیمتی سبزیاں اگانے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے نتائج کی نمائش کی۔

پاکستان میں یوایس ایڈ کی قائم مقام مشن ڈائریکٹر نینسی ایسٹیس نے پاکستان کے زرعی شعبے کی ترقی کیلئے حکومت امریکہ کے عزم کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم آج پاکستان میں فصلوں کی پیداوار میں جو اضافہ دیکھ رہے ہیں وہ یہاں بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس ٹیکنالوجی متعارف کروانے کی وجہ سے ہے۔ یو ایس ایڈ کا ہدف کاشتکاروں کو ۱۲۰۰ ہائی ٹنلز قائم کرنے اور کھیتی باڑی کے جدید طریقے اختیار کرنے میں مدد دینا ہے۔ ان پروگراموں سے سبزیاں کاشت کرنے، پیداوار بڑھانے، روز گار کے زیادہ مواقع تخلیق کرنے اور کاشتکاروں کو آمدنیاں بڑھانے کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلی لانے میں مدد ملے گی۔

زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے شرکاء کی بڑی تعداد نے میلے میں پاکستان میں اگائے گئے پھلوں اور سبزیوں اور دیگر پیداوار اور خدمات کی نمائش کی۔ ویجیٹیبل فیئر ۲۰۱۴ء نے کاشتکاروں کو پیکنگ میں خصوصی مہارت رکھنے والے افراد ، مارکیٹنگ کے ماہرین اور برآمد کنندگان متعارف کرواک انھیں عالمی معیشت کا حصہ بننے میں مدد دی۔

یو ایس ایڈ کے زرعی کاروبار منصوبہ، جس نے اس میلے کا انعقاد کیا تھا، پیداوار، معیار اور قدر و قیمت میں اضافے، زرعی پیداوار میں اضافے اور زرعی اجناس کی پیداوار اور منڈیوں تک رسائی میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلئے کام کرتا ہے ۔ یو ایس ایڈ اس منصوبے کے تحت پاکستانی کاشتکاروں کو اعلی پیداواری صلاحیتوں کے حامل بیج، اوزار، چھوٹی اور بڑی گرین ہاؤس ٹنل اور فنی مشاورت فراہم کرتا ہے۔یہ ٹنلز کاشتکاروں کو بے موسمی سبزیوں کی کاشت اور پیداوار اور منافع میں زبردست اضافے کے قابل بناتی ہیں۔

امریکی حکومت یو ایس ایڈ کے ذریعے پاکستان کی زرعی پیداوار میں اضافے کیلئے جدید کاشتکاری کی ٹیکنالوجیز،خدمات اور طریقہ کار ، کاشتکاری کیلئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پانی کے بہتر استعمال کے طریقہ کار متعارف کراتا ہے۔ گزشتہ ۱۸ ماہ کے دوران ، امریکی اعانت کے ذریعے پاکستان کے زرعی شعبے میں ۹۰۰۰ نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں اور پاکستان کی زرعی برآمدات میں ۶۰ ملین ڈالر سے زائد اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں یو ایس ایڈ کے مزید پروگراموں کے بارے میں جاننے کیلئے پر رابطہ کریں

http://www.usaid.gov/pakistan


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

Zara_sochiye_c_updated.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

1017121_672554996137995_261052019_n.jpg

امریکہ کی کی جانب سے سبزیاں اگانے والے پاکستانی کاشتکاروں کیلئے اعانت

اسلام آباد (۱۵ مئی ۲۰۱۴ء)___ امریکہ نےامریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یوایس ایڈ)کے ذریعے اسلام آباد میں منعقدہ ویجیٹیبل فیئر ۲۰۱۴ء میں پاکستانی کاشتکاروں کی جانب سے بے موسمی قیمتی سبزیاں اگانے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے نتائج کی نمائش کی۔

پاکستان میں یوایس ایڈ کی قائم مقام مشن ڈائریکٹر نینسی ایسٹیس نے پاکستان کے زرعی شعبے کی ترقی کیلئے حکومت امریکہ کے عزم کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم آج پاکستان میں فصلوں کی پیداوار میں جو اضافہ دیکھ رہے ہیں وہ یہاں بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس ٹیکنالوجی متعارف کروانے کی وجہ سے ہے۔ یو ایس ایڈ کا ہدف کاشتکاروں کو ۱۲۰۰ ہائی ٹنلز قائم کرنے اور کھیتی باڑی کے جدید طریقے اختیار کرنے میں مدد دینا ہے۔ ان پروگراموں سے سبزیاں کاشت کرنے، پیداوار بڑھانے، روز گار کے زیادہ مواقع تخلیق کرنے اور کاشتکاروں کو آمدنیاں بڑھانے کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلی لانے میں مدد ملے گی۔

زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے شرکاء کی بڑی تعداد نے میلے میں پاکستان میں اگائے گئے پھلوں اور سبزیوں اور دیگر پیداوار اور خدمات کی نمائش کی۔ ویجیٹیبل فیئر ۲۰۱۴ء نے کاشتکاروں کو پیکنگ میں خصوصی مہارت رکھنے والے افراد ، مارکیٹنگ کے ماہرین اور برآمد کنندگان متعارف کرواک انھیں عالمی معیشت کا حصہ بننے میں مدد دی۔

یو ایس ایڈ کے زرعی کاروبار منصوبہ، جس نے اس میلے کا انعقاد کیا تھا، پیداوار، معیار اور قدر و قیمت میں اضافے، زرعی پیداوار میں اضافے اور زرعی اجناس کی پیداوار اور منڈیوں تک رسائی میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلئے کام کرتا ہے ۔ یو ایس ایڈ اس منصوبے کے تحت پاکستانی کاشتکاروں کو اعلی پیداواری صلاحیتوں کے حامل بیج، اوزار، چھوٹی اور بڑی گرین ہاؤس ٹنل اور فنی مشاورت فراہم کرتا ہے۔یہ ٹنلز کاشتکاروں کو بے موسمی سبزیوں کی کاشت اور پیداوار اور منافع میں زبردست اضافے کے قابل بناتی ہیں۔

