تعارف امامیات ۔ تعارف

با ادب

محفلین
تعارف سے ہمارا بھی آج پہلی دفعہ ہی تعارف ہو رہا ہے ۔ اور پہلہ ملاقات کی بے تکلفی چہ معنئی دارد ۔
گو ہمارے تعارف کی کچھ ایسی ضرورت ہم تو نہ محسوس کرتے تھے کہ امامیات کی صورت روز ہماری زندگی کے ایک پہلو کا تعارف ہو جاتا ہے لیکن کچھ احباب بضد ہیں کہ رسم تعارف کی رسم ادا ہونی ضروری ہے ۔
میں اور امامیات ایک ہی سلسے کی ایک ہی کڑی ہیں ۔ اس لئیے کچھ بات اس ہی حوالے سے ہو جائے ۔
امامیات کی داستان میری حیات کی داستان ہے ۔ میں ایک عام سیدھی سادی گھریلو خاتون ۔ جس کی زندگی کی کہانی میں کوئی چاشنی نہیں ۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ زندگی کا یہ بھی ایک رنگ ہے جسے لوگ جان لیں گے اور چونکہ میں موجود ہوں تو اس رنگ کا انکار ممکن نہیں ۔
یہ کہانی ہے ایسی خاتون کی جو متقی نہیں اور یہ کہانی ہے ایک ایسی خاتون کی جو گناہگار بھی نہیں ۔ یہ کہانی ہے ایسی خاتون کی جس کا کہنا ہے
شوق پینے کا مجھ کو زیادہ نہیں
ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہیں
یہ دین و دنیا کے مابین ایک کشمکمش میں گرفتار انسان کی بات ہے ۔ جس کا یہ کہنا ہر گز نہیں کہ کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے ۔ بلکہ یہان تو کعبہ و کلیسا دائیں بائیں ہیں کہ ایک قدم کعبہ میں ہو تو دوسرا کلیسا میں جا پڑتا ہے ۔
ایمان کے بچاوء کے لئیے ہر دور میں امام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور جو امام کی اتباع کو لازم کر لے بھٹکنے سے بچ جاتا ہے ۔ اور جنھین میری طرح امام سے بھی حجت کی عادت ہو وہ یا تو درست مقام کو پا لیتے ہیں یا تمام عمر کج بحثیوں میں ہی گزر جاتی ہے ۔
میں نے امام صاحب سے کیا سیکھا کیا سیکھنا باقی ہے کیا سیکھ کر عمل کے دائرے کو خالی چھوڑ دیا ۔
یہ باتیں نہ تو فلسفیانہ ہیں نہ صوفیانہ نہ دنیاویانہ ۔ یہ باتیں ایک عام خاتون کی نہایت عام سی باتیں ہیں ۔
جس کے لئیے گناہ کبیرہ کی تعریف یوں بھی ہو سکتی ہے کہ ھاتھ میں تسبیح پکڑے زبان پہ غیبت جاری ہو ۔
جس نے اگر ایک گھنٹہ وقت کا ضیاع کیا تو فکر لا حق ہو گئی کہ بایاں فرشتہ ایک گھنٹہ رجسٹر بھرتا رہا اب ایسا کیا کیا جائے کہ دونوں رجسٹروں کا وزن مساوی ہو جائے ۔
یہ بات اگر کسی کو ماورائی لگے تو جان لیجییے کہ دنیا کی 6 ارب کی آبادی میں ایک ایسی خاتون ہے اور وہ میں ہوں ۔ جو مجھ جیسے ہوں گے وہ مجھے جان لیں گے جن کے انداز جداگانہ ہوں وہ مجھ سے کنارہ کر لیں گے ۔ کہ یہی دستور دنیا ہے
زندگی کی تلخی اور شیرینی دونوں سے انکار نہیں پر مجھے لگتا ہے کہ ہم نے تلخی کو اتنا بیان کر ڈالا کہ امید کی راہ کھوٹی کر دی ۔ تلخی کو بیان ضرور کیا جائے لیکن اسے اعصاب پہ سوار نہ کر لیا جائے ۔ بھوک اور افلاس سے بڑھ کر ظلم اور تلخی نہیں ۔ جس معاشرے میں لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ رزق کا ضیاع انھیں عام بات لگتی ہے اسی معاشرے مین کوڑے کے ڈھیر پہ رزق کے دانے چننے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ اگر ان کی بھوک کا اتنا رویا رویا جائے کہ وہ قتل و غارت گری چوری وڈاکہ زنی کو اپنا حق سمجھ بیٹھیں وہاں میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دولت مندوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ جو فراوانی اللہ نے تمھین عطا کی اس میں دوسروں کا حصہ بھی ہے جس کا تم سے سوال کیا جائے گا تو شاید کچھ مثبت نتائج کی امید بندھے ۔ یہ زندگی کو دیکھنے کا میرا انداز ہے آپ کا اس سے اتفاق ضروری نہیں اور اس کی مخالفت مجھے گوارا نہیں ۔ اختلاف کا حق بہر حال سب کا ہے ۔
مجھے زندگی کے منفی پہلو پہ رونے کی بجائے زندگی کے مثبت پہلو کو دیکھنے کی عادت ہے ۔
موضوعات زندگی تکلیف دہ ہیں ضرور لیکن اس پر ہنسی کا خول چڑھا کہ پیش کر دیتی ہوں کہ جو اہل دل ہیں سوچیں گے ضرور ۔
جنھوں نے مجھ سے تعارف کی درخواست کی تھی اب بھگتیں ۔ کہ

