الاؤ۔ ایم مبین

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

الف عین

لائبریرین
صبح جادو بکھیرتی ہوئی نمودار ہوتی ہے ۔

ہر فرد کے لیے اس میں ایک الگ طرح کا جادو ہوتا ہے اور وہ اس میں اپنے مقصد کا جادو تلاش کرتا ہے

محنت کشوں ،مزدوروں ،نوکر پیشہ ،طلبہ، تاجر ہر طبقہ کے لیے صبح میں ایک اپنا منفرد جادو نہاں ہوتا ہے۔

لیکن صبح کبھی بھی جمی کے لیے جادو سی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

وہ تو رات کا راجہ تھا ۔اس کا دل چاہتا تھا اکثر اس کی زادگی میں صرف زندگی بھر کی رات ہی رہے تو بھی یہ اس کے لیے خوشی کی بات ہے ۔وہ اسی میں خوش رہے گا اور جشن منائی گا۔ وہ اس رات کی صبح کا کبھی انتظار نہیں کرے گا۔اسے کبھی صبح کا انتظار نہیں ہوتا تھا۔ صبح کی آمد اس پر ایک بیزاری سے کیفیت طاری کرتی تھی۔ اور اسے محسوس ہوتا تھا صبح نہیں آتی ہے ایک عفریت آتا ہے۔ اس کی خواہشوں ،ارمانوں، احساسات، چستی ،پھرتی ،شگفتگی کا خون چوسنے کے لیے ۔

دن کے نکلنے پر اسے وہی ساری کام کرنا پڑیں گے جو اسے پسند نہیں ہے۔ اس کے آزادی سلب ہوجائے گی وہ غلام بن جائے گا اور ایک غلام کی طرح رات کے آنے تک وہ کام کرتا رہے گا جو اس کے ذمہ ہے۔

دن اس کے لیے غلامی کا پیغام لے کر آتا ہے تو رات اس کی آزادی کا سندیش۔

باربار وہ اس دن کو کوستا تھا جب اس نے اپنے چاچا کے کہنے پر پنجاب چھوڑنے اور اس چھوٹے سے گاؤں میں چاچا کا کاروبار سنبھالنے کی حامی بھری تھی۔

اس کے حامی سن کر تو اس کے چاچا کرتار سنگھ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑگئی تھی۔ اس نے اپنے چاچا کے چہرے پر جو اطمینان کی لہر دیکھی تھی وہ لہر اس نے اپنے باپ اقبال سنگھ کے چہرے پر اس دن دیکھی تھی جس دن اس کی بڑی بہن کا بیاہ ہواتھا۔ ایک فرمان کی ادائیگی کے بعد دل کو قلبی سکون ملتا ہے اور چہرے پر جو اطمینان کے تاثرات ابھرتے وہی تاثرات کرتار سنگھ کے چہرے پر تھے۔

’’پُترا۔ ۔ ۔ آج تونے میری سب سے بڑی مشکل آسان کردی ۔ ۔ ۔ ورنا میں تو مایوس ہوکر اپنا سارا کاروبار گھر بار فروحت کرکے پنجاب کا رخ کرنے والا تھا۔ لیکن اب جب تونے وہ کاروبار سنبھالنے کی حامی بھرلی ہے میں ساری فکروں سے آزاد ہوگیا ہوں۔ بیس سال سے میں نے جو کاروبار جما رکھا ہے وہ آگے چلتا رہے گا اور کس کے کام آئے گا۔ کسی کے کیوں میرے اپنے خون کے ہی کام آئے گا ۔اس کاروبار کی بدولت میں ے یہاں پنجاب میں اتنی زمین جائداد بنالی ہے کہ مجھے اب زندگی بھر کوئی اور کام کرنا نہیں پڑے گا ۔لیکن آج میں اپنا وہ کاروبار تمہارے حوالے کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں جس طرح محنت سے میں نے ۲۰ سال تک کاروبار اتنا دھن کمایا ہے اور اس قابل ہوگیا کہ مجھے اب کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے تو بھی محنت سے اپنے کاروبار کو پھیلا اور اس سے اتنا پیسہ کماکر تو بھی ایک دن آئے گا وہ سار اکاروبار کسی اور کے حوالے کرکے اپنے وطن اپنے گاؤں آنے کے قابل ہوجائے ۔‘‘اس کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ خوشی اقبال سنگھ کو ہوئی تھی۔ وہ جاکر کرتار سنگھ سے لپٹ گیا تھا۔

کرتارے ۔ ۔ ۔ آج تونے اپنے بڑے بھائی ہونے کا حق ادا کردیا ۔میری سب سے بڑی فکر دور کردی ۔جسمندر کو دھندے سے لگادیا کام سے لگادیا۔ میں رات دن اس کی فکر میں رہتا تھا یہ لڑکا کام دھندا کرے گا بھی یا پھر زندگی بھر آوارگیاں کرتارہے گا۔ کئی سالوں سے اسے سمجھارہاتھا تو پڑھتا لکھتا تو نہیں ہے۔ پڑھنے لکھنے کے نام پر کیوں اپنا وقت اور میرے پیسے برباد کررہا ہے۔ یہ پڑھنا لکھنا چھوڑ کر کوئی کام دھندہ کر۔ مگر یہ مانتا ہی نہیں تھا۔ اسے پڑھنے لکھنے کے نام پر آوارگیاں کرنی جو ملتی تھی ۔مگر تونے اسے کام دھندا کرنے پر راضی کرکے میری سب سے بڑی فکر دور کردی ۔گھر سے دور رہے گا تو آوارگیاں بھی دور ہوجائی گی اور دھندے میں بھی دل لگے گا۔

باپ اور چاچا اس کی حامی پر جشن منارہے تھے۔ لیکن وہ خود ایک تذبذب میں تھا۔

اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کس سحر کے تحت اس نے اپنا گھر ،گاؤں ،وطن چھوڑکر اکیلے کام کرنے کے لیے ہزاروں میل دور جانا قبول کرلیا تھا ۔اس کے دوستوں نے سنا تو اس کے اس فیصلے پر حیرت میں پڑگئے۔ اور وہ بھی پنجاب سے ہزاروں میل دور گجرات ۔ ۔ ۔ اپنے چاچا کا کاروبار سنبھالنے کے لیے ۔

’’ہاں۔ ۔ ۔ صحیح سنا ہے ۔اس نے جواب دیا تھا۔ ‘‘

’’اوے۔ ۔ ۔ تو وہاں ہمارے بنا رہ سکے گا ؟‘‘

’’اب زندگی تم لوگوں کے ساتھ آوارگیاں کرتے تو نہیں گذرسکتی ہے۔سوچتا ہوں واہ گرو نے ایک موقع دیا کچھ کرنے کا اور کچھ کردیکھانے کا اسے کیوں گنوادوں۔ان آوارگیوں کے سہارے تو زندگی گذرنے سے رہی۔ روزروز پاپاجی کی باتیں سننی پڑتی ہیں ماں کی جھڑکیاں سہنی پڑتی ہیں۔ بڑی بہنیں جب بھی آتی ہیں لکچر بگھارتی ہیں۔ بھائی بات بات پر غصہ ہوکر گالیاں دینے لگتا ہے۔ بس اب یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔ سوچتا ہو اس ماحول سے کچھ دنوں کے لیے دور چلا جاؤں ۔اگر واہ گرو نے اس دھندے میں رزق لکھا ہے اور گجرات کا دانہ ہانی میری تقدیر میں ہے تو مجھے جانا ہی پڑے گا ۔ اور جس دن وہاں کا دانہ ہانی اٹھ جائے گا میں اوپس گاؤں آجاؤں گا۔‘‘

اس کی اس بات سے سب خاموش ہوگئے تھے۔

’’اوے جسمندر ۔ ۔ ۔ ہم تیرے دوست ہیں دشمن نہیں ۔تیری ترقی سے ہم خوش ہوں گے ۔ ہماپنے مفاد کے لیے تیری زندگی برباد نہیں ہونے دیں گے ۔آج تجھے کچھ کرنے کا موقع ملا ہے تو جا۔ کچھ کردکھا ۔ہماری دعائیں یرے ساتھ ہے۔ دوستی تعلقات اپنی کچھ دنوں تک تیری یاد ستائی تیری کمی محسوس ہوگی پھرہم بھی زندگی کی الجھنوں میں گھِر کر تجھے بھول کر اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ جائیں گے۔ ‘‘

’’جمی ۔ ۔ ۔ وہاں جاکر ہمیں بھول نہ جانا ۔‘‘

’’ارے تو میں ہمیشہ کے لیے گاؤں چھوڑ کر تھوڑی جارہاہوں ۔سال چھ مہینے مے بیساکھی پر آتارہوں گا۔‘‘

دوستوں اور گاؤں کو چھوڑنا اسے بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔لیکن اس نے گاؤں ،گھر چھوڑنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ پھر وہ گاؤں چھوڑنے والا پہلا فرد نہیں تھا۔ ہر گھر خاندان کے کئی کئی افراد گاؤں سے باہر تھے۔ کوئی ٹرک چلاتا تھا جس کی وجہ سے مہینوں گھر ،گاؤں سے دور رہتا تھا ۔کوئی فوج میں تھا صرف چھٹیوں میں گھر آپاتاتھا ۔کچھ غیر ممالک میں جاکر بس گئے تھے جس کی وجہ سے وہ صرف پانچ دس سالوں میں ہی گاؤں آپاتے تھے۔ نوکری کے سلسلے میں جو لوگ ملک کے مختلف حصوں میں گئے تھے انھوں نے انہی حصوں کو اپنا وطن بنالیا تھا اور گاؤں اور گاؤں کو بھول گئے تھے صرف شادی بیاہ، موت مٹی کے موقع پر گاؤں آتے تھے۔

اس کے چاچا کی طرح جن لوگوں نے دوسرے شہروں اور ریاستوں میں دھندہ شروع کرلیا تھا وہ لوگ بھی گاؤں کے مہمان کی طرح آتے تھے ۔کل سے اس کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا۔ویسے بھی گاؤں میں اس کے لیے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ پڑھائی کے نام پر وہ پانچ سالوں سے ایف وائے آرٹ کا طالب علم تھا ۔ اس کے پتا اور گھر والوں کو پورا یقین تھا رہ کبھی گریجویشن پورا نہیں کرپائے گا ۔اس کا کالج گاؤں سے دس کلومیٹر دور تھا ۔روزانہ سویرے وہ کالج جاتا ۔کبھی دوپہر تک گاؤں واپس آجاتا تو کبھی شام کو اوپس آتا۔ کبھی دل آیا تو جاتا ہی نہیں ۔دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتا ۔ایک دوست جگیرے کی ہوٹل تھی۔ تمام دوست اس ہوٹل میں بیٹھا کرتے تھے۔ جگیرے کے چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے ۔یا پھر پورا دن وہاں بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہتے یا شرارتیں کرتے رہتے تھے۔ آئے دن ان کی شرارتوں کی شکایتیں ان کے گھر کو پہونچتی رہتی تھی۔ شرارتیں معصوم ہوتی تو لوگ نظر انداز بھی کردیتے لیکن اب وہ بچے نہیں رہے تھے بڑے ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان شرارتوں کا انداز بھی بدل گیا تھا ۔وہ گاؤں کی لڑکیوں کو چھیڑتے رہتے تھے ۔کبھی معاملہ نوک چھونک تک ہوتا تو کبھی چھیڑ چھاڑ تک ۔ ۔ ۔ کبھی معاملہ دل کا ہوتا۔ ۔ ۔ تو کبھی عزت کا ۔تمام دوستوں کا کسی نہ کسی سے دل لگا تھا۔ لیکن صرف اس کا دل کسی پر نہیں آیا تھا ۔اس سے دل لگانے والی کئی تھیں۔ لیکن س کی نظر میں ان کے اس جذبے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

دوستوں کے دلوں کا معاملہ دلوں سے بڑھ کر جسموں تک پہونچ گیا تھا ۔اور وہاں سے آگے بڑھ کر شادی کے بندھن تک ۔کچھ معاملے درمیان میں ادھورے رہ گئے تھے ۔لڑکیوں کی کہیں اور شادیاں ہوگئی تھی۔ اور پنجاب کی روایتی رومانی داستانوں میں کچھ اور داستانوں کا افسانہ ہوگیا تھا۔

اب وہ ٹوٹے ہوئے دل ان کی یاد میں آہیں بھرتے اورشراب سے اپنا غم غلط کرتے تھے ۔ اس طرح غم غلط کرتے کرتے انھوں نے باقی دوستوں کو بھی شراب کا عادی بنادیا تھا۔ ان میں ایک وہ بھی تھا ۔

وہ شراب کا عادی تو نہیں ہوا تھا۔لیکن راب پینے لگ گیا تھا۔ اور اکثر دوستوں کا ساتھ دینے کے لے ان کے ساتھ شراب پیتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے اس کا شراب پینا گھر والوں کے لے تشویش کی بات تو ہوئی ۔اس لیے وہ سنجیدگی سے سوچنے لگے تھے کہ اس سے قبل کہ جسمندر سنگھ شراب کا عادی بن کر اپنی زندگی تباہ کرلے۔ اس لیے یہ لت چھڑانے کا کوئی طریقہ سوچنا چاہیے۔

آسان راستہ یہ تھا کہ اس کی پڑھائی چھڑاکر اسے کسی کام سے لگادیا جائے ۔لیکن اسے کس کام پر لگایا جائے ۔کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کالج پڑھتا لڑکا کھیتوں میں سو کام نہیں کرسکتا ۔ ورنہ کھیتوں میں تو ہمیشہ آدمیوں کی کمی رہتی تھی۔

اچانک اس کی چاچی کا انتقال ہوگیا ۔اور اس کے چاچا کرتار سنگھ گاؤں آگیا۔ کرتار سنگھ بیس سال قبل کاروبار کے سلسلے میں گاؤں سے گیا تھا۔ اس نے گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں نوٹیا میں موٹر سائیکل ،کار ٹریکٹر کے پرزوں کی دوکان ڈالی تھی۔

اس گاؤں اور آس پاس کے دیہاتوں میں اس نوعیت کی کوئی دوکان نہیں تھی ۔ اس لیے اس کی دوکان و کاروبار چل نکلا اور اس نے بیس سالوں میں بہت پیسہ کمایا۔

وہ سال میں ایک آدھ ماہ کے لیے گاؤں آتا تھا تو دوکان نوکروں کے بھروسے چھوڑ آتا تھا۔اس کا کاروبار پھلتا پھولتا گیا۔ آس پاس اور کئی دکانیں کھل گئی۔ لیکن کرتار سنگھ کے کاوبار پرکوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ اس نے ہول سیل میں ان دکانوں کو کل پرزے سپلائی کرنا شروع کردئیے تھے۔ جس کی وجہ سے اس کے زمین اور جائیداد میں اضافہ ہوتا گیا اس کے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھتے کالج میں پہنچ گئے۔ بٹیاں شادی کے لائق ہوگئیں اور انھیں اچھے گھروں سے رشتے آنے لگے۔

اچانک طویل بیماری کے بعد کرتار سنگھ کی گھروالی اور اس کی چاچی کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے کرتار سنگھ ٹوٹ گیا۔ ابھی تک گاؤں میں گھر کو اس کی چاچی نے سنبھال رکھا تھا۔ لیکن چاچی کے انتقال کے بعد گھر سنبھالنے والا کوئی نہیں رہا تو کرتار سنگھ کو فکر دامن گیر ہونے لگی۔
 

الف عین

لائبریرین
گھر میں جوان لڑکیاں اور لڑکے تھے ۔ان پر نظر رکھنے والا گھر میں کوئی بڑا آدمی بے حد ضروری تھا۔ یوں تو اس کا باپ اقبال سنگھ اپنے بچوں کے طرح بھائی کے بچوں کا خیال رکھتا تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے کرتار سنگھ کو اس سلسلے میں کسی طرح فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔لیکن کرتار سنگھ باپ تھا اس کا دل نہیں مانا۔اس نے طے کرلیا تھا کہ اب وہ واپس گجرات نہیں جائے گا ۔اپنا سارا کاروبار کسی کو دے دے گا یا فروخت کردے گا اور گاؤں میں رہ کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرے گا۔ لڑکیوں کی شادیاں کرے گا اور لڑکوں کو نوکری یا کام دھندوں سے لگائے گا۔

کاروبار فروخت کرنے سے پہلے اس کے ذہن میں اس کا خیال آیا ۔اس کے لڑکے ابھی کاروبار سنبھالنے کے لائق نہیں ہے ۔ اگر وہ کاروبار فروخت کردیتا ہے اس کاروبار سے اس کا رشتہ ہی ٹوٹ جائے گا۔ اگر اپنی دوکان کسی کو دے دیتا ہے تو پانچ دس سال بعد اس کے لڑکے کاروبار سنبھالنے کے قابل ہوجائیں گے تو وہ اپنا کاروبار دوکان اس سے واپس لے کر اپنے لڑکوں کے حوالے کرسکتا ہے۔

اس خیال کے آتے ہی اس کی نظر اس پر پڑی۔اور اس نے اس کے سامنے اپنی ساری صورتِ حال رکھ دی ۔جمی بیٹے۔ ۔ ۔ ’’میں چاہتا ہوں تم میری وہ دوکان سنبھالو۔ مجھے تم اس کا ایک پیسہ بھی مت دو۔ لیکن پاچن دس سال بعد جب میرے بچے اس قابل ہوجائیںکہ وہ دوکان سنبھال سکیں تو تم مجھے وہ دوکان واپس دے دو۔‘‘

اس نے بنا سوچے سمجھے حامی بھر لی ۔اسے لگا اس کے ہاتھ ایک مو قع لگا ہے اسے گنوانا نہیں چاہیے۔ایک مہینے بعد اس کے چاچا کرتار سنگھ اسے لے کر نوٹیا آیا۔اس نے دوکان کے نوکروں اور گاؤں والوں سے اس کا تعارف کرایا۔ ’’یہ میرا بھتیجہ جسمندر سنگھ ہے۔سب اسے جمی کہتے ہیں۔ آج کے بعد یہی میری دوکان اور کاروبار دیکھے گا۔ ‘‘

ایک آٹھ دس سال کا لڑکا راجو اور ایک ۴۰،۴۵ سال کا آدمی رگھو۔رگھو پرانا نوکر تھا ۔لیکن اب اس کا دل اس کام میں نہیں لگتا تھا۔ وہ یہ نوکری چھوڑ کر اپنا خود کا کوئی ذاتی کاروبار شروع کرنے کا سوچ رہا تھا ۔۱۰ سال کا راجو نیا نیا تھا۔ وہ صرف سامان دے سکتا تھا اور گاہک سے اس سامان کی بتائی قیمت وصول کرسکتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں دوکان کی ساری ذمہ داری اس پر تھی ۔کرتار سنگھ نے اسے مشورہ دیا تھا فلی ل وہ صرف دوکان پر توجہ دے ہول سیل پر دھیان نہ دے۔ دھیرے دھیرے جب وہ دوکان اچھی طرح سنبھالنے لگے تو اس کے بعد ہول سیل پر توجہ دینا۔

اس کا چاچا نوٹیا میں آٹھ دنوں تک اس کے ساتھ رہا۔ اور دوکان داری کے سارے گُر بتا گیا۔مال کہاں سے خریداجائے کسی قیمت پر فروخت کیا جائے کون مستقل گراہک ہے۔

اس کی دوکان کا نام ’’گرونانک آٹو پارٹ‘‘تھا۔ دوکان کے اطراف ایک دو مکینک نے اپنی دوکانیں کھول رکھی تھی۔ ایک بڑے سے بکس میں وہ روزانہ اپنا سامان لے کر آتے اور اس سے اپنا کام کرتے تھے۔ وہ لوگ اس کے لیے اس لیے مفید تھے کیونکہ وہ سامان اس کی دوکان سے ہی خریدتے تھے۔ اکثر کسی کو اپنی سواری کا کوئی پارٹ ہوتا تھا تو وہ اس کی دوکان سے پارٹ خرید کر ان کے پاس پہنچ جاتا وہ لوگ اس پارٹ کو تبدیل کردیتے تھے۔

اس کی دوکان میں ڈیوٹی سویرے آٹھ بجے سے رات کے آٹھ بجے تک تھی۔ دوپہر میں وہ ایک آدھ گھنٹے کے لیے کھانا کھانے کے لیے کسی ہوٹل دھابے پر جاتا یا اپنے کمرے میں جاکر خود ہی اپنے ہاتھوں سے کھانا بناتا۔ اس وقت بھی دوکان بند نہیں ہوتی تھی ۔نوکر دوکان دیکھتے تھے۔ نوکر بھی کھانا کھانے کے لیے ایک دیڑھ گھنٹے کے لیے اپنے گھر جاتے تھے اس وقت وہ دوکان دیکھتا تھا۔ دوکان دومنزلہ تھی۔ نیچے دوکان اوپر رہائش کے لیے دو کمرے جہاں اس کا چاچا رہتا تھا۔ دوکان کے پیچھے بھی ایک کمرہ تھا جسے گودام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میں زائد مال رکھا جاتا تھا۔ یا پھر بیکار مال۔

دن بھر تو دوکانداری میں گذر جاتی تھی ۔مگر اس کے رات کاٹنی مشکل ہوجاتی تھی۔ شروع شروع میں اس کے لیے رات کاٹنا بہت مشکل محسوس ہوتا تھا۔ کیونکہ اس کا نہ توکوئی دوست تھا نہ ہی کوئی شناسا جس کے ساتھ وہ باتیں کریں۔

دوکان بند کرکے وہ کھاناکھاتا اور پھر اپنے کمرے میں قید ہوکر بستر پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرتا ۔نیند بھلا اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے کہاں آتی ۔گاؤں میں اسے دودو تین تین بجے تک جاگنے کی عادت تھی۔ اس لیے ایک دوبجے سے قبل اسے نیند نہیں آتی تھی۔ اس بے خوابی سے کبھی وہ اتنا پریشان ہوجاتا کہ اس کا دل چاہتا وہ یہ کام دھندہ دوکانداری چھوڑ کر واپس گاؤں بھاگ جائے۔ گاؤں میں وہ دیر سے سوتا تھا تو دیر سے جاگتا تھا۔ جب کالج جانا نہیں ہوتا تھا یا چھٹیوں میں وہ ۱۲ بجے سے پہلے بستر نہیں چھوڑتا تھا۔ لیکن یہاں پر وہ رات میں دوبجے سو یا سو تین بجے رات میں دوکان کھولنے کے لیے سویرے سات بجے جاگنا پڑتا تھا۔ اس لیے اسے صبح کی آمد پسند نہیں تھی۔

صبح آتی تو اس کی آنکھوں میں نیند بھری ہوتی تھی۔ جسم بوجھل سا ہوتا تھا۔ جسم کا ایک ایک حصہ رات کی بے خوابی کی وجہ سے ٹوٹتا محسوس ہوتا تھا۔ دل تو چا رہا ہوتا تھا کہ وہ اور چار پانچ گھنٹے سوئے لیکن دوکان کھولنے کے لیے جاگنا ضروری تھا۔ ذراسی تاخیر ہوجاتی تو رگھو اور راجو آکر گھر دستک دیتے۔ اس لیے بادل ناخواستہ اسے جاگنا پڑتا۔

