الکھ نگری

اس پوسٹ میں ابھی تو صرف یہ بتا رہا ہوں کہ الکھ نگری کے چند صفحات شامل کر رہا ہوں باقی فہرست ذرا دیر بعد آئے گی :)
 
پہلا باب

ہوں نہیں ہوں


رہ رہ کر مجھے یہ خیال آتا کہ میں ہندوستان چھوڑ کر پاکستان کیوں چلا آیا؟ حالانکہ بمبئی میں مجھے چار ایک کانٹریکٹ مل چکے تھے- زندگی میں پہلی بار ہزاروں روپے کمانے کی صورت پیدا ہوگئی تھی- اس کے باوجود میں بمبئی میں مطمئن نہیں تھا- سہما سہما- اُکھڑا اُکھڑا-
لاہور پہنچ کر میں یوں مطمئن ہوگیا تھا جیسے پنچھی گھونسلے میں آ بیٹھا ہو- حالانکہ لاہور میرا کوئی گھر نہ تھا، ذریعہ معاش نہ تھا، کیا میں اس لیے مطمئن ہوگیا تھا کہ پاکستان میں آ گیا تھا- نہیں یہ کیسے ہوسکتا تھا- مجھے پاکستان سے کوئی لگاؤ نہ تھا، میں نے کبھی پاکستان کو اپنایا نہ تھا-جب قیام پاکستان کی تحریک چل رہی تھی تو میں حیران ہوا کرتا تھا کہ مُسلمان پاکستان بنانے کے لیے کیوں بے تاب ہو رہے ہیں- حالانکہ مجھے اچھی طرح شعور تھا کہ ہندوؤں کے دل مُسلمانوں کے خلاف تعصب سے بھرے ہوئے ہیں- وہ یہ نہیں چاہتے کہ مُسلمان کسی میدان میں آگے بڑھیں، اُن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہندو اپنا دھرم سمجھتے ہیں- یہ سب کچھہ جاننے کے باوجود مجھے قیامِ پاکستان سے قطعی ہمدردی نہ تھی- شاید اس لیے کہ میں نے خود کو کبھی مُسلمان نہ سمجھا تھا- میں برائے نام مُسلمان تھا- مردم شماری کا مُسلمان-
میرے دل میں ہندوؤں کی بڑی عزّت تھی- بحیثیت قوم وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے- اُن میں عجز تھا،مٹھاس تھی، رکھہ رکھاؤ تھا، استقامت تھی- وہ مُسلمانوں کی ترح جذباتی نہ تھے- جوش میں نہیں آتے تھے- اپنی موم بتی دونوں سروں پر جلانے کے شوقین نہ تھے- میرے ذہن میں سیاست کا خانہ سِرے سے خالی ہے- سیاسی خبروں سے مجھے قطعی طور پر دلچسپی نہ تھی- سرسری طور پر سُرخیاں پڑھہ لیتا اور متن کو نظر انداز کر دیتا- مُسلمانوں کے اخبارات جذبات میں رنگے ہوتے تھے اس لیے میں روزنامہ ٹریبون پڑھا کرتا تھا-
قائدِ اعظم مجھے پسند نہ تھے- اُن میں عجز نہ تھا- خالی وقار ہی وقار اور پھراس قدر خود اعتمادی اور اصول پرستی، اصول انسان کے لیے بنتے ہیں- انسان اصولوں کے لیے نہیں بنا- سب سے بڑھہ کر مجھے یہ اعتراض تھا کہ قائد طبعاً سیکولر تھے- مُسلمانوں کی نمایندگی کرتے تھے، لیکن اسلام سے با خبر نہ تھے- شخصیت پر اسلام کا رنگ نہ تھا-

مغربی مفکّر

درحقیقت میں خود سیکولر خیالات کا مالک تھا-مذہب کو اچھا نہیں جانتا تھا- اپنے مذہب پر شرمسار تھا- میرے دل میں شک وشبہات یوں بِھن بِھن کرتے جیسے بِھڑوں کا چھتہ لگا ہو-یہ چھتہ میں نے بڑی محنت سے پالا تھا- مغربی علماء نے میری رہبری کی تھی-
کالج میں ایک نالائق لڑکا تھا- مشکل سے بی-اے پاس کیا تھا- پھر محبّت کا ایک بہت بڑا بلبلا پھٹا تو غم غلط کرنے کے لیے اتفاقاً میرے ہاتھہ کتاب لگ گئی اور میں مطالعے میں ڈوب گیا- یہ ایک راہِ فرار تھی- علم حاصل کرنا مقصود نہ تھا-
اُس زمانے میں اردو کی کتابیں عام نہ تھیں-
سکولوں میں اردو صرف آٹھویں جماعت تک پڑھائی جاتی تھی-
نویں جماعت میں اردو زبان لازمی نہ تھی-
کالجوں میں اردو زبان سرے سے رائج ہی نہ تھی-
مشرقی زبانوں کی درسگاہیں الگ تھیں-
ایم اے، ایم او ایل کرنے کے بعد صرف انگریزی میں بی-اے پاس کرنا پڑتا تھا- پھر کہیں بی-اے کی ڈگری حاصل ہوتی تھی-

ایسے طلباء کو جو مشرقی علوم کے بعد بی-اے کی ڈگری حاصل کرتے تھے-
ازراہِ تمسخر- دایا بھٹنڈا کہا جاتا تھا-
میں مشرقی زبانوں اور ادب سے قطعی طور پر کورا تھا-
اس لیے میرا مطالعہ صرف انگریزی تک محدود تھا-
اس کے علاوہ چونکہ اس کی حیثیت فرار کی تھی- اس کی کوئی منزل نہ تھی- سمت نہ تھی- اس مطالعہ سے مجھے صرف ذہنی آوارگی حاصل ہوئی- میرے خیالات سیکولر ہوگئے اور میں مذہب سے دور ہوتا گیا-
 
