مظفر بخاری

محفلین
بیرون بھاٹی گیٹ کے باغ میں عید قربان کے سلسلے میں ایک شخص مسمی قادر بخش ایک اونٹ لئے کھڑا تھا، تھوڑی فاصلے پر بکروں والے بھی گاہکوں کے انتظار میں کھڑے تھے۔ اتنے میں وہاں شاہ عالمی کا ایک تاجر ابکرا خریدنے آیا تو اس کی نظر اونٹ پر پڑی جس پر جلی حروف میں لکھا تھا’ اونٹ برائے اجتماعی قربانی، تاجر نے یہ الفاظ پڑھے تو اسے خیال آیا کہ اگر محلے والوں کو اس امر پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ دو دو ہزار روپے ڈال کر اونٹ خرید لیں تو کم خرچ بالا نشیں قسم کی قربانی ہو سکتی ہے۔ تاہم اس نے سوچا کہ اونٹ خریدنے کے حتمی فیصلے سے پہلے اونٹ کو چیک کر لیا جائے یہ سوچ کر اس نے قادر بخش سے بات کی جس نے کہا کہ چوھدری صاحب آپ جس طرح چاہیں میرے سجن کو چیک کر لیں تاجر کو زیادہ حیران ہونے کا موقع دیئے بغیر قادر بخش نے کہا کہ سجن میرے اس پیارے اونٹ کا نام ہے تاجر نے پوچھا تم نے اس کا نام سجن کیوں رکھا ہے۔ قادر بخش نے اس سوال کے جواب میں کہا’’قربانی ہمشیہ سجناں دی دتی جاندی اے۔‘‘
تاجر کو فلسفیانہ باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس نے آگے بڑھ کر اونٹ کو چیک کرنا شروع کر دیا پہلے تو اس نے اونٹ کے پیٹ کو ٹھونک بجا کر دیکھا اونٹ کو اس کی بے تکلفی پسند تو نہ آئی تاہم بے مثال قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ خاموش کھڑا رہا، تاجر نے سوچا لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ اس کے منہ میں کتنے دانت ہیں اونٹ نے اپنے دانٹوں پر ہونٹوں کی چادر ڈال رکھی تھی، تاجر نے یہ چادر ہٹا کر دانتوں کو بے پردہ کرنے کی کوشش کی تو اونٹ کی رگ حمیت پھڑک اٹھی اس نے اگلے ہی لمحے تاجر کے ہاتھ کی انگلیں چبا ڈالیں تاجر نے چیخ کر دہان شتر سے ہاتھ نکالا اور اونٹ کو گالیاں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔
پاس ہی بھاٹی گیٹ کا تھانہ تھا، وہ سیدھا تھانے گیا اور محرر سے کہنے لگا کہ وہ ایک اونٹ کے خلاف غنڈہ گردی اور ارادہ قتل کی رپورٹ درج کروانا چاہتا ہے۔
محرر نے اسے سمجھایا کہ رپورٹ درج کروانے اور مقدمہ چلوانے کے لمبے چکر میں پڑنے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ اسے پولیس مقابلے میں مروا ڈالو‘ یوں تمہیں بہت کم پیسوں میں فوری انصاف مل جائے گا، اگر تم چاہو تو ہم اونٹ کو تمہاری دہلیز پر لے جا کر پولیس مقابلے میں پار کر دیتے ہیں تاکہ تمہیں دہلیز پر انصاف مل سکے۔
’’کتنے پیسے لگیں گے؟‘‘ تاجر نے پوچھا
’انسان کو مارنے کے تو ہم لاکھوں روپے لیتے ہیں لیکن یہ چونکہ ایک معصوم جانور کا سوال ہے ‘ ہم بہت کم پیسوں میں تمہارا کام کر دیں گے، منشی نے کہا۔
’’کمال ہے اس خبیث جانور نے میری انگلیں چبا ڈالیں اور تم اسے معصوم جانور کہہ رہے ہو‘‘ تاجر نے احتجاج کیا۔
’دیکھو مسٹر اونٹ مجرم ہے یا معصوم ہمیں ایسی باتوں سے غرض نہیں ہوتی تم صاف صاف بتاؤ کیا چاہتے ہو اور جیب کو کس حد تک ڈھیلا کر سکتے ہو؟‘‘
’دیکھو منشی میں نے کبھی حکومت کو ایک پیسے کا ٹیکس نہیں دیا تمہیں کیا خاک دوں گا، تم سیدھی طرح اونٹ اور اس کے مالک کو گرفتار کر کے تھانے لاؤ۔ انہیں حوالات میں بند کرو اور قانون کے مطابق کارروائی کرو۔‘
’اونٹ کیلئے حوالات ہمارے تھانے میں نہیں شاہی قلعے میں ہے اور شاہی قلعہ تھانہ ٹبی کی حدود میں ہے تم اس واقعے کی رپورٹ ٹبی تھانہ میں درج کرواؤ‘‘
