اردو ویب کلاسک - کہانی کیسے آگے بڑھی

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: قدیر احمد

فیصل صاحب نے میری بیماری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے جوشاندے کو اپنی کہانی میں استعمال کیا ہے جس کے جملہ حقوق میرے نام محفوظ تھے ۔ لہٰذا وہ پائریسی کے مرتکب ہوئے ہیں

ویسے اچھا ہی ہوا کہ جوشاندہ فیصل صاحب پی گئے ، میری تو جان چھوٹی ۔ :haha:
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم

ویسے اچھا ہی ہوا کہ جوشاندہ فیصل صاحب پی گئے ، میری تو جان چھوٹی
جوشاندہ تو چارپائی نے پیا تھا برادر میں اور جوشاندہ توبہ توبہ :dontbother:
ویسے بھی پائریسی کی مرتکب تو چارپائی ہوئی ہے جس نے جوشاندہ برداشت کیا میں نے تو پیا ہی نہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: اعجاز اختر

یہ تو بتاؤ قدیر کہ بغیر جوشاندے کے تم ٹھیک ہوئے یا نہیں؟ امید ہے کہ بہتر ہو جو یہاں آ کر چھیڑ چھاڑ کر رہے ہو۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: شعیب صفدر

کہانی روک گئی اور جوشاندہ آگے نکل گیا ہے۔۔۔۔
کہانی پر زور دیا جائے۔۔۔۔
خوب قلم چل رہے ہیں۔۔۔اور دماغ بھی
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: نبیل

بھئی آپ لوگ محض کہانی پڑھ کر داد دیے جا رہے ہیں، کچھ خود بھی اسے آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر مصرعہ لگا کر اسے خود واپس لے لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب آپ صحیح تو لکھ رہے تھے، کہانی میں سین بھی تو بدلنے چاہییں۔ لیجیے آپ کی لائن پر ہی کچھ بات آگے بڑھاتا ہوں۔۔

فیصل کے کلینک سے باہر جانے کے بعد ڈاکٹر صاحب اور عاشی بٹ نے آلات جراحی سمیٹنے شروع کردیے۔ ایک قینچی اور ایک نشتر کے کھو جانے پر ڈاکر صاحب پہلے تو الجھن میں پڑ گئے اور پھر غصے سے لال پیلے ہو گئے۔ وہ عاشی بٹ پر برس پڑے کہ نالائق تم نے پھر مریض کے معدے میں میرے آپریشن کے انسٹرومنٹ سی دیے ہیں، معلوم ہیں کس قدر مہنگی آتی ہے یہ قینچی۔ عاشی بٹ روہانسی ہو کر کہنے لگی ڈاکٹر صاحب آپ نے بھی تو پچھلے مہینے ایک مریض کی زخمی ٹانگ کی جگہ بھولے سے صحت مند ٹانگ کاٹ دی تھی۔ یہ جملہ کہنا تھا کہ عاشی بٹ کو اس کی برخواستگی کا لیٹر تھما دیا گیا۔

آنکھوں میں آنسو لیے عاشی بٹ نئی ملازمت کی تلاش میں نکلی تو اسے سامنے ایک ہومیوپیتھک کلینک نظر آیا۔ ہومیوپیتھک کلینک نظر آتے ہیں عاشی بٹ کو بے اختیار پرانا زمانہ یاد آگیا جب ڈاکٹر افتخارراجہ کرشن نگر میں ہومیوپیتھک کلینک کرتے تھے۔ عاشی بٹ کو ان کا طریقہ علاج اور ان کی باغ و بہار شخصیت بے حد پسند تھے۔ وہ ٹھیک ٹھاک بھی ہوتی تو بھی بیماری کا بہانہ کرکے ان کے کلینک چلی آتی۔ ڈاکٹر افتخار راجہ مرض کی تشخیص یوں کرتے تھے جیسے جادو کر رہے ہوں۔ وہ میز پر لکڑی کا فٹا رکھ کر عاشی بٹ کی نبض دیکھتے اور ایک لٹو گھماتے تھے۔ شاید وہ لٹو کے چکر گن کر مرض کی شدت اور اس کے علاج کے لیے دوا تجویز کرتے تھے۔ ان کی دی ہوئی دوا بھی میٹھی گولیوں کی طرح ہوتی نا کہ ایلوپیتھی کی کڑوی کسیلی گولیوں کی طرح۔ عاشی بٹ ان سے ضد کرکے ہمیشہ دگنی ڈوز لے آتی تھی۔

