امریکہ کی ترقی کا راز

ربیع م

محفلین
دنیا کا واحد دارالاسلام امریکا ہے.
اس سے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے جس کے مطابق اگر خود امریکی یہ جان لیں تو وہ حیرت سے ششدر رہ جائیں.
کہ ہائے یہ خوبیاں بھی ہم میں پائی جاتی ہیں.
 

آوازِ دوست

محفلین
امریکہ کی ترقی کا راز
بلاگر: احمد عثمان، پير 26 دسمبر 2016

689203-hh-1482575912-226-640x480.jpg

آج تک ہم نے اپنا آئین اپنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی بلکہ ہمشہ آئین سازی کو سر سے اتارنے
کی کوشش کی ہے اور جب کبھی اس کو بنانے میں کامیاب بھی ہوئے تو اس کا احترام نہیں کیا۔

آج سے 10 سال قبل جب میں قائدِاعظم یونیورسٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا طالب علم تھا تو اُس وقت قائدِاعظم یونیورسٹی اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے امریکی تاریخ اور سیاست پر ایک شارٹ کورس شروع کیا گیا، جو تھا تو سوشل سائنسز کے طلباء کیلئے، لیکن پھر بھی بڑی تگ و دو کے بعد میں اُس کورس میں اپنا نام ڈلوانے میں کامیاب ہو گیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طالب علم کی اُس کورس میں دلچسپی باعث تعجب تھی لیکن بہت عرصے سے میں اُس سوال کے جواب کی تلاش میں تھا کہ یہ ملک جو محض تین صدیاں قبل غلطی سے دریافت ہوا، تو آخر اتنے کم وقت میں اتنی حیرت انگیز ترقی کیسے کر گیا؟

جب مجھے اس کورس کا پتا چلا تو میرے لئے یہ ایک نادر موقع تھا کہ میں اپنے اُس سوال کا جواب تلاش کر سکوں۔ کورس کے پہلے دن سے آخری دن تک میں نے اپنی پوری توجہ سے کورس پر کامہوئے اور اپنے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی پوری کوشش کی۔ آخری دن جب سرٹیفیکٹ تقسیم کرنے کے لئے امریکی سفیر آئے تو چائے پر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے اِس کورس سے کیا سیکھا؟ تو میرا برجستہ جواب تھا کہ میں نے اِس کورس کی وجہ سے اپنے ایک بہت اہم سوال کا جواب تلاش کر لیا ہے۔ انہوں نے متجسس ہو کر پوچھا کہ سوال کیا تھا اور جواب کیا ہے؟

میں نے کہا سوال یہ تھا کہ آخر چند صدیوں قبل دریافت ہونے والا امریکہ جہاں پر آباد 90 فیصد لوگ دیگر ممالک سے آکر آباد ہوئے، آخر کیسے اتنے متنوع ثقافت اور عقائد کے باوجود اتنی جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا؟

امریکی سفیر نے میرا جواب وہاں سننے کے بجائے مجھے روک دیا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جب ہم چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ کلاس میں اکھٹے ہوں تب آپ سب کے سامنے اس سوال کا جواب دیں اور پھر ہم وہاں موجود دیگر طلباء سے رائے بھی لے لیں گے۔ بہرحال کلاس دوبارہ شروع ہوئی اور میں نے سب کو اپنا جواب کچھ یوں دیا۔

میری نظر میں امریکہ کی اِس جادوئی ترقی کی سب سے اہم وجہ اُس کا آئین ہے اور پھر امریکی عوام کی جانب سے اِس آئین کا بے حد احترام ہے۔ یہاں آپ کی دلچسپی کیلئے بتاتا چلوں کہ امریکہ کا آئین امریکی حکومت کو چلانے کیلئے ایک سینٹرل انسٹرومنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔

200 سال گزر جانے کے باوجود یہ آج بھی امریکہ کو سیاسی استحکام، شخصی آزادی، معاشی خوشحالی اور سماجی ترقی کے برابر مواقع دیتا ہے۔ امریکی آئین آج بھی پوری آب و تاب سے رائج ہے، یہ اتنا آسان اور جامع ہے کہ جب یہ بنا تو صرف 40 لاکھ لوگوں اور 13 کالونیوں کو مدِنظر رکھ کر بنایا گیا تھا، لیکن آج بھی محض چند تجدید کے بعد یہ آئین 324 لاکھ سے زائد افراد اور 50 سے زائد متنوع مزاج ریاستوں میں پوری طرح قابل عمل ہے۔