امریکی حکومت یو ایس ایڈ کے ذریعے پاکستان کی زرعی پیداوار میں اضافے کیلئے جدید کاشتکاری کی ٹیکنالوجیز،خدمات اور طریقہ کار ، کاشتکاری کیلئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پانی کے بہتر استعمال کے طریقہ کار متعارف کراتا ہے۔ گزشتہ ۱۸ ماہ کے دوران ، امریکی اعانت کے ذریعے پاکستان کے زرعی شعبے میں ۹۰۰۰ نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں اور پاکستان کی زرعی برآمدات میں ۶۰ ملین ڈالر سے زائد اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں یو ایس ایڈ کے مزید پروگراموں کے بارے میں جاننے کیلئے پر رابطہ کریں

http://www.usaid.gov/pakistan


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

Zara_sochiye_c_updated.jpg
کیا تصویر والی مشینیں تھریشر نہیں کہلاتیں؟
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

10685482_784854458241381_2755520257205747823_n.jpg


امریکہ کی جانب سے پاکستان کی پولیس، انسداد منشیات اور قانون کی حکمرانی

کے لئے 41 ملین ڈالر سے زائد رقم کی فراہمی


اسلام آباد (۲۶ ستمبر، ۲۰۱۴ء)___ امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن اور پاکستان کے اقتصادی امور ڈویژن کے سیکریٹری محمد سلیم سیٹھی نے آج باہمی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت امریکی محکمہ خارجہ کا انسداد منشیات اور نفاذ قانون کے امور کا بین الاقومی بیورو حکومت پاکستان کو قانون کے نفاذ کی صلاحیت بڑھانے، منشیات کے انسداد اورفوجداری عدالتی نظام میں اصلاحات کے لئےچار کروڑ ۱۸ لاکھ فراہم کرے گا۔


اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے کہا کہ آج کے دن کو امریکہ اور پاکستان کے درمیان طویل شراکت میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم غیر قانونی منشیات کی نقل و حرکت کی روک تھام کے لئے کی گئی پیش رفت اور پوست کی پیداوار کےقلع قمع کے لئے پاکستان کی ۳۲ سالہ جدوجہد کو سراہتے ہیں۔ امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے خاص طورپر ذکر کیا کہ امریکہ نے اس طرح کے پہلے باہمی تعاون کے معاہدے پر ۱۹۸۲ء میں دستخط کئے تھے اور آج اس معاہدے پر دستخط سے غیر قانونی منشیات کی پیداوار اور نقل و حرکت روکنے کے پاکستان کے اقدامات میں تعاون کے امریکی عزم کی عکاسی ہوتی ہے۔


معاہدے کے تحت پاکستان بھر میں ایسے پروگرام جاری رکھے جاسکیں گے، جن سے تربیت، فراہمی آلات اور بنیادی ڈھانچہ کے ذریعے صوبائی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کام کرنے کی صلاحیت اور اُن کی رسائی میں بہتری آئے گی۔ اس سے غیر قانونی منشیات کے انسداد، منشیات کی نقل و حرکت میں ملوث مجرموں کی گرفتاری اور سزاؤں، متبادل فصل کے لئے فنڈ کی فراہمی اور پوست کے کاشتکاروں کے لئے زرعی تربیتی پروگراموں اور خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائی علاقوں (فاٹا) میں کھیتوں کے لئے آبپاشی اور پن بجلی کے چھوٹے پیمانے پر انتظام کی فراہمی میں پاکستان کو مدد ملے گی۔ اس سے صوبائی اور وفاقی استغاثہ کو موثر انداز میں مقدمات چلانے اور جیل کے جدید نظم و نسق میں حکام کی تربیت کی بدولت بالآخر قانونی کی حکمرانی کو فروغ ملے گا

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

10676125_784041808322646_3790217142882435027_n.jpg
 

Fawad -

محفلین
10361320_813562758703884_6262383219993085893_n.jpg


10407687_813562785370548_7748155742588882203_n.jpg



10641156_813562835370543_4008071137121490520_n.jpg


10734221_813562862037207_8967921370323809947_n.jpg


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

توانائی و آبپاشی کیلئے امریکی اعانت سے مکمل ہو نیوالا گومل زام ڈیم

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ، گومل زام ڈیم سے آبپاشی کے لئے پائلٹ ٹیسٹ کے پہلے مرحلے کے دوران پانی کو نہر میں چھوڑا گیا جس سے صوبہ خیبر پختونخواہ کے اضلاع ڈی آئ خان اورٹانک کے لوگوں کو برائے راست فائدہ پہنچے گا۔ تین دیگر نہروں پر کام بھی زير تعمیر ہے۔

حکومت امریکہ نے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یوایس ایڈ) کے توسط سے کثیر المقاصد گومل زام ڈیم منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ۹۷ ملین ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے میں واقع یہ ڈیم ۲۷۰۰۰۰ لوگوں کو بجلی مہیاکرتا ہے، زندگیوں کیلئے خطرہ بننے والے تباہ کن سیلابوں سے تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ علاقے کے گھروں اور کسانوں کیلئے پانی ذخیرہ کرنے کا کام بھی سرانجام دیتا ہے۔

گومل زام ڈیم اس وقت۱۴۰۰۰۰ ہیکٹر میٹر پانی ذخیرہ کرتا ہے جس سےموسمی سیلاب کے خطرے سے دوچار ڈیرہ اسمٰعیل خان اورٹانک کے علاقوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس ڈیم سے ۷۷۰۰۰ایکڑ زرعی اراضی کو آبپاشی کیلئے پانی ملےگاجس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گےاور خطےمیں لگ بھگ ۳۰ ہزار کاشتکار خاندانوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوگا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

