امتِ مسلمہ میں شرک

معاشرے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ : ’’ مسلمان جو چاہیں کریں شرک سے بچے رہیں گے ‘‘ ۔ لوگ نیکی سمجھ کر قبروں پر ماتھا ٹیکتے ، ملنگوں کے پاؤں چومتے ، درباروں پر مجاور بن کر بیٹھتے اور غیر اﷲ سے مدد طلب کرتے ہیں ۔ کیونکہ انہیں سبق پڑھایا گیا ہے کہ : ’’ مسلم امہ میں شرک نہیں ہو گا ‘‘ ۔ جبکہ قرآن و حدیث اور ائمہ دین کے اقوال سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ : ’’ مسلمان بھی پہلی قوموں کی طرح شرک کریں گے ۔ ‘‘

کتاب اﷲ میں ہے کہ اکثر لوگ ایمان لانے کے با وجود بھی مشرک ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ : ان میں سے اکثر لوگ باوجود اﷲ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ‘‘ ، (یوسف : ۱۰۶ ) ۔ عصر رواں کے قبر پرستوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ اﷲ پر ایمان تو لاتے ہیں لیکن مدد کے لیے قبروں میں مدفون بزرگوں کو بھی پکارتے ہیں ۔

آئیے ! ہم اس مسئلے کا فیصلہ احادیث مصطفی ﷺ سے کروا لیتے ہیں ۔ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جاملیں گے ‘‘ ، (ابن ماجہ :۳۹۵۲ ) ۔سیدنا ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا (فرشتہ )آیا ۔ اس نے مجھے خوشخبری دی کہ میری امت سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہوتو وہ جنت میں جائے گا ‘‘ ، (بخاری : ۱۲۳۷ ) ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے ، ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ’’ان شاء اﷲ‘‘ ، میری امت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا ‘‘ ، (مسلم:۴۹۱) ۔ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ۔۔۔اے ابن آدم ! اگر تو روئے زمین کے برابر بھی گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ تو میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں روئے زمین کے برابر ہی تجھے مغفرت عطا کر دوں گا‘‘ ، (ترمذی : ۳۳۱۰) ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اسلام لائے پھر شرک کرے اسلام کے بعد اﷲ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے یہاں تک کہ شرک کرنے والوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں شامل ہوجائے ‘‘ ، (ابنِ ماجہ :۲۵۳۶ ) ۔ اور سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے ، جب سورۃ الانعام کی یہ آیت اتری جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں گناہوں (ظلم ) کی آمیزش نہیں کی ، تو آپ ﷺ کے اصحاب نے کہا یا رسول اﷲ ! ﷺ یہ تو بہت ہی مشکل ہے ۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ (ظلم ) نہیں کیا ۔ تب ا ﷲ پاک نے سورۃ لقمان کی یہ آیت اتاری ’’ ان الشرک لظلم عظیم ‘‘ ، کہ بیشک شرک بڑا ظلم ہے ‘‘ ، (بخاری :۳۲) ۔نبی پاک ﷺ سے کثیر التعداد احادیث مروی ہیں جن سے واضح ہے کہ : ’’ مسلمان بھی شرک کریں گئے ۔ ‘‘

سلف صالحین کا بھی عقیدہ یہی ہے کہ : ’’ مسلمان مشرک ہو سکتے ہیں ‘‘ ۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ جو لوگ انبیا ؑ اور نیک لوگوں کی قبور کی زیارت کرنے آتے ہیں اور انہیں پکارنے اور ان سے سوال کرنے کی غرض سے آتے ہیں یا اس لیے آتے ہیں کہ ان کی عبادت کریں اور انہیں اﷲ کے علاوہ پکاریں تو ایسے لوگ مشرک ہیں ‘‘ ، (الرد علی الاخنائی :۵۲ ) ، (کلمہ گو مشرک ، ص : ۹۲ )۔ امام مالک ؒ کے دور میں بھی مسلمانوں کے بہت سے فرقے ہوچکے تھے ، اس وقت کے قدریہ ، جو تقدیر کے منکر تھے جب ان کے ساتھ شادی کے بارے میں امام مالک ؒ سے پوچھا گیا تو انہوں نے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی : ’’ ایمان والا غلام ، آزاد مشرک سے بہتر ہے ، گو مشرک تمہیں اچھا لگے ‘‘ ، (البقرۃ : ۲۲۱) ، (کلمہ گو مشرک ، ص : ۹۱ )۔ ائمہ و محدثین ؒ کے فتاویٰ جات سے نمایاں ( Clear) ہے کہ مسلمانوں میں بھی مشرک ہیں ۔

میرے ذہن میں مولانا الطاف حسین حالی ؒ کے وہ اشعار ہتھوڑے کی طرح ٹکرا رہے ہیں جن میں وہ فرماتے ہیں :
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دُعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اِسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں
وہ بدلہ گیا آکے ہندوستان میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوگا اور میں تمھیں ایک ایسی دعا بتاتا ہوں کہ اگر تم اسے پڑھتے رہے تو اﷲ تعالیٰ تم سے چھوٹے بڑے شرک کو دور کردے گا ۔ تم یہ دعا پڑھنا : اللّھمّ انّی أعوذبؤ أن أشرأ بأ وأنا أعلم ، وأستغفرأ لما لا أعلم ‘‘ ، (صحیح الجامع للالبانی : ۳۷۳۱ ) (زاد الخطیب ، جلد : ۲ ، صفحہ : ۵۱ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ :’’ تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوگا‘‘ ، مسلمان سمجھتے ہیں امت مسلمہ جو چاہیے کرے شرک کی مرتکب ہی نہیں ہو سکتی ۔ہم لوگ جو زنا کرے اسے بدکار ، جو چوری کرے اسے چور ، جو جھگڑا کرے اور لڑاکا اور جو ہلاک کرے اسے قاتل کہتے ہیں ؟ جب کوئی شرک کرے تو کہتے ہو نیک اعمال کرنے والا یا مسلمان مشرک نہیں ہو سکتا ۔

سماج ( Society ) میں لوگ دن بہ دن توحید و سنت سے دوراور شرک و بدعت سے تعلق جوڑ رہے ہیں کیونکہ وہ کتاب و سنت کا علم حاصل ہی نہیں کرتے ۔ عوام الناس ، اﷲ تعالیٰ کی ذات ، صفات اور عبادات میں غیروں کو شریک ، اجر عظیم سمجھ کر کرتے ہیں ۔ جبکہ اﷲ پاک فرماتے ہیں کہ : ’’ یقیناًاﷲ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا ‘‘ ، ( النساء : ۴۸ ) ۔
 
جمہور مفسِّرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازِل ہوئی جو اللہ تعالٰی کی خالقیت و رزاقیت کا اقرار کرنے کے ساتھ بُت پرستی کر کے غیروں کو عبادت میں اس کا شریک کرتے تھے ۔
اب آپ اپنی علمیت ثابت کریں اور اس آیت کا شانِ نزول بیان کریں۔
 
ابن ماجہ اور بخاری کی حديث بهی آپ سن لیں: ما أخاف بعدي أن تشركوا ... میں تم پر شرک کا خوف نہیں کرتا
رہی آیت کی بات تو آپ اس طرح کوئی بھی آیت کہیں بهی چسپاں نہ کریں آیت مشرکین کے بارے میں وارد ہوئی جو اس بات کا تو اقرار کرتے ہیں کہ زمین آسمان ک خالق اللہ ہے مگر دوسرے بتوں کی پرستش بهی کرتے تھے یہ تفسیر میری نہیں ابن کثیر ، طبری سمیت سبهی اسلاف کی ہے. ..
مسلمانوں کے باب میں اللہ سے ڈریے خامیاں ہوں تو اصلاح ضروری مگر کفر و شرک بڑی بات ہے
 
آخری تدوین:

آبی ٹوکول

محفلین
بقول امام بخاری علیہ رحمہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ خارجیوں کو بد ترین مخلوق سمجھتے تھے کیونکہ خوارج مشرکین کی مذمت میں اتاری گئی آیات کا محل مسلمانوں کو قرار دیتے تھے ۔ویسےسوچنے والی بات ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کہ وقت جو کہ خیر القرون تھا اور صحابہ اور تابعین کا دور تھا وہ کون لوگ تھے اور آخر وہ ایسے کیا اعمال کرتے تھے کہ جن پر خوارج کو ان پر شرک کہ" فتوٰے ٹھوکنے "کی ضرورت پیش آئی ؟؟؟
ویسے سوچنے والی بات تو یہ بھی ہے کہ سورہ یوسف کی آیت نمبر 106 جو یہاں مسلمانوں کو مشرک ثابت کرنے کے لیے "خوارج "کی طرح کوٹ کی گئی ہے یہ جب اتری تھی تو اس وقت صحابہ میں سے کون کونسے ایسے مسلمان تھے جو کہ مومن ہوکر بھی معاذاللہ شرک کرتے تھے ؟؟؟ ہے کوئی اللہ کا بندہ کہ جو اس آیت کا شان نزول اور حقیقی مصداق و محل بتلائے؟؟ ہیں جی؟؟؟؟
 
