اللہ میاں کے مہمان۔۔۔ اعجاز عبید

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

الف عین

لائبریرین
پہلی بات
مشتااق یوسفی کا کون مدّاح نہیں۔ ہم بھی ان کے خوشہ چینوں میں سے رہے ہیں۔ لیکن کچھ اس خوش فہمی کے ساتھ کہ در اصل ہماری ذہنی بُناوٹ (مائنڈ سیٹ) ان کا سا ہے۔ اگر چہ ہم نے شعوری کوشش کبھی نہیں کی کہ ان کی نقل کی جائے۔ اگر ہم جھوٹ نہیں بول رہے ہوں تو ہم نے اپنے پیسوں سے جو پہلی کتاب خریدی وہ ’چراغ تلے‘ تھی۔ اس کے بعد "خاکم بدہن‘ نبھی ہم نے اپنی ہی رقم سے خریدی، نہ کسی سے عاریتاً لی اور نہ چُرائی۔ تیسری کتاب جب سامنے آئی تو ہمارے گھر میں ہمارے، بلکہ ہماری نصف بہتر کے بھانجے افتخار بھی تھے۔ وہ خود بھی یہ کتاب خریدنا چاہتے تھے اور سوچا کہ ٹھیک ہے، گھر میں ایک کتاب تو رہے گی ہی۔ چنانچہ اس طرح ہم یہ کتاب ’آبِ گُم‘ پڑھ کر بھول گئے۔ افتخار بھی دوسرے گھر میں شفٹ ہو گئے اور ہمیں بھی غمِ روزگار میں یہ یاد نہیں رہا کہ ایک کتاب اور بھی ہماری ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم جب 1997 میں حج کے لئے گئے تو یہ حج کا دلچسپ (بزعمِ خود) سفر نامہ تخلیق کیا۔ اور اس کے پیشِ لفظ کو وہی نام دے دیا ’پس و پیشِ لفظ‘۔ اور عرصے تک خیال بھی نہیں رہا۔ جب اپنی ہی کتاب پڑھتے تو اس لفظ سے لطف اندوز ہوتے۔
خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ 2005 کے آخر میں ایک دوسرا سفر در پیش ہوا، امریکہ کا۔ ہیوسٹن میں تو ہمارا بیٹا کامران ہی رہائش پذیر ہے، قریب ہی ڈیلاس میں افتخار کے پاس بھی جانا ہوا بلکہ دو دن وہاں رہائش کے دوران افتخار میاں نے وہی کتاب ہم کو پیش کی کہ دو پہر میں جب تک باقی عوام محوِ خواب ہوں تو ہم اس سے لطف اٹھا لیں کہ ہم دن میں سوتے نہیں۔ عرصے بعد جب یہ کتاب دوبارہ پڑھی تو شروع کے صفحات نے ہی چونکا دیا۔ اور تب احساس ہوا کہ کہیں لا شعور میں اس کتاب کا ’پس و پیشِ لفظ‘ محفوظ رہ گیاتھا جو’ اللہ میاں کے مہمان‘ لکھتے وقت اس طرح سامنے آیا کہ ہم خود اب تک اسے اپنی ترکیب سمجھ کر خوش ہوتے رہے۔ یہ چند سطریں محض اس پس و پیشِ لفظ کا پیشِ لفظ ہے کہ اگرچہ ہمیں اب اس دیباچے کو استعمال کرنے میں پس و پیژ ہے، لیکن اس عرصے میں ہم نے اس قدر اسے اپنا سمجھ لیا ہے کہ اب خود سے جُدا کرنے کو جی نہیں چاہتا۔
اب اس اردو ویب ایڈیشن میں اس حلف نامے کے ساتھ مکمل کتاب پھر حاضر ہے۔ یہ کتاب اب تک اردوستان ڈاٹ کام سے قسط وار شائع ہوتی رہی ہے۔ لیکن تصویروں کی صورت میں۔ اب تحریری شکل کے لئے میں اپنا ہی شکر گزار ہوں۔
اعجاز عبید
8 اپریل 2006
 

الف عین

لائبریرین
پس و پیش (لفظ)

پس و پیش (لفظ)