اللہ میاں

میرا ذہن مغربی مفکّروں نے ترتیب دیا تھا- جس گھر میں میں نے پرورش پائی تھی- وہاں خُدا کا نام بچّوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا- امّاًں کہتی تھیں نہ نہ یہ نہ کرو اللہ میاں ناراض ہوں گے- دادی امّاں کہتیں ایسا کرو گے تو اللہ میاں غصّے ہوں گے-
اُن دنوں میرے ذہن میں جو اللہ کا تخیّل تھا اُس میں دو باتیں پیش پیش تھیں ایک تو اللہ میاں بہت بڑے تھے- بڑے زبردست تھے دوسرے وہ بڑے زود رنج تھے بات بات پر ناراض ہو جایا کرتے، لیکن اللہ میاں کی ناراضگی کی دھونس بڑوںپر نہیں صرف بچّوں پر چلتی تھی- پھر یہ بھی تھا کہ گھر میں کبھی کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ اللہ میاں اس بات پر خوش ہوتے ہیں- یوں لگتا تھا جیسے اللہ میاں خوش ہونا جانتے ہی نہ تھے-
مکتب میں داخل ہوا تو وہاں جا کر اللہ میاں کی ایک اور بات ظاہر ہوئی- پتہ چلا کہ اللہ میاں نے ایک دوزخ تخلیق کر رکھا ہے- اُنہوں نے ایک بہت بڑی بھٹّی تپا رکھی ہے اور اُن کا واحد شغل یہ ہے کہ بندوں کو پکڑ پکڑ کر اس بھٹّی میں ڈالتے جائیں-
نتیجہ یہ ہوا کہ جوانی میں میں ذہنی طور پراللہ کا منکر رہا اور جذباتی طور پر اللہ سے خوف زدہ رہا- مشکل یہ تھی کہ میری شخصیت کا بنیادی جذبہ خوف تھا- ایک ڈرا سہماہوا- تنہا- اکیلابچّہ تھا- یہ خصوصیت صرف بچپن پر محدود نہ تھی-زندگی بھر میں ایک ڈرا ہوا سہما ہوا فرد رہا- رات پڑتی اندھیرا چھا جاتا تو مجھہ پر خوف طاری ہوجاتا- اُس وقت خُدا یاد آجاتا- دن کے اُجالے میں خُدا کی کوئی حیثیت نہ رہتی- بلکہ دن کے وقت میں خُدا کا مذاق اُڑایاکرتا تھا- لاہور پہنچ کر دوسرا جذبہ جو میرے دل میں پیدا ہوا- حیرت کا تھا حیرت کی بات تھی کہ میں صحیح سلامت لاہور کیسے پہنچ گیا-پہنچنے کے امکانات بہت کم تھے- میں نے بہت کوشش کی کہ اس خیال کو توجہ سے ہٹا دوں- دوسری باتوں کی طرف توجہ مبذول کر لوں، لیکن جتنا میں اس خیال کوذہن سے نکالتا اُتنا ہی وہ مسلّط ہوتا- پتہ نہیں ایسے کیوں ہوتا ہے، لیکن ایسے ہوتا ہے- خوف یا تو خطرے کے آنے سے پہلے اور یا اُس کے گزر جانے کے بعد پیدا ہوتا ہے- خطرے کے وقت انسان چند ساعت کے لیے بے خوف ہوجاتا ہے- خطرہ گزر چکا تھا، لیکن اب اُس کی ایک ایک تفصیل میرے ذہن میں آ رہی تھی- خوف طاری ہو رہا تھا- خوف اور حیرت- وہ کوائف جو خطرے کے دوران دھندلے پڑ گئے تھے- اب وضاحت سے سامنے آرہے تھے- سوچتا- قتل وخون کے اس جھگڑے میں میں کیسے بچط نکلا- حیرت بڑھتی جا رہی تھی-
 