باقی آئندہ۔ ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب۔۔۔ :cool:
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم

پہلا منظر :
چھت پر گیا تو شام کے سات بج رہے تھے میں بیٹھ گیا اور چارپائی کے پائے کو جوشاندہ پلانے لگا اتنے میں نور کی بارش ہوئی اور سامنے والی کھڑکی میں چاند کی آمد ہوئی ۔
میں نے اسے دیکھتے ہی اسٹائل مارا مگر یہ کیا

اسکے پیچھے کون ہے جسے دیکھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا چلا گیا۔۔۔۔۔

میں نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر غور سے دیکھا تو ایک نیا چہرہ نظر آیا یہ شخص کالی قمیص پہنے ہوئے تھا جس پر دو ستارے اسکے عہدے کی نشان دہی کر رہے تھے اور وہ موبائل پر کسی سے باتیں کرتا کرتا ہنس بھی رہا تھا ۔

صدفے (پہلی چوٹ میں ) سے تو میں گھبرا گیا تھا مگر جب ستارے دیکھے تو جان میں جان آئی کہ یہ پولیس میں نہیں بلکہ شہری دفاع میں ہیں اور شہری دفاع کے رضاکاروں کے ایک گروپ جسے پوسٹ کہتے ہیں (ایک پوسٹ میں عموماََ 139 رضاکار ہوتے ہیں) کے نگران ہیں ۔ اس عہدے کو پوسٹ وارڈن کہا جاتا ہے ۔

اب میں نے سکون سے جوشاندہ کا خاتمہ کیا اور چاند کی طرف پھر سے نظر گھمائی ۔ چاند کا ہلکا سا تعارف کروا دوں یہ خاتون ہمارے سامنے والے گھر میں رہتی تھیں اور انکے والد سرکاری ادارے میں گریڈ اٹھارہ کے افسر تھے ۔ کیونکہ انکا ادارہ کسی ٹھیکہ وغیرہ یا امن و امان سے متعلقہ نہیں تھا اس لئے رشوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ انکی تین بیٹیاں تھیں۔
1۔ نجمہ عمر 23 سال کنیرڈ کالج میں پڑھتی تھیں ۔ نہایت شریف لڑکی تھیں اور کبھی بھی کسی طرح کی شوخی کرتے نہ دیکھی گئیں۔
2۔ ستارہ عمر 21 سال شریر مگر شریف لڑکی تھی کبھی کوئی شکایت نہیں ملی ۔ یہ اسلامیہ کالج کوپر روڈ میں زیر تعلیم تھیں
3۔ کوکب ۔ عمر 19 سال ہر وقت ایک نئی دنیا کی تلاش ۔ ہنس مکھ ۔ شرارتی ۔ نہایت خوبصورت سیرت بھی بری نہیں تھی۔

اب ان میں سے کوکب کبھی کبھی کھڑکی میں آتی تو میں بھی اسے دیکھا کرتا تھا کیونکہ اس عمر میں لڑکوں کو کوئی ہنس کے بھی دیکھ لے تو وہ سمجھتے ہیں کہ مجھے پسند کرتی ہے اس فارمولے کے تحت میں سمجھتا تھا کہ کوکب بھی مجھے پسند کرتی ہے۔

بات سے بات نکلتی کہاں جا پہنچی خیر اب میں نے جوشاندے کا قلع قمع کر دیا تھا اور ادھر بھی ماحول کچھ خراب تھا میں جلدی سے نیچے اترا اور ماجھاں سے لائن ملائی ۔
ماجھاں اس وقت کڑی کے لئے پکوڑے تل رہی تھی ۔ میں جاکر اسکے پاس باورچی خانے میں بیٹھ گیا اور ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں ڈالا۔ پکوڑا کافی گرم تھا مگر پکوڑوں کا مزا تو گرم گرم ہی آتا ہے نا۔۔۔
ماجھاں ( اپنی دونوں بھنوؤں میں سے ایک کو اٹھا کر)

فیصل پتر کیا بات ہے کوئی کام ہے کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

میں : خالہ تو بھی ناں بس ایسے ہی ہے کیا کوئی کام ہو تو ہی میں تیرے پاس آکر بیٹھتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ویسے پکوڑے بڑے مزیدار ہیں ۔

ماجھاں : پتر تجھے اپنے ہاتھوں سے کھلایا ہے ۔ تیری رگ رگ سے واقف ہوں ۔ سچ سچ بتا کیا کام ہے اور ہاں پکوڑوں کی جان چھوڑ دے پھر کہے گا کہ کڑی میں ٹُبی (ڈبکی) لگا کر پکوڑا ملتا ہے ۔

