انتخابِ کلامِ اقبال

ابوشامل

محفلین
اس دھاگے پر علامہ اقبال کا منتخب کلام پیش کرنے کا ارادہ ہے، دیگر ساتھی بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں:

یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمت مردانہ!
یا سنجر و طغرل کا آئین جہاں گیری
یا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ!
یا حیرت فارابی یا تاب و تب رومی
یا فکر حکیمانہ یا جذب کلیمانہ!
یا عقل کی روباہی یا عشق ید اللہی
یا حیلۂ افرنگی یا حملۂ ترکانہ!
یا شرع مسلمانی یا دیر کی دربانی
یا نعرۂ مستانہ ، کعبہ ہو کہ بت خانہ!
میری میں فقیری میں ، شاہی میں غلامی میں
کچھ کام نہیں بنتا بے جرأت رندانہ

(بالِ جبریل)
 

ابوشامل

محفلین
بلادِ اسلامیہ

بلادِ اسلامیہ​
سرزمیں دلی کی مسجودِ دلِ غم دیدہ ہے
ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے
پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں
خانقاہِ عظمتِ اسلام ہے یہ سرزمیں
سوتے ہیں اس خاک میں خیر الامم کے تاجدار
نظمِ عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمئ محفل کی یاد
جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد

ہے زیارت گاہِ مسلم گو جہان آباد بھی
اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھی
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز
لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز
خاک اس بستی کی ہو کیونکر نہ ہمدوشِ ارم
جس نے دیکھے جانشینانِ پیمبر کے قدم
جس کے غنچے تھے چمن ساماں ، وہ گلشن ہے یہی
کاپنتا تھا جن سے روما ، ان کا مدفن ہے یہی

ہے زمینِ قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور
ظلمتِ مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور
بجھ کے بزمِ ملتِ بیضا پریشاں کر گئی
اور دیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی
قبر اس تہذیب کی یہ سر زمینِ پاک ہے
جس سے تاکِ گلشنِ یورپ کی رگ نم ناک ہے

خطۂ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
مہدئ امت کی سطوت کا نشانِ پائدار
صورتِ خاکِ حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے
آستان مسند آرائے شہِ لولاک ہے
نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلماں! ملتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر

وہ زمیں ہے تو مگر اے خواب گاہِ مصطفی
دید ہے کعبے کو تیری حجِ اکبر سے سوا
خاتمِ ہستی میں تو تاباں ہے مانندِ نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں
تجھ میں راحت اس شہنشاہِ معظم کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو ملی
نام لیوا جس کے شاہنشاہِ عالم کے ہوئے
جانشیں قیصر کے ، وارث مسندِ جم کے ہوئے
ہے اگر قومیتِ اسلام پابند مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی ، نہ فارس ہے ، نہ شام
آہ یثرب! دیس ہے مسلم کا تو ، ماوا ہے تو
نقطۂ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو
جب تلک باقی ہے تو دنیا میں ، باقی ہم بھی ہیں
صبح ہے تو اس چمن میں گوہرِ شبنم بھی ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
ابو شامل صاحب اگر آپ اقبال کا کلام ٹائپ کر رہے ہیں تو نہ خود ٹائپ نہ کریں کیونکہ اعجاز صاحب کی ویب سائٹ پر اقبال کی تمام ای-بک موجود ہیں آپ وہاں سے ڈاونلوڈ کرکے یہاں‌ اپنی پسند کا کلام پیسٹ کر سکتے ہیں -
 

ابوشامل

محفلین
سخنور صاحب! بہت شکریہ، آپ کے علم میں یہ بات لے آؤں کہ میرے پاس ٹائپ شدہ کلیات اقبال موجود ہے اور میں ٹائپنگ کی زحمت سے آزاد ہوکر صرف کاپی پیسٹ سے کام چلا رہا ہوں :) اور ہاں اس دھاگے کا خیال مجھے آپ کی غالب کی شاعری والی پوسٹ سے ہی آیا ہے ;)
 

ابوشامل

محفلین
علم و عشق​

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندۂ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب!
عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب!
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتح باب!
شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذتِ ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب!
 