ہم عرصے سے اس پس و پیش میں تھے کہ اس سفر نامے یا روزنامچے میں ، اگر کبھی شائع کرانے کی نوبت آئے تو، پیشِ لفظ لکھ کر پہلے ہی قارئین کو خبردار کر دیں یا پس لفظ لکھ کر ان سے معذرت کر لیں کہ انھوں نے نہ جانے کیا کیا توقعات رکھی ہوں گی ہم سے۔ پس و پیش یہ بھی تھا کہ اسے شائع بھی کروائیں یا نہیں بلکہ لکھیں بھی یا نہیں۔ بہرحال جب پس و پیش جاری رہا تو ہم نے عارضی طور پر اوپر والا عنوان دے کر انگریزی محاورے کے مطابق گیند کاتب صاحب کے پالے میں ڈال دی ہے کہ وہ کتاب کے شروع میں اس تحریر کو رکھیں یا آخر میں ۔ یہ تو امید رکھتے ہیں کہ کاتب صاحب کو اس میں تو پس و پیش نہ ہوگا کہ اس تحریر کا عنوان ۔' پیش لفظ ۔' کب کتابت کریں ا ور ۔'پس لفظ ۔' کہاں۔ یہ جملہ لکھتے وقت ابھی خیال آیا کہ آج کل تو ہم ارو و والے بھی خدا کے فضل اور امریکہ کے کرم سے کمپیوٹر کے دور میں داخل ہو گئے ہیں اور کاتب دور ماضی کی یادگار ہوتے جا رہے ہیں ۔ ۔۔۔ ' کلیدی تختے' (Keyboard) پر انگریزی حروف پر انگلیاں رکھ کراردو حروف پیدا کرنے والے جادوگر کو کیا کہنا چاہیے قارئین اس پر ضرور غور کریں ۔
گذارش احوال واقعی کے طور پر کچھ باتیں گوش گذار کرنی تھیں ' اب آپ اس کو جو بھی نام دیں۔ اصل میں تو یہ ہمارا حلفیہ بیان ہے۔
شروع وہاں سے ہی کریں جہاں سے بات شروع ہونی چاہئے ۔
جانے ہماری کون سی نیکی کام آگئی کہ 1997 کا حج نصیب ہو گیا۔ واقعہ سنا تھا کہ کو ئی بزرگ تھے جو تلبیہ پکارتے تھے 'َلبیک اَلّٰہُمَّ لَبَّیک' ۔ 'میں حاضر ہوں میرے اللہ ، میں حاضر ہوں' ، تو ا ن کو غیب سے صدا آتی تھی ' لَاَلَبَّیک' ۔ ان کی حاضری ہی قبول نہ تھی۔ مرحبا کہ نہ صرف ہمارا سفر ممکن ہو سکا بلکہ اس الرّحمٰن ورحیم کا رحم ہے کہ ہمارا لبّیک بھی قبول کیا گیا، حج کے ارکان بھی اللہ نے بخوبی ادا کروائے اور ہم کو ہر ہر بلا سے محفوظ بھی رکھا۔ جب اللہ میاں نے ہم کو مہمان بنانا قبول کر ہی لیا تو پھر خاطر تواضع بھی خاطر خواہ کرنی ہی تھی۔ لوگ کیا کہتے کہ پہلی بار کے مہمان کے ساتھ بھی کیسا سلوک کیا۔ اب یہ ہم خود ہی گواہی دیتے ہیں کہ ہم محض سوکھے ہی نہیں ٹرخائے گئے ہیں، رحمتوں کی بارش سے شرابور بھیگے ہوئے آئے ہیں۔
یہ بھی بتا دیں کہ ہم مان نہ مان میں تیرا مہمان قسم کے خودساختہ مہمان نہیں تھے۔ ہمارا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ عازمینِ حج اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ 'ضیوف الرحمٰن ّ۔ مکّے میں ہماری عمارت نمبر 468 کے قریب شعبِ عامر میں ہی غذائی سامان کی ایک دوکان تھی، اس کا نام ہی تھا ۔ ۔ ' 'بقالہ ضیوف الرحمٰن ')۔ آپ مانیں یا نہ مانیں۔