اردو محفل کا طرحی مشاعرہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مغزل

محفلین
اردو محفل کا طرحی مشاعرہ
شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے احباب کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ محفل کے طرحی مشاعرے کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔
اس مشاعرے کی حیثیت انٹر نیٹ پر ہونے والے باقی مشاعروں کی خاصی مختلف ہو گی۔۔ جیسے کہ ہمارے ہاں تہذیبی مشاعرے ہواکرتے ہیں۔
شعراء کرام کو باقائدہ دعوت اور مصر ع دیا جائے گا۔۔ نشت و برخاست کا مکمل تہذیبی پاس رکھتے ہوئے صدرِ مشاعرہ، مہمانان خصوی و اعزازی کی مسند بھی رہے گی۔۔
اور نظامت ، صراحت کا بھی باقائدہ اعلان کیا جائے گا۔۔ شرکاء اس لڑی میں اپنی شرکت سے مطلع فرمائیں گے ۔۔اور کلام چسپاں کریں گے۔۔ جسے باقائدہ مشاعرے کے اہتمام کے ساتھ تقدیم وتاخیر کا خیال رکھتے ہوئے مشاعرے کی لڑی میں محفوظ کیا جائے گا۔۔ اور مقفل کردیا جائے گا۔۔سامعین (قارئین ) داد پسند کی ناب سے ہی ادا کرپا ئیں گے۔۔ یا تبصرہ جات کے لیے الگ لڑی کا اہتمام کیا جائے گا۔۔۔ اور معیّنہ مدّت میں مشاعرے کے باضابطہ مؤخر ہونے کااعلان کیا جائے ۔۔ صدر و مہمانان باقائدہ مشاعرے کےبارے میں اپنے تاثرات بھی بیان کریں گے یوں ایک یادگار طرحی مشاعرہ محفل کے حسن کو چار چاند لگانے میں اپنا حصہ ملائے گا۔۔۔۔ میری درخواست ہے کہ شعراء کرام اپنی شمولیت سے آگاہ فرماکر مشکور ہوں ۔
صراحت:
طرح مصرع : از : خدائے سَخُن محمدتقی المعروف میرتقی میر​
’’ یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے ‘‘
قوافی : جہاں ، مکاں وغیرہ
ردیف : سے اُٹھتا ہے
بتاریخ : 15جنوری دوہزاربارہ بروز اتوار
حاشیہ: کلام چسپاں کرنے کی آخری تاریخ 12 جنوری دوہزار بارہ ہے ۔۔​
 

ایم اے راجا

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔​
جنابِ صدر ، جناب مہمانِ خصوصی اور شرکاء مشاعرہ کو السلام علیکم ۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ م م مغل صاحب نے اس طرحی محفلِ مشاعرہ کو ترتیب دیا اور حضرت میر تقی میر کی خوبصورت غزل، دیکھ دل سے کہ جاں سے اٹھتا ہے ۔ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔ سے اس محفل کا آغاز کیا، اور مجھ سے جاہل کو بھی دعوتِ کلام دی۔گو کہ بہت بڑے شاعر کا بہت بڑا مصرعہ طرح ہے جس پر مجھ سے طفلِ مکتب کا اشعار باندھنا گو کہ بہت مشکل عمل تھا مگر اپنی سی کوشش کی ہے جو کہ آپ کی نذر کرتا ہوں، فیصلہ آپ پر ہے کہ کس قدر کامیاب رہا ہوں، آپ کی تنقید یقیناً میرے لیئے مشعلِ راہ ہو گی۔

