املا نامہ (طبع ثانی) ۔ مرتبہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ

خاکسار کی رائے میں آج تک تو املا نامہ کی تمام سفارشات ہی قابل قبول اور "قطعی" تھیں لیکن اگر آپ کے خیال میں کچھ سفارشات نا قابل قبول ہیں تو ان کی نشان دہی فرما دیجیے تا کہ ان پر بھی بات کی جا سکے۔

میرے خیال میں تو ایسے اکثر دو حرفی عربی الفاظ کے آخری حرف پر اردو میں تشدید صرف اس صورت میں واقع ہوتی ہے جب مرکب اضافی یا مرکب توصیفی وغیرہ بناتے ہوئے دوسرا حرف مکسور ہو یا اس کے بعد واؤ عطفی لگانا ہو، مثلاً آپ ہی کی بیان کردہ امثال کو دیکھیں تو:
حد ۔ حدِّ فاضل
حق ۔ حقِّ رائے دہی
شک ۔ شکّ و شبہ
مد ۔ مدِّ مقابل ۔ مدّ و جزر
ضد ۔ ضدِّ اجسام
صف ۔ صفِ ماتم (عمومی کلیے سے مختلف)

حوالے دیتے ہیں تو بات اساتذہ تک جاتی ہے:
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے​
۔۔ میر تقی میر​
 
کل ہی ایک صاحب سے بات ہو رہی تھی۔ میں نے یہیں سے حوالہ لے کر عرض کیا کہ: "پتہ ٹھکانا تو وہ ہوا جہاں میں رہتا ہوں، یا گیا ہوں؛ پتا درخت کا پودے کا ہوتا ہے۔"
انہوں نے میر کا مصرع نقل کر دیا "پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے"۔ اور فرہنگِ آصفیہ سے انٹری نقل کر کے (پتا: بمعنی پتہ ٹھکانہ، گلی) فرمایا کہ: بتائیے یہ فرہنگ سند ہے یا نہیں؟
 

فاتح

لائبریرین
حوالے دیتے ہیں تو بات اساتذہ تک جاتی ہے:
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے​
۔۔ میر تقی میر​
جی بجا فرمایا۔۔۔ چونکہ اردو میں آخری حرف مشدد نہیں ہوتا لہٰذا ثلاثی مجرد سے مشتق ایسے عربی الفاظ جن کے آخری دو حروف ایک ہی ہوں وہ اردو میں آ کر گڑبڑ کا باعث بنتے ہیں۔
حق کے متعلق پھر یہی عرض کروں گا کہ حق کا ق مشدد ہونا "چاہیے" تھا لیکن میر تقی میر جیسے استاد نے غلط باندھا ہے تو یہ غلط العام کے زمرے میں آئے گا ورنہ درست حقِّ بندگی ہی ہے۔
ویسے میر کے ہاں تو بہت کچھ ایسا ملتا ہے کہ جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ چھ دیوانوں کا پیٹ بھرنے کو اشعار کے نام پر وہ وہ رطب و یابس اور الم غلم ڈال رکھا ہے کہ کوئی تیسرے درجے کا شاعر بھی ویسے بے تکے اشعار نہیں کہتا ہو گا۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
جی، میں نے یہاں دیکھا تھا۔ ٹائپنگ کی غلطی رہی ہو گی:


گستاخی پر شرمندہ ہوں۔
نشان دہی کا شکریہ۔۔۔ یقیناً ٹائپنگ کی غلطی ہے۔

اور اب۔۔۔
خاکسار کی رائے میں آج تک تو املا نامہ کی تمام سفارشات ہی قابل قبول اور "قطعی" تھیں لیکن اگر آپ کے خیال میں کچھ سفارشات نا قابل قبول ہیں تو ان کی نشان دہی فرما دیجیے تا کہ ان پر بھی بات کی جا سکے۔
 
جی بجا فرمایا۔۔۔ چونکہ اردو میں آخری حرف متشدد نہیں ہوتا لہٰذا ثلاثی مجرد سے مشتق ایسے عربی الفاظ جن کے آخری دو حروف ایک ہی ہوں وہ اردو میں آ کر گڑبڑ کا باعث بنتے ہیں۔
حق کے متعلق پھر یہی عرض کروں گا کہ حق کا ق متشدد ہونا "چاہیے" تھا لیکن میر تقی میر جیسے استاد نے غلط باندھا ہے تو یہ غلط العام کے زمرے میں آئے گا ورنہ درست حقِّ بندگی ہی ہے۔
ویسے میر کے ہاں تو بہت کچھ ایسا ملتا ہے کہ جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ چھ دیوانوں کا پیٹ بھرنے کو اشعار کے نام پر وہ وہ رطب و یابس اور الم غلم ڈال رکھا ہے کہ کوئی تیسرے درجے کا شاعر بھی ویسے بے تکے اشعار نہیں کہتا ہو گا۔