، ہم تو خود کو اللہ میاں کے مہمان ہی سمجھتے رہے بلکہ بہت بے تکلّف قسم کے۔ کہ تکلّف میں ذوقؔ صاحب کو ہی نہیں ہم کو بھی سراسر تکلیف ہی ہوتی۔ اس پروردگار کی طرف سے ہم نوازشوں کے امیدوار بھی رہے ا ور قطعی ناکام نہیں لوٹے۔ مراد یہ نہیں ہے کہ ہماری ساری مرادیں بر آئیں، ساری تکلیفات دور ہو گئیں یا ہماری کھانسی دمے کی تکلیف میں افاقہ ہو گیا۔ یہ بھی ہو جاتا تو مزید رحم و کرم ہی ہوتا، مگر یہی کیا کم ہے کہ ہم کو نہ جانے کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم خالی ہاتھ نہیں لوٹے ہیں۔ کیا خدا کا یہ کرم بھی کم ہے کہ اس نے یہ سعادت ہمارے لئے لکھ دی۔
دوسری ایک اہم بات یہ عرض کرنی ہے کہ اللہ میاں کی مہمانی قبول کرنے والے کو ، بلکہ یوں کہیے کہ جسے اللہ میاں مہمان بنانا قبول کریں ، اسے تو بہت منکسرالمزاج ہونا چاہیے تھا۔ اور یہاں ہم ہیں کہ ۔'ما بدولتوں' کی طرح خود کو صیغۂ جمع میں لکھ رہے ہیں۔ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ ہم ما بدولت قطعی نہیں ہیں ، بس ایک روایت کا احترام کر رہے ہیں جو غالباً پطرس مرحوم سے شروع ہوئی تھی۔ پطرس نے واحد متتکلمّ کے لئے جمع کا صیغہ کیا استعمال کیا کہ یہ اب ہر طنزومزاح نگار کی پہچان بن گیا ہے۔ شوکت تھانوی ہوں یا وجاہت سندیلوی، مشتاق احمد یوسفی ہوں کہ یوسف ناظم اور مجتبےٰ حسین ، سبھی یہ صیغہ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ نثر کے طنزومزاح میں ہم کو خود یہ ضروری محسوس ہونے لگا ہے۔ نہ لکھیں تو کچھ کمی سی محسوس ہو گی، چنانچہ عام بو ل چال میں چاہے ہم اپنے کو 'ہم' نہ کہیں مگر جب قلم اٹھا کر اس کشتِ زعفران میں (جو میدانِ خاردار زیادہ ہے) قدم رکھتے ہیں تو بے ساختہ (بحرِعروض کے ماہرین معاف فرمائیں) ؎ ڈبویا ہم کو ('ہم') لکھنے نے، جو لکھتے ۔ہم تو'ہم ' لکھتے۔ قارئین کرام سے بھی معذرت۔
تیسری بات یہ کہ ہم نے اس سفرنامے /روزنامچے کے پہلے دِن ہی جو کچھ تحریر کیا ہے اس میں بھی کچھ 'پیش لفظیت' آ گئی ہے۔ مگر کیوں کہ اصل پیش لفظ یہی ہے اس لئے یہاں 'پہلا' دیں (یہ تحریر بعد کی ہے . اس لئے 'دہرانا' کہنا چاہئے۔ مگر قارئین کرام تو پہلی بار یہ بات جان رہے ہیں؛ 'ہم پائے کے ادیب ہیں' اور 'کیا ہم سنجیدہ ہو سکیں گے' میں انہیں یہ محسوس ہوگا کہ ہم یہ بات دہرا رہے ہیں) کہ ہمارا ارادہ 'حج گائڈ' قسم کی کتاب لکھنے کا تو نہیں تھا۔ اگر کسی قاری نے اسے 'حج گائڈ' سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی تو بقول ابنِ انشا نتائج کا خود ذمّہ دار ہوگا۔ اگر توفیق ہوئی تو 'پس پس لفظ' کے طور پر ضمیمہ ضرور شامل کیا جا سکتا ہے جس میں وہ باتیں شامل ہو سکیں جو حج گائڈ میں ہونی چاہئیں۔ ہماری کوشش تو یہی تھی کہ جو ہم پر گزرے گی، رقم کرتے رہیں گے (لوح و قلم کی پرورش ہو نہ ہو) اور ہماری دعا ہے کہ جو ہم پر گزری ہے وہ سب پر گزرے،یعنی سب کو حج نصیب ہو،مگر جو ہم نے نظارۂ بد دیکھا وہ خدا کسی کو نہ دکھائے ۔ یعنی منیٰ کی آگ کا حادثہ۔
