اقبال کی برکتیں

اقبال کی برکتیں تحریر (عاصی کرنالی)

مولوی عبدلصمد نے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے کہا

میاں، خدا تمہاری خیر کرے، علم و فضل کی جیسی ناقدری اس زمانے میں دیکھی ، کبھی کاہے کو ہوگی۔ نوکری چاکری کا ہر دروازہ بند ہو گیا۔ سفارش کہاں سے لاتا۔ کام نکالنے کے لیئے چاہیے تھا پیسہ، وہ میرے پاس کہاں۔ کسی مسجد کی امامت تک نہ مل سکی۔ میں بھوکوں مرنے لگا۔ آخر میں نے سوچا علم کو تین طلاق دوں اور ادب کو اپنے حبالہ عقد میں لے آؤں۔ تم جانو بدقسمت ہونا اور بات ہے، کند ذہن ہونا اور چیز ہے۔ میں نے ذہانت کی تیز چھری سے بدقسمتی کی رسیاں کاٹنی شرو ع کر دیں اور آج خدا تمھاری خیر کرے میاں، کوٹھی ہے، کار ہے، جائیداد ہے، عزت ہے، شہرت ہے، خدا کا دیا سب کچھ ہے۔
مولوی صاحب! آپ کو الہ دین کا چراغ مل گیا جو چٹکی بجاتے یہ کایا پلٹ ہو گئی، میں نے ازرہِ تحیر پوچھا۔

مولوی عبدالصمد مے سکوائیش کا گلاس مجھے تمھاتے ہوئے کہا۔
بتاتا ہوں، سب کچھ بتاتا ہوں۔ میاں خدا تمھاری خیر کرے، تم جانو، میں مکار نہیں ہوں۔ کسی کو دھوکا نہیں دیتا۔ ہر معاملے میں سونے کی طرح کھرا ہوں، یہ سب ہوت جوت جو تم دیکھ رہے ہو، یہ نیت کا پھل ہے۔ میری نیت اور ذہانت دونوں گویا جڑواں بچے ہیں۔ میں اُڑتی چڑیا کے پر گنتا ہوں۔ زمانے کی ہوا پہچانتا ہوں۔
مولوی صاحب پہلیاں نہ بجھوائیے۔ دولت مند بننے کا گر بتائیے۔ میں نے گلاس ختم کرتے ہوئے کہا۔
بتاتا ہوں ۔ "میاں خدا تمھاری خیر کرے تم جانو ہماری قوم مردہ پرست ہے۔"
مردہ پرست یعنی چہ؟۔۔۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا۔
مردہ پرست یعنی مرنے کے بعد قدر کرنے والی، یعنی۔۔۔۔ خیر چھوڑو اس بات کو، بس یوں سمجھو کہ جب تک اقبال زندہ رہے، میں ان کے مخالفین میں شامل رہا، ان کے خلاف جن علماء نےکفر کا فتویٰ دیا، ان میں یہ حقیر پر تقصیر بھی شامل تھا۔
توبہ ہے توبہ۔۔۔۔ مولوی عبدالصمدخاں نے اپنے دونوں رخساروں پر ہلکے ہلکے چپت لگائے، جیسے خود کو سزا دے رہے ہوں۔
توبہ ہے توبہ۔۔۔ خیر یہ بحث بھی چھوڑو۔ پھر اقبال مر گئے، میں پھر بھی مخالف رہا۔ پھر جس مسجد میں میں امامت کا خواستگار تھا، وہاں مولوی غلام غوث، خدا اس کا بیڑا غرق کرے، قابض ہو گیا۔ میں بھوکا مرنے لگا تو میاں، خدا تمھاری خیر کرے۔ میں اقبال پرست بن گیا۔ یہ ادب میں میری پہلی مداخلت تھی، میں نے چند دل والوں کو جمع کیا اور کہا۔
اقبال ہمارا شاعر، ہمارا محسن، پاکستان کے تصور کا خالق، اور ہم نے اسے زندہ رکھنے کے لیئے کچھ نہیں کر رہے، لعنت ہے ہم پر۔۔۔۔۔۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے مولوی صاحب، ایک سیٹھ نے دریافت کیا
ارے بھئی ، جلسے کرو، اس والئی قلندر کا عرس کرو، کچھ تو کرو۔
جزاک اللہ مولوی صاحب، ایک دوسرے امیر کبیر نے کہا، آپ جو چاہیں کریں، پیسہ ہم سے لے لیں، ہم آپکو کنوینر بناتے ہیں۔
منظور ہے، منظور ہے۔۔۔ سب نے یک آواز ہو کر کہا۔