’واہ! وقوعہ تمہارے تھانے کا رپورٹ ٹبی تھانے میں کراؤں سیدھی طرح ان دونوں کو گرفتار کر کے لے آؤ ورنہ میری پہنچ بہت دور تک ہے۔‘
یہ سن کر منشی نے اندر جا کر اپنے ایس ایچ او سے مشورہ کیا دوسرے افسروں کی رائے بھی لی گئی آخر فیصلہ ہوا کہ قانون شکن اونٹ اور اس کے سرپرست کو گرفتار کر کے تھانے لایا جائے اونٹ کے مالک کو ڈرا دھمکا کر بھگا دیا جائے اور اونٹ کو راہ خدا میں قربان کر کے ثوارب دارین حاصل کیا جائے۔
چنانچہ فوری طور پر ایک پولیس کی پارٹی تشکیل دی گئی جو تھوڑی دیر میں اونٹ اور اس کے مالک کو حراست میں لے کر تھانے لے آئی اونٹ کے مالک کو حوالات میں ڈال دیا گیا اور اونٹ کو ایک طرف صحن میں کھڑا کر دیا گیا پہلے تو اونٹ نے سمجھا کہ اسے ایک معزز مہمان کا درجہ دے کر یہاں لایا گیا ہے لیکن پولیس والوں کے طور طریقے دیکھ کر اسے شبہ ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اتنے میں ایک مخولیے کانسٹیبل نے آگے بڑھ کر اونٹ سے کہا، اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی، اونٹ جو یہ ضرب المثل سن سن کر پہلے ہی تنگ آیا ہوا تھا آپے سے باہر ہو گیا ایک نعرہ مستانہ لگا کر اس نے رسی تڑوائی اور مخولیے کانسٹیبل پر چڑھائی کر دی کانسٹیبل کے منہ سے ایک خوفناک چیخ نکلی اور وہ گولی کی طرح بھاگ کر تھانہ بھاٹی گیٹ کی حدود سے باہر نکل گیا اب اونٹ نے محرر کا رخ کیا جو برآمدے میں کرسی میز رکھے بیٹھا تھا۔ اونٹ نے میز کو زور دار ٹکر ماری میز اچھل کر دیوار میں لگا اور روزنامچہ پرندے کی طرح فضا میں اڑنے لگا محرر کی پسلیوں میں میز کا کونہ لگا جس سے اس کی دو پسلیاں کریک ہو گئیں تاہم وہ لونگ جمپ لگا کر صحن میں آیا اور ٹوٹی ہوئی پسلیوں کے ساتھ اتنی تیزی سے بھاگا کہ چشم زدن میں میو اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچ کر ایک بستر پر جا گر ا۔
شور و غل اور چیخ پکار سن کر چار پانچ پولیس والے ایس ایچ او کے کمرے سے نکلے اونٹ نے انہیں دیکھا تو تیزی سے ان کی خبر لینے کیلئے بڑھا موت کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر ان کا رنگ سفید پڑ گیا اور پھر جدھر کسی کے سینگ سمائے وہ ادھر کو بھاگ لیا اونٹ نے ایک بھاگتے ہوئے اہلکار کو ٹکر ماری وہ کرکٹ کے بال کی طرح لڑھکتا اور گھومتا ہوا تھانے کی باؤنڈری کراس کر گیا، چوکا مارنے کے بعد اب اونٹ کو چھکا مارنے کی سوجھی اتفاق سے اس کی نظر ایک سب انسپکٹر پر پڑی جو ایک درخت کی اوٹ میں اپنے موبائل فون پر ایمرجنسی پولیس کو فون کر رہا تھا، اونٹ نے اسے بھاگنے کا موقع دیئے بغیر اسے اتنی زبردست ہٹ لگائی کہ وہ سب انسپکٹر ہوا میں اچھلتا ہوا باؤنڈری کے پاس گرا خدا جانے چھکا ہوا کہ چوکا لیکن یہ ضرور ہوا کہ سب انسپکٹروں نظروں سے غائب ہو گیا اور اس دوران میں ایک اے ایس آئی نے کمال بہادری اور حاضر دماغی کا ثبوت دیا وہ اونٹ کی نظروں سے چھپتا چھپاتا اس حوالات میں داخل ہو گیا جہاں قادر بخش بند تھا اے ایس آئی نے اُس سے کہا باہر نکل کر اونٹ کو قابو کرو ورنہ پولیس مقابلے کیلئے تیار ہو جاؤ‘ یہ سن کر قادر بخش حوالات سے باہر آیا اور اس نے اپنے مخصوص لہجے میں اونٹ کو نہ جانے کیا کہا کہ اونٹ خرمستی سے باز آ گیا اور چپ چاپ کھڑا ہو گیا مالک نے موقع غنیمت جانا اور اونٹ کو لے کر غائب آ گیا تھوڑی دیر بعد تھانے کا کاروبار شروع ہوا تو اونٹ کے خلاف دنگا فسار، مار کٹائی، ارادہ قتل اور نقص امن کا مقدمہ درج کر لیا گیا پتہ چلا ہے کہ اونٹ کی گرفتاری کیلئے پولیس جگہ جگہ چھاپے مارنے سے گریز کر رہی ہے۔​
 

