امریکہ جو میں نے دیکھا اور پڑھا

کعنان

محفلین
امریکہ جو میں نے دیکھا اور پڑھا
غلام غوث
03/01/2017

امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو زمین کے لحاظ سے ہندوستان سے تین گنا زیادہ ہے مگر آبادی کے لحاظ سے تین گنا کم ہے۔
امریکہ کی آبادی 38 کروڑ ہے جبکہ ہندوستان کی 125 کروڑ ۔
امریکہ استعمال کے لحاظ سے تین سو سال پرانا ملک ہے مگر آج بھی اس کی سر زمین کا 80 فیصد حصہ کنوارہ (Virgin) ہے اور اس کے وسائل اور معدنیات جیسے کے ویسے ہیں۔
امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکے دوسرے ممالک کے وسائل اور معدنیات پر قبضہ کر کے انھیں نچوڑ لے۔
اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ جب تک بادشاہ اور ڈکٹیٹرز ہیں وہ انہیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچا سکتا ہے۔ اس لیے وہ جمہوریت کا علمبردار ہو نے کے باوجود بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں سے قریب اور ان کا محافظ ہے جبکہ وہاں کے عوام امریکہ سے دوری برتتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے عوام امریکی حکومت سے نفرت کرتے ہیں مگر امریکی عوام سے محبت کرتے ہیں۔

انفرادی طور پر وہ جیسے بھی ہیں مگر اجتماعی طور پر وہ زیادہ ملنسار اور محبت بھرے لگتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر وہ ہمیشہ ہیلو اور ہائی کہتے ہیں اور ہمیشہ مسکرانا ان کی عادت لگتی ہے۔ بڑے بڑے، پانچ پانچ چھ چھ کمروں والے گھر ہوتے ہیں جن میں صرف دو یا چار آدمی رہتے ہیں۔غریب کم ہیں مگر پھر بھی ان کے گھر نہایت ہی خوبصورت اور پاک صاف ہو تے ہیں۔ راستے میں کہیں بھی کوئی ایک کاغذ کا ٹکڑا بھی نہیں ڈالتا بلکہ ہر چیز ہر جگہ موجود ڈبوں میں ڈالتے ہیں۔ ہر دو چار دکانوں کے قریب اور اندر کچرا ڈالنے کے ڈبے ہوتے ہیں۔ آپ کو وہاں کہیں بھی کچرا کوڑا نظر نہیں آئے گا۔ ہر گھر کو تین یا چار فیٹ اونچے ڈبے کچرا ڈالنے کے لیے دیے جاتے ہیں اور ہفتہ بھر کا کچرا اس میں ڈالا جاتا ہے اور ہفتہ میں ایک مقررہ دن صبح ایک گاڑی آتی ہے اور وہ کچرا لے جا تی ہے۔ ڈبہ مشین کے ذریعہ ڈریور اٹھا کر کچرا الٹ لیتا ہے اور پھر آگے بڑھ جا تا ہے۔

امریکہ کے سرکاری پرائمری اور مڈل اسکول ہمارے کالجوں سے بہتر ہیں اور بچوں کا ڈسپلن ایسا کہ آپ کو ایک بھی بچہ کلاس کے یا اسکول کے باہر آوارہ گردی کرتے نظر نہیں آتا۔ ہر بچے پر ہر وقت نگاہ رکھی جاتی ہے اور ہر ہفتہ بچے کی کارکردگی والدین کو انٹرنیٹ کے ذریعہ بتائی جاتی ہے۔ جب اسکول میں چھٹی ہوتی ہے تو ہر کلاس ٹیچر اپنی کلاس کے بچوں کو لے کر ملٹری انداز میں لائن بنا کر باہر آتی ہے اور سب ایک مخصوص جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ٹیچر اس وقت تک کھڑی رہتی ہے جب تک بچوں کے والدین آ کر انہیں نہیں لے جاتے۔ اگر کوئی والدین آنے میں دیر کرتے ہیں تو ان بچوں کو پرنسپل کے آفس میں بٹھایا جاتا ہے اور والدین کو فون کیا جا تا ہے۔ ہزاروں بچے ہوتے ہیں مگر کوئی شور شرابہ نہیں ہوتا۔ ہر بچہ جانے سے پہلے اپنے ٹیچر سے لپٹ جاتا ہے یا ہاتھ ملاتا ہے اور ٹیچر نہایت ہی شفقت سے ان بچوں سے ملتے ہیں۔ بچے ٹیچر سے ڈرتے نہیں بلکہ بہت ہی محبت سے ملتے ہیں جیسے وہ ایک دوسرے کے خاص دوست ہیں۔