میں : خالہ وہ سامنے والے حمید صاحب ہیں ناں انکے گھر لگتا ہے کوئی مہمان آئے ہوئے ہیں ذرا جا کے پتہ تو کردے کون ہے اور کیوں آیا ہے ۔

ماجھاں : لو کر لو گل میں تو سمجھی کہ پتہ نہیں کیا ککڑ گڈی تھلے آگیا ہے

میں : خالہ جا ناں ابھی جا کے پتہ کر کے آجا پلییییییییییییییییییییییییز

ماجھاں : او پتر مجھے پتہ ہے وہ نجمہ کے گھر کوئی رشتہ دیکھنے آیا ہے آج ویسے تجھے اس سے کیا ۔۔۔۔۔۔؟

(رشتہ کی بات سن کر میرے ہوش اڑ گئے اور مجھے اندر ہی اندر گھبراہٹ ہونے لگی)
میں : خالہ حق ہمسائے ہیں کسی چیز کی ضرورت نہ ہو ویسے بھی صغریٰ (ان کی آیا) آج کام پر نہیں آئی جا ناں ذرا پتہ کرکے بتا دے پلییییییییییییییییییییییییییز
ماجھاں : اچھا کڑی بنا لوں پھر جاؤں گی ۔
میں : نہیں خالہ ابھی جا ناں
ماجھاں : نہیں پتر ابھی پکوڑے بنا رہی ہوں فارغ ہولوں پھر جاؤں گی ۔
میں : خالہ جا ناں ابھی پلیز پکوڑوں کی بات ہے ناں تو یہ پکوڑے بھی کچے ہیں جب تک پکیں گے تو آ بھی جائے گی اور میں ہوں ناں انکا خیال رکھنے کو میں پلٹتا رہوں گا جب لال ہو جائیں گے نکال دوں گا۔

اب میں نے ماجھاں کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچ کر کچن سے نکال باہر کیا ماجھاں بیچاری کہتی ہی رہی کہ پتر پھر جاؤں گی پھر جاؤں گی مگر میں نے بھی اسکو بھیج کر ہی دم لیا۔

اب میں پکوڑوں کے پاس بیٹھ کر سوچنے لگا ۔ کہ کیا میں بھی عام عاشقوں کی طرح محبوبہ کی شادی پر کرسیاں سیدھی کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

منظر بدل جاتا ہے

گلی میں قناتیں لگی ہوئی ہیں ۔ میں ۔ نبیل ۔ ذکریا ۔ شعیب ۔ شعیب صفدر ۔ سیفی ۔ منھاجین سب لوگ مل جل کر اندر کرسیاں لگا رہے ہیں اچانک شور اٹھتا ہے بارات آگئی آگئی ۔۔۔۔ دوسری طرف سے مولانا اعجاز اختر صاحب ہاتھ میں نکاح کا رجسٹر تھامے نمودار ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بارات آکر کرسیوں پر بیٹھ چکی ہے ۔ میراثی تمام باراتیوں کا دل بہلا رہے ہیں ۔ اچانک شور اٹھتا ہے مبارک ہو مبارک ہو اور چھوہاروں کے چھینٹے لگائے جا رہے ہیں ۔ میں بھی اداس اداس سا اپنے گھر کی طرف جا رہا ہوں ۔ اچانک ایک عجیب سی بدبو سب کو گھیر لیتی ہے جیسے کچھ جل رہا ہو ۔ میرے دل میں اچانک برا خیال آتا ہے کہ کہیں کوکب نے خود کو ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نہ کرے اور میں وہیں بے ہوش ہو کر گر جاتا ہوں ۔ مگر یہ کیا بدبو ابھی بھی ختم نہیں ہو رہی ۔ بے ہوشی میں بھی مجھے تنگ کر رہی ہے ۔ اچانک میری آنکھ جو اس بدبو اور دھویئں سے نم تھی کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے چولہے پر تیل کی کڑاہی میں کوئیلے تیر رہے ہیں اور ان سے دھواں ہو رہا ہے اب میری سمجھ میں اور تو کچھ نہ آیا میں نے جھٹ جگ پانی کا بھرا اور کڑا ہی میں ڈال دیا ۔ کچھ عجیب و غریب آوازیں آئیں اور ایک دم سے سکون ہو گیا ۔ ادھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور میری روح فنا ہوتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



