اقتباسات اقتباس از آب حیات مولانا محمد حسین آزاد

ایک دن لکھنؤ میں میرؔ اور مرزا کے کلام پر دو شخصوں نے تکرار میں طول کھینچا۔ دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے۔ انھیں کے پاس گئے اور عرض کی کہ اپ فرمائیں۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں صاحب کمال ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام آہ ہے اور مرزا صاحب کا کلام واہ ہے۔ مثال میں میر صاحب کا شعر پڑھا :
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
پھر مرزا کا شعر پڑھا :
سودا کے جو بالیں پہ ہوا شورِ قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
لطیفہ در لطیفہ – ان میں سے ایک شخص جو مرزا کے طرفدار تھے وہ مرزا کے پاس بھی آئے اور سارا ماجرا بیان کیا، مرزا بھی میر صاحب کے شعر سُن کر مُسکرائے اور کہا شعر تو میرؔ کا ہے مگر داد خواہی ان کی دوا کی معلوم ہوتی ہے۔
رسالہ عبرہ الغافلین طبعِ شاعر کے لئے سیڑھی کا کام دیتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا فقط طبعی شاعر نہ تھے بلکہ اس فن کے اصول و فروغ میں ماہر تھے۔ اِس کی فارسی عبارت بھی زباں دانی کے ساتھ ان کی شگفتگی اور شوخیِ طبع کا نمونہ ہے، اس کی تالیف ایک افسانہ ہے اور قابل سننے کے ہے، اس زمانہ میں اشرف علی نامی ایک شریف خاندانی شخص تھے۔ اُنھوں نے فارسی کے تذکروں اور اُستادوں کے دیوانوں میں سے ۱۵ برس کی محنت میں ایک انتخاب مرتب کیا اور تصحیح کے لئے مرزا فاخر مکیںؔ کے پاس لے گئے کہ ان دونوں فارسی کے شاعروں میں نامور وہی تھے۔ انھوں نے کچھ انکار، کچھ اقرار، بہت سے تکرار کے بعد انتخاب مذکور کو رکھا اور دیکھنا شروع کیا۔ مگر جا بجا اُستادوں کے اشعار کو کہیں بے معنی سمجھ کر کاٹ ڈالا، کہیں تیغِ اصلاح سے زخمی کر دیا۔ اشرف علی خاں کو جب یہ حال معلوم ہوا تو گئے اور بہت سے قیل و قال کے بعد انتخابِ مذکور لے آئے، کتاب اصلاحوں سے چھلنی ہو گئی تھی۔ اس لئے بہت رنج ہوا۔ اسی عالم میں مرزا کے پاس لا کر سارا حال بیان کیا اور انصاف طلب ہوئے۔ ساتھ اس کے یہ بھی کہ آپ اسے درست کر دیجیے۔
انھوں نے کہا کہ مجھے فارسی زبان کی مشق نہیں، اُردو میں جو چند لفظ جوڑ لیتا ہوں، خدا جانے دلوں میں کیونکر قبولیت کا خلعت پا لیا ہے۔ مرزا فاخر مکیں فارسی داں اور فارسی کے صاحبِ کمال ہیں۔ انھوں نے جو کچھ کیا ہو گا سمجھ کر کیا ہو گا۔ آپ کو اصلاح منظور ہے تو شیخ علی حزیںؔ مرحوم کے شاگرد شیخ آیت اللہ ثناؔ، میر شمس الدین فقیر کے شاگرد مرزا بھچو ذرہؔ تخلص موجود ہیں، حکیم بو علی خاں ہاتف بنگالہ میں، نظام الدین صانعؔ بلگرامی فرخ آباد میں، شاہ نور العین واقفؔ شاہجہاں آباد میں ہیں۔ یہ اُن لوگوں کے کام ہیں۔