میں جس جگہ آسٹن میں رہتا تھا، اسے گریٹ ہلز کہتے ہیں۔ وہاں جب صبح چہل قدمی کے لیے نکلتا تھا تو ہر جگہ ہرنوں کے جھنڈ نظر آتے تھے جو خاموشی کے ساتھ درختوں کے درمیان چرتے رہتے تھے۔ یہ ہرن مغرب سے لے کر صبح آٹھ بجے تک گھروں اور سڑکوں کے درمیان گھومتے نظر آتے ہیں مگر کوئی ان سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا۔ سال دو سال میں ایک مرتبہ جب ان کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے تب حکومت انہیں آٹھ دن یا دو مہینے تک مارنے کی اجازت دے دیتی ہے اور کچھ شکاری انہیں بندوقوں یا تیروں کے ذریعہ مارتے ہیں۔ جب بھی کوئی لائسنس والا مارتا ہے تو وہ اپنے لائسنس میں جگہ اور وقت اور جانور کی نشاندہی لکھتا ہے، اور حکام تک پہنچاتا ہے۔ کبھی کبھی ہرنوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ میکسیکو سے ماہر بندوقچی بلائے جاتے ہیں اور ہر ہرن مارنے پر دس ڈالر دیے جاتے ہیں۔ 90 فیصد امریکیوں کے گھروں میں کتے ہوتے ہیں اور ہر کتے کے گلے میں زنجیر ہوتی ہے۔ راستوں پر یا کہیں بھی ایک بھی آوارہ کتا آپ کو نظر نہیں آتا۔ جب بھی کوئی کتا نظر آتا ہے تو اس کا مالک اسے زنجیر سے پکڑے نظر آتا ہے۔ میں نے اپنے چالیس مہینوں کے وقفہ وقفہ کے قیام کے دوران ایک بھی آوارہ کتا نہیں دیکھا۔

ہمارے ملکوں میں جس طرح ہم انسانوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں وہاں اس سے زیادہ جانوروں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ انہیں ہر سال ڈاکٹروں سے معائنہ کرایا جاتا ہے، انجکشن دیے جاتے ہیں اور نہلایا دھلایا جاتا ہے۔ جب مالک کہیں سفر پر جاتے ہیں تو ان کتوں اور دیگر جانوروں کو پانچ ستارے والے ہوٹلوں میں رکھا جاتا ہے اور ان کی اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کتا یا بلی جب مرتے ہیں تو ان کا جسم خاص جگہ دفنانے کے لیے مخصوس کمپنیاں ہیں اور خرچ بہت زیادہ آتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی کتا کسی کو کاٹ لیتا ہے یا ڈرا دیتا ہے تو انشورنس کمپنی اس شخص کو ہزاروں ڈالر معاوضہ دیتی ہے۔ مزاحیہ طور پر کہا جا تا ہے کہ کچھ لوگ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی کتا ان پر جھپٹ پڑے اور انہیں معاوضہ مل جائے۔ اگر اس طرح کا معاوضہ ہندوستان میں لاگو کر دیا گیا تو کوئی بھی آوارہ کتے نہیں پالے گا۔ یہاں بھی ویسا ہی انشورنس شروع کر دینا چاہیے۔

ہر کوئی اپنے گھر خود ہی صاف کر لیتے ہیں مگر کچھ لوگ ہر ہفتہ یا پندرہ دن میں ایک مرتبہ زیادہ تر میکسیکن عورتوں سے گھروں کی صفائی کروا لیتے ہیں۔ وہ عورت چمچماتی کار میں صبح آتی ہے اور تین چار گھنٹے گھر صاف کرنے کے بعد چلی جاتی ہے۔ چونکہ گھر کے تمام افراد آفس یا اسکول جا کر رہتے ہیں، اس لیے وہ عورت مخصوص جگہ پر رکھی ہوئی کنجی اٹھاتی ہے اور گھر کھول کر صفائی کر نے کے بعد کنجی وہیں رکھ کر چلی جاتی ہے۔ ایماندار اتنی کہ آپ کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی گھر کے اندر گم ہو جاتی ہے تو وہ انہیں اٹھا کر میز پر رکھ دیتی ہے۔ انہیں ہر ماہ دو یا تین سو ڈالر دیے جاتے ہیں (اٹھارہ ہزار روپے)۔ اس طرح یہ صاف صفائی کر نے والے ہر مہینہ قریبا چار ہزار ڈالر (دو لاکھ روپیے) کما لیتے ہیں۔ ان کا زیادہ روپیہ شراب، گوشت اور دیگر چیزوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں قریبا دس فیصد شہری (زیادہ تر میکسیکن) غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور وہی کم معاوضے پر کام کر تے ہیں۔

