افسانے کی تعریف؟

سید فصیح احمد

لائبریرین
افسانے کی تعریف اور دیگر لوازمات رٹنے سے بہتر ہے کہ انسان کو جس صنف کے بارے میں جاننے کا شوق ہو اس کا مطالعہ زیادہ کر دے۔ پھر یہ تعارف و تعریف کی زیادہ سمجھ آجائے گی۔ میرا ایسا خیال ہے۔
واہ ! ۔۔۔ یہ رچ بس جانے والی ترکیب تو سب سے بہتر ہے :) ۔۔۔۔۔ اتنا کہ خود ایک چلتا پھرتا افسانہ بن جائے :)
 

سلمان حمید

محفلین
افسانے کی تعریف اور دیگر لوازمات رٹنے سے بہتر ہے کہ انسان کو جس صنف کے بارے میں جاننے کا شوق ہو اس کا مطالعہ زیادہ کر دے۔ پھر یہ تعارف و تعریف کی زیادہ سمجھ آجائے گی۔ میرا ایسا خیال ہے۔
متفق، تو پھر اچھے سے افسانے مہیا کر دے مطالعے کے لیے :biggrin:
 

ماہی احمد

لائبریرین
میرے نزدیک تو یہ تھی، اور ابھی تک ہے (کچھ ترمیم کے بعد بھی)
میں آج تک افسانے کی ڈیفینیشن اس کتاب کے سرورق پر موجود اس تصویر کو سمجھتی آئی
10346216_494232124043320_6705213060544868172_n.jpg

مطلب وہی "صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں"
مجھے تو یہی لگتا تھا کہ افسانہ بنیادی طور پر ایسی تحریر ہے جس میں ایک نہایت گہری بات چند سادہ سے الفاظ اور ایک مختصر سی تحریر کی صورت میں کہہ دی جائے۔
یہ آج مجھے نئی بات پتا چلی ہے، بہت شکریہ محمد احمد بھائی!۔۔۔ :)
باقی محمداحمد بھائی کی یہ تحریر بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ :)
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ہاہا مجھے بھی ایسے ہی لگتا تھا پہلے لیکن اب تھوڑی تھوڑی سمجھ آنے لگی ہے :(

اگر میں کہوں تو فلسفہ وہ جس کی بالکل سمجھ نہ آئے۔ افسانہ وہ جس کی تھوڑی تھوڑی سمجھ آئے۔ اور جس کو پڑھ کر پچھلی سمجھ بھی چلی جائے وہ افسانے میں فلسفہ۔ کیسا؟؟ :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
اچھا آئندہ میں یہاں کوئی افسانہ پڑھوں تو آپ سے مطلب سمجھ لیا کروں گی پھر۔۔ ٹھیک ہے ناں بھیا :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
متفق، تو پھر اچھے سے افسانے مہیا کر دے مطالعے کے لیے :biggrin:
اردو محفل پر بےتحاشہ افسانے ٹائپ کر کے رکھے جا چکے ہیں۔ منٹو، مفتی اور منشی پریم چند کے علاوہ ابھی سالگرہ کے دوران ہفتہ لائبریری میں اوشو بھائی نے سات افسانے ٹائپ کیے ہیں۔ جن کی پروف ریڈنگ محمداحمد نے کی ہے۔ وہ سب کے سب پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
 

عینی شاہ

محفلین
ہاہا مجھے بھی ایسے ہی لگتا تھا پہلے لیکن اب تھوڑی تھوڑی سمجھ آنے لگی ہے :(
:LOL::LOL::LOL:
اگر میں کہوں تو فلسفہ وہ جس کی بالکل سمجھ نہ آئے۔ افسانہ وہ جس کی تھوڑی تھوڑی سمجھ آئے۔ اور جس کو پڑھ کر پچھلی سمجھ بھی چلی جائے وہ افسانے میں فلسفہ۔ کیسا؟؟ :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
سلمان بھائی آپ کا آنسر بلکل ددماغ کی لسی :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