اگر اب ہم اِس جواب کو پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ آخر اتنی پرانی ثقافتی اور تاریخی حیثیت کے باوجود آج بھی پاکستان بہت سے مسائل میں گھرا ہوا کیوں ہے۔ اس کا جواب بھی کافی واضح ہے، اور وہ یہ کہ آج تک ہم نے اپنا آئین اپنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی بلکہ ہمیشہ آئین سازی کو سر سے اتارنے کی کوشش کی ہے اور جب کبھی اس کو بنانے میں کامیاب بھی ہوئے تو اس کا احترام نہیں کیا، چاہے وہ کوئی فوجی آمر ہو یا پھر سیاستدان، سب نے اسے اپنے اقتدار کی بقاء کے لئے اپنی مرضی سے استعمال کیا

امریکہ کی ترقی کا راز
بلاگر: احمد عثمان، پير 26 دسمبر 2016

689203-hh-1482575912-226-640x480.jpg

آج تک ہم نے اپنا آئین اپنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی بلکہ ہمشہ آئین سازی کو سر سے اتارنے
کی کوشش کی ہے اور جب کبھی اس کو بنانے میں کامیاب بھی ہوئے تو اس کا احترام نہیں کیا۔

آج سے 10 سال قبل جب میں قائدِاعظم یونیورسٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا طالب علم تھا تو اُس وقت قائدِاعظم یونیورسٹی اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے امریکی تاریخ اور سیاست پر ایک شارٹ کورس شروع کیا گیا، جو تھا تو سوشل سائنسز کے طلباء کیلئے، لیکن پھر بھی بڑی تگ و دو کے بعد میں اُس کورس میں اپنا نام ڈلوانے میں کامیاب ہو گیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طالب علم کی اُس کورس میں دلچسپی باعث تعجب تھی لیکن بہت عرصے سے میں اُس سوال کے جواب کی تلاش میں تھا کہ یہ ملک جو محض تین صدیاں قبل غلطی سے دریافت ہوا، تو آخر اتنے کم وقت میں اتنی حیرت انگیز ترقی کیسے کر گیا؟

جب مجھے اس کورس کا پتا چلا تو میرے لئے یہ ایک نادر موقع تھا کہ میں اپنے اُس سوال کا جواب تلاش کر سکوں۔ کورس کے پہلے دن سے آخری دن تک میں نے اپنی پوری توجہ سے کورس پر کام کیا اور اپنے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی پوری کوشش کی۔ آخری دن جب سرٹیفیکٹ تقسیم کرنے کے لئے امریکی سفیر آئے تو چائے پر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے اِس کورس سے کیا سیکھا؟ تو میرا برجستہ جواب تھا کہ میں نے اِس کورس کی وجہ سے اپنے ایک بہت اہم سوال کا جواب تلاش کر لیا ہے۔ انہوں نے متجسس ہو کر پوچھا کہ سوال کیا تھا اور جواب کیا ہے؟

میں نے کہا سوال یہ تھا کہ آخر چند صدیوں قبل دریافت ہونے والا امریکہ جہاں پر آباد 90 فیصد لوگ دیگر ممالک سے آکر آباد ہوئے، آخر کیسے اتنے متنوع ثقافت اور عقائد کے باوجود اتنی جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا؟

امریکی سفیر نے میرا جواب وہاں سننے کے بجائے مجھے روک دیا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جب ہم چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ کلاس میں اکھٹے ہوں تب آپ سب کے سامنے اس سوال کا جواب دیں اور پھر ہم وہاں موجود دیگر طلباء سے رائے بھی لے لیں گے۔ بہرحال کلاس دوبارہ شروع ہوئی اور میں نے سب کو اپنا جواب کچھ یوں دیا۔

میری نظر میں امریکہ کی اِس جادوئی ترقی کی سب سے اہم وجہ اُس کا آئین ہے اور پھر امریکی عوام کی جانب سے اِس آئین کا بے حد احترام ہے۔ یہاں آپ کی دلچسپی کیلئے بتاتا چلوں کہ امریکہ کا آئین امریکی حکومت کو چلانے کیلئے ایک سینٹرل انسٹرومنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔

200 سال گزر جانے کے باوجود یہ آج بھی امریکہ کو سیاسی استحکام، شخصی آزادی، معاشی خوشحالی اور سماجی ترقی کے برابر مواقع دیتا ہے۔ امریکی آئین آج بھی پوری آب و تاب سے رائج ہے، یہ اتنا آسان اور جامع ہے کہ جب یہ بنا تو صرف 40 لاکھ لوگوں اور 13 کالونیوں کو مدِنظر رکھ کر بنایا گیا تھا، لیکن آج بھی محض چند تجدید کے بعد یہ آئین 324 لاکھ سے زائد افراد اور 50 سے زائد متنوع مزاج ریاستوں میں پوری طرح قابل عمل ہے۔

اگر اب ہم اِس جواب کو پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ آخر اتنی پرانی ثقافتی اور تاریخی حیثیت کے باوجود آج بھی پاکستان بہت سے مسائل میں گھرا ہوا کیوں ہے۔ اس کا جواب بھی کافی واضح ہے، اور وہ یہ کہ آج تک ہم نے اپنا آئین اپنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی بلکہ ہمیشہ آئین سازی کو سر سے اتارنے کی کوشش کی ہے اور جب کبھی اس کو بنانے میں کامیاب بھی ہوئے تو اس کا احترام نہیں کیا، چاہے وہ کوئی فوجی آمر ہو یا پھر سیاستدان، سب نے اسے اپنے اقتدار کی بقاء کے لئے اپنی مرضی سے استعمال کیا اور کئی بار اِس کی حرمت کو پامال کیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ آئینِ پاکستان کو اِس کی روح کے مطابق اپنے اقتدار کو طول دینے کے بجائے پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے استعمال کیا جائے۔

نوٹ: بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

بلاگر نے قائد اعظم یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کیا ہے اور دبئی کے ایک بینک میں ملازمت کرتے ہیں۔ سیاست اور معاشرتی مسائل می
امریکہ کی ترقی کا راز
بلاگر: احمد عثمان، پير 26 دسمبر 2016

689203-hh-1482575912-226-640x480.jpg

آج تک ہم نے اپنا آئین اپنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی بلکہ ہمشہ آئین سازی کو سر سے اتارنے
کی کوشش کی ہے اور جب کبھی اس کو بنانے میں کامیاب بھی ہوئے تو اس کا احترام نہیں کیا۔

آج سے 10 سال قبل جب میں قائدِاعظم یونیورسٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا طالب علم تھا تو اُس وقت قائدِاعظم یونیورسٹی اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے امریکی تاریخ اور سیاست پر ایک شارٹ کورس شروع کیا گیا، جو تھا تو سوشل سائنسز کے طلباء کیلئے، لیکن پھر بھی بڑی تگ و دو کے بعد میں اُس کورس میں اپنا نام ڈلوانے میں کامیاب ہو گیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طالب علم کی اُس کورس میں دلچسپی باعث تعجب تھی لیکن بہت عرصے سے میں اُس سوال کے جواب کی تلاش میں تھا کہ یہ ملک جو محض تین صدیاں قبل غلطی سے دریافت ہوا، تو آخر اتنے کم وقت میں اتنی حیرت انگیز ترقی کیسے کر گیا؟

جب مجھے اس کورس کا پتا چلا تو میرے لئے یہ ایک نادر موقع تھا کہ میں اپنے اُس سوال کا جواب تلاش کر سکوں۔ کورس کے پہلے دن سے آخری دن تک میں نے اپنی پوری توجہ سے کورس پر کام کیا اور اپنے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی پوری کوشش کی۔ آخری دن جب سرٹیفیکٹ تقسیم کرنے کے لئے امریکی سفیر آئے تو چائے پر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے اِس کورس سے کیا سیکھا؟ تو میرا برجستہ جواب تھا کہ میں نے اِس کورس کی وجہ سے اپنے ایک بہت اہم سوال کا جواب تلاش کر لیا ہے۔ انہوں نے متجسس ہو کر پوچھا کہ سوال کیا تھا اور جواب کیا ہے؟