دوسرا منظر :
آنکھوں میں آنسو لیے عاشی بٹ نئی ملازمت کی تلاش میں نکلی تو اسے سامنے ایک ہومیوپیتھک کلینک نظر آیا۔ ہومیوپیتھک کلینک نظر آتے ہیں عاشی بٹ کو بے اختیار پرانا زمانہ یاد آگیا جب ڈاکٹر افتخارراجہ کرشن نگر میں ہومیوپیتھک کلینک کرتے تھے۔ عاشی بٹ کو ان کا طریقہ علاج اور ان کی باغ و بہار شخصیت بے حد پسند تھے۔ وہ ٹھیک ٹھاک بھی ہوتی تو بھی بیماری کا بہانہ کرکے ان کے کلینک چلی آتی۔ ڈاکٹر افتخار راجہ مرض کی تشخیص یوں کرتے تھے جیسے جادو کر رہے ہوں۔ وہ میز پر لکڑی کا فٹا رکھ کر عاشی بٹ کی نبض دیکھتے اور ایک لٹو گھماتے تھے۔ شاید وہ لٹو کے چکر گن کر مرض کی شدت اور اس کے علاج کے لیے دوا تجویز کرتے تھے۔ ان کی دی ہوئی دوا بھی میٹھی گولیوں کی طرح ہوتی نا کہ ایلوپیتھی کی کڑوی کسیلی گولیوں کی طرح۔ عاشی بٹ ان سے ضد کرکے ہمیشہ دگنی ڈوز لے آتی تھی۔

انہی دنوں کو یاد کر تے کرتے عاشی جب اس ہومیو پیتھک کلینک کے دروازے کے پاس پہنچی تو دروازے پر ایک کاغذ چپکا ہوا تھا

ضرورت استقبالیہ کلرک : ایک خوبصورت ۔ خوش گلو ۔ صحتمند استقبالیہ کلرک کی ضرورت ہے جسے مریضوں سے تعامل کا تجربہ ضرور ہو ۔ تقدیم خدمات کے لئے اندر تشریف لائیے ۔

عاشی کے لئے یہ اشتہار ایک نئی زندگی کی نوید تھا اس نے جھٹ سے دروازہ کھولا اور اندر کی طرف بڑھتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اندر جاتے ہی اسے ایک نئے ہی ماحول کا سامنا کرنا پڑا ۔۔ اللہ یہ کلینک ہے یا کسی بین الاقوامی کارپوریشن کا دفتر ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ یہ سوچتے سوچتے جب عاشی آگے بڑھی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک بڑی سی میز کے پیچھے ایک بڑی سی کرسی میں ایک آدمی پھنسا ہوا ہے ۔

اجازت لیکر جب عاشی اند پہنچی تو میز پر لگی ہوئی تختی سے علم ہوا کہ موصوف کا نام ڈاکٹر بشیر الزماں چوھدری ہے اور اپنا نام تخلص میں “بوچی“ رکھتے ہیں ۔

عاشی : سر میں نے باہر لگا ہوا اشتہار پڑھا تو میں اس خدمت کے لئے اپنی خدمات پیش کرتی ہوں
ڈاکٹر بوچی : جی جی خوش آمدید آپ تو اس کرسی کی بالکل صحیح حقدار ہیں آپ بیٹھئے ۔ کاروائی کے لیے چھوٹا سا محادثہ ہو گا اور بس ۔
عاشی : جی سر ۔ ۔ ۔ ؟ حادثہ ۔۔۔؟ِ
ڈاکٹر بوچی : حادثہ نہیں محادثہ خالص اردو میں انٹر ویو کو محادثہ کہتے ہیں دراصل یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے گفتگو ۔
عاشی : جی سر ۔ جی سر ۔ مجھے علم نہیں تھا اس لئے حیران ہو گئی۔
ڈاکٹر بوچی : اچھا تو پہلے کہاں کام کرتی تھیں ۔ ۔ ۔ ؟
عاشی : مصطفی میڈیکل سنٹر
ڈاکٹر بوچی : تعلیم کتنی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
عاشی : جی نرسنگ کا ڈپلومہ کیا ہے گنگا رام اسپتال سے ۔
ڈاکٹر بوچی : ہممممممممممم چلو ٹھیک ہے آپ کل سے کام پر آجائیں آپ کا کام صرف اتنا ہوگا کہ ٹیلی فون کا ریکارڈ رکھنا اور نئے مریضوں کی فائیلیں بنانا ہونگی اسکے علاوہ بنیادی تنخواہ آٹھ ہزار روپے ہوگی پندرہ سو روپے آنے جانے کا خرچ اور پانچ سو روپے دیگر اخراجات کے ملیں گے ۔ کیا منظور ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
عاشی : سر میں انکار کیسے کر سکتی ہوں اوقات کار کیا ہونگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ڈاکٹر بوچی : صبح نو بجے سے دو بجے تک اور شام پانچ سے رات آٹھ بجے تک اور ہاں کل اپنے شناختی کارڈ کی کاپی اور تعلیمی اسناد ساتھ لے کر آنا
عاشی : بہت بہتر جناب ۔ اب مجھے اجازت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ڈاکٹر بوچی : ہاں اب آپ جا سکتی ہیں