غزل عرض ہے۔۔۔۔​

درد زخمِ نہاں سے اٹھتا ہے​
سینے کے درمیاں سے اٹھتا ہے​
ایک بجلی سی کوند جاتی ہے​
ایک شعلہ سا جاں سے اٹھتا ہے​
جو ترے در پہ جھک گیا اک بار​
سر وہ پھر کب وہاں سے اٹھتا ہے​
دل تڑپتا ہے ، خون جلتا ہے​
شعر تب اک زباں سے اٹھتا ہے​
چھوڑ جاتا ہے حسرتیں ، ناکام​
آدمی جب جہاں سے اٹھتا ہے​
لاشے بکھرے ہیں شہر میں ہر سُو​
نالہ ہر اک مکاں سے اٹھتا ہے​
کھول اب آنکھ، دیکھ اے حاکم​
"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے"​
تُو نے سوچا بھی ہے کبھی راجا !​
کیوں غضب آسماں سے اٹھتا ہے ؟​
(ایم اے راجا)​
 
صاحب صدر، محفل کے دیگر شرکا،​
السلامُ وعلیکم،​
میں اس دھاگے کی وساطت سے اپنے محسن اپنے اُستاد جناب اعجاز عبید صاحب کا شکریہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں، جس کمال مہربانی اور محبت سے حضرت نے مجھے برداشت کیا وہ بلا شک قابل تعریف ہے اور میں تہہ دل سے سے ممنون ہوں۔ ان کے علاوہ میں اکثر و بیشتر محترم رفیع اللہ راہی سے بھی صلاح مشورہ لیتا رہتا ہوں ان کا بھی حد سے زیادہ شکر گزار ہوں، جہاں میں ہوں ان حضرات کہ وجہ سے ہوں ورنہ مجھ سا اُردو زبان سے نابلد کہیں گمنام پڑا ہوتا، نیک تمنائیں جو میرے پاس ہیں ان اساتذہ کے لیے: خاکسار : اظہر​
غزل​
میں کہوں، دو جہاں سے اٹھتا ہے
درد کہ جسم و جاں سے اٹھتا ہے
دیکھ مت یوں دھواں دھواں چہرہ
یہ تو پوچھو، کہاں سے اٹھتا ہے
رُوے گل پر ہے شبنمی آنسو
درد جو گلستاں سے اٹھتا ہے
دل میں برپا ہے شور ماتم کا
درد کیا یوں بیاں سے اٹھتا ہے
آتش عشق سرد ہے کب سے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
آہ بن جائے گا فنا ہوکر
جو دھواں سائباں سے اٹھتا ہے
بزم ہے چل چلاؤ کی جاری
جس کو دیکھو، یہاں سے اٹھتا ہے
بھر گئی ہے زمیں گناہوں سے
شور جو آسماں سے اٹھتا ہے
مختصر ذکر تھا ترا اظہر
وہ بھی اب داستاں سے اٹھتا ہے
محمد اظہر نذیر
-------------------------------​
غزل​
میری آہ ُ فغاں سے اُٹھتا ہے​
درد جو جسمُ جاں سے اُٹھتا ہے​
درد جاتا رہے گا، شک کیا ہے​
چن سکو گر جہاں سے اُٹھتا ہے​
کون وقتوں سے گل پڑے گھائل​
درد کیا گلستاں سے اُٹھتا ہے؟​
درد الفاظ میں چھپانا سیکھ​
یوں لگے نہ، بیاں سے اُٹھتا ہے​
بیٹھتا اور ماں کے قدموں میں​
باولے، ساٴیباں سے اُٹھتا ہے​
کون سا زہر مل گیا جگ میں​
جی تو جیسے یہاں سے اُٹھتا ہے​
ہو رہا کیا ہے اے زمیں والو؟​
شور کیوں آسماں سے اُٹھتا ہے​
کیا دبی رہ گئی تھی چنگاری؟​
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے​
ایک کردار تھا ترا اظہر​
ختم تو داستاں سے اُٹھتا ہے​
محمد اظہر نذیر​
 