حروف تو اگر ہوں تو مشدد ہوتے ہیں، رویے البتہ متشدد ہوا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میر کے بارے میں حضور کے ارشاداتِ عالیہ! اس فقیر میں مزید گستاخی کا مرتکب ہونے کی ہمت نہیں ہے، مگر اس کا کیا ہو کہ غالب جس کا غلط بھی ٹھیک ہے وہ بھی میر پر اعتقاد رکھتا ہے اور استاد ناسخ بھی! غلطی تو میر نے کی ہے، کہ اس نے گوپی چند کا املاء نامہ پڑھا تک نہیں۔
خیر یہ کون سی ایمانیات کی شرط ہے۔ چھوڑئیے!
 

فاتح

لائبریرین
حروف تو اگر ہوں تو مشدد ہوتے ہیں، رویے البتہ متشدد ہوا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میر کے بارے میں حضور کے ارشاداتِ عالیہ! اس فقیر میں مزید گستاخی کا مرتکب ہونے کی ہمت نہیں ہے، مگر اس کا کیا ہو کہ غالب جس کا غلط بھی ٹھیک ہے وہ بھی میر پر اعتقاد رکھتا ہے اور استاد ناسخ بھی! غلطی تو میر نے کی ہے، کہ اس نے گوپی چند کا املاء نامہ پڑھا تک نہیں۔
خیر یہ کون سی ایمانیات کی شرط ہے۔ چھوڑئیے!
مشدد اور متشدد کی بابت اصلاح پر شکریہ۔ :)
میر کی بابت میری رائے کو تو آپ دل پر ہی لے گئے۔ مانتا ہوں کہ میر کے کلام میں کافی اچھے اشعار بھی موجود ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ چھ ضخیم دواوین گھڑنے کے لیے ان میں الا بلا بھی وافر مقدار میں بھرا گیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میر کے دواوین سے ایسے بے تکے اور تیسرے درجے کے اشعار نکال کر آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں۔
رہی غالب کے غلط کو ٹھیک کہنے کی بات تو شاید آنجناب نے غور نہیں فرمایا کہ میں نے میر کے غلط کو بھی غلط العام (فصیح) قرار دیا ہے۔ لیکن وہاں حضور نے طنز کے تیر چلانے پر ہی اکتفا کیا کہ
غلطی تو میر نے کی ہے، کہ اس نے گوپی چند کا املاء نامہ پڑھا تک نہیں۔
خیر یہ کون سی ایمانیات کی شرط ہے۔ چھوڑئیے!
:laughing:

بہرحال، یہ تو موضوع سے ہٹ کر باتیں تھیں اور بقول قبلہ و کعبہ نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ حضرت میرزا ااسد اللہ بیگ خان غالب رحمۃ اللہ علیہ
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے :)

موضوع پر واپس آتے ہیں۔۔۔
جی، عمدہ اور معلوماتی دستاویز ہے۔ اس کو پذیرائی ملی بھی ہے ملنی بھی چاہئے۔ تاہم ایک گزارش ہے کہ اسے "قطعی" قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خاکسار کی رائے میں آج تک تو املا نامہ کی تمام سفارشات ہی قابل قبول اور "قطعی" تھیں لیکن اگر آپ کے خیال میں کچھ سفارشات نا قابل قبول ہیں تو ان کی نشان دہی فرما دیجیے تا کہ ان پر بھی بات کی جا سکے۔
 
آخری تدوین:
"خاکسار کی رائے میں آج تک تو املا نامہ کی تمام سفارشات ہی قابل قبول اور "قطعی" تھیں لیکن اگر آپ کے خیال میں کچھ سفارشات نا قابل قبول ہیں تو ان کی نشان دہی فرما دیجیے تا کہ ان پر بھی بات کی جا سکے"

کمیٹی اپنا کام کر کے جا چکی۔ اب کون سی بات وہاں پہنچے گی؟ میں نے "املاء نامہ" محفوظ کر لیا ہے۔ باتیں ہوتی رہیں گی، ان شاء اللہ۔
 