اتفاقات

تین ستمبر کو میں ٹرک لے کر لاہور سے بٹالے پہنچا تھا، جو پٹھانکوٹ روڈ پر امرتسر سے 24 میل دور- ضلع گورداسپور میں واقع ہے- اور جو خلافِ اصول خلافِ توقع بھارت میں شامل کر دیا گیا تھا- تاکہ اپنے والدین بھائی بہنوں اور بیٹے کو پاکستان لے آؤں- بٹالے کے ہندوؤن نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ تیس ستمبر کے بعد مُسلمانوں کو سمجھہ لیں گے- پہلی اکتوبر کو بٹالے کے مُسلمانوں پر بہت بڑا حملہ ہونے والا تھا-اگرچہ تقسیم چہدہ اگست کو ہوچکی تھی، لیکن شہر میں مُسلمان فرنٹیر فورس مقیم تھی جسے تیس ستمبر کی رات کو وہاں سے ہٹا لیا جانا تھا-
اگر میں ایک دن کی تاخیر سے بٹالے پہنچتا تو منشیاں محلّے کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی ہوتی- اور وہاں جلتے ہوئے ڈھیر کے سوا کچھہ باقی نہ ہوتا- میرا عین وقت پر پہنچ جانا کیا محض اتفاق تھا-
پھر جب ہم ٹرک میں سوار بٹالے سے امرتسر کی جانب آ رہے تھے، تو سڑک پر کوئی بلوائی نہ تھا، صرف کوّے تھے، کتّے تھے، چیلیں تھیں اور گدھہ تھے، جو سڑک پر پڑی ہوئی لاشوں کو جھنجھوڑ رہے تھے- اس کی وجہ یہ تھی کہ بلوائیوں کو اطلاع مل چکی تھی کہ گورداسپور سے مُسلمانوں کی پہلی ریفوجی ٹرین آ رہی ہے- یہ خبر سُن کر تمام بلوائی ریلوے لائن کے دو رویہ قطاریں بنائے ٹرین کی انتظار میں کھڑے تھے-
اُنہوں نے ہاتھوں میں درخت کی ٹہنیاں اُٹھا رکھی تھیں تاکہ دور سے جھاڑیوں کی قطاریں معلوم ہوں-سڑک سے ریل کی لائن صاف نظر آتی تھی-
بلوائیوں نے ہمارے ٹرک کو سڑک پر چلتے ہوئے دیکھا تھا- دیکھہ کر نعرے بھی لگائے تھے- اکھنڈ بھارت سے جانے نہ پائے، لیکن وہ ڈرتے تھے کہ اگر سڑک کی طرف آئے تو ریفوجی ٹرین ہاتھہ سے نکل جائے گی- ٹرین میں سوار ہزاروں مُسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کی لذّت کے مقابلے میں ٹرک کے چند ایک مُسلمانوں کو قتل کرنے می کیا حیثیت تھی-
رہ رہ کر مجھے خیال آتا کہ اگر اُس روز ریفوجی ٹرین کی آمد آمد نہ ہوتی تو ہم سب کی بوٹیاں سڑک پر بچھی ہوتیں- کیا یہ بھی ایک اتّفاق تھا-
پھر جب ہم امرتسر میں داخل ہو رہے تھے تو سپاہی نے ہاتھہ دکھا کر ہمیں روک لیا تھا اور ساتھہ ہی سڑک کے پہلو میں چھپے ہوئے بلوائیوں کو اشارہ کردیا تھا- بلوائی ٹرک می طرف دوڑے تھے- پھر پتہ نہیں کیا ہوا- چوک کے سپاہی کی جگہ ایک رومی ٹوپی والا ابھر آیا- اُس نے ہمارے ٹرک کو راستہ دے دیا تھا- ٹرک چل پڑا تھا اور بلوائی پیچھے رہ گئے- پھر ٹرک ڈرائیور نے جو ایک فوجی تھا- ٹرک کو سڑک سے اُتار کر کھیتوں میں ڈال دیا تھا-
وہ رومی ٹوپی والا کون تھا- سکھوں کے گڑھہ میں رومی ٹوپی- بات میری سمجھہ سے بالا تر تھی-
مرتسر سے اناری تک یہاں وہاں سکھوں کے جتھے موجود تھے- وہ ٹرک کو دیکھہ کر چنگھاڑتے تھے- نعرے لگاتے تھے- کرپانیں ہلاتے تھے، لیکن کسی نے ٹرک پر حملہ نہیں کیا تھا- کیوں - وہ یوں کھڑے تھے جیسے کسی نے اُن کو کیل دیا ہو-
کیا یہ سب اتفاقات تھے-
پھر مجھے بمبئی سے لاہور آنے سے متعلق تفصیلات یاد آ جاتیں-
بمبئی میں احمد بشیر اور مجھے قطعی طور پر علم نہ تھا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی پاکستان کو جانے کے راستے بند کر دیے جائیں گے اور مُسلمانوں کے قتل وخون کا بازار گرم ہوجائے گا- بمبئی میں ہمارے پاس روپیہ ختم ہو گیا تھا- ضروری تھا کہ لاہور جا کر پبلشر سے رقم حاصل کی جائے- میں نے احمد بشیر سے کہا تم جاؤ- وہ نہ مانا لٰہذا مجھے خود لاہور آنا پڑا- دقّت یہ تھی کہ ہمارے پاس کرایے کی رقم بھی نہ تھی- لٰہذا اُدھار مانگنا پڑا- بمبئی میں اُدھار حاصل کرنا آسان کام نہیں-
جس گاڑی سے میں لاہور پہنچا- وہ آخری گاڑی تھی-اُس کے بعد امرتسر سے لاہور کا راستہ بند ہو گیا- حملے شروع ہو گئے اگر قرض حاصل کرنے میں ایک دن کی تاخیر ہو جاتی، تو میں کبھی لاہور نہ پہنچ پاتا- اگر میں لاہور نہ پہنچتا تو ٹرک لے کر بٹالے نہ پہنچ سکتا اور عین ممکن تھا کہ میرے تمام عزیز بٹالے میں ہی ختم ہوجاتے-
اتنے سارے اتفاقات-
میری حیرت بڑھتی جاتی تھی- اگر میرا اللہ پر ایمان ہوتا تو سمجھتا کہ یہ سب اللہ کا کرم ہے-یوں حیرت شکر گزاری کے جذبات میں بدل جاتی، لیکن میرے ذہن میں اللہ کے کرم کا کوئی مفہوم نہ تھا- لٰہذا میں حیرت کے سمندر میں ڈُبکیاں کھاتا رہا کھاتا رہا-
 