جب مرزا نے اِن نامور فارسی دانوں کے نام لئے تو اشرف علی خاں نے کہا کہ ان لوگوں کو تو مرزا فاخر خاطر میں بھی نہیں لاتے، غرضیکہ ان کے اصرار سے مرزا نے انتخاب مذکور کو رکھ لیا، دیکھا تو معلوم ہوا کہ جو جو با کمال سلف سے آج تک مسلم الثبوت چلے آتے ہیں اُن کے اشعار تمام زخمی تڑپتے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر مرزا کو بھی رنج ہوا۔ بموجب صورتِ حال کے رسالہ عبرت الغافلین لکھا اور مرزا فاخر کی غلط فہمیوں کو اصول انشاء پردازی کے بموجب کماحقہ ظاہر کیا۔ ساتھ ان کے دیوان پر نظر ڈال کر اس کی غلط فہمیاں بھی بیان کیں اور جہاں ہو سکا اصلاح مناسب دی۔
مرزا فاخر کو بھی خبر ہوئی، بہت گھبرائے اور چاہا کہ زبانی پیاموں سے ان داغوں کو دھوئیں، چنانچہ بقاء اللہ خاں بقاؔ کو گفتگو کے لئے بھیجا، وہ مرزا فاخر کے شاگرد تھے، بڑے مشاق اور باخبر شاعر تھے، مرزا اور ان سے خوب خوب گفتگوئیں رہیں، اور مرزا فاخر کے بعض اشعار جن کے اعتراضوں کی خبر اُڑتے اُڑتے اِن تک بھی پہنچ گئی تھی، ان پر رد و قدح بھی ہوئی، چنانچہ ایک شعر ان کا تھا :

گرفتہ بود دریں بزم چوں قدح دلِ من
شگفتہ روئی صہبا شگفتہ کرد مرا
مرزا کو اعتراض تھا کہ قدح کو گرفتہ دل کہنا بیجا ہے، اہلِ انشاء نے ہمیشہ قدح کو کھلے پھولوں سے تشبیہ دی ہے یا ہنسی سے کہ اُسے بھی شگفتگی لازم ہے۔ بقاؔ نے جواب میں شاگردی کا پسینہ بہت بہایا اور اخیر کو باذل کا ایک شعر بھی سند میں لائے :
چہ نشاط بادہ بخشد بمنِ خراب بے تو
یہ دلِ گرفتہ ماند قدحِ شراب بے تو
مرزا رفیع سُن کر بہت ہنسے اور کہا کہ اپنے استاد سے کہنا کہ استادوں کے شعروں کو دیکھا کرو تو سمجھا بھی کرو، یہ شعر تو میرے اعتراض کی تائید کرتا ہے، یعنی باوجودیکہ پیالہ ہنسی اور شگفتگی میں ضرب المثل ہے اور پیالہ شراب سامانِ نشاط ہے مگر وہ بھی دلِ افسردہ کا حکم رکھتا ہے۔
عرض جب یہ تدبیر پیش نہ گئی تو مرزا فاخر نے اور راہ لی، شاگرد لکھنؤ میں بہت تھے، خصوصاً شیخ زادے کہ ایک زمانہ میں وہی ملکِ اودھ کے حاکم بنے ہوئے تھے اور سینہ زوری اور سرشوری کے بخار ابھی تک دماغوں سے گئے نہ تھے۔ ایک دن سودا تو بے خبر گھر میں بیٹھے تھے وہ بلوہ کر کے چڑھ آئے۔ مرزا کے پیٹ پر چھُری رکھ دی اور کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ سب واپس لو اور ہمارے استاد کے سامنے چل کر فیصلہ کرو، مرزا کو مضامین کے گل پھول اور باتوں کے طوطے مینا تو بہت بنانے آتے تھے، مگر یہ مضمون ہی نیا تھا، سب باتیں بھول گئے۔ بچارے نے جُز دان غلام کو دیا، خود میانے میں بیٹھے اور ان کے ساتھ ہوئے۔ گروہ لشکر شیطان تھا۔ یہ بیچ میں تھے، چوک میں پہنچے تو اُنھوں نے چاہا کہ یہاں انھیں بے عزت کیجیے، کچھ تکرار کر کے پھر جھگڑنے لگے، مگر جسے خدا عزت دے، اُسے کون بے عزت کر سکتا ہے، اتفاقاً سعادت علی خاں کی سواری آ نکلی، مجمع دیکھ کر ٹھہر گئے اور حال دریافت کر کے سوداؔ کو اپنے ساتھ ہاتھی پر بٹھا کر لے گئے۔ آصف الدولہ حرم سرا میں دستر خوان پر تھے۔ سعادت علی خاں اندر گئے اور کہا بھائی صاحب بڑا غضب ہے آپ کی حکومت میں ! اور شہر میں یہ قیامت۔ آصف الدولہ نے کہا کیوں بھئی خیر باشد، انھوں نے کہا کہ مرزا رفیع، جس کو باوا جان نے برادر من، مشفق مہربان کہہ کر خط لکھا، آرزوئیں کر کے بلایا اور وہ نہ آیا، آج وہ یہاں موجود ہے اور اس حالت میں ہے کہ اگر اس وقت میں نہ پہونچتا تو شہر کے بدمعاشوں نے اِس بیچارے کو بے حرمت کر ڈالا تھا اور پھر سارا ماجرا بیان کیا۔
آصف الدولہ فرشتہ خصال گھبرا کر بولے کہ بھئی مرزا فاخر نے ایسا کیا تو مرزا کر کیا گویا ہم کو بے عزت کیا۔ باوا جان نے انھیں بھائی لکھا تو وہ ہمارے چچا ہوئے۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ اس میں کیا شبہ ہے ! اُسی وقت باہر نکل آئے۔ سارا حال سُنا، بہت غصہ ہوئے اور حکم دیا کہ شیخ زادوں کا محلہ کا محلہ اکھڑوا کر پھینک دو اور شہر سے نکلوا دو۔ مرزا فاخر کو جس حال میں ہو اسی حال سے حاضر کرو۔ سوداؔ کی نیک نیتی دیکھنی چاہیے، ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ جناب عالی! ہم لوگوں کی لڑائی کاغذ قلم کے میدان میں آپ ہی فیصل ہو جاتی ہے، حضور اس میں مداخلت نہ فرمائیں، غلام کی بدنامی ہے۔ جتنی مدد حضور کے اقبال سے پہنچی ہے وہی کافی ہے۔ غرض مرزا رفیع باعزاز و اکرام وہاں سے رخصت ہوئے، نواب نے احتیاطاً سپاہی ساتھ کر دیئے۔
حریفوں کو جب یہ راز کھلا تو امرائے دربار کے پاس دوڑے، صلاح ٹھہری کہ معاملہ روپیہ یا جاگیر کا نہیں، تم سب مرزا فاخر کو ساتھ لے کر مرزا رفیع کے پاس چلے جاؤ اور خطا معاف کروا لو۔ دوسرے دن آصف الدولہ نے سر دربار مرزا فاخر کو بھی بلایا اور کہا تمھاری طرف سے بہت نازیبا حرکت ہوئی۔ اگر شعر کے مردِ میدان ہو تو اب روبرو سوداؔ کے ہجو کہو۔ مرزا فاخر نے کہا "ایں ازمانمے آید"، آصف الدولہ نے بگڑ کر کہا درست، ایں از شمانمے آید، ایں مے آید کہ شیاطین خود را برسرِ میرزائے بے چارہ فرستاوند از خانہ ببارش کشیدند و مے خواستند آبرویش بخاک ریزند، پھر سوداؔ کی طرف اشارہ کیا، یہاں کیا دیر تھی، فی البدیہہ رباعی پڑھی :

تو فخرِ خراسانی وفا ساقط ازد
گوہر بدہاں داری وفا ساقط ازد
روزان و شباں زحق تعالیٰ خواہم
مرکب و بدت، خدا و با ساقط ازد
یہ جھگڑا تو رفع دفع ہوا مگر دُور دُور سے ہجوؤں میں چوٹیں چلتی رہیں۔ لطف یہ ہے کہ مرزا فاخر کی کہی ہوئی ہجوئیں کوئی جانتا بھی نہیں۔ سودا نے جو کچھ اُن کے حق میں کہا وہ ہزاروں کی زبان پر ہے۔
 
Top