تو میاں خدا تمہاری خیر کرے، یہ لو پیو سکوائش۔ لو نا بھئی ایک گلاس اور، میری خاطر سے، اچھا چلو اقبال کے صدقے میں، ہاں شاباش پیو، پی لو، تو میاں۔ میں نے ایک بڑا بھاری جلسہ کیا۔
خرچ اخراجات کے لیئے ایک ہی سیٹھ نے دس ہزار تھما دیے، بھئی لوگ بڑے اہلِ دل ہیں۔ جلسہ کامیاب رہا۔ اخباروں میں بڑی دھوم ہوئی۔ میری اور سیٹھ عبدالسلام کی تصویریں خوب خوب چھپیں۔ چار ہزار روپیہ بچا جسے حقِ محنت کے طور پر اس خادم نے اپنے پاس ہی رہنے دیا۔
سب نیت کا پھل ہے مولوی صاحب۔۔۔۔ میں نے گلاس میز پر رکھتے ہوئے کہا

ہاں تو میاں، جلسہ کامیاب رہا۔ میرا دل کھل گیا، چھہ ماہ بعد میں نے مشاعرے کی تجویز رکھی۔ مجلسِ عاملہ نے قبول کی، مجھی کو کنوینر بنا دیا، ارکانِ عاملہ نے حسبِ توفیق چندہ جمع کیا۔ دو سو روپے اس حقیر پر تقصیر، خادمِ اقبال نے بھی پیش کئے۔ اسی نشست میں پانچ ہزار اکھٹے ہو گئے۔ پھر میں نے عطیہ مہم شروع کی، پھر خیرات مہم، پھر چندہ مہم اور آخر میں ٹکٹ مہم۔ ایک مہینے کی محنتِ شاقہ سے پچاس ہزار کی ڈھیری لگ گئی۔ روحِ اقبال کے فیض کے قربان جایئے۔ پھر میں نے شعراء کو دعوت نامے لکھے، پہلے ان شاعروں کو مدعو کیا، جن سے دوستی یا جان پہچان تھی۔ بدیں مضمون کہ چند سوختہ ساماں قلندروں نے اپنی اپنی کشتیاں جلا کر اقبال کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کارِ خیر میں آپ بھی جزبہ قربانی سے کام لیتے ہوئے ازراہِ اقبال نوازی بلا معاوضہ تشریف لایئے ۔ کھانا اور چائے بذمہ منتظمین۔
دس شاعروں کی طرف سے قبولیت نامے وصول ہوگئے۔
بعض شاعروں کو دعوت نامے اس انداز میں لکھے گئے گویا یہ بزمِ اقبال نہیں یتیم خانہ ہے۔ مقامِ عبرت ہے ازرہ کرم معاوضے کے بجائے حقیر سا نذرانہ قبول کیجئے۔( نذرانے کی رقم پچاس سے سو روپے تک کے درمیان لکھ دی گئی)
پندرہ شاعروں نے دعوت قبول کر لی۔
