سورہ فاتحہ کا اسلوب بیان (١١)
اب غور کرو ان باتوں کا خلاصہ اس سورت میں کس خوبصورتی کے ساتھ جمع کر دیا گیا ہے! ایک طرف زیادہ سے زیادہ مختصر حتی کہ گنے ہوئے الفاظ ہیں۔ دوسری طرف ایسے جچے تلے الفاظ کہ ان کے معانی سے پوری وضاحت اور دل نشینی پیدا ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی نہایت سیدھا سادا بیان ہے، کسی طرح کا پیچ و خم نہیں، کسی طرح کا الجھاؤ نہیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ سہل اور دل نشین بھی ہوتی ہے۔ خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہوگی ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور دل نشین بھی ہو۔ دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات تمہارے سامنے آ جائے تو ذہن کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہ ہو، وہ اس طرح قبول کر لے گویا پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی بات تھی۔ اردو کے ایک شاعر نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اب غور کرو! اب جہاں تک انسان کی خدا پرستی اور خدا پرستی کے تصورات کا تعلق ہے اس سے زیادہ سیدھی سادی باتیں اور کیا ہو سکتی ہیں جو اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، اور پھر اس سے زیادہ سہل اور دل نشین اسلوب بیان کیا ہو سکتا ہے؟ سات چھوٹے چھوٹے بول ہیں، ہر بول چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں، اور ہر لفظ صاف اور دل نشین معانی کا نگینہ ہے جو اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے۔ اللہ کو مخاطب کرکے ان صفتوں سے پکارا گیا ہے جن کا جلوہ شب و روز انسان کے مشاہدے میں آتا رہتا ہے، اگرچہ اپنی جہالت اور غفلت سے ان میں غوروتفکر نہیں کرتا۔ پھر اس کی بندگی کا اقرار ہے، اس کی مددگاریوں کا اعتراف ہے اور زندگی کی لغزشوں سے بچ کر سیدھی راہ لگ چلنے کی طلب گاری ہے۔ کوئی مشکل خیال نہیں، کوئی انوکھی بات نہیں، کوئی عجیب و غریب راز نہیں۔ اب کہ ہم باربار سورت پڑھتے رہتے ہیں اور صدیوں سے اس کے مطالب نوع انسانی کے سامنے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہمارے دینی تصورات کی ایک بہت ہی معمولی سی بات ہے، لیکن یہی معمولی بات جس وقت تک دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی، اس سے زیادہ کوئی غیر معلوم اور ناقابل حل بات بھی نہ تھی۔ دنیا میں حقیقت اور سچائی کی ہر بات کایہی حال ہے۔ جب تک سامنے نہیں آتی، معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ مشکل بات کوئی نہیں۔ اور جب سامنے آ جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ صاف اور سہل بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ عرفی نے یہی حقیقت ایک دوسرے پیرایے میں بیان کی ہے۔
ہرکس نہ شناسندہ رازست وگرنہ
این ہمہ راز است کہ معلوم عوام ست!
(١٢) دنیا میں جب کبھی وحی الہی کی ہدایت نموار ہوئی ہے، اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ انسان کو نئی نئی باتیں سکھا دی ہوں، کیونکہ خدا پرستی کے بارے میں کوئی انوکھی بات سکھائی ہی نہیں جا سکتی۔ اس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسان کے وجدانی عقائد کو علم و اعتراف کی ٹھیک ٹھیک تعبیر بتا دے اور یہی سورہ فاتحہ کی خصوصیت ہے۔ اس سورت نے نوع انسانی کے وجدانی تصورات ایک ایسی تعبیر سے سنوار دیے کہ ہر عقیدہ، ہر فکر، ہر جذبہ، اپنی شکل و نوعیت میں نمودار ہو گیا اور چونکہ یہ تعبیر حقیقت حال کی سچی تعبیر ہے، اس لئے جب کبھی ایک انسان راست بازی کے ساتھ اس پر غور کرے گا، بے اختیار پکار اٹھے گا کہ اس کا ہر بول اور ہر لفظ اس کے دل و دماغ کی قدرتی آواز ہے!
