انوکھی ایجاد آخری قسط

Ali mujtaba 7

لائبریرین
انوکھی ایجاد آخری قسط
- رائٹر علی مجتبیٰ
- انھوں نے پروفیسر عامر کے گھر میں پروفیسر عامر کی لاش دیکھی۔انسپکٹر حیدر اپنے دوست کی لاش کو دیکھ پر پریشان ہوگئے۔ نیچے گرتے گرتے بچے۔سلمان نے کہا چچا پریشان نا ہوں۔لیکن کیسے پتا چلے گا کہ ان کو قتل کس نے کیا ہے۔انسپکٹر حیدر نے کہا پروفیسر عامر نے مجھے ایک گیجٹ دیا تھا۔اس گیجٹ کی مدد سے ہم قاتل کو پکڑ لیں گے۔سلمان نے۔کہا وہ کیسے ۔انسپکٹر حیدر نے کہا جب ہم پروفیسر عامر کی لاش کے فنگر پرنٹس چیک کرکے فنگر پرنٹس کو اس گیجٹ میں ڈالیں گے تو جس بھی شخص نے انہیں قتل کیا ہے اس کی تصویر آجائے گی اس گیجٹ میں۔جب انسپکٹر حیدر نے پروفیسر عامر کی لاش کی۔فنگر پرنٹس چیک کیں اور فنگر پرنٹس کو گیجٹ میں ڈالا تو جس شخص کی تصویر آئی اس شخص کی تصویر دیکھ کر وہ دونوں حیران ہوگئے۔انسپکٹر حیدر نے کہا عمران بینک لمیٹڈ چلو۔جب انسپکٹر حیدر اور سلمان گاڑی میں بیٹھے۔تو سلمان نے کہا مجھے لگتا ہے کہ چور اور قاتل ایک ہی ہیں کیونکہ اس چور کو پتا چل گیا ہوگا کہ پروفیسر عامر ایک ایجاد بنا رہے ہیں جس کی مدد سے ہم چور کو پکڑ سکتے ہیں اس لیے اس چور نے پروفیسر عامر کو مار دیا ہوگا۔انسپکٹر حیدر نے کہا ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔انسپکٹر حیدر اور سلمان جب عمران بینک لمیٹڈ میں داخل ہوئے اور اس بینک کے مالک کے روم میں داخل ہوئے تو انسپکٹر حیدر نے عمران بینک لمیٹڈ کے مالک کو کہا تم ہی۔ہو نا جس نے تیزا گھڑی چوری کی تھی اور پروفیسر عامر کو مارا۔مالک نے کہا ہاں۔انسپکٹر حیدر نے کہا تم نے ایسا کیوں کیا۔مالک نے کہا تمہیں تو پتا ہی ہوگا کہ حسن میرا بھیجتا ہے۔جب اس نے مجھے بتایا کہ پروفیسر عامر نے ایک ایجاد بنائی ہے۔جس کی مدد سے ہم سیکنڈوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتے ہیں تو میں نے سوچا کہ ایجاد میرے پاس بھی ہونی چاہیے۔میں نے پروفیسر عامر سے کہا کہ مجھے یہ ایجاد دے دو لیکن پروفیسر عامر نے کہا میں تمہیں یہ ایجاد نہیں دوں گا۔بلکہ پولیس کو دوں گا۔میں نے پروفیسر عامر سے کہا کہ میں تمہیں دس ہزار ڈالر دے دوں گا لیکن وہ نا مانا۔تو میں نے یہ ایجاد چوری کرلی اور اگلے دن۔اپنے بینک میں چوری کرنے کا ڈرامہ کیا۔تاکہ کسی کو پتا نا چلے کہ میں نے ہی ایجاد چوری کی ہے۔لیکن جب پروفیسر عامر نے تمہیں کہا تھا کہ میں ایک ایسی ایجاد بناؤں گا جس کی مدد سے سی سی ٹی وی فوٹیج صاف ستھری نظر آئے گی۔اس وقت میں پروفیسر عامر کے گھر کے دروازے پر تھا۔میں نے جب یہ بات سنی تو میں نے سوچا کہ اب تو پروفیسر عامر کو مارنا ہی پڑے گا اور جب سلمان اور انسپکٹر حیدر پروفیسر عامر کے گھر سے باہر نکلے اس وقت میں ایک درخت کی پیچھے چھپ گیا۔جب تم دونوں اپنی گاڑی میں بیٹھے میں پروفیسر عامر کے گھر میں داخل ہوا اور پروفیسر عامر کو قتل کر دیا۔انسپکٹر حیدر نے کہا تم میرے دوست تھے لیکن اب جو تم نے حرکت کی ہے اس حرکت کے بعد تم۔میرے دوست نہیں مجرم بن گئے ہو مجرم ۔تم نے ایک قتل بھی کیا ہے اس لیے تمہیں پھانسی ہوگی پھانسی
- ختم شد
- نوٹ یہ ناولٹ آپ کو کیسا لگا کیا ان کرداروں پر اور ناولٹ لکھیں جائیں
 
Top