غزل
فکرِ سود و ذیاں سے اُٹھتا ہے
دل ترے خاکداں سے اُٹھتا ہے
جس کے دم سے تھی انجمن آباد
اب وہی درمیاں سے اُٹھتا ہے
اِک ستارہ جو تیرے نام کا تھا
حجرۂ کہکشاں سے اُٹھتا ہے
کوئی کُوئے نگار سے یُوں اُٹھا
جیسے خوابِ گراں سے اُٹھتا ہے
سُرخیٔ داستان بن کے کوئی
کیوں مری داستاں سے اُٹھتا ہے
کس کی یادوں کی آہٹیں جاگیں
زلزلہ جسم و جاں سے اُٹھتا ہے
اِک ستم ہے ستم پہ چُپ رہنا
حشر کچھ تو فغاں سے اُٹھتا ہے
جانے کس کو جلا کے راکھ کرے
ایک شعلہ زباں سے اُٹھتا ہے
بجلیاں ہوں نہ ہوں سحابوں میں
اعتبار آسماں سے اُٹھتا ہے
یونہی پڑتی ہے قافلے کی بناء
میں یہاں تُو وہاں سے اُٹھتا ہے
پُوچھتا ہے لگا کے آگ ظفر
“یہ دہواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے“
 
غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
رنگ و بو کے جہاں سے اٹھتاہے
منزلیں اس غبار میں گم ہیں
جو ترے کارواں سے اٹھتا ہے
غور سے سن اسے کہ یہ نالہ
میرے قلبِ تپاں سے اٹھتا ہے
یہ کسی اور آگ کا ہے دھواں
یا مرے آشیاں سے اٹھتا ہے
ہے منافق وہی کہ جس کا خمیر
فکرِ سود و زیاں سے اٹھتا ہے
پھر کہاں اس کے دل کو چین و قرار
جوترے درمیاں سے اٹھتاہے
کچھ تعلق نہیں مکاں سےا سے
شور یہ لامکاں سے اٹھتا ہے
گردِ مہتاب ہے فلک کا غبار
یا کسی کہکشاں سے اٹھتا ہے
زندگی ہے کہ بلبلہ کوئی
سطحِ آبِ رواں سے اُٹھتا ہے
ظلم اور جبر کا ہراک فتنہ
قصرِ صاحبقراں سے اُٹھتا ہے
کتنا محبوب ہے ہمیں وہ دھواں
جو صفِ دشمناں سے اٹھتا ہے
آہی جائیں گے حسبِ وعدہ وہ
اعتبار اس گماں سے اٹھتا ہے
لوحِ محفوظ میں ہے سب مرقوم
کون، کس دن، کہاں سے اٹھتا ہے
منتظر ہوں حفیظ کب پردہ
رازِ کون و مکاں سے اٹھتا ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم۔
ہم نے بھی اپنی سی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے ہم شاعری کے گنہگار ہیں اس لیے بہت ساری غلطیوں کی پہلے ہی معافی مانگ لیتےہیں۔ م م مغل صاحب کے مشکور ہیں کہ انھوں نے یہ سلسلہ شروع کر کے ہماری روٹھی ہوئی دیوی کو پھر سے منانے کا موقع دیا شکریہ مغل بھائی غلطیوں کی نشاندہی ضرور کیجئے گا

کیا بتاؤں کہاں سے اٹھتا ہے
یہ دُھواں دل و جاں سے اٹھتا ہے

اس پہ نظرِ کرم نہیں ہوتی
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے

مے کدے سے اٹھا دیے ایسے
"جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے"

مال سے اور جاں سے جاتا ہے
جو بھی اپنے نشاں سے اٹھتا ہے

تیری محفل کی داستاں ہو پھر
کون درمیاں سے اٹھتا ہے

تیری دہلیز پر قدم رکھ کر
لفظ مشکل زباں سے اٹھتاہے

لوگ سب کہہ رہے ہیں تھا انصاف
اب مگر اس جہاں سے اٹھتا ہے

ہر کسی کو یہی تجسس ہے
" یہ دھواں سا کہاں سےاٹھتا ہے"