رات میں یار دوستوں کی صحبتوں ،محفلوں کی باتیں یاد آتی ۔جب گاؤں اور دوستوں کی یادیں زیادہ ہی مغموم کردیتیں تو وہ شراب پی لیتا تھا۔ شراب پینے سے اسے سکون مل جاتا تھا اور نیند بھی آجاتی تھی۔لیکن اکیلے اسے شراب پینے میں مزہ نہیں آتا تھا۔ یار دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے ہوئے شراب پینے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ کئی بار اس نے کوشش کی کہ رگھو اس کا ساتھ دے لیکن رگھو اس کا ساتھ نہیں دیتا تھا۔

’’جمی سیٹھ ۔ ۔ ۔ تم تنخواہ اتنی کم دیتے ہو کہ اس میں میرے گھر والوں کا پیٹ مشکل سے بھر پاتا ہے۔ شراب کی لت لگا کر کیا میں انھیں بھوکا ماروں؟ مانا آج تم مجھے مفت کی پلا رہے ہو ۔ ۔ ۔ لیکن عادت لگ جانے کے بعد تو مجھے اپنے پیسوں کی پینی پڑے گی تب کیا ہوگا؟تمہارے چاچا بھی مجھ سے یہی اصرار کرتے تھے۔ تب بھی میں نے اس لت کو گلے نہیں لگایا تو آج کیوں لگاؤں؟‘‘ راجو چھوٹا لڑکا تھا ۔اسے شراب کی پیش کش نہیں کرسکتا تھا۔ ایک مکینک سے اس کی پہچان ہو گئی تھی۔ وہ شراب کا عادی تھا اس کے لیے شراب بھی لاکر دیتا تھا۔ اور اس کے ساتھ شراب تھی پیتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے تعلقات صرف شراب لاکر دینے اور کبھی کبھی ساتھ شراب پینے کی حد تک ہی محدود رکھاتھا۔ اس معیار کا آدمی نہیں تھا کہ اس کے حلقہ احباب میں شامل کیا جائے۔اس کے حلقہ احباب میں کئی لوگ شامل ہوگئے تھے۔

اس کا چاچا جاتے ہوئے اسے کچھ ایسی باتیں بھی بتا گیا تھا جن سے وہ محتاط رہنے لگا تھا۔ اس کے چاچا نے کہا تھا ’’۔ ۔ ۔ جمی ۔ ۔ ۔ ان گجراتی لوگوں سے ہوشیار رہنا ۔میں بیس سال سے اس گاؤں میں ہوں ۔ان کے درمیان دھندہ کررہا ہوں لیکن مجھے پتہ ہے وہ لوگ مجھے پسند نہیں کرتے ہیں ۔مجبوری کی طور پر مجھے جھیل رہے ہیں یا انھیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ان کے لیے پیسہ اور دھندہ ہی سب کچھ ہے ۔پیسہ اور دھندے کے لیے یہ کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔کسی بھی حد تک گِر سکتے ہیں ۔پہلے جب اس گاؤں میں میری واحد دوکان اسپیر پارٹ کی دوکان تھی اس لیے یہ مجھے برداشت کرلیتے تھے۔ لیکن اب جبکہ کئی اسپیر پارٹ کی دوکانیں ہیں اور وہ گجراتیوں کی ہیں ۔وہ مجھ سے جلتے ہیں۔ اس میں وہ تمام دوکان دار چاہتے ہیں میں یہ دوکان بند کرکے چلا جاؤں ۔آتے دن ذات اور برادری کے نام پر میرے گاہک توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس میں وہ کچھ کچھ حد تک کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اتنے نہیں کہ مجھے دھندہ بند کرنا پڑے ۔ وہ تم پر کوئی بھی جھوٹا الزام لگاکر حملہ کرسکتے ہیں ۔اس لیے اس بارے میں محتاط رہنا ۔‘‘تب سے وہ بہت محتاط رہتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اس نے محسوس کیا تھا ۔ لوگوں کی آنکھوں میں اس کے لیے اچھے جذبات نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اسے ناپسند یدہ نظروں سے ہی دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے اس سلسلے میں اسی نے اپنے ایک مسلمان دوست جاوید سے سوال کیا تھا۔ ۔ ۔ ’’یہ لوگ تمہیں پسند نہیں کرتے تم اس بات کا ماتم کررہے ہو ۔‘‘

’’ارے ابھی تمہیں اس گاؤں میں آئے دن کتنے ہوئے ہیں؟ مشکل سے ایک ماہ !تب بھی تمہیں ناپسند کرتے ہیں۔ ہم لوگ تو صدیوں سے اس گاؤں میں رہ رہے ہیں ۔اس کے باوجود وہ ہم لوگوں کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔اور چاہتے ہیں کہ ہم یہاں پرکوئی کام دھندہ نہ کریں۔ یہ گاؤں چھوڑ کر چلے جائیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی نیا فتنہ اٹھاتے رہتے ہیں اور آجکل تو کچھ زیادہ ہی۔ ۔ ۔ ‘‘

جاوید کی بات سن کر وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا ۔ جاوید کی پیدائش اسی گاؤں میں ہوئی تھی ۔وہ یہاں پلا بڑھا تھا ۔اس گاؤں میں اس نے تعلیم مکمل کی تھی پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ممبئی میں اس نے اپنے ایک رشتہ دار کے پاس ممبئی گیا تھا۔

ممبئی میں اس نے کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔اس کی قابلیت کے بنیاد پر اسے ممبئی میں اچھے جاب کے آفرآئے لیکن اس نے وہاں نوکری کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔اس کا ایک ہی مقصد تھا ۔ میں نے جو تعلیم حاصل کی ہے ۔ میں اپنے علم ،تعلیم ،روشنی سے اپنے گاؤں والوں کو فیض یاب کروں گا۔ اور وہ گاؤں واپس آگیا۔ اس نے کمپیوٹر کی ایک چھوٹی سی دوکان کھولی اوروہاں پر گاؤں کے بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے لگا۔ اس وقت گاؤں میں کوئی بھی کمپیوٹر سے آشنا نہیں تھا۔ کمپیوٹر کا زمانہ تھا کمپیوٹر کی تعلیم کی اہمیت کا احساس ہر کسی کو تھا ۔اس لیے ہر کوئی اس تعلیم کی طوف مائل ہونے لگا ۔اور جاوید کے پاس کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہونے لگا ۔

سویرے آٹھ بجے سے رات کے ۱۲ بجے تک بچے جاوید کے پاس کمپیوٹر سیکھنے کے لے آتے ۔ ایک سال میں ہی جاوید کی چھوٹی سی کمپیوٹر سکھانے کی کلاس ایک بڑے سے کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہوگئی ۔گاؤں کے وسط میں ایک شاندار نجی عمارت میں جاوید کا شروع کردہ اقصیٰ کمپیوٹر اس علاقے کا سب سے بڑا کمپیوٹر اسنٹی ٹیوٹ بن گیا۔جہاں بچوں کو کمپیوٹر کی جدید تعلیم دی جاتی تھی۔ کمپیوٹر فروخت اور درست کیے جاتے تھے۔ اورسائبر کیفے تھا۔ جو گاؤں کے واحد سائبر کیفے تھا جس میں ہمیشہ بھیڑ لگی رہتی تھی۔

جاوید کے جذبے کی کسی نے بھی قدر نہیں کی بلکہ اسے بھی تجارتی نقطہ نظر سے دیکھ کر اس میں تجارتی رقائبوں کا عنصر تلاش کیا گیا۔ منافع بخش دھندہو ہے صرف یہ سوچ کر ایک دو اور کمپیوٹر کی تعلیم دینے والی کلاسس شروع ہوگئی ۔یہ اور بات تھی کہ انھیں وہ کامیابی نہیں مل سکی ۔ لیکن اس طرح جاوید اور اقصیٰ کمپیوٹر کے تجارتی رقیب تو پیدا ہوگئے تھے۔

جاوید کی باتوں نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔اسے لگا کہ اسے بھی ان تمام باتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے لیے یہ راہ اتنی آسان نہیں ہے جتنی وہ سوچ رہا ہے۔

اس کے لیے شروع شروع میں کئی مسائل تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ زبان کا تھا۔ اسے پنجابی آتی تھی ۔ہندی بول لیتا تھا۔ لیکن وہاں کے لوگ گجراتی کے علاوہ کچھ بولتے اور سمجھتے ہی نہیں تھے۔ اس کا چاچا اتنے عرصے تک وہاں رہنے کی وجہ سے گجراتی سیکھ گیا تھا اس لیے اس کا کام چل جاتا تھا۔ لیکن اسے رگھو یا راجو کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ویسے اسے پورا اعتماد تھا کہ وہ کچھ عرصے میں کام چلاؤ گجراتی سیکھ جائے گا۔ لیکن زبان کی اجنبیت کا احساس اسے کچھ کہنے لگا۔ اسے لگا اس زبان کی اجنبیت کی وجہ سے وہ وہاں اچھے دوست نہیں بناپائے گا۔کیونکہ وہ روانی سے جذبات احساسات کا اظہار نہیں کرسکے گا۔ نہ سامنے والے کے جذبات احساسات کو سمجھ سکے گا۔ دوست وہی بن سکتا ہے جس کے سامنے روانی سے اپنے احساسات کا اظہار ممکن ہے۔ یا جس کے جس احساسات کو سمجھا جاسکا۔

اس وجہ سے اتنے دنوں میں صرف جاوید ہی اس کا دوست بن سکا ۔لیکن جاوید کے پاس انتا وقت نہیں تھا کہ ؤہ اس کے پاس آکر بیٹھے ۔اسے رات میں وقت ملتا تو وہ جاوید کے سائبر پہونچ جاتاتھا۔ لیکن وہاں بھی جاوید سے فرصت سے بات چیت نہیں ہو پاتی تھی۔ جاوید کمپیوٹرس کے پیچھے حیران ہوتا ۔اور وہ تماشائی بنا جاوید کو کمپیوٹروں سے الجھا دیکھاتا ۔

جاوید نے ایک دوبار اس سے کہا بھی تھا ’’۔ ۔ ۔ کمپیوٹر سیکھ جاؤ ،ایک بار انٹرنیٹ کی لت لگ گئی تو تم بھی میرے رنگ میں رنگ جاؤ گے ۔‘‘لیکن باوجود باربار کوشش کہ وہ ماؤس ہاتھوں میں پکڑنا سیکھ نہیں سکا تو اسکرین پر ابھرنے والی انگریزی تحریروں کو کیا پڑھتا اور سمجھتا ۔ویسے بھی انگریزی اس کی کمزوری تھی۔

جاوید اس لیے اس کا دوست بنا کہ ان کے درمیان زبان کی اجنبیت نہیں تھی۔ وہ روانی سے جاوید کے ساتھ گفتگو کرسکتا تھا۔ اور جاوید اس کی پنجابی بھی سمجھ لیتا تھا ۔ اور اس کا ساتھ دینے کے لیے ،یا مذاق اڑانے کے لیے پنجابی لہجے میں گفتگو بھی کرتا تھا۔ وہ جاوید کی اس لیے قدر کرتا تھا کہ جاویداتنا مصروف رہتا تھا لیکن اس کے لیے وقت ضرور نکالتا تھا ۔جاوید سے اس کی پہچان اس کی اپنی دوکان پر ہوتی تھی۔ جاوید اپنی موٹر سائیکل کیلیے کوئی پرزہ خریدنے اس کی دوکان پر آیا تھا تو رگھو نے اسے بتایا کہ یہ پرانا گاہک ہے تو اس نے اس سے خود کو متعارف کرایا۔

’’چلو اچھا ہوا سردارجی ۔ ۔ ۔ آپ آگئے ۔ ۔ ۔ پورے گاؤں میں ایک نوجوان سردار تو ہے۔ ورنا گاؤں والے آپ کے بوڑھے چاچا کو دیکھ دیکھ کر سردار جی لوگوں کے بارے میں غلط نظریات قائم کرنے لگے تھے۔ ‘‘

اس کے بعد جاوید جب بھی اس کے دوکان کے سامنے سے گذرتا اسے ہاتھ دکھاتا گذرتا تھا۔ اگر فرصت میں رہتا ہوتا تو رک کر خیر خیریت پوچھ لیتا ۔جاوید اس کے دل پر ایک گہرا نقش چھوڑ گیا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے گاؤں میں کوئی یار جاوید کی شکل میں اس کے پاس آگیا ہے ۔ اس کا ماننا تھا واہ گرو ہر کام آسان کرتا ہے ۔سویرے جلدی اٹھنا اس کے لیے سب سے مشکل کام تھا۔ لیکن اس کام میں بھی آسانی پیدا ہوگئی تھی جب سے اس نے مدھو کو دیکھا۔

مدھو گاؤں کی لڑکی تھی ۔شہر کالج پڑھتی تھی روزانہ سویرے چھ ،سات بجے کی بس سے شہر جاتی تھی۔ کالج سے کبھی ایک بجے واپس آتی تو کبھی ۴ بجے تو کبھی شام کو ۔شہر جانے والی بس کا اسٹاپ اس کی دوکان کے سامنے تھا ۔ اکثر سویرے بس کے انتظار میں مدھو اس کی دوکان کے سامنے کھڑی ہوتی تھی۔ واپسی میں بھی اس کی دوکان کے سامنے ہی آکر رکتی تھی اور بس سے اتر کر مدھو غیر ارادی طور پر ایک نظر اس کی دوکان کی طرف ڈالتی ،آگے بڑھ جاتی ۔

مدھو نے اس کے ذہن اور اس کی زندگی میں ہلچل مچادی تھی ۔ اب تک اس نے ہزاروں لاکھوں خوبصورت سے خوبصورت لڑکیاں دیکھی تھیں کئی تو اس پر مرتی تھیں ۔پنجاب کے دیہاتوں کا بے باک حسن تو قصے کہانیوں میں آج بھی زندہ ہے۔ لیکن اب تک کوئی بھی ایسا چہرہ نہیں ملا جو اس کے دل و دماغ میں ہلچل مچادے۔ لیکن مدھو پرنظر پڑتے ہی اس کے دل و دماغ ہی نہیں زندگی میں بھی ہلچل مچ گئی۔

اس نے کالج سے آتے ہوئے مدھو کو کئی بار دیکھا تو پتہ لگایا کہ یہ کالج کب جاتی ہے تو اسے پتہ چلا جب وہ سویا ہوا ہوتا ہے تب وہ کالج جاتی ہے۔ سویرے چھ سات بجے۔ اور بس کے انتظارمیں بہت دیر تک ٹھیک اس کی دوکان کے سامنے بنے بس اسٹاپ پر کھڑی رہتی ہے۔ یہ سن کر اس کی بیتابی بڑھ گئی۔ کالج سے واپس آتی مدھو صرف چند منٹوں تک اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتی تھی تو اس پر ایک نشہ طاری ہوجاتا تھا جو گھنٹوں نہیں اترتا تھا۔ سویرے تو وہ مدھو کو گھنٹوں دیکھ سکتا ہے ۔یہ سوچ کر اس نے طے کر لیا اب وہ اپنی عادت کے خلاف سویرے جلد جاگ جایا کرے گا۔

صبح جو ایک جادوبکھیرتی نمودار ہوتی ہے۔ ہر فرد کے لیے اس میں ایک الگ طرح کا جادو ہوتا ہے۔ اور وہ اس میں اپن مقصد کا جادو تلاش کرتا ہے۔ لیکن صبح کبھی بھی جمی کے لیے جادو جگاتی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اب وہی صبح اس کے لیے ایک جادو بکھیرتی نمودار ہوتی ہے۔ اس صبح میں اس کے لیے ایک الگ طرح کا جادو ،نشہ ،کشش ہوتی ہے۔

مدھو کے دیدار کی کشش ۔ ۔ ۔

مدھو کے دیدار کا نشہ ۔ ۔ ۔

مدھو کے دیدار کا جادو۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اس دن سویرے جلدی آنکھ کھل گئی ۔چھ بجے کے قریب۔ چھ بجے وہ برش کرنے کے لیے اپنے مکان کی گیلری میں آکر کھڑا ہوگیا اسے مدھو کا انتظار تھا۔ برش کرنے کے بعد اس نے منہ ہاتھ دھوئے ساڑھے چھ بج گئے تھے لیکن مدھو نہیں آئی تو اسے بے چینی محسوس ہونے لگی۔ اب تک تو مدھو کو آجانا چاہیے تھا۔ ساڑھے چھ بجے تک وہ بس اسٹاپ پر آجاتی ہے۔ اس نے چائے بھی نہیں پی ۔ گیلری میں کھڑا مدھو کا انتظار کرتا رہا ۔اسے ڈر تھا اگر وہ اندر چائے بنانے میں لگ گیا تو مدھو بھی آجائے گی اور اس کی بس اور اس سے پہلے کہ وہ مدھو کی ایک جھلک دیکھے مدھو بس میں سوار ہوکر کالج چل دے گی۔ اس لیے ان سے چائے ،ناشتہ کا خیال دل سے نکال دیا تھا۔ گیلری میں کھڑا مدھو کا انتظار کرتا رہا۔

جس بس سے مدھو کالج جاتی تھی وہ آئی چلی گئی۔ لیکن مدھو نہیں آئی ۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اس کا مطلب ہے آج مدھو کالج نہیں جائے گی ۔کیوں کالج نہیں جائے گی؟ وہ تو کبھی کالج جانے کا ناغہ نہیں کرتی ہے ؟آ ج کالج نہیں جائے گی تو ضرور اس کی کوئی وجہ ہوگی ۔وہ وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

سوچ کر بھی اس وجہ کو وہ تلاش نہیں کرپارہا تھا۔ بیمار ہے؟گھر میں مہمان آئے ہیں؟یا کالج پڑھائی سے اس کا دل اکتا گیا ہے؟۔ جیسے کئی سوالات اس کے ذہن میں چکرارہے تھے۔ ساڑھے سات بجے کے قریب مایوس ہوکر وہ اندر آگیا ۔اب مدھو کے آنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ وہ چائے بنانے لگا ۔اسے پتہ نہیں تھا دس پندرہ منٹ میں رگھو اور راجو آجائیں گے تو نہ اسے چائے پینے ملے گی اور نہ ہلکہ سا ناشتہ کرنے۔ دوکانداری میں لگنے کے بعد ناشتہ اور کھانے ک فرصت کہاں مل پاتی ہے۔ ناشتہ سے وہ فارغ ہی نہیں ہوا تھا کہ رگھو نے آواز دی ۔اس نے دوکان کی چابیاں اسے دے کر دوکان کھولنے کے لیے کہا۔ اس کے بعد نہا دھو کر آدھے گھنٹے بعد نیچے اترا تو دوکانداری شروع ہوگئی تھی۔ رگھو اور راجو گاہکوں سے نپٹ رہے تھے۔

’’ست شری اکال سردارجی ۔‘‘اچانک شناسا آواز سن کر وہ چونک پڑا۔

’’ارے جاوید بھائی آپ ‘‘ وہ حیرت سے جاوید کو دیکھنے لگا جس نے اسے آواز دی تھی۔ ۔ ۔ کیا بات ہے آج آپ انسٹی ٹیوٹ نہیں گئے؟

’’انسٹی ٹیوٹ کی چھٹی ہے جمی ۔‘‘

’’چھٹی ؟ کس خوشی میں ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ارے آج عید میلادالنبی ہے۔ حضرت محمدؐ کی پیدائش ۔آج کے دن سارے گاؤں کے مسلمان اپنا کاروبار بند رکھتے ہیں۔ اور دھوم دھام سے جشن عید میلاالنبی مناتے ہیں۔ مجلس منعقد ہوتی ہیں، جلوس نکالا جاتا ہے۔ پیر بابا کے مزار کے پاس کھانا بنایا جاتا ہے۔ جس کے لیے سارے گاؤں کو عام دعوت ہوتی ہے۔ اس دعوت میں نہ صرف اس گاؤں کے بلکہ آس پاس کے گاؤں کے مسلمان اور غیر مسلم بھی شریک ہوتے ہیں۔ حضرت محمدؐ کی سیرت پر روشنی ڈالنے والے جلوس کا انعقاد ہوتا ہے۔سارا گاؤں روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ تمہاری اس گاؤں میں پہلی جشن عید میلاالنبی ہے نا اس لیے تمہیں اس کا علم نہیں ہے ۔انسٹی ٹیوٹ تو بند ہے۔ سوچا گاڑی کی سروس کرلوں اور تمہیں جشن کا نظارہ دکھاؤں۔‘‘

’’اچھا آج عید میلاالنبی ہے۔ اس کے بارے میں میں نے صرف سن رکھا ہے۔ پنجاب کے گاؤں میں تو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ اب پنجاب کے دیہاتوں میں مسلمان کہاں ہیں۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھا ہے تقسیم سے قبل جب مسلمان خاطر خواہ تعداد میں پنجاب کے دیہاتوں میں آباد تھے۔ اس وقت اس دن سارے پنجاب کے دیہاتوں میں جشن کا سماں ہوتا تھا۔ ‘‘ اس نے کہا۔ساتھ ہی ساتھ اس کے ذہن میں گھنٹیاں بھی بجنے لگی۔ آج عید میلادالبنی کی کالج میں چھٹی ہوگی اس وجہ سے مدھو کالج نہیں گئی اور وہ سویرے سے اس کی راہ دیکھتا رہا۔

’’جاوید بھائی چائے منگواؤں ؟‘‘اس نے جاوید سے پوچھا۔

’’سردارجی ۔ ۔ ۔ چائے چھوڑیے ۔ ۔ ۔ میرے ساتھ چلیے آج میں آپ کو اپنے گھر لے جا کر ناشتہ کراتا ہوں عید میلاالبنی کے سلسلے میں گھروں میں نیاز کی جاتی ہے۔ میرے گھر کئی طرح کے پکوان بنے ہیں۔ ‘‘جاوید نے جواب دیا۔

’’چلیے ۔ ۔ ۔ گاڑی کو چھوڑ دیجیے ۔جب تک ہم واپس آئیں گے گاڑی بن کرتیار ہوجائے گی۔‘‘ اس نے کہا۔اور دونوں گاؤں کی طرف چل دیے۔

سچ مچ سارے گاؤں میں جشن کا سماں تھا ۔گاؤں کے درمیانی چوراہے سے مسلمانوں کا محلہ بہت دور تھا ۔لیکن چوراہے پر جو مسلمانوں کی دوکانیں تھیں وہ بند تھیں ۔لیکن سجی ہوئی تھیں ان پر روشنیاں تھی جو دن میں بھی جل رہی تھی۔ ہرے جھنڈے لگے تھے۔جن پر اردو اور گجراتی میں جشن عید میلادالبنی لکھا تھا۔ سبز رنگ کے پھلوارے پورے چوک میں لگے تھے۔