ابوشامل

محفلین
مستئ کردار
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
 

ابوشامل

محفلین
دگرگوں عالم شام و سحر کر
جہان خشک و تر زیر و زبر کر
رہے تیری خدائی داغ سے پاک
مرے بے ذوق سجدوں سے حذر کر
ارمغان حجاز
 

ابوشامل

محفلین
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہانِ چار سُوے و رنگ و بو
پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے انساں کا ضمیر
کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغِ آرزو
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تارِ رَفو
ضربتِ پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بتِ سنگیں دل و آئینہ رو
 

ابوشامل

محفلین
دوزخی کی مناجات

اس دیر کہن میں ہیں غرض مند پجاری
رنجیدہ بتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد
پوجا بھی ہے بے سود، نمازیں بھی ہیں بے سود
قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد
ہیں گرچہ بلندی میں عمارات فلک بوس
ہر شہر حقیقت میں ہے ویرانۂ آباد
تیشے کی کوئی گردش تقدیر تو دیکھے
سیراب ہے پرویز، جگر تشنہ ہے فرہاد
یہ علم، یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت
جو کچھ ہے، وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد
اللہ! ترا شکر کہ یہ خطہ پر سوز
سوداگر یورپ کی غلامی سے ہے آزاد!
 

ابوشامل

محفلین
آواز غیب

آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھویا گیا کس طرح ترا جوہرِ ادراک!
کس طرح ہوا کند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک
مہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں
کیوں تری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک
اب تک ہے رواں گرچہ لہو تیری رگوں میں
نے گرمئ افکار، نہ اندیشۂ بے باک
روشن تو وہ ہوتی ہے، جہاں بِیں نہیں ہوتی
جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نگۂ پاک
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری!
(ارمغان حجاز)
 

ابوشامل

محفلین
کلیات اقبال میں یہ میرا سب سے پسندیدہ کلام ہے۔ یاروں کی محفل میں کئی مرتبہ اسے پڑھنے کی فرمائشیں ہوتی ہیں اور کبھی کوئی ساتھی اسے پڑھ کر سناتا ہے تو کبھی کوئی، آج سوچا میں آپ کے سامنے پیش کروں۔ اس میں خصوصاً ابلیس کا پہلا اور آخری خطبہ "پڑھنے اور سمجھنے لائق" ہے۔ (سخنورانِ محفل اس میں غلطیوں کی نشاندہی بھی فرما دیں)


ابلیس کی مجلس شوری​

ابلیس


یہ عناصر کا پرانا کھیل، یہ دنیائے دُوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمناؤں کا خوں!
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں!

پہلا مشیر

اس میں کیا شک ہے کہ مُحکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خُوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سُجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و مُلا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
طبعِ مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام!
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟
ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام!

دوسرا مشیر

خیر ہے سلطانیِ جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر!

پہلا مشیر

ہُوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو، کیا اس سے خطر!
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجودِ میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!

تیسرا مشیر

روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب!


چوتھا مشیر

توڑ اس کا رومۃ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب
کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،

تیسرا مشیر


میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب

پانچواں مشیر
ابلیس کو مخاطب کرکے

اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار!
تو نے جب چاہا، کیا ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تیری حرارت سے جہان سوز و ساز
ابلہ جنت تری تعلیم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
تیری غیرت سے ابد تک سرنگوں و شرمسار
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
وہ یہودی فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار
فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار

ابلیس
اپنے مشیروں سے

ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمان تو بتو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو
کیا امامان سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو
کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!
دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!


(2)


جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضا ہے پیران حرم کی آستیں
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
الحذر! آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے
نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!
چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں
ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

(3)


توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات
ابن مریم مر گیا یا زندہ جاوید ہے
ہیں صفات ذات حق، حق سے جدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد، جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تا بساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
 

ابوشامل

محفلین
یہ حکمتِ ملکوتی، یہ علمِ لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکرِ نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
شریکِ شورشِ پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی دیا 'لاالہ' تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
 

ابوشامل

محفلین
میں اور تو

میں اور تو
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاکِ جادوئے سامری، تو قتیلِ شیوۂ آزری
میں نوائے سوختہ در گلو ، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو
میں حکایت غم آرزو ، تو حدیث ماتم دلبری
مرا عیش غم ،مرا شہد سم ، مری بود ہم نفس عدم
ترا دل حرم، گروِ عجم ترا دیں خریدۂ کافری
دمِ زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی
غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری
کوئی ایسی طرزِ طواف تو مجھے اے چراغِ حرم بتا!
کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشتِ سمندری
گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی 'ہری ہری'
نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے
وہی فطرتِ اسد اللہی وہی مرحبی، وہی عنتری
کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنہیں دماغِ سکندری​


(آخری مصرعہ کے بارے میں کچھ شبہات ہیں، اگر درست نہیں تو مطلع کر دیجیے)
 
Top