"امن کی فاحتہ ہے اڑ نے کو"
تیرکوئی کماں سے اٹھتا ہے

عقل والے بھی اب نہیں ملتے
عشق بھی داستاں سے اٹھتا ہے

کون جانے کہ کیا ہوا خرم
کون آتش فشاں سے اٹھتا ہے
 

مغزل

محفلین
مشاعرے کی یاد دہانی کامراسلہ
صراحت:
طرح مصرع : از : خدائے سَخُن محمدتقی المعروف میرتقی میر​
’’ یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے ‘‘
قوافی : جہاں ، مکاں وغیرہ
ردیف : سے اُٹھتا ہے
بتاریخ : 15جنوری دوہزاربارہ بروز اتوار
حاشیہ: کلام چسپاں کرنے کی آخری تاریخ 12 جنوری دوہزار بارہ ہے ۔۔
دعوت نامہ : منسلکہ
غزل ناز غزل ، الف عین ، محمد یعقوب آسی ، آصف شفیع ، فاروق درویش ، محمد وارث ، محمد احمد ، جیا راؤ ، زھرا علوی ، خرم شہزاد خرم ، ایم اے راجا ،متلاشی ، سید مقبول شیرازی زلفی ، محمود احمد غزنوی ، امر شہزاد ، ش زاد ، محمد اظہر نذیر ، نافرع ، پیاسا صحرا ، عین عین ، محمد امین ،F@rzana ، نوید صادق ، عمار خاں ، ابن سعید ، فاتح ، فرخ منظور ، یوسف ثانی ، سیدہ سارا غزل ، ایس فصیح ربانی ، عمران شناور ، عبدالرحمن سید ، انیس فاروقی ، سید نصرت بخاری ، زیف سید ، کاظمی بابا ، علی ساحل، محمد شعیب خٹک ، روحانی بابا ، شاہ حسین ، عطاء رفیع ، فیصل عظیم فیصل ،سلیمان جاذب ، نویدظفرکیانی ، م۔م۔مغل ، محمد حفیظ الرحمٰن ، محمد خلیل الرحمٰن ، جگرصحرائی ، ۔۔۔۔۔
(انسلاک مکمل )
 

متلاشی

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔​
اردو محفل کے تمام احباب و ناظرین کو السلام علیکم!
سب سے پہلے تو میں اپنے اسا تذانِ گرامی بابائے سخن جناب اعجاز عبید صاحب ، اور مکرمی محمد وارث صاحب کی خدمت میں آداب عرض کرتا ہوں۔۔۔ اس کے بعد میں ناظمِ مشاعرہ جناب م۔م۔مغل صاحب کا تہِ دل سے مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نےمجھے اس مشاعرے کے قابل سمجھا۔۔۔!
فقیر ابھی طفلِ مکتبِ سخن ہے ۔۔۔۔ فقیر کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ اس کے کلام میں وہ نغمگی ، وہ چاشنی اور وہ حسنِ ربط بالکل مفقود ہے ۔۔۔جو کہ در حقیقت کسی بھی سخنور کے لئے ضروری ہے ۔۔۔۔ فقیر اپنی اس کوتاہی پر پہلے ہی معافی کا خواستگوار ہے ۔۔۔!
حضرت میر تقی میر کی اس غزل پر شعر کہنا گو کہ مجھ جیسے مبتدی کے لئے نہایت کھٹن مرحلہ تھا۔۔۔۔بحمداللہ میں نے اپنی سی کوشش کی ہے ، اب معلوم نہیں میں اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں۔۔۔۔!
امید ہے آپ کی محبت بھری تنقید مجھ جیسے ننھے سخنور کے پنپنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔۔۔۔!
سو اپنا بے طقہ کلام آپ کے ھدیہ سماعت کرتا ہوں ، امید ہے تحمل کے ساتھ سماعت فرمائیں گے۔۔۔!
درد سا اک ،جو یاں سے اٹھتا ہے​
کون جانے ؟کہاں سے اٹھتا ہے ؟​
منکشف ہوتی ہے حقیقت پھر​
پردا جب ،درمیاں سے اٹھتا ہے​
چوٹ پڑتی ہے جب، نئی دل پر​
’’زلزلہ، جسم وجاں سے اٹھتا ہے ‘‘​
کسی بلبل کا دل جلا ہے کہیں​
دھواں، کیوں آسماں سے اٹھتا ہے؟​
تھم گئی کائنات ،پھر کیوں آج؟​
شور کیوں ،لا مکاں سے اٹھتا ہے ؟​
بے خبر! کچھ خبر ہے تجھ کو کہ آج​
عشق آخر ،جہاں سے اٹھتا ہے​
پوچھ مت مجھ سے حالِ دل، کہ کہیں​
’’شعلہ، آتش فشاں سے اٹھتا ہے ‘‘​
وجد میں آتے ہیں ملائک ،جب​
ساز میری ، فغاں سے اٹھتا ہے​
کھول مت رازِ عاشقی ہمدم​
بوجھ کب ،رازداں سے اٹھتا ہے​
طفلِ مکتب ہوں،کیا مری اوقات​
شعر خود ہی زباں سے اٹھتا ہے​
چیردیتا ہے پھر دلِ معصوم​
تیر جب بھی کماں سے اٹھتا ہے​
توڑ جائیں نہ دل کہیں ، ذیشاںؔ​
اعتبار ان بُتاں سے اٹھتا ہے​
(متلاشی)​
فقیر ایک دفعہ پھر آپ سب کے زیرِ بارہے کہ آپ نے فقیر کے چند بے ربط سے جملے اس قدر محبت سے سماعت فرمائے۔۔۔! شکریہ۔۔۔!​
 
غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔عرض کیا ہے۔
اس دلِ ناتواں سے اٹھتا ہے
کچھ دھواں سا یہاں سے اٹھتا ہے
--ق--
دیکھنا ھاؤ ھو، یہ شور و غل
کیا ہمارے مکاں سے اٹھتا ہے
دل سے اٹھتا ہے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
میں جو بولا کہا کہ یہ گستاخ
کیا ابھی اس جہاں سے اٹھتا ہے
اٹھ کر آئے ہیں یوں ترے در سے
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
ان کے جلووں کو دیکھ کر شاعر
کون کافر یہاں سے اٹھتا ہے
نغمہ خواں کیسے ہو خلیل کہ اب
شعر کا فن جہاں سے اٹھتا ہے
 
غزل
لفظ یوں اس زباں سے اٹھتا ہے
شعلہ آتش فشاں سے اٹھتا ہے
غم کا بادل ، غبار عالم کا
دل کے دردِ نہاں سے اٹھتا ہے
میرے محبوب عکس اِس رُخ کا
جان پرور سماں سے اٹھتا ہے
اے مرے یار تیرا عکسِ جمال
روح سے اٹھتا ہے جاں سے اٹھتا ہے
پیار کو عام کرکے دھرتی میں
دل کا راہی یہاں سے اٹھتا ہے
زندگی کے حسین رستوں میں
درد عشقِ بتاں سے اٹھتا ہے
اے جگر پیار کا گھنا بادل
کیا کبھی آسماں سے اٹھتا ہے
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
جنابِ صدر ، جناب مہمانِ خصوصی اور شرکاء مشاعرہ کو السلام علیکم ۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اردو محفل میں طرحی مشاعرے کا اہتمام کیا جا رہا ہے، لیکن صاحب مصرعہ بہت مشکل دیا گیا ہے۔ حضرت میر تقی میر کے مصرعے پر غزل کہنا کوئی آسان کام نہیں بہرحال اپنی حقیر سی کاوش پیش کر رہا ہوں۔

غزل
سرخ رُو اس جہاں سے اُٹھتا ہے
جو صدائے اذاں سے اُٹھتا ہے
جب درِ مہوشاں سے اُٹھتا ہے
چین دل کے جہاں سے اُٹھتا ہے
دل کی اب راکھ بھی نہیں باقی
"یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتاہے"
خواب دیتے ہیں جب کبھی مہمیز
ولولہ قلب و جاں سے اُٹھتا ہے
تو نے بخشا ہے جو مقام اسے
آئنہ کب وہاں سے اُٹھتا ہے
بات سنتے نہ بات کہتے ہیں
دل ہی کوئے بتاں سے اُٹھتا ہے
دھیان آتے ہی اس پری وش کا
درد کیوں جسم و جاں سے اُٹھتا ہے
مہرباں ہے کہ پیار ہے مجھ سے
پردہ رازِ نہاں سے اُٹھتا ہے
جس کی خاموشیاں قیامت ہوں
حشر اس کے بیاں سے اُٹھتا ہے
دل پہ لے کر گلاب زخم فصیحؔ
محفلِ دوستاں سے اُٹھتا ہے
شاہین فصیحؔ ربانی
 