حضرت داغ جہان بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور
جو موضوع شروع کر دیا بس کر دیا ۔ ہاں کسی موضوع پہ میری زبانی رائے لینے سے احتراز برتا جائے کہ بولنا میرے لئیے امر محال ہے ۔ زبان کی تکلیف مجھے ہر گز گوارا نہیں ۔ لکھنے کو دیوان لکھ ڈالیں ۔
اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ اردو محفل والے باھر پھینک آئیں گے تو روز ایک دیوان آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ۔ پر سیانے کہتے ہیں قدر کم کر دیتا ہے روز کا آنا جانا ۔
اب اجازت ۔
تعارف کی مد میں دیوان پیش کرنے پہ معذرت ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
تعارف کے زمرے میں خوب تعارف لکھا ! کبھی کبھی بے ساختگی میں تحریر میں وہ نمکینیت آجاتی ہے کہ بندہ کہتا کہ آج کھانا اچھا بنا ہے ! تکے سے ہانڈی ایک دفعہ اچھی بن جاتی ہے مگر جب روز اچھی ہونے لگے تو کہتے ہیں جی '' اس میں ایسی بات ہے کہ کسی اور میں کہاں ! امامیات کے حوالے سے میرا تبصرہ کچھ ایسا ہوا تھا کہ آج ہانڈی سے سواد آگیا ! جیسے اس تعارف نے سواد دے دیا ! اس تحریر میں درد کے ساتھ جو سچ ہے اسنے میرا دل لے لیا اور اس بے ساختگی کے جواب میں بے ساختہ تبصرہ حاضرِ جناب کردیا !

ادب اور تصوف میں ایک بنیادی فرق ہے : جب بندہ معاشرے سے بیگانہ ہوجائے تو ادبی ہوجاتا ہے اور جب خود سے بیگانہ ہوجائے تو صوفی ہوجاتا ہے ! ان دونوں میں بیگانگی ، لا تعلقی بڑی چیز ہے جس کو اچھے الفاظ میں بے نیازی کہنے کو دل چاہے ہے ۔ کہنے کو تو جی اللہ بھی بے نیاز ہے نا ! مگر نیاز مند سارے اسکے گرد ہجوم رکھتے ہیں ۔ اسطرح ادبی بندہ بڑا ادب سے پیش آتا ہے کیونکہ جو درد وہ سہتا ہے وہ عام بندے کا کام نہیں ہوتا ! درد کو سہنا عام سی بات ہے مگر درد سہنے کے بعد لکھنا گویا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے ! آپ کا میرے لیے ادبی ہونا اہم ہے چاہے وہ معاشرتی بیگانگی کی صورت ہو یا ذاتی ! اسکے ساتھ آپ کے الفاظ میرے لیے موتی ہوں گے جب ان میں یہی سچ ملے جو اس تعارف میں ہے ! کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے آپ جھوٹ کی مرتکب ہیں مگر سچ کا لباس الفاظ کو پہنانا آسان کام کہاں ۔۔۔۔۔۔!