لاہور

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب برصغیر دردِ زہ میں مبتلا تھا- پاکستان کی پیدائش کا اعلان ہو چکا تھا- لیکن عمل جاری تھا اور یہ عمل اس قدر حیران کن اذّیت ناک اور خونیں تھا کہ مُسلمان شاک کے عالم میں تھے-اُنہیں سمجھہ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے- کیوں ہو رہا ہے-
مُسلمانوں نے کئی سال آزادی کی جدوجہد میں گزارے تھے اور اب اُن کی کوششیں کامیاب ہو چکی تھیں- وہ آزادی کی جدوجہد میں اس قدر مصروف تھے کہ اُنہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو دُشمن انتقامی کاروائی کر سکتا ہے- اُنہوں نے اس بات پر نھی توجہ نہ دی تھی- کہ دُشمن منصوبہ بندی سے کام لے رہا ہے اور اپنے پلان کو عملی صورت میں لا رہا ہے- وہ شبخون مار کر قیامِ پاکستان پر ضرب مار سکتا ہے- ایسی ضرب جو نوزائیدہ مُملکت کو اس قدر کمزور کر دے کہ وہ سالہا سال اپنے قدم جمانے میں قابل نہ رہے- اس شبخون کی وجہ سے مشرقی پنجاب میں مُسلمانوں کے خون کی ندّیاں بہہ رہی تھیں- بہاؤ لاہور کی طرف تھا- لاہور خون کی بو سے متعفن ہو رہا تھا-امرتسر اور اس کے گردونواح میں مُسلمانوں نے وہ وہ کچھہ دیکھا اور بیتا تھا کہ اُن کے ذہنوں پر دیوانگی مسلّط تھی- وہ لاہور کے مُسلمانوں کو للکار رہے تھے- انتقام پر اُبھار رہے تھے-
میں اپنے مکان کی چھت پر کھڑا شہر کا جائزہ لے رہاتھا- سڑکیں سنسان پڑی تھیں- چاروں طرف خاموشی طاری تھی- یہاں وہاں اکا دکا لوگ سر لٹکائے چل پھر رہے تھے- دور کہیں کہیں دھویئیں کے مرغولے اُٹھہ رہے تھے-
یہ وہ لاہور نہیں تھا جس سے میں واقف تھا- دن بھر خاموشی چھائی رہتی- لمبے وقفوں کے شور کا ریلا سنائی دیتا جیسے بہت سے لوگ چیخ رہے ہوں چنگھاڑ رہے ہوں اور پھر سے بھیانک خاموشی چھا جاتی- رات کے وقت بار بار آوازیں سنائی دیتیں- گولیاں چلتیں- پٹاخے چھوٹتے- نعرے لگتے- چیخوں کی آوازیں سنائی دیتیں اور پھر ڈراؤنی خامشی طاری ہوجاتی-
چار ایک دن تو میں چھت پر کھڑا ہو کر یہ منظر دیکھتا رہا- پھر ایک روز گھابرا کر باہر نکل گیا- باہر نکلنے کی خواہش زور پکڑتے جاتی- دل میں ایک کشمکش لگ جاتی- اس تکلیف دہ کشمکش سے مخاصی پانے کے کے لیے میں باہر نکل گیا-
بازاروں میں کوئی کوئی راہ گیر چلتا ہوا نظر آرہا تھا- ڈرا ڈرا سہماسہما-
بازاروں میں کہیں کہیں لاشیں پڑی گل سڑ رہی تھیں-نالیوں میں خون جما ہوا تھا-کہیں کہیں گروہ ہلڑ مچا رہے تھے- وہ اشتعال پر مائل تھے-یہ بھی خوف کی ایک صورت تھی-
یہ گروہوں کے دن تھے فرد سر چھپائے گھر بیٹھا تھا-

تذلیل

دفعتاً نوجوانوں کے ایک گروہ نے میرا راستی روک لیا- مجھے سائیکل سے اُتار لیا-
کون ہے تو ایک نوجوان نے ہاکی اسٹک گھماتے ہوئے پوچھا-
کوئی بھی ہوں- تجھے اس سے مطلب، میں نے غصّےمیں کہا-
ہندو ہے، ہندو ہے- سب چلانے لگے-
سیدھی طرح سے بتا دے اُن کے لیڈر نے کہا نہیں تو-


نہیں تو کیا- میں غصّے میں بولا-
ہندو ہے ہندو ہے- پکڑ لو پکڑ لو ایک لڑکا چلایا-
کلمہ پڑھہ کر سنا- لیڈر نے رعب جھاڑا-
نہیں سناتا میں غصّے میں بولا-
ہندو ہے ہندو- آوازیں آئیں-
وہ سب میری طرف بڑھے دھکے دینے لگے اور دھکیل کر میدان کی طفر لے گئے- میرا دل چاہتا تھا کہ چینخ چینخ کر کہوں میں ہندو ہوں- ہندو ہوں، لیکن مجھہ میں جرات نہ تھی- نوجوانوں کے تیور دیکھہ کر میں گھبرا گیا- ہٹ جاؤ، ہٹ جاؤ میں چلایا- تم ایک مُسلمان کو ناحق تنگ کر رہے ہو-
ابے جاجا- ہم نے دیکھے ہیں تجھہ سے مُسلمان ایک بولا-
ساڈے نال چلاکیاں کرنا ایں
پکڑ لو پکڑ لو چھوٹے بچّے چینخنے لگے-
مجھے پسینہ آگیا- ٹانگیں کانپنے لگیں-
اگر میں ابتدا ہی میں کلمہ پڑھہ کر سنا دیتا تو بات نہ بڑھتی- اب کلمہ پڑھنا میرے لیے مشکل ہوا جا رہا تھا- میری انا مجروح ہوئی تھی، لیکن نوجوانوں کا رویہ سخت تر ہوتا جا رہا تھا-
ایک نوجوان چُھرا لہرا رہا تھا-
عین اُس وقت سڑک پر ایک سائیکل سوار گزرا- اُس نے مجمع دیکھہ کر تفرحاً نعرہ لگایا- پکڑ لو جانے نہ پائے اس نعرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا-
نوجوانوں میں تازہ وحشت جاگی-
علی علی نوجوانوں نے نعرہ لگایا-
میری انا کی ساری پھونک نکل گئی- ٹھہرو میں چلایا ٹھہرو اور پھر کلمہ پڑھنے لگا-
جھوٹا کلمہ جھوٹا کلمہ چھوٹے بچّوں نے شور مچادیا-
اس پر سب مجھے ٹھڈے مارنے لگے- دو ایک نے گھونسے بھی مارے-
اس وقت سامنے محلّے سے ایک نوجوان بھاگا بھاگا آیا- بولا کیا بات ہے-


