اردو محفل کا طرحی مشاعرہ بیاد خدائے سخن میرتقی میرؔ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مغزل

محفلین
اردو محفل کا طرحی مشاعرہ
بیاد
خدائے سخن میرتقی میرؔ
صراحت:
طرح مصرع : از : خدائے سَخُن محمدتقی المعروف میرتقی میرؔ​
’’ یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے ‘‘
قوافی : جہاں ، مکاں (غیرہ)
ردیف : سے اُٹھتا ہے
------------------​
صدارت : خدائے سخن محمدتقی المعروف میرتقی میرؔ
مہمانِ خاص : منصور آفاق ؔصاحب
نظامت : م۔م۔مغلؔ


اردو محفل کے طرحی مشاعرے میں خوش آمدید ، مشاعرے کے سلسلے میں پچاس سے زائد شعراء کرام کو دعوت دی گئی تھی ، محفل کے بزرگان سمیت بیشتر شعراء کرام کسی بھی وجہ سے شرکت نہ کرسکے تاہم ہمیں خوشی ہے کہ اس طرحی مشاعرے میں کثیر شعراء کی شرکت رہی جس میں نوواردانِ بزم کی شمولیت نے مشاعرے کے حسن کو مزید جلا بخشی ، سب سے پہلے مشاعرے میں شریک شعرائے کرام کے اسمائے گرامی (مشاعرے کی کاروائی اور تمام تر حفظِ مراتب کے مطابق) ملاحظہ ہوں۔ تاکہ مشاعرے کی کاروائی کا باقائدہ انصرام پیش کیا جائے ۔
 

مغزل

محفلین
مشاعرے میں شریک شعرائے کرام کے اسمائے گرامی
مشاعرے کی کاروائی اور تمام تر حفظِ مراتب کے مطابق
--------------
مہمانِ خاص: جناب منصور آفاق ؔ
جناب فاتحؔ الدین بشیر محمود
جناب نوید ؔ ظفر کیانی
جناب انیس ؔ فاروقی
جناب شاہین فصیح ؔربانی
محترمہ غزل ناز غزل ؔ
جناب محمد خلیل ؔ الرحمٰن
جناب محمد حفیظ ؔالرحمٰن
جناب دانش نذیر دانی ؔ
محترمہ سیدہ سارا غزل ؔ
جناب محمد ذیشان ؔ نصر (متلاشی)
جناب راحیل ؔ فاروق
جناب خرم شہزاد خرم ؔ
جناب راجہؔ محمد امین
جناب محمد اظہر ؔنذیر
جناب احساسؔ واسطی
جناب سیدعاطف ؔعلی
جناب جگر ؔصحرائی
اور ناظمِ مشاعرہ یہ خاکسار: م۔م۔مغل ؔ
-----------
 

مغزل

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
آداب اہالیانِ بزم۔
مشاعرے کی ابتدا کرتے ہوئے مجھے باباجانی ،نبیل بھائی ، وارث صاحب، سعود بھائی، فاتح بھائی اور فرخ منظور کی محبتیں اور حوصلہ افزائی نصیب رہی یہ میری خوش بختی ہے ۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ غزل محض پرگوئی کا نام نہیں ۔ سو جوں جوں طبیعت رواں ہوئی میں نے یہ وارداتِ قلبی مجتمع کی ، اب اس میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں یہ آپ احباب کی نقّادانہ بصیرت و بصارت ہی فیصلہ کرے گی ۔ بزرگ شعراء کی عدم شمولیت نے جہاں مشاعرے کی حسن میں کمی واقع کی ہے وہاں نئے آنے والے دوستوں کی شرکت مشاعرے کی حیثیت کو کسی قدر مکمل کرتی نظر آتی ہے، شاعرے کی تاریخ کو التوائی اس لیے دی تھی کہ محفل کے بزرگ شعراء کی شمولیت حاصل ہوسکے ۔ مشاعرے کا باقائدہ آغاز کیا جاتا ہے بحیثیت ناظم میں (م۔م۔مغل ؔ ) صاحبِ صدر خدائے سخن میرتقی میرؔ کی بارگاہ سے اجازت سے اپنا مقدور بھر کلام پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
م۔م۔مغلؔ (مدیر ِ شعبہ )
(محمد محمود الرشید مغل ؔ)