اب بڑے شاعروں کی باری تھی، بعض منتظمین چاہتے تھے کہ حضرتِ غیظ، اور جناب قسیم نادمی اور جناب خروش ملیح آبادی اور حضرت حافظ جالند ھری جیسی بڑی توپوں کو بلوائیں۔ میں نے اس موقع پرحکمتِ عملی لڑائی۔ میں نے عرض کیا، ایک صاحب تو نام کے بڑے ہیں۔ درشن تھوڑے ڈھول ہی ڈھول ہیں، اندر سے خالی۔ زبان اور گرامر تک کی غلطیاں کرتے ہیں۔ ایک اور صاحب بیمار رہتے ہیں۔ پچھلے ہفتے سے تبخیرِ معدہ میں مبتلا ہیں۔ اور ابھی دو تین ماہ انشاءاللہ مبتلا رہیں گے۔ ایک اور صاحب ایک صاحب ساری دنیا کومے خانہ سمجھتے ہیں، آئیں گے اور مشاعرے کو غرقِ شراب کر دیں گے اور اقبال جیسے مردِمومن کے مشاعرے میں ایسوں کو بلانا گناہِ کبیرہ ہے۔ پھر ان لوگوں کے معاوضے لمبے چوڑے ہیں۔ہم سب نیلام بھی ہو جائیں تو اب کا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ اس لیئے میر ی رائے ہے کہ ان اول درجے کے نمایشی ہاتھیوں کی بجائے متوسط درجے کے محنتی اور معقول شعرا کو بلوائیے جن میں اخلاص بھی ہے اور ایثار بھی۔
"آہو جی، پیسے کا کھیال رکھنا جروری ہے۔۔۔ ایک رکن نے کہا۔۔۔۔ مساعرہ ہی کرانا ہے کوئی ساعروں کا مکابلہ حسن تو نہیں کرانا ہے۔۔"
اس اخلاقی تائید کے بعد میں نے کہا۔ اب یوں دیکھئے حضرات ، ایک بڑا شاعر فرض کریں ایک ہزارلیتا ہے، دو سیکنڈ کلاس شاعر پان پان سو پر راضی ہو جائیں گے۔ پانچ تھرڈ کلاس شاعر دو دو سو پر خوش ہو کر آئیں گے۔ دس شاعر جن کی مارکیٹ ویلیو ابھی مقرر نہیں ہوئی۔ سو سو پر آ کر زندگی بھر ہمارے ممنون رہیں گے۔ دیکھیے اسی طرح خرچ ہوا وہی ہزار اور آگئے ایک کی بجائے دس۔۔۔ سب نے میر ذہانت کی داد دی۔ ایک رکن نے جوش میں آکر کہا۔
"آفرین ہے مولوی عبدالصمد خان پر۔۔۔ یہ نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتا۔" ۔۔۔ الغرض بڑے دھوم دھڑکے سے مشاعرہ ہوا۔ تیسرے اور چوتھے اور پانچویں اور چھٹے درجے کے تمام شاعروں نے وہ تانتا باندھا کہ مشاعرہ ساری رات جاری رہا، اور میری اعتقاد ہے کہ روحِ اقبال تمام رات قبر میں خوش ہوتی رہی ہوگی۔
تب ہی تو روحِ اقبال کی برکت سے اس مشاعرے میں مجھے تیس ہزار ساڑھے تیرہ آنے کا حقِ محنت اور حقِ الخدمت کے طور پر بچے۔