اب جگہ جگہ سے لاؤڈ اسپیکر کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھیں۔ لاؤڈ اسپیکروں پر خوش الیان آوازوں میں نعت رسول پاک پڑھی جارہی تھیں۔ جگہ جگہ پیراؤ لگے تھے۔ جہاں پر آنا ہگیروں میں شربت تقسیم کیا جارہا تھا ۔گول بڑے جوش و خروش سے قطاروں میں کھڑے ہوکر شربت پی رہے تھے۔

ٹھوڑی دیر بعد ایک بڑا جلوس دکھائی دیا ۔ یہ عید میلادالنبی کا جلوس تھا۔ اس جلوس میں گاؤں کے تمام چھوٹے بڑے مسلمان مرد شریک تھے۔ بچے اپنے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی ہری جھنڈیاں تھامے ہوئے تھے ۔ کچھ لوگو نے ہاتھوں میں بڑے بڑے جشن عید میلاالنبی کے جھنڈے اور بینر اٹھارکھے تھے۔ ایک دو جگہ جلوس کے ساتھ میلاد پڑھی جارہی تھی۔

جلوس کی اگلی صف کے بچے جوش اور خوشی میں نعرے لگارہے تھے۔

’’نعرۂ تکبیر ‘‘

’’اللہ اکبر‘‘

’’نبی کا دامن ‘‘

’’نہیں چھوڑیں گے‘‘

’’غوث کا دامن ‘‘

’’نہیں چھوڑیں گے‘‘

بچوں اور لوگوں نے ہاتھوں میں خوشبودار چھوٹی بڑی اگر بتیاں پکڑ رکھی تھیں جس کی وجہ سے سارا ماحول مہکا ہوا تھا۔ لوگ اپنے مکانوں کی کھڑکیوں ، دروازوں ،گیلری میں کھڑے ہوکر اس جلوس کو دیکھ رہے تھے۔
 

الف عین

لائبریرین
دو پہر تک یہ جلوس سارے گاؤں میں گھومتا رہے گا۔ دوپہر میں یہ جلوس پیر بابا کی درگاہ پر پہنچے گا جہاں پر کھانا پکا ہوگا اور سارے گاؤں والے وہاں دوپہر کا کھانا کھاتے کے لیے جائیں گے۔ جاوید بتانے لگا۔وہ لوگ بھی جلوس میں شریک ہوگئے تھے۔

’’کیا اس کھانے میں سارا گاؤں شریک ہوتا ہے؟‘‘

’’ہمارے بچے نہیں سارا گاؤں شریک ہوتا تھا ۔لیکن گذشتہ چند سالوں سے اب وہ بات نہیں رہی ۔اب صرف چند لوگ ہی شریک ہوپاتے ہیں۔ ‘‘جاوید نے جواب دیا۔

جلوس مسلم محلے سے گذرنے لگا تو وہ محلے کی بہ رائش دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔اس نے اس طرح کی سجاوٹ پنجاب میں صرف چندمخصوص موقعو ں پر دیکھی تھی۔

گاؤں میں پچاس ساٹھ مسلم گھر ہوں گے۔ وہ تمام ایک محلے میں ہی تھے۔ مسلمانوں کی آبادی پانچ چھ سے کے قریب ہوگی۔ لیکن گاؤں پر مسلمانوں کا دبدبہ تھا۔ اس طور پر تھا کہ گاؤں کے تمام اہم کاروبار میں مسلمان شریک تھے۔ جاوید کے انسٹی ٹیوٹ کو ہی لیا جائے تو وہ گاؤں کی ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتا تھا۔ جہاں سے علم ،ہنر کی روشنی پھوٹتی تھی۔ مسلمانوں کے کھیت بھی تھے۔ تیل کی گھانیاں بھی تھیں۔ چھوٹے موٹے کاروبار بھی تھے۔ غریب مسلمان بھی تھے۔ جو کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے یا پھر دوکانوں ،کاروباروں میں کام کرتے تھے۔

کچھ گھر میں بہت زیادہ آسودگی تھی توکچھ گھروں میں انتہا غریبی ۔ایک مسجد بھی جس میں پانچ وقت کی نماز پڑھی جاتی تھی۔ اس میں ایک مدرسہ تھا جس میں بچوں کو دین کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ایک اسکول تھا جہاں بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ لیکن اس اسکول میں صرف پرائمری درجے کی ہی تعلیم دی جاتی تھی۔ ہائی اسکول کی تعلیم اس اسکول سے فارغ ہوکر بچے گاؤں کے ہائی اسکول میں ہی حاصل کرتے تھے۔ تعلیم کے معاملے میں گاؤں میں اتنی روشن خیالی نہیں تھی ۔

جاوید جیسے نوجوان تھے جو تعلیم کے میدان میں کافی دور تک گئے تھے۔ ورنہ بچے ابتدائی یا ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ماں باپ کے کاروبار یا دھندوں میں لگ کر پیسہ کمانے لگتے تھے۔ پیسہ ایک اہم شہ تھی۔ہر کسی کو پیسے ،دھن دولت کے معیار پر ہی تو لا جاتا تھا۔

جاوید نے اسے اپنے گھر لے جاکر اسے ناشتہ کرایا ۔ناشتہ میں میٹھا اور طرح طرح کی مٹھائیاں تھیں۔ وہ جاوید کے گھر والوں سے ملا ۔جاوید کے گھر والے اس سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ان کے خلوص اور اپنائیت کو دیکھ کر اسے محسوس ہوا وہ گجرات کے ایک گاؤں نوٹیا میں نہیں ہے۔ پنجاب کے اپنے گاؤں میں ہی ہے۔

ناشتہ کرکے وہ دوبارہ جلوس میں شریک ہوگئے۔ جلوس گاؤں کی گلیوں سے گذرہا تھا۔ ایک جگہ وہ ٹھٹک کر رہ گیا ۔ایک سہ منزلہ عمارت کی گیلری میں مدھو کھڑی جلوس کو دیکھ رہی تھی۔ مدھو کو دیکھ اس کا دل دھڑک اٹھا۔ تو یہ مدھو کا گھر ہے۔ مکان پر گجراتی میں کچھ لکھا تھا وہ پڑھ نہیں سکا ۔ٹکٹکی باندھے مدھو کو دیکھتا رہا۔ جلوس قریب آیا تو اس نے مدھو کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ دیکھی۔ اس مسکراہٹ سے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی۔ اسے لگا مدھو اسے دکھ کر مسکرارہی ہے۔ دوسرے ہی لمحے ہی میں وہ چونک پڑا۔ جاوید بھی مدھو کو دیکھ کر مسکرارہا تھا۔ جاوید نے مسکراکر مدھو کو ہاتھ بتایا تو جواب میں مدھو نے بھی ہاتھ ہلا کر جاوید کو جواب دیا۔ وہ ہکا بکا دونوں کو دیکھتا رہا۔ کچھ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ پر ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔

’’کون ہے وہ ‘‘ اس نے اپنے ہونٹوں کو ترکرکے حلق سے تھوک کو نگلا اور جاوید سے پوچھا۔

’’مدھو اس کا نام ہے۔‘‘ جاوید بولا۔’’۱۰ ویں تک ہم ساتھ ساتھ پڑھے ہیں۔ میرے سائبر میں باقاعدگی سے آتی ہے۔ کالج پڑھنے کے لیے شہر جاتی ہے۔‘‘

’’اور ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اور کیا ؟ ‘‘جاوید اس کامنہ دیکھنے لگا ۔’’سردارجی یہ چہرے کا رنگ کیوں بدل گیا ہے۔ کیا دل کا معاملہ ہے؟‘‘

’’دل۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ بوکھلا گیا۔

’’ تو پنجاب کا دل گجرات پر آگیا۔ ‘‘ جاوید اسے چھیڑنے لگا ۔’’دراصل مدھو چیز ہی ایسی ہے۔ آپ کا دل آگیا ہے تو کوئی بری بات نہیں ہے۔ ۔ ۔ لگے ۔ ۔ ۔ رہے۔منزل خود بہ خود آسان ہوجائے گی۔‘‘جلوس آگے بڑھتا گیا۔

وہ باربار مڑکر مدھوکو اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئی ۔اسے اس بات کی خوشی تھی جلوس میں شریک ہونے کے بہانے اس نے مدھو کا گھر دیکھ لیا ہے۔ جاوید مدھو کو جانتا ہے یہ اور بھی اچھی بات تھی۔ اب تو جاوید سے مدھو کے بارے میں ساری معلومات مل سکتی ہے۔ اور پھر اس نے تاڑ بھی لیا ہے۔کہ اس کا اور مدھو کا دل کا معاملہ ہے۔ اب معاملہ آگے بڑھے تو جاوید اس میں ساتھ دے سکتا ہے۔

جلوس پیر بابا کی درگاہ پر پہنچ گیا ندی کے کنارے ایک بڑے سے میدان میں بنی ایک درگاہ تھی۔ درگاہ کے چاروں طرف آم اور برگد کے بڑے بڑے درخت تھے اور آس پاس کھیتوں کے سلسلے ۔ درگاہ کے قریب ایک بڑا سا کنواں تھا۔ اور درگاہ سے لگ کر ایک چھوٹا سا مکان بھی تھا۔ درختوں کے سایے میں جگہ جگہ دیگیں چھڑی ہوئی تھی جن میں کھانا پک رہا تھا۔ کچھ دیگوں میں کھانا تیار ہوگیا تھا۔ جلوس میں شریک لوگ میدان میں بیٹھ گئے۔

لاؤڈ اسپیکر سے باربار اعلان ہورہا تھا کہ لوگ جلد از جلد قطار میں بیٹھ جائیں کھانا شروع ہورہا ہے۔ وہ اور جاوید ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ گئے۔ کھانے کی تقسیم شروع ہوگئی ۔جرمن کی رکابیوں میں کھانا ان کے سامنے آیا۔ کھانا میٹھا چاول تھا۔ چاول اور گڑ سے بنایا ہوا میٹھا چاول ۔ جاوید وہاں بیٹھنے سے قبل قریب لگی دوکانوں سے آم کا اچار ۔پاپڑ اور پکوڑے لے آیا تھا۔ ایک نظر میں اسے یہ کھانا بڑا عجیب لگا اس نے آج تک اس قسم کا کھانا نہیں کھایا تھا۔

’’کھائیے سردار جی ۔ ۔ ۔ یہ کھانا سال میں صرف ایک بار پکتا ہے۔‘‘جاوید نے اسے ٹوکا تو اس نے کھانا شروع کیا۔ ایک دو نوالے حلق سے نیچے اترنے کے بعد اسے محسوس ہوا کھانا تو بڑا لذیذ ہے۔ اسے پکوڑوں ،چنے کی چٹنی اور آم کا اچار کے ساتھ کھایا جائے تو اس کی لذت دوبالا ہوجاتی ہے۔پلیٹ میں کا کھانا ختم ہونے سے قبل کھانا تقسیم کرنے والے پلیٹ میں کھانے کا ڈھیر لگا دیتے تھے۔ ڈھیر دیکھ کر اسے محسوس ہوتا تھا کہ بہت کھانا ہے ختم نہیں ہوگا ۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ پیٹ میں پہنچ جاتا تھا۔ اس نے بھوک سے زیادہ کھالیا تھا۔

کھانا کھاکر اس نے درگاہ کے کنویں سے پانی پیا۔ لوگ کھانا کھانے کے لیے خوق در جوق آرہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد عورتیں بھی کھانا کھانے کے لیے آنے لگیں ۔ عورتوں کا دوسری جگہ انتظام کیاگیاتھا۔

’’یہ کھانے کا سلسلہ شام چار بجے تک چلتا رہے گا۔‘‘ جاوید کہنے لگا۔’’اس میں آس پاس کے گاؤں سے بھی لوگ شریک ہوں گے۔ ‘‘کھانا کھا کر وہ ندی کنارے چلتے چلتے واپس آگئے ۔ندی میں برائے نام پانی تھا۔

واپس دوکان پر آکر اس نے رگھو اور راجو کو بھی کھانے کی چھٹی دے دی۔وہ لوگ بھی کھانا کھانے کے لیے پیر بابا کی درگاہ پر جانے والے تھے۔ ان کے جانے کے بعد وہ دوکان میں اکیلا رہ گیا۔ لیکن دوکان میں کوئی کام بھی نہیں تھا۔اس کے دل میں آیا دوکان بند کرکے سوجائے ۔کوئی گاہک تو آنے سے رہا۔ عید میلاد النبی کی وجہ سے شاید گاہکوں نے سمجھ لیاتھا اس کی بھی دوکان بند رہے گی یا پھر انھیں اس کی دوکان کے سامان کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی تھی۔

وہ کرسی پر بیٹھ کر اونگھنے لگا ۔اور پھر کاؤنٹر پر سر رکھ سوگیا۔ ایک دوبار چونک کراس کی آنکھ کھلی ۔اسے لگا جیسے کوئی آیا ہے۔ لیکن اس نے جب دیکھا سامنے سڑک پر دوردور تک سناٹا ہے تو وہ پھر دوبارہ کاؤنٹر پر سر رکھ کر سوگیا۔

راجو اور رگھو دو گھنٹے کے بعد آئے۔ ان کے آنے تک اس نے ایک اچھی خاصی جھپکی لے لی تھی۔ شام پانچ بجے کے قریب خبر آئی کہ چوراہے پر کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ تفصیلات معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ سویرے سے ہی چوراہے پر کچھ لوگوں نے بورڈ لگائے تھے کے پیر بابا کی درگاہ پر جشن عید میلا النبی کے سلسلے میں ہونے والے کھانے میں ہندو شریک نہ ہوں۔یہ دھرم کے خلاف ہے ۔ملچھ لوگوں کا کھاناکھانا اپنا دھرم بھرشٹ کرنا ہے۔ اس کے باوجود لوگ کھانا کھانے کے لیے جانے لگے تو انھوں نے انھیں جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ کسی کے ساتھ معاملہ تکرار سے بڑھ کر جھگڑے تک پہنچ گیا تو کچھ لوگ دباؤ میں آکر سہم کر ان کی بات مان کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

ایک بارتکرار اتنی بڑی کے معاملہ ہاتھاپائی تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد روکنے والوں نے چوراہے پر لگی جھنڈیاں نکال کر آگ میں جلانی شروع کردی ۔سجاوٹ اور آرائش کو نقصان پہنچانے لگے۔ مسلمانوں کی بند دکانوں پر پتھراؤ کرنے لگے۔

جب مسلمانوں کو معلوم ہوا تو وہ بھی ایک جگہ جمع ہوگئے۔اس پر وہ لوگ ان مسلمانوں پر پتھراؤ کرنے لگے۔جواب میں مسلمان بھی پتھراؤ کرنے لگے ۔جس سے معاملہ اور بڑھ گیا۔ پتھراؤ میں دونوں جانب کچھ اور لوگ شامل ہوگئے ۔اس سے قبل کے معاملہ سنگین صورتِ حال اختیار کرے ، گاؤں کے کچھ بڑے لوگوں نے دونوں گروہوں کو سمجھا کر معاملہ رفع دفع کردیا۔ اور دونوں کو اپنے اپنے گھروں کو بھیج دیا۔زندگی پھر سے معمول پر آگئی۔


×××××
 

الف عین

لائبریرین
معاملہ معمولی تھا مگر ایک عجیب سی بے چینی اس کے اندر سماگئی تھی۔ دوکان سے گاہک غائب ہوگئے تھے۔ اس لیے دوکان کھلی رکھ کر کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس نے چھ بجے دوکان بند کردی اور رگھو اور راجو سے کہا کہ ’’وہ گھر چلے جائے ۔‘‘

حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہ چوک تک گیا۔ سارا ہنگامہ چوک میں ہی ہوا تھا۔ سڑکوں سے بھیڑ غائب ہوگئی تھی۔ اکادکا لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ گھروں کے دروازے بھی بند تھے۔ چوک کے پاس پولس کی ایک گاڑی کھڑی نظر آئی ۔ زیادہ تر دوکانیں بند تھیں۔ ایک دو جگہ جلی چیزوں کا ڈھیر دکھائی دے رہا تھا تو ایک دوجگہ پتھروں اور ٹوٹی ہوئی بوتلوں کی کانچ پڑی تھیں۔ دونوں جانب سے پتھر اور کانچ کی بوتلوں کاتبادلہ ہوا تھا اس لیے دونوں جانب دونوں چیزوں کا ڈھیر تھا۔

سویرے اسنے چوک کی سجاوٹ دیکھی تھی ۔ وہ اب تبدیل ہوگئی تھی۔ چوک میں ایک دو گجراتی میں لکھے بورڈ اب بھی آویزان تھے۔ وہ گجراتی پڑھ تو نہیں پارہا تھا لیکن ان بورڈوں پر لگے بھگوا جھنڈے اور ان پر لکھی بھگوا تحریریں ان بورڈ پر کیالکھا ہے اس بات کی غمازی کررہے تھیں۔ لوگ دو چار چار کے گروہ میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔وہ کیا باتیں کررہے تھے اس کے تو کچھ بھی پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ اس نے ایک دو آدمی سے جاننے کی کوشش بھی کی کہ معاملہ کیا ہے؟اس پر تو انھوں نے اسے گھور کر دیکھا پھر بولے۔ ۔ ۔ ’’ارے جو معاملہ تھا ختم ہوگیا سردارجی۔ اب یہاں بیکار رک کر کوئی فائدہ نہیں۔اپنے اپنے گھروں کو جاؤ اسی میں بھلائی ہے۔ یہاں کھڑے رہیں گے تو دوبات ہوگی اور معاملہ اور بڑھ جائے گا۔ ‘‘

’’پاگل لوگ ہیں ۔ارے پاگلوں کے کیا منہ لگا جائے ۔‘‘

’’آج تک ایسا نہیں ہوا ۔ اب ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ ‘‘

’’ارے یہ تو شروعات ہے ۔آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔‘‘

اسے لگا اس کا وہاں رکناعقلمندی کی بات نہیںہے۔ پولس اسے مشتبہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ وہ وہاں سے واپس دوکان پر چلا آیا۔ اور اوپر اپنے کمرے میں جاکر رات کا کھانا بنانے لگا۔ دوپہر کا کھانا اب تک پیٹ میں تھا۔ اس لیے رات کے کھانے کی گنجائش تو نہیں تھی۔ پھر بھی اس نے تھوڑا سا کھانا کھالینا کا سوچ لیا۔ رات کھانا کھاکر سانے کے لیے لیٹا تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ بھلا رات دس بجے اسے نیند آسکتی تھی۔بے چینی سی کروٹیں بدلتا دن بھر کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگا۔

سویرے جو کچھ ہوا ۔اس نے دیکھا ،محسوس کیا وہ ایک خوشگوار تجربہ تھا ۔لیکن شام کو جو کچھ ہوا اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کے لیے ایک ناخوشگوار تجربہ تھا۔ معاملہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اورمعاملہ کافی بڑھ گیا ۔معاملہ اس سے زیادہ بھی بڑھ سکتا تھا ۔اگر بڑھ جاتا تو ۔ یہ سوچ کر اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کی بوندیں ابھر آئیں ۔وہ اس کے آگے سوچ نہیں سکتا تھا۔ اسے لگ رہا تھا اگر معاملہ بڑھ جاتا تو اور اسکی دوکان بھی محفوظ نہیں رہے۔ وہ ایک ناوابستہ آدمی تھا۔ دونوں گروہوں سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ لیکن اس کی دوکان لوگوں کی نظر میں تھی۔ اس کی دوکان اس کاروبار دھندہ کئی لوگوں میں کھٹکتا ہے۔ شرپسند اس واقعہ پا اس طرح کے کسی واقعہ کی آڑ میں اسے اور اس کی دوکان کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔

اس بات سے اسے اتنی بے چینی ہونے لگی کہ دل میں آیا اس دوکان،کام دھندے کو چھوڑ کر وہ واپس پنجاب چلے جائے اور اپنے چاچا سے کہہ دے ۔ ۔ ۔ ’’اب میں اس گاؤں میں نہیں رہ سکتا ۔نہ وہ کام دھندہ کاروبار کرسکتا ہوں۔ تم چاہو تو وہ دوکان فروخت کردو ،کسی کو کرائے پر دے دو۔ اب مجھ سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ ‘‘پھر اس نے سر جھٹک دیا۔ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے اگر وہ گھبراجائے گا تو پھر زندگی جی چکا۔

کروٹیں بدل بدل کر وہ سونے کی کوشش کررہا تھا کہ اچانک اپنے مکان کے نیچے اسے ایک موٹر سائیکل رکنے کی آواز سنائی دی۔

’’سردارجی۔ ۔ ۔ سردارجی ۔ ۔ ۔ ‘‘ایک شناسا آواز کو سن کر اس نے فوراً بستر چھوڑ دیا۔گیلری میں آکر جھانک کر دیکھا تو اس کے اندازے کے مطابق جاوید ہی تھا ۔جو اسے آوازیں دے رہاتھا۔

’’ارے جاوید بھائی آپ اس وقت۔ ۔ ۔ ؟‘‘اس نے حیرت سے پوچھا اور نیچے اتر آیا۔

’’ہاں انسٹی ٹیوں کا ایک راؤنڈ لگائے آیا تھا ۔سوچا آپ سے ملتا چلوں۔‘‘

’’سب خیریت تو ہے نا۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہاں خیریت ہی ہے۔ لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔دن میں تو میری کمپیوٹر کلاس کے پاس کچھ نہیں ہوا۔لیکن پھر بھی ڈرلگا ہوا ہے کہ کہیں شرپسند رات میں اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کررہے۔ اس لیے سوچتا ہوں آج رات بھر جاگوں ۔اور ایک دو دو گھنٹہ بعد جاکر انسٹی ٹیوٹ کو دیکھتا رہوں۔‘‘

’’ہاں۔ ۔ ۔ جاوید بھائی ۔ ۔ ۔ احتیاط کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ڈر تو مجھے بھی محسوس ہورہا ہے۔‘‘

’’ارے ڈر آپ کو کس بات کا سردارجی۔ ‘‘ جاوید ہنسا۔ڈر تو ہم لوگوں کو ہونا چاہیے۔

’’میرا کاروبار لوگوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

’’ہاں ہے کاروبار ہی تو سارے فساد کی جڑ ہے۔ مفاد پرست اپنے مفاد کے لیے دھرم ، مذہب کی آڑ لیتے ہیں۔اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنگامہ کھڑا کر کے معاملہ کو بگاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اب یہ صرف عید میلاد النبی کی بات ہی نہیں ہے۔ نوراتری میں بھی مسلمانوں کو نوراتری کے اتسو میں شامل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ بہت سے مسلمان اس لیے اب اس طرح کے اتسومیں شریک نہیں ہوتے ہیں۔ کہاں ذرا سی بات پر معاملہ بگاڑا جائے ۔ورنہ کچھ سالوں قبل تک تو ایسی کوئی بھی بات نہیں تھی۔ نوراتری میں گربھا کھیلنے والا کون مسلمان ہے کون ہندو پہچان میں نہیں آتا تھا۔عید میلاد النبی کے کھانے میں نہ شریک ہونے کی تو پہلے بات کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ویسے آپ کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ سے وہ لوگ ڈریں گے ۔صرف ایک بار اپنی کرپان کھول کر گاؤں والوں کو بتادیجیے ۔کوئی آپ کی دوکان کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرات بھی نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’اب کرپان سے کون ڈرتا ہے۔جاوید بھائی ۔اب بندوق کا زمانہ ہے۔ پستول کے سامنے میری کرپان کی کیا بساط ۔‘‘وہ بولا۔

