اقتباسات از جون ایلیا

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہم دیکھ رہے ہیں کہ مدتوں سے ہمارے شہروں میں دانش و فن سے معاندانہ بیگانگی اختیار کر لی گئی ہے۔ ہمیں چاروں طرف سے ایک ہجوم گھیرے ہوئے ہے۔ ایک ہجوم جو نہ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ ہماری بستیوں میں ایک عجیب و غریب نسل پیدا ہوگئی ہے۔ اس نسل کے پاس نہ حافظہ ہے اور نہ تخیل۔ جو ماضی کے قابل ہے اور نہ مستقبل کے شایان۔ اس کا مقدر یہ ہے کہ صرف حال میں معلق رہے۔ اس نسل کا وجود بالکل غیر طبعی ہے۔ ان کے سامنے اگر علوم و فنون کا ذکر کیا جائے تو ان کے چہرے متغیر ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ علوم و فنون کا ذائقہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لوگ ادب، فلسفہ اور شاعری کو عام زندگی کی اشیائے ضرورت اور اسباب تعیّشات کی نسبت سے جانچتے ہیں۔

جون ایلیا
دسمبر 1958
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سن لیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ تاریخ کے خلاف کبھی جنگ نہیں کی جا سکتی اور اگر جنگ کی جائے گی تو شرم ناک ترین شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ تم نے تاریخ کے خلاف جنگ کی اور اپنے اندر اور اپنے باہر شکست کھا گئے۔ جو مستقبل کی طرف قدم نہیں اٹھائے گا وہ ماضی کی طرف بری طرح دھکیل دیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ علم تھا، دانش تھی۔ حکمت اور عمل کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اس لیے ان کی دھاندلی جیت گئی۔ تمہارے ساتھ ایسا کوئی سلسلہ نہیں تھا، اس لیے تمہاری غلط کاری اور غلط کوشی کو تو سزا یاب ہونا ہی تھا۔ تم بتاؤ، جواب دو کہ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آخر تم نے تاریخ سے ایسا کون سا معاہدہ کیا ہے کہ تم وقت سے ہٹ کر چلو اور وقت تمہیں راستہ دے دے۔ عراق کی شکست جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی شکست ہے۔ علم کے مقابلے میں جہالت کی شکست ہے۔

کیا ہنر کی نقالی ہنر سے جیت سکتی ہے؟ کیا خریدی ہوئی مہارت حقیقی مہارت کا سامنا کر سکتی ہے؟ حیرت ہے کہ ہم یہ بات کیوں نہیں سوچتے اور یہ نقطہ کیوں نہیں سمجھتے؟ ہمیں اس حقیقت کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے۔

اپریل 1991
 

عمراعظم

محفلین
تم نے تاریخ کے خلاف جنگ کی اور اپنے اندر اور اپنے باہر شکست کھا گئے۔ جو مستقبل کی طرف قدم نہیں اٹھائے گا وہ ماضی کی طرف بری طرح دھکیل دیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ علم تھا، دانش تھی۔ حکمت اور عمل کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اس لیے ان کی دھاندلی جیت گئی۔ تمہارے ساتھ ایسا کوئی سلسلہ نہیں تھا، اس لیے تمہاری غلط کاری اور غلط کوشی کو تو سزا یاب ہونا ہی تھا۔ تم بتاؤ، جواب دو کہ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آخر تم نے تاریخ سے ایسا کون سا معاہدہ کیا ہے کہ تم وقت سے ہٹ کر چلو اور وقت تمہیں راستہ دے دے۔(جون ایلیا)
صد فیصد متفق۔
 
آخری تدوین:

عمراعظم

محفلین
عراق کی شکست جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی شکست ہے۔ علم کے مقابلے میں جہالت کی شکست ہے۔(جون ایلیا)

غیر متفق۔
میرے خیال میں طاقت ور کے مقابلے میں کمزور کی شکست ہے۔بد معاش کے مقابلے میں احمق کی شکست ہے۔
 