پاک ۔امریکہ نفاذقانون وانسداد دہشتگردی ورکنگ گروپ۲۰۱۵ء کا اجلاس

اسلام آباد (۱۲ جنوری، ۲۰۱۵ء)__ امریکہ کی عمومی سفیر اور انسداد دہشت گردی کیلئے رابطہ کار ٹینا کیڈاناؤ ، داخلہ سیکرٹری شاہد خان اور خارجہ سیکریٹری اعزاز چوہدری نے آج وزارت خارجہ اسلام آباد میں پاک ۔امریکہ نفاذقانون وانسداد دہشتگردی ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کیا۔ گروپ نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کے مختلف شعبوں ،بشمول انسداد دہشت گردی، قانون کی حکمرانی، انسداد منشیات اور سرحدی نگرانی پر بات چیت کی۔ افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے ڈین فیلڈ مین، نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سینئر ڈائریکٹر جیف ایگرز، پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن اور دیگر امریکی حکام نے ورکنگ گروپ میں شرکت کی۔

سفیر کیڈاناؤ نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ امریکہ اسکولوں کے معصوم بچوں، عام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملے کرنے اور پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کو نقصان پہنچانے والے گروہوں کی پرتشدد اور مجرمانہ کارروائیوں کے خلاف پاکستان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ پاکستان اور امریکہ اپنے شہریوں کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے ،دونوں ملکوں کی سرحدوں کو زیادہ محفوظ بنانےاوراپنے لوگوں کے محفوظ مستقبل کے لئےباہمی تجربات سے مستفید ہوتے رہیں گے۔

ورکنگ گروپ پاک۔ امریکہ تزویراتی مذاکرات کا ایک اہم حصہ ہے۔ مارچ ۲۰۱۰ء میں اپنے آغاز کے بعد اس گروپ کا یہ چوتھا اجلاس ہے۔ اس جلاس میں امریکی اور پاکستانی وفود نے عسکریت پسندی اور تشدد آمیز انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا اور پاکستانی حکام نے امریکی وفد کو دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تشکیل دیئے جانے والے قومی لائحہ عمل کے مختلف نکات کا جائزہ پیش کیا۔ سفیر کیڈاناؤ نے منصوبے کے اُن حصوں کو اجاگر کیا جن کے مؤثر نفاذ میں امریکی اعانت استعمال کی جا سکتی ہے۔گروپ نے دہشتگردی کی مالی امدادکو روکنے اور پاکستان اور خطے میں دیسی ساخت کی دھماکہ خیز اشیاء کی تیاری کیلئے درکار اجزاء مہیا کرنے والے غیرقانونی گروہوں کی بیخ کنی کیلئے مشترکہ ذرائع پر بھی بات چیت کی۔

سفیر کیڈاناؤ اور داخلہ سیکرٹری شاہد خان نے اجلاس کے اختتام پر نفاذقانون اورانسداد دہشتگردی کیلئے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ امریکہ نے پاکستان میں دہشتگری کے خلاف کارروائیوں میں سرگرم عمل سویلین اداروں کی استعداد بڑھانے کیلئے امریکی اعانت کا اعادہ کیا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

10955699_854351271291699_1020875462230395642_n.jpg


امریکی محکمہ زراعت کے تعاون سے اراضی کو زرخیز بنانے سے متعلق سمپوزیم


اسلام آباد (۴ فروری، ۲۰۱۵ء)__ امریکی محکمہ زراعت نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے ساتھ ملکر پاکستان میں زرعی اراضی کو زرخیز بنانے سے متعلق سرکاری اور نجی شعبے کے پچاس تکنیکی ماہرین کے ایک سمپوز یم کا انعقاد کیا۔ یہ سمپوزیم پاکستان کے کاشتکاروں کے لئے کھاد کے استعمال کی افادیت کو بہتر بنانے کی مسلسل کاوش کا ایک حصہ ہے۔


سمپوز یم سے خطاب کرنے والے مہمان مقررین میں امریکی محکمہ زراعت کے قومی رہنما برائے زمینی وسائل ڈاکٹر طامس رینچ اور زرعی زمین کی زرخیزی سے متعلق امریکی محکمہ زراعت کے معروف زرعی ماہر اور کاشتکار مائیکل کیوسیرا شامل تھے۔ ڈاکٹر طامس جو پہلے بھی پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں، نے اپنے خطاب میں کہا کہ زمین کی زرخیزی کو بہتر بنانے اور پاکستان کے کاشتکاروں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لئے مناسب انتظام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے بہت سے باکفایت اور آسان طریقے موجود ہیں جنہیں پاکستانی کاشتکار اختیار کرسکتے ہیں جبکہ کاشتکاروں اور کھاد تیار کرنے والی کمپنیوں کے درمیان وسیع تر اشتراک کے قومی امکانات بھی موجو دہیں۔


ایک روزہ سمپوزیم میں کاشتکاروں کے لئے زمین کی زرخیزی سے متعلق متوازن نظام کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، جس کے تحت کاشتکار کھاد کے استعمال کے لئے چار طریقے اختیار کرتے ہوئے کھاد کی درست قسم، درست مقدار، درست وقت اور درست مقام کا تعین کرسکتے ہیں۔ ان چار طریقوں کو اختیار کرکے کاشتکار اپنے لاگت کم اور پیداوار بڑھا سکتے ہیں، جس سے ان کے منافع میں بہتری آئے گی اور کھاد کے زائد استعمال سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات کو بھی کم کیا جاسکے گا۔ سمپوزیم میں زیر غور آنے والے اہم موضوعات میں نائٹروجن، فاسفورس اور مائیکرو نیوٹرنٹس کے مناسب استعمال کا احاطہ کیا گیا۔