جناب صدر کی اجازت سے ادنی سی کاوش پیش خدمت ہے، عرض کیا ہے۔
غزل​
کب وہ آہ فغاں سے اٹھتا ہے​
نالہ زخمِ نہاں سے اٹھتا ہے​
خون رستا ہے قتل گاہوں سے​
شور اشکِ رواں سے اٹھتاہے​
تجھ کو چارہ گری سکھا دے گا​
درد جونیم جاں سےاٹھتا ہے​
جب قلم بے زبان ہوتے ہیں​
حرف نوکِ زباں سے اٹھتا ہے​
کفر واعظ کے لب سے ہے جاری​
اذن کوئے بُتاں سے اٹھتا ہے​
شیخ سویا ہے بے ضمیری میں​
کب وہ تیری اذاں سے اٹھتا ہے​
آتشِ دل تو بجھ گئی لیکن​
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے​
آنسووں سے انیس مت پوچھو​
یہ طلاطم کہاں سے اٹھتا ہے​
انیس فاروقی​
 

مغزل

محفلین
ہر خاص و عام کواطلاع دی جاتی ہے کہ اردو محفل کے طرحی مشاعرہ کی تاریخ میں ناگزیر تبدیلی کرکے اسے 31 جنوری پر موخر کیا جارہا ہے۔
اس التوا کی بنیادی وجہ محفل کے بزرگ شعراء کی تاحال عدم شمولیت ہے ۔ہمیں امید ہے کہ بزرگان محفل کی رونق میں اپنے کلام سے اضافہ فرما کر مشکور ہوں گے ۔۔​
بصورتِ دیگر 31 جنوری تک کے حاضر شعراء سے ہی مشاعرہ کی کاروائی مکمل کی جائے گی۔۔​
 

مغزل

محفلین
غزل
دیکھ ریگ ِ رواں سے اُٹھتا ہے؟​
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
احتجاجا َ حضور ِ مہ و گُل
یہ خرد آستاں سے اُٹھتا ہے
کرمَک و شمع کو میں جب دیکھوں
تو یقیں مہوشاں سے اُٹھتا ہے
قوت ِ بازو کچھ نہیں صاحب
بار تو بس زیاں سے اُٹھتا ہے
صبح ہو گی تو دیکھ لیں گے ہم
کہ دھواں کس مکاں سے اُٹھتا ہے
 
السلامُ علیکم، احباب!
اردو ویب پہ یہ میرا پہلا پہلا پتھر ہے۔ آپ لوگ سہہ گئے تو میں بھی پیچھے نہیں ہٹنے والا۔ برا مان گئے تو بھی نہیں!
شاعری عرصہ ہوا میں نے چھوڑ دی۔ اب کبھی کبھار تک بندی کر لیتا ہوں۔ پڑھیے اور جو جی میں آئے کیجیے۔
نے گدا آستاں سے اٹھتا ہے
نہ ستم نیم جاں سے اٹھتا ہے
نالہ اٹھتا ہے، اٹھ نہیں سکتا
جب دلِ ناتواں سے اٹھتا ہے
ہے قفس مدفنِ ہزار الم
کب یہ بوجھ آشیاں سے اٹھتا ہے
کارواں دل کا اور ہے ظالم
یہ غبار آسماں سے اٹھتا ہے
ہو چکا راکھ دل تو مدت سے
’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘
آخرِ کار اٹھ گیا راحیل۔۔۔
غیر کب درمیاں سے اٹھتا ہے؟
دعا!​
 