آخری تدوین:

عمراعظم

محفلین
ہم دیکھ رہے ہیں کہ مدتوں سے ہمارے شہروں میں دانش و فن سے معاندانہ بیگانگی اختیار کر لی گئی ہے۔ ہمیں چاروں طرف سے ایک ہجوم گھیرے ہوئے ہے۔ ایک ہجوم جو نہ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ ہماری بستیوں میں ایک عجیب و غریب نسل پیدا ہوگئی ہے۔ اس نسل کے پاس نہ حافظہ ہے اور نہ تخیل۔ جو ماضی کے قابل ہے اور نہ مستقبل کے شایان۔ اس کا مقدر یہ ہے کہ صرف حال میں معلق رہے۔ اس نسل کا وجود بالکل غیر طبعی ہے۔ ان کے سامنے اگر علوم و فنون کا ذکر کیا جائے تو ان کے چہرے متغیر ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ علوم و فنون کا ذائقہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لوگ ادب، فلسفہ اور شاعری کو عام زندگی کی اشیائے ضرورت اور اسباب تعیّشات کی نسبت سے جانچتے ہیں۔(جون ایلیا)
صد فیصد متفق۔
 
آخری تدوین:

عمراعظم

محفلین
کیا ہنر کی نقالی ہنر سے جیت سکتی ہے؟ کیا خریدی ہوئی مہارت حقیقی مہارت کا سامنا کر سکتی ہے؟ حیرت ہے کہ ہم یہ بات کیوں نہیں سوچتے اور یہ نقطہ کیوں نہیں سمجھتے؟ ہمیں اس حقیقت کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے۔(جون ایلیا)
صد فیصد متفق۔
 
آخری تدوین:

فرخ انیق

محفلین
بہت خوب کہتے ہیں جون ایلیا صاحب۔۔۔ ہمارے ایک دوست ان کے بڑے مداح ہیں اورباقی سب دوست ان کو ’’جولیا‘‘ (’جو“ ن ایل’یا‘) کہہ کر تنگ کیا کرتے ہیں۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہترین انتخاب اورشراکت کے لیئے بہت سی داد قبول فرمائیں جناب نیرنگ خیال صاحب۔
سرکار توجہ پر شکرگزار ہوں۔۔۔ اور آپ نے جو اقتباسات پر اپنا تبصرہ کیا ہے۔۔۔ اس سے متفق بھی ہوں۔۔۔ سوائے عراق والی بات کے۔۔۔۔ آپ کی بات بھی بالکل بجا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مخصوص تناظر جس کو جون لے کر چلیں ہیں۔۔۔ اس میں ان کی بات بھی درست معلوم ہوتی ہے۔۔۔ :)

عمدہ شراکت نین میاں
مرزا بھائی شکریہ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
قدیم معاشروں میں جنسی محرکات اتنے طاقت ور اور مؤثر نہیں تھے جتنے کہ آج ہیں۔ عریاں رقص، ہیجان انگیز تصاویریں، جذبات آفریں فلمیں، جسم و جمال کی نمائشیں ان سب نے مل کر صنعتی دور کے پراگندہ خاطر انسان کو جنسی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ دوسری طرف جدید زندگی کی ضرورتیں اور ذمےداریاں ہیں جن کے پیش نظر شادی آج ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ خاص طور پر مشرق کی نوآزاد قوموں کے نوجوان آج غیر معمولی فرائض میں گھرے ہوئے ہیں۔ انہیں نئے عہد کے علمی، تہذیبی اور سائنسی معیار اور ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے لیے شدید ترین محنت کرنا باقی ہے۔ ایسے عالم میں وہ انتہائی سرگرداں ہی نہیں، ذہنی طور پر تنہا بھی ہیں۔ بل کہ صنعتی عہد کا ہر انسان اپنے مصروف ترین ہجوم کے درمیان تنہائی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس پرانبوہ تنہائی نے صنعتی سماج کو نفسیاتی طور پر سماجی اکائیوں میں بکھیر دیا ہے۔

