انہونی کوئی ہو گی یہ ڈر کیوں نہیں جاتا

ظفری

لائبریرین
انہونی کوئی ہو گی یہ ڈر کیوں نہیں جاتا​
قسمت کا لکھا سر سے گذر کیوں نہیں جاتا​
موجود ہے اس میں تو لبوں تک بھی یہ آئے​
خالی ہے اگر جام تو بھر کیوں نہیں‌جاتا​
احساس کو نہ اس کی وہ شدت ہی کو سمجھیں​
جو پوچھتے ہیں دل سے اتر کیوں نہیں جاتا​
دستک سے تھکے ہاتھ صدا دیتا رھا میں​
آنکھوں سے مری بند وہ در کیوں نہیں جاتا​
ساحل پہ کھڑے میرے دعاگو کی یہ خواہش​
کشتی کو لئے ساتھ بھنور کیوں نہیں جاتا​
کیا بچپنا ہے میرا خیال آئے جو دل میں​
دنیا کا ہر اک فرد سنور کیوں نہیں جاتا​
سو بار مرے کانوں میں سرگوشی ہوئی ھے​
جینا نہیں‌آتا ہے تو مر کیوں نہیں جاتا​
بوباس بسے اس کی ہر اک شے میں ہے چہرہ​
تم پوچھتے ہو مجھ سے میں گھر کیوں نہیں جاتا​
ہاتھوں سے‌تیرے مرنے میں ہے اک فضیلت​
اے عشق! رگ جاں میں اتر کیوں نہیں جاتا​
جن رستوں کی میں خاک رہا چھانتا عامر​
ان میں سے کوئی رستہ ادھر کیوں نہیں جاتا​
 
Top