ایک دو باتیں کرکے جاویدچلا گیا۔ اس سے کہہ گیا کہ’’وہ اطمینان سے سوجائے۔‘‘لیکن نیند اسے کہاں آرہی تھی۔ نیند تو آنکھوں سے دور تھی۔ گیلری میں کھڑا وہ سناٹے میں ڈوبی گاؤں کی عمارتیں،سڑکوں اور گلیوں کو دیکھتا رہا۔ کبھی سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگتا۔ پھر اچانک ذہن میں مدھو کا خیال آیا۔ آج عید میلاد النبی کی چھٹی کی وجہ سے وہ کالج نہیں گئی تھی۔ اب جب گاؤں میں یہ معاملہ ہوگیا ہے کیا اس کے گھر والے اسے کالج جانے دیں گے۔ ۔ ۔ ؟ اس کا جواب وہ تلاش نہیں کرپارہا تھا۔ اس کے گھر والوں نے اگر کل مدھو کو کالج جانے نہیں دیا تو کا وہ مدھو کے دیدارسے محروم رہے گا۔

اس بات کو سوچ کر اس افسردگی چھاگئی اسے لگا اس لق ودق صحرا میں صرف مدھو ہی ایک ایسا نخلستان جس کے سہارے وہ آگے بڑھنے کی سوچ سکتا ہے۔جس کے تصور سے وہ اس ریگستان کا سفر طے کرسکتا ہے۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے معاملہ صرف دیدار تک اٹکا ہوا ۔ اسے مدھو کے دیدار سے ہی ایک ایسا روحانی سکون ملتا ہے جس کو وہ بیان نہیں کرسکتا ۔ساری عمر اس کے سامنے مدھو کا چہرہ رہے اور وہ ساری عمر مدھو کے چہرے کو تاکتا رہے۔ پتہ نہیں اس کے لیے مدھو کے دل میں کس طرح کے جذبات ہے۔اس نے ابھی تک اپنی کسی حرکت سے مدھو پراپنی محبت کا اظہار بھی تو نہیں کیاہے۔ اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر وہ مدھو پر اپنے پیار کا اظہار کردے تو مدھو اس کے پیار کو قبول ہی کرے ۔یہ ضروری نہیں کہ اس کے بعد وہ مدھو سے پیار کرنا چھوڑ دے۔ کیونکہ پیار یک طرفہ بھی توہوسکتا ہے۔ممکن نہیں کہ دو طرفہ بھی ہو۔

دنیا میں ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو اپنے محبوب سے یک طرفہ پیار کرتے ہیں۔ اپنے پیار کا اظہار بھی اس پر کرنہیں پاتے۔ ہر کسی کو اس کے دل کی مراد مل جائے یہ ممکن نہیں ہر کسی کو اس کی چاہت اس کا پیار مل جائے یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے گاؤں میں کئی لڑکیاں اس سے پیار کرتی تھیں۔لیکن وہ ان سے پیار نہیں کرتا تھا۔ کئی لڑکیوں نے اس سے اپنے پیار کا اظہار کیاتھا اور کہا تھا ’’اگر وہ انھیں نہیں ملا تو وہ اپنی جان دے دے گی۔ ‘‘ ان کے پیار کے اظہار کے باوجود اس کا دل نہیں پگھلا تھا۔ اس کا دل میں ان کے لیے پیار کا جذبہ نہیں جاگا تھا۔ نہ اس دل میں ان کے لیے پیار کا جذبہ جاگا تھا نہ انھوں نے اس کے لیے اپنی جان دی تھیں۔ ان کی شادی ہوگئیں تو چپ چاپ اپنے شوہروں کے پاس چلی گئیں۔
 

الف عین

لائبریرین
معاملہ معمولی تھا مگر ایک عجیب سی بے چینی اس کے اندر سماگئی تھی۔ دوکان سے گاہک غائب ہوگئے تھے۔ اس لیے دوکان کھلی رکھ کر کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس نے چھ بجے دوکان بند کردی اور رگھو اور راجو سے کہا کہ ’’وہ گھر چلے جائے ۔‘‘

حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہ چوک تک گیا۔ سارا ہنگامہ چوک میں ہی ہوا تھا۔ سڑکوں سے بھیڑ غائب ہوگئی تھی۔ اکادکا لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ گھروں کے دروازے بھی بند تھے۔ چوک کے پاس پولس کی ایک گاڑی کھڑی نظر آئی ۔ زیادہ تر دوکانیں بند تھیں۔ ایک دو جگہ جلی چیزوں کا ڈھیر دکھائی دے رہا تھا تو ایک دوجگہ پتھروں اور ٹوٹی ہوئی بوتلوں کی کانچ پڑی تھیں۔ دونوں جانب سے پتھر اور کانچ کی بوتلوں کاتبادلہ ہوا تھا اس لیے دونوں جانب دونوں چیزوں کا ڈھیر تھا۔

سویرے اسنے چوک کی سجاوٹ دیکھی تھی ۔ وہ اب تبدیل ہوگئی تھی۔ چوک میں ایک دو گجراتی میں لکھے بورڈ اب بھی آویزان تھے۔ وہ گجراتی پڑھ تو نہیں پارہا تھا لیکن ان بورڈوں پر لگے بھگوا جھنڈے اور ان پر لکھی بھگوا تحریریں ان بورڈ پر کیالکھا ہے اس بات کی غمازی کررہے تھیں۔ لوگ دو چار چار کے گروہ میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔وہ کیا باتیں کررہے تھے اس کے تو کچھ بھی پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ اس نے ایک دو آدمی سے جاننے کی کوشش بھی کی کہ معاملہ کیا ہے؟اس پر تو انھوں نے اسے گھور کر دیکھا پھر بولے۔ ۔ ۔ ’’ارے جو معاملہ تھا ختم ہوگیا سردارجی۔ اب یہاں بیکار رک کر کوئی فائدہ نہیں۔اپنے اپنے گھروں کو جاؤ اسی میں بھلائی ہے۔ یہاں کھڑے رہیں گے تو دوبات ہوگی اور معاملہ اور بڑھ جائے گا۔ ‘‘

’’پاگل لوگ ہیں ۔ارے پاگلوں کے کیا منہ لگا جائے ۔‘‘

’’آج تک ایسا نہیں ہوا ۔ اب ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ ‘‘

’’ارے یہ تو شروعات ہے ۔آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔‘‘

اسے لگا اس کا وہاں رکناعقلمندی کی بات نہیںہے۔ پولس اسے مشتبہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ وہ وہاں سے واپس دوکان پر چلا آیا۔ اور اوپر اپنے کمرے میں جاکر رات کا کھانا بنانے لگا۔ دوپہر کا کھانا اب تک پیٹ میں تھا۔ اس لیے رات کے کھانے کی گنجائش تو نہیں تھی۔ پھر بھی اس نے تھوڑا سا کھانا کھالینا کا سوچ لیا۔ رات کھانا کھاکر سانے کے لیے لیٹا تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ بھلا رات دس بجے اسے نیند آسکتی تھی۔بے چینی سی کروٹیں بدلتا دن بھر کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگا۔

سویرے جو کچھ ہوا ۔اس نے دیکھا ،محسوس کیا وہ ایک خوشگوار تجربہ تھا ۔لیکن شام کو جو کچھ ہوا اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کے لیے ایک ناخوشگوار تجربہ تھا۔ معاملہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اورمعاملہ کافی بڑھ گیا ۔معاملہ اس سے زیادہ بھی بڑھ سکتا تھا ۔اگر بڑھ جاتا تو ۔ یہ سوچ کر اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کی بوندیں ابھر آئیں ۔وہ اس کے آگے سوچ نہیں سکتا تھا۔ اسے لگ رہا تھا اگر معاملہ بڑھ جاتا تو اور اسکی دوکان بھی محفوظ نہیں رہے۔ وہ ایک ناوابستہ آدمی تھا۔ دونوں گروہوں سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ لیکن اس کی دوکان لوگوں کی نظر میں تھی۔ اس کی دوکان اس کاروبار دھندہ کئی لوگوں میں کھٹکتا ہے۔ شرپسند اس واقعہ پا اس طرح کے کسی واقعہ کی آڑ میں اسے اور اس کی دوکان کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔

اس بات سے اسے اتنی بے چینی ہونے لگی کہ دل میں آیا اس دوکان،کام دھندے کو چھوڑ کر وہ واپس پنجاب چلے جائے اور اپنے چاچا سے کہہ دے ۔ ۔ ۔ ’’اب میں اس گاؤں میں نہیں رہ سکتا ۔نہ وہ کام دھندہ کاروبار کرسکتا ہوں۔ تم چاہو تو وہ دوکان فروخت کردو ،کسی کو کرائے پر دے دو۔ اب مجھ سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ ‘‘پھر اس نے سر جھٹک دیا۔ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے اگر وہ گھبراجائے گا تو پھر زندگی جی چکا۔

کروٹیں بدل بدل کر وہ سونے کی کوشش کررہا تھا کہ اچانک اپنے مکان کے نیچے اسے ایک موٹر سائیکل رکنے کی آواز سنائی دی۔

’’سردارجی۔ ۔ ۔ سردارجی ۔ ۔ ۔ ‘‘ایک شناسا آواز کو سن کر اس نے فوراً بستر چھوڑ دیا۔گیلری میں آکر جھانک کر دیکھا تو اس کے اندازے کے مطابق جاوید ہی تھا ۔جو اسے آوازیں دے رہاتھا۔

’’ارے جاوید بھائی آپ اس وقت۔ ۔ ۔ ؟‘‘اس نے حیرت سے پوچھا اور نیچے اتر آیا۔

’’ہاں انسٹی ٹیوں کا ایک راؤنڈ لگائے آیا تھا ۔سوچا آپ سے ملتا چلوں۔‘‘

’’سب خیریت تو ہے نا۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہاں خیریت ہی ہے۔ لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔دن میں تو میری کمپیوٹر کلاس کے پاس کچھ نہیں ہوا۔لیکن پھر بھی ڈرلگا ہوا ہے کہ کہیں شرپسند رات میں اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کررہے۔ اس لیے سوچتا ہوں آج رات بھر جاگوں ۔اور ایک دو دو گھنٹہ بعد جاکر انسٹی ٹیوٹ کو دیکھتا رہوں۔‘‘

’’ہاں۔ ۔ ۔ جاوید بھائی ۔ ۔ ۔ احتیاط کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ڈر تو مجھے بھی محسوس ہورہا ہے۔‘‘

’’ارے ڈر آپ کو کس بات کا سردارجی۔ ‘‘ جاوید ہنسا۔ڈر تو ہم لوگوں کو ہونا چاہیے۔

’’میرا کاروبار لوگوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

’’ہاں ہے کاروبار ہی تو سارے فساد کی جڑ ہے۔ مفاد پرست اپنے مفاد کے لیے دھرم ، مذہب کی آڑ لیتے ہیں۔اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنگامہ کھڑا کر کے معاملہ کو بگاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اب یہ صرف عید میلاد النبی کی بات ہی نہیں ہے۔ نوراتری میں بھی مسلمانوں کو نوراتری کے اتسو میں شامل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ بہت سے مسلمان اس لیے اب اس طرح کے اتسومیں شریک نہیں ہوتے ہیں۔ کہاں ذرا سی بات پر معاملہ بگاڑا جائے ۔ورنہ کچھ سالوں قبل تک تو ایسی کوئی بھی بات نہیں تھی۔ نوراتری میں گربھا کھیلنے والا کون مسلمان ہے کون ہندو پہچان میں نہیں آتا تھا۔عید میلاد النبی کے کھانے میں نہ شریک ہونے کی تو پہلے بات کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ویسے آپ کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ سے وہ لوگ ڈریں گے ۔صرف ایک بار اپنی کرپان کھول کر گاؤں والوں کو بتادیجیے ۔کوئی آپ کی دوکان کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرات بھی نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’اب کرپان سے کون ڈرتا ہے۔جاوید بھائی ۔اب بندوق کا زمانہ ہے۔ پستول کے سامنے میری کرپان کی کیا بساط ۔‘‘وہ بولا۔

ایک دو باتیں کرکے جاویدچلا گیا۔ اس سے کہہ گیا کہ’’وہ اطمینان سے سوجائے۔‘‘لیکن نیند اسے کہاں آرہی تھی۔ نیند تو آنکھوں سے دور تھی۔ گیلری میں کھڑا وہ سناٹے میں ڈوبی گاؤں کی عمارتیں،سڑکوں اور گلیوں کو دیکھتا رہا۔ کبھی سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگتا۔ پھر اچانک ذہن میں مدھو کا خیال آیا۔ آج عید میلاد النبی کی چھٹی کی وجہ سے وہ کالج نہیں گئی تھی۔ اب جب گاؤں میں یہ معاملہ ہوگیا ہے کیا اس کے گھر والے اسے کالج جانے دیں گے۔ ۔ ۔ ؟ اس کا جواب وہ تلاش نہیں کرپارہا تھا۔ اس کے گھر والوں نے اگر کل مدھو کو کالج جانے نہیں دیا تو کا وہ مدھو کے دیدارسے محروم رہے گا۔

اس بات کو سوچ کر اس افسردگی چھاگئی اسے لگا اس لق ودق صحرا میں صرف مدھو ہی ایک ایسا نخلستان جس کے سہارے وہ آگے بڑھنے کی سوچ سکتا ہے۔جس کے تصور سے وہ اس ریگستان کا سفر طے کرسکتا ہے۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے معاملہ صرف دیدار تک اٹکا ہوا ۔ اسے مدھو کے دیدار سے ہی ایک ایسا روحانی سکون ملتا ہے جس کو وہ بیان نہیں کرسکتا ۔ساری عمر اس کے سامنے مدھو کا چہرہ رہے اور وہ ساری عمر مدھو کے چہرے کو تاکتا رہے۔ پتہ نہیں اس کے لیے مدھو کے دل میں کس طرح کے جذبات ہے۔اس نے ابھی تک اپنی کسی حرکت سے مدھو پراپنی محبت کا اظہار بھی تو نہیں کیاہے۔ اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر وہ مدھو پر اپنے پیار کا اظہار کردے تو مدھو اس کے پیار کو قبول ہی کرے ۔یہ ضروری نہیں کہ اس کے بعد وہ مدھو سے پیار کرنا چھوڑ دے۔ کیونکہ پیار یک طرفہ بھی توہوسکتا ہے۔ممکن نہیں کہ دو طرفہ بھی ہو۔

دنیا میں ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو اپنے محبوب سے یک طرفہ پیار کرتے ہیں۔ اپنے پیار کا اظہار بھی اس پر کرنہیں پاتے۔ ہر کسی کو اس کے دل کی مراد مل جائے یہ ممکن نہیں ہر کسی کو اس کی چاہت اس کا پیار مل جائے یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے گاؤں میں کئی لڑکیاں اس سے پیار کرتی تھیں۔لیکن وہ ان سے پیار نہیں کرتا تھا۔ کئی لڑکیوں نے اس سے اپنے پیار کا اظہار کیاتھا اور کہا تھا ’’اگر وہ انھیں نہیں ملا تو وہ اپنی جان دے دے گی۔ ‘‘ ان کے پیار کے اظہار کے باوجود اس کا دل نہیں پگھلا تھا۔ اس کا دل میں ان کے لیے پیار کا جذبہ نہیں جاگا تھا۔ نہ اس دل میں ان کے لیے پیار کا جذبہ جاگا تھا نہ انھوں نے اس کے لیے اپنی جان دی تھیں۔ ان کی شادی ہوگئیں تو چپ چاپ اپنے شوہروں کے پاس چلی گئیں۔

××××
 

الف عین

لائبریرین
دوسرے دن آنکھ جلد کھل گئی تو وہ صرف مدھو کی کشش تھی ۔جس کی وجہ سے آنکھ جلد کھل گئی ورنہ رات بھر وہ ٹھیک سے سونہیں پایا تھا۔ رات کے پہلے حصہ میں آنکھ لگی لیکن بھیانک خوابوں اور خیالوں نے اس کس نیند کا سلسلہ منقطع کردیا۔

اس نے خواب میں دیکھا سارا گاؤں جل رہا ہے ۔ ہزاروں افراد پر مشتمل ایک ٹولی ہے ۔ جو اشتعال انگیز نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھیار ہے۔ ٹولہ گھروں کو آگ لگاتا ہے۔ اپنے ہاتھوں کی ترشولوں سے مکانوں کے مکینوں کے جسموں کو چھیدتا ہے اور دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیتا ہے۔ بچوں کو نیزوں پر اچھالتا ہے۔ حاملہ عورتوں کی پیٹ کو چاک کرکے ان سے نو زائد بچے نکال کرآگ میں جھونک دیتا ہے۔

اس ٹولے نے آکر اس کی دوکان گھیر لی ۔ٹولے ایک چہرہ باہر آیا ۔یہ اس کے پڑوسی کا تھا جس کی اسپیر پارٹس کی دوکان تھی۔ جلاڈالو ۔ ۔ ۔ جلاڈالو۔ ۔ ۔ وہ ہاتھ اٹھا کر چیخا ۔اور ٹولہ خوفناک دل کو دہلانے دینے والے نعرے لگتا اس کی دوکان کی طرف بڑھا۔ اور اس کی آنکھ کھلی گئی تھی ۔اور اس کے باوجود لاکھ کوشش کے وہ ٹھیک طرح سے سونہیں سکا ۔سوتے جاگنے کی کیفیت میں رات گذر گئی ۔

سویرے ایسا لگا کہ اب گہری نیند آجائے گی لیکن مدھو کے تصور نے اسے سونے نہیں دیا۔ وہ برش کرتا گیلری میں آکر کھڑا ہوا ۔پو پھوٹ چکی تھی۔ اور دھیرے دھیرے چاروں طرف اجالا پھیل رہا تھا۔وہ بس اسٹاپ کو گھورنے لگا۔ اسے گاؤں آئی سڑک پر ایک سایہ سا رینگتا ہوا دکھائی دیا اور اسکی دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔دھیرے دھیرے اس سائے کے رنگین خدوخال واقع ہونے لگے۔ وہ مدھو ہی تھی۔ ہاتھوں میں کتابوں کو دبائے وہ بس اسٹاپ کی طرف بڑھ رہی تھی۔

بس اسٹاپ پر پہنچنے سے قبل لاشعوری طور پر اس نے اس کی گیلری پر نظرڈالی۔ گیلری میں اسے کھڑا دیکھ کر وہ ٹھٹکی پھر اس نے ہونٹوں پ ایک دلکش مسکراہٹ رینگ گئی۔ اسے لگا جیسے وہ مسکراہٹ اس کے دل کے تاروں کو چھیڑکر اس کے وجود میں دلکش ترنگیں پیدا کررہی ہے۔ مدھو کا اسے دیکھ کرمسکرانا اس بات کی گواہی تھ کہ مدھو کے دل میں اس کے لیے کوئی لطیف گوشہ ہے۔ اگر مدھو کے دل میں کوئی جذبہ نہیں ہوتا تو اسے دیکھ کر اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرتا ۔اس کے مدھو کو ہاتھ بتایا۔

مدھو کے چہرے پر شرم کے تاثرات ابھرے او راس نے بھی ہاتھ ہلاکر اس کے ہاتھ ہلانے کا جواب دیا۔ مدھو کے جواب کو پاکر اس کی ہمت بڑھی ۔اس نے مدھو کی طرف فلائنگ کس اچھال دیا۔ جواب میں مدھو نے بھی اس کی جانب فلائنگ اچھالنا چاہا لیکن اس کے ہاتھ ہونٹوں پر چپک سے گئے اور شرما کے اس نے اپنا سر جھکا لیا۔

وہ گیلری پر اپنی کوہنی رکھ کر مدھو کو دیکھنے لگا۔ مدھو بھی اشے شرمیلی نگاہوں سے مسلسل تاکے جارہی تھی۔ یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب بس آگئی ۔ مدھو نے ہاتھ اٹھاکر اسے گڈ بائے کہا۔ اور بس میں جاکر بیٹھ گئی۔ بس چلی گئی تو وہ اندر آیا ۔اسے کوئی تیاری نہیں تھی۔ وہ سب تیاری کرچکا تھا ۔مدھو کا انتظار کرنے کے لیے و ہ پہلے سے تیار ہوجاتا تھا۔اس کے ایک دوست نے کہاتھا ۔’’بغیر تیار ہوئے سردارجی دنیا کا سب سے گندہ آدمی محسوس ہوتا ہے۔ اتنا گندہ کے افریقہ کے کسی قبیلے کی عورت بھی اس پرنظرڈالنا پسند نہیں کرے گی ۔ ‘‘

اسے وہ بات یاد تھی۔ اس لیے وہ اپنے کھلے بال لنگی اور بنیان میں مدھو کے سامنے جاکر اس کا تصور توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے مدھوکے آنے سے قبل ہی وہ اپنے سرکے بال سنوار کر اس پر قرینے سے پگڑی باندھ لیتا تھا ۔اور اچھا سا ڈریس تن زیب کرلیتا تھا۔ تاکہ وہ کسی ’’دلیر مہدی ‘‘ سے کم دکھائی نہ دے۔ خوش لباسی کے معاملہ میں دلیر مہدے اس کا آئیڈ یل تھا۔وہ دلیر مہدی کو سب سے زیادہ خوش لباس سکھ مانتا تھا۔ جو اپنی خوش لباس کے وجہ سے ہر کسی پر اثر چھوڑکر تھوڑی سی نقل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

دن بڑے اطمینان سے گذرا ۔معمول کے مطابق دھندہ چلتا رہا ۔گاہک آتے جاتے رہے۔ لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگے رہے۔ کا کے واقعات کا کسی پراثر نہیں تھا۔ شام کے وقت اس نے رگھو کے حوالے دوکان کرکے چوک کی طرف کارخ کیا۔ وہ جاوید کے سائبر کی طرف چل دیا۔ سائبر میں حسب معمول بھیڑ تھی ۔کئی گاہک انتظار کررہے تھے۔ ان میں کئی لڑکیا ں بھی تھیں۔ ۱۶ سے ۲۲ سال کی عمر لڑکیا۔ لڑکے بھی تقریباً اسی عمر کے تھے۔

’’آئیے سردارجی ۔ ۔ ۔ خیریت ؟‘‘جاوید نے اسے دیکھ کر پوچھا۔

’’دیکھنے آیا ہوں کل کے معاملے کا کیا اثر ہوا ہے۔‘‘

’’اثر تو کچھ بھی نہیں پڑاہے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی ہیں ۔جاوید کہتا اسے اپنے آفس میں لے گیا۔ ‘‘اس نے اپنے لیے انسٹی ٹیوٹ میں ایک چھوٹاسا آفس بنا رکھا تھا۔