آخری تدوین:
علوم القرآن والتفسير کا چهوٹا سا طالب علم ہونے کی وجہ سے کئی تفاسیر نظر سے گزری ہیں.
نقلی، عقلی، بلاغی ، اعجازی ، تحلیلی، موضوعي، فقہی، ماثورة، معقولہ، حديث قدیم سبهی طرز کی تفاسیر اٹھائیں آیت کا یہ معنی کسی تفسیر میں نہیں پائیں گے، اور اگر یہ معنی اجتہادی ہے تو قرآن کی تفسیر کے لیے پندرہ علوم ضروری ہیں جیسا کہ امام سیوطی اور دیگر علما نے بتایا ہے تو کیا آپ کو اتنے علوم پر دسترس ہے ؟؟ نہیں تو پھر یہ تقول علی اللہ بغیر علم ہے .
امید ہے سنجیدگی سے لیں گے
 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کی قسم ! مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے ‘‘ ۔
اس حدیث کا من مانی اور آ زادانہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا ۔ بلکہ اس حدیث کا مفہوم اس جیسی دوسری احادیث کی روشنی میں لیا جائے گا ۔ اور دیکھا جائے گا کہ قدیم شارحین حدیث نے اس حدیث کا کیا مطلب لیا ہے ۔ امت محمدیہ ﷺ شرک پروف نہیں ہے اور نہ شیطان نے مسلمانوں کو مشرک بنانے کا کام چھوڑ دیا ہے ۔
مشہور شارح بخاری ، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
’’ یقیناًرسول اللہ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے اصحاب شرک نہیں کریں گے ۔ پس اسی طرح ہوا کہ کسی بھی صحابیؓ سے شرک و بدعت سرزد نہیں ہوئے ‘‘ ، ( فتح الباری ، ج : ۶، ص : ۶۱۴ ) ۔
ایک اور مقام پر شارح بخاری حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں :
’’ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کہ مجھے تمہارے متعلق شرک کا اندیشہ نہیں کا معنیٰ ہے کہ تم مجموعی طور پر مشرک نہیں ہو گے ۔ لہذا امت مسلمہ میں سے بعض ( افراد و قبائل ) کی طرف سے شرک کا وقوع ہوا ہے ‘‘ ، ( فتح الباری ، ج : ۶ ، ص : ۶۱۴ ) ۔
باقی تفصیل میں اوپر بیان کر چکا ہوں ۔
سورۃ یوسف کی آیت نمبر ۱۰۶ کی تفسیر :
’’ یہ وہ حقیقت ہے جسے قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ متعدد جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ مشرکین یہ تو مانتے ہیں کہ آسمان و زمین کا خالق ، مالک ، رازق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود عبادت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھہرا لیتے ہیں اور یوں اکثر لوگ مشرک ہیں ۔ یعنی ہر دور میں لوگ توحید ربوبیت کے تو قائل رہے ہیں لیکن توحید الوہیت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ آج کے قبر پرستوں کا شرک بھی یہی ہے کہ وہ قبروں میں مدفون بزرگوں کو صفات الوہیت کا حامل سمجھ کر انہیں مدد کے لیے پکارتے بھی ہیں اور عبادت کے کئی مراسم بھی ان کے لیے بجا لاتے ہیں ۔ أَ عَا ذَ نَا اللہُ مِنْہُ، (تفسیر احسن البیان) ‘‘
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ
قرآن الکریم کا اہتمام مسلمان کرتے ہیں اللہ نے جو کارگزاریاں، انبیاء علیہ السلام کے زمانے اور انکے بارہ میں جو کچھ فرمایا وہ سب مسلمانوں کی یادھانی ہے مسجدوں میں مسلمان ہی نماز پڑتے ہیں اور جو بھی پڑھا جاتا ہے اسکو مسلمان باادب سنتا ہے یہ آیتیں انسانوں کے لئے اتری ہیں جو انکو مانتا ہے ا ور عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کرتا ہے اس کو مسلمان کہتے ہیں مسجدوں میں جاکر فرض نمازوں میں اور اکیلے میں گھر میں نوافل پڑھتے ہوئے اللہ پاک سے سے معافی مانگنا ، گناہوں میں شرمندہ ہونا، ماضی کی بھول چوک کی معافی کے لئے رونا، اپنے لئے مانگنا دوسروں کے لئے مانگنا یہ سب طریقہ مسلمانوں کا ہے اس کے علاوہ مجھے اور طریق کا نہیں پتا ہے
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم معزز قارئین کرام !
فتنوں کا دور ہے اور یہ فتنے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام کے دور سے ہی شروع ہوگئے تھے امام بخاری علیہ رحمہ نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ وہ خارجیوں کو کائنات کی بدترین مخلوق گردانتے تھے کیونکہ وہ خارجی کفار کہ حق میں وارد شدہ آیات کو پڑھ پڑھ کر مومنین پر چسپاں کیا کرتے تھے ۔۔
وہ خارجی اپنے زعم میں توحید پرست اوراپنی توحید کو صحابہ کرام کی توحید سے بھی کامل و اکمل اور فائق سمجھنے والے تھے اور یوں وہ توحید کہ اصل اور حقیقی ٹھیکدار بننے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ اور ایک طبقہ آج کہ دور کا ہے ، جسکا بھی بعینیہ وہی دعوٰی ہے کہ سوائے انکے کوئی موحد و مومن ہی نہیں ۔لہذا اس طبقہ کو اورکوئی کام ہی نہیں سوائے اس کے یہ بھی قرآن اور حدیث کو فقط اس لیے کھنگالتے ہیں کہ کہیں سے انکو امت مسلمہ کہ جمہور پر کفر و شرک کا حکم لگانے کی کوئی سبیل میسر آجائے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
معزز قارئین کرام کیا آپ نے کبھی ہلکا سا بھی تدبر فرمایا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا قول پر ؟؟؟ اگر فرمایا ہے تو آپ پر صاف ظاہر ہوجائے گا کہ اُس وقت کہ نام نہاد توحید پرست خارجی کس قدر دیدہ دلیر تھے کہ وہ اپنی توحید میں خود کو صحابہ کرام سے بھی بڑھ کرسمجھتے تھے تبھی تو وہ اسلام کے خیر القرون کے دور کے صحابہ اور تابعین مسلمانوں پر شرک کہ فتوے لگاتے تھے قارئین کرام کیا آپ " امیجن " کرسکتے ہیں کہ اسلام کہ ابتدائی دور میں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ بہترین جماعت یعنی صحابہ کرام موجود ہوں اور پھر انھی کے شاگرد یعنی تابعین کرام کا طبقہ بھی موجود ہو جو کہ براہ راست صحابہ کرام سے فیض حاصل کررہا ہو اور چند نام نہاد توحید پرستوں کا ٹولہ اٹھے اور توحید کے پرچار کے زعم میں اس پاکیزہ جماعت پرکفر و شرک کے بے جا فتوے لگانا شروع کردے آپ ان کی دیدہ دلیری دیکھیئے ہٹ دھرمی اور جرات کو دیکھیئے اور سر دھنیے انکی توحید پرستی پر۔
اب اتے ہیں اصل مدعا پر دیکھا گیا ہے کہ انٹرنیٹ پر اسی طبقہ کی اکثریت سورہ یوسف کی آیت نمبرایک سو چھ کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے اور یوں زمانہ خیر القرون کے خارجیوں کی طرح یہ آیت جگہ جگہ نقل کرکے آج کہ دور کے مومنین پر چسپاں کرتے ہوئے انھے کافر و مشرک قرار دینے میں دھڑا دھڑ مصروف عمل ہے لہذا یہ لوگ اس کام کو کچھ اس دلجمعی اور سرعت سے انجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا کار ثواب ہو ۔
تو آئیے معزز قارئین کرام اس آیت سے انکے باطل استدلال کی قلعی کھولیں اور جو مغالطہ دیا جاتا ہے اس کا پردہ چاک کریں لیکن اس سے بھی پہلے ایک بدیہی قاعدہ جان لیں کہ عربی کا مشھور مقولہ ہے کہ ۔۔۔۔
"الاشیاء تعرف باضدادھا " یعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں اور ایک قاعدہ یہ بھی ہے اجتماع ضدین محال ہے یعنی دو ایسی اشیاء جو کہ ایک دوسرے کی ضد ہوں انکا بیک وقت کلی طورپر کسی ایک جگہ پایا جانا ناممکن ہے یعنی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی شخص ایک ہی وقت میں حقیقی مومن و مسلم بھی ہو اور مشرک و کافر بھی ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ اسلام اور کفر ضد ہیں اور توحید اور شرک آپس میں ضد ہیں اور ایک شخص مسلم تب بنتا ہے جبکہ وہ توحید پر ایمان لے آئے یعنی اللہ کی واحدانیت پر۔ لہذا جب کوئی اللہ کی واحدانیت پر ایمان لے آئے تو تبھی وہ حقیقی مومن ہوگا اور وہ ایک حالت یعنی حالت توحید میں ہوگا اب اسے بیک وقت مومن بھی کہنا اور مشرک بھی کہنا چہ معنی دارد؟؟؟ یا تو وہ مسلم ہوگا یا پھر مشرک دونوں میں کسی ایک حالت پر اسکا ایمان ہوگا اور ایمان معاملہ ہے اصلا دل سے ماننے کا اور یقین رکھنے کا اور پھر اسکے بعد اس کا بڑا رکن ہے زبان سے اقرار ۔
خیر یہ تو تمہید تھی بات کو سمجھانے کی، اب آتے ہیں سورہ یوسف کی مذکورہ بالا آیت کی طرف ۔۔۔
معزز قارئین کرام اگر اپ سورہ یوسف کی اس آیت کو نمحض نظم قرآن ہی کی روشنی میں دیکھ لیں تومعاملہ آپ پر بالکل واضح ہوجائے گا کہ اس آیت کا حقیقی مصداق اس دور کے مشرکین و منافقین ہیں لیکن خیر اگر آپ نظم قرآن سے استدلال نہیں بھی کرنا چاہتے تو پھر بھلے چاہےکوئی سی بھی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں تقریبا تمام مفسرین نے یہ تصریح کی ہے یہ آیت مشرکین کی بابت نازل ہوئی لہذا ہم بجائے تمام مفسرین کو نقل کرنے کہ فقط اسی ٹولہ کہ ممدوح مفسر یعنی امام حافظ ابن کثیر علیہ رحمہ کی تفسیر نقل کرتے ہیں جو کہ شیخ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ہیں۔ لہذا وہ اسی آیت کہ زیر تحت رقم طراز ہیں :
وقوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِٱللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } قال ابن عباس: من إِيمانهم أنهم إِذا قيل لهم: من خلق السموات، ومن خلق الأرض، ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد وعطاء وعكرمة والشعبي وقتادة والضحاك وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وفي الصحيحين: أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكاً هو لك، تملكه وما ملك. وفي صحيح مسلم: أنهم كانوا إِذا قالوا: لبيك لا شريك لك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد قد " أي: حسب حسب، لا تزيدوا على هذا.
مفھوم : آپ دیکھیئے معزز قارئین کرام کہ امام ابن کثیر نے پہلے اس آیت کی تفسیر میں قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ انکا یعنی مشرکین کا ایمان یہ تھا کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان اور پہاڑ کس نے پیدا کیئے ہیں تو وہ کہتے کہ اللہ نے مگر اس کے باوجود وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھراتے۔اور اسی طرح کا قول مجاہد ،عطا،عکرمہ ،شعبی،قتادہ ،ضحاک اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم سے بھی ہے ۔
جبکہ صحیحین میں روایت ہے کہ : مشرکین مکہ حج کہ تلبیہ میں یہ پڑھتے تھے کہ میں حاضر ہوں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک بنایا اور تو اسکا بھی مالک ہے اور صحیح مسلم میں مزید یہ ہے کہ جب مشرک ایسا کہتے تو یعنی کہ لبیک لا شریک لک تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے کہ بس بس ،بس اسی قدر کافی ہے اس کہ آگے مت کہو ۔۔۔