چھوتے بچّے چلائے جھوٹا کلمہ پڑھہ رہا ہے-
سر پر بودی ہے-
گلے میں جنوُ بھی ہے دوسرے نے کہا-
ٹھہرو نووارد بولا- ابھی پتہ چل جاتا ہے، اس کی بانہیں پکڑ لو اچھی طرح مضبوطی سے آزار بند کھول دو-
میرا دل ڈوب گیا- یہ ذلّت کی انتہا تھی- پھر مجھے پتہ نہیں- گردوہیش پر اندھیرا چھا گیا- کچھہ دیر کے بعد وہ سب مجھے چھوڑ کر قہقہے لگاتے ہوئے سڑک کی طرف بھاگے جا رہے تھے-
یہ تذلیل کی انتہا تھی- میرے اپنے شہر میں- مُسلمانوں کے ہاتھوں- میرے اندر ایک وحشت جاگی- ان جانے میں میں چلایا- میں مُسلمان نہیں ہوں- میں مُسلمان نہیں ہوں-پھر مجھے یاد نہیں کب سائیکل اُٹھایا- کب وہاں سے چل پڑا-
ہوش آیا تو دیکھا کہ میں ریلوے اسٹیشن کے سامنے کھڑا ہوں-
 
لاہور

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب برصغیر دردِ زہ میں مبتلا تھا- پاکستان کی پیدائش کا اعلان ہو چکا تھا- لیکن عمل جاری تھا اور یہ عمل اس قدر حیران کن اذّیت ناک اور خونیں تھا کہ مُسلمان شاک کے عالم میں تھے-اُنہیں سمجھہ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے- کیوں ہو رہا ہے-
مُسلمانوں نے کئی سال آزادی کی جدوجہد میں گزارے تھے اور اب اُن کی کوششیں کامیاب ہو چکی تھیں- وہ آزادی کی جدوجہد میں اس قدر مصروف تھے کہ اُنہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو دُشمن انتقامی کاروائی کر سکتا ہے- اُنہوں نے اس بات پر نھی توجہ نہ دی تھی- کہ دُشمن منصوبہ بندی سے کام لے رہا ہے اور اپنے پلان کو عملی صورت میں لا رہا ہے- وہ شبخون مار کر قیامِ پاکستان پر ضرب مار سکتا ہے- ایسی ضرب جو نوزائیدہ مُملکت کو اس قدر کمزور کر دے کہ وہ سالہا سال اپنے قدم جمانے میں قابل نہ رہے- اس شبخون کی وجہ سے مشرقی پنجاب میں مُسلمانوں کے خون کی ندّیاں بہہ رہی تھیں- بہاؤ لاہور کی طرف تھا- لاہور خون کی بو سے متعفن ہو رہا تھا-امرتسر اور اس کے گردونواح میں مُسلمانوں نے وہ وہ کچھہ دیکھا اور بیتا تھا کہ اُن کے ذہنوں پر دیوانگی مسلّط تھی- وہ لاہور کے مُسلمانوں کو للکار رہے تھے- انتقام پر اُبھار رہے تھے-
میں اپنے مکان کی چھت پر کھڑا شہر کا جائزہ لے رہاتھا- سڑکیں سنسان پڑی تھیں- چاروں طرف خاموشی طاری تھی- یہاں وہاں اکا دکا لوگ سر لٹکائے چل پھر رہے تھے- دور کہیں کہیں دھویئیں کے مرغولے اُٹھہ رہے تھے-
یہ وہ لاہور نہیں تھا جس سے میں واقف تھا- دن بھر خاموشی چھائی رہتی- لمبے وقفوں کے شور کا ریلا سنائی دیتا جیسے بہت سے لوگ چیخ رہے ہوں چنگھاڑ رہے ہوں اور پھر سے بھیانک خاموشی چھا جاتی- رات کے وقت بار بار آوازیں سنائی دیتیں- گولیاں چلتیں- پٹاخے چھوٹتے- نعرے لگتے- چیخوں کی آوازیں سنائی دیتیں اور پھر ڈراؤنی خامشی طاری ہوجاتی-
چار ایک دن تو میں چھت پر کھڑا ہو کر یہ منظر دیکھتا رہا- پھر ایک روز گھابرا کر باہر نکل گیا- باہر نکلنے کی خواہش زور پکڑتے جاتی- دل میں ایک کشمکش لگ جاتی- اس تکلیف دہ کشمکش سے مخاصی پانے کے کے لیے میں باہر نکل گیا-
بازاروں میں کوئی کوئی راہ گیر چلتا ہوا نظر آرہا تھا- ڈرا ڈرا سہماسہما-
بازاروں میں کہیں کہیں لاشیں پڑی گل سڑ رہی تھیں-نالیوں میں خون جما ہوا تھا-کہیں کہیں گروہ ہلڑ مچا رہے تھے- وہ اشتعال پر مائل تھے-یہ بھی خوف کی ایک صورت تھی-
یہ گروہوں کے دن تھے فرد سر چھپائے گھر بیٹھا تھا-

تذلیل

دفعتاً نوجوانوں کے ایک گروہ نے میرا راستی روک لیا- مجھے سائیکل سے اُتار لیا-
کون ہے تو ایک نوجوان نے ہاکی اسٹک گھماتے ہوئے پوچھا-
کوئی بھی ہوں- تجھے اس سے مطلب، میں نے غصّےمیں کہا-
ہندو ہے، ہندو ہے- سب چلانے لگے-
سیدھی طرح سے بتا دے اُن کے لیڈر نے کہا نہیں تو-