’’تمہاری سائبر میں لڑکیاں تو بہت آتی ہیں جاوید بھائی ۔‘‘اس نے پوچھا ۔

’’لڑکیاں نہیں نوجوان لڑکیاں کہیے سردارجی ۔ ‘‘جاوید نے مسکراکر کہا ۔

دراصل یہ چیز اس عمر کے لوگوں کے ہیں۔چاہے وہ لڑکے ہو یا لڑکیاں ۔لڑکے زیادہ تر چیٹنگ کے لیے آتے ہیں۔ یاپھر ’نیوڈ سائٹ ‘دیکھنے کے لیے ۔لڑکیاں چیٹنگ کے لیے آتی ہے۔ ان میں زیادہ تر لڑکیوں کا نظر یہ ہوتا ہے چیٹنگ کے ذریعے وہ غیر ممالک میں آباد گجراتی لڑکوں سے دوستی کریں۔ اور معاملہ آگے بڑھا کر شادی تک پہنچادے تاکہ ان کے ماں باپ کے سر سے ان کی شادی کا تلوار کی طرح لٹکا نہ رہے اور وہ ان کے لیے اچھا لڑکا ڈھونڈنے کے لیے پریشان نہ رہے۔ میرے سائبر کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی شادیاں غیر ممالک میں ہوچکی ہیں اور کئی لڑکیوں کی شادیاں غیر ممالک میں طے ہوچکی ہیں۔

’’وہ کامیاب رہی یاناکام ؟‘‘

’’اب یہ تو ان کا مسئلہ ہے۔ لوگوں کو بھی محسوس ہوگیا ہے کہ سائبر کے ذریعے لڑکیاں جلد اچھا جیون ساتھی ڈھونڈ کر سارے معاملات طے کرکے ان کے ذہن سے ایک بوجھ دور کردیتی ہیں اس لیے وہ انھیں سائبر جانے سے روکتے نہیں ۔رات کے ۱۲ بجے تک یہاں لڑکیوں کی بھیڑ ہوتی ہیں۔ ۱۵ کمپیوٹر لگا چکا ہوں پھر بھی کبھی کوئی کمپیوٹر خالی نہیں ہوتا ہے۔ اب بھی ۱۵ کمپیوٹرس کی ضرورت ہے۔‘‘جاوید بولا ۔

اچانک اس کا دل دھڑک اٹھا ۔اس کے مدھو کو سائبر میں داخل ہوتے دیکھا ۔یہ؟ اس نے جاوید کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔

’’مدھو نے اندرون بھائی پٹیل کی لڑکی ہے۔ ‘‘جاوید نے جواب دیا۔ ’’یہ بھی سائبر میں باقاعدگی سے آتی ہے۔ اس کی بھابھی سے چیٹنگ وغیر ہ کرتی ہے۔ ‘‘

جاوید کی بات سن کر اس نے اطمینان کی سانس لیا۔ ’’جاوید بھائی کوئی کمپیوٹر خالی نہیں ہے۔ ‘‘مدھو جاوید کے آفس میں چلی آئی۔

’’تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا ۔‘‘جاوید نے مسکراکر جواب دیا۔

’’کہاں انتظار کروں بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں ؟‘‘ مدھو اٹھلا کر بولی ۔

’’اگر اعتراض نہیں ہو تو میرا آفس حاضر ہے۔‘‘ کہتے مسکراکر جاوید نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ مدھو مسکراکر بیٹھ گئی ۔اس کا دل دھڑک اٹھا ۔

’’ان سے ملو سردار جسمیندر سنگھ عرف جمی۔ ‘‘جاوید نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مدھو سے کہا۔

’’ہاں میں انھیں جانتی ہوں ۔‘‘ مدھو نے مسکراکر جواب دیا ۔

’’جانتی ہوں؟‘‘جاوید نے حیرت سے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے ۔

’’وہ بس اسٹاپ کے سامنے ان کی دوکان ہے نا گرونانک اسپیر پارٹس۔‘‘مدھو نے جواب دیا۔

’’اچھا اچھا ،اور تم وہاں سے روزانہ آتی جاتی ہو۔ ‘‘جاوید نے کہا۔ ’’جمی یہ مدھو ہے میری کلاس میٹ ۔میں شاید کل اس کے بارے میں تمہیں بتا چکا ہوں ۔‘‘جاوید بولا ۔

’’ہاں انھیں تو روز ہی دیکھتا ہوں ۔‘‘ وہ شرمیلے لہجے میں بولا ۔

اتنے میں جاوید کو کسی لڑکے نے آواز دی ۔کسی کمپیوٹر میں کوئی پرابلم آیا تھا۔ ’’میں ابھی آیا ‘‘ کہہ کرجاوید اٹھ کر آفس سے چلا گیا۔ اب وہ دونوں آفس میں اکیلے تھے۔ کبھی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے دونوں کی نظریں ملتیں تو مسکرادیتے یا پھر گھبراکر دوسری طرف دیکھنے لگتے۔

’’آپ روز کالج جاتی ہیں؟‘‘مدھو سے بات کرنے کے لیے اس نے پوچھا ۔

’’کالج تو روز ہی جانا پڑتا ہے ۔‘‘مدھو نے مسکراکر جواب دیا۔ مدھو کا جواب سن کر وہ جھینپ گیا۔

’’کالج جاتے ہوئے کبھی میرے غریب خانے پر بھی آجایا کیجیے۔سویرے آپ بس اسٹاپ پر کھڑی ہوکر بس کا انتظار کرتی ہیں اچھا نہیں لگتا ۔اگر میرے غریب خانے پر آئیں تو میں آپ کو ناشتہ یا چائے تو دے سکتا ہوں۔ ‘‘ وہ بولا ۔

’’آپ کے گھر میں کون کون ہیں؟‘‘مدھو نے پوچھا۔

’’جی کوئی نہیں میں ہی اکیلا ہوں ‘‘

’’او‘‘مدھو نے اپنے ہونٹ سکوڑے۔

’’آپ کھانا کیا کھاتے ہیں؟‘‘

’’میں۔ ۔ ۔ میں خود کھانا بناتا ہوں۔‘‘

’’آپ کو کھانا بنانا آتا ہے۔‘‘مدھو کا چہرہ چمکنے لگا۔

’’حالات انسان کو یہ رنگ میں ڈھال دیتے ہیں۔ ‘‘

’’آپ کو آلو کے پراٹھے بنانے آتے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں بناسکتا ہوں‘‘

’’مجھے پنجابی آلو کے پراٹھے بہت پسند ہے۔‘‘

’’تو پھر کل غریب خانے پر آئیے آپ کے لیے آلو کے پراٹھے تیار ہوں گے ۔‘‘اس نے کہا۔

اس درمیان جاوید اندر آیا ۔’’مدھو، چار نمبر کمپیوٹر خالی ہورہا ہے تم وہاں پر بیٹھ سکتی ہو۔‘‘

’’شکریہ ‘‘کہہ کر مدھو اٹھ کر چلی گئی۔ مدھو کے جاتے ہی اس کا چہرہ اتر گیا۔

’’کیا بات ہے سردارجی ‘‘جاوید نے چھیڑتے ہوئے کہا۔’’میرا جلد آنا اچھا نہیں لگا ۔‘‘ اس نے کوئی جواب دیا۔ ’’اچھا سمجھ گیا دل کا معاملہ ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘کہتے ہوئے وہ اسے چھیڑنے لگا۔

آفس کے کانچ سے باہر وہ کمپیوٹر پر بیٹھی مدھو کو دیکھ رہا تھا ۔مدھو ماؤس اور کی بورڈ سے کھیلنے میں مصروف تھی۔ کبھی وہ سر اٹھا کر اسے دیکھ لیتی ۔دونوں کی نظریں ملتیں تو وہ مسکرادیتی ۔اس کی مسکراہٹ سے اس کے اندر جیسے جلترنگ سی بجنے لگتی۔ ایک فون آیا تو جاوید فون پربات کرنے لگا۔
 

الف عین

لائبریرین
’’میں ابھی آیا ‘‘کہہ کروہ اٹھا اور مدھو کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ مدھو کچھ ٹائپ کررہی تھی۔ اس طرح کسی کے کمپیوٹر کے پاس جاکر کھڑا ہوجانا ،اس کی تنہائی میں رخنہ ڈالنا سائبر کیفے کے آداب کے خلاف تھا۔ لیکن مدھو نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔

’’میرے بھائی کا ای میل آیاہے۔ اس کے ای میل کا جواب دے رہی ہوں۔میرا بھائی امریکہ میں ہے میری بھابھی بھی امریکہ میں ہے۔ اکثر یا تو ہماری فون پر باتیں ہوجاتی ہیں یا پھر ای میل سے ۔ کبھی کبھی چیٹنگ کے ذریعے بھی ہم ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ ‘‘ مدھو اسے بتانے لگی۔

یہ کیا گورکھ دھندہ ہے اسکے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ لیکن اس وقت اسے شدت سے احساس ہونے لگا اسے بھی یہ سیکھنا چاہیے۔کم سے کم وہ اس طرح مدھو کے سامنے اپنا کمپیوٹر شناسا ہونے کا اظہارتو کرسکتا ہے۔

اس وقت کیفے میں ایک نوجوان داخل ہوا۔ وہ سائبر کیفے میں ایک ایک لڑکی پر نظر ڈالتا سیدھا مدھو کے پاس آیا ۔اس نے اسے نا پسندیدہ نظروں سے اسے دیکھا اور اسے بازو ہٹا کر مدھو کے پاس کھڑا ہوگیا اور اس سے گجراتی میں میں کچھ کہنے لگا۔ مدھو بھی اس کا جواب گجراتی میں دینے لگی۔ مدھو کے چہرے پر آئے ناگواری کے تاثرات اس بات کا اظہار کررہے تھے کہ اسے اس نوجوان کا اس طرح آکر اس سے باتیں کرنا پسند نہیں آیا ہے۔ دونوں کبھی کبھی اونچے لہجے میں باتیں کرنے لگتے ۔ سائبر میں بیٹھے دوسرے لوگ چونک کر انھیں گھورنے لگتے ان کے اس انداز سے اس نے اندازہ لگایا جیسے وہ کسی بات پر بحث کررہے ہیں یا جھگڑرہے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد جاویداٹھ کروہاں آیا اور وہ بھی گفتگو یا جھگڑے میں شامل ہوگیا۔ دونوں میں بحث ہوتی رہی پھر وہ نوجوان چلا گیا۔ تو جاوید نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ’’کو ن تھا یہ ؟‘‘جاوید کے آفس میں پہنچ کر اس نے پوچھا۔

’’مہندرراوجی پٹیل ‘‘ جاوید نے جواب دیا۔ ایک بڑے باپ کا بگڑا ہوا بیٹا ہے۔ سیاسی لیڈر ہے۔ غنڈہ اور بدمعاش بھی ہے ۔کہہ کر وہ رک گیا ۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مدھو پر عاشق ہے۔

یہ سن کر اس کے دل کو ایک دھکا سا لگا۔

’’اور دوسری بات یہ ہے کہ مدھو اس کو ذرا بھی گھاس نہیں ڈالتی ہے۔‘‘

جاوید کی دوسری بات سن کر اسے کچھ اطمینان ہوا۔ اس نے ایک دو گھنٹے سائبر کیفے میں گذارے ۔اس دوران کبھی چور نظروں سے کبھی دیدہ دلیری سے مدھو کی طرف دیکھتا رہا۔ کبھی مدھو کے پاس جاکر اس کا قریب سے جائزہ لیتا رہا۔ جاتے وقت وہ دھیرے سے بولا’’سویرے میں تمہارے آلو کے پراٹھے تیار رکھوں گا۔ناشتے میں میرے آلو کے پراٹھے کھائے بنا کالج نہیں جانا۔ ‘‘

اس کے بات کامدھو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف دھیرے سے مسکرائی ۔وہ اس کو مدھو کی ہاں سمجھ گیا۔

اس رات وہ بہت خواش تھا۔ اس نے مدھو کو نہ صرف کافی قریب سے دیکھا تھا بلکہ بہت دیر تک باتیں بھی تھیں اور کل مدھو اس کے گھر ناشتے پر آنے والی تھی ۔اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی تھی ۔لیکن ایک اور بات تھی جو کیل کی طرح اس کے سینے میں چبھ رہی تھی۔ مہندر پٹیل ۔ ۔ ۔ مدھو کا عاشق گاؤں کا رئیس ہے۔ بڑے باپ کا بگڑا ہوا بیٹا ہے، سیاسی لیڈر ہے،غنڈہ ہے ، بدمعاش ہے اور مدھو پر عاشق ہے۔

وہ اپنا موازنہ مہندرسے کرنے لگا۔ تو اسے مایوسی ہوتی آخر اس نے سر جھٹک دیا اور سوگیا ۔ سویرے اسے جلد اٹھنا تھا ۔مدھو کے لیے پراٹھے بنانے تھے۔آلو کے پراٹھے اس نے آج تک نہیں بنائے تھے ۔لیکن پراٹھے بنتے دیکھے تھے۔ جگیر کے ہوٹل میں وہ چھوٹے موٹے کام کرتا تھا اس لیے کھانا بنانا سیکھ گیا تھا۔

سویرے وہ جلد جاگ گیا۔ رات میں ہی اس نے آلو چھیل رکھے تھے۔ آلو کو بھوننے کے لیے اس سے کڑھائی میں ڈال دیا۔ اور پراٹھے بنانے میں لگ گیا۔اسی دوران وہ اچھی طرح تیار بھی ہوگیا تھا ۔نہا دھوکر اس نے خوشبو اپنے جسم پر ملی اور سب سے اچھا ڈریس پہنا۔ وہ آج دلیر مہدی کی سے کم دکھائی نہیں دینا چاہیے۔

آلو کے پراٹھے ،چائے ،اچار،چٹنی ،پاپڑ ،ناشتے میں پتہ نہیں اس نے کیا کیا چیزیں تیار کریں۔ اب صرف مدھو کی آمد کاانتظار تھا۔ وہ گیلری میں کھڑا ہوکر مدھو کا انتظار کرنے لگا۔ مدھو وقت سے پہلے آگئی ۔اس نے مدھو کو اوپر آنے کا اشارہ کیا تو وہ اوپر آگئی۔ اس نے مدھو کے سامنے ایک بڑی سی رکابی میں سارا ناشتہ پروس دیا۔

’’واؤ ۔ ۔ ۔ اتنے پراٹھے ۔ ۔ ۔ اتنے پراٹھے تو میں تین دنوں تک کھاسکتی ہوں۔‘‘

’’تین دنوں کے لیے نہیں یہ صرف آج کے لیے ہے ۔‘‘ اس نے مدھو سے کہا تو مدھو مزے لیکر آلو کے پراٹھے کھانے لگی ۔

مدھو پراٹھے کھاتی جاتی اور ان کی لذت اور بنانے والے کی تعریف کرتی جاتی۔ وہ اپنے بنائے آلو کے پراٹھوں کی تعریف سن کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ مدھو نے صرف دوپراٹھے کھائے اور چار پراٹھے اپنے ٹفن میں ڈال دیے۔

’’ٹھیک ہے ۔اپنی سہیلیوں کو اصلی پنجاب کے یہ پراٹھے کھلاؤں گی اور ان سے کہوں گی یہ ایک اصلی پنجابی نے بنائے ہیں۔ ‘‘

اسی دوران بس آگئی تو مدھو جلد ی سے اتر کر بس میں جا بیٹھی۔ جاتے ہوئے وہ اس سے کہہ گئی۔ ۔ ۔ ’’جمی جی ۔ ۔ ۔ آج آپ نے پنجاب کے پراٹھے ناشتہ میں کھلائے ۔کل میں آپ کو ناشتے میں گجرات کا کھمن کھلاؤں گی۔ ناشتہ مت بنائے گا میں ناشتہ لے کر آؤں گی۔ ‘‘

وہ اس تصور سے جھوم اٹھا کے کل بھی مدھو اس کے گھر آئے گی۔ آج کا دن اس کی زندگی کا یادگار دن تھا۔ اسے اتنی خوشی مل تھی کہ وہ اس خوشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔اس کا پیار اس کی مدھو اس کے گھر آئی تھی۔ اس بڑھ کر خوشی اس سے اور کیا ہوسکتی ہے۔ کہا تو وہ سوچتا تھا کہ وہ تو کبھی مدھو سے بات بھی نہیں کرپائے گا ۔صرف دور سے زادگی بھر دیکھتا رہے گا۔ اور صرف دو دنوں میں فاصلے اتنے سمٹ گئے ہے کہ وہ تو ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اسے لگا اب منزل دور نہیں ۔اسنے مدھو کے سامنے اپنے پیار کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن اب پیار کا اظہار کوئی مشکل کام نہیں ہے۔اب وہ تنہائی سے مدھو کے سامنے اپنے پیار کا اظہار کرسکتا ہے۔ اظہار کے کئی ذرائع ہے۔

اب وہ مدھو سے بنا جھجک کھل کر بات کرسکتا ہے۔ اسکے پاس مدھو کا ٹیلی فون نمبر ہے۔ مدھو کے پاس اس کا ٹیلی فون نمبر ہے۔ اسے مدھو کے کالج کا نام اور پتہ بھی معلوم ہے وہ چاہے تو مدھو سے اس کے کالج میں بھی جاکر مل سکتا ہے۔ اور کل تو مدھو اس کے گھر دوبارہ آرہی ہے۔ اس کے لیے ناشتہ لے کر ۔ وہ خوشی سے جھوم رہا تھا۔لیکن ایک چہرہ جو بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا تھا مہندر پٹیل کا چہرہ ۔ مہندر پٹیل کا چہرہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر وہ سہم جاتا تھا۔ اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا نے لگتا تھا۔ او اس اندھیرے میں اسے مدھو کی صورت ڈوبتی محسوس ہوتی تھی۔




٭
 

الف عین

لائبریرین
وہ ن بھی اس کے لیے بیساکھی سے کم نہ تھا۔ جو خوشی ایک کو بیساکھی کے دن محسوس ہوتی ہے اسے اسی دن محسوس ہورہی تھی۔ مدھو اس کے گھر آئی تھی اور اس کے ناشتہ کے لیے کھمن بناکر لائی تھی۔ ایک گجراتی کھانا تھا جو عام طور پر ناشتہ میں کھایا جاتا تھا۔ اس سے قبل اس نے وہ نہیں کھایا تھا ۔کھانا بڑا لذیذ تھا۔ اس پر چٹنیوں کی آمیزش اس کے ذائقہ کو دوبالا کردیتی تھی۔ جاتے ہوئے اس سے کہہ گئی کے آج اس کے کالج میں دو ہی پیریڈ ہے اگر وہ چاہے تو شہر آسکتا ہے۔ اس نے فوراً حامی بھرلی اور کہہ دیا اس وقت وہ کالج کے گیٹ کے باہر انتظار کرے گا ۔

مدھو بس میں بیٹھ کر چلی گئی۔ لیکن اس کے دل کو چین نہیں تھا۔ دو گھنٹے بعد ہی ملنے کا وعدہ تھا۔ اس لیے اس کا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ رگھو اور راجو آئے تو اس نے ان سے کہہ دیا وہ ایک کام سے شہر جارہا ہے ۔ شام کو آئے گا وہ دوکان دیکھ لے۔ اور فوراً سامنے کھڑی بس میں بیٹھ کر شہر کو چل دیا۔ آدھہ گھنٹے میں وہ شہر میں تھا۔ اور ابھی پورے ایک گھنٹے اسے مدھو کا انتظار کرنا تھا۔ شہر اس کے لیے نیا تھا۔ کوئی سناشا بھی نہیں تھا جس کے پاس جاکر وقت گذارا جائے ۔ مدھو نے کالج کا پتہ بتا دیا تھا۔ بس اسٹاف سے تھوڑی دیر پیدل چلنے کے بعد مدھو کا کالج آجاتا تھا۔ وہ کالج پر پہنچ کر کالج کے گیٹ کے باہر مدھو کا انتظار کرنے لگا۔

آتے جاتے لوگ اسے بڑی عجیب نظروں دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے تھے۔پہلے اس کی سمجھ میں ان لوگوں کی نظروں کا مطلب نہیں آیا پھر وہ خود اپنے آپ پر نظر پڑی۔ اس کی حالت شہر میں ہاتھی کی سی ہے ۔ جس طرح اگر ہاتھی شہر میں آجائی تو شہر والوں کے لیے وہ عجوبہ ہوتا ہے وہ بھی شہر والواں کے لیے عجوبہ تھا۔ اس وقت شہر میں شاید اکلوتا سکھ تھا۔ اس لیے لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔اسے لگا اسے اپنی شناخت چھپانا سب سے مشکل کام ہے۔ وہ لاکھوں میں پہچانا جاتا سکتا ہے۔ اور کوئی بھی اسے جاننے دور ہی سے اسے دیکھ کر کہہ سکتا ہے ’’یہ جسمیندر سنگھ عرف جمی ہے۔ نوٹیا گاؤں کے۔ گرونانک اسپےئر پارٹس کا مالک ۔ ‘‘ اور آج اس نے مدھو کے ساتھ شہر کی سے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ مدھو کو شہر میں شاید ہی پہچانی جائے۔لیکن اسے پہچان لینا آسان سا کام ہے۔ پھر اگر کسی سردار کے ساتھ کوئی لڑکی ہوتو وہ لوگ ہر کسی کی توج کا مرکز بن سکتے ہیں۔ خصوصی طور پر اگر وہ لڑکی گجراتی ہوتو ۔پھر اس نے اپنا سر جھٹک دیا ۔اب ان باتوں سے کیا ڈرنا۔جب پیا ر کیا تو ڈرنا کیا ۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

وقت مقرر پر مدھو باہر آگئی ۔وہ مدھو کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے ایک رکشا میں بیٹھ گیا اور رکشا والے سے چلنے کے لیے کہا۔ اگر کالج کا کوئی لڑکا لڑکی مدھو کو اس کے ساتھ دیکھ لیتا تو سارے کالج میں فسانہ بن جاتا مدھو ایک سردار جی کے ساتھ کہیں گئی ہے ۔کالج سے دور پہنچ کر وہ رکشا سے اترے ۔اور انھوں نے شہر کی سیر شروع کی ۔مدھو شہر کی ایک ایک چیز کے بارے میں اسے بتانے لگی دوپہر کا کھانا انھوں ایک اچھی ہوٹل میں کھایا ۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ مدھو سے پوچھ بیٹھا۔ ’’یہ مہندرپٹیل کون ہے؟ ‘‘

’’مہندر ‘‘ اس کا نام سن کر مدھو نے اپنے ہونٹ بھینچے ۔’’تم نے اس کا نام کیوں لیا ۔میں اس کا نام کو سننا بھی پسند کرتی ہوں ۔ ‘‘