اس سلسلے میں بھی کچھ عرض کرنی ہے۔ گرما گرم خبروں کے شوقین حضرات فوراً تلاش کریں گے کہ منیٰ کی آگ کا چشم دید حال ہم نے لکھا ہوگا، رننگ کمنٹری (Running Commentary) بلکہ 'بَرننگ کمنٹری'(Burning Commentary) دی ہو گی ، مگر ان کو مایوسی ہی ہوگی؛ ہم کو تو خوشی ہے کہ ہم اس عذاب کو واقعی چشم دید نہیں کر سکے۔ لوگوں کی بھاگ دوڑ اور دھوئیں کے مرغولوں کے مناظر ہی ہماری آنکھوں میں محفوظ ہیں۔ اسی بھیگی بلیّ سے معلوم ہوا تھا کہ باہر بارش ہو رہی ہے۔ لیجئے، ہم اس موقعے پر بھی مزاح کا شکار ہو گئے۔
مختصر یہ کہ ہم نے جو کچھ دیکھا ہے، وہ سفر نامہ ہی کچھ زیادہ ہے۔ نہ حج گائڈ نما کتاب ہے اور نہ اس میں صحافیوں والی 'کہانیاں' (جِن کو'اسکوپ' کہا جاتا ہے) ۔ شروع تو ہم نے کیا تھا کہ اسے ہلکے پھلکے انداز میں ہی غیر سنجیدگی سے لکھیں گے، مگر بعد میں اکثر جگہ یہ سفرنامہ محض ہو کر رہ گیا ہے۔ وجہ محض یہی رہی کہ ہم کو روزانہ لکھنے کا نہ وقت ملا اور وقت ملا تو طبیعت راغب نہیں ہوئی۔ اور کافی بعد میں جو پچھلی باتیں لکھتے رہے تو پھر قلم کو اس تیی سے وقت کے ساتھ دوڑانا پڑا کہ نہ ہنسنے کی مہلت ملی نہ ہنسانے کی۔ حسِ مزاح کو بھی اسی طرح پیچھے چھوڑ دیا جس طرح ملکھا سنگھ کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ موصوف چور کو رنگے ہاتھوں پکڑنے گئے، اس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اس سے دوڑ کا مقابلہ جیتنے کی کوشش کرنے لگے اور جیت کر بہت خوش ہوئے ۔ ہمارا یہی حال کبھی سنجیدگی کے ساتھ ہوتا ہے، کبھی حس مزاح کے ساتھ۔ یہاں تو خیر یہ شرط بھی تھی کہ واقعات بھی سارے لکھے جائیں ؛ اگرچہ کہیں سرسری ہی رہ جائیں۔ بہر حال جو چیز آپ کے سامنے ہے اس میں کہیں جذبۂ شوق کی کارفرمائی بھی ہے جوممکن ہے کہ آپ کو بھی ہماری طرح رلا دے (ہم خود بھی کہیں کہیں لکھتے لکھتے چشمِ پر نم ہو گئے ہیں) تو کبھی کچھ اور بات آپ کو ہنسنے پر مجبور کر دے؛ کبھی محض کچھ معلومات ہی حاصل ہوں۔ کچھ ایسی ہی چیز ہے کہ 'ہر مال دو ریال'، جیسے مدینے اور جدہ ایر پورٹ کے اکثر دوکان دارآوازیں لگاتے ہیں۔ یہ کتاب بھی ایسی ہی دوکان بن گئی ہے۔ (جو)قبول افتد زہے عزوشرف۔ اور یہ کہ؎ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
اعجاز عبید
2 جون 1997
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top