میں نے کہا سوال یہ تھا کہ آخر چند صدیوں قبل دریافت ہونے والا امریکہ جہاں پر آباد 90 فیصد لوگ دیگر ممالک سے آکر آباد ہوئے، آخر کیسے اتنے متنوع ثقافت اور عقائد کے باوجود اتنی جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا؟

امریکی سفیر نے میرا جواب وہاں سننے کے بجائے مجھے روک دیا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جب ہم چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ کلاس میں اکھٹے ہوں تب آپ سب کے سامنے اس سوال کا جواب دیں اور پھر ہم وہاں موجود دیگر طلباء سے رائے بھی لے لیں گے۔ بہرحال کلاس دوبارہ شروع ہوئی اور میں نے سب کو اپنا جواب کچھ یوں دیا۔

میری نظر میں امریکہ کی اِس جادوئی ترقی کی سب سے اہم وجہ اُس کا آئین ہے اور پھر امریکی عوام کی جانب سے اِس آئین کا بے حد احترام ہے۔ یہاں آپ کی دلچسپی کیلئے بتاتا چلوں کہ امریکہ کا آئین امریکی حکومت کو چلانے کیلئے ایک سینٹرل انسٹرومنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔

200 سال گزر جانے کے باوجود یہ آج بھی امریکہ کو سیاسی استحکام، شخصی آزادی، معاشی خوشحالی اور سماجی ترقی کے برابر مواقع دیتا ہے۔ امریکی آئین آج بھی پوری آب و تاب سے رائج ہے، یہ اتنا آسان اور جامع ہے کہ جب یہ بنا تو صرف 40 لاکھ لوگوں اور 13 کالونیوں کو مدِنظر رکھ کر بنایا گیا تھا، لیکن آج بھی محض چند تجدید کے بعد یہ آئین 324 لاکھ سے زائد افراد اور 50 سے زائد متنوع مزاج ریاستوں میں پوری طرح قابل عمل ہے۔

اگر اب ہم اِس جواب کو پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ آخر اتنی پرانی ثقافتی اور تاریخی حیثیت کے باوجود آج بھی پاکستان بہت سے مسائل میں گھرا ہوا کیوں ہے۔ اس کا جواب بھی کافی واضح ہے، اور وہ یہ کہ آج تک ہم نے اپنا آئین اپنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی بلکہ ہمیشہ آئین سازی کو سر سے اتارنے کی کوشش کی ہے اور جب کبھی اس کو بنانے میں کامیاب بھی ہوئے تو اس کا احترام نہیں کیا، چاہے وہ کوئی فوجی آمر ہو یا پھر سیاستدان، سب نے اسے اپنے اقتدار کی بقاء کے لئے اپنی مرضی سے استعمال کیا اور کئی بار اِس کی حرمت کو پامال کیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ آئینِ پاکستان کو اِس کی روح کے مطابق اپنے اقتدار کو طول دینے کے بجائے پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے استعمال کیا جائے۔

نوٹ: بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

بلاگر نے قائد اعظم یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کیا ہے اور دبئی کے ایک بینک میں ملازمت کرتے ہیں۔ سیاست اور معاشرتی مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں

ح
صاحب بلاگ والا نتیجہ ہی مابدولت نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کر کے نکالا تھا. برطانیہ کا معاملہ تو اور بھی دلچسپ ہے کہ اُس کا کوئی تحریری آئین ہی نہیں ہے. لیکن جو آئینی روایات وہاں مروج ہیں اُن کی تکریم اور عملدرآمد پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا. پاکستان میں قانون ساز ادارہ یعنی پارلیمنٹ اپنے وجود کے جواز پر ایک شرمناک دھبہ ہے. منتخب ہونے کے لیے مال لگاؤ اور پھر اپنی انویسٹمنٹ پر کئی گنا مال بناؤ ہی یہاں ایک رہنما اصول ہے.صرف پارلیمنٹ پر موقوف نہیں یہاں مقننہ, عدلیہ اور انتظامیہ نے ایک ایسی برمودا ٹرائی اینگل کی صورت اختیار کر لی ہے جس میں شہریوں کا مال , جان , عزت کُچھ محفوظ نہیں ہے. لوٹ روکنے والوں نے لوٹ مچائی ہوئی یے اور حصہ بقدر جثہ کے جنگلی قانون پر اہلِ اختیار کی خاموش مفاہمت ہے. یہاں پارلیمنٹ سپریم اور مقدس ہے, عدلیہ مقدس تر ہے اور انتظامیہ بشمول فوج مقدس گائے ہے. آئین ردی کاغذ کا ایک چیتھڑا ہے جس کے آرٹیکل چھ کو متعدد بار پامال کیا گیا اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگتے رہے. اعلٰی عدلیہ نے اپنی کمائی حلال کرنے کے لیے نظریہ ضرورت کابُت تراشا اور سجدے میں چلی گئی. مقننہ نے اپنی لوٹ کو جائز کرنے اور مزید لوٹ کے مواقع پیدا کرنے کے لیے قانون سازی کو سہارا بنایا. پاکستان کے وسائل کے گرد رقصِ ابلیس میں مشغول یہ استحصالی ٹولہ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی اور حفاظت کرتے ہوئےاپنی لوٹ مار میں مگن و محو ہے. جو لوگ اس کالے بھنور کو یہ سب نگلتے دیکھ لیتے ہیں وہ پاکستان سے زندہ بھاگ کا نعرہ لگاتے ہیں. بہرحال تغیر یعنی تبدیلی دنیا کا واحد غیر متغیر بھی ہے سو دیکھتے ہیں شیطانیت کا یہ راج اور کتنی دیر تک اندھیرے تقسیم کرتا ہے.
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
امریکہ کی ترقی کا راز وہاں کے لوگوں کا مہذب ہونا ہے. ساری انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتی کچھ لوگ غیر مہذب بھی ہونگے..
امریکہ کا اسلحہ بنا کر دوسرے ممالک کو بیچنا.
کسی بھی ملک کی ترقی کا راز مہذب ہونے میں نہیں۔ اپنی مقصد کے حصول میں پُر خلوص ہونے میں ہے۔ امریکہ کے علاوہ دیگرترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیجیے۔
دراصل امریکہ میں جس طبقہ کو امریکہ پر مکمل کنٹرول ہے وہ خود اپنے(غلط یاصحیح) اہداف سے دیانت داری برت رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے دوست ممالک کسی جانور کے قتل پر تو آسمان سر پر اُٹھا سکتے ہیں (بشرط یہ کہ قاتل مسلمان ہو) لیکن مسلمانوں کے قتل عام ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور یہ امریکہ کے برسراقتدار طبقہ اور آئین کی اُن شقوں ،جن میں تمام مذاہب کے افراد کو آزادی دی گئی ہے ، میں تضاد کا کھلا ثبوت ہے۔ اور یہ رویہ دیگر عیسائی اور سیکولر ممالک میں عام ہے۔
 
ٰخان صاحب، آپ سمیت وہ تمام دوست قابل عزت ہیں کہ ٰیہ سب کچھ پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔.

یہاں کنعان نے ایک اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی، ہم سب نے دیکھا کہ اس آئین کے اصول قرآن کریم کے اصولوں کہ ًمطابق ہیں۔ اس مشاہدے سے امریکہ ایک اسلامی ملک نہیں بن جاتا اور نا تھامس جیفرسن مسلمان۔ لیکن یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ ان اصولوں پر قائم ریاست کی ترقی کا راز کیا ہے۔

مزید یہ کہ امریکہ کا مکمل آئین، ریاستی ڈھانچہ، قانون ساز مجلس شوری، عدالتی نظام، حکومتی نظام اور الیکٹ کرنے کا طریقہ بھی قران حکیم کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق ہے۔ آپ خود یہ ریسرچ کرسکتے ہیں ، بس یہ ہے اس ریاست کی ترقی کا راز


افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کی کئی شق، قران حکیم کے اصولوں کے خلاف ہیں۔


ثبوت تھوڑا بعد
 

آصف اثر

معطل
پاکستانی سیاسی، بیوروکریسی اور آمر طبقہ آئین کا کس قدر مذاق اُڑارہے ہیں ذرا ذیل سے اندازہ لگائیےاور سر پیٹیے۔