پاکستان کی معیشت میں زراعت کے شعبے کو کلیدی اہمیت حاصل ہے جس کا خام ملکی پیداوار میں ۲۱ فیصد حصہ ہے اور یہ شعبہ کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت زرعی پیداوار کی صلاحیت میں بہتری، معاشی اہداف کے حصول اور غذائی سلامتی کی ضروریات کوپورا کرنے میں معاونت کے ذریعے پاکستان کے زرعی شعبے کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ اس منصوبے اورامریکی محکمہ زراعت کی دیگر سرگرمیوں کے لئے بھی امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) سے فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

x boy

محفلین
images

images

images

images

images

images

images

تاریخ: 25 جنوری ، 2015
امریکی صدر اوبامہ، دال قیمہ اوردہشتگردی
تحریر: سید انور محمود


کیا وجہ ہے کہ امریکی صدر براک اوبامہ بھارت کے سفر کے دوران پاکستان نہیں آینگے، اصل میں وہ تو آنا چاہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان جاوں اورجاکر دال اور قیمہ کھاکر آوں، لیکن اُنکی بیگم پاکستان سے بہت ناراض ہیں کیونکہ اکتوبر 2013ء میں اپنے دورہ امریکہ میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی امریکی صدر براک اوبامہ سے ملاقات ویسے تو کئی حوالوں سے اہم تھی مگر اس ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں دونوں سربراہان کی پریس سے گفتگو میں کافی دلچسپ باتیں موجود تھیں۔ امریکی صدر اوبامہ نے اپنی ساری بات زبانی کہہ ڈالی جبکہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف ایک کاغذ پر اپنے نوٹس لکھ کر لائے تھے اور انہیں پڑھ کر ہی بات کرتے رہے اور ایک مقام پر کاغذ پلٹتے پلٹتے وہ مسز اوبامہ کو مسٹر اوبامہ کہہ گئے مگر جلد ہی انہوں نے اپنی غلطی درست کی، اور صدر اوبامہ کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو اور مسز اوبامہ کو پاکستان میں خوش آمدید کہنے کا منتظر ہوں، قیمہ اور دال آپ کے منتظررہیں گے۔ مگر لگتا ہے کہ ابھی تک مسز اوبامہ پاکستان سے ناراض ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی صدر بھارت جاتے ہوئے یا واپس امریکہ جاتے ہوئے چند گھنٹوں کےلیے بھی پاکستان آنے کو تیار نہیں۔ خیر چلیں اس مذاق کی بات کو چھوڑ دیں تب بھی امریکہ کا پاکستان کے ساتھ گذشتہ سڑسٹھ سال سے یہ ہی رویہ رہا ہے کہ جب پاکستان کی ضرورت پڑی پاکستان کو ایک اچھا دوست کہہ دیا، مقصد پورا ہوا تو فورا ہم کون اور تم کون کا فارمولا لگادیا۔

امریکہ نے ہندوستان کے خلاف کبھی بھی کھل کر پاکستان کی سفارتی حمایت نہیں کی۔ پاکستان کے حکمرانوں سے امریکہ نے ہمیشہ ایک مغرور آقا جیسا سلوک ہی روا رکھا۔ امریکی حکمرانوں کے مسلسل ہتک آمیز رویے کے باعث پاکستان نے چین سے تعلقات بڑھانے شروع کئے لیکن پاکستان پر امریکہ کا سیاسی اور معاشی اثرو رسوخ غالب رہا۔ ایوب خان سے لیکر آج نواز شریف تک ماسوائے ذوالفقار علی بھٹو کے کسی پاکستانی حکمران کی اتنی ہمت نہیں کہ امریکی پالیسی سے اختلاف کرسکیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ضیاء الحق کی زیر نگرانی شروع کئے گئے ’’آپریشن فئیر پلے‘‘ کو سی آئی اے کی آشیر آباد حاصل تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹانے کےلیے ضیاء الحق سے کام لیا گیا اور پھر تھوڑئے عرصے بعد ہی سوویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد امریکہ نے اس خطے میں بڑے پیمانے پر مداخلت کا آغاز کیا اور سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے بڑا خفیہ آپریشن شروع کیا گیا۔ آج امریکہ جس دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر اس خطے کو برباد کر رہا ہے وہ اس کی اپنی کاشت کی ہوئی فصل ہے ۔ ضیاء الحق کے دور میں امریکن سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے ملکردہشتگردوں کی تربیت اور مالی امداد کی اور روس کےخلاف ڈالر جہاد برپا کرنے کا عمل جولائی 1979ء میں شروع کیا گیا۔

افغانستان سے سوویت یونین فوجوں کی واپسی اور خاص طور پر 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس خطے میں امریکہ کی دلچسپی کم ہوگئی تھی۔ امریکیوں نے اس طرف توجہ دینا ہی چھوڑ دی تھی اور نام نہادمجاہدین کی امداد بھی بندہوگئی تھی۔ امریکہ میں 9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکہ کا سابق ایجنٹ اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا۔ اُس وقت افغانستان میں ملا عمر کی طالبانی حکومت تھی جسکو امریکہ کی رضا مندی سےصرف تین ممالک نے تسلیم کیا ہواتھا یعنی پاکستان، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ جس نےکہا تھا کہ 9/11 کے واقعہ میں 17 سعودی عرب اور 2 متحدہ عرب عمارت کے باشندئے شامل ہیں سیدھا دوڑا افغانستان کیوں چلا آیا۔ اسکی وجہ اسامہ بن لادن تھا، یہ وہی ارب پتی سعودی اسامہ بن لادن تھا جو امریکہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر سوویت یونین کے خلاف نام نہاد جہاد کرچکا تھا ، لیکن بقول امریکہ اسامہ اور اسکے ساتھی 9/11 کی دہشت گردی کے ماسٹر ماینڈ تھے اور امریکہ اپنے پالتوں کو کبھی نہیں چھوڑتا۔