نایاب

لائبریرین
اچھا آئندہ میں یہاں کوئی افسانہ پڑھوں تو آپ سے مطلب سمجھ لیا کروں گی پھر۔۔ ٹھیک ہے ناں بھیا :p
بٹیا جی کوئی بھی افسانہ پڑھ کر اس پر اک ماہرانہ تبصرہ لکھتے اک دھاگہ کھول دیا کرو ۔
چاہے سر کے پانچ سات فٹ اوپر سے ہی گزر جائے فسانہ ۔۔۔۔
ذرا نہ گھبرانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائن لگ جائے گی اک سے بڑھ اک دانشور زماں کی ۔۔۔۔۔۔۔
افسانے بنت چنت سب کھل سامنے آ جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
بات یہ ہے کہ افسانے کی تعریف جو بھی ہو ،افسانہ افسانہ ہوتا ہے اسے کسی تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود بتاتا ہے کہ وہ افسانہ ہے۔ اور جہاں تک افسانے کے اختصاراور طوالت کی بات ہے تو صاب ڈھائی لائینیں بھی افسانہ ہوسکتی ہیں۔۔صرف ڈھائی لائینیں۔۔۔۔۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
گو میں کوئی ادیب وغیرہ نہیں ہوں تاہم افسانے کا ایک مستقل قاری ہونے کے ناطے افسانہ کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں
  1. کہتے ہیں کہ اردو میں افسانہ، انگریزی کی ”شارٹ اسٹوری“ سے متاثر ہوکر لکھا گیا۔ اردو میں ”کہانی“ لکھنے اور کہنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ تاہم اردو میں مختصر افسانے کے ساتھ ساتھ طویل افسانے بھی لکھے گئے ہیں۔ اتنے طویل کے اُس پر ناول یا ناولٹ (دونوں الگ الگ صنف ہیں) کا گمان ہونے لگتا ہے۔
  2. جیسے اگر کسی ”مکان“ کی ”کہانی“ بیان کرنی ہو تو ”کہانی نویس“ کو مکان کے ہر گوشے، در و دیوار، کمرے، صحن، آنگن، اس کے محل وقوع، اس کے مکین وغیرہ کو ایک ترتیب سے یوں بیان کرنا ہوگا کہ قاری یا سامع کی دلچسپی بھی برقرار رہے اور اس کے متذکرہ مکان سے متعلق بیشتر ”تجسس“ کا جواب بھی مل جائے۔
  3. اس کے برعکس اگر کسی مکان پر ”افسانہ“ لکھنا ہو تو ”افسانہ نویس“ مکان کے نمایاں ترین جزو یا خصوصیت کو ”فوکس“ کرتے ہوئے لکھے گا۔ اور سارا افسانہ مکان کے ”زیر فوکس جزو یا خصوصیت“ کے گرد ہی گھومے گا۔ وہ اسی میں دلچسپی کا سامان پیدا کرے گا، اسی سے کوئی نتیجہ یا سبق برآمد کرے گا۔
  4. افسانہ مبنی بر کہانی (یا پارٹ آف کہانی) بھی ہوسکتا ہے اور بلا کہانی بھی بلکہ علامتی بھی۔ لیکن مقبول عام افسانہ عموماً ”مبنی بر کہانی“ ہی ہوتا ہے۔ افسانہ کسی مخصوص فرد، مخصوص کردار یا مخصوص معاشرے وغیرہ کے کسی ایک ”رویہ“ کو فوکس کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے۔ افسانے میں اگر بہت سے افراد یا کردار ہوں بھی تو افسانہ کسی ”ایک“ ہی کے گرد گھومتا ہے۔ لیکن اس طرح نہیں جیسے کوئی کہانی ہیرو کے گرد گھومتی ہے۔ کیونکہ کہانی میں ہیرو اہم ترین فرد ہونے کے باوجود، کہانی کے ہر کردار کا کہانی کی بناوٹ میں اپنا اپنا کردار ضرور ہوتا ہے۔ جبکہ افسانے میں ایسا نہیں ہوتا۔
  5. کسی ”خیال“ یا ”رویہ“ پر بھی ایک شاندار افسانہ لکھا جاسکتا ہے، لیکن کہانی نہیں۔
  6. اردو ادب افسانوں سے مالا مال ہے۔ اب تو اردو ادب میں اتنے ”اقسام“ کے افسانے لکھے جاچکے ہیں کہ ان سب کی فہرست بنانا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔
افسانے کی تعریف پر محض اپنی رائے پیش کی ہے۔ اس سے اتفاق و اختلاف کا ہر صاحب علم کو اختیار ہے
 