معزز قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ اس آیت کا اصل " بیک گراؤنڈ " کیا تھا اور یہ کیونکر اور کن کے بارے میں نازل ہوئی ؟ تمام مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کہ شان نزول میں مشرکین کہ تلبیہ والا واقعہ نقل کرکے اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ کی اکثریت سمیت منافقین مدینہ کی اقلیت بھی تھی کہ جو کہ اس آیت کا حقیقی مصداق بنے، کہ وہی لوگ اس وقت اکثریت میں تھے نہ کہ مسلمان جیسا کہ خود آیت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مشرک ہے تو اس وقت جن لوگوں کی اکثریت تھی وہ مشرکین مکہ اور منافقین تھے نہ کہ اس وقت کہ حقیقی مسلمان جو کہ صحابہ کرام تھے معاذاللہ اگر آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرستوں کہ کلیہ کہ مطابق اس آیت کا اطلاق کیا جائے تو یہ تہمت اور بہتان سیدھا جاکر صحابہ کرام پر وارد ہوتا ہے کہ آخر اس وقت کون لوگ تھے جو ایمان والے تھے ؟؟؟ ظاہر ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت صحابہ کرام ہی ایمان والے تھے مگر کیا اس آیت کی رو سے صحابہ کرام کی اکثریت مشرکوں کی تھی نعوذباللہ من ذالک نہیں نہیں ایسا ہرگز نہ تھا بلکہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ یہ آیت درحقیقت مشرکین مکہ اور منافقین کی مذمت میں نازل ہوئی جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کہ مقابلہ میں اکثریت میں تھے۔
اب آتے ہیں ایک بدیہی سوال کی طرف اگر اس آیت کا مصداق اس وقت کہ حقیقی مومنین یعنی صحابہ کرام نہیں تھے تو اس آیت میں جو لفظ ایمان شرک کی تقیید کے ساتھ آیا ہے اسکا مطلب کیا ہے ؟؟؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں جو لفظ ایمان آیا ہے وہ اپنے حقیقی یعنی شرعی معنٰی میں نہیں ہے بلکہ لغوی معنٰی میں بطور صور و عرف کے استعمال ہوا ہے ۔ وہ اس لیے کہ مشرکین و منافقین اللہ پاک کی خالقیت و رزاقیت " مدبریت " پر تو جزوی طور پر یقین رکھتے تھے لہذا انکے اسی جزوی یقین پر انکو اللہ پاک پر لغوی طور پر ایمان رکھنے والا کہا گیا ہے جو کہ محض صوری اعتبار سے ہے نہ کہ شرعی اور حقیقی اعتبار سے۔
اب وہ لوگ چونکہ اللہ کی خالقیت اور رزاقیت اور مالکیت اور ربوبیت کا اقرارتو کرتے تھے مگر اس اقرار کے حقیقی تقاضے یعنی اکیلے اللہ کی معبودیت کا اعتراف نہیں کرتے تھے اس لیے اس آیت میں لفظ ایمان و کو شرک کی تقیید کے ساتھ بطور نتیجہ و حال کے ذکر کردیا گیا ہے۔اور ہماری اس بات پر گواہی ہے صحیحین کی وہ روایت کہ جس میں حج و عمرہ کے موقع پر مشرکین کا تلبیہ بیان ہوا ہے ۔۔وهكذا في الصحيحين أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكًا هو لك، تملكه وما ملك. وفي الصحيح: أنهم كانوا إذا قالوا: "لبيك لا شريك لك" يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: "قَدْ قَدْ"، أي حَسْبُ حَسْبُ، لا تزيدوا على هذا ۔۔۔۔
یعنی مشرکین اپنے تلبیہ میں اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا الزام بھی نعوذباللہ من ذالک
اللہ کی ذات پر دھرتے تھے اور کہا کرتے تھے " کہ تیرا کوئی شریک نہیں اور جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ شریک ہمارے لیے تو نے خود بنایا ہے لہذا ہم اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ تیرے بنانے سے تیرا شریک ہے اور توہی اس کا بھی مالک ہے "۔
جب کہ آج کہ دور میں کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی غیر اللہ کسی نبی ولی یا نیک شخص کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ہی زبان سے یہ کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر فلاں نبی یا ولی تیرے خاص شریک ہیں کہ تو انکا مالک بھی ہے اور تونے انھے ہمارے لیے اپنا شریک خود بنایا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم ۔۔۔والسلام
 
آخری تدوین:

آبی ٹوکول

محفلین
تفسيرقول الله تعالى:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } 106: يوسف
قال الإمام الطبري –رحمه الله- في تفسيرها:القول في تأويل قوله تعالى :{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }
قال أبو جعفر: يقول تعالى ذكره: وما يُقِرُّ أكثر هؤلاء = الذين وصَفَ عز وجل صفتهم بقوله وكأين من آية في السموات والأرض يمرُّون عليها وهم عنها معرضون ) = بالله أنه خالقه ورازقه وخالق كل شيء =( إلا وهم مشركون )، في عبادتهم الأوثان والأصنام ، واتخاذهم من دونه أربابًا ، وزعمهم أنَّ له ولدًا ، تعالى الله عما يقولون.
* * *
وبنحو الذي قلنا في ذلك قال أهل التأويل .
* ذكر من قال ذلك:
حدثنا ابن وكيع ، قال: حدثنا عمران بن عيينة ، عن عطاء بن السائب ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس وما يؤمن أكثرهم بالله ) الآية ، قال: من إيمانهم، إذا قيل لهم: مَن خلق السماء؟ ومن خلق الأرض؟ ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله . وهم مشركون.
حدثنا هناد ، قال: حدثنا أبو الأحوص ، عن سماك ، عن عكرمة ، في قوله وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون ) ، قال: تسألهم: مَن خلقهم؟ ومن خلق السماوات والأرض ، فيقولون: الله . فذلك إيمانهم بالله ، وهم يعبدون غيره.
حدثنا أبو كريب ، قال: حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن جابر ، عن عامر، وعكرمة وما يؤمن أكثرهم بالله ) الآية ، قالا يعلمون أنه ربُّهم ، وأنه خلقهم ، وهم يشركون به.قال ابن كثير-رحمه الله- في تفسيره للآية:وقوله:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }قال ابن عباس: من إيمانهم، إذا قيل لهم: من خلق السموات؟ ومن خلق الأرض؟ ومن خلق الجبال؟ قالوا: "الله"، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد، وعطاء وعكرمة، والشعبي، وقتادة، والضحاك، وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم.
وهكذا في الصحيحين (2) أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكًا هو لك، تملكه وما ملك. وفي الصحيح: أنهم كانوا إذا قالوا: "لبيك لا شريك لك" يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: "قَدْ قَدْ"، أي حَسْبُ حَسْبُ، لا تزيدوا على هذا (3) .
وقال الله تعالى: { إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ } [لقمان: 13] وهذا هو الشرك الأعظم الذي يعبد مع الله غيره، كما في الصحيحين. عن ابن مسعود قلت: يا رسول الله، أيّ الذنب أعظم؟ قال
: "أن تجعل لله ندا وهو خَلَقَك" (4) .
وقال الحسن البصري في قوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } قال: ذلك المنافق يعمل إذا عمل رياء الناس، وهو مشرك بعمله ذاك، يعني قوله تعالى: { إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلا قَلِيلا } [النساء: 142].
وثمَّ شرك آخر خفي لا يشعر به غالبًا فاعله، كما روى حماد بن سلمة، عن عاصم بن أبي النَّجُود، عن عُرْوَة قال: دخل حذيفة على مريض، فرأى في عضده سيرًا فقطعه -أو: انتزعه -ثم قال:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }
قال العلامة السعدي –رحمه الله-في تفسير الآية:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } فهم وإن أقروا بربوبية الله تعالى، وأنه الخالق الرازق المدبر لجميع الأمور، فإنهم يشركون في ألوهية الله وتوحيده، فهؤلاء الذين وصلوا إلى هذه الحال لم يبق عليهم إلا أن يحل بهم العذاب، ويفجأهم العقاب وهم آمنون، ولهذا قال:
{ أَفَأَمِنُوا } أي: الفاعلون لتلك الأفعال، المعرضون عن آيات الله { أَنْ تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ } أي: عذاب يغشاهم ويعمهم ويستأصلهم، { أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً } أي: فجأة { وَهُمْ لا يَشْعُرُونَ } أي: فإنهم قد استوجبوا لذلك، فليتوبوا إلى الله، ويتركوا ما يكون سببا في عقابهم.وقال العلامة الشنقيطي-رحمه الله- في تفسير الآية:
قال ابن عباس ، والحسن ، ومجاهد ، وعامر والشعبي ، وأكثر المفسرين : إن معنى هذه الآية أن أكثر الناس ، وهم الكفار ما كانوا يؤمنون بالله بتوحيدهم له في ربوبيته إلا وهم مشركون به غيره في عبادته .
فالمراد بإيمانهم اعترافهم بأنه ربهم الذي هو خالقهم ومدبر شؤونهم ، والمراد بشركهم عبادتهم غيره معه ، والآيات الدالة على هذا المعنىكثيرة جداً ، كقوله : { قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السمآء والأرض أَمَّن يَمْلِكُ السمع والأبصار وَمَن يُخْرِجُ الحي مِنَ الميت وَيُخْرِجُ الميت مِنَ الحي وَمَن يُدَبِّرُ الأمر فَسَيَقُولُونَ الله فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ } [ يونس : 31 ] ، وكقوله : { وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ الله فأنى يُؤْفَكُونَ } [ الزخرف : 87 ] ، وقوله : { وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السماوات والأرض لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ العزيز العليم } [ الزخرف : 9 ] ، وقوله : { وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السماوات والأرض وَسَخَّرَ الشمس والقمر لَيَقُولُنَّ الله فأنى يُؤْفَكُونَ } [ العنكبوت : 61 ] ، وقوله { وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّن نَّزَّلَ مِنَ السمآء مَآءً فَأَحْيَا بِهِ الأرض مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ الله قُلِ الحمد لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ } [ العنكبوت : 63 ] ، وقوله { قُل لِّمَنِ الأرض وَمَن فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ قُلْ مَن رَّبُّ السماوات السبع وَرَبُّ العرش العظيم سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجْيِرُ وَلاَ يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فأنى تُسْحَرُونَ } [ المؤمنون : 84 - 89 ] إلى غير ذلك من الآيات .
ومع هذا فإنهم قالوا : { أَجَعَلَ الآلهة إلها وَاحِداً إِنَّ هذا لَشَيْءٌ عُجَابٌ } [ ص : 5 ] .
وهذه الآيات القرآنية تدل على ان توحيد الربوبية لا ينقذ من الكفر إلا إذا كان معه توحيد العبادة ، أي عبادة الله وحده لا شريك له ، ويدل لذلك قوله تعالى : { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بالله إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } .
وفي هذه الآية الكريمة إشكال : وهو أن المقرر في علم البلاغة أن الحال قيد لعاملها وصف لصاحبها وعليه . فإن عامل هذه الجلمة الحالية الذي هو يؤمن مقيد بها ، فيصير المعنى تقييد إيمانهم بكونهم مشركين ، وهو مشكل لما بين الإيمان والشرك من المنافاة .

قال مقيدة - عفا الله عنه :
لم ار من شفى الغليل في هذا الإشكال ، والذي يظهر لي - والله تعالى أعلم - أن هذا الإيمان المقيد بحال الشرك إنما هو إيمان لغوي لا شرعي . لأن من يعبد مع الله غيره لا يصدق عليه اسم الإيمان ألبتة شرعاً . أما الإيمان اللغوي فهو يشمل كل تصديق ، فتصديق الكافر بأن الله هو الخالق الرزاق يصدق عليه اسم الإيمان لغة مع كفره بالله ، ولا يصدق عليه اسم الإيمان شرعاً .
وإذا حققت ذلك علمت أن الإيمان اللغوي يجامع الشرك فلا إشكال في تقييده به ، وكذلك الإسلام الموجود دون الإيمان في قوله تعالى : { قُل لَّمْ تُؤْمِنُواْ ولكن قولوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإيمان فِي قُلُوبِكُمْ } [ الحجرات : 14 ] فهو الإسلام اللغوي . لأن الإسلام الشرعي لا يوجد ممن لم يدخل الإيمان في قلبه ، والعلم عند الله تعالى .

وقال بعض العلماء : « نزلت آية { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بالله إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ }في قوله الكفار في تلبيتهم : لبيك لا شريك لك إلا شريكاً هو لك تملكه وما ملك » وهو راجع إلى ما ذكرنا .كلام نفيس لشيخ الاسلام ابن تيمية-رحمه الله-:فَإِنْ اعْتَرَفَ الْعَبْدُ أَنَّ اللَّهَ رَبُّهُ وَخَالِقُهُ ؛ وَأَنَّهُ مُفْتَقِرٌ إلَيْهِ مُحْتَاجٌ إلَيْهِ عَرَفَ الْعُبُودِيَّةَ الْمُتَعَلِّقَةَ بِرُبُوبِيَّةِ اللَّهِ وَهَذَا الْعَبْدُ يَسْأَلُ رَبَّهُ فَيَتَضَرَّعُ إلَيْهِ وَيَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ لَكِنْ قَدْ يُطِيعُ أَمْرَهُ ؛ وَقَدْ يَعْصِيهِ وَقَدْ يَعْبُدُهُ مَعَ ذَلِكَ ؛ وَقَدْ يَعْبُدُ الشَّيْطَانَ وَالْأَصْنَامَ . وَمِثْلُ هَذِهِ الْعُبُودِيَّةِ لَا تُفَرِّقُ بَيْنَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَلَا يَصِيرُ بِهَا الرَّجُلُ مُؤْمِنًا . كَمَا قَالَ تَعَالَى : { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } فَإِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا يُقِرُّونَ أَنَّ اللَّهَ خَالِقُهُمْ وَرَازِقُهُمْ وَهُمْ يَعْبُدُونَ غَيْرَهُ قَالَ تَعَالَى : { وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ } وَقَالَ تَعَالَى : { قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ } { سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ } إلَى قَوْلِهِ : { قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ } وَكَثِيرٌ مِمَّنْ يَتَكَلَّمُ فِي الْحَقِيقَةِ وَيَشْهَدُهَا يَشْهَدُ هَذِهِ الْحَقِيقَةَ وَهِيَ " الْحَقِيقَةُ الْكَوْنِيَّةُ " الَّتِي يَشْتَرِكُ فِيهَا وَفِي شُهُودِهَا وَمَعْرِفَتِهَا الْمُؤْمِنُ وَالْكَافِرُ وَالْبَرُّ وَالْفَاجِرُ وَإِبْلِيسُ مُعْتَرِفٌ بِهَذِهِ الْحَقِيقَةِ ؛ وَأَهْلُ النَّارِ .