نائن الیون کے بعد امریکہ واپس افغانستان پہنچ گیا، اور اپنے پرانے نمک خواروں سے وہی توقعہ کرلی کہ وہ پرانی تنخواہ پر ہی کام کرینگے، ایسا نہ ہوسکا۔ امریکہ کے ڈالر کھانے والے مجاہد اب دہشتگرد درندئے بن چکے ہیں، اب ان درندئےوں کو سی آئی اے کے علاوہ برطانیہ کی ایم آئی سکس، اسرائیل کی موساد اور انڈیا کی ایجنسی را استمال کررہے ہیں۔ گذشتہ تیرہ سال سے امریکہ نے صرف ایک سبق یاد کیا ہوا کہ‘پاکستان ڈو مور’ جس کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہوتا ہے کہ پاکستان امریکی مفادات کی مزید نگرانی کرئے، اس ‘ڈو مور’ کے بدلے میں امریکہ ہماری امداد کرتا ہے، اور ہمارئے میڈیا پر یہ ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ پاکستان میں تعلیم، صحت، کے علاوہ ہر اُس کام میں جس میں عام آدمی کو کچھ فاہدہ ہو سب امریکی امداد کی مرہون منت ہے جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس پرسکون ملک میں جہاں اب سکون کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا ہے، دہشتگردی کی وجہ سے 56 ہزار سے زائد پاکستانی بےگناہ شہید ہوچکے ہیں، معاشی طور پر ابتک پاکستان 103 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھاچکا ہے، اور امریکہ کو پھر بھی شکوہ ہے کہ ہم وفادار نہیں۔

بھارت یاترا پرجانے والے امریکی صدر براک اوبامہ نے ایک بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارت امریکہ تعلقات کے نئے دور اور پاکستان کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اس بات چیت میں انہوں نے بھارت کو امریکہ کا حقیقی گلوبل پارٹنر قرار دیتے ہوئے اگرچہ یہ تسلیم کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے لیکن ساتھ ساتھ پاکستان سے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے انہیں ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صدر اوبامہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوسکتے کہ دہشتگردی کے خلاف پچھلے کئی ماہ سے پوری پاکستانی قوم کی حمایت سے کسی امتیاز کے بغیر تمام دہشتگرد تنظیموں کے خلاف پاکستانی فوج فیصلہ کن آپریشن کررہی ہے۔ جماعت الدعوہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی اقدامات عمل میں لائے جاچکے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی ان تمام کوششوں کے باوجود ’’ڈو مور‘‘ والی امریکی رٹ ختم نہیں ہورہی ہے۔

اسی امریکی رویے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے تعالقات میں بہتری نہیں ہورہی ہے۔ بھارتی کانگریس جماعت کے رکن پارلیمنٹ مانی شنکر آئیرکا کہنا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار ہے، پاکستانی ہر روز 26/11 کی صورتحال سے دوچار ہیں، پاکستانی گھر سے نکلتے ہوئے خوفزدہ ہیں کہ وہ زندہ واپس آئیں گے یا نہیں۔ انہوں نے ممبئی حملوں کا پاکستان میں دہشتگرد واقعات سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 26 نومبر جیسا ایک واقعہ دیکھا جبکہ پاکستانی روزانہ ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔ 24، 25 یا 26 سال کی کوئی بھی تاریخ پاکستانیوں کی زندگی کیلئے رسک ہے، پاکستانی مارکیٹ یا مسجد جاتے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ نہیں جانتے کہ وہ زندہ واپس آئیں گے یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان دہشتگردی کا ذریعہ ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ہی دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار ہے۔ مانی شنکر آئیر نے امریکا پر الزام لگایا کہ پاک بھارت تعلقات خراب کرنے میں اس کا ہاتھ ہے اور وہی دہشتگردی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

امریکی صدربراک اوبامہ نے بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک لمحے کےلیے بھی نہیں سوچا کہ وہ بھارتی حکمرانوں کو کشمیر کی موجودہ صورتحال کی طرف توجہ دلاتے، وہ بھارت کے غیر منصفانہ رویے اور کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر آئے دن اشتعال انگیز کارروائیاں کرکے پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جاری فیصلہ کن آپریشن کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے پر اظہار کرتے۔ جنوبی ایشیائی امور کے بعض امریکی ماہرین بھارت کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ان کا مشورہ ہے بھارت کو خطے کی بالادست طاقت بناکر پاکستان کو برابری کے مرتبے سے نیچے لانے کی حکمت عملی اگر کہیں زیر غور ہے تو یہ حقیقت پسندی کے سراسر منافی ہے۔ ابھی کچھ روز قبل ہی امریکی پاکستان کو یقین دلارہے تھے کہ امریکہ بھارت تعلقات پاکستان کے مفادات کی قیمت پر استوار نہیں کیے جارہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور خوش حالی کے لیے تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرارداروں کے مطابق حل کیا جانا ضروری ہے۔

کوئی ایک ماہ پیشتر امریکہ کے صدر براک اوبامہ نے پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کو ٹیلی فون کر کے انھیں اپنے مجوزہ دورۂ بھارت کے بارے میں بتایا، اس موقعہ پر وزیراعظم نواز شریف نے صدر اوبامہ کو پاکستان کے دورئے کی دعوت دی، مگر افسوس جواب میں صدر اوبامہ نے یہ یقین دہانی کروائی کے جیسے ہی ملک میں صورت حال معمول پر آئے گی وہ پاکستان کا دورہ بھی کریں گے۔ امریکہ کا ’گیارہ ستمبر‘ ہو، بھارت کا ’چھبیس نومبر‘ہویا پاکستان کا’ سولہ دسمبر ‘ ہو تمام واقعات ہی افسوسناک ہیں، اور ہم پاکستانی ان واقعات کی بھرپور طریقے سے مذمت کرتے ہیں لیکن سانحہ پشاور ایک ایسا واقعہ ہے جس کا سوچکر ہر صاحب اولاد کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ امریکی صدر کو کم از کم اُن معصوم 132بچوں کی شہادت کاخیال رکھتے ہوئے اُن بچوں کی تعزیت کےلیے چند گھنٹوں کےلیے پاکستان آنا چاہیے تھا۔ افسوس نہ تو سیاست کے سینے میں دل ہوتا اور نہ ہی اس وقت امریکہ کو پاکستان سے کوئی فائدہ اٹھانا ہے، دورہ بھارت سے امریکہ کو ایک بڑی تجارتی منڈی ملنے کا امکان ہے، علاقے کی سیاست میں اثروروسوخ بڑھے گا، کم از کم ہمارئے سیاستدانوں کو اس سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر اوبامہ نے ٹیلیفون پر بات چیت کے دوران علاقے میں دہشتگردی پر قابو پانے، امن اور استحکام کو بڑھانےاور خطے میں امن اور سلامتی قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن ایک بات امریکی صدر کو لازمی معلوم ہوگی کہ اس خطے میں دہشتگردی کا ذمہ دارخود امریکہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