آرٹیکل 62؍ میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے طور پرمنتخب ہونے کیلئے شرائط بتائی گئی ہیں۔
62(د) میں بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف کیلئے مشہور نہ ہو۔ (ہ) وہ اسلامی تعلقات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو۔ (و) وہ سمجھدار اور پارسا ہو اور فاسق نہ ہو اور ایماندار اور امین ہو ، کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہو، اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔
 
آخری تدوین:
ایک قانون ہے "رد عمل" کا کہ آپ جیسا کرتے ہو ویسا ہی اس کا رد عمل ہوتا یے.
زندگی میں کاروبار ہی کو لے لیں آپ کے اچھے اخلاق اور آپ جو چیز بتا کر بیچ رہے ہیں وہ حقیقت میں بھی وہی ہونی چاہیئے ہم الحمدلله مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ریاست جو "اسلام" کے نام پر بنی ہے جس کا آئین اسلامی ہے میں کوئی چیز خرید کر کبھی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہ سکتے کہ وہ ایک دو تین یا معیار کے حساب سے دس نمبر کی ہے. لیکن نام نہاد "کافر" ریاستوں میں صورت حال کم و بیش قرآن سنت وحدیث کے عین مطابق ہے...
 
دیکھیں بنیادی فرق اللہ کے قانون اور عوام کے قانون میں ہے
پاکستان کا آئین اس پر بنا ہے کہ قرآن کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا
عمل نہیں ہورہا یہ الگ بات ہے۔
دوسرے ممالک کے قوانین و آئین اس پر ہیں کہ عوام جس کو مناسب سمجھے گی وہ قانون بنے گا۔
اس لیے دنیا میں پاکستان وہ ملک ہے جس کا آئین اسلامی ہے
 
دیکھیں بنیادی فرق اللہ کے قانون اور عوام کے قانون میں ہے
پاکستان کا آئین اس پر بنا ہے کہ قرآن کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا
عمل نہیں ہورہا یہ الگ بات ہے۔
دوسرے ممالک کے قوانین و آئین اس پر ہیں کہ عوام جس کو مناسب سمجھے گی وہ قانون بنے گا۔
اس لیے دنیا میں پاکستان وہ ملک ہے جس کا آئین اسلامی ہے

ملا ٹولہ کی طرف سے عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ "اللہ کا قانون" اور "بندوں کا قانون" ۔ اس اعتراض کو عام طور پر لوگ بنا سوچے سمجھے، جوں کا توں داغ دیتے ہیں۔ آئیے آج اس اعتراض کی حقیقت دیکھتے ہیں

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آئین اور قانون میں فرق کیا ہے؟
آئین وہ اصول ہیں جن کی بنیاد پر قوانین بنائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سڑک پر کار کس طرف چالاءٰن ایک قانون ہے ، جو بندوں نے طے کرلیا ہے ۔ یہ قانون کس اصول کی مدد سے بنا ہے؟ پاکستان کے آئین میں ایک اصول ہے کہ تمام قوانین ، قرآن اور سنت کے عین مطابق ہونگے۔ تو قرآن حکیم کا ایک اصول اس آیت سے ثابت ہے کہ "اور وہ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں اور انکے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتےہے اور ہمارے دیے ہوئے میں سے کچھ دیا بھی کرتے ہیں" [42:38]

تو کیا بندے اپنے معاملے، اپنے فیصلے، اپنا قانون باہمی مشورے سے اپنے رب کا حکم ، اللہ کے فرمان ، قرآن حکیم کے سنہری اصولوں کے تحت بنا سکتے ہیں؟
جی بالکل ، جیسا کہ آپ نے فرمایا پاکستان کا آئین ، قرآن حکیم اور سنت کے سنہری اصولوں کے مطابق لکھا گیا ہے ، لیکن یہ فیصلے، یہ معاملات اور پھر اس کے تحت قوانیں، بندوں نے ہی بنائے ہیں۔ تو یہ کہنا کہ قوانین صرف بندوں نے بنائے ہیں، لہذا یہ اللہ تعالی کا قانون نہیں ، درست نہیں ہے۔ بلکہ درست یہ ہے کہ قرآن حکیم کے اصولوں کے اندر اندر، باہمی مشورے سے ہر معاملے کے لئے اصول بنایا جاسکتا ہے۔

قانون سازی کا بنیادی مقصد،
قانون سازی یا فتوی سازی کا بنیادی مقصد ہے بدی کی روک تھام اور نیکی کی ترویج، جس کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر جانا جاتا ہے۔