اقتباس از انشائیہ "عصمت فروشی - چند سوال"
رسالہ: انشا
تاریخ اشاعت: فروری 1960
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمارے ہاں معیار اور مثالیے بہت ہی رکیک اور پست ہیں۔ ہم کسی عالم، ادیب، مفکر، مصنف، قانون داں، شاعر، افسانہ نگار اور سائنس داں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ہم نقالوں، لطیفہ گویوں، اداکاروں، مسخروں اور بےہنگام نچنیوں اور گویوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ سو ہمیں اپنے انجام اور مقسوم کو سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں ہونا چاہیے۔

سسپنس ڈائجسٹ مئی 1996
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
افراد کو اپنے منافع، جماعتوں کو اپنی اغراض اور خاص طور پر رعایت یافتہ طبقوں کو اپنے مفادات سے بلند ہو کر معاملات پر سوچنے اور فیصلہ کرنے کی سعی کرنا چاہیے۔ مقبول باتوں سے زیادہ معقول باتیں کرنے کی عادت ڈالنا چاہیے۔ صورتِ حال ہم سے اب کچھ زیادہ ہی حقیقت پسندی کی مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر ہم نے اس مطالبے کو پورا نہ کیا تو بُری طرح زِک اٹھائیں گے۔

عالمی ڈائجسٹ، دسمبر 1971
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عراق کی شکست جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی شکست ہے۔ علم کے مقابلے میں جہالت کی شکست ہے۔(جون ایلیا)

غیر متفق۔
میرے خیال میں طاقت ور کے مقابلے میں کمزور کی شکست ہے۔بد معاش کے مقابلے میں احمق کی شکست ہے۔

:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایسی بیزاری! ایسی دشمنی! ہم ہر لمحہ خوف میں رہتے ہیں۔ ہم وحشت میں سوتے ہیں اور وحشت میں جاگتے ہیں کہ نہ جانے کب کیا ہو جائے! نہ جانے کن نامعلوم سنگ دلوں‌ کے سر پر خون سوار ہو جائے اور اپنی اپنی پریشانیوں میں الجھے ہوئے معصوم راہ گیر خون میں لت پت ہو جائیں۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ میدان صاف ہے، بڑھو اور جو بھی سامنے آئے اُسے خاک و خون میں غلطاں کرنے کی بے ساختہ کارگزاری دکھاؤ۔ نہ مقتول کوئی غیر ہے اور نہ قاتل۔ لاشے گراؤ اور لاشے اٹھاؤ۔ جشن کے ساتھ سوگ اور سوگ کے ساتھ جشن مناؤ۔ گلیاں گِلے کرتی ہیں اور پھاٹک پھٹکارتے ہیں کہ ہم میں سے ہو کر گزرنے والے اب حد سے گزر گئے ہیں۔ جو بھی گھر سے نکلتا ہے، وہ اس طرح نکلتا ہے جس طرح تلوار نیام سے نکلتی ہے۔ دریچے اور دروازے سہمے ہوئے رہتے ہیں‌کہ یہ جو اٹھ کر ابھی ابھی چار دیواری سے باہر گئے ہیں، کہیں ان کے لاشے اٹھا کر نہ لائے جائیں۔ کچھ دن سے خیریت ہے، پر کیا خبر کل کیا ہو جائے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ فضا کن پیشہ ور مجرموں کی پیدا کی ہوئی ہے۔ یہ اُن مجرموں کی پیدا کی ہوئی ہے جنہیں خوں ریز حادثے ہی پناہ دے سکتے ہیں اور جو اِن حادثوں ہی کی گرم بازاری میں اپنا کاروبار چلا سکتے ہیں۔ واویلا! کہ جو بھی گھر سے باہر ہے، وہ سرخ موت کے منہ میں ہے۔

اقتباس از سلامتی
سسپنس ڈائجسٹ اکتوبر ۱۹۸۹
 
Top