11053218_881787035214789_871633247474360212_n.jpg


يو ایس ایڈ کی اعانت سے بلوچستان میں شہتوت کی فروخت میں دوگنا اضافہ

اسلام آباد (۲ اپریل، ۲۰۱۵ء)__ گزشتہ دو سال کے دوران بلوچستان زرعی منصوبہ ،جسے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے اشتراک سےچلایا جارہاہے ،کی اعانت سے ۱۲کسانوں کی خشک شہتوت کی فروخت سے ہونے والی آمدن ۰ ۶۷۰،۰۰ ڈالرتک پہنچ گئی ہے ۔۲۰۱۳ ء میں یو ایس ایڈ نے یہ منصوبہ تیار کیا جس کے تحت بلوچستان کے ضلع مستونگ کے کسانوں کے ساتھ براہ راست مل کر ملک بھر میں شہتوت کی منڈیوں کے بارے میں تحقیق اور توسیع پر کام کیا گیا۔

ماضی میں، بلوچستان میں شہتوت کے درخت ہوا کا دباؤ کم کرنے، زمینوں حدبندی اور پانی کی کھالوں کی نشاندہی کیلئے استعمال ہوتے تھے اور اسے نقد آورفصل تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔یو ایس ایڈ کے تعاون سے ، کسانوں نے ملک بھر میں خشک شہتوت کی منڈیوں اور زرعی نمائشوں کا دورہ کیا اور اس پھل کی بڑھتی ہوئی طلب کا اندازہ لگایا۔اس منصوبے کی بدولت کسانوں کی پیداوار بڑھی اور ۲۰۱۳ ءمیں ۲۴۰ ٹن خشک شہتوت سندھ بھیجا گیا جبکہ ۲۰۱۴ ءمیں اضافی۲۸۸ ٹن شہتوت ارسال کیاگیا۔

یو ایس ایڈ کے مشن ڈائریکٹر گریگوری گوٹلیب نےکہا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران یو ایس ایڈ کے منصوبوں کے تحت ۸۰۰،۰۰۰ گھرانوں کی زرعی پیداوار میں اضافہ کیا گیاجس سے تمام پاکستانیوں کو فائدہ ہوا۔ان منصوبوں کے ذریعے ۴۵ملین ڈالراندرون ملک فروخت اور ۲۸ ملین ڈالرز برآمدات کے ذریعے جبکہ نجی شعبے کے ذریعے پچاس لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی ہوئی۔

بلوچستان زرعی منصوبہ کے تحت کسان اب ایک جدید میوہ جات خشک کرنے کے پلانٹ کی تنصیب کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور کھیتوں سے مارکیٹ منتقلی کے دوران شہتوت کی تازگی کو برقرار رکھنے کیلئے ان کو گتے کے ڈبوں میں پیکنگ شروع کر رہے ہیں۔ مستونگ میں شہتوت کی مارکیٹنگ اور اکٹھا کرنے کیلئے قائم کسانوں کی تنظیم کے سربراہ محمد رمضان نے یو ایس ایڈ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ شہتوت کی صفائی اور پیکنگ کے ذریعے ہم اپنی آمدن میں زبردست اضافہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

پاکستان میں یو ایس ایڈ کی زرعی اعانت کے بارے میں مزید جاننے کیلئے

http://www.usaid.gov/pakistan/economic-growth-agriculture

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


معاشی ترقی میں زراعت کے کردار پر امریکہ پاکستان بات چیت


اسلام آباد (۱۴اپریل، ۲۰۱۵ء)__ امریکی سفیر رچرڈ اولسن اور صدر ممنون حسین نے آج یہاں پاکستان سٹرٹیجی سپورٹ ایگریکلچرل پالیسی کانفرنس کا افتتاح کیا جس میں حکومت پاکستان کے پالیسی سازوں اورنامور بین الاقوامی اور مقامی ماہرین سمیت ۳۰۰ افراد نے شرکت کی۔ دو روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں پالیسی سے متعلق اہم موضوعات پر بات چیت کی جائیگی۔ اس کانفرنس کا انعقاد امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے پاکستان سٹرٹیجی سپورٹ پروگرام کے تعاون سے کیا گیا اور اس کا اہتمام یو ایس ایڈ کے شراکت کار بین الاقوامی ادارہ برائے خوراک و پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( آئی ایف پی آر آئی) نے کیا تھا۔

امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ اپنے شراکت کاروں کے تعاون سے پاکستان بھر میں مہارت اور ٹینکالوجی منتقل کر رہا ہے تاکہ کسانوں اور انکے خاندانوں کیلئے معاشی مواقعوں میں اضافہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پالیسی سے متعلق ملکی ضروریات کا خیال رکھنا ہو گا کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والے مسائل بشمول تغیراتی تبدیلی اورکسانوں اور معاشروں پر مرتب ہونے والے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے اورمستقبل میں ان چیلنجوں کو روکنے کیلئے طریقے وضع کیئے جا سکیں۔