محفل میں خوش آمدید ! سیکھنے کو ہم بیٹھے ہیں آپ ہمیں سکھائیں ! ہم نے آپ کو امام مان لیا ہے
 
آخری تدوین:

حماد علی

محفلین
مادام غالباً آپ کے مجھے خوش آمدید کہنے پر میں نے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوے محترم کا لفظ یا شائد کچھ اور ہی ایسا لفظ لکھ کر آپ کی جنس ہی بدل ڈالی تھی اس کے لیے معذرت قبول کیجیے کے انجانے میں ایسا ہوا " محترمہ"۔
تعارف تو آپ نے بڑا ہی دلآویز کروایا ہے اور نہایت خوبصورتی سے تعارف کرواتے ہوے آپ نے ہمارے معاشرے کے ایک حساس اور توجہ طلب مسئلہ کی طرف اشارہ بھی کیا ۔ بہت خوب!
اب اگر آپ نے تعارف کی رسمِ دنیا ادا کر ہی دی ہے تو میرا خیال ہے کہ میں بھی آپ کو خوش آمدید کہنے کی زحمت کر ہی لوں:p گو کہ آپ کو یہاں آئے ہوے کچھ وقت گزر چکا ہے ، مگر روز مرہ کے جملے " دیرآید، درست آید" :clock1:کا سہارا لیتے ہوے آ پ کو میری طرف سے محفل میں " خوش آمدید !"
 
آخری تدوین:

با ادب

محفلین
تعارف کے زمرے میں خوب تعارف لکھا ! کبھی کبھی بے ساختگی میں تحریر میں وہ نمکینیت آجاتی ہے کہ بندہ کہتا کہ آج کھانا اچھا بنا ہے ! تکے سے ہانڈی ایک دفعہ اچھی بن جاتی ہے مگر جب روز اچھی ہونے لگے تو کہتے ہیں جی '' اس میں ایسی بات ہے کہ کسی اور میں کہاں ! امامیات کے حوالے سے میرا تبصرہ کچھ ایسا ہونے لگا تھا کہ آج ہانڈی سے سواد آگیا ! جیسے اس تعارف نے سواد دے دیا ! اس تحریر میں درد کے ساتھ جو سچ ہے اسنے میرا دل لے لیا اور اس بے ساختگی کے جواب میں بے ساختہ تبصرہ حاضرِ جناب کردیا !

ادب اور تصوف میں ایک بنیادی فرق ہے : جب بندہ معاشرے سے بیگانہ ہوجائے تو ادبی ہوجاتا ہے اور جب خود سے بیگانہ ہوجائے تو صوفی ہوجاتا ہے ! ان دونوں میں بیگانگی ، لا تعلقی بڑی چیز ہے جس کو اچھے الفاظ میں بے نیازی کہنے کو دل چاہے ہے ۔ کہنے کو تو جی اللہ بھی بے نیاز ہے نا ! مگر نیاز مند سارے اسکے گرد ہجوم رکھتے ہیں ۔ اسطرح ادبی بندہ بڑا ادب سے پیش آتا ہے کیونکہ جو درد وہ سہتا ہے وہ عام بندے کا کام نہیں ہوتا ! درد کو سہنا عام سی بات ہے مگر درد سہنے کے بعد لکھنا گویا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے ! آپ کا میرے لیے ادبی ہونا اہم ہے چاہے وہ معاشرتی بیگانگی کی صورت ہو یا ذاتی ! اسکے ساتھ آپ کے الفاظ میرے لیے موتی ہوں گے جب ان میں یہی سچ ملے جو اس تعارف میں ہے ! کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے آپ جھوٹ کی مرتکب ہیں مگر سچ کا لباس الفاظ کو پہنانا آسان کام کہاں ۔۔۔۔۔۔!