نہیں تو کیا- میں غصّے میں بولا-
ہندو ہے ہندو ہے- پکڑ لو پکڑ لو ایک لڑکا چلایا-
کلمہ پڑھہ کر سنا- لیڈر نے رعب جھاڑا-
نہیں سناتا میں غصّے میں بولا-
ہندو ہے ہندو- آوازیں آئیں-
وہ سب میری طرف بڑھے دھکے دینے لگے اور دھکیل کر میدان کی طفر لے گئے- میرا دل چاہتا تھا کہ چینخ چینخ کر کہوں میں ہندو ہوں- ہندو ہوں، لیکن مجھہ میں جرات نہ تھی- نوجوانوں کے تیور دیکھہ کر میں گھبرا گیا- ہٹ جاؤ، ہٹ جاؤ میں چلایا- تم ایک مُسلمان کو ناحق تنگ کر رہے ہو-
ابے جاجا- ہم نے دیکھے ہیں تجھہ سے مُسلمان ایک بولا-
ساڈے نال چلاکیاں کرنا ایں
پکڑ لو پکڑ لو چھوٹے بچّے چینخنے لگے-
مجھے پسینہ آگیا- ٹانگیں کانپنے لگیں-
اگر میں ابتدا ہی میں کلمہ پڑھہ کر سنا دیتا تو بات نہ بڑھتی- اب کلمہ پڑھنا میرے لیے مشکل ہوا جا رہا تھا- میری انا مجروح ہوئی تھی، لیکن نوجوانوں کا رویہ سخت تر ہوتا جا رہا تھا-
ایک نوجوان چُھرا لہرا رہا تھا-
عین اُس وقت سڑک پر ایک سائیکل سوار گزرا- اُس نے مجمع دیکھہ کر تفرحاً نعرہ لگایا- پکڑ لو جانے نہ پائے اس نعرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا-
نوجوانوں میں تازہ وحشت جاگی-
علی علی نوجوانوں نے نعرہ لگایا-
میری انا کی ساری پھونک نکل گئی- ٹھہرو میں چلایا ٹھہرو اور پھر کلمہ پڑھنے لگا-
جھوٹا کلمہ جھوٹا کلمہ چھوٹے بچّوں نے شور مچادیا-
اس پر سب مجھے ٹھڈے مارنے لگے- دو ایک نے گھونسے بھی مارے-
اس وقت سامنے محلّے سے ایک نوجوان بھاگا بھاگا آیا- بولا کیا بات ہے-


چھوتے بچّے چلائے جھوٹا کلمہ پڑھہ رہا ہے-
سر پر بودی ہے-
گلے میں جنوُ بھی ہے دوسرے نے کہا-
ٹھہرو نووارد بولا- ابھی پتہ چل جاتا ہے، اس کی بانہیں پکڑ لو اچھی طرح مضبوطی سے آزار بند کھول دو-
میرا دل ڈوب گیا- یہ ذلّت کی انتہا تھی- پھر مجھے پتہ نہیں- گردوہیش پر اندھیرا چھا گیا- کچھہ دیر کے بعد وہ سب مجھے چھوڑ کر قہقہے لگاتے ہوئے سڑک کی طرف بھاگے جا رہے تھے-
یہ تذلیل کی انتہا تھی- میرے اپنے شہر میں- مُسلمانوں کے ہاتھوں- میرے اندر ایک وحشت جاگی- ان جانے میں میں چلایا- میں مُسلمان نہیں ہوں- میں مُسلمان نہیں ہوں-پھر مجھے یاد نہیں کب سائیکل اُٹھایا- کب وہاں سے چل پڑا-
ہوش آیا تو دیکھا کہ میں ریلوے اسٹیشن کے سامنے کھڑا ہوں-
 