شب چھلکتے ہی واں سے اُٹھتا ہے
جیسے دل بدگُماں سے اُٹھتا ہے
اُن کے ابرو اُٹھا تے ہیں ورنہ
دل بھلا کب وہاں سے اُٹھتا ہے
ہونٹ چھوڑیں تو زلف کھینچے ہے
کون اُس آستاں سے اُٹھتا ہے
میں نے مانا کہ میں نہیں تیرا
بیٹھ تو، کیوں یہاں سے اُٹھتا ہے؟
یہ پہاڑوں پہ آگ کیسی ہے؟
یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے؟
صندلی جھالروں کا مخملی بوجھ
حیف مُجھ ناتواں سے اُٹھتا ہے
چشمِ احساس سے ٹپکتا ہے
غم جو تیرے مکاں سے اُٹھتا ہے​
 

منصور آفاق

محفلین
برادرم فاتح الدین کے نام
کوئی دہلیز ِ جاں سے اٹھتا ہے
چاند جب آسماں سے اٹھتا ہے
ہے ابھی کوئی خالی بستی میں
وہ دھواں سا مکاں سے اٹھتا ہے
چھوڑ آتا ہے نقشِ پا کا چراغ
پائوں تیرا جہاں سے اٹھتا ہے
جس بلندی کو عرش کہتے ہیں
ذکر تیرا(ص) وہاں سے اٹھتا ہے
اک ستارہ صفت سرِ آفاق
دیکھتے ہیں کہاں سے اٹھتا ہے
ہم ہی ہوتے ہیں اس طرف منصور
پردہ جب درمیاں سے اٹھتا ہے
منصور آفاق
 
بھیا جانی محمود مغل صاحب کے نام، خدائے سخن میر تقی میرکی اس زمین میں غزل کہنا ہم جیسی طالبہ کے لئے بیحد کٹھن آزمائش اور اک متحان تھا لیکن بھیا جانی محمود مغل صاحب کا حکم بجا لانا بھی فرض ٹھہرا تو ہم نے بھی الٹی سیدھی تک بندی کر کے غزل لکھ دی، بھیا جانی محمود مغل صاحب اور بابا جانی سر عبید صاحب سے بالخصوص اور تمام سخنور بھائیوں اور بزرگوں سے بالعموم ، اصلاحِ سخن اور بھرپور تنقید کی گزارش ہے

غزل
میر سا کب جہاں سے اٹھتا ہے
زندہ سخن ِ رواں سے اٹھتا ہے
کی محمد ﷺ سے گر وفا ہم نے
شور کوئے سگاں سے اٹھتا ہے
خاتم المرسلیں ﷺ نبی ہیں مرے
غل یہ کون و مکاں سے اٹھتا ہے
کیا کروں ذکر شاہِ کربل کا
حشر آہ و فغاں سے اٹھتا ہے
پیر میرے ہیں شاہ مہر علی
نور اس آستاں سے اٹھتا ہے
دشت ویراں ہے قریہ ء دل کا
شور ِ ماتم کہاں سے اٹھتا ہے
شب میں بن کر چراغ جلتی ہوں
چاند کیوں آسماں سے اٹھتا ہے
دیکھتا ہے جو بے حجاب مجھے
بن کے دیوانہ یاں سے اٹھتا ہے
خوں اگلتی ہوں غم چھپانے کو
شعلہ آتش فشاں سے اٹھتا ہے
سایہ ء گل میں بھی لرزتی ہوں
خار جب درمیاں سے اٹھتا ہے
دل میں بجلی چمک چمک اٹھے
مان جب مہرباں سے اٹھتا ہے
لہر اٹھے کچھ اس طرح دل سے
نور جوں کہکشاں سے اٹھتا ہے
شہر صحراؤں میں بساتے ہوئے
درد سا قلب و جاں سے اٹھتا ہے
آتش ِ عشق پوچھتی ہے مجھے
”یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے”
فکر ِ درویش رہنما ہے غزل
حشر میرے بیاں سے اٹھتا ہے
سیدہ سارا غزل
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top