یہ کانفرنس زراعت سے متعلق اہم مسائل کا جائزہ لیگی جس میں پالیسی ساز اور ماہرین پاکستان کی معاشی ترقی میں زراعت کے کردار اور زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے درکار اقدامات پر غور کرینگے۔ شرکاء اٹھارویں آئینی ترمیم کے تناظر میں زرعی پالیسی سازی میں ہونے والی پیش رفت پر بھی بات چیت کرینگے جس کے تحت اختیارات صوبائی حکومتوں کو منتقل کئے گئے ہیں۔

پاکستان میں معاشی ترقی اور زراعت کے شعبے میں ترقی کیلئے اعانت فراہم کرنا امریکہ سفارتخانہ کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔یوایس ایڈ کے زرعی پروگرام ،روزگار اور آمدنی کے مواقع بڑھانے میں مدد دے رہے ہیں۔ یوایس ایڈ کے پروگرام جدید زرعی ٹیکنالوجی ، خدمات اور طریقے متعارف کروا کر، آبپاشی کا اضافی ڈھانچہ تعمیر کرکے اور پانی کے انتظام وانصرام کے جدید طریقے متعارف کروا کر پاکستان کی زرعی پیداوار بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ یوایس ایڈ پاکستان کے زرعی کاروباروں کو سرمائے تک رسائی فراہم کرنے، شراکت داریاں قائم کرنے اور زیادہ منافع بخش منڈیوں سے استفادہ کرنے میں بھی معاونت کررہا ہے۔ یہ پروگرام پاکستانی کاشتکاروں کو نجی شعبے کی نئی سرمایہ کاریوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد دے گا۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یو ایس کے منصوبوں کی بدولت پاکستان کی برآمدات میں ۵۲ ملین ڈالرز ، سیلزمیں ۱۲۷ ملین ڈالر ز کا اضافہ ہوا جبکہ گیارہ ملین ڈالر کی نئی سرمایہ کاری بھی آئی۔

پاکستان میں یوایس ایڈ کے پروگراموں کے بارے میں مزید معلومات کیلئے درج ذیل ویب سائٹ ملاحظہ کریں:

http://www.usaid.gov/pakistan

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

11139402_895625347164291_6808836270796033359_n.jpg


آلودگی سے پاک توانائی : پاک امریکہ توانائی شراکت داری کے اگلے اقدامات

اسلام آباد (۲۹ اپریل ۲۰۱۵ء)__امریکہ اور پاکستان نےملک میں صاف توانائی کے منصوبوں میں نجی شعبے کو سہولت فراہم کرنے اور اس کی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے آج ایک نئے پروگرام کا اعلان کیا۔اس اقدام کے تحت حکومت امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر ایسی اصلاحات متعارف کرانے کیلئے کام کریگی جس سے پاکستانی اور بین الاقوامی نجی شعبہ اور سرمایہ کاروں کو آئندہ تین سے پانچ برسوں کے دوران قومی گرڈ میں تین ہزار میگا واٹس فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے خصوصی ایلچی برائے توانائی آموس ہوکسٹین نے پاک-امریکہ تذویراتی مذاکرات کے وسیع تر فریم ورک کے تحت جاری دوسرے پاک-امریکہ انرجی ورکنگ گروپ کے دوران کہا کہ آلودگی سے پاک توانائی پروگرام پاکستان میں توانائی کے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد دے گا۔ انھوں نے کہا کہ یہ پاکستان میں توانائی کے مسائل کو کم کرنے میں مدد دینے کیلئے اشتراک کار ہے جس کی بنیاد پاکستان، امریکہ،کثیرالجہتی بینکوں، امداد دینے والے اداروں اور نجی شعبے کے مشترکہ اہداف پر ہے۔

خصوصی ایلچی آموس ہوکسٹین ، نائب سفیر ٹام ولیمز اور واشنگٹن سے آنے والے اعلی سطح کے وفد نے صاف توانائی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے وفاقی وزراء شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور متعدد دیگر پاکستانی حکام سے بات چیت کی۔ پاکستان میں ۲۰۲۰ء تک توانائی کی طلب دگنی ہونے کی توقع ہے۔اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کیلئے حکومت پاکستان کی طرف سے اصلاحات جیسے اہم اقدامات کی ضرورت ہے جن سے نجی شعبے اور بہت سے ملکوں اور اداروں کی جانب سے اعانت فراہم کرنے
کیلئے گنجائش پیدا کی جاسکے۔

اس مشترکہ پروگرام کے اہداف حاصل کرنے کیلئے امریکی اور پاکستانی حکام نے ریگولیٹری اداروں کو مضبوط بنانے اور نجی سرمایہ کاری کو ترغیبات دینے کی غرض سے منڈی کی بنیاد پر اصول وضع کرنے، آلودگی سے پاک توانائی کے نظاموں کا کردارکو وسیع کرنے کیلئے سرمایہ کاری کی حکمت عملی ترتیب دینے، صاف توانائی کے منصوبوں کیلئے ترسیل کی استعداد بڑھانے اور نجی شعبے میں خطرات پر قابو پانے اور انھیں کم کرنے اور نجی سرمائے کا رخ آلودگی سے پاک بجلی کے منصوبوں کی جانب موڑنے کیلئے درکار قرضوں، گرانٹس، فنی معاونت اور ضمانتوں کا بندوبست کرنے ایسے اقدامات پر بات چیت کی۔

توانائی کے شعبے کو منڈی کی بنیاد پر استوار کرنے میں مدد فراہم کرنے سے نا صرف بجلی کے موجودہ بحران کو ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ مستقبل کی ضرورتوں کو بھی پوراکیا جا سکتاہے۔آلودگی سے پاک توانائی میں پن بجلی، پون بجلی، شمسی ، حیاتیاتی مواد اور قدرتی گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری سےتوانائی کے تمام شعبوں کی صلاحیتوں میں اضافے کیلئے کوششوں سے پاکستان کا ایندھن کے بیرونی ذرائع سے انحصار ختم ہو جائے گا، موسمیاتی تغیرات کو روکنے میں مدد ملے گی،پاکستان کی توانائی کی قلت کا خاتمہ ہوگا ، جدت واختراع فروغ پائیں گے اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔

یہ منصوبہ پاکستان کیلئے توانائی کے شعبے میں امریکی اعانت کے نئے دورکی علامت ہے جس کے دوران میں پاکستان کے قومی گرڈ میں ۲۰۱۰ ءسے اب تک موجودہ پانی اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی مرمت ، پن بجلی کے منصوبوں کی تکمیل اور پاکستان میں بجلی کی ترسیل وتقسیم کے نظام میں بہتری سے ۱۵۰۰ میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 

Fawad -

محفلین
۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ جس نےکہا تھا کہ 9/11 کے واقعہ میں 17 سعودی عرب اور 2 متحدہ عرب عمارت کے باشندئے شامل ہیں سیدھا دوڑا افغانستان کیوں چلا آیا۔ اسکی وجہ اسامہ بن لادن تھا، یہ وہی ارب پتی سعودی اسامہ بن لادن تھا جو امریکہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر سوویت یونین کے خلاف نام نہاد جہاد کرچکا تھا ، لیکن بقول امریکہ اسامہ اور اسکے ساتھی 9/11 کی دہشت گردی کے ماسٹر ماینڈ تھے اور امریکہ اپنے پالتوں کو کبھی نہیں چھوڑتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ درست ہے کہ 911 کے واقعات ميں براہراست ملوث افراد افغان شہری نہيں تھے۔ ليکن يہ بھی ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ جن افراد نے دہشت گردی کے اس واقعے ميں حصہ ليا تھا ان کی تربيت افغانستان ميں موجود القائدہ کے ٹرينيگ کيمپس ميں کی گئ تھی۔ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ اسی وقت کيا گيا تھا جب اس وقت کی طالبان حکومت نے ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کرنے سے انکار کر ديا تھا۔

ماضی ميں جھانکتے ہوئے شايد يہ بحث کی جا سکتی ہے کہ 90 کی دہائ ميں جب اسامہ بن لادن افغانستان ميں القائدہ کو منظم کر رہا تو آيا امريکی حکومت نے اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کی يا نہيں۔ ليکن يہ کہنا حقيقت سے انکار ہو گا کہ دہشت گردی کے وہ خطرات جو آخر کار ستمبرگيارہ 2001 کو حقيقت کا روپ دھار گئے، ان کو روکنے کے ليے سرے سے کوئ کوشش ہی نہيں کی گئ۔

پاکستان ميں اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے قبل امريکہ قريب 15 برس تک اسامہ بن لادن تک رسائ کی کوشش کرتا رہا۔

سال 1996 ميں سی آئ آئے نے باقاعدہ ايک يونٹ "بن لادن ايشو اسٹيشن" کے نام سے تشکيل ديا جس کا مقصد ہی اسامہ بن لادن کے محل ووقوع کے بارے ميں کھوج لگانا تھا۔

نو گيارہ کے حوالے سے جو کميشن رپورٹ تسکيل دی گئ تھی اس ميں ان تمام اقدامات اور کاوشوں کا تفصيلی ذکر موجود ہے جو اسامہ بن لادن کے حوالے سے کی گئيں۔ يہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسامہ بن لادن کو روکنے کے ليے ہر ممکن امکان پر کام کيا جا رہا تھا۔

http://govinfo.library.unt.edu/911/report/911Report_Ch4.htm

اگست بيس 1998 کو افغانستان ميں القا‏ئدہ کے اڈوں پر امريکی ميزائل بھی داغے گئے۔ يہ حملہ کينيا اور تنزانيہ ميں امريکی سفارت خانوں پر حملوں کے بعد کيا گيا جن ميں 12 امريکیوں سميت 224 شہری ہلاک اور 5000 سے زائد زخمی ہوئے۔ اگرچہ اسامہ بن لادن اس حملے ميں بچ نکلا ليکن اس سے اسامہ بن لادن کی جانب سے شروع کی گئ دہشت گردی کی لہر کو روکنے کے ليے امريکی مصمم ارادوں کی توثيق ہو جاتی ہے۔

اسامہ بن لادن کے حوالے سے يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی حکومت کی جانب سے جون 1999 ميں 25 ملين ڈالرز کا انعام مقرر کيا گيا تھا۔ يہ بات 911 کے واقعات سے 2 سال پہلے کی ہے۔

http://www.fbi.gov/wanted/topten/fugitives/laden.htm

اکتوبر 1999 ميں اقوام متحدہ کی جنب سے منظور کردہ قرداد نمبر 1267 ميں يہ واضح درج ہے کہ طالبان کی جانب سے اسامہ بن لادن کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کی حکومت سے اسامہ بن لادن کو حکام کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی اس قرارداد کا حصہ ہے۔

http://www.un.org/sc/committees/1267/

امريکی حکومت خطرناک دہشت گردوں کو کيفر کردار تک پہنچانے کے ليے مدد کی ترغيب ديتی ہے۔ مثال کے طور پر "ريوارڈ فار جسٹس" پروگرام کے ذريعے صدام حسين کے دونوں بيٹوں کے محل وقوع کی معلومات دينے والے کو انعام دياگيا تھا۔ ليکن يہ بھی ياد رہے کہ ہمارا مقصد محض افراد کی گرفتاری تک محدود نہيں ہے۔ افغانستان ميں ہماری فوجی کاروائ کا مقصد القائدہ تنظيم کا مکمل خاتمہ اور اس امر کو يقينی بنانا ہے کہ افغانستان کی سرزمين کو خطے اور دنيا کے خلاف دہشت گردی کے ليے استعمال نا کيا جا سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 
Top