محفل میں خوش آمدید ! سیکھنے کو ہم بیٹھے ہیں آپ ہمیں سکھائیں ! ہم نے آپ کو امام مان لیا ہے
ارررررررے ۔ سانس لو لڑکی ۔ ۔ ۔ مجھ بڑھیا پہ اتنا ہی بوجھ ڈالو جو سہارا جا سکے ۔
اتنے اچھے الفاظ کا تہہ دل سے شکریہ ۔
لیکن امامت کا فریضہ ہمارے ناتواں کاندھوں پہ مت ڈالیئے ۔
عمر دراز ہو ۔ آمین
 

با ادب

محفلین
مادام غالباً آپ کے مجھے خوش آمدید کہنے پر میں نے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوے محترم کا لفظ یا شائد کچھ اور ہی ایسا لفظ لکھ کر آپ کی جنس ہی بدل ڈالی تھی اس کے لیے معذرت قبول کیجیے کے انجانے میں ایسا ہوا " محترمہ"۔
تعارف تو آپ نے بڑا ہی دلآویز کروایا ہے اور نہایت خوبصورتی سے تعارف کرواتے ہوے آپ نے ہمارے معاشرے کے ایک حساس اور توجہ طلب مسئلہ کی طرف اشارہ بھی کیا ۔ بہت خوب!
اب اگر آپ نے تعارف کی رسمِ دنیا ادا کر ہی دی ہے تو میرا خیال ہے کہ میں بھی آپ کو خوش آمدید کہنے کی زحمت کر ہی لوں:p گو کہ آپ کو یہاں آئے ہوے کچھ وقت گزر چکا ہے ، مگر روز مرہ کے جملے " دیرآید، درست آید" :clock1:کا سہارا لیتے ہوے آ پ کو میری طرف سے محفل میں " خوش آمدید !"
خوش آمدید کے جواب میں شکریہ اور جیتے رہو ۔ محترم یا محترمہ والی حس ایک عمر کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور انسان فقط انسان رہ جاتا ہے ۔
لیکن آپ نے محترمہ مان ہی لیا ہے تو آپا کہیئے ۔ کہ ہماری عمر کا نصف ہیں آپ ۔ خوش رہو
 

حماد علی

محفلین
خوش آمدید کے جواب میں شکریہ اور جیتے رہو ۔ محترم یا محترمہ والی حس ایک عمر کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور انسان فقط انسان رہ جاتا ہے ۔
لیکن آپ نے محترمہ مان ہی لیا ہے تو آپا کہیئے ۔ کہ ہماری عمر کا نصف ہیں آپ ۔ خوش رہو
یقینن الفاظ کو زبان سے ادا کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا اس لیے آپا کہنے سے گریز کیا تھا کے زبان سے ادا کیے گئے الفاظ اپنے ساتھ اکثر بڑی بھاری ذمہ داریاں بھی لیے ہوتے ہیں اور ان کو نبھانا اکثر کافی جی جان لگانے کا کام ہوتا ہے لیکن اب آپ کا حکم ہے تو کون بے ادب آپ کے حکم سے انحراف کرے گا آپا!
اور اگر آپا بات عمر کی کی جائے تو میرا ماننا ہے کے انسان کو عمر کے بڑھنے کے ساتھ اپنے پر بڑھاپے کا لیبل لگا کر ایسا بزرگ بن جانا کے جن کی صحبت سے بچوں اور نوجوانوں کو ایک وحشت سی ہوتی ہے مناسب نہیں ! بہر حال ہر انسان کے اپنے نظریات ہوتے ہیں ہم کسی پر اپنے نظریات کو زبردستی مسلط نہیں کر سکتے اس لیے اوپر ادا کیے گئے الفاظ کے لیے معذرت کا طلبگار ہوں اگر آپ کی طبیعت پر گراں گزرے ہوں تو!
ایک اور جسارت کرتے ہوے ایک بچکانہ سا مشورا تھا کے زمانوں کا کام ہے گزرنا سو گزر گئے، دل تو بچہ ہے جی ! کو یاد رکھتے ہوے ان زمانوں کے گرد میں اس بچے کو دبنے مت دیجیے گا آپا۔۔!!!!!
امید ہے میری بات میں اگر کوئ خامی ہوئ ہو تو اس کی اصلاح ،یا کوئ بات بری لگی ہو تو برادر سمجھتے ہوے معاف کر دیں گی۔
 