جیسا میں پہلے عرض کر چکا، یہ کوئی ایمانیات کا مسئلہ نہیں کہ میر کا، یا غالب کا، یا میرا، یا آپ کا کہا حرفِ آخر تسلیم ہو گا؛ یا نہیں ہو گا۔
مختصر یہ ہے کہ مذکورہ "املاء نامہ" مجھے پوری طرح مطمئن نہیں کر پا رہا۔
 
عطر آن است کہ خود ببوید، نہ عطار بگوید

ویسے میر کے ہاں تو بہت کچھ ایسا ملتا ہے کہ جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ چھ دیوانوں کا پیٹ بھرنے کو اشعار کے نام پر وہ وہ رطب و یابس اور الم غلم ڈال رکھا ہے کہ کوئی تیسرے درجے کا شاعر بھی ویسے بے تکے اشعار نہیں کہتا ہو گا۔

میر کی بابت میری رائے کو تو آپ دل پر ہی لے گئے۔ مانتا ہوں کہ میر کے کلام میں کافی اچھے اشعار بھی موجود ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ چھ ضخیم دواوین گھڑنے کے لیے ان میں الا بلا بھی وافر مقدار میں بھرا گیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میر کے دواوین سے ایسے بے تکے اور تیسرے درجے کے اشعار نکال کر آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں۔
رہی غالب کے غلط کو ٹھیک کہنے کی بات تو شاید آنجناب نے غور نہیں فرمایا کہ میں نے میر کے غلط کو بھی غلط العام (فصیح) قرار دیا ہے۔ لیکن وہاں حضور نے طنز کے تیر چلانے پر ہی اکتفا کیا کہ
 

فاتح

لائبریرین
عطر آن است کہ خود ببوید، نہ عطار بگوید
ایک مرتبہ پھر طنز کے تیر (اور وہ بھی زبانِ غیر میں ) چلانے پر شکریہ حضور۔ :)
جو محاورہ آپ نے اوپر درج کیا ہے اس کی اصل صورت "گلستان سعدی" میں یوں درج ہے کہ
مشک آں است کہ خود ببوید نہ آں کہ عطار بگوید
جس صورت میں آپ نے لکھا ہے اس طرح اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ "عطر وہ ہوتا ہے جو خود بُو دیتا ہے نہ عطار بتاتا ہے" اور یوں اس کا مفہوم ہی بالکل الٹا ہو جاتا ہے۔

آپ نے میرے جن دو مراسلوں کا اقتباس لیا ہے میں میر تقی میر کے متعلق اپنے ان بیانات پر نہ صرف قائم ہوں بلکہ عرض کر چکا ہوں کہ
اگر آپ چاہیں تو میر کے دواوین سے ایسے بے تکے اور تیسرے درجے کے اشعار نکال کر آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں۔
ان پر طنز کرنے کی بجائے بات کر لی جائے تو شاید مجھ سمیت کئیوں کا بھلا ہو جائے گا۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
کمیٹی اپنا کام کر کے جا چکی۔ اب کون سی بات وہاں پہنچے گی؟ میں نے "املاء نامہ" محفوظ کر لیا ہے۔ باتیں ہوتی رہیں گی، ان شاء اللہ۔
مختصر یہ ہے کہ مذکورہ "املاء نامہ" مجھے پوری طرح مطمئن نہیں کر پا رہا۔

کمیٹی تو کب کی مر کھپ چکی سوائے گوپی چند نارنگ کے۔ اور یوں بھی محفل میں پوسٹ کرنے کا مقصد کمیٹی تک بات پہنچانا نہیں تھا بلکہ سیکھنا مقصود تھا اور اسی لیے آپ سے یہ عرض کرنے کی جرات کی تھی کہ جو سفارشات آپ کی رائے میں قابلِ قبول نہیں ہیں ان کی نشان دہی فرما دیں تا کہ ان پر گفتگو ہو سکے اور ہمیں سیکھنے کا موقع مل سکے۔
 