باباجی

محفلین
زبردست بخاری صاحب
آپ کی تحاریر کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بے اختیار مسکراہٹ آجاتی ہے ہونٹوں پر
مجھے اس میں کچھ جملے بہت پسند آئے
’قربانی ہمشیہ سجناں دی دتی جاندی اے۔‘‘
’دیکھو منشی میں نے کبھی حکومت کو ایک پیسے کا ٹیکس نہیں دیا تمہیں کیا خاک دوں گا
’انسان کو مارنے کے تو ہم لاکھوں روپے لیتے ہیں لیکن یہ چونکہ ایک معصوم جانور کا سوال ہے ‘ ہم بہت کم پیسوں میں تمہارا کام کر دیں گے، منشی نے کہا۔
کتنی بڑی حقیقت وہ بھی تلخ آپ نے مزاح کے رنگ میں بیان کردی
کہ واقعی آجکل ایسا ہوتا ہے لیکن لوگوں کی نظر میں اس کی کوئی وقعت ہی نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
خوبصورت تحریر۔

مجھے بھی دو فقرے بہت ہی پسند آئے۔

ایک تو "قربانی ہمشیہ سجناں دی دتی جاندی اے۔‘‘

اور دوسرا " ۔۔۔۔۔۔ کی گرفتاری کیلئے پولیس جگہ جگہ چھاپے مارنے سے گریز کر رہی ہے"