عاشی وہاں سے نکل کر سیدھی صائمہ کے گھر کی طرف چل دی جہاں اسکا چھوٹا بیٹا برکات اسکے کام کے اوقات میں رہتا تھا ابھی وہ صائمہ کی گلی میں پہنچی ہی تھی کہ اس نے بہت سے لوگوں کو صائمہ کے گھر کے سامنے دیکھا ۔ عاشی گھبرا سی گئی اور اور تیزی سے صائمہ کے گھر کی طرف بڑھتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


لیجئے دونوں مناظر کا تسلسل لکھ دیا ہے امید ہے آنے والے صاحب ان میں سے کسی ایک کا تسلسل یا دونوں کا تسلسل لکھ کر کہانی کا رخ موڑنے کی کوشش کریں گے ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم

سیانے کہتے ہیں جس کہانی کا جواب تین دن تک نہ آئے سمجھو پسند نہیں آئی لہذا اگر کل تک کوئی جواب نہ لکھا گیا تو میں اس صورت حال کو تبدیل کرکے لکھ دوں گا ۔ شاید آپ کو کہانی دو ٹریک پر چلتی ہوئے اچھی نہیں لگ رہی ۔ اگر ایسا ہے تو صرف یہ بتا دیں کہ کہانی کس ٹریک پر چلائی جائے ۔ عاشی پر ۔۔۔؟ یا فیصل پر ۔۔۔؟

جواب پر دارومدار ہے کہانی کے مستقبل کا
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: نبیل

فیصل، تمہاری کہانی بہت اچھی آگے بڑھ رہی ہے اور مناظر بھی ٹھیک بدل رہے ہیں اس میں۔ لگتا ہے باقی لوگ تمہاری انشاپردازی کا ساتھ دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ کہانی آگے بڑھتی رہے گی۔ اس کا ربط دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جلد پنجابی فلم کا سکرپٹ تیار ہوجائے گا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: شارق مستقیم

میرا خیال ہے کہانی کو ایک ہی طرف سے آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ اس سے اسے آگے چلانا آسان ہوگا۔ اب کسی طرح اس کہانی کے دونوں حصوں کو جوڑنا ہوگا۔ فیصل تم نے کہانی نویسی میں اپنی مہارت کا ثبوت دے دیا ہے کچھ روز دیکھو ورنہ تم ہی یہ کام کر جانا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: شارق مستقیم

گلی میں قناتیں لگی ہوئی تھیں۔ فیصل، نبیل، زکریا، شعیب صفدر اور منہاجین سب لوگ مل جل کر اندر کرسیاں لگا رہے تھے۔ ساروں ہی کی آنکھوں میں آنسو کے قطرے واضح دیکھے جاسکتے تھے۔

نبیل: یار فیصل کچھ بتاؤ تو کوکب کی شادی ہو کس سے رہی ہے؟
فیصل: یار ہے کوئی سیفی نام کا بڈھا۔ سنا امریکہ میں بہت بڑا بزنس ہے۔ لاکھوں ڈالر کماتے ہیں۔ بس کوکب کی ماں سنتے ہی دوہری ہوگئی کہ لے جاؤ جو سی بیٹی چاہو۔ اس شیطان نے بھی کوکب پر ہی ہاتھ رکھا۔
شعیب صفدر: خوب!
نبیل: ویسے فیصل کا تو مجھے پتہ ہے، زکریا تمہارا کیسے آنا ہوا؟
زکریا: اب چھپا کر کیا کروں گا۔ کوکب لوگ پہلے ہمارے گھر کے سامنے رہتے تھے تو یہ مجھے بڑی اچھی لگتی تھی۔ اور منہاجین تم کیسے آئے؟
منہاجین: میری اور کوکب کی پرائمری تعلیم ایک ساتھ برائٹ فیوچر اسکول میں ہوئی تھی۔ وہیں سے میرا دل اس کی طرف مائل تھا۔
شعیب صفدر: بہت خوب!
نبیل (جل کر) : تم تو بس اتنا ہی بولنا۔