ربط
 
آیت کی مقبول ترین تفسیریں@آبی ٹوکول محترم نے بیان کی. ان سے استفادہ کریں کسی بنگالی یا ہندوستانی کی تفسیر جو فرقہ پسندی کی افیون کے عادی ہیں مبتلا رہتے ہیں انہیں چھوڑیں.
ابن کثیر طبری ابی السعود ابن عطیہ ابن حیان آلوسی ان سب کی تفاسیر کا مطالعہ کریں
ایسے تو میں فریق مخالف کی تفسیریں بیان کر سکتا ہوں مگر نہیں تعالوا إلى كلمة سواء بيننا. ..
بهائی ایک بار پھر سنجیدگی سے کام لیجیے گا میں آپ سے کلمہ توحید کی بنا پر محبت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ کسی معنی خیز نتیجہ پر پہونچے جہاں کم سے کم شرک شرک کا غوغا نہ ہو
 
جو بھائی قرآن و حدیث کو تسلیم کر لے وہ مشرک نہیں ہے ۔ میں کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ سے کچھ دلیلیں دے رہا ہوں امید ہے آپ تسلیم کر لیں گے ۔
تمام انبیا ء ؑ بشر تھے
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ۔ (ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ‘‘ ، (الکھف : ۱۱۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اﷲ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا ؟ ، آپ (ﷺ ) کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۹۴ تا ۹۵ ) ۔ کتابُ اﷲ کی بہت زیادہ آیات سے واضع ہے کہ تمام انبیاء ؑ بشر تھے ، مثلاََ : ’’ (البقرۃ : ۱۵۱ ) ، (الانعام : ۵۰ ) ، (الاعراف : ۶۹ ) ، (یوسف : ۱۰۹ ) ، (ابراہیم : ۱۰ تا ۱۱ ) ، (النحل : ۴۳ ) ، (الحجر : ۳۲ تا ۳۳ ) اور (بنی اسرائیل : ۹۳ ) ‘‘ ۔
عقیدہ وحدت الوجود کا رد
اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ دوسرے مقام پر فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہو ا ، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (کام ) ایک ایسے دن میں اس (اﷲ ) کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ‘‘ ، (السّجدۃ : ۴ تا۵) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون ما ےؤمرون : وہ (یعنی فرشتے ) اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ، ڈرتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ‘‘ ، (النحل : ۵۰ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اور یہ ذکر (قرآن ) ہم نے آپ (ﷺ ) کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو کھول کھول کر بیان کردیں کہ ان کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غورو فکر کریں ‘‘ ، (النحل : ۴۴ ) ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اﷲ پاک ہی کی ساری عزت ہے (یعنی عزت دینے والا وہی ہے ) ، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے ، جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت تر عذاب ہے ، اور ان کا یہ مکربرباد ہو جائے گا ‘‘ ، (الفاطر : ۱۰ ) ۔ اور فرمایا : ’’ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‘‘ ، (الملک : ۱۶ ) ۔ عقیدہ وحدت الوجود قرآن مجید کی کئی اور آیات کے بھی خلاف ہے ، مثال کے طور پر : ’’ (الاعراف : ۵۴ ) ،(یونس : ۳ ) ، (الرعد : ۲ ) ، (الفرقان : ۵۹ ) ، (الحدید : ۴ ) ، (الملک : ۱۷ ) ، (المعارج : ۱ تا ۴ ) ، ( المؤمن : ۳۶ تا ۳۷ ) اور (النحل : ۶۴ ) ‘‘ ۔
غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سا منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے ۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ‘‘ ، ( الانعام : ۵۰ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان سب نے کہا اے اﷲ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۳۲ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اﷲ کے کوئی غیب نہیں جانتا ، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے ؟ ‘‘ ، ( النمل : ۶۵ ) ۔
قرآن مجید کی بہت زیادہ آیات سے یہ واضح ہے کہ غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ (البقرۃ : ۳۰ ) ، ( النساء : ۱۱۳ ) ، ( المائدۃ : ۱۰۹ ) ، ( المائدۃ : ۱۱۶) ، ( الانعام : ۵۹) ، ( الاعراف : ۲۲ ) ، ( الاعراف : ۱۸۷ ) ، ( التوبۃ : ۱۰۱ ) ، ( یونس : ۲۰ ) ، ( ھود : ۳۱ ) ، ( ھود : ۴۶ تا ۴۷ ) ، ( ھود : ۴۹ ) ، ( ھود :۱۲۳ ) ، ( ابراہیم : ۹ ) ، ( الحجر : ۵۳ تا ۵۵ ) ، (النحل : ۲۰ تا ۲۱ ) ، ( الکھف : ۱۹) ، ( الکھف : ۲۳ تا ۲۶ ) ، ( مریم : ۸ ) ، ( مریم : ۲۰ ) ، ( الانبیاء : ۱۰۹ ) ، ( النمل : ۱۰) ، ( النمل : ۲۰ تا ۲۲ ) ، ( لقمان : ۳۴ ) ، ( الاحزاب : ۶۳ ) ، ( ص : ۲۱ تا ۲۲ ) ( الاحقاف : ۹ ) ، ( الجن : ۲۵ تا ۲۶ )اور ( الملک : ۲۵ تا ۲۶ ) ۔ ‘‘
عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ : ’’ جو شخص کہے کہ نبی کریم ﷺ آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ جھوٹا ہے ‘‘ ۔ اس کے لیے انہوں نے آیت : ’’ و ما تدری نفس ما ذا تکسب غدا یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا ، کی تلاوت فرمائی ‘‘ ( بخاری : ۴۸۵۵ ) ۔ ام العلاء انصاریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ واﷲ ! مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ۔ حالانکہ میں اﷲ کا رسول ہوں ‘‘ ، ( بخاری : ۱۲۴۳ ) ۔ ربیع بنت معوذ ؓ سے روایت ہے کہ : ’’ میری شادی کی صبح رسول اﷲ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت دو ( کم سن ) بچیاں میرے پاس گیت گا رہی تھیں اور میرے آباء کا تذکرہ کر رہی تھیں جو بدر میں شہید ہوئے اور گانے گانے میں وہ یہ بھی گانے لگیں ’’ اور ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل ( آئندہ ) کی بات جانتے ہیں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ بات مت کہو اس لئے کہ کل کی بات اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۱۸۹۷ ) ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کسی نجومی یا کاہن ( غیبی خبریں دینے والے ) کے پاس جائے اور جو کچھ وہ کہتا ہے اسے سچا سمجھے تو وہ ( حضرت ) محمد ﷺ پر اترے دین کا انکاری ہو گا ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : کتاب الایمان ) ۔
اﷲ کے سوا کوئی مختار کل نہیں
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اے پیغبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں اﷲ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ‘‘ ، ( آل عمران : ۱۲۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان کے لیے تو استغفار کر یا نہ کر اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اﷲ انہیں ہر گز نہ بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے اﷲ سے اور اس کے رسول ﷺ سے کفر کیا ہے ۔ ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا ‘‘ ، ( التوبہ : ۸۰ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان دار نہ ہوں گے ‘‘ ، ( یوسف : ۱۰۳ ) ۔ پانچویں مقام پر ہے : ’’ اور تم جن لوگوں کی اﷲ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ( یعنی پکارتے ) ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۹۷ ) ۔ مزید پڑھیئے : ’’ (البقرۃ : ۲۷۲ ) ، ( المائدہ : ۴۰ تا ۴۱ ) ، ( یونس : ۱۵ تا ۱۶ ) ، ( یونس : ۴۹ ) ، ( الحج : ۷۳ تا ۷۴ ) ، ( الرعد : ۳۸ ) ، ( بنی اسرائیل : ۵۶ تا ۵۷ ) ، ( الکہف : ۶ ) ، ( النجم : ۵۸ ) اور ( الزمر : ۱۹ ) ‘‘ ۔
جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اﷲ ﷺ ان کے پاس آئے ، ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے ۔ نبی کرئم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ چچا ! آپ صرف کلمہ لا الہ الا اﷲ، پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اﷲ کی بار گاہ میں آپ کی شفاعت کروں ۔ اس پر ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے ؟ نبی کریم ﷺ بار بار ان سے یہی کہتے رہے ( کہ آپ صرف کلمہ پڑھ لیں ) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے بار بار دہراتے رہے ۔ آخر ابو طالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں ۔ انہوں نے ’’ لا الہ الا اﷲ‘‘ ، پڑھنے سے انکار کر دیا ‘‘ ۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ اﷲ کی قسم ! میں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تا آنکہ (Unless) مجھے اس سے روک نہ دیا جائے ‘‘ ۔پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ’’ ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ‘‘ ، نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں ۔اور خاص ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم ﷺ سے کہا گیا : ’’ انک لا تھدی من احببت و لکن اﷲ یھدی من یشاء ‘‘ ، کہ جس کو آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دیتا ہے ، ( بخاری : ۴۷۷۲ ) ۔
مشکل کشا و حاجت روا صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے
اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا مالک اﷲ ہی ہے اور اﷲ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مدد گار نہیں ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۰۷ ) ۔ اور فرمایا : ’’ اور اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو مت پکارو جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے ۔ پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔ اور اگر تم کو اﷲ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں ‘‘ ، ( یونس : ۱۰۶ تا ۱۰۷ ) ۔ ایک اور جگہ فرمایا : ’’ اسی ( اﷲ تعالیٰ ) کو پکارنا حق ہے ۔ جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی پکار کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں ، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۴ ) ۔ مزید فرمایا : ’’ آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار کون ہے ؟ کہہ دیجیے اﷲ ۔ کہہ دیجئے ! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خور اپنی جان کے بھی بھلے ، برے کاا ختیار نہیں رکھتے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۶ ) ۔
رزق و اولاد دینے اور تقدیر بدلنے والا اﷲ کے علاوہ کوئی نہیں
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ کہہ دیجئے ! کہ میرا رب جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی کر دیتا ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ، ( سبا : ۳۶ ) ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو ، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں ۔ یقیناًان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے ‘‘ ، ( بنی اسرائیل : ۳۱ ) ۔
جن کو اﷲ اولاد دے پھر وہ دوسروں کو اﷲ کا شریک کرے ، ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ اﷲ پاک ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کی طرف مائل ہو کر راحت حاصل کرے پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا ۔ سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی ، پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں میاں بیوی اﷲ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے ۔ سو جب اﷲ نے دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اﷲ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اﷲ کے شریک قرار دینے لگے ، سو اﷲ پاک ہے ان کے شرک سے ۔ کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں ۔ اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وہ خود اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے ۔ اور اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا تم خاموش رہو ۔ واقعی تم اﷲ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو ۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں ، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں ، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں آپ کہہ دیجئے ! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو ، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو ۔یقیناًمیرا مدد گار اﷲ تعالیٰ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ اور تم جن لوگوں کو اﷲ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ۔ اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۹ تا ۱۹۸ ) ۔
قیام ، رکوع اور سجدہ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص درمیان والی نماز ( عصر ) کی اور اﷲ تعالیٰ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۳۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف ، قیام ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ‘‘ ، ( الحج : ۲۶ )۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے لئے رسول اﷲ ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ اسے برا مانتے تھے ‘‘ ، ( ترمذی : ۲۵۵۸ ) ۔ دوسری حدیث میں ہے ، سیدنا معاویہؓ روایت کرتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا : ’’ جسے لوگوں کا اس کے سامنے تصویروں کی طرح ( بے حس و حرکت اور با ادب ) کھڑے رہنا پسند ہو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ تلاش کر لے ‘‘ ، ( ترمذی : ۲۵۵۹ ) ۔
رکوع و سجود کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اے ایمان والو ! رکوع کرو ، سجدہ کرو اور عبادت کرو اپنے پروردگار کی اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ‘‘ ، ( الحج : ۷۷ ) ۔ اور الرحمن فرماتے ہیں : ’’ تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اﷲ کو کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے ، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے تو ‘‘ ، ( حم السجدۃ : ۳۷ ) ۔