ایک مرتبہ پھر طنز کے تیر (اور وہ بھی زبانِ غیر میں ) چلانے پر شکریہ حضور۔ :)
جو محاورہ آپ نے اوپر درج کیا ہے اس کی اصل صورت "گلستان سعدی" میں یوں درج ہے کہ
مشک آں است کہ خود ببوید نہ آں کہ عطار بگوید
جس صورت میں آپ نے لکھا ہے اس طرح اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ "عطر وہ ہوتا ہے جو خود بُو دیتا ہے نہ عطار بتاتا ہے" اور یوں اس کا مفہوم ہی بالکل الٹا ہو جاتا ہے۔

آپ نے میرے جن دو مراسلوں کا اقتباس لیا ہے میں میر تقی میر کے متعلق اپنے ان بیانات پر نہ صرف قائم ہوں بلکہ عرض کر چکا ہوں کہ

ان پر طنز کرنے کی بجائے بات کر لی جائے تو شاید مجھ سمیت کئیوں کا بھلا ہو جائے گا۔

یہ ایک اور بحث ہو گی۔ عطر والی بات پر آپ کو جو اشکال ہو رہا ہے وہی کبھی مجھے بھی ہوا تھا، بعد میں رفع ہوا۔ بہر کیف، میں نے سعدی سے نقل نہیں کیا۔ مجھے "مستحِق" اور "مستحَق" والا مکالمہ بھی ہنوز یاد ہے۔

کمیٹی تو کب کی مر کھپ چکی سوائے گوپی چند نارنگ کے۔ اور یوں بھی محفل میں پوسٹ کرنے کا مقصد کمیٹی تک بات پہنچانا نہیں تھا بلکہ سیکھنا مقصود تھا اور اسی لیے آپ سے یہ عرض کرنے کی جرات کی تھی کہ جو سفارشات آپ کی رائے میں قابلِ قبول نہیں ہیں ان کی نشان دہی فرما دیں تا کہ ان پر گفتگو ہو سکے اور ہمیں سیکھنے کا موقع مل سکے۔

آپ مذکورہ سفارشات کو "حتمی" کا درجہ دیجئے، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنے کہے پر اعتماد ہے۔
یہاں گفتگو علمی سے زیادہ ذاتی بنتی جا رہی ہے، سو میں کنارہ کش ہوتا ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
یہ ایک اور بحث ہو گی۔ عطر والی بات پر آپ کو جو اشکال ہو رہا ہے وہی کبھی مجھے بھی ہوا تھا، بعد میں رفع ہوا۔ بہر کیف، میں نے سعدی سے نقل نہیں کیا۔ مجھے "مستحِق" اور "مستحَق" والا مکالمہ بھی ہنوز یاد ہے۔



آپ مذکورہ سفارشات کو "حتمی" کا درجہ دیجئے، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنے کہے پر اعتماد ہے۔
یہاں گفتگو علمی سے زیادہ ذاتی بنتی جا رہی ہے، سو میں کنارہ کش ہوتا ہوں۔
میری جانب سے تو اب بھی علمی ہی ہے۔۔۔ اگر آپ اسے پرسنل لے رہے ہیں تو کیا کہہ سکتا ہوں حضور
 

ثاقب حسن

محفلین
سلام جناب فاتح صاحب۔امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔سَر مجھے املا میں کچھ پروبلم ہے وہ یہ کہ "چاہیئے، لیئے،کیئے اور ایسے کٸی الفاظ“ کو اگر بغیر ”ی“ کے لکھیں تو کیا یہ املا درست ہوگی؟ کاٸنڈلی اصلاح فرما دیجیئے۔آپ کا بہت احسان ہوگا۔اور املا کی درستی کے لیئے کسی کتاب کا نام بھی بتا دیجیئے۔
 
سلام جناب فاتح صاحب۔امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔سَر مجھے املا میں کچھ پروبلم ہے وہ یہ کہ "چاہیئے، لیئے،کیئے اور ایسے کٸی الفاظ“ کو اگر بغیر ”ی“ کے لکھیں تو کیا یہ املا درست ہوگی؟ کاٸنڈلی اصلاح فرما دیجیئے۔آپ کا بہت احسان ہوگا۔اور املا کی درستی کے لیئے کسی کتاب کا نام بھی بتا دیجیئے۔

ان تمام الفاظ کو "ء" کے بغیر لکھنا ہی درست سمجھا جاتا ہے۔
چ ا ہ ی ے = چاہیے
ل ی ے = لیے
ک ی ے = کیے
د ی ج ی ے = دیجیے

گوپی چند نارنگ کی اسی املا نامہ کے علاؤہ رشید حسن خاں کی "اردو املا" بھی دیکھیے۔
 
Top