اللہ تعالی کا حکم ہے کہ مرد اور عورت دونوں قانون سازی یعنی نیکی کا حکم اور بدی کی روک تھام میں ایک دوسرے کے برابر کے رفیق و نگہبان ہیں۔
[9:71] اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں، وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

کافر کون ہیں؟
مذہب سے بالا تر ہو کر دیکھئے کہ کافر کون ہے؟ کافر کے معانی ہیں ریجیکٹ کرنے والا، ---- تو کیا ریجیکٹ کرنے والا؟ صرف اللہ تعالی کا قانون ؟ یا سارے معاشرتی قانون۔ آپ دیکھیں گے کہ ہر معاشرے میں جیلیں ہیں جہاں معاشرتی قوانین کو ریجیکٹ کرنے والے افراد کو ان کے تمام حقوق سے محروم کرکے بند کردیا جاتا ہے؟ چاہے چین ہو یا جاپان، امریکہ ہو ہا پاکستان، انڈیا ہو یا برطانیہ۔۔۔ جو بھی قانون کی تکفیر یعنی قانون کو ریجیکٹ کرتا ہے۔ اس کے تمام معاشرتی حقوق چھین لئے جاتے ہیں۔ نا وہ جاب کرسکتا ہے ، نا وہ کاروبار کرسکتا ہے ، نا وہ ادھار لے سکتا ہے ، یہ دوران قید اور قید کے بعد بھی جاری رہتا ہے ۔ کافروں کو معاشرے سے نکال باہرکرنے کا یہ عمل ساری دنیا میں بنا مذہبی قید کے جاری ہے۔ جب اسلام نہیں تھا تب بھی ریجیکٹ کرنے والے پائے جاتے تھے۔

اللہ تعالی کی حدود کیا ہیں؟
نا تو ہم اللہ تعالی سے زیادہ رحیم ہیں اور نا ہی اللہ تعالی سے زیادہ حکیم ۔ اس لئے اللہ تعالی نے کچھ ایسی سزائیں جن میں انسان حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ ان پر جرم کی اور جرم کی سز ا کی حد لگادی ہے اور ایک سے زیادہ بار یہ فرمایا ہے کہ "یہ اللہ تعالی کی حدود ہیں ، ان سے باہر نا جانا"
۔۔۔۔۔۔
میں یہ بات ان ڈیفینیشنز ( تعریفوں ) کے ساتھ نامکمل چھوڑ رہا ہوں تاکہ آپ میں سے کوئی اگر کچھ اعتراض کرنا چاہے تو یہاں تک کرلے۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ پاکستان کے آئین و قوانین میں کیا کچھ قرآنی اصولوں کے مطابق نہیں۔
 
بھائی
پاکستان کا آئین اسلامی ہے جو کہتا ہے قانون سازی قرآن و سنہ کے مطابق یوگی چاہے اکثریت اس کے خلاف چاہے۔ اصولآ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلامی ہے۔ اسلامی جہموریت۔
اس کے برخلاف دنیا کے جمہوری ممالک اکثریت کی رائے پر قانون سازی کرتے ہیں۔ یہ بنیادی فرق ہے
انسان عمومی طور پر اچھائی پر ہے مگر نفسی خواہشات کی بنا پر غلطی کرتا ہے۔ جیسے گے میرج۔ لہذا امریکہ کا ائین اسلامی نہیں
 

akhtar ali durrani

محفلین
امریکہ کی ترقی کا کوئی راز نہیں ہے- بس اسکی سر زمین کثیر ہے اور اسکی آبادی وافر۔ ان دونو سے بغیر کچھ نہیں بنتا- اس اصول کے مستثنیٰ بھی ہیں - جاپان، برطانیہ وغیرہ لیکن اصول درست ہے- آجکل کے شیر کون ہیں؟ چین، روس، بھارت، ترکی، جرمنی، برازل- ان سبوں کے پاس کافی آبادی اور بہت سی زمین-
 