دین حق کی مہمات
پھر دیکھو! اگرچہ اپنی نوعیت میں وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک خدا پرست انسان کی سیدھی سادی دعا ہے، لیکن کس طرح اس کے ہر لفظ اور ہر اسلوب سے دین حق کا کوئی نہ کوئی اہم مقصد واضح ہو گیا ہے اور کس طرح اس کے الفاظ نہایت اہم معانی و دقائق کی نگرانی کر رہے ہیں۔
١۔خدا کے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلطی یہ رہی ہے کہ اس تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنا لیتا تھا۔ سورہ فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گمراہی کا ازالہ کر دیا۔
اس کی ابتدا “حمد“ کے اعتراف سے ہوتی ہے۔ “حمد“ ثناء جمیل کو کہتے ہیں، یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنے کو۔ ثناء جمیل اسی کی کی جا سکتی ہے جس میں خوبی و جمال ہو۔ پس “حمد“ کے ساتھ خوف و دہشت کا تصور جمع نہیں ہو سکتا۔ جو ذات محمود ہوگی وہ خوفناک نہیں ہو سکتی۔
پھر “حمد“ کے بعد خدا کی عالم گیر ربوبیت ، رحمت اور عدالت کاذکر کیا ہے اور اس طرح صفات الٰہی کی ایک ایسی مکمل شبیہ کھینچ دی ہے جو انسان کو وہ سب کچھ دے دیتی ہے جس کی انسانیت کے نشوو ارتقاء کے لئے ضرورت ہے اور ان تمام گمراہیوں سے محفوظ کر دیتی ہے جو اس راہ میں اسے پیش آ سکتی ہیں (١٣)۔
٢۔ رب العلمین میں خدا کی عالمگیر ربوبیت کااعتراف ہے جو ہر فرد، ہر جماعت، ہر قوم، ہر ملک، ہر گوشہ و وجو د کے لئے ہے۔ اور اس لیے یہ اعتراف ان تمام تنگ نظریوں کا ختمہ کر دیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہو گئی تھیں اور ہر قوم اپنی جگہ سمجھنے لگ گئی تھی کہ خدا کی برکتیں اور سعادتیں صرف اسی کے لیے ہیں، کسی دوسری قوم کا ان میں حصہ نہیں۔
٣۔ ملک یوم الدین میں الدین کا لفظ اجزاء کے قانون کا اعتراف ہے اور جزا کو دین کے لفظ سے تعبیر کرکے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ جزاء انسانی اعمال کے قدرتی نتائج و خواص ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ خدا کا غضب و انتقام بندوں کو عذاب دینا چاہتاہو، کیونکہ الدین کے معنی بدلے اور مکافات کے ہیں۔
٤۔ ربوبیت اور رحمت کے بعد ملک یوم الدین کے وصف نے یہ بھی حقیقت آشکارا کر دی کہ اگر کائنات میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ وہ عادل ہے اور اس کی حکمت نے ہر چیز کے لیے اس کا ایک خاصہ اور نتیجہ مقرر کر دیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں ہے بلکہ عین رحمت ہے۔
٥۔ “عبادت“ کے لیے نہیں کہا کہ “نعبدک“ بلکہ کہا “ایاک نعبد“ یعنی یہ نہیں کہا تھا کہ “تیری عبادت کرتے ہیں“ بلکہ حصر کے ساتھ کہا “صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں“ اور پھر اس کے ساتھ “ایاک نستعین“ کہہ کر “استعانت“ کا بھی اسی حصر کے ساتھ ذکر کر دیا۔ اس اسلوب بیان نے توحید کے تمام مقاصد پورے کر دیے اور شرک کی ساری راہیں بند ہو گئیں۔