با ادب

محفلین
میرا ماننا ہے کے انسان کو عمر کے بڑھنے کے ساتھ اپنے پر بڑھاپے کا لیبل لگا کر ایسا بزرگ بن جانا کے جن کی صحبت سے بچوں اور نوجوانوں کو ایک وحشت سی ہوتی ہے مناسب نہیں !

ایسے بزرگوں کے متعلق کیا خیال ہے جن کی موجودگی بچون کا بہترین سرمایہ ہوتی ہے ۔ :)
 

حماد علی

محفلین
میرا ماننا ہے کے انسان کو عمر کے بڑھنے کے ساتھ اپنے پر بڑھاپے کا لیبل لگا کر ایسا بزرگ بن جانا کے جن کی صحبت سے بچوں اور نوجوانوں کو ایک وحشت سی ہوتی ہے مناسب نہیں !

ایسے بزرگوں کے متعلق کیا خیال ہے جن کی موجودگی بچون کا بہترین سرمایہ ہوتی ہے ۔ :)
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
 

با ادب

محفلین
اور رہی بات دل کے بچہ ہونے کی تو دل کی ہمیشہ کے لئیے ایک کیفیت مجھے کچھ خاص پسند نہیں ۔ دل کبھی تو بچہ ہے کبھی نوجوان بھی ہے کبھی ادھیڑ عمری کا شکار بھی ۔ دل کی کیفیات روز نئی ہوتی ہیں ۔ اب روز روز کا بچپنا بھی اچھا نہیں ۔ اسے مختلف کیفیات کے تحت ہی رہنے دیں کہ یہی اس کا خاصہ ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
ارررررررے ۔ سانس لو لڑکی ۔ ۔ ۔ مجھ بڑھیا پہ اتنا ہی بوجھ ڈالو جو سہارا جا سکے ۔
اتنے اچھے الفاظ کا تہہ دل سے شکریہ ۔
لیکن امامت کا فریضہ ہمارے ناتواں کاندھوں پہ مت ڈالیئے ۔
عمر دراز ہو ۔ آمین

ایک کیفیت نامہ آپ کا کل پرسوں پڑھا تو جناب آپ نے خود کو ستر سالہ کے قریب لکھا تھا تو جی دوسرا تبصرہ جناب یہاں دھرا ہے کہ جی آپ عمر میں 32 سال کی ہیں ! اجی ہم کس بات کو یقین سمجھیں اور کس کو گُمان یہی تو آپ ہمیں بتائیں گے ! آپ بڑھیا ہیں !!! تو اگر آپ چالیس پچاس کے قریب ہیں تو پھر یہاں چالیس پچاس سالہ مرد یہ نہیں کہتا وہ بوڑھا تو جناب آپ کیوں ! ویسے بھی آپ کی تحریر سے اتنا بڑھاپا نہیں چھلکتا ہے جتنا کہ جی آپ نے ظاہر کیا ہے !