’’موینی پتہ تو چلے کہ وہ کون سی ہستی ہے۔ ‘‘

’’ایک غنڈہ ،موالی ہے۔ مجھ سے عشق کرتا ہے۔‘‘

’’اور تم؟‘‘ اس نے مدھو کی آنکھوں میں دیکھا۔

’’میں اس کے منہ پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتی۔‘‘

’’وجہ؟‘‘

’’کہہ دیا نہ وہ ایک غنڈہ بدمعاش ہے مجھے ذرا بھی پسند نہیں ۔میری برادری کا ہے تو کیا ہوا وہ مجھے اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ مجھے رشتہ بھی لگایا تھا میرے گھر والے واضی ہوگئے تھے مگر میں نے صاف کہہ دیا کہ مہندر سے شادی کرنے کے بجائے میں کنواری رہنا پسند کروں گی ۔اس پر اس نے چیلنج کیا کہ ایک دن وہ مجھے شادی کے لیے راضی کرلے گا ۔تب سے آئے دن آکر مجھ پر اپنا حق جتاتا رہتا ہے۔ ‘‘

’’ہوں‘‘ مہندر کی کہانی سن کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ تووہ میرا رقیب ہے۔

’’رقیب ؟ ‘‘مدھو ہنس پڑی ’’وہ کس طرح ؟‘‘

’’وہ تمہیں پیار کرتا ہے اور میں بھی تمہیں پیار کرتا ہوں۔‘‘

’’وہ کیا مجھے پیار کرے گا ۔میرے جسم کو پانا چاہتا ہے۔ ایک بار اگر اس نے میرا جسم پالیا تو میری طر ف آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھے گا ۔کسی دوسری لڑکی پر ڈورے ڈالنے لگے گا ۔ اس لیے میں اس سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔ لیکن تم کب سے مجھ سے پیار کرنے لگے ؟ ‘‘

’’جب پہلی بار دیکھا تھا۔‘‘

’’کیا پہلی بار دیکھنے سے ہی پیار ہوجاتا ہے۔ ‘‘

’’سچا پیار تو پہلی نظرسے ہی شروع ہوجاتا ہے۔‘‘

’’اچھا ۔ ۔ ۔ اور پیار ۔ ۔ ۔ ‘‘وہ اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی ۔

’’یہ پیار کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’یہ ایسا جذبہ ہے جو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ‘‘وہ بولا۔

’’لیکن اس پیار کی کوئی تو نشانی توہوگی۔‘‘

’’اس وقت ہم آمنے سامنے بیٹھے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔ ایک روحانی مسرت حاصل کررہے ہیں یہ بھی پیار کی ایک نشانی ہے۔‘‘وہ بولا ۔

اس کی بات سن کر مدھو کے چہرے پر سرخی چھاگئی ۔ ’’کیا تم مجھے اسی طرح پیار کرتے رہو گے۔ ‘‘

’’ہاں اسی طرح ۔اور تم ؟‘‘

’’میں بھی تمہیں اس طرح پیار کرتی رہوں گی۔‘‘

’’تو اس کا مطلب ہے تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو۔‘‘

’’کیوں تمہیں کوئی شک ہے؟ مدھو کے چہرے پر غصے کے تاثرات ابھرے ۔مہندر جیسے کئی لڑکے میرے پیچھے پڑے ہیں لیکن میں کسی کو گھاس نہیں ڈالتی۔ بس تم پر دل آگیا جب تمہیں دیکھا تو تم دل میں اتر گئے۔ آتے جاتے دیکھتی رہی۔ اورمیری روح میں اتر گئے ۔ ‘‘

’’اوے بلے بلے ‘‘وہ خوشی سے ناچنے لگے۔

’’ارے یہ کیا تماشہ ہے۔ یہ ہوٹل ہے گھر نہیں ۔‘‘مدھو نے اسے پیار سے ڈانتا تو اس نے خود پرقابو کیا۔

’’ساری ساری‘‘یہ کہہ کر وہ چور نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ سچ مچ ہر کسی کی نگاہ اس پر مرکوز تھی۔ اس لیے زیادہ دیر تک وہاں بیٹھنا انھوں نے مناسب نہیں سمجھا۔اس نے ہوٹل کا بل ادا کیا اور جلدی سے ہوٹل کے ویٹر آگئے۔ اس کے بعد دوبارہ ان کی تفریح شروع ہوگئی جو شام پانچ بجے تک جاری رہی۔

شام پانچ بجے کی بس سے وہ واپس گاؤں آگئے۔ مدھو اپنے گھر چلی گئی ۔وہ آکر دوکان پر بیٹھ گیا ۔’’رگھو سب ٹھیک تو ہے؟ ‘‘اس نے رگھو سے پوچھا۔

’’سب ٹھیک ہے سیٹھ۔ مہندر اور سیف ہوٹل والے کی خوب مار پیٹ ہوئی۔

’’مار پیٹ ہوئی ؟کیوں؟‘‘

’’ارے و ہ تو کئی دنوں سے لگ رہا تھا کہ دونوں میں جم کر مار پیٹ ہوگی۔ جب سے سیف ہوٹل کھلی ہے۔ آس پاس کا تمام چھوٹے بڑے ہوٹلوں کا دھندہ ختم ہوگیا ہے۔ سیف ہوٹل میں کولڈ ڈرنک، جوس ،ٹھنڈا وغیرہ بہت عمدہ اور سستے داموں میں ملتا ہے اس لیے ہر کوئی اسی ہوٹل میں جاتا ہے۔ یہ بات تمام ہوٹل والاوں کی نظر میں کھٹک رہی تھی ۔مہندر کی بھی ایک ہوٹل ہے ۔ وہ تو بالکل ہوگئی تھی۔ اس لیے مہندر اور زیادہ کھائے بیٹھا تھا۔موقع کی تاک میں تھا کب اسے موقع ملے اور وہ سیف ہوٹل کے خلاف کوئی کاروائی کرے۔ آج پوری تیاری سے سافٹ ڈرنک پینے کے لیے وہ سیف ہوٹل کیں لیا ۔ سافٹ ڈرنک پی ک بل کے لیے اس نے ویٹر سے جھگڑا کیا اور اس کے منہ میں مار دیا۔ ہوٹل کے مالک سیف الدین نے اسے ویٹر پر ہاتھ اٹھانے سے روکا تووہ سیف الدین پر ٹوٹ پڑا ۔سیف الدین مظبوط آدم ہے اس نے جم کر مہندر کی پٹائی کردی۔اس پر مہندرکے آدمی ہوٹل میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنے لگے ۔جواب میں ہوٹل کے ویٹروں نے ان کی پٹائی کردی ۔ سیف الدین نے مہندر کو اتنا مارا کے بڑی مشکل سے جان بچا کر وہ بھاگا اور پولیس تھانے پہنچا ۔ پولیس آئی اور سیف الدین اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ کر لے گئی۔ ہوٹل بند ہے۔ اور ابھی تک پولیس اسٹیشن میں ہنگامہ چل رہاہے۔دونوں طرف کے لیڈر معاملے کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن مہندر معاملہ بڑھارہاہے۔ ‘‘
 

الف عین

لائبریرین
رگھو کی بات سن وہ سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ سوچ کر اس نے جاوید کو فون لگایا۔ ’’جاوید بھائی میں ذرا شہر گیا تھا ۔سنا ہے گاؤں میں کوئی ہنگامہ ہوا ہے۔ ‘‘

’’ہاں مہندر نے ہنگامہ کھڑا کیا تھا۔ ہوٹل میں توڑ پھوڑ ،مار پیٹ ہوئی ہے۔ معاملہ پولیس اسٹیشن میں ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ‘‘جاوید نے جواب دیا۔

’’کوئی گڑ بڑ تو نہیں ۔‘‘

’’گڑبڑ تو نہیں ہے لیکن معاملہ مہندر کا ہے ۔وہ معاملے کو کیا رنگ دے گا اس بارے میں کہا نہیں جاسکتا ہے۔‘‘جاوید بولا۔ ’’ویسے گاؤں والوں کو اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ کاروباری دشمنی ہے۔‘‘

جاوید کی بات سن کر وہ سوچ میں ڈوب گیا۔ اسے لگا گاؤں میں ایک الاؤ جل رہاہے اور مہندر جیسے لوگ اس الاؤ کو جلانے کے لیے نفرت ،دشمنی ،فرقہ پرستی کی لکڑیاں لالا کر ڈال رہے ہیں۔ تاکہ الاؤ کی آگ اور تیزی سے بھڑکے۔

دوسرے دن معاملہ نے ایسی نوعیت اختیار کرلی جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ مہندر کا تعلق جس پارٹی سے تھا اس پارٹی نے اپنے لیڈر پر ہوئے شرمناک قاتلانہ حملے کے خلاف گاؤں کا کاروبار بند رکھے کی اپیل کی تھی۔ سویرے سے ہی پارٹی کے ورکر آکر دوکانیں بند کرارہے تھے۔ اس نے جب دوکان کھولی تو وہ ورکر اس کے پاس بھی آئے ۔

’’سردارجی دوکان بند کیجیے‘‘

’’کیوں بھائی ‘‘

’’ہمارے لیڈر مہندر پٹیل پر ایک غنڈے ،پاکستانی ایجنٹ گینگ کے سرغنہ سیف الدین نے حملہ کیاہے ، اسے بڑی طرح زخمی کیاہے۔ اس غنڈہ گردی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہم نے یہ بند رکھا ہے۔ ہمارامطالبہ ہے سیف الدین اور اس کے ساتھیوں کو پوٹا کے تحت گرفتار کیا جالئے ۔ اس کے ہوٹل کو جوائم پیشہ افراد کا اڈا ہے اسے بند کیا جائے ۔سیف الدین کا تعلق پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی سے ہے۔ اس کی جانچ کی جائے اور گاؤں میں اس سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگوں کو بھی بے نقاب کیا جائے ۔ ‘‘

ان کی باتیں سن کر اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ ’’ہر کوئی جانتا تھا معاملہ کیا ہے۔ کتنی نوعیت کا ہے لیکن اس کو ایسا رنگ دیا جائے گا کوئی اس کے ۔بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ‘‘رگھو نے اسے مشورہ دیا۔

’’سیٹھ جی ۔ ۔ ۔ دوکان بند رکھی جائے تو بہتر ہے ۔مہندر نے غنڈے پال رکھے ہیں۔ دوکان کھلی رکھنے پر ہوسکتا ہے وہ کوئی گڑ بڑ کرے۔ ‘‘

اس نے دوکان بند کردی ۔معاملہ کا جائزہ لینے کے لیے چوک کی طرف آیا تو اسے سارا ماحول بدلا ہوا دکھائی دیا۔ ایک بھی دوکان چالو نہیں تھی۔ سڑکوں پر سناٹا تھا جگہ جگہ مہندر بھائی پٹیل پر ہونے ہوئے شرمناک قاتلانہ حملے کے خلاف بورڈ لگے تھے۔ اور بند کا نعرہ لکھا تھا۔

اخبارات آگئے تھے۔ اخبارات نے اس خبر کو نمایاں انداز میں چھاپا تھا۔ اخباروں میں لکھا تھا سیف الدین ایک غنڈہ ہے۔ کئی طرح کے غیر قانونی دھندوں اورجرائم میں ملوث ہے ۔ لیکن اس کا رسوخ اتنا ہے کہ آج تک پولیس اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکی۔اس کا تعلق پاکستانی خفیہ ایجنسی سے ہے ۔ جس سے وہ ملک دشمن سرگرمیوں میں بھی ملوث ہے۔ پولیس ایسے گناہ گار کے خلاف کاروائی نہیں کررہی ہے۔

گاؤں والے تو سب جانتے تھے کہ حقیقت کیا ہے لیکن اخبارات کی اس طرح کی خبروں کا اثر پورے علاقے پر پڑا ۔ اس طرح کی خبریں پڑھ کے آس پاس کے لوگ سوچنے لگے کہ ضرور نوٹیا میں کوئی بڑا واقعہ ہوا ہے۔ ریاست کے اہم لیڈران گاؤں آئے اور وہ بھی مہندر کی حمایت میں آواز اٹھانے لگے۔
 

الف عین

لائبریرین
رات کا معاملہ ختم ہوگیا تھا ۔ پولیس نے مار پیٹ کا کیس مہندر اور سیف دونوں کے آدمیوں کو ضمانت پر چھوڑ دیا تھا۔ لیکن معاملہ ایسا رخ اختیار کرے گا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ جاوید کمپیوٹر اسنٹی ٹیوٹ کے پاس آیا تو جاوید اور بند کرانے والوں میں حجت چل رہی تھی۔

’’دیکھیے ۔ ۔ ۔ آپ کا احتجاج اپنی جگہ پر ہے ۔لیکن اس اسنٹی ٹیوٹ کو بند کراکر آپ کوکیا ملے گا یہاں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک دن بند سے ان کی تعلیم کا نقصان ہوگا ۔‘‘

’’ارے بڑا آیا تعلیم کے نقصان پر ماتم کرنے والا ۔ بند کرتا ہے یا پتھر بازی شروع کریں۔ لگتا ہے یہ بھی سیف الدین کا ساتھی ہے۔ اس سالے کا نام بھی آ ئی ایس آئی کے ایجنٹوں میں ڈالو۔ ‘‘

اب معاملے کی نزاکت کو جاوید سمجھ گیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کہہ دیا۔’’ٹھیک ہے میں آج انسٹی ٹیوٹ بند رکھتا ہوں۔ ‘‘

’’جے شری رام ۔جے بجرنگ بلی ‘‘ کے نعرے لگاتے وہ لوگ آگے بڑھ گئے۔

’’جاوید بھائی یہ کیا تماشہ ہے ۔ ‘‘وہ جاوید سے بولا ۔

’’سردارجی ۔ ۔ ۔ کبھی آپ کے پنجاب میں جو کچھ ہوتا تھا آج سارے گجرات میں ہورہا ہے۔ کبھی پورے پنجاب پر دہشت گردوں کا سکہ چلتا تھا ۔ آج سارے گجرات پر فرقہ پرستوں کا سکہ چلتا ہے۔ کیونکہ حکومت ان کی ہے ،پولیس ان کی ہے، میڈیا ان کی ہے۔ وہ چاہے تو جھوٹ کاسچ اور سچ کا جھوٹ قرار دے دیتے ہیں۔ اب سیف بھائی کا معاملہ لے لو ۔ سارا گاؤں اسے جانتا ہے۔ سیدھا سادھا آدمی ہے۔ اس کا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن کاروباری رقابت نے اسے گینگ اسٹار ،ملک دشمنی سرگرمیوں میں ملوث ،غنڈہ قرار دے دیا ہے۔ کون اس کی بے گناہی کی گواہی دینے جائے گا۔دوسرے شہروں میں کئی بڑے بڑے لیڈر آگئے ۔ ایک بڑا سا جلوس نکالا گیا جس میں مسلمانوں کے خلاف ،سیف الدین کے خلاف اور پولیس کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ اور پولیس سے مطالبہ کیا گیا کہ فوراً سیف الدین کو پوٹا کے تحت گرفتار کیا جائے۔ ‘‘

’’ایک بڑا سا جلسہ ہوا ۔ جس میں مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلا گیا ۔انھیں ملک کا دشمن قرار دیا گیا ۔ان کو اس ملک سے ملک بدر کرنے کا عزم کیا گیا اعلان کیاگیا کہ مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ان کے ساتھ وئی بھی کاروباری تعلق نہ رکھا جائے ۔ان کی دوکانوں سے نہ سامان خریدا جائے اور نہ انھیں سامان دیاجائے۔ ان کو نہ نوکریاں دی جائے اور نہ وہ لوگ دھرنا دے کر سڑک پر بیٹھ گئے۔ اور راستہ روک دیا۔ پولیس کے اعلیٰ افسران بھی آگئے۔ انھوں نے سمجھایا’’ پولیس نے معاملہ درج کرلیا ہے۔ تحقیقات کی جارہی ہے۔ گناہ گار کے ساتھ سختی سے نپٹا جائے گا اور اس کیخلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ آپ ماحول خواب نہ کریں۔ معاملے اور نہ بگاڑیں۔اس کی آنچ آس پاس کے گاؤں میں بھی پھیل سکتی ہے۔ ‘‘

لیکن کوئی سننے کوتیار نہیں تھا۔ مجبوراً پولیس کمشنر نے حکم دیا کہ سیف الدین اور اس تمام ساتھیوں کو گرفتار کرلیا جائے۔

ہوٹل بند کردی گئی اور اس پر سیل لگادیا گیا۔ پولیس کی اس کاروائی پر جلوس نے فاتحانہ نعرے لگائے اور خوشیاں منائی ۔

’’ہم سے جوٹکرائے گا مٹی میں مل جائے گا‘‘

’’پاکستان پہنچا دیں گے ،قبرستان پہنچادیں گے‘‘

’’مہندر بھائی آگے بڑھو ۔ ۔ ۔ ہم تمہار ے ساتھ ہیں‘‘

’’جے شری رام ۔ ۔ ۔ جے بجرنگ بلی ۔ ۔ ۔ جے بھوانی ‘‘

شام ہونے سے قبل سارا تماشہ ختم ہوگیا۔ دھیرے دھیرے دوکانیں کھلنے لگیں۔ اور زندگی معمول پر آنے لگیں۔ لوگ جو خوف سے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے ۔گھر کے باہر آنے لگے اور سڑکوں پر زندگی کے آثار نمایاں ہوگئے۔ لوگ جگہ جگہ بھیڑ کی شکل میں جمع ہوتے اور دن بھر کے واقعات پر گفتگو کرنے لگتے۔ اسے حیرت اس بات پر تھی کہ سیف الدین کو گاؤں کے بچہ بچہ جانتا تھا۔ وہ اسی گاؤں میں پلا تھا۔ اس کی شرافت ،ایمانداری اور بھائی چارگی کی مثال سارا گاؤں دیتا تھا۔ لیکن وہی گاؤں والے اسی سیف الدین کی بارے میں طرح طرح کی باتیں کررہے تھے۔

’’سیف الدین تو بڑا غنڈہ نکلا‘‘

’’ارے صرف غنڈہ نہیں ملک دشمن بھی ‘‘

’’وہ پاکستان کا ایجنٹ ہوگا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘‘

’’کسی بھی مسلمان پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا پر مسلمان پاکستان کا ایجنٹ ہے ۔انڈیا کا دشمن ۔ ۔ ۔ ملک کا غدار ‘‘

’’اچھا ہوا مہندر بھائی نے اسے پکڑوادیا۔ ورنا کسی دن ہمارے پورے گاؤں کو اڑا دیتا ۔‘‘

’’مہندر بھائی کی پہنچ بہت ہے۔ وہ تو کہتا ہے کہ اس گاؤں میں اور بھی پاکستانی کے ایجنٹ ہیں۔‘‘

وہ یہ باتیں سنتا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگتا ۔اسے لگ رہا تھا ۔ ۔ ۔ الاؤ روشنی کے لیے کیا پھر تاپنے کے لیے جلایا جاتا ہے۔ لیکن اس گاؤں میں جو الاؤجلایا جایا رہا ہے اور اس میں جس طرح کی نفرت زہر بھری لکڑیوں کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ایسا لگتا ہے سارے گاؤں کو اس میں بھسم کرنے کے لیے اس الاؤ کو جلایا جارہا ہے۔



٭
 

الف عین

لائبریرین
دوسرے دن سیف الدین کی گرفتاری کی خبریں نمایاں انداز میں تھیں خبریں کچھ اس انداز سے شائع ہوئی تھیں کہ جو پڑھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا ۔

’’نوٹیا گاؤں سے پاکستانی ایجنٹ گرفتار۔ ۔ ۔ پاکستان کے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سب سے خطرناک ایجنٹ سیف الدین کو پولیس نے اس کے ۱۰ ساتھیوںکے ساتھ گرفتار کیا ۔ ۔ ۔ بی جے پی اور بجرنگ دل کے صدر پر قاتلانہ حملہ کرنے والے پاکستانی ایجنٹ کی گرفتاری ۔ ۔ ۔ گرفتار شدہ پاکستانی ایجنٹ کئی سالوں سے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کررہا ہے۔ اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اس نے ممبئی کے طرز پر گجرات کے مختلف شہروں میں بم دھماکے کرنے کی منصوبہ بنارکھا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کی فوجی نوعیت کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا پلان بنایاتھا ۔ممکن ہے تلاش میں اس کے ہوٹل سے خطرناک ہتھیار اور گولہ بارود برآمد ہو۔ ۔ ۔ سیف الدین نے نوٹیا گاؤں کو ملک دشمن سرگرمیوں کا اڈا بنارکھا تھا ۔اسکے اور بھی ساتھی اس وقت گاؤں میں موجود ہے۔ اگر ان کی گرفتاری جلد عمل میں نہیں آئی تو یہ ملک کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے۔ نوٹیا کے گھروں کی تلاشی کی جائے تو انگھروں سے مہلک ہتھیار برآمد ہو۔ سیف الدین اور اس کے ساتھیوں پر پوٹا لگا کر اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ ‘‘

’’اس کے ہاتھوں زخمی ہونے والے گاؤں کے ہر دلعزیز لیڈر بی جے پی کے رہنما اور بجرنگ دل کے صدر مہندر بھائی پٹیل کی حالت بد ستور ،تشویشناک ہے۔ ڈاکٹروں نے اب بھی انھیں خطرے سے باہر قرار نہیں دیا ہے۔ ‘‘

اسے تو گجراتی پڑھنی نہیں آتی تھی لیکن لوگ آکر اسے اخبارات کی خبریں سناتے تھے او ر اس کی دوکان پرکھڑے ہوکر تبصرہ کرتے تھے۔ جہاں تک وہ سیف الدین کو جانتا تھا وہ ایک سیدھا سادھا ا نسان تھا ۔اس کا پالیٹکس ،غنڈہ گردی یا ملک دشمن سرگرمیوں سے دور کا بھی واستہ نہیں تھا۔ لیکن تمام اہم گجراتی اخبارات نے اس کے خلاف ایک سے الزامات لگا کر اسے ملک کا سب سے بڑا دشمن اور غنڈہ قرار دے دیا تھا۔ اور جس مہندر کی حالت تشویشناک بتائی گئی تھی وہ دندناتا گاؤں میں گھوم رہا تھا ۔اصلیت تو وہ اورنوٹیا گاؤں کے لوگ جانتے تھے۔ جولوگ اخبارات میں یہ خبریں پڑھیں گے وہ تو سچ سمجھیں گے اور سیف الدین کو پاکستانی ایجنٹ ،ملک دشمن ،بہت بڑا غنڈہ ہی سمجھیں گے۔ جو نوٹیا گاؤں میں ملک دشمن سرگرمیاں چلا رہا تھا۔ باتوں میں کتنی سچائی ہے وہ جانتا تھا ۔ ۔ ۔ ہر کوئی جانتا تھا۔ لیکن کون اس کے خلاف آواز اٹھا کر سچائی بیان کرسکتا تھا ۔