نظام الدین

محفلین
میرا تمام پڑھے لکھے محفلین اور اساتذہ سے سوال ہے کہ افسانہ کسے کہتے ہیں؟
فرض کیجئے کہ میں ایک افسانہ لکھنا چاہتا ہوں۔ تو میری کہانی یا تحریر کب افسانہ کہلائے گی؟

موٹے موٹے آسان الفاظ میں آگاہ کر دیجئے۔ اور ابھی تک اس تعریف سے لاعلمی کے لیے بے حد شرمندہ اور معذرت خواہ ہوں۔

شکریہ۔

افسانہ

(ادب جدید) ناول کے مقابلے میں ایک مختصر کہانی جس میں زندگی کا کوئی خاص رخ مختصر طور پر پیش کیا جائے
 
افسانہ

ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں زندگی کے کسی ایک گوشہ،پہلو یا واقعہ کی مؤثر انداز میں عکاسی کی گئی ہو،جو قاری کو ذہنی مسرت و انبساط کے ساتھ بصیرت بھی عطا کرے۔
 
۔۔
انٹر نیٹ پر کسی فہیم پٹیل صاحب کی لکھی ہوئی تحریر

اردو افسانے کی امتیازی خصوصیات

محدودیت
افسانہ نگار انسانی زندگی کے صرف ایک گوشے کی جھلک دکھاتا ہے۔ اس کی توجہ زندگی کے صرف ایک پہلو پر مرکوز رہتی ہے۔ وہ اس ایک پہلو مختلف گوشوں کی وضاحت کرکے کہانی مکمل کرتا ہے لیکن یہ سب گوشے ایک جمالیاتی توازن کے ساتھ آپس میں مربوط ہونے چاہئیں تاکہ افسانے میں تاثر کی وحدت قائم رہے۔ اگر افسانہ نگار افسانے میں زندگی کے ایک سے زیادہ پہلووں کو دکھانے کی کوشش کرے گا تو اس سے نہ صرف وحدت تاثر مجروح ہوگی بلکہ پلاٹ میں کئی قسم کی فنی خرابیاں بھی پیدا ہوجائیں گی۔

اختصار
اختصار افسانے کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ افسانہ نگار کو اس اختصار میں جامعیت پیدا کرنے کے لئے اشارے اور کنائے کی زبان استعمال کرنی پڑتی ہے۔ ان اشاروں پر غور کرنے سے زندگی کے مسائل پر سوچ بچار کرنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔

وحدتِ زمان و مکان
اتحاد زمان و مکاں بھی مختصر افسانے کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ افسانے کے واقعات اور وقت میں مطابقت ہو۔ واقعات اور وقت میں عدم مطابقت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ افسانہ تضاد کاشکار ہوجائے گا۔

وحدتِ کردار
عمل کی مطابقت بھی افسانے کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ ایک ہی کردار سے مختلف موقعوں پر متضاد قسم کے اعمال کا ظاہر ہونا بھی خلاف فطرت ہے۔ ایک ایسا کردار جس کی فطرت نیکی ہے، ایک وقت میں رحمدل اور دوسرے وقت میں ظالم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح بدفطرت اور گھٹیا قسم کے کردار سے ایک وقت میں برائی اور دوسرے وقت میں نیکی ظاہر نہیں ہوسکتی۔ گویا افسانے کے کرداروں کے افعال میں ان کی فطرت کے مطابق یکسانیت ہونی چاہئے۔

موضوع کی عمدگی
افسانہ نگار کو موضود کے انتخاب میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ افسانے کا موضوع نیچرل، زندہ اور جاندار ہونا چاہئے تاکہ افسانہ نگار کو کہانی کے پلاٹ میں گردوپیش کے احوال اور معاشرتی مسائل کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کا موقع مل سکے۔