امام تو وہی ہے نا جی جس نے کچھ سکھایا ! تو بارِ گراں ناتوانی میں اٹھایے !
دعاؤں کے لیے شکرگزاری ! اللہ تعالیٰ آپ کو سو برسوں سے اوپر کی عمر عطا فرمائیں ! آمین
 

حماد علی

محفلین
تو اگر آپ چالیس پچاس کے قریب ہیں تو پھر یہاں چالیس پچاس سالہ مرد یہ نہیں کہتا وہ بوڑھا تو جناب آپ کیوں ! ویسے بھی آپ کی تحریر سے اتنا بڑھاپا نہیں چھلکتا ہے جتنا کہ جی آپ نے ظاہر کیا ہے !
غالباً میں بھی یہی کہنا چاہتا تھا کے خدارا خود پر بڑھاپا طاری مت کیجیے! کے ہمیں ابھی آپ جیسے لوگوں کی ہمت اور حوصلہ کی ضرورت ہے تاکہ کچھ سیکھ سکیں ، بڑھاپے کے باعث کہیں آپ ہمیں سکھاتے سکھاتے تھک ہی نہ جائیں!:LOL:
 
تعارف سے ہمارا بھی آج پہلی دفعہ ہی تعارف ہو رہا ہے ۔ اور پہلہ ملاقات کی بے تکلفی چہ معنئی دارد ۔
گو ہمارے تعارف کی کچھ ایسی ضرورت ہم تو نہ محسوس کرتے تھے کہ امامیات کی صورت روز ہماری زندگی کے ایک پہلو کا تعارف ہو جاتا ہے لیکن کچھ احباب بضد ہیں کہ رسم تعارف کی رسم ادا ہونی ضروری ہے ۔
میں اور امامیات ایک ہی سلسے کی ایک ہی کڑی ہیں ۔ اس لئیے کچھ بات اس ہی حوالے سے ہو جائے ۔
امامیات کی داستان میری حیات کی داستان ہے ۔ میں ایک عام سیدھی سادی گھریلو خاتون ۔ جس کی زندگی کی کہانی میں کوئی چاشنی نہیں ۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ زندگی کا یہ بھی ایک رنگ ہے جسے لوگ جان لیں گے اور چونکہ میں موجود ہوں تو اس رنگ کا انکار ممکن نہیں ۔
یہ کہانی ہے ایسی خاتون کی جو متقی نہیں اور یہ کہانی ہے ایک ایسی خاتون کی جو گناہگار بھی نہیں ۔ یہ کہانی ہے ایسی خاتون کی جس کا کہنا ہے
شوق پینے کا مجھ کو زیادہ نہیں
ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہیں
یہ دین و دنیا کے مابین ایک کشمکمش میں گرفتار انسان کی بات ہے ۔ جس کا یہ کہنا ہر گز نہیں کہ کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے ۔ بلکہ یہان تو کعبہ و کلیسا دائیں بائیں ہیں کہ ایک قدم کعبہ میں ہو تو دوسرا کلیسا میں جا پڑتا ہے ۔
ایمان کے بچاوء کے لئیے ہر دور میں امام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور جو امام کی اتباع کو لازم کر لے بھٹکنے سے بچ جاتا ہے ۔ اور جنھین میری طرح امام سے بھی حجت کی عادت ہو وہ یا تو درست مقام کو پا لیتے ہیں یا تمام عمر کج بحثیوں میں ہی گزر جاتی ہے ۔
میں نے امام صاحب سے کیا سیکھا کیا سیکھنا باقی ہے کیا سیکھ کر عمل کے دائرے کو خالی چھوڑ دیا ۔
یہ باتیں نہ تو فلسفیانہ ہیں نہ صوفیانہ نہ دنیاویانہ ۔ یہ باتیں ایک عام خاتون کی نہایت عام سی باتیں ہیں ۔
جس کے لئیے گناہ کبیرہ کی تعریف یوں بھی ہو سکتی ہے کہ ھاتھ میں تسبیح پکڑے زبان پہ غیبت جاری ہو ۔
جس نے اگر ایک گھنٹہ وقت کا ضیاع کیا تو فکر لا حق ہو گئی کہ بایاں فرشتہ ایک گھنٹہ رجسٹر بھرتا رہا اب ایسا کیا کیا جائے کہ دونوں رجسٹروں کا وزن مساوی ہو جائے ۔
یہ بات اگر کسی کو ماورائی لگے تو جان لیجییے کہ دنیا کی 6 ارب کی آبادی میں ایک ایسی خاتون ہے اور وہ میں ہوں ۔ جو مجھ جیسے ہوں گے وہ مجھے جان لیں گے جن کے انداز جداگانہ ہوں وہ مجھ سے کنارہ کر لیں گے ۔ کہ یہی دستور دنیا ہے
زندگی کی تلخی اور شیرینی دونوں سے انکار نہیں پر مجھے لگتا ہے کہ ہم نے تلخی کو اتنا بیان کر ڈالا کہ امید کی راہ کھوٹی کر دی ۔ تلخی کو بیان ضرور کیا جائے لیکن اسے اعصاب پہ سوار نہ کر لیا جائے ۔ بھوک اور افلاس سے بڑھ کر ظلم اور تلخی نہیں ۔ جس معاشرے میں لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ رزق کا ضیاع انھیں عام بات لگتی ہے اسی معاشرے مین کوڑے کے ڈھیر پہ رزق کے دانے چننے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ اگر ان کی بھوک کا اتنا رویا رویا جائے کہ وہ قتل و غارت گری چوری وڈاکہ زنی کو اپنا حق سمجھ بیٹھیں وہاں میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دولت مندوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ جو فراوانی اللہ نے تمھین عطا کی اس میں دوسروں کا حصہ بھی ہے جس کا تم سے سوال کیا جائے گا تو شاید کچھ مثبت نتائج کی امید بندھے ۔ یہ زندگی کو دیکھنے کا میرا انداز ہے آپ کا اس سے اتفاق ضروری نہیں اور اس کی مخالفت مجھے گوارا نہیں ۔ اختلاف کا حق بہر حال سب کا ہے ۔
مجھے زندگی کے منفی پہلو پہ رونے کی بجائے زندگی کے مثبت پہلو کو دیکھنے کی عادت ہے ۔
موضوعات زندگی تکلیف دہ ہیں ضرور لیکن اس پر ہنسی کا خول چڑھا کہ پیش کر دیتی ہوں کہ جو اہل دل ہیں سوچیں گے ضرور ۔
جنھوں نے مجھ سے تعارف کی درخواست کی تھی اب بھگتیں ۔ کہ