گوشت کی گٹھڑیاں

سامنے مسافر خانے میں، فٹ پاتھہ پر سڑک پر مہاجر مرد عورتوں اور بچّوں کا ایک ہجوم زمین پر بیٹھا ہوا تھا- ان کی گردنیں لٹکی ہوئی تھیں- کندھے مڑے ہوئے تھے- آنکھیں یوں کھلی تھیں- جیسے بند ہونے کی قوت نہ رہی ہو- چہرے حیرت اور خوف وہراس سے بد نما ہو رہے تھے-
پھر شور بلند ہوا- امرتسر سے گاڑی آگئی- سب لوگ پلیٹ فارم کی طرف بھگے، لیکن مہاجر جوں کے توں بیٹھے رہے، جیسے کوئی بات ہی نہ ہو-
میں نے سائیکل کو تالہ لگایا اور انجانے میں اندر کی طرف چل پڑا- پلیٹ فارم پر پہنچا تو بو کا ایک ریلا آیا- میں رک گیا- لوگ ناک پر رومال رکھے گاڑی کے ڈبوں میں داخل ہو رہے تھے- جب وہ باہر نکلتے تو چہرے پت کراہت کے آثار نمایاں ہوتے-
میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ گاڑی میں ‌داخل ہوں- اس کے باوجود میں ادھر کھنچا جا رہا تھا- یوں جیسے خوف نے ہپنا ٹائیز کر رکھا ہو- بادل نخواستہ میں ڈبے کی طرف بڑھا- دروازے میں رک گیا- وہاں خون کا چھپڑ لگا ہوا تھا- سامنے ایک بوڑھی عورت گٹھڑی کی طرح پڑی تھی- آنکھجیں پتھرائی ہوئی تھیں دونوں ہاتھ پیٹ پر تھے- سامنے پیٹ سے نکلی ہوئی آنتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا- دیر تک میں بڑھیا کو گھورتا رہا- خون کی بو سے طبیعت مالش کر رہی تھی- سر چکرا رہا تھا- نظر دھندلی پڑتی جا رہی تھی- گاڑی کے اندر داخل ہونے کی ہمت نہ پڑی دروازے میں کھڑے کھڑے ڈبے کا جائزہ لیا سارے ڈبے میں کتے ہوئے گوشت کی ڈھیریاں لگی ہوئی تھیں- دو بازو اوپر تختے سے لٹک رہے تھے، دو کتے ہوئے سر فرش پر لڑھک رہے تھے- ایک بچّہ ہک سے لٹک رہا تھا-
گھبرا کر میں باہر نکل آیا اور پلیٹ فارم کی ایک بنچ پر دھڑام سے گر گیا- جی کچا ہو رہا تھا- پلیٹ فارم گھوم رہاتھا- دل بیٹھا جا رہا تھا-
جب طبیعت سنبھلی تو قریب ہی سے آوازیں سنائی دیں یہ گاڑی شملے سے آئی ہے- سنٹرل گورنمنٹ کے ملازموں کی گاڑی ہے-
قریب ہی دو شخص آپس میں باتیں کر رہے تھے-
یاد ہے جب لاہور سے ہندو گورنمنٹ سرونٹس کی گاڑی گئی تھی تو اُن کے گلوں میں ہار ڈالے گئے تھے-
شاید شملے میں اُن کے گلوں میں بھی ہار ڈالے گئے ہوں-
ہاں- اور ساتھہ ہی امرتسر کے غنڈوں کو ہشیار کر دیا گیا ہو کہ پہنچنے نہ پائیں-
یہی مُسلمان کا فرق ہے مُسلمان اپنے ہاتھہ سے قتل کرتا ہے ہندو دوجے کے ہاتھہ سے قتل کراتا ہے-
ہر دو لعنت ہر دو لعنت میرے دل سے آواز آئی-
عین اُس وقت ایک شخص گاڑی سے نکل کر چینخنے لگا- کوئی بچ کر نہ جائے- کوئی بچ کر نہ جائے- اُس کے منہ سے کف جاری تھا- آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا-
پتہ نہیں اُس وقت مجھے کیا ہوا- میری مُٹھیاں ازخود بند ہو گئیں- بازو ہوا میں لہرایا- کوئی بچ کر نہ جائے میرے منہ سے چیخ سی نکلی اور میں جوش میں اُٹھہ بھاگا- میری کنپٹیاں پھڑک رہی تھیں- آنکھوں تلے گوشت کی گٹھڑیاں بندھی پڑی تھیں-
باہر مہاجروں کے انبوہ کو دیکھہ کر میں نے محسوس کیا جیسے وہ بھی کٹے ہوئے گوشت ہوں-
صدمے کی گٹھڑیاں ہوں ---------- بے بسی کی گٹھڑیاں- جیتی جاگتی لاشیں-کوئی بچ کر نہ جائے میں نے جوش میں دہرایا- دفعتاً مجھے یاد آیا کہ میں نے ایک ہندو کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے-
نہیں نہیں دل سے آواز آئی فکر تونسوی ہندو نہیں ہے میں لڑکھڑایا اور بنچ پر بیٹھہ گیا-
 
فکرتونسوی

فکر تونسوی میرا ہم کار تھا دوست تھا ساتھی تھا- گزشتہ تین سال ہم نے اکٹھے گزارے تھے-
فکر میں عجز کوٹ کوٹ کر بھرا تھا- گردن اُٹھا کر نہیں لٹکا کر چلتا تھا- اُسے باتیں کرنے کی نہیں بلکہ سننے کی عادت تھی- اُس نے کسی معاملے میں کبھی اپنی رائے پیش نہ کی تھی گمان ہوتا تھا کہ اس کی اپنی رائے ہے ہی نہیں- حالانکہ وہ ایک دانشور تھا درحقیقت وہ دل کی گہرائیوں میں جیتا تھا اور وہ اتنی گہری تھیں کہ کوئی لہر اُبھر کرسطح پر نہیں آتی تھی- اُسا کے چہرے پر ایک پھیکی مسکراہٹ کے سوا کسی ردعمل کا اظہار نہیں ہوتا تھا-
فکر غربت میں زندگی بسر کر رہا تھا- اُس نے کبھی شکایت نہ کی تھی- برتاؤ سے بے اطمینانی کا اظہار نہ ہوا تھا- ایسے لگتا تھا جیسے اُس نے غربت کو اپنا گھونسلہ بنا رکھا ہو-
فکر اور مجھہ میں کوئی مناسبت نہ تھی- اس کے باوجود ہم دونوں ساتھی بن گئے تھے-
جب برصغیر کی تقسیم کا سوال اُٹھا تو فکر نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا تھا- جب لاہور میں ہندوؤں اور سکھوں کا وہ تاریخی جلوس نکلا جس میں سکھوں کے ہاتھوں میں ننگی کرپانیں تھیں اور ہندنیاں قیامِ پاکستان پر سیاپا کر رہی تھیں- تو بھی فکر تونسوی میں کوئی اضطراب پیدا نہ ہوا تھا- جب لاہور میں چھرا بازی کی وارداتیں شروع ہوئیں تو بھی وہ چپ چاپ بیٹھا رہا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو-
ایک روز میں نے پوچھا، فکر اگر پاکستا بن گیا تو-