میاں خدا تمہاری خیر کرے، زیادہ کیا کان کھاؤں، مختصر یوں سمجھو کہ خدمتِ اقبال کے سبب کیا عزت اور کیا شہرت اور کیا پبلیسٹی نہ تھی جو اس حقیر فقیر، کمترین خادمِ اقبال کو نصیب نہ ہوئی اور خدا نے میرے حسنِ نیت کے صلے میں وہ خوشحالی دی ، وہ فارغ البالی دی کہ دو لڑکیوں کے جہیز تیار کر لیئے۔ دو لڑکے اعلیٰ تعلیم کے کیلئے باہر گئے ہیں۔
پری خانم(یہ میری بیوی ہیں، اصل نام تو غفورن بی بی ہے، میں پیار سے پری خانم کہتا ہوں ) ہاں تو پری خانم کو خدا نے اتنا زیور دیا ہے کہ سر سے پاؤں تک لدی پھندی رہتی ہے۔
ہاں تو میاں، خدا تمھاری خیر کرے، پھر میں نے اقبال کو زندہ رکھنے کے لیئے اور کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اقبال میموریل لائبریری میں نے قائم کی، اقبال پبلک سکول میں نے جاری کیا۔ اقبال عرس فنڈ میں نے کھولا۔ ایک مسجد بنوا دی، اوپر لکھوا دیا " بہ یادگارِ اقبال بناشد" الغرض بہت کچھ کیا اور کر رہا ہوں اور اللہ بہت کچھ دے رہا ہے اور دے گا۔ سبحان اللہ کیا تھے علامہ اقبال، جئے تب فیض ، مرے تب فیض، گویا فیض کا سمندر موجِ زن ہے۔۔۔ ۔

"ارے میاں ضربِ کلیم ، بھئی کہاں ہو ضربِ کلیم"
ایک لڑکا آ کھڑا ہوا۔۔۔۔ جی ابا جی؟
"میاں ضربِ کلیم ابھی تک زبورِ عجم کو سکول لے کر نہیں گئے ؟ جاؤ جلدی جاؤ اور پیامِ مشرق کو میرے پاس بھیج دو"
مولوی صاحب یہ کیا ؟ میں نے حیرت ذدگی کے عالم میں پوچھا"۔۔۔ یہ ضربِ کلیم، یہ زبورِ عجم۔۔ "
ہاں میاں، مولوی عبدالصمد خان نے اپنی گنجی چندیا کھجاتے ہوئے کہا۔
مجھے اقبال سے بڑی عقیدت ہے، وہ میرے محسن ہیں۔ میرے رازق ہیں۔ انہوں نے میرا گھر بھر دیا ہے۔ میں ان کا معتقد ہوں میاں۔ میں نے اظہارِ عقیدت کے طور پر اپنے سب بچوں کے نام ان کی تصانیف پر رکھ دئیے ہیں۔ ضربِ کلیم چھٹی میں پڑھتا ہے۔ بی بی زبورَ عجم دوسری کی طالبہ ہے۔ پیامِ مشرق گھڑی ساز کی دکان پر کام سیکھ رہا ہے۔ بالِ جبریل قرآن پا ک حفظ کر رہا ہے۔ اسرارِ خودی کالج میں زیرِ تعلیم ہے۔ بلکہ میں نے پری خانم یعنی غفورن بی بی کا نام بانگِ درا رکھ چھوڑا ہے۔

اندر سے دستک ہوئی۔۔۔۔ ذرا سننا مولوی صاحب۔
مولوی صاحب دروازے کی طرف لپکے۔
"ہاں پھوپھی فاطمہ کوئی خوشخبری ہے کیا؟"
"ہاں مولوی صاحب، مبارک ہو۔ خدا نے آپ کو جڑواں بچے دیئے ہیں۔ دونوں لڑکے ہیں۔۔۔ "
"اللہ تیرا شکر ہے، اللہ پاک تیرا شکر ہے۔۔۔ "
مولوی صاحب آ کر بیٹھ گئے، خوشی سے ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔
خدا نے دو جڑواں بچے عطا کیے ہیں میاں۔
مبارک باد قبول کیجئیے مولوی صاحب۔
ہاں میاں، خدا کا احسان ہے۔ اچھا میاں خدا تمھاری خیر کرے، ان کے نام تو بتاؤ۔ اقبال کی کتابو ں کے نام تو قریب قریب ختم ہو گئے۔ تاہم دماغ لڑاؤ، اچھے سے دو نام سوچو۔۔
سوچ لیئے مولوی صاحب سوچ لیئے

"ہاں ہاں بتاؤ"
"شکوہ۔ جوابِ شکوہ"​
 
Top