اچانک شور اٹھتا ہے بارات آگئی، بارات آگئی۔ دوسری طرف سے مولانا اعجاز اختر ہاتھ میں نکاح کا رجسٹر تھامے نمودار ہوئے:

مولانا اعجاز اختر : لڑکی کہاں ہے؟
فیصل: (آنکھ نکال کر) جی کیا مطلب۔
مولانا اعجاز اختر : مطلب ہے میاں نکاح پڑھانا ہے اور کیا!
فیصل: (جل کر) آپ سٹیج پر بیٹھیں اور اپنی توجہ صرف دولہے پر رکھیں۔ لڑکی کا ایجاب و قبول ہو جائیگا۔

اعجاز صاحب اسٹیج کی طرف چلے جاتے ہیں۔ دولہا بھی اسٹیج پر براجمان ہوچکا تھا اور باراتی بھی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ فیصل نے ایک نظر دولہے پر ڈالی۔ خاصی بڑی عمر کا آدمی تھا اور سہرے سے جھانکتا ہوا خاصا خبیث لگ رہا تھا۔ فیصل کا دل کوکب کے لئے بھر آیا اور آنکھوں کی نمی پھر بڑھ گئی۔

اسٹیج پر اعجاز صاحب اپنی روایت کے مطابق ایک طویل خطبہ شروع کرچکے تھے اور سامعین کے منہ بار بار جمائیوں کے لئے کھل رہے تھے۔ اچانک شامیانے کے باہر ایک پولیس گاڑی آکر رکی۔ اس کے پچھلے حصہ سے تین جوان چھلانگ لگا کر باہر نکلے اور پوزیشن لے لی۔ پھر گاڑی کا اگلا دروازہ کھلا اور انسپکٹر جیسبادی بھی نظروں کے سامنے آگئے۔

اب تک اندر لوگوں میں خاصی افرا تفری پھیل چکی تھی۔ انسپکٹر جیسبادی نے سامنے کھڑے فیصل سے پوچھا:

انسپکٹر جیسبادی: سیفی کا نکاح یہیں ہورہا ہے؟
فیصل: جی ہاں خیریت انسپکٹر صاحب؟
انسپکٹر جیسبادی: خیریت تو رخصت ہوگئی۔

یہ کہہ کر وہ جوانوں کے ہمراہ اندر گھس گئے۔ کچھ دیر میں سیفی کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں تھیں۔ لوگ بدحواس ہو کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ اچانک اعجاز صاحب انسپکٹر جیسبادی کی طرف بڑھے:

مولانا اعجاز اختر : ارے جیسبادی میاں تم!
انسپکٹر جیسبادی: آئیے آئیے اعجاز صاحب۔ جس حساب سے آج کل آپ نکاح پڑھا رہے ہیں مجھے یقین تھا آپ سے ملاقات ضرور ہوگی۔
زکریا: آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟
مولانا اعجاز اختر : ارے ہاں میاں ایک پرانے یاہو! گروپ سے دونوں کی سلام دعا ہے۔
شعیب صفدر: خوب!
مولانا اعجاز اختر : میاں جیسبادی یہ ہمارے دولہا میاں کو کیوں پکڑ کر لے جارہے ہو؟
انسپکٹر جیسبادی: سر آپ کو نہیں معلوم۔ یہ شخص ایک ڈرگ ڈیلر ہے اور امریکہ اور اسلام آباد کے درمیان ڈرگ سپلائی کا ذمہ لے رکھا ہے۔ ہم عرصے سے اس کی تلاش میں تھے۔

اتنا سننا تھا کہ فیصل کے منہ سے hurray نکل گیا۔ نبیل، زکریا، شعیب صفدر اور منہاجین بھی انتہائی خوش نظر آئے۔ اعجاز صاحب کا منہ کھُلا تھا۔ سیفی کا چہرہ مزید تاریک ہوگیا۔ کچھ دیر بعد انہیں پولیس گاڑی میں ٹھونس دیا گیا۔