Fawad -

محفلین
امریکہ اور اس کے دوست ممالک کسی جانور کے قتل پر تو آسمان سر پر اُٹھا سکتے ہیں (بشرط یہ کہ قاتل مسلمان ہو) لیکن مسلمانوں کے قتل عام ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کی دليل نا صرف يہ کہ ناقابل فہم ہے بلکہ حقائق کے بھی منافی ہے۔ آپ کا دعوی ہے کہ امريکی حکومت مسلمانوں کے قتل عام کو سرے سے کوئ اہميت ہی نہيں ديتی۔ تاہم اس ضمن ميں آپ اعداد وشمار کو بالکل نظرانداز کر رہے ہيں۔

سال 2011 ميں امريکی حکومت کے ايک ادارے کی رپورٹ شا‏ئع کی گئ جس ميں اس حقيقت کو واضح کيا گيا کہ دہشت گردی کے واقعات کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے بے گناہ شہريوں کی اکثريت يعنی کہ 82 سے 97 فيصد تک مسلمان ہيں۔

اس رپورٹ ميں پيش کيے جانے والے تفصيلی اعداد وشمار آّپ اس لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔

Country Reports on Terrorism 2011 National Counterterrorism Center: Annex of Statistical Information

جب امريکی حکومت سرکاری طور پر اس حقيقت کو تسليم بھی کر رہی ہے اور اس کو اجاگر بھی کر رہی ہے کہ عالمی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں ميں اکثريت مسلمانوں کی ہے تو پھر تو منطقی اعتبار سے آپ کے دعوے ميں اگر کوئ بھی صداقت ہوتی تو اس صورت ميں امريکی حکومت دہشت گردی کے عالمی عفريت کو نظرانداز کر رہی ہوتی۔ ليکن حقيقت تو يہ ہے کہ امريکی حکومت اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کے ليے اپنے بے شمار وسائل فراہم کر رہی ہے۔

امریکہ کا سخت ترين نقاد بھی اس حقيقت کو تسليم کرے گا کہ امريکہ عالمی دہشت گردی سے سدباب کے ليے ہر ممکن کاوش کر رہا ہے۔

امريکی کاوش کو درست تناظر ميں سمجھنے کے ليے داعش کے خلاف جاری کاوشوں ميں امريکی امداد کے حوالے سے کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔ ياد رہے کہ داعش ايک ايسی دہشت گرد تنظيم ہے جو پورے خطے ميں مسلمانوں کو نا صرف يہ کہ قتل کر رہی ہے بلکہ مسلمان ممالک کے ليے ايک مشترکہ خطرہ بن چکی ہے۔

فروری 28 2017 تک داعش کے خلاف جاری فوجی آپريشنز، جن کا آغاز اگست 8 2014 کو ہوا تھا، امريکی حکومت اب تک 9۔11 بلين ڈالرز خرچ کر چکی ہے اور قريب 936 دنوں پر محيط ان آپريشنز پر يوميہ 8۔12 ملين ڈالرز کی لاگت آ رہی ہے۔

Special Report: Inherent Resolve

چاہے وہ پاکستانی حکومت يا ان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے مختض کيے جانے والے بے شمار وسائل ہوں، جو پاکستانی شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنانے کے ليے فراہم کيے گئے۔ يا پھر افغانستان کے عام شہريوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ليے افغان حکومت کی مدد کے ليے فراہم کيے جانے وسائل ہوں، امريکہ سے زيادہ دنيا کے کسی اور ملک نے اپنا کردار ادا نہيں کيا ہے۔

اس بات کی ايک منطقی، قابل قبول اور عقل پر مبنی توجيہہ موجود ہے کہ عالمی برادری بشمول اسلامی ممالک اب اس بات پر متفق ہيں کہ ان قوتوں کے خلاف مشترکہ کاوشوں اور وسائل کا اشتراک وقت کی اہم ضرورت ہے جو نا تو سرحدوں کی حرمت کو مانتے ہيں، نا ہی متنوع ثقافتی اقدار کا پاس رکھتے ہيں۔ يہ دہشت گرد ديگر مذاہب کے ضمن ميں عدم رواداری کے ساتھ عمومی طورپر ہر اس عنصر کے خلاف نفرت کے جذبات رکھتے ہيں جو ان کی وحشيانہ طرز زندگی اور مخصوص مذہبی سوچ سے ميل نا کھاتا ہو اور اس ضمن ميں وہ دنيا بھر ميں مسلمانوں کی اکثريت کو بھی اسی پيرائے ميں ديکھتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 
Top