دلچسپی کا عنصر
دلچسپی ایک کامیاب افسانے کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اگر افسانے کے موضوع اور پلاٹ کی دلچسپی کے ساتھ اسلوب بیان بھی موثر اور دلچسپ ہو تو کہانی کے اخلاقی اور تعمیری پہلو میں بھی شروع سے آخر تک ایک خاص قسم کی دلکشی قائم رہتی ہے۔

مربوط انداز
افسانے کی ایک نمایاں خصوصیت ربط ہے۔ افسانے کے واقعات کا آپس میں زنجیر کی کڑیوں کی طرح مربوط اور منسلک ہونا ضروری ہے۔ یہ ربط بڑے فطری انداز میں نمایاں ہونا چاہئے۔

مشاہدے کا عنصر
مشاہدے کی گہرائی، انسانی نفسیات کا عمیق مطالعہ اور حقائق اشیاءمیں اتر جانے والی نگاہ نیز متوازن اور مرتب انداز فکر، افسانہ نگار کا قیمتی سرمایہ ہے۔

نظم و ضبط
افسانے کے پلاٹ میں نظم و ضبط اور موزوں ترتیب کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر افسانے کے واقعات اور کرداروں میں ایک متوازن ربط موجود ہو تو اسے منظم پلاٹ کہا جائے گا۔ کہانی کے واقعات اگر ربط اور ترتیب سے خالی ہوں تو ایسے پلاٹ کو غیر منظم پلاٹ کہا جائے گا۔ اگر افسانے میں ایک مرکزی کہانی کے ساتھ چند اور قصے بھی ایک خاص توازن اور ترتیب کے ساتھ مربوط ہوں تو اس قسم کے پلاٹ کو مرکب پلاٹ کہیں گے۔

کردارنگاری
ایک کامیاب افسانے میں کردار نگاری کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ افسانے کے کرداروں کو ہمارے گردوپیش چلتے پھرتے انسانوں کی خصوصیات اور اخلاق و عادات کا حامل ہونا چاہئے۔ اگر کردار مصنوعی ہوں گے توقاری کو متاثر نہیں کرسکیں گے۔ ایک کردار کو بلاوجہ مثالی کردار دکھانا اور دوسرے کو بلاسبب اخلاق کی پستیوں میں دھکیل دینا بھی افسانے کی ایک بہت بڑی خامی ہے۔ جس طرح عام انسان عادات و اطوار میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیںاسی طرح افسانے کے کرداروں میں بھی یکسانیت نہیں ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر ناپختہ نوجوانوں، پختہ کار اور جہاندیدہ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں میں ان کی فطرت اور نفسیات کے اعتبار سے فرق دکھانا چاہئے۔

افسانے کا مثالی کردار بڑا معیاری اور عام انسانوں سے بلند ہونا چاہئے لیکن اسے اس قسم کے غیر فطری اور ماورائی اوصاف سے بھی متصف نہیں دکھانا چاہئے کہ وہ ایک مافوق الفطرت انسان بن کر رہ جائے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ افسانے کی کامیابی کا دارومدار بالعموم مثالی کرداروں کی کامیاب کردار نگاری پر ہوتا ہے مگر چند ایسے ذیلی کردار جو افسانے کو اختتام تک پہنچانے میں مدد دیتے ہیں ان کی اہمیت بھی اپنی جگہ کچھ کم نہیں۔

منظرکشی
حالات و اقعات کی کامیاب منظر کشی افسانے کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔ افسانہ نگار کو چاہئے کہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے افسانے کا پلاٹ مقامی ماحول سے مرتب کرے تاکہ واقعات کی تصویر کشی میں اس سے کوئی فروگزاشت نہ ہوجائے۔ بعض اوقات افسانے میں غیر ملکی ماحول کی عکاسی کرنا پڑتی ہے۔ اس مقصد کے لئے افسانہ نگار کو متعلقہ ملک کے باشندوں کی معاشرت، عادات و خصائل اور جغرافیائی ماحول سے پوری طرح باخبر ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس غرض کے لئے دوسرے ملکوں کی تہذیب و معاشرت اور جغرافیائی حالات کا مطالعہ از بس لازم ہے۔ اس سلسلے میں غیر ممالک کے لوگوں سے میل جول کے مواقع پیدا کرتے رہنا بھی مفید ہوسکتا ہے۔