سیفی: انسپکٹر صاحب اب جب کہ آپ نے مجھے پا لیا ہے، مجھے اپنا انجام پتہ ہے۔ البتہ آپ ایک انتہائی بڑے دل کے انسان ہیں یہ اور بات ہے کہ اپنا اصل نام کسی کو نہیں بتاتے ہیں۔
انسپکٹر جیسبادی: یہ میرے پیشے کا حصہ ہے۔
سیفی: ایک درخواست ہے آپ سے۔
انسپکٹر جیسبادی: کہو۔
انسپکٹر جیسبادی: مجھے ایک بار اپنی بیوی نمبر ۱ صائمہ سے ملا دیں پھر بھلے سے پھانسی پر چڑھا دیں۔
مولانا اعجاز اختر : نالائق یہ کرتوت ہیں تیرے۔
انسپکٹر جیسبادی: ٹھیک ہے تمہاری یہ خواہش پوری کرسکتا ہوں۔
مولانا اعجاز اختر : میاں جیسبادی اگر ناراض نہ ہو تو ہم بھی گاڑی میں بیٹھ جائیں۔
انسپکٹر جیسبادی: اعجاز صاحب آپ کو بھلا میں منع کرسکتا ہوں۔
شعیب صفدر: بہت خوب!

چنانچہ اعجاز صاحب، فیصل، نبیل، زکریا، شعیب صفدر اور منہاجین سب لوگ پولیس گاڑی میں پیچھے ٹھنس کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد یہ سارے صائمہ کے گھر کے سامنے گاڑی سے اتر رہے تھے۔ گاڑی سے اترتے ہوئے نبیل کا موبائل بج اٹھا۔

فیصل: نبیل کون تھا؟
نبیل: شارق صاحب تھے۔ کہہ رہے تھے کہانی کے دونوں حصوں کو جوڑ دیا ہے۔ آگے سے تم لوگ دیکھ لینا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: شعیب صفدر

فیصل نے کہانی خوب لکھی اور ادھر شارق مستقیم آپ نے بھی خوب میرے نام کا کردار اس کہانی میں ڈالا۔۔۔۔ میں نے جب تحریری تعریف کرنے ہو تو۔۔۔ خوب یا بہت خوب لکھتا ہو معلوم ہوتا ہے آپ نے یہ بات نوٹ کر لی ہے۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: افتخار راجہ

بہت خوب
شارق بھائی آپ نے تو کہانی کو بہت ہی خوب بنا دیا اور سیفی میاں کو بھی خوب گھسیڑا بیچ میں۔ مقالماجات بہت پسندیدہ ہیں۔ بس اب سیفی پڑھ لیں تو دیکھتے ہیں انکا کیا ردِ عمل ہوتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: سیفی

:lol:
:lol:
:lol:
:lol:

شارق بھیا ۔۔۔۔۔بہت خوب۔۔۔۔

لیکن آپ کو پتا ہے۔۔۔۔مجھے تو پولیس لے گئی۔۔۔اب میری ننھی سی جان تو پاکستانی پولیس کی مار نہیں سہہ سکتی نا۔۔۔۔

ابھی تو بہت سے پردہ نشینوں کے نام آئیں گے بیچ فسانے کے۔۔

بس دیکھیں ابھی پولیس کو ریمانڈ ملنے کی دیر ہے۔۔۔پھر بہت سے لوگ آجائیں گے بیچ ۔۔۔۔چکی کے۔۔۔۔ :lol:
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: سیفی

صائمہ کے گھر کو تالا لگا ہوا تھا۔۔۔۔چنانچہ سب لوگ دوبارہ گاڑی میں سوار ہو کر آگے چل پڑے۔۔۔اگلے چوک میں مولانا اعجاز اختر صاحب نے گاڑی رکنے کا کہا۔۔۔
“کدھر چلے ہو مولانا صاحب۔۔“ انسپکٹر جیس نے پوچھا۔۔۔۔
“میں نے ایک اور نکاح پڑھوانا تھا۔۔۔۔“ اعجاز صاحب گویا ہوئے۔۔

[align=center]۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/align]

اعجاز صاحب کے جاتے ہی گاڑی روانہ ہوئی اور ایک جھٹکے سے دوبارہ کھڑی ہو گئی۔۔۔۔انسپکٹر جیس گاڑی سے اترے اور بولے “نیچے آجاؤ بچونگڑو۔۔۔۔۔۔۔“

فیصل، نبیل، زکریا، شعیب صفدر اور منہاجین سب لوگ ڈرتے ڈرتے گاڑی سے اترے۔۔۔انسپکٹر جیس اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے سب کو گھور رہے تھے۔۔۔۔۔۔
“ مجھے تو یہ پینے پلانے والا لگتا ہے “ شعیب نے سرگوشی کی۔
“ ابے چپ۔۔۔۔۔اسکے تیور نہیں دیکھتے اور بولتے جاتے ہو۔۔۔۔“ نبیل نے جل بھن کر کہا۔۔۔۔۔۔