پانی، بجلی، گیس، فریج، واشنگ میشین وغیرہ کی چھوٹی موٹی رپیری یہی لوگ کرتے ہیں۔ آج کل کچھ کمپنیاں نظر آ رہی ہیں جو ایسے کام کروا رہی ہیں اور تنخواہ پر ملازموں کو رکھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی فریج یا واشنگ میشین خراب ہوتی ہے تو اسے صرف چھونے کے لیے ایک سو ڈالر اور پرزے وغیرہ ڈالنے کے لیے الگ سے ڈالر دینے پڑتے ہیں جبکہ نیا فریج چار یا پانچ سو ڈالر میں مل جاتا ہے۔ اس لیے ایسے فریج مفت میں دے دیے جاتے ہیں یا وہی رپیر کرنے والے سو ڈالر دے کر خرید لیتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جب وہاں جاتے ہیں تو ہم اپاہج سے ہو کر رہ جا تے ہیں کیونکہ بڑے بڑے محل نما گھروں میں صبح کے آٹھ سے مغرب کے پانچ یا چھ تک ہمیں وہاں اکیلے ٹی وی دیکھنا یا کتابیں پڑھتے گزارنا پڑتا ہے کیونکہ سب اسکول یا آفس چلے جاتے ہیں۔ باہر نکلو تو میلوں کوئی نظر نہیں آتا، بس کاریں دوڑتی رہتی ہیں۔ اگر گھر مارکیٹ یا بس اسٹینڈ سے قریب ہے تو اور بات ہے۔ اگر ہم پڑھنے کے شوقین ہیں تو ہمیں آفس جاتے ہوئے لائبریری میں اتار دیا جا تا ہے اور دوپہر واپس آ تے ہوئے پک اپ کر لیا جا تا ہے۔ ہر شہر میں چار یا پانچ سرکاری اور دو یا تین غیر سرکاری لائبریریاں ہوتی ہیں جہاں دس یا بیس کمپیوٹر اور لاکھوں کتابیں اور سرکاری دستاویزات ہو تی ہیں۔ ہر سبجکٹ پر دو سے تین سو کتابیں، سی ڈی اور ڈی وی ڈی ہوتی ہیں۔ ہر دن نئی نئی کتابیں مخصوس شیلف پر رکھی ہوئی ملتی ہیں۔ ہر شخص اپنے اور اپنے بچوں کے لئے اکیس دنوں کے لئے کتابیں اور ڈی وی ڈی لے کر جا تا ہے۔ ہر لائبریری ایک یا دو ایکڑ زمین پر بنائی جاتی ہے۔

میرے اکثر مضامین انہیں کتابوں، رسالوں اور سرکاری دستاویزوں کا نچوڑ ہیں، جسے ہندوستان میں نہایت ہی دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ میری گزارش ہے کہ ہمارے علماء حضرات انہیں زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور معلومات میں اضافہ کریں۔ میرا زیادہ سے زیادہ وقت سیر و تفریح کے بجائے مطالعہ اور بحث مباحثے میں اور معلومات اکھٹے کر نے میں گزرتا ہے ۔

ح
 
غلام غوث صاحب اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے,
بے حد معلومات افزا اور چشم کشا تحریر،مختصر اور جچے تلے الفاظ، کام کی باتیں،جتنی باتیں اتنے الفاظ،ہم ہندوستانی اور پاکستانی امریکہ اور امریکی تہذیب پر تنقید کرتے نہیں تھکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں کی بے شمار باتیں ہمیں پیغام عمل دیتی ہیں۔
مسلم قوم کو حقیقت شناس اور حقیقت پسند ہونا چاہئے،مفید حکمتیں اور نفع بخش اصول زندگی جہاں سے ملے انھیں لینا چاہئے اور اپنی تہذیب وثقافت کی تعمیر میں ان سے استفادہ کرنا چاہئے،اسی میں عروج اقوام کا راز پوشیدہ ہے۔
بہت شکریہ
 
آخری تدوین:
Top