تو کیا اُس نے پوچھا-
تو تم کیا کرو گے-
کچھہ بھی نہیں وہ بولا-
اگر فسادات یونہی بڑھتے گئے تو-
بڑھتے جائیں اُس نے بے پروائی سے کہا-
تم بھارت جانے کا تو نہیں سوچ رہے-
میں کہاں جاؤں گا- میں اسی دھرتی کا بوٹا ہوں اُس نے جواب دیا-
واقعی فکرتونسوی اسی دھرتی کا بوٹا تھا-
جس ادارے میں ہم دونوں کام کرتے تھے اُس کا مالک چودھری برکت علی ایک وسیع القلب شخص تھا زبان کا کڑوا بات کا کھرا اور منہ پر آئی کہہ دینے والا-
اُس نے فکرتونسوی سے کہا تھا- فکر تم ہمیں چھوڑ کر جانا چاہو تو بے شک جاؤ تمہاری مرضی، لیکن ہم ہمیشہ کے لیے تمہیں پاس رکھیں گے- اپنی حفاظت میں رکھیں گے- کسی کی جرات نہ ہوگی کہ تمہاری طرف آنکھہ اُٹھا کر دیکھے-
پھر ایک روز فکر متفکر نظر آ رہا تھا- چونکہ جس ہندو محلّے میں وہ رہتا تھا وہاں کے سب لوگ بھارت جا رہے تھے- یہ پہلا دن تھا کہ اُس کے چہرے پر فکر کے آثار نظر آئے-
چند ایک روز کے بعد دفتر کی سامنی سڑک پر غنڈے راؤنڈ کرنے لگے تھے-
ادارے کا مینیجر کٹر قسم کا مُسلمان تھا-
وہ اکثر مذاق میں کہتا فکرتونسوی اب اپنا انتظام کر لو ورنہ مجھے ڈر ہے کہ تمہاری وجہ سے وہ اس دفتر کو آگ لگا دیں گے-
ایک روز میں نے پوچھا کہ فکر تمہارے سارے کٹڑ کے لوگ سب چلے گئے-
سب چلے گئئے، وہ بولا-
تم اکیلے رہ گئے ہو-
میں تو ہمیشہ سے اکیلا ہوں وہ مسکرایا اُس کی پھیکی مسکراہٹ میں دُکھہ تھا-
عین اُسا وقت غنڈوں کا ایک جتھا دفتر کے باہر آ کھڑا ہوا- مینجر گھبرا گیا- وہ باہر نکل گیا-

کچھہ دیر کے بعد وہ لوٹا-
ہجوم باہر نعرے لگا رہا تھا- گالیاں بک رہا تھا- اندر ہم سب پر گھبراہٹ طاری تھی، لیکن فکر تونسوی چپ چاپ بیٹھا لکھہ رہا تھا-
مینجر سیدھا میرے پاس آیا بولا آج سے میری ذمّے داری ختم- اگر وہ اندر آ کر فکر کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیں تو مجھ پر الزام نہ دھرنا-
بات کیا ہے دفتر کے کارکنوں نے پوچھا-
بات سامنے دھری ہے وہ بولا- ساتھہ ہی فکر کی طرف اشارہ کیا-
امرتسریوں کے جتھے بازاروں میں گھوم رہے ہیں- امرتسر میں ہزارہا مُسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا گیا ہے- مُسلمانوں کے محلوں کو آگ لگا دی گئی دوکانوں کو لوٹ لیا ہے- جو بچ کر یہاں پہنچے ہیں اُنہوں نے لاہوریوں کو چوڑیوں کا تحفہ بھیجا ہے- مطلب ہے تم مرد نہیں ہو چوڑیاں پہن کر گھر بیٹھو- ہم انتقام لیں گے- جتھے والے کہہ رہے تھے- اپنے ہندو سٹاف کو نکال دو نہیں تو ہم دوکان کو آگ لگا دیں گے- یہ کہہ کر مینجر سر پکڑ کر بیٹھہ گیا- چلو فکرتونسوی میں نے کہا- چلو گھر چلیں-
احمق نہ بنو مینجر چلایا- اسے ساتھہ لے کر باہر نکلے تو وہ تم کو بھی چھرا گھونپ دیں گے-
گھونپ دیں- غصّے کی وجہ سے مجھہ میں جرات پیدا ہو گئی تھی- میں مُسلمان نہیں ہوں- یہ میری دلیری نہ تھی- بلکہ خوف کی انتہا تھی- خوف حد سے بڑھہ جائے تو انسان ڈسپریٹ ہو کر بے خوف ہوجاتا ہے-
یہ دوستی کا جذبہ بھی نہ تھا اور قربانی کے جذبے سے تو میں سراسر کورا تھا- یہ صرف ضد تھی- غصّہ تھا- مُسلمانوں کے خلاف غصّہ-
پھر جب میں فکر کو اپنے سائیکل پر بٹھا کر گھر لے جارہا تھا تو دفعتاً ڈسپریشن کا وہ دھندلکا صاف ہوگیا خوف سے پسینے آنے لگے- اگر کسی نے راستے میں روک لیا تو ------------
دقّت یہ تھی کہ فکر سائیکل پر آگے بیٹھا ہوا تھا- اگرچہ اُس کے خیالات اور جذبات ہندویت سے کورے تھے- لیکن خیالات اور جذبات کو کون پوچھتا ہے- وہ تو شکل دیکھتے ہیں اور شکل سے فکر تونسوی ٹیٹھہ رام لال تھا- چہرے پر ہندو پن کے ڈھیر لگے ہوئے تھے-
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شمشاد بھائی اور ناعمہ آپی آپ دونوں کو اب میں دو دو لگاؤں گا یہ جگہ باتیں کرنے کے لیے نہیں ہے یہ لائبریری پراجیکٹ ہے یہاں باتیں برداشت نہیں ہوتی شمشاد بھائی باتوں والے سارے مراسلات منتقل کر دیں گپ شب میں
 

شمشاد

لائبریرین
یہ پراجیکٹ تو ادھر ہی ختم ہوا پڑا ہے۔ کہ محب کا آخری مراسلہ 11 اگست 2006 کا ہے۔ انشاء اللہ اگست میں اس کی پانچویں سالگرہ منائیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
کاپی رائٹ کا مسئلہ تھا نا۔۔۔ اس لئے اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ ویسے کاپی رائٹ سے آزاد کتابوں پر بھی کس کی توجہ ہے۔ مولانا آزاد کی کتابیں ادھوری پڑی ہیں!!
 
Top