سیدنا قیس بن سعدؓ کہتے ہیں کہ میں حیرہ ( یمن کا شہر ) آیا ، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا : ’’ رسول اﷲ ﷺ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے ‘‘ ۔ میں جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ : ’’ میں حیرہ شہر کے لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اﷲ کے رسول ! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ بتاؤ ! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے ، تو اسے بھی سجدہ کرو گے ؟ ‘‘ میں نے کہا : ’’ نہیں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ پھر اب بھی مجھے سجدہ نہ کرو ، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر خاوندوں کا بڑا حق رکھا ہے ‘‘ ، (ابو داؤد : ۲۱۴۰ ) ۔
قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا ( یعنی اعتکاف ) یا طواف کرنا جائز نہیں
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام )اور اسماعیل ( علیہ السلام ) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۲۵ ) ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف ، قیام ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ‘‘ ، ( الحج : ۲۶ )۔
سیدنا ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ اگر کوئی انگارے پر بیٹھے اور اس کے کپڑے جل جائیں اور اس کی کھال تک آگ پہنج جائے توبھی بہتر ہے اس سے کہ قبر پر بیٹھے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۲۴۸ ) ۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ نے منع فرمایا اس سے کہ قبروں کو پختہ کریں اور اس سے کہ اس پر بیٹھیں اور اس سے کہ ان پر گنبد بنائیں ‘‘ ، ( مسلم : ۲۲۴۵ ) ۔ اور سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ قیامت نہ قائم ہوگی یہاں تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کی پیٹھیں ذی الخلصہ کے گرد طواف نہ کرنے لگیں ۔ ذوالخلصہ ایک بت تھا جس کو دوس جاہلیت کے زمانہ میں تبالہ میں پوجا کرتے تھے ‘‘ ، ( مسلم : ۷۲۹۸ ) ۔انکل ! میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ، بلال ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے بولا ۔
اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام کا جانور ذبح کرنا ، چڑھاوا چڑھانا، نذرو نیاز دینا اور منت ماننا بھی شرک ہے ۔
اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ تم پر مردہ اور ( بہا ہوا ) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے نام کر دی جائے ، حرام ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۷۳ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جو اﷲ کے نام پر ذبح نہ کیے گئے ہوں اور یہ کام نا فرمانی کا ہے اور یقیناًشیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناًتم مشرک ہو جاؤ گے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۲۱ )۔
حضرت طارق بن شہابؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایک آدمی صرف مکھی کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور دوسرا جہنم میں ‘‘ ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! وہ کیسے ؟ ‘‘ ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ دو آدمی ایک قبیلے کے پاس سے گزرے ، اس قبیلے کا ایک بت تھا جس پر چڑھاوا چڑھائے بغیر کوئی آدمی وہاں سے نہیں گزر سکتا تھا‘‘ ۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص سے کہا گیا کہ : ’’ اس بت پر چڑھاوا چڑھاؤ ‘‘ ۔ اس نے کہا کہ : ’’ میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں‘‘ ۔ قبیلے کے لوگوں نے کہا : ’’ تمہیں چڑھاوا ضرور چڑھانا ہو گا خواہ مکھی ہی پکڑ کر چڑھا�ؤ ‘‘۔ مسافر نے مکھی پکڑی اور بت کی نذر کر دی لوگوں نے اسے جانے دیا اور وہ جہنم میں داخل ہو گیا ۔ قبیلے کے لوگوں نے دوسرے آدمی سے کہا : ’’ تم بھی کوئی چیز بت کی نذر کرو ‘‘ ۔ اس نے کہا : ’’ میں اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کا چڑھاوا نہیں چڑھاؤں گا ‘‘ ۔ لوگوں نے اسے قتل کر دیا ’’ وہ جنت میں چلا گیا ‘‘ ( احمد ) ، (Kitab At-Tauhid,CHAPTER:10 ) ۔
امیر المومنین حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اﷲ لعنت کرے اس پر جو لعنت کرے اپنے باپ پر اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو جانور ذبح کرے اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لیے اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو پناہ دے کسی بدعتی کو اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو زمین کی حدیں تبدیل کرے ‘‘ ، ( مسلم : ۵۱۲۴ ) ۔
ممنوع اور مشروع وسیلہ
اﷲ پاک ، قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ’’ اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘ ، ( المومن : ۶۰ ) ۔ اور الرحمن مزید فرماتے ہیں : ’’ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کھبی وہ مجھے پکارے ، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں ، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۶ ) ۔
نبی پاک ﷺ کے دور کے مشرک بھی یہی کہتے تھے کہ ہم بزرگوں کے بت بنا کر عبادت نہیں کرتے بلکہ یہ اﷲ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ اور یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے (پکارتے ) ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اﷲ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اﷲ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اﷲ تعالیٰ کو معلوم نہیں ( یعنی اﷲ کو تو اس بات کا علم نہیں کہ اس کی بارگاہ میں کوئی سفارشی بھی ہے ؟ ) ، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ، وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے ‘‘ ، ( یونس : ۱۸ ) ۔ اور اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ خبردار ! اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے خالص عبادت کرنا اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں ( اور کہتے ہیں ) کہ ہم ان کی عبادت ( پکارا ) صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ( بزرگ ) اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں ، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ اﷲ کرے گا ۔ جھوٹے اور ناشکرے ( لوگوں ) کو اﷲ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا ‘‘ ، ( الزمر : ۳ ) ۔
اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش بھی نہیں کر سکتا ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ کیا ان لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوا ( اوروں کو ) سفارشی مقرر کر رکھا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے ! کہ گو وہ کچھ اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں ‘‘ ، ( الزمر : ۴۳ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا ، تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی مدد گار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ‘‘ ، ( السجدۃ : ۴ ) ۔ اور تیسرے مقام پر ہے : ’’ وہ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب وماہتاب ( Sun and Moon) کو اسی نے کام میں لگا دیا ہے ۔ ہرا یک میعاد معین پر چل رہا ہے ۔ یہی ہے اﷲ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے ۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔ اگر تم ان ( سفارشیوں ) کو پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر ( بالفرض ) سن بھی لیں تو دعا و التجا کو قبول نہ کرسکیں گے اور روز قیامت تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر دیں گے ۔ آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ‘‘ ، ( فاطر : ۱۳ تا ۱۴ ) ۔
مشروع وسیلہ کی تین قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم : ’’ اﷲ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات کا وسیلہ ‘‘ ۔ دوسری قسم : ’’ مومن کا اﷲ پاک سے اپنے اعمال صالحہ کے ذریعے وسیلہ ‘‘ ۔ تیسری قسم : ’’ کسی زندہ مومن بھائی کی دعا کے ذریعے وسیلہ ۔ ‘‘
اﷲ تعالیٰ کے پیارے ناموں کے وسیلہ سے دعا کی جائے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور اﷲ کے اچھے اچھے نام ہیں ، سو ان ناموں سے اس کو پکارو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اے میرے پروردگار ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے اور مجھے اپنی رحمت کے وسیلے سے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما ‘‘ ، ( النمل : ۱۹ ) ۔
عمل صالح کا وسیلہ بھی قرآن سے ثابت ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ جو لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لا چکے اس لئے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ‘‘ ، ( العمران : ۱۶ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اے ہمارے پالنے والے معبود ! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول (ﷺ ) کی اتباع کی ، پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے ‘‘ ، ( العمران : ۵۳ ) ۔ اور تیسرے مقام پر ہے : ’’ اے ہمارے رب ! ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا با آواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا ہے کہ لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ ، پس ہم ایمان لائے ۔ یا الٰہی ! اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر ‘‘ ، ( العمران : ۱۹۳ ) ۔
کسی زندہ نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ بھی جائز ہے ۔ جب رسول اﷲ ﷺ زندہ تھے ، اس وقت مسلمان نبی پاک ﷺ کو دعا کا کہا کرتے تھے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے بھی امت سے اپنے لئے دعا مانگنے کی درخواست کی تھی ۔ مثلاََ : سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ’’ جب مؤذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو موذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اس کے بعد اﷲ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہے جو اﷲ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا اور جو کوئی میرے لیے ( اﷲ سے ) وسیلہ طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی ‘‘ ، ( مسلم : ۸۴۹ ) ۔
تعویذ ، چھلہ ، منکا ، زنجیر یا کڑا وغیرہ پہننا اور کار یا مکان و دوکان پر جوتی یا کالی ہنڈیا لٹکانا شرک ہے
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور اگر تجھ کو اﷲ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔ اور اگر تجھ کو اﷲ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۷ ) ۔
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ بنی کریم ﷺ نے ایک مرد کے ہاتھ میں پیتل کا چھلا دیکھا تو فرمایا : ’’ یہ چھلا کیسا ہے ؟ ‘‘ کہنے لگا : ’’ یہ واھنہ ( بیماری ) کے لئے ہے ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اسے اتار دو کیونکہ اس سے تمہارے اند ر وہن اور کمزوری ہی بڑھے گی ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۳۵۳۱ ) ۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں ، میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ دم ، تعویذ اور ٹونا سب شرک ہے ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۳۵۳۰ ) ۔ حضرت عقبہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ( دس آدمیوں کا ) ایک وفد حاضر ہوا ، رسول اﷲ ﷺ نے ان میں سے نو آدمیوں سے بیعت لی اور ایک سے ہاتھ روک لیا ، انہوں نے پوچھا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! آپ نے نو کو بیعت کر لیا اور اس شخص کو چھوڑ دیا ؟ ‘‘ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ اس نے تعویذ پہن رکھا ہے ‘‘ ۔ یہ سن کر اس نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس تعویذ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور نبی کریم ﷺ نے اس سے بھی بیعت لے لی اور فرمایا : ’’ جو شخص تعویذ لٹکاتا ہے وہ شرک کرتا ہے ‘‘ ، ( مسند احمد : ۱۷۵۵۸ ) ۔
ریا کاری شرک ہے
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ پھر تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ، جو ریا کاری کرتے ہیں اور ضرورت کی چیزیں ( لوگوں کو ) دینے سے گریز کرتے ہیں ‘‘ ، ( الماعون : ۴ تا ۷ ) ۔
ایک طویل حدیث ہے جس میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا ۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لیے سجدہ کرتے تھے ، وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی ‘‘ ، ( بخاری : ۷۴۳۹ ) ۔ سیدنا جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جو شہرت کا طالب ہو اﷲ تعالیٰ اس کی بد نیتی قیامت کے دن سب کو سنا دے گا ۔ اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اﷲ بھی قیامت کے دن اس کو سب لوگوں کو دکھلا دے گا ‘‘ ، ( بخاری : ۶۴۹۹ ) ۔
نماز ترک کرنا شرک اور کفر ہے
اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ ( لوگو ! ) اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز کو قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ ‘‘ ، ( الروم : ۳۱ ) ۔ اور الرحمن فرماتے ہیں : ’’ پس اگر وہ ( یعنی مشرکین ) توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو ۔ یقیناًاﷲ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ‘‘ ، ( التوبۃ : ۵ ) ۔
سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ آدمی اور کفر و شرک کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۴۷ ) ۔ حضرت بریدۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہمارے اور ان ( منافقین ) کے درمیان عہد ( یعنی ان سے لڑائی سے مانع ) نماز ہے ( جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں گے ہم ان کو مسلمان سمجھ کر اہل اسلام کا سا معاملہ کریں گے ) پس جو نماز کو چھوڑ دے تو وہ یقیناً( ظاہری طور پر بھی ) کافر ہو گیا ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۱۰۷۹ ) ۔
امید ہے آپ سنجیدگی سے کام لیں گے ۔
 