٦۔ سعادت و فلاح کی راہ کو “الصراط المستقیم“ یعنی سیدھی راہ سے تعبیر کیا جس سے زیادہ بہتر اور قدرتی تعبیر نہیں ہو سکتی، کیونکہ کوئی نہیں جو سیدھی راہ اور ٹیڑھی راہ میں امتیاز نہ رکھتا ہو اور پہلی راہ کا خواہش مند نہ ہو۔
٧۔ پھر اس کے لیے ایک سیدھی سادی اور جانی بوجھی ہوئی شناخت بنا دی جس کا اذعان قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے اور جو محض ایک ذہنی تعریف ہونےکی جگہ ایک موجود و مشہود حقیقت نمایاں کر دیتی ہے، یعنی وہ راہ جو انعام یافتہ انسانوں کی راہ ہے۔ کوئی ملک، کوئی قوم، کوئی زامنہ، کوئی فرد ہو، لیکن انسان ہمیشہ دیکھتا ہے کہ زندگی کی دو راہیں یہاں صاف موجود ہیں۔ ایک راہ کامیاب انسانوں کی راہ ہے، ایک ناکام انسانوں کی۔ پس ایک واضح اور آشکارا بات کے لیے سب سے بہتر علامت یہی ہو سکتی تھی کہ اس کی طرف انگلی اٹھا دی جائے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ایک معلوم بات کو مجہول بنا دینا تھا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کے لیے دعا کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے، کیونکہ اگر تعلیم و امر کا پیرایہ اختیار کیا جاتا تو اس کی نوعیت کی ساری تاثیر جاتی رہتی۔ دعائیہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ ہر راست باز انسان کی جو خدا پرستی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے، صدا حال کیا ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہیے؟ یہ گویا خداپرستی کے فکر و وجدان کا سرجوش ہے جو ایک طالب صادق کی زبان پر بے اختیار ابل پڑتا ہے۔
(٢)
الحمدللہ
حمد
عربی میں “حمد“ کے معنی ثنا جمیل کے ہیں، یعنی اچھی صفتیں بیان کرنے کے۔ اگر کسی کی بری صفتیں بیان کی جائیں تو یہ “حمد“ نہ ہو گی۔ حمد پر الف لام ہے۔ یہ استغراق کے لیے بھی ہو سکتا ہے، جنس کے لیے بھی۔ پس “الحمد للہ“ کے معنی یہ ہوئے کہ حمد و ثناء میں سے جو کچھ اور جیسا کچھ بھی کہا جا سکتا ہے وہ سب کچھ اللہ کے لیے ہے، کیونکہ خوبیوں اور کمالوں میں سے جو کچھ بھی ہے سب اسی سے ہے اور اسی میں ہے۔ اور اگر حسن موجود ہے تو نگاہ عشق کیوں نہ ہو، اور اگر محمودیت جلوہ افروز ہے تو زبان حمد و ستایش کیوں خاموش رہے؟
آئینہ ما روی ترا عکس پذیر است
گر تو نہ نمائی گنہ از جانب ما نیست
“حمد“ سے سورت کی ابتدا کیوں کی گئی؟ اس لیے کہ معرفت الہی کی راہ میں انسان کا پہلا تاثر یہی ہے، یعنی جب کبھی ایک صادق انسان اس راہ میں قدم اٹھائے گا تو سب سے پہلی حالت جو اس کے فکر و وجدان پر طاری ہو گی وہ قدرتی طور پر وہی ہو گی جسے یہاں تحمید و ستائش سے تعبیر کیا گیا ہے۔
انسان کے لیے معرفت حق کی راہ کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ کائنات خلقت میں تفکر و تدبر کرے۔ مصنوعات کا مطالعہ اسے صانع تک پہنچا دے گا۔
الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبہم و یتفکرون فی خلق السمٰوٰت (٣؛١٩١)