“میں تو اعجاز صاحب کی وجہ سے آپ کا لحاظ کر رہا تھا انھوں نے میرا نکاح بھی پڑھایا تھا۔۔۔۔“ انسپکٹر جیس بولے۔۔۔“اب میں تم لوگوں کو پولیس کا روایتی کردار دکھاتا ہوں ۔۔۔تم لوگ بھی انٹرنیٹ پر سرکارِ پاکستان کے خلاف بولتے ہو۔۔۔۔“ انسپکٹر جیس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر پیٹ پر ایک ہاتھ مارا اور ایک بڑا سا ڈکار لیا۔۔۔۔۔
“ چلو سارے مرغے بن جاؤ۔۔۔۔۔اور میری گاڑی کے آگے آگے تھانے چلو۔۔۔۔۔“
“ہاں ایک رعایت ہے“۔۔۔انسپکٹر جیس نے کہا “ جو شخص بانگ دے دے۔۔۔۔وہ گاڑی میں بیٹھ سکتا ہے۔۔۔لیکن ذہن میں رہے۔۔۔جس کی بانگ مجھے پسند آئے گی اسے ہی گاڑی میں بٹھاؤں گا۔۔۔“

“ہائیں۔۔۔۔۔“ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔۔۔۔
“میری تو پتلون بھی ٹائٹ ہے میں کیا کروں گا۔۔۔۔“ شارق نے منمنا کر کہا۔۔۔۔
“اسی لئے تو میں کہتا تھا کہ شلوار قمیص پہنا کرو“ منہاجین نے تپ کر کہا۔۔۔

ابھی یہ لوگ کھڑے ہی تھے کہ سائرن کی آواز سنائی دی۔۔۔سب لوگ ادھر متوجہ ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باقی آئندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :roll:
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: شعیب صفدر

سیفی میاں معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو آپ نے اپنے “بڈھے“ کہے جانے کا
اور دوسرا “اسمگلر“ لکھے جانے کا غصہ اتارا ہے
بہر حال خوب کہانی چلی ہے
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: نبیل

یہ سیفی بھائی کی شرافت ہے کہ انہوں نے واننگ دے کر چھوڑ دیا ہے ورنہ وہ سب کی چھترول بھی کرا سکتے تھے۔ انکی جگہ اگر فیصل یہ کہانی آگے بڑھا رہے ہوتے تو پھر دیکھتے آپ سب کی چھتر پریڈ۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: اعجاز اختر

کہانی کی دونوں شاخیں ساتھ ساتھ چلتی رہتیں تو نسیم حجازی یا صادق سردھنوی جیسے اسلامی تاریخی ناولوں کا مزا آ جاتا جس میں ایک طرف ہمارا سپہ سالار قلعے فتح کرتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ وہ یا اس کاکوئی دوست عشق کے مرحلے طے کرتا ہے اور دونوں کہانیاں آلٹرنیٹ ابواب میں چلتی رہتی ہیں۔ میں بھی لطف لے رہا ہوں۔ لیکن منہاجین بجائے براتی کے مولوی اور قاضی کے کردار میں ہوتے تو اعجاز اختر سے بہتر ثابت ہو تے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کچھ لوگ بندے کو بھی ہائی ٹیک مولانا کہتےہیں۔ جیسبادی کو انپکٹر بننے پر مبارک باد۔ ان کا کردار ہسند آیا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: اعجاز اختر


کہانی کی دونوں شاخیں ساتھ ساتھ چلتی رہتیں تو نسیم حجازی یا صادق سردھنوی جیسے اسلامی تاریخی ناولوں کا مزا آ جاتا جس میں ایک طرف ہمارا سپہ سالار قلعے فتح کرتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ وہ یا اس کاکوئی دوست عشق کے مرحلے طے کرتا ہے اور دونوں کہانیاں آلٹرنیٹ ابواب میں چلتی رہتی ہیں۔ میں بھی لطف لے رہا ہوں۔ لیکن منہاجین بجائے براتی کے مولوی اور قاضی کے کردار میں ہوتے تو اعجاز اختر سے بہتر ثابت ہو تے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کچھ لوگ بندے کو بھی ہائی ٹیک مولانا کہتےہیں۔ جیسبادی کو انپکٹر بننے پر مبارک باد۔ ان کا کردار ہسند آیا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: قدیر احمد

چشمِ بد دور ۔ ماشاءاللہ بڑی بڑی کہانیاں ہورہی ہیں ، فیصل صاحب لگتا ہے کہ میدان چھوڑ گئے ہیں ، بہت اچھے
 
Top