حضرت داغ جہان بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور
جو موضوع شروع کر دیا بس کر دیا ۔ ہاں کسی موضوع پہ میری زبانی رائے لینے سے احتراز برتا جائے کہ بولنا میرے لئیے امر محال ہے ۔ زبان کی تکلیف مجھے ہر گز گوارا نہیں ۔ لکھنے کو دیوان لکھ ڈالیں ۔
اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ اردو محفل والے باھر پھینک آئیں گے تو روز ایک دیوان آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ۔ پر سیانے کہتے ہیں قدر کم کر دیتا ہے روز کا آنا جانا ۔
اب اجازت ۔
تعارف کی مد میں دیوان پیش کرنے پہ معذرت ۔
آپا بہت زبردست تحریر ہے۔زندگی کے بارے میں کھولا سچ
 

با ادب

محفلین
ایک کیفیت نامہ آپ کا کل پرسوں پڑھا تو جناب آپ نے خود کو ستر سالہ کے قریب لکھا تھا تو جی دوسرا تبصرہ جناب یہاں دھرا ہے کہ جی آپ عمر میں 32 سال کی ہیں ! اجی ہم کس بات کو یقین سمجھیں اور کس کو گُمان یہی تو آپ ہمیں بتائیں گے ! آپ بڑھیا ہیں !!! تو اگر آپ چالیس پچاس کے قریب ہیں تو پھر یہاں چالیس پچاس سالہ مرد یہ نہیں کہتا وہ بوڑھا تو جناب آپ کیوں ! ویسے بھی آپ کی تحریر سے اتنا بڑھاپا نہیں چھلکتا ہے جتنا کہ جی آپ نے ظاہر کیا ہے !