اسے پنجاب میں دہشت گردی کازمانہ یاد آیا۔اسی طرح کی خبریں اس وقت بھی اخبارات کی زینت بنا کرتی تھی۔ پولیس نے ذاتی دشمنی سے کسی معصوم کو گولی مار دی بھی تو اس معصوم کو بہت بڑا دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا۔ اور اخبارات میں ایک بے گناہ کیپولیس کے ہاتھوں موت کی خبر کے بجائے ایک دہشت گرد کے انکاؤنٹر کی خبریں آتی تھیں۔ دو پڑوسی اگر لڑتے تو اس میں ایک کو دہشت گرد قرار دے کر اسے اخباروں کی سرخیوں کی زینت بنادیا جاتا تھا۔گاؤں میں ایک معمولی واقعہ ہوتا تو اسے دہشت گردی کی عینک سے دیکھ کر اسے ملک کا سب سے بڑا واقعہ بنا دیا جاتا تھا۔

اسے لگا دہشت گردی کی ذہنیت ہر جگہ کام کررہی ہے۔ جو کچھ پنجاب میں ہوا تھا۔ اب گجرات میں ہورہا ہے۔ کھلاڑی رہی ہے ۔ ۔ ۔ میدان بدل گئے ہیں۔ ۔ ۔ کھیل وہی ہے ۔ ۔ ۔ کھیل کے ٹارگیٹ بدل گئے ہیں۔

سویرے مدھو کالج جاتے ہوئے اس سے مل کر گئی تھی۔ ایک دوبار اس کا فون آیا تھا۔ اس نہ کہہ دیا تھا کہ گاؤں میں ہے کوئی واقعہ ہوا ہے ۔ سب اپنے اپنے کاموں میں لگے ہیں۔ ۱۰ بجے پولیس کی بہت بڑی گاؤں پہنچی ۔اوراس نے پورے مسلم محلے کو گھیر لیا اور ہر گھر کی تالشی لینے لگی ۔ اسے پتہ چلا کہ جاوید کے انسٹی ٹیوٹ کی بھی تلاشی کی جارہی ہے تو وہ وہاں پہنچ گیا۔

’’آپ شوق سے پورے انسٹی ٹیوٹ کی تلاشی لیجیے انسپکٹر صاحب ‘‘۔جاوید ایک انسپکٹر سے کہہ رہا تھا ’’یہ تعلیم کا گھر ہے یہاں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ ماؤس پکڑنا سیکھایا جاتا ہے ،بندوق یا پستول پکڑنا نہیں۔ ‘‘

’’ہم سمجھتے ہیں مسٹر جاوید لیکن ہم مجبور ہیں ۔اخبارات نے اس واقعہ کو اتنا اچھالا ہے اور ایسی ایسی خبریں چھاپ دی ہیں کہ ہم پراوپر سے دباؤ آیا ہے کہ ہم بتا نہیں سکتے۔ ہمیں یہ سب کرنا پڑے گا ۔انسپکٹر نے جواب دیا۔ ‘‘

دو تین گھنٹے میں خانہ تلاشی ختم ہوگئی ۔پولیس کو گھروں سے چھری ،چاقو ، لکڑیاں لاٹھیاں جو کچھ ملا ضبط کر کے لے گئے۔ اور ساتھ میں ۱۰،۱۲ لوگوں کو بھی گرفتار کرکے لے گئی ۔

’’جاوید بھائی یہ کیا ہورہا ہے۔ ‘‘ اس نے پوچھا ۔

’’وہی جو ساری دنیا میں ہورہا ہے ۔دہشت گردی کے نام پردہشت گردی ۔جھوٹے پرچار کے سہارے دہشت گردی پھیلائی جارہی ہے۔ اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔‘‘ جاوید مایوسی بھرے لہجے میں بولا۔’’انسانوں کے ضمیر مردہ ہوگئے ہیں۔ سچائی ،ایماندرای ،اخلاص یہ کسی کو فرقہ پرستی کے الاؤ میں جلا کر خاک کردیا گیا ہے۔ اور اس الاؤ سے جو شعلے بھڑک رہے ہیں جو آگ دہک رہی ہے وہ ماحول میں فرقہ پرستی ،نفرت ،حسد ،بغض ،کینہ کی گرمی پھیلا رہی ہے۔ ‘‘

’’جاوید بھائی جو الاؤ جلایا گیا ہے اگر اس کی آگ پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ آگ نہ صرف ہمارے گاؤں کو بلکہ آس پاس کے سارے علاقے کو جلا کر خاک کردیں گے ۔‘‘

’’ نہ ہم نے وہ الاؤ بھڑ کا یا ہے اور نہ ہم میں اسے بجھانے کی طاقت ہے ۔اسے بھڑکایاہے قرفہ پرست قوموں نے ،قرفہ پرست سیاست دانوں نے اور وہ اس آگ میں معصوموں ، بے گناہوں کو جھونک کراپنے مفاد کی روٹیاں سیکیں گے۔ ‘‘جاوید مایوسی سے بولا ۔

جاوید کے پاس سے وہ ہو چلا آیا ۔ اور دوکان پر بیٹھ کرمدھو کے فون کا انتظار کرنے لگا۔ مدھو آئے تو اس نے آنکھوں سے گھر چلنے کے لیے کہا۔ وہ اپنے کمرے میں آیا ۔مدھو اس سے گاؤں کی حالت پوچھنے لگی۔اس نے ساری تفصیلات بتائی ۔

’’ ہاں میں نے بھی اخبارات کی خبریں پڑھی ہیں۔ اور میں خود حیران ہوں کہ اس معاملے کو کس طرح رنگ دیا گیا ہے۔ وہ کمینہ مہندر اتنا ذلیل ہوگا میں نے سوچا بھی نہیں تھا ۔ وہ اپنے انا کے لیے ہزاروں بے گناہوں کو اذیت دینا اپنی چاہتا ہے سمجھتا ہے۔ ‘‘مدھو دانت پیس کر بولی ۔

ایک دو باتیں کرکے وہ چلی گئی۔ یہ کہہ کر اگر گاؤں میں ایسی ویسی بات ہوئی تو اسے خبر کرے گی۔ اس کے جانے کے بعد جب وہ دوکان پر آیا تو رگھو نے اسے ٹوکا ۔ ’’کیوں سیٹھ جی معاملہ پٹ گیا؟ ‘‘

’’کیسا معاملہ ؟‘‘

’’دل کا معاملہ ۔ ۔ ۔ لگے رہو ۔ ۔ ۔ پردیس میں دل بہلانے کے لیے کوئی ذریعہ بھی تو چاہیے آپ بھی آخر اپنے چاچا کے بھتیجے ہیں۔ آپ کے چاچا بھی آپ کی طرح رنگیلے تھے۔‘‘

’’رنگیلے ؟‘‘وہ رگھو کو گھور نے لگا۔

’’ارے بھائی آدمی گھر بار ،بیوی بچوں سے ہزاروں میل دور مہینوں تک رہتا ہے۔ تو زندہ رہنے کے لیے رنگیلا بن کر رہے گا یا سنیاسی بن کر ۔ ۔ ۔ آکے چاچا نے بھی کئی عورتوں سے دل کا معاملہ جمارکھا تھا ۔‘‘

’’کئی عورتوں سے ؟‘‘ وہ حیرت سے رگھو کو دیکھنے لگا۔

’’اں ان کا معاملہ کئی عورتوں سے تھا۔ وہ ان عورتوں سے اپنی ضرورت پوری کرتا تھا ۔اور وہ عورتیں اس سے اپنی جسمانی ہوس ۔‘‘

یہ باتیں سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ آج اسے اپنے چاچا کا ایک نیا روپ معلوم پڑا تھا۔ لیکن اسے اپنے چاچا سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ بیچارا سالوں تک چاچی سے دور رہتا تھا ۔ دل بہلانے کے لیے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے معاملوں میں الجھے گا نہیں تو اور کیا کرے گا ۔لیکن اس کا معاملہ تھوڑا مختلف تھا۔ اس کے اور مدھو کے تعلقات کو چاچا کا سا معاملہ نہیں کہا جاسکتاتھا۔وہ مدھو کو اپنے دل کی گہرائی سے چاہتا تھا۔ مدھو بھی اسے اپنے دل کی گہرائی سے چاہتی تھی۔ اس کے ذہن میں جنسی تعلقات کے خیال بھی نہیں آیا تھا۔ ابھی تک تواس نے مدھو کو چھوا بھی نہیں تھا۔ نہ مدھو کسی غلط نیت سے اس کے قریب آئی تھی۔ ایک دیوانگی تھی۔ دونوں کا دل چاہتا تھا۔ بس وہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ،ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ وہ زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کے ہوجانا چاہتے تھے۔ لیکن دونوں کا معاملہ بڑا تیڑھا تھا۔ اسے پتہ تھا اگر ان کے تعلقات کا علم مدھو کے گھر والوں کو ہوا تو آگ لگ جائے گی۔ اگر مہندرکو معلوم ہوا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہوجائے گا۔

وہ مدھو کو چاہتا تھا ۔مدھو کو اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔ اور اس کی ملکیت پر کوئی حق جتائے۔ اسے لگ رہا تھا۔ ایک دوسرے کو پانے کے لیے انھیں کئی ایسے قدم اٹھانے پڑیں گے جو ان کے لیے کانٹوں بھرا راستہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ انگاروں سے بھری راہوں پر چلنا ہوگا۔ وہ تو ان سب باتوں کے لیے تیارتھا۔ لیکن کیا مدھو ان تکلیفوں کو سہہ پائے گی۔ اس نے اس سلسلے میں مدھو سے بات نہیں کی تھی۔ اس کا ایک دل کہتا اسے مدھو سے اس سلسلے میں صاف صاف بات کرلینی چاہیے۔ تو دوسرا دل کہتا اسے اس سلسلے میں مدھو سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔سچے عاشق ،پیار کرنے والے زمانہ کا سامنا کرتے ہوئے ہر قسم کا امتحان دینے تیار رہتے ہیں۔ اسے پوار یقین تھا ۔مدھو اس کی طرح ہر امتحان میں پوری اترے گی۔
 

الف عین

لائبریرین
دوسرے دن جب مدھو کالج جانے لگی تو وہ بھی اس کے ساتھ بس میں بیٹھ کر شہر آیا۔ آج وہ مدھو سے دل کھول کر ساری باتیں کرلینا چاہتا تھا۔ اس کے ارادوں کو سمجھ کر اس کے جذبات ، احساسات کی قدر کرتے ہوئے مدھو نے اس دن کالج جانے کا ارادہ ترک کردیا ۔

’’کیا بات ہے۔آج اس طرح میرے ساتھ شہرکیوں چلے آئے ؟‘‘ مدھو نے پوچھا ۔

’’مدھو کئی ایسی باتیں ہیں جنھیں سوچ سوچ کر میں ساری رات نہیں سو سکا۔ ‘‘

’’ایسی کون سی باتیں تھے جنھوں نے ہمارے سیاں کی نیند حرام کردی ۔ ‘‘مدھو نے اسے چھیڑا ۔

’’مذاق مت اڑاؤ ۔ ۔ ۔ میں سنجیدہ ہوں ۔ ۔ ۔ سو فیصد سنجیدہ تم بھی سنجیدہ ہوجاؤ۔یہ ہماری زندگی کا سوال ہے۔ ‘‘

اسے سنجیدہ دیکھ کر مدھو بھی سنجیدہ ہوگئی ۔’’تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟ ‘‘اس نے پوچھا۔

’’یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ ‘‘

’’میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں تمہارے علاوہ میرے لیے دنیا کی کسی بھی غیر عورت کا تصور بھی حرام ہے۔‘‘

’’میں بھی صرف تمہیں اورتمہیں چاہتی ہوں ۔اب تو میں کسی غیر آدمی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ ‘‘

’’زندگی بھر میری بن کر رہوگی ؟‘‘

’’میں تو چاہتی ہوں کے موت کے بعد بھی تمہارے ساتھ رہوں ۔ساتھوں جنم تک تمہارے ساتھ رہوں ۔‘‘

’’مجھ سے شادی کروگی؟‘‘

’’یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ۔‘‘

’’کیا تمہار ے گھر برادری والے ہماری شادی کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ ‘‘

’’یہ ذرا تیڑھا مسئلہ ہے۔ ‘‘مدھو سنجیدہ ہوگئی۔’’میرے گھر والے اس شادی کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ اور برادری والوں کو اگر ہمارے تعلقات کا پتہ چلا تو وہ ایسی آگ لگائیں گے کہ اس میں ہمارا خاندان کا سب کچھ جل کر خاک ہوجائے گا۔ ‘‘

’’میرے گھر والوں کو ہماری شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔وہ خوشی خوشی ہر اس لڑکی کو اپنی بہو قبول کریں میں جسے پسند کروں ۔ اگر میں کہوں تو وہ تمہارے گھر بارات بھی لے کر جاسکتے ہیں۔ ‘‘ وہ بولا ۔

’’جمی ۔ ۔ ۔ یہی تو مسئلہ ہے ۔ میرے گھر تمہاری بارات نہیں آسکتی ہماری شادی منڈپ میں نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

’’اگرمنڈپ میں ہوسکتی تو کس طرح ہوگی ۔‘‘

’’ہم دونوں بالغ ہیں۔ اپنی مرضی کے مختار ہیں۔ ہم اپنی پسند کے مطابق شادی کرسکتے ہیں۔ ہم کورٹ میں شادی کریں گے۔ گھر والے ،برادری والے نہیں مانیں تو کہیں بھاگ جائیں گے۔ اور وہاں پر شادی کرکے اپنا نیا جیون شروع کریں گے۔ ‘‘

’’تم کس حد تک اپنی اس بات پر قائم رہوگی مدھو ؟۔ ‘‘

’’جمی ۔ ۔ ۔ میرا امتحان مت لو ۔اگر تم چاہو تو اس وقت اپناگھر ،وطن چھوڑ کر تمہار ے ساتھ جہاں تم کہو چل سکتی ہوں ۔ ‘‘مدھو نے اعتماد سے کہا۔

مدھو کی بات سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا ۔کافی دیر چپ رہا پھر بولا ۔’’مدھو ۔ ۔ ۔ تم اپنے گھر والوں کو ہماری شادی کے لیے راضی نہیں کرسکتی ۔میں نہیں چاہتا کہ کوئی تضاد بڑھے ۔‘‘

’’جمی۔ ۔ ۔ میرے گھر والے ہماری شادی کے لیے مشکل سے راضی ہوں گے۔ اگر میری محبت میں میری خوشی کے لیے وہ راضی ہوبھی گئے تو ہماری برادری والے راضی نہیں ہوں گے۔گاؤں والے راضی نہیں ہوں گے۔ اور وہ کمینہ ۔ ۔ ۔ مہندر اگر انھیں ہمارے تعلقات کی بھنک بھی لگ گئی تووہ ایسی آگ لگائے گا کہ میں بتا نہیں سکتی۔ ہماری شادی اس گاؤں میں ،منڈپ میں ہونی مشکل ہے۔ اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تومجھے اس گاؤں سے دور لے چلو۔ ہم کورٹ میں شادی کرلیں گے۔ ۔ ۔ کسی مندر میں شادی کرلیں گے۔ ۔ ۔ کسی گردوارے میں شادی کرلیں گے۔ ۔ ۔ یا مجھے تمہارے گاؤں لے کر چلو۔ ۔ ۔ وہاں اپنے کسی دوست ،اپنے کسی رشتہ دار کے گھر مجھے رکھ دینا اور وہاں اپنی بارات لے کر آجانا ۔ ‘‘کہتے ہوئے مدھو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
 

الف عین

لائبریرین
اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو پونچھے ۔’’مدھو تم جیسا چاہوگی میں ویسا ہی کروں گا ۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہماری وجہ سے کوئی فتنہ ،فساد نہ پیدا ہوجائے۔ ہمارے پیار کی وجہ سے تمہارے گھر والوں کو نیچے دیکھنا نہ پڑے ۔ان کی بدنامی کی بنیاد پر ہم اپنے پیار کا محل تعمیر کرسکتے ۔ بس اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ کوئی ۔ ۔ ۔ کوئی ایسا راستہ نکل جائے جس سے بخوبی انجام کو پہنچ جائے ۔ ‘‘وہ خلاء میں گھورتا بولا ۔

بہت بحث ،سوچ ،غور و خوص کے بعد بھی کوئی مناسب راستہ نکل نہیں سکا جو دونوں اور ہر کسی کے لیے قابل قبول ہو۔ اسے لگ رہا تھا جس وقت اس کے دل میں مدھو کے لیے محبت کونپل پھوٹی بھی اس وقت اس کی زندگی میں انگاروں کی فصل کی بویائی شروع ہوگئی تھی ۔ اب وہ فصل تیار ہورہی ہے۔ اب انھیں اس فصل کے انگارے ہی کاٹنے ہے ۔پھر وہ اپنے ذہن کو یکسوں کرنے کے لیے گاؤں کے حالات پر باتیں کرنے لگے۔ مدھو اسے ایسی باتیں بتانے لگیں جو اسے معلوم نہیں تھیں۔ اس کا کہنا تھا جھوٹ کا اتنا زور دار پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ ہر کوئی مسلمانوں سے نفرت کرنے لگا ہے۔ مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگا ہے۔ اور اسے محسوس ہورہا ہے مسلمان اس کی جان کے دشمن ہے وہ کبھی بھی اس کی جان لے سکتی ہے۔ اس لیے بہتری اس میں ہے کہ وہ اپنی جان کی دفاع کے لیے خود آگے بڑھ کر مسلمانوں کی جان لے لے۔ یا ان کے سروں پر جو مسلمانوں کے خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس سے نجات پانا ہے تو سارے مسلمانوں کو اس گاؤں بدر کر دیا جائے۔ مہندر بھائی جیسا نیتا ان کے دَل اور پارٹیاں ہی ان کی سچی رہنما ہے اور وہی ان کو اس مصیبت سے بچاسکتے ہیں ۔اس لیے ضرروت اس بات کی ہے کہ سب متحد ہوجائیں او ران کاساتھ دیں۔ ورنہ اس گاؤں میں بھی وہی کچھ ہوسکتا ہے جو آٹھ دس سال قبل ممبئی میں ہوچکا ہے۔ ۔ ۔ بم پھٹیں گے اور سارا گاؤں تباہ ہو جائے گا ۔مسلمانوں نے اس کو برباد کرنے کی تیاری کرلی ہے۔

یہ باتیں اور بھی ذہنی تناؤ میں مبتلا کرنے والی تھی۔ بہتر یہی تھا کہ ان باتوں کو چھوڑ کر اپنے بارے میں سوچا جائے۔ اپنے پیار کے بارے میں سوچا جائے گا ۔شام تک وہ ادھر اُدھر بھٹکتے رہے اور پھر گاؤں کی بس میں بیٹھ کر واپس گاؤں کی طرف چل دیے۔پورے راستے دونوں خاموش رہے ۔ بس میں دونوں کا کوئی شناسا نہیں تھا اس لیے دونوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے رہے۔ مدھو اس کی کاندھے پر سر رکھے پتہ نہیں کیا سوچتی رہی ۔بس اسٹاپ آیا تو وہ دونوں بس سے نیچے اترے ۔ پہلے مدھو اتری نیچے اترتے ہی اس کی چہرے کارنگ بدل گیا اور وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ سامنے مہندر کھڑا تھا۔ پھر شاید اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اسے مہندر سے اس طرح ڈر کر اسے اپنے کمزور اور غلطی کااحساس نہیں کرانا چاہیے۔ اس لیے اس نے بے نیازی سے ایک نظر اس پر ڈالی اور آگے بڑھ گئی۔ اس کے پیچھے جمی اترا ۔مہندر پر نظر پڑتے ہی وہ بھی ٹھٹھک گیا ۔ اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اپنے سامنے وہ مہندر کو پائے گا۔

’’کیا بات ہے سردارجی ۔ ۔ ۔ کہاں سے آرہے ہو ‘‘مہندر اسے چھبتی ہوئی نظروں سے دیکھتا بولا ۔’’سویرے جاتے ہو ،شام کو واپس آتے ہو ۔مدھو کے ساتھ جاتے ہو ۔ ۔ ۔ مدھو کے ساتھ واپس آتے ہو۔‘‘

مہندر کی یہ بات سن کر اس کا دل کانپ اٹھا۔ ’’ایسی بات نہیں ہے۔‘‘وہ تھوک نگل کر بولا۔

’’اگر ایسی بات نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ مجھے پتہ چلا کے تم مدھو میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہے ہو۔ ۔ ۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔ مدھو میری ہے۔ اور صرف میری رہے گی۔ اگر کوئی اس کی طرف آنکھ بھی اٹھائے تومیں اس کی آنکھ نکال دوں گا۔ اس کو کوئی چھونے کی کوشش کرے تو ،تو اس کے ہاتھ کاٹ دوں گا۔ اور اس حد سے آگے بڑھنے کی کوش کرے تو اسے اپنی نفرت اور غصے کے الاؤ میں جلا کر خاک کردوں گا۔ ۔ ۔ سمجھے۔دھندہ کرنے آتے ہو ۔دھندہ کرو اور دو پیسے کماؤ ۔عشق کرنے کی کوشش کروگے تو دھندے سے بھی جاؤ گے اور جان سے بھی ۔ ‘‘

’’جی۔ ۔ ۔ ‘‘پتہ نہیں کہاں سے بزدلی اس کی رگ رگ میں سما گئی تھی۔ وہ اس سے زیادہ کچھ کہہ نہ سکا ۔اتنا کہہ کر مہندر تیزی سے مڑا اور گاؤں کی طرف جانے والی سڑک پر آگے بڑھ گیا۔ وہ اپنی دوکان میں آکر سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔ ’’تو مہندرکو پتہ چل گیا۔ یا مہندر نے دیکھ لیا جان لیا کہ اس کا اور مدھو کا کیا رشتہ ہے۔ ‘‘اس کو مہندرکیا آنکھوں میں نفرت کے شعلے بھڑکتے نظر آئے۔ جو ایسا محسوس ہورہا تھا ایک الاؤ کی شکل اختیار کررہے ہیں۔ اور کچھ بد نما چہرے اسے اورمدھو کو پکڑ کر اس الاؤ میں دکھیل رہے ہیں۔دونوں ان کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے کسمسا رہے ہیں ۔ مگر انھیں اپنے پر جلتے الاؤ کی لپٹیں محسوس ہورہی ہیں۔