ہاہاہا زبردست۔

دل مانگے مور۔
 

مظفر بخاری

محفلین
خوبصورت تحریر۔

مجھے بھی دو فقرے بہت ہی پسند آئے۔

ایک تو "قربانی ہمشیہ سجناں دی دتی جاندی اے۔‘‘

اور دوسرا " ۔۔۔ ۔۔۔ کی گرفتاری کیلئے پولیس جگہ جگہ چھاپے مارنے سے گریز کر رہی ہے"

ہاہاہا زبردست۔

دل مانگے مور۔
زبردست بخاری صاحب
آپ کی تحاریر کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بے اختیار مسکراہٹ آجاتی ہے ہونٹوں پر
مجھے اس میں کچھ جملے بہت پسند آئے



کتنی بڑی حقیقت وہ بھی تلخ آپ نے مزاح کے رنگ میں بیان کردی
کہ واقعی آجکل ایسا ہوتا ہے لیکن لوگوں کی نظر میں اس کی کوئی وقعت ہی نہیں
میری تحریر کی پسندیدگی کا شکریہ
آپکی باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ نہایت اعلیٰ ادبی ذوق کے مالک ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
بیرون بھاٹی گیٹ کے باغ میں عید قربان کے سلسلے میں ایک شخص مسمی قادر بخش ایک اونٹ لئے کھڑا تھا، تھوڑی فاصلے پر بکروں والے بھی گاہکوں کے انتظار میں کھڑے تھے۔ اتنے میں وہاں شاہ عالمی کا ایک تاجر ابکرا خریدنے آیا تو اس کی نظر اونٹ پر پڑی جس پر جلی حروف میں لکھا تھا’ اونٹ برائے اجتماعی قربانی، تاجر نے یہ الفاظ پڑھے تو اسے خیال آیا کہ اگر محلے والوں کو اس امر پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ دو دو ہزار روپے ڈال کر اونٹ خرید لیں تو کم خرچ بالا نشیں قسم کی قربانی ہو سکتی ہے۔ تاہم اس نے سوچا کہ اونٹ خریدنے کے حتمی فیصلے سے پہلے اونٹ کو چیک کر لیا جائے یہ سوچ کر اس نے قادر بخش سے بات کی جس نے کہا کہ چوھدری صاحب آپ جس طرح چاہیں میرے سجن کو چیک کر لیں تاجر کو زیادہ حیران ہونے کا موقع دیئے بغیر قادر بخش نے کہا کہ سجن میرے اس پیارے اونٹ کا نام ہے تاجر نے پوچھا تم نے اس کا نام سجن کیوں رکھا ہے۔ قادر بخش نے اس سوال کے جواب میں کہا’’قربانی ہمشیہ سجناں دی دتی جاندی اے۔‘‘
تاجر کو فلسفیانہ باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس نے آگے بڑھ کر اونٹ کو چیک کرنا شروع کر دیا پہلے تو اس نے اونٹ کے پیٹ کو ٹھونک بجا کر دیکھا اونٹ کو اس کی بے تکلفی پسند تو نہ آئی تاہم بے مثال قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ خاموش کھڑا رہا، تاجر نے سوچا لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ اس کے منہ میں کتنے دانت ہیں اونٹ نے اپنے دانٹوں پر ہونٹوں کی چادر ڈال رکھی تھی، تاجر نے یہ چادر ہٹا کر دانتوں کو بے پردہ کرنے کی کوشش کی تو اونٹ کی رگ حمیت پھڑک اٹھی اس نے اگلے ہی لمحے تاجر کے ہاتھ کی انگلیں چبا ڈالیں تاجر نے چیخ کر دہان شتر سے ہاتھ نکالا اور اونٹ کو گالیاں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔
پاس ہی بھاٹی گیٹ کا تھانہ تھا، وہ سیدھا تھانے گیا اور محرر سے کہنے لگا کہ وہ ایک اونٹ کے خلاف غنڈہ گردی اور ارادہ قتل کی رپورٹ درج کروانا چاہتا ہے۔
محرر نے اسے سمجھایا کہ رپورٹ درج کروانے اور مقدمہ چلوانے کے لمبے چکر میں پڑنے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ اسے پولیس مقابلے میں مروا ڈالو‘ یوں تمہیں بہت کم پیسوں میں فوری انصاف مل جائے گا، اگر تم چاہو تو ہم اونٹ کو تمہاری دہلیز پر لے جا کر پولیس مقابلے میں پار کر دیتے ہیں تاکہ تمہیں دہلیز پر انصاف مل سکے۔
’’کتنے پیسے لگیں گے؟‘‘ تاجر نے پوچھا
’انسان کو مارنے کے تو ہم لاکھوں روپے لیتے ہیں لیکن یہ چونکہ ایک معصوم جانور کا سوال ہے ‘ ہم بہت کم پیسوں میں تمہارا کام کر دیں گے، منشی نے کہا۔
’’کمال ہے اس خبیث جانور نے میری انگلیں چبا ڈالیں اور تم اسے معصوم جانور کہہ رہے ہو‘‘ تاجر نے احتجاج کیا۔
’دیکھو مسٹر اونٹ مجرم ہے یا معصوم ہمیں ایسی باتوں سے غرض نہیں ہوتی تم صاف صاف بتاؤ کیا چاہتے ہو اور جیب کو کس حد تک ڈھیلا کر سکتے ہو؟‘‘
’دیکھو منشی میں نے کبھی حکومت کو ایک پیسے کا ٹیکس نہیں دیا تمہیں کیا خاک دوں گا، تم سیدھی طرح اونٹ اور اس کے مالک کو گرفتار کر کے تھانے لاؤ۔ انہیں حوالات میں بند کرو اور قانون کے مطابق کارروائی کرو۔‘
’اونٹ کیلئے حوالات ہمارے تھانے میں نہیں شاہی قلعے میں ہے اور شاہی قلعہ تھانہ ٹبی کی حدود میں ہے تم اس واقعے کی رپورٹ ٹبی تھانہ میں درج کرواؤ‘‘
’واہ! وقوعہ تمہارے تھانے کا رپورٹ ٹبی تھانے میں کراؤں سیدھی طرح ان دونوں کو گرفتار کر کے لے آؤ ورنہ میری پہنچ بہت دور تک ہے۔‘
یہ سن کر منشی نے اندر جا کر اپنے ایس ایچ او سے مشورہ کیا دوسرے افسروں کی رائے بھی لی گئی آخر فیصلہ ہوا کہ قانون شکن اونٹ اور اس کے سرپرست کو گرفتار کر کے تھانے لایا جائے اونٹ کے مالک کو ڈرا دھمکا کر بھگا دیا جائے اور اونٹ کو راہ خدا میں قربان کر کے ثوارب دارین حاصل کیا جائے۔
چنانچہ فوری طور پر ایک پولیس کی پارٹی تشکیل دی گئی جو تھوڑی دیر میں اونٹ اور اس کے مالک کو حراست میں لے کر تھانے لے آئی اونٹ کے مالک کو حوالات میں ڈال دیا گیا اور اونٹ کو ایک طرف صحن میں کھڑا کر دیا گیا پہلے تو اونٹ نے سمجھا کہ اسے ایک معزز مہمان کا درجہ دے کر یہاں لایا گیا ہے لیکن پولیس والوں کے طور طریقے دیکھ کر اسے شبہ ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اتنے میں ایک مخولیے کانسٹیبل نے آگے بڑھ کر اونٹ سے کہا، اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی، اونٹ جو یہ ضرب المثل سن سن کر پہلے ہی تنگ آیا ہوا تھا آپے سے باہر ہو گیا ایک نعرہ مستانہ لگا کر اس نے رسی تڑوائی اور مخولیے کانسٹیبل پر چڑھائی کر دی کانسٹیبل کے منہ سے ایک خوفناک چیخ نکلی اور وہ گولی کی طرح بھاگ کر تھانہ بھاٹی گیٹ کی حدود سے باہر نکل گیا اب اونٹ نے محرر کا رخ کیا جو برآمدے میں کرسی میز رکھے بیٹھا تھا۔ اونٹ نے میز کو زور دار ٹکر ماری میز اچھل کر دیوار میں لگا اور روزنامچہ پرندے کی طرح فضا میں اڑنے لگا محرر کی پسلیوں میں میز کا کونہ لگا جس سے اس کی دو پسلیاں کریک ہو گئیں تاہم وہ لونگ جمپ لگا کر صحن میں آیا اور ٹوٹی ہوئی پسلیوں کے ساتھ اتنی تیزی سے بھاگا کہ چشم زدن میں میو اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچ کر ایک بستر پر جا گر ا۔
شور و غل اور چیخ پکار سن کر چار پانچ پولیس والے ایس ایچ او کے کمرے سے نکلے اونٹ نے انہیں دیکھا تو تیزی سے ان کی خبر لینے کیلئے بڑھا موت کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر ان کا رنگ سفید پڑ گیا اور پھر جدھر کسی کے سینگ سمائے وہ ادھر کو بھاگ لیا اونٹ نے ایک بھاگتے ہوئے اہلکار کو ٹکر ماری وہ کرکٹ کے بال کی طرح لڑھکتا اور گھومتا ہوا تھانے کی باؤنڈری کراس کر گیا، چوکا مارنے کے بعد اب اونٹ کو چھکا مارنے کی سوجھی اتفاق سے اس کی نظر ایک سب انسپکٹر پر پڑی جو ایک درخت کی اوٹ میں اپنے موبائل فون پر ایمرجنسی پولیس کو فون کر رہا تھا، اونٹ نے اسے بھاگنے کا موقع دیئے بغیر اسے اتنی زبردست ہٹ لگائی کہ وہ سب انسپکٹر ہوا میں اچھلتا ہوا باؤنڈری کے پاس گرا خدا جانے چھکا ہوا کہ چوکا لیکن یہ ضرور ہوا کہ سب انسپکٹروں نظروں سے غائب ہو گیا اور اس دوران میں ایک اے ایس آئی نے کمال بہادری اور حاضر دماغی کا ثبوت دیا وہ اونٹ کی نظروں سے چھپتا چھپاتا اس حوالات میں داخل ہو گیا جہاں قادر بخش بند تھا اے ایس آئی نے اُس سے کہا باہر نکل کر اونٹ کو قابو کرو ورنہ پولیس مقابلے کیلئے تیار ہو جاؤ‘ یہ سن کر قادر بخش حوالات سے باہر آیا اور اس نے اپنے مخصوص لہجے میں اونٹ کو نہ جانے کیا کہا کہ اونٹ خرمستی سے باز آ گیا اور چپ چاپ کھڑا ہو گیا مالک نے موقع غنیمت جانا اور اونٹ کو لے کر غائب آ گیا تھوڑی دیر بعد تھانے کا کاروبار شروع ہوا تو اونٹ کے خلاف دنگا فسار، مار کٹائی، ارادہ قتل اور نقص امن کا مقدمہ درج کر لیا گیا پتہ چلا ہے کہ اونٹ کی گرفتاری کیلئے پولیس جگہ جگہ چھاپے مارنے سے گریز کر رہی ہے۔​
مظفر بخاری صاحب!!!!!
بہت شاندار ،عمدہ مزاح بڑی خوبی یہ ہے کہ برجستگی کا دامن کہیں بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹتا ۔اور وہ آپکی تحریر میں بھرپور ہے،سب سے دلچسپ؀
“قربانی ہمشیہ سجناں دی دتی جاندی اے۔‘‘
بہت ساری دعائیں۔۔۔۔۔۔:):):):):)
 
Top