امام تو وہی ہے نا جی جس نے کچھ سکھایا ! تو بارِ گراں ناتوانی میں اٹھایے !
دعاؤں کے لیے شکرگزاری ! اللہ تعالیٰ آپ کو سو برسوں سے اوپر کی عمر عطا فرمائیں ! آمین
بڑی تلاش بسیار کے باوجود بھی وہ تبصرہ نہ ملا جس میں 32 سال عمر بتائی ہو ۔ ایسا جھوٹ تو خواب میں بھی نہ کہیں ۔ اب ہم نے کہیں بھی اپنی عمر کو ھندسوں میں ظاھر نہیں کیا ۔ اور ایک نصیحت تو گرہ سے باند ھ لو خواتین کی عمر پہ بات وہ بھی سر عام کرنے سے گریز کیا کرو ۔ متنازعہ معاملات پہ بات شریفوں کا شیوہ نہیں ۔
اور امام کا فلسفہ سمجھ گئی یہی حاصل کلام ہے ۔
اور رہی بات مرد حضرات کے خود کو بوڑھا یا جوان کہنے کی تو یہ انکی صوابدید پر منحصر ہے ۔ جو چاہے ان کا کرشمہ ساز کرے ۔
ہم سے ڈھونگ نہیں ہوتے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
خوش آمدید کے جواب میں شکریہ اور جیتے رہو ۔ محترم یا محترمہ والی حس ایک عمر کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور انسان فقط انسان رہ جاتا ہے ۔
لیکن آپ نے محترمہ مان ہی لیا ہے تو آپا کہیئے ۔ کہ ہماری عمر کا نصف ہیں آپ ۔ خوش رہو
بڑی تلاش بسیار کے باوجود بھی وہ تبصرہ نہ ملا جس میں 32 سال عمر بتائی ہو ۔ ایسا جھوٹ تو خواب میں بھی نہ کہیں ۔ اب ہم نے کہیں بھی اپنی عمر کو ھندسوں میں ظاھر نہیں کیا ۔ اور ایک نصیحت تو گرہ سے باند ھ لو خواتین کی عمر پہ بات وہ بھی سر عام کرنے سے گریز کیا کرو ۔ متنازعہ معاملات پہ بات شریفوں کا شیوہ نہیں ۔
اور امام کا فلسفہ سمجھ گئی یہی حاصل کلام ہے ۔
اور رہی بات مرد حضرات کے خود کو بوڑھا یا جوان کہنے کی تو یہ انکی صوابدید پر منحصر ہے ۔ جو چاہے ان کا کرشمہ ساز کرے ۔
ہم سے ڈھونگ نہیں ہوتے ۔
آپ نے حماد صاحب کو لِکھا تو جناب ان کی عمر 16 سال ہے اور 16 کا دوگنا 32 ہے ! آپ کے کہے الفاظ اس بات کے گواہ ہیں ! آپ نے کوائف نامے کے تبصرے میں لکھا ہوا کہ یہ آپ کی نانی دادی کی عمر ہے ۔۔۔ اگر جوان بچوں کی نانی ہیں تو ساٹھ ستر سال تک عمر ہے اور اگر چھوٹے بچوں کی ہیں تو چالیس سے پچاس سال بھی عمر ہوسکتی ہے ! عمر میرے لیے کوئی ایسا متنازعہ موضوع نہیں ہے اسلیے آپ کے کہنے سے سمجھ لیا ہے کہ آپ کو متنازعہ لگا ہےسو اب کہ عمر کی بابت سوالات جوابات ختم کہ قبل اسکے وضاحت دیتی جاؤں کہ آپ کی لکھت آپ کی عمر بتائے دیتی ہے جیسے آپ نے جس طرح ابھی لتاڑا ہے تو یہ بس نہ پوچھیں کیا حال ہوا ہے ہمارا :barefoot: :cry2: :idontknow2: جی ! جی ! ڈھونگی ہیں سب !:applause::bighug: اللہ رے قلم کی چاشنیاں :cool2::atwitsend: فلسفہ ! فلسفہ سمجھ کہاں آتا ہے :heehee::laughing: :warzish:
 
Top