٭
 

الف عین

لائبریرین
دوسرے دن وہ مدھو کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا۔ لیکن وہ کافی تاخیر سے آئی۔ وہ چاہتاتھا مدھو کچھ پہلے آئے تاکہ وہ اس سے پوچھ سکے کے کل کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوئی۔ لیکن دور سے ہی مدھو نے اشارہ کردیا کہ وہ گیلری میں کھڑا نہ رہے اندر چلا جائے ۔باقی باتیں وہ فون پربتادے گی۔ مدھوکے اس اشارے سے اس نے اندازہ لگایا کچھ تو بھی گڑبڑ ہے یا گڑبڑ ہونی ہے اس لیے وہ فوراً اندر چلا گیا۔ لیکن اس کا دل نہ مانا ۔ وہ کھڑکی کی دراز سے چھپ کر مدھو کو دیکھنے لگا ۔ مدھو بس اسٹاپ آکر کھڑی ہوگئی ۔وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ باربار چونک کر چاروں طرف دیکھنے لگتی ۔ جیسے اسے کسی کا ڈر ہو۔ اس نے اندازہ لگایاشاید مدھو کی نگرانی کی جارہی ہے اسی لیے وہ اتنی گھبرائی ہوئی ہے۔اتنے میں بس آگئی اوروہ بس میں جا بیٹھی اور بس چلی گئی۔

جلدی سے تیار ہوکر وہ دوکان میں آیا۔ اسے مدھوکے فون کاانتظار تھا۔ اسے پورا یقین تھا مدھو اسے فون کرے گی اور ساری باتیں بتائے گی۔ اسے مدھوکے فون کازیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ شاید مدھو نے شہر پہنچتے ہی اسے فون لگایا تھا۔

’’جمی ۔ ۔ ۔ بہت گڑبڑ ہوگئی ہے۔وہ حرامی مہندر نے ایسی آگ لگائی ہے کہ میں بتا نہیں سکتی ۔اس نے نہ صرف میرے گھر والوں بلکہ محلے اور برادری کے چند بڑے لوگوں کے سامنے مجھ پر یہ الزام لگایا ہے کہ میرے تم سے ناجائز تعلقات ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر اس غصے سے اس کے کان کی رگیں پھول گئیں۔ ’’میں نے سب کے سامنے ان باتوں سے انکار کیاہے ۔وہ ثبوت پیش نہیں کر سکا اس لیے سب کے سامنے اسے ذلت اٹھانی پڑی ۔ اس لیے وہ تلملایا ہوا ہے اس نے چیلنج کیا ہے کہ وہ ہم دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر گھسیٹ تاہوا لاکر سب کے سامنے کھڑا کردیگا۔برادری والوں نے کہا ہے کہ اس بات کا فیصلہ وہ اس وقت کریں گے ۔لیکن میرے ماں باپ بہت دکھی ہیں۔ وہ باربار مجھ سے کہہ ہیں بیٹی تم ایسا کوئی کام مت کرو جس سے برادری میں ہماری پگڑی اچھلے۔ ‘‘کہہ کر مدھو خاموش ہوگئی ۔

’’پھر کیا کیا جائے؟‘‘کافی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے پوچھا۔

’’سوچتی ہوں دو چار دن ہم ایک دوسرے سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ فون پر باتیں کرلیا کریں گے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے ‘‘وہ بولا ۔’’اگر تم یہ منا سب سمجھتی ہو تو یہ بھی کرلیں گے۔ ‘‘اس نے کہا دوسری طرف سے مدھو نے فون رکھ دیا۔

وہ رسیور رکھ کرسوچنے لگا ۔ایک دن معاملہ یہاں تک پہنچنا ہی تھا۔ اگر مہندر درمیان میں نہیں آتا تو شاید اس معاملے کو یہاں تک برسوں لگ جاتے ۔لیکن مہندر کی وجہ سے یہ معاملہ بگڑ گیا۔ اب کیا کیا جائے اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ وہ کوئی ایک فیصلہ نہیں کرپارہاتھا ۔اس وقت حالت ایسے تھے نہ تو وہ مدھو کو چھوڑ کر سکتا تھ اور نہ اپنا سکتا تھا۔ مدھو اس کی روح کی گہرائیوں میں اس حد تک بس گئی تھی کہ وہ مدھو کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ مدھو کی بھی یہ حالت ہے۔ دونوں کے سامنے ایک ہی راستہ۔ وہ گاؤں چھوڑ دیں۔ کہیں بہت دور چلے جائیں جہاں وہ آرام سے رہ سکے ۔ ان کے درمیان کوئی دیوار نہ ہو۔ لیکن اس کا دل اس کے لیے تیار نہیں تھا۔

نئی جگہ جانے کے بعد روزگار کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے سامنے ہوگا۔ وہ ایسی حالت میں مشکلات سے اپنا پیٹ بھر سکتا ہے تو بھلا مدھو کا پیٹ کس طرح پاک سکتا ہے۔ اس قسم کا اہم فیصلہ جذبات میں نہیں کرنا چاہیے بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔تاکہ آگے کوئی تکلیف نہ ہو۔ دیر تک وہ ان ہی خیالوں میں الجھا رہا۔ جب دل گھبرا گیا تو اس رگھو سے کہا ۔’’میں ابھی چوک سے آیا۔‘‘اور ٹہلتا ہوا جاوید کے سائبر کیفے کی طرف چل دیا۔

’’آئیے سردارجی ۔کیا بات ہے ؟ آپ اس وقت یہاں ؟ کچھ بجھے بجھے سے دکھائی دے رہے ہیں؟کی گل ہوئے؟‘‘

’’اور کی گل ہوگی ۔ ۔ ۔ وہ لمبی سانس لے کر بولا ’’وہی دل دامعاملہ ‘‘

’’دل دا معاملہ ۔ ۔ ۔ کی کے ساتھ ؟ ‘‘ اس نے پوچھا۔

’’وہ۔ ۔ ۔ مدھو کے ساتھ۔‘‘

’’اوے ۔ ۔ ۔ تو تم نے مدھو کے ساتھ دل دا معاملہ فٹ کیا ! اتنی جلدی اور اب تک میں نو بتایا بھی نہیں ۔ ‘‘

’’اور اب بتا رہا ہوں نا ۔‘‘

’’معالہ کی ہے؟‘‘

’’مہندر بھائی پٹیل ۔‘‘

اس نے ایک لفظ کہا جسے سن کر جاوید کے چہرے کے تاثرات بھی بدل گئے۔

’’میں یہ کہوں گاجمی ۔ ۔ ۔ تم نے غلظ جگہ دل لگایا ہے۔ ‘‘جاوید کے چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات تھے ’’تم نے نوٹیا کسی اور لڑکی سے دل لگایا ہوتا تو اس معاملے میں میں تمہاری پوری پوری مدد کرتا ۔لیکن مدھو کے معاملہ ایسا ہے ۔ایک اژدھے کے چنگل سے مدھو کو چھڑانا ہے۔ تجھے پتہ ہے ۔ ۔ ۔ مہندر بھائی مدھو پرمرتا ہے۔ او رمدھو اسے گھاس نہیں ڈالتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مدھو کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔اور اس کے ملکیت کی طرف آنکھ اٹھانے کا مطلب ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘جاوید رک گیا۔

وہ بہت د یرتک اس معاملے پر باتیں کر تے رہے۔ اس نے اپنی اور مدھو کے تعلقات کی ساری باتیں جاوید کو بتادیں۔ سب سننے کے بعد جاوید ’’اگر تم دونوں کو اس گاؤں میں نہیں رہنا ہے تو اس گاؤں سے بھاگ جاؤ۔ساری دنیا سامنے ہے جو دو محبت کرنے والے دلو ںکو پناہ دینے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اگر تم دونوں کو اس گاؤں میں رہنا ہے تو پھر ایک دوسرے کو بھول جاؤ۔ ۔ ۔ ‘‘
 

الف عین

لائبریرین
’’ہمیں تو اس گاؤں میں رہنا ہے۔ اور ایک دوسرے کو بھول نہ بھی نہیں ہے۔‘‘

’’مصلحت کے تحت سمجھوتہ کرکے بھی تو انسان جی سکتا ہے۔ اس وقت جو حالات ہے اس کی بنیاد پر تم دونوں ایک سمجھوتہ کرلو۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو بھولیں گے نہیں ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کو پہلے کی طرح چاہتے رہیں گے لیکن ایک دوسرے سے دور رہیں گے۔ ۔ ۔ ایک دوسرے سے ملیں گے نہیں ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔ ‘‘

’’مجھے مہندر کا ڈر نہیں ہے ۔ اپنے ہاتھوں سے ایک جھٹکے میں میں اس کی گردن توڑسکتا ہوں۔ لیکن مجھے ڈر مدھو ،اس کے خاندان ،اس کی برادری کا ہے۔ میں مہندر سے نہیں ڈرتا۔ ‘‘

’’طاقت کی بنیاد پر کوئی بھی مہندر سے نہیں ڈرتا ہے۔ لیکن اس کے شیطانی منصوبوں سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ جو سامنے لڑکا بیٹھا ہے نہ وہ بھی مہندرکی جان لے سکتا ہے۔ مار مار کر اسے ادھ مرا کرسکتا ہے۔ لیکن سیف الدین بھائی کا دیکھا اس نے کیا حال کیا۔ ‘‘

بہت دیر تک و اس معاملے میں باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ یہ کہہ کر اٹھ گیا۔ ’’دیکھتے ہیں حالات کا اونٹ کیا کروٹ لیتا ہے۔ اس وقت حالات کے مطابق سوچیں گے کیاکرنا ہے۔ ‘‘ مہندر کس لیے دوکان پر آیا تھا؟ اور اسے کیوں پوچھ رہا تھا؟و ہ دونوں ایک دوسرے کے رقیب تھے۔ مہندر اس سے اپنی راہ سے ہٹ جانے کے بارے میں کہنے آیا ہوگا۔ اچھا ہوا اس اور مہندر سے سامنا نہیں ہوا۔ ورنہ مہندر اگر اس سے کوئی الٹی سیدھی بات کرتا تو اسے خود پر قابو رکھنا مشکل ہوجاتا ۔

دن بھر ان ہی خیالات میں گذر گیا۔ مدھو کا لج سے آئی اور بنا اس کی طرف دیکھے گھر چلی گئی۔ گھر جاکر اس نے اسے فون کیا تو اس نے مدھو کو بتادیا مہندر آیا تھا اس سے ملنے مگر وہ ملا نہیں۔

مدھو نے اسے مشورہ دیا کہ ’’جیتنا ممکن ہوسکے مہندر سے کترانے کی کوشش کرو۔وہ کوئی شیر ببر نہیں ہے جو اسے کھاجا ئے گا۔ لیکن حالات اور مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ نظر انداز کرے۔ جلد کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔‘‘

رات میں مندر پھر آدھمکا ۔’’اور سردارجی کیسے ہو؟ اخبارات پڑھتے ہو یا نہیں ؟ دیکھا میری طاقت کا ندازہ ؟ سیف الدین کو تباہ و برباد کردیا ۔زندگی بھر وہ اب جیل کی سلاخوں سے باہر نکل نہیں پائے گا ۔اس پر اتنے الزامات لگا دیے گئے ہیں کہ وہ خود کو بیگناہ ثابت کرتے کرتے اس کی عمر ختم ہوجائے گی ۔وہ مجھ سے ٹکرارہا تھا۔ ۔ ۔ مہندر بھائی سے ۔مہندر بھائی کی طاقت کا اسے اندازہ نہیں تھا ۔بی جے پی ،وشوہندو پریشد ،آر ایس ایس ، بجرنگ دل یہ سب مہندر کی طاقت ہے۔ ان سے ٹکر لینے سے مرکزی حکومت بھی گھبراتی ہے۔ تو بھلا ایک معمولی مسلمان کی اوقات کیا ؟ ‘‘

وہ رک کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

سیف الدین کے تو بہت سارے حمایتی تھے گاؤں کے چار پانچ سو مسلمان اس کے ساتھ تھے ۔کئی کانگریسی مسلم لیڈر اس کے ساتھ تھے پھر بھی کیا وہ جیل جانے بچ سکا ؟ نہیں بچ سکا۔ اور تم تو اس گاؤں میں اکیلے ہو؟ تمہاری مدد کرنے تو پنجاب سے بھی کوئی نہیں آنے والا ؟ پھرکس بنیاد پر تم مہندر بھائی سے ٹکر لینے چلے ہو؟

’’تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ ۔ ۔ ؟‘‘ اسے جوش آگیا۔

’’ایک ہی بات ۔ ۔ ۔ مدھو کا خیال اپنے دل سے نکال دو ۔ مدھوصرف مہندر کی ہے اور کسی کی ہو نہیں سکتی۔ کوئی اس کے بارے میں سوچنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا ۔ ۔ ۔ نوجوان ہو اکیلے ہو ۔ ۔ ۔ جوانی میں کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ۔مجھے بھی اس بات کا احساس ہے۔لیکن اس سہارے کو مدھو اور اس کی جوانی میں کیوں ڈھونڈھتے ہو؟ اگر تمہیں اور کوئی چاہیے تو گاؤں کی جس لڑکی طرف اشارہ کردوگے اسے لا کر تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا۔ مجھے پتہ ہے تمہارے چاچا نے اس گاؤں میں بہت مزہ کیا ہے ۔مز ہ کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تم سارے گاؤں کی لڑکیوں کے ساتھ ،عورتوں کے ساتھ مزے کرو ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن مدھو کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی مت دیکھنا کیونکہ مدھو صرف میری ہے۔ یہ میری وارننگ ہے اگر تم اور مدھو مجھے ساتھ ساتھ دکھائی دےئے تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔ ‘‘کہتا وہ چلا گیا۔

اس رات وہ رات بھر نہیں سو سکا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے مہندر کا لگا گھونٹ کر ہمیشہ کے لیے اس کا قصہ ہی ختم کردے۔ لیکن اسے اس طرح مدھو نہیں ملنے لگے۔ اسے جیل ہوجائے گی ۔اور جب وہ جیل سے باہر آئے گا تو مدھو اس کا انتظار کرتے کرتے جب پرائی ہوجائے گی ۔کسی اور کی ہوجائے گی۔

اسے مدھو پر غصہ آرہا تھا ۔ وہ اس کی زندگی میں کیوں آئی وہ اپنی زندگی میں بہت خوش تھا پیار کی کونپل اس کے دل میں نہیں پھوٹی تھی۔ لیکن اپنے پیار کی چنگاریوں سے مدھو نے اس کے وجود کو الاؤ میں تبدیل کردیا۔ اور اب وہ اسی الاؤ کی آگ میں دہک رہاہے۔ اس آگ کی تپش سے مدھو بھی اچھوتی نہیں ہے۔ اس کی زندگی بھی اس کی تپش میں جہنم بن رہی ہے۔ مدھو کی محبت پیار کا الاؤ ایک ایسا الاؤ جیسے وہ چاہ کر بھی بجھا نہیں سکتا ۔اور اب اس الاؤ کو روشن رکھنے کے لیے اسے اپنی جان کی بازی لگانی ہے۔






٭
 

الف عین

لائبریرین
دوسرے دن سویرے کسی کے دروازہ کھٹکھٹانے پر آنکھ کھلی۔ ’’کون ہوسکتا ہے ‘‘آنکھیں ملتے ہوئے اس نے سوچا ۔ مدھو نے اس سے کہا تھا کہ وہ کچھ دن اس سے نہیں ملے گی۔ اور وہ بھی اس سے دور دوررہے ۔ اس لیے وہ جلد نہیں جاگا۔ اس نے طے کیا تھا کہ وہ سویرے دیر تک سوتا رہے گا۔ لیکن اتنی سویرے کون اسے جگانے آگیا؟دروازہ کھولا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔دروازے میں مدھو کھڑی تھی۔

’’مدھے تم ؟‘‘وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔

’’ہاں میں ‘‘ کہتے ہوئے وہ اندر آئی اور پلنگ پر بیٹھ کر گہری گہری سانسیں لینے لگی۔

’’لیکن تم نے تو کہا تھا آٹھ دس دن تم مجھ سے نہیں ملوگی ۔ میں بھی تم سے دوردور رہوں۔‘‘

’’ہاں میں نے کہا تھا مگر اب میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ میں کسی سے نہیں ڈرتی ۔ میں نے پیار کیا ہے۔ کوئی پاپ نہیں کیا میرا پیار سچا ہے تو مجھے دنیا سے ڈرنے کی ضرورت ‘‘مدھو بولی۔

’’لیکن مہندر‘‘

’’میں اس سے بھی نہیں ڈرتی ۔ اگر اس نے مجھ سے الجھتے کی کوشش کی تو میں اس کو کچا چبا جاؤں گی۔ ‘‘ مدھو نے غصے سے بولی۔

مدھو کے تیور دیکھ کروہ دنگ رہ گیا۔

’’رات بھر میں نے اس بار ے میں سوچا اور اس کے بعد فیصلہ کیا ہے مجھے ،ہمیں کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے ۔ ہم سب کے سامنے یہ اعلان کریں گے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پیار کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں دنیا کی کون سی طاقت ہمیں پیار کرنے سے روکتی ہے۔ اور کون ہماری شادی میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ ‘‘

مدھو کے تیور دیکھ کر کر اسے بھی ایک نیا حوصلے ملا ۔ مدھو ایک لڑکی ہوکر اتنا سب کچھ کر سکتی ہے ۔ ساری دنیا سے ٹکرانے کو تیار ہے ۔کسی سے نہیں ڈرتی ۔ سب کے سامنے اپنے پیار کا اعلان کر نے کو تیار ہے۔ تو وہ تو لڑکا ہے۔ اسے دنیا سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مدھو اگر اس کا ساتھ دے ، اسے کے ساتھ رہے تو وہ ساری دنیا سے ٹکر لے سکتا ۔

’’ٹھیک ہے مدھو۔ ۔ ۔ اب ہمیں کسی سے نہیں ڈرنیں گے ۔ساری دنیا کے سامنے اپنی محبت کا اعلان کردیںؒ گے۔ دیکھیں زمانہ کیا کرتا ۔ ‘‘

’’مجھے تم سے یہی امید تھی ۔ ۔ ۔ جمی ۔ ‘‘کہہ کر مدھو اس آکر لپٹ گئی۔ اور اس کی چوڑی چھاتی میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس نے مدھو کو بھینچ گیا۔ اور اس پشت اور بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا ۔

’’ٹھیک ہے مدھو ۔ ۔ ۔ اگر تم چاہتی ہو تو ایک دو دن میں ہی ہم شادی کرلیں گے۔ شادی کرکے اس گاؤں میں رہیں گے۔اور دنیا کو بتائیں گے کہ پیارکرنے والے کتنے خوش و خرم رہتے ہیں۔پیار کرنے والے کو دنیا سے ڈرنا نہیں چاہیے۔پیار کرنے والے اگر اپنے ارادوں میں اٹل رہیں تو دنیا کی یہ دیوار ٹوٹ سکتی ہے۔ انھیں دنیا کی کوئی طاقت ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتی ۔ دنیا کی کوئی طاقت انھیں ملنے سے روک نہیں سکتی ۔ ‘‘

پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ ایک دوسرے سے لپٹے ،ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ باہر بس کا ہارن سنائی دیا تو وہ چونکے۔ مدھو کی بس آگئی تھی۔

’’میں جاتی ہوں دوپہر میں پھر آؤں گی۔ ‘‘کہتی مدھو ،اس کے منہ کو چوم کر تیزی سے سیڑھوں سے نیچے اتر کر بس میں جابیٹھی ۔بس والا شاید اس کا انتظار کررہا تھا۔ اس کے بس میں بیٹھتے ہی بس چل دی۔جاتے ہوئے مدھو اسے ہاتھ دکھایا۔ اس نے بھی ہتھ ہلا کر فلائنگ کس مدھو کی طرف اچھالا۔

دیر تک وہ جاتی بس کو دیکھتا رہا۔ جب تک وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ بس جب اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی تو وہ اندر آیا۔ اس کے انگ انگ میں مسرت ،خوشی ،انتشار کی لہریں دوڑرہی تھی۔ اسے ساری دنیا فاحیتی محسوس ہورہی تھی ۔اسے ساری دنیا رنگین ،سجی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔

ایک ایک لمحہ ایک صدی سا محسوس ہورہا تھا۔ مسرت، نشے میں ڈوبا ہوا لمحہ جس میں وہ ڈوبتاجارہا تھا۔ کہاں رات میں اس نے اپنے دل پر جبر کر کے فیصلہ کرلیا تھا ۔اب وہ مدھو کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ ساری دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کرے گا کہ جیسے وہ مدھو کو جانتا ہی نہیں ۔اس کی زندگی میں مدھو نام کی کوئی لڑکی نہیں ہے۔ وہ کسی مدھو نام کی لڑکی کو نہیں جانتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اپنے دل پر جبر کرکے اس نے یہ فیصلہ کرلیا تھا اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار بھی کرلیا تھا کہ وہ کس طرح حالات کا مقابلہ کرے گا۔ اپنے دل پر قابو رکھ کر مدھو کو کچھ دنوں کے لیے بھولنے کی کوشش کرے گا۔ اور اس کی پہلی کوشش کی طور پر وہ دیر تک گہری نیند بھی سویا تھا۔ لیکن اچانک صبح اس کے لیے ایک نئی نوید مسرت بھرا پیغام لے آئی ۔ اب جب مدھو نے کہہ دیا ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتی وہ اس سے ملنا نہیں چھوڑے گی۔ تو پھر اسے ڈرنے کی کیا بات ۔ ۔ ۔ وہ اس سے کہہ گئی ہے کہ دوپہر میں جلدی آئے گی۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے طے کیا کہ آج وہ دوپہر کا کھانے اپنے گھر میں مدھو کے ساتھ کھائے گا اور مدھو کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنائے گا۔اس کے لیے ذرا جلدی دوکان سے آجائے گا ۔

وہ پھر تیار ہونے لگا۔تیار ہوکر دوکان میں آیا اور دوکانداری میں لگ گیا۔ لیکن ذہن مدھو میں اٹکا رہا۔ مدھو آج جلدی آنے والی ہے۔او ر اس کے گھر آنے والی ہے۔ آج وہ ساتھ میں دوپہر کا کھانا کھائیں گے۔ اور وہ اپنے ہاتھوں سے مدھو کے لیے دوپہر کا کھانا بنائے گا۔ دس بجے تک وہ اپنی خیالوں میں الجھا رہا۔ اچانک اس کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ سامنے مہندر بھائی کھڑا تھا۔

’’سویرے مدھو تمہارے پاس آئی تھی؟ ‘‘ وہ اسے قہر آلود نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

’’آئی تھی اور آتی رہے گی۔‘‘وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے بولا۔’’مدھو کویہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔نہ مجھے دنیا کی کوئی طاقت مدھو کو ملنے سے روک سکتی ہے۔ ‘‘

’’میرے منا کرنے کے باوجود تم مدھو سے ملے۔‘‘

’’ملوں گا ۔ ۔ ۔ کیا کرلو گے۔‘‘وہ مہندر سے الجھنے کے لیے پوری طرح تیار ہوگیا۔

مہندر اسے قہر آلود نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر اس کے تیور دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بے بسی کے تاثرات ابھرے ۔

’’مہندر سے دشمنی بہت مہنگی پڑے گی۔ ‘‘کہتا وہ تیزی سے پلٹااور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔

’’دیکھتا ہوں دشمنی کسے مہنگی پڑتی ہے۔ ‘‘اس نے ہونٹ چبا کر کہا اور اس گراہک کی طرف متوجہ ہوا جو دونوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔





٭
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top