سوال دیگر جواب دیگر
بات چل رہی ہے کفر و شرک کی یلغار پر آپ وحدت الوجود اور نہ جانے کہاں کہاں ج رہے ہیں
ہر ہر موضوع ایک مستقل بحث کا حامل ہے
اچها بتائیں حديث پاک میں ہے کہ سباب المسلم فسوق و قتاله كفر صحیح حديث ہے مطلب مومن سے قتال کفر
اور قرآن میں ہے وإن طائفتن من المؤمنين اقتتلوا
اگر دو مسلمان گروہ قتال کر بیٹھیں تو بتائیں جب قتال کیا تو کافر ہونے چاہئے نا پهر قرآن کیوں کہہ رہا ہے کہ مومنین کے دو گروہ. ... ؟؟؟؟؟
شرک کے أقسام ہوتے ہیں ریاکار کو آپ مشرک نہیں کہہ سکتے ہیں ہر شرک کا مطلب اللہ کی ذات صفات میں شریک ٹهرانا نہیں ہے
 
فاروق احمد بھٹی صاحب ، آپ کیوں غیر متفق ہیں ؟
قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِ قِیْنَ:ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ‘‘ ، ( البقرۃ : 111) ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
عجب مضحکہ خیزی ہے اس تھریڈ میں ، یعنی عنوان تو یہ سجایا گیا کہ " امت مسلمہ میں شرک " اورپھر خود ساختہ دلائل دیتے ہوئے سب سے پہلے ایک مفروضہ گھڑا گیا کہ لوگوں کا دعوٰی ہے کہ امت مسلمہ میں ہرگز شرک کا وقوع نہیں ہوسکتا ، حالانکہ یہ کسی بھی مکتب فکر کے مستند عالم دین کا دعوٰی ہرگز نہیں ہے۔ اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ خود اپنے ہی" گھڑنتو نام نہاد مفروضہ نما " دعوٰی کو ثابت کرنے کے لیے جو سب سے پہلی دلیل محل استدلال میں پیش فرمائی وہ سورہ یوسف کی آیت نمبر 106 تھی کہ جسکو اولا تو نظم قرآن کے خلاف نقل کیا پھر سیاق و سباق اور شان نزول سے ہٹ کر ایک مخصوص دعوٰی کی شکل میں پیش کیا گیا مگر جب اس کی بھی قلعی کھولی گئی تو بجائے یہ کہ سنجیدہ علمی طریق کار کواپناتے اور اپنے استدلال کی غیر محلیت پر تدبر فرماکر اپنے قول سے رجوع فرماتے یا پھر مصر ہوکر پیش کی گئی تفاسیر کا رد فرماتے ہمیشہ کی طرح ایک مخصوص فکر کا معروف" ٹیکٹس" استعمال کرتے ہوئے خلط مبحث کو دعوت دے ڈالی فیا للعجب۔
پھر جب ایک بھائی نے امت مسلمہ سے شرک کی نفی کی روایت پیش کی تو دعوٰی میں ایک اور تنزل فرماتے ہوئے اس نفی کو" کلی" نفی نہیں بلکہ "اکثریت" کی نفی پر محمول کیا جو کہ اگرچہ حق بات ہے مگرایہاں اصل میں مضحکہ خیزی یہ تھی کہ خود اوپر اپنے ہی " گھڑنتو مفروضہ نما "دعوٰی کی جو سب سے پہلی دلیل پیش کی تھی یعنی سورہ یوسف کی زیر بحث آیت ، یہ روایت اس سے ٹکرا رہی تھی کیونکہ آیت میں اکثریت کے شرک کا اثبات ہے جبکہ اس روایت میں اکثریت کے شرک کی نفی جو کہ خود موصوف کو بھی تسلیم ہے اب ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے؟؟؟
اور سب سے آخر میں اپنے اصل دعوٰی سے ہٹ کر ایک ساتھ بہت سے ضمنی مسائل کو زیر بحث لاکر غیر علمی اور غیر سنجیدہ طریق کار اپناتے ہوئے خلط مبحث فرما ڈالا انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
عرض یہ ہے کہ ضمنی مسائل کے اکثر عنوانات تو" گھڑنتو" یعنی خود ساختہ ہیں اور بعض دلچسپ بھی ہیں جیسے کہ نماز کا تارک " مشرک " ہے یعنی کہ "لاحول ولا قوۃ الا باللہ" اجبکہ بعض قائل کے قلت مطالعہ اور قلت فکرو تدبر پر دال ہیں اب کون بندہ ایسی" پہنچی شخصیت "کے ساتھ " سینگ پھنسائے " اس لیے "قولو سلاما "کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے" دوروں ای" سلام ۔۔ والسلام
 