مقصدیت
ادب برائے زندگی کے مصداق افسانے کا مقصد بہر صورت تعمیری ہونا چاہئے۔ اچھا فنکار وہ ہے جو اپنے قلم کو مقدس امانت سمجھے، اسے صحت مند معاشرتی اصلاح کے لئے وقف رکھے، اور موقع بموقع ملک کے سیاسی، سماجی، اخلاقی، معاشی اور تعلیمی مسائل پر رائے زنی کرتا رہے۔

افسانے کے مراحل اور اجزاہ
افسانے کے ظاہری اور معنوی خدوخال کی تریب، تشکیل اور تہذیب کے لئے افسانہ نگار کو بالعموم ذیل کے فکر مراحل میں سے گزرنا پڑتا ہے۔

موضوع کا انتخاب
زندگی ان گنت موضوعات میں بٹی ہوئی ہے اس لئے افسانے کے موضوعات بھی بے شمار ہیں۔ اگر افسانہ نگار کو قدرت کی طرف سے دل بیدار اور دیدئہ بینا عطا ہوا ہو تو موضوع کا انتخاب کوئی مشکل بات نہیں۔ یہ موضوع مناظر قدرت، جاندار اشیاہ، حیات انسانی کے مختلف جذباتی پہلووں، اس کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور تمدنی زندگی کے مختلف گوشوں سے اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ افسانہ نگار کو صرف وہی موضوع انتخاب کرنے چاہئیں جو اس کی افتاد طبع کے مطابق ہوں یا جن سے انہیں طبعی لگاو اور ذاتی دلچسپی ہو۔

عنوان
بعض اوقات افسانے کا عنوان ہیرو یا ہیروئن کے نام پر رکھا جاتا ہے۔ افسانے کے انجام کو بھی ایک حسین ترکیب کی صورت میں زیب عنوان بنالیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ افسانے کی سرخی قائم کرتے ہوئے موسم یا وقت کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ کبھی پلاٹ کی مناسبت سے کسی شعر کے ایک مصرعے یا مصرعے کے ایک ٹکڑے کو بھی بطور عنوان کے لکھ دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ افسانے کے مجموعی تاثر کو ذہن میں رکھ کر عنوان قائم کردیا جاتا ہے۔

تمہید
افسانے کے تمہیدی جملوں میں جادو کا اثر ہونا چاہئے تاکہ قاری ان ابتدائی جملوں سے پورے افسانے کے بارے میں ایک گہرا تاثر قبول کرے اور پورا افسانہ پڑھنے کے لئے مضطرب ہوجائے۔ بعض اوقات افسانے کا آغاز کہانی کے کسی آخری یا درمیانی واقعہ سے کیا جاتا ہے۔ اس سے قاری میں تجسس کا جذبہ ابھرتا ہے۔ کسی موثر کردار کے تعارف سے بھی افسانے کا آغاز ہوسکتا ہے۔ کسی دلچسپ اور موثر مکالمے کو بھی افسانے کی تمہید بنایا جاسکتا ہے۔ ہر نوع افسانے کی تمہید ایسی موثر، جاندار اور مسحور کن ہونی چاہئے جسے پڑھ کر قاری کی آتش شوق بھڑک اٹھے۔

پلاٹ
افسانہ نگار خام مواد کو ترتیب دینے کے لئے واقعات کے ربط و تعلق کے مطابق کہانی کا جو ڈھانچہ تیار کرتا ہے اسے پلاٹ کہتے ہیں۔ افسانے کا پلاٹ ایسے احوال و واقعات اور تجربات سے مرتب کرنا چاہئے جو ہماری زندگی میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ زندگی کے روز مرہ واقعات میں کہانی کا چٹخارا اور جذباتی رنگ بھرنے کے لئے افسانہ نگاروں کو عبارت آرائی اور تصنع سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ ورنہ افسانے اور سپاٹ قسم کی واقعہ نگاری میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔

مکالمے
افسانے کے مکالموں کا لب ولہجہ سادہ، فطری، برجستہ اور شگفتہ ہونا چاہئے۔ خوشی، غم، حیرت یا غیظ و غضب کے موقعوں پر لہجے کے آہنگ میں موقع و محل کے مطابق فرق کرنا لازم ہے۔ بچوں کا لہجہ معصوم اور سادہ، مردوں کا لہجہ موقع محل کے اعتبار سے جاندار، پختہ سنجیدہ اور بعض اوقات درشت، مگر تدبر آمیز، عورتوں کا لہجہ عام طور پر نرم و ملائم، اور شفقت آمیز ہونا چاہئے۔ افسانے میں باوقار سنجیدگی کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے مکالموں میں تہذیب اور شائستگی کا پہلو نمایاں رکھنا چاہئے۔ کرداروں کا بازاری قسم کے متبذل اور غیر شریفانہ لب و لہجے سے مجتنب رہنا ضروری ہے۔ ایسی ظرافت جو ابتذال کی حدوں سے دور رہے، افسانے کو ناگوار قسم کی سنجیدگی سے محفوظ رکھتی ہے۔

کشمکش (Crisis)
افسانے میں ایک منزل ایسی بھی آتی ہے جب کہانی بعض پیچیدہ مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ اس منزل میں افسانہ نگار کو کردارون کی سیرت کے صحیح خدوخال نمایاں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس پیچیدہ مقام کو افسانے کی اصطلاح میں کشمکش (Crisis) کہتے ہیں۔

نقطئہ عروج (Climax)
کشمکش کی منزل سے گزر کر کہانی کے واقعات نقطئہ عروج (Climax) کی فضا میں پہنچ جاتے ہیں اور قاری اس سوچ میں پڑجاتا ہے کہ نہ جانے اب کیا ہوگا۔ اس موقع پر انجام بالکل غیر یقینی سا ہوتا ہے، اس لئے وہ بڑی بیتابی سے کسی فیصلہ کن موڑ کا منتظر ہوتا ہے۔

اختتامِ افسانہ
افسانے کے اختتام پر کشمکش اور تصادم کی فضا آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے اور افسانہ قاری کے ذہن پر کوئی طربیہ، حزنیہ یا حیران کن اضطرابی کیفیت چھوڑ کر اپنے انجام کو پہنچ جاا ہے۔ افسانے کا انجام کچھ ایسا فطری انداز میں ہونا چاہئے کہ قارئین کے دل یہ محسوس کریں کہ کہانی کا یہ انجام بڑا مناسب اور برمحل ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور انجام ممکن ہی نہیں تھا۔
۔۔
اس سے پہلے بہت سے افسانے پڑھے ہیں لیکن افسانے کہ متعلق اتنی معلومات نہیں تھی۔۔۔
آج اس تحریر کو پڑھ کر بہت معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔
صائمہ صاحبہ آپ کا بہت ممنون ہوں۔۔۔
 
آخری تدوین:

Saeed Kamran

محفلین
افسانے کا آغاز کسی واقع یا خبر کے انداز میں نا ہو؛ کلائمکس میں تجسس اور اختتام چونکا دینے والا ہو تو بہتر ہے مزید یہ کہ اختتامیہ بالکل واضح ہونے کے بجائے ایسا ہو کہ قاری کو سمجھنے کیلیے چند گھڑی سوچنا پڑے
 

Shakir Kashmiri

محفلین
کیا میں ادب والے دھاگے میں تبصرہ کر سکتی ہوں؟
میں بتاؤں بھیا میں نے جب بھی افسانے کے نام پر کچھ پڑھا ہے ناں تو مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی۔۔ اس لیے میرے خیال میں "جس تحریر کی آپ کو سمجھ نہ آئے" وہ افسانہ ہوتا ہے۔ :p
 
Top