آخری تدوین:
آبی ٹوکول (y)(y)(y)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ آپ کے علم میں مزید برکت عطا فرمائیں اور اسے مسلمانوں کے لیے باعث نافع بنائے۔ آمین۔:)
اور مسلکی برتری کے جنون میں مبتلا چند ناعاقبت اندیش ملاؤں اور انکے پیروکار، جو ہر وقت اپنے علاوہ سب کو کافر و مشرک قرار دینے میں جتے ہوئے ہیں، انھیں عقل سلیم اور ہدایت کی روشنی سے منور فرمائیں۔ آمین
 
فاروق احمد بھٹی صاحب ، آپ کیوں غیر متفق ہیں ؟قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِ قِیْنَ:ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ‘‘ ، ( البقرۃ : 111) ۔

آپ سے آپ کے پہلے مراسلے میں بیان کی گئی آیت کے متعلق پوچھا تھا کے اس کا شان نزول کیا ہے وہ تک تو آپ کو معلوم نہیں ۔۔اور آپ نے مینڈک کی طرح چھلانگ ماری اور کسی دوسرے خود ساختہ جوہڑ سے لگے چھینٹے اڑانے ۔۔
جواب تو بہت سے دیے جا سکتے تھے لیکن الشفاء نے جو جواب عنائیت فرمایا وہ آپ نے جتنے بھی نکات اٹھائے ان کے لیے کافی و شافی ہے ۔ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے اور دوسرے کے لیے دلائل کے ڈھیر بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ میری طرف سے بس علامہ اقبال کے چند اشعار قبول فرما ئیے ۔

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
اور
عجم ہنوز نداند رموز دیں، ورنہ
ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است
 
آخری تدوین:
محترم الشفاء ! آپ کی توجہ کے لئے ۔۔۔
توحید کی اقسام
توحید ربوبیت :
توحید ربوبیت یہ ہے کہ اللہ کو اس کی ذات میں اکیلا ، بے مثال ، بے نظیر اور لاشریک مانا جائے ۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ اس کی بیوی ہے نہ اولاد ، ماں ہے نہ باپ ، وہ کسی کی ذات کا جزء ہے نہ کوئی دوسرا اس کی ذات کا جزء۔
توحید الوہیت :
توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ ہر قسم کی عبادت و ریاضت کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کیا جائے ، اور کسی دوسرے کو اس میں شریک نہ کیا جائے ، یاد رہے کہ عبادت کا لفظ ، پوجا ، پرستش اور اطاعت و فرمانبرداری اور اطاعت وغیرہ کے تمام مفاہیم کو شامل ہے ۔ مثلا: نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، صدقات ، رکوع و سجود ، نذر و نیاز ، طواف و اعتکاف ، دعا و پکار ، استعانت و استغاثہ ، اطاعت و غلامی ، فرمانبرداری اور پیروی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں ۔
توحید اسماء و صفات :
توحید اسماء و صفات یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ تمام صفات الہٰیہ میں اللہ تعالیٰ کو یکتا ، بے مثال اور لا شریک مانا جائے ۔
مشرکین مکہ کی جھلک
مشرکین مکہ کے عقائد و نظریات
تمام انسانوں کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے ۔
خالق ارض و سماء اللہ ہے ۔
رزاق ، مالک اور مدبر الأمور اللہ ہے ۔
موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔
زمین و آسمان ، عرش عظیم اور ہر ایک چیز کا مالک اور رب اللہ ہے ۔
ہر چیز کا بادشاہ اور صاحب اختیار و اقتدار اعلیٰ اللہ ہے ۔
قادر مطلق اللہ ہے ۔
متصرف علی الاطلاق اللہ ہے ۔
بارش برسانے والا اور زمین سے نباتات اگانے والا اللہ ہے ۔
العزیز اور العلیم اللہ ہے ۔
؂بڑی مصیبتوں میں فقط اللہ ہی کام آ سکتا ہے۔
عذاب ٹالنے والا اللہ ہے ۔
مشرکین مکہ کے اعمال حسنہ
اللہ کا گھر ’’ بیت اللہ ‘‘ انہوں نے تعمیر کیا تھا ۔
نماز پڑھتے تھے ۔
حج کرتے تھے ، عمرہ بجا لاتے تھے اور طواف کعبہ بھی کرتے تھے ۔
عاشوراء کا روزہ بھی رکھتے تھے ۔
زکوٰۃ دیتے تھے ۔
غلام آزاد کرتے تھے ۔
قربانیاں دیتے تھے ۔ اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانتے تھے ۔
غسل جنابت بھی کیا کرتے تھے اور سنن ابراہیم کے قائل بھی تھے اور فاعل بھی ۔
نکاح کرتے تھے ۔
بچوں کا نام بھی عبداللہ رکھتے تھے ۔
مشرکین مکہ کو مشرک کیوں کہا گیا ؟
مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری ’’ الرحیق المختوم ‘‘ ، ( ص ۷۱ ۔ ۷۷ ) میں اہل جاہلیت کے اندر رائج بت پرستی کے چند اہم مراسم کا ذکر کرتے ہوئے ’’ عرب ادیان و مذاہب ‘‘ کی بحث میں رقم طراز ہیں :
دور جاہلیت کے مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے ، ان کی پناہ ڈھونڈھتے تھے ، انہیں زور زور سے پکارتے تھے اور حاجت روائی و مشکل کشائی کے لئے ان سے فرماد اور التجائیں کرتے تھے ، اور سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے ۔
بتوں کا حج و طواف کرتے تھے ، ان کے سامنے عجز و نیاز سے پیش آتے تھے ، اور انہیں سجدہ کرتے تھے ۔
بتوں کے لئے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے ، اور قربانی کے ان جانوروں کو کبھی بتوں کے آستانوں پر لے جاکر ذبح کرتے تھے ، اور کبھی کسی بھی جگہ ذبح کر لیتے تھے ، مگر بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے ۔
بتوں سے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مشرکین اپنی صواب دید کے مطابق اپنے کھانے پینے کی چیزوں اور اپنی کھیتی اور چوپائے کی پیداوار کا ایک حصہ بتوں کے لئے خاص کر دیتے تھے ۔ اس سلسلے میں ان کا دلچسپ رواج یہ تھا کہ وہ اللہ کے لئے بھی اپنی کھیتی اور جانوروں کی پیداوار کا ایک حصہ خاص کرتے تھے ۔
مشرکین کھیتی اور چوپائے کے اندر مختلف قسم کی نذریں مانتے تھے ۔
مشرکین عرب کاہنوں ، عرافوں اور نجومیوں کی خبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے ۔
ؑ عصر حاضر سے کلمہ گو مشرک لوگوں کے عقائد و نظریات کی ایک جھلک :
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ، اقوام ماضیہ اور مشریکن مکہ کے جو عقائد شرکیہ بیان کئے گئے ہیں وہ سب کے سب بلکہ اس سے بھی زیادہ گندے خیالات و نظریات عصر حاضر کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں ۔ یہود و ہنود اور نصاریٰ کے علاوہ مسلمانوں میں بھی توحید کے منافی شرکیہ عقائد کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ مثلاََ :
ایک شاعر اپنے پیر کی مدح میں کہتا ہے :
دوستی رب دی لوڑ نائیں قلعے والے دا پلڑا چھوڑ ناہیں
قلعے والے دے گرد طواف کر لے مکے جاونے دی کوئی لوڑ ناہیں
ایہہ قصور نگاہ دا نادانوں رب ہور نائیں پیر ھور ناہیں
فضل رب دا جے مطلوب ہو وے قلعے والے والوں مکھ موڑ ناہیں

اسی طرح خواجہ غلام فرید چشتی چاچڑاں شریف والے کے دیوان ، صفحہ ۲۰۷ میں لکھا ہے :
چاچڑ وانگ مدینہ جاتم تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
رنگ بنا بے رنگی آیا کیتم روپ تجلّٰی
ظاہر دے وچ مرشد ھادی باطن دے وچ اللہ
نازک مکھڑا پیر فریدا سانوں ڈسدا ہے وجہ اللہ
 
سوال دیگر جواب دیگر
شبیر حسین اور آبی ٹو کول صاحب ! میں نے شرک سے متعلقہ آیات ہی لکھیں ہیں ۔ آپ کو اگر سمجھ نہیں آتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟
اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ افلا تعقلون *

آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
گرہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
 
Top