غزل
رائیگاں شائیگاں سے اٹھتا ہے
اک ہیولہ مکاں سے اٹھتا ہے
”مصرعِ میرؔ بھاری پتھر ہے
کب یہ مجھ کج بیاں سے اٹھتا ہے “
چیخ پڑتا ہے دشتِ جاں اے دل
جب وہ آہو یہاں سے اٹھتا ہے
یہ غبارِ فراقِ تشنہ وصال
دشتِ دونوں جہاں سے اٹھتا ہے
یہ سخن نافۂ ختن ہے میاں
یہ جو میرے دہاں سے اٹھتا ہے
وہ یقیں وہ جوازِ ہست آباد
لمحۂ بدگماں سے اٹھتا ہے
رتجگے کا اسیر نیّرِ چشم
بزمِ سیّارگاں سے اٹھتا ہے
موجۂ مشکبوئے وصلِ دوست
سانس کے درمیاں سے اٹھتا ہے
اے دلِ رنج زار سن تو سہی
تو کہاں دِلستاں سے اٹھتا ہے
رہروِ جاں سوارِ ناقۂ دل
کس لیے کارواں سے اٹھتا ہے
العطش العطش خدائے وصال
ایک نعرہ دہاں سے اٹھتا ہے
بس وہ سینہ خرامیوں میں رہے
شور تشنہ لباں سے اٹھتا ہے
میرؔصاحب نگاہ فرمائیں
دل نمی دادگاں سے اٹھتا ہے
ہے غزال آنکھ منتظر محمودؔ
اب یہ مجنوں یہاں سے اٹھتا ہے
م۔م۔مغلؔ
 

مغزل

محفلین
قارئینِ بزم اب میں دعوتِ سخن دینے لگا جناب ’’ جگرؔ صحرائی ‘‘ کو کہ تشریف لائیں اور اپنے طرحی کلام سے مشاعرہ کو رونق عطا کیجے ۔۔ جناب جگرؔصحرائی ۔۔۔۔۔
جناب جگر ؔصحرائی کا مزید کوئی تعارف حاصل نہیں ہے کہ پیش کیا جائے آپ کا ایک ہی مراسلہ شاملِ محفل ہے ، تیکنیکی طور پر اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ آپ کا تعلق
پاکستان کے شہر لاہور سے ہے ۔۔ تو حاضرینِ بزم ہم آپ کے کلام سے ہم جناب کا تعارف حاصل کرتے ہیں ۔۔۔

غزل
لفظ یوں اس زباں سے اٹھتا ہے
شعلہ آتش فشاں سے اٹھتا ہے
غم کا بادل ، غبار عالم کا
دل کے دردِ نہاں سے اٹھتا ہے
میرے محبوب عکس اِس رُخ کا
جان پرور سماں سے اٹھتا ہے
اے مرے یار تیرا عکسِ جمال
روح سے اٹھتا ہے جاں سے اٹھتا ہے
پیار کو عام کرکے دھرتی میں
دل کا راہی یہاں سے اٹھتا ہے
زندگی کے حسین رستوں میں
درد عشقِ بتاں سے اٹھتا ہے
اے جگر پیار کا گھنا بادل
کیا کبھی آسماں سے اٹھتا ہے
جگر ؔصحرائی
اے جگر پیار کا گھنا بادل​
کیا کبھی آسماں سے اٹھتا ہے​
واہ کیا کہنے ہیں صاحب واہ واہ بہت عمدہ ۔۔۔​
 

مغزل

محفلین
جنابِ جگر صحرائی کی صحرانوردی کے بعدمیں جس نوجوان شاعر کو دعوتِ سخن دینے لگا ہوں ان کا بنیادی تعلق پاکستان سے ہے اور آپ ادبی خانوادے سے ہیں ۔جناب کا اسمِ تعارف سید عاطفؔ علی ولد سید خورشید ؔعلی متخلص ضیاء ؔ تلمیذ عزیز ؔجے پوری تلمیذ آگاہ تلمیذ مرزا اسدؔ اللہ خان غالب ؔہے ۔سید عاطفؔ علی صاحب پیشہ و تعلیم کے لحاظ سے انجینیر اور ریاض ، سعودی عرب میں مقیم ہیں اور سعودی ٹیلی کوم کمپنی میں ملازم ہیں۔ تو جناب سماعت کیجے جناب سید عاطفؔ علی ۔۔۔۔

غزل
شعلہ جب جسم و جاں سے اٹھتا ہے
ضبط غم خوردگاں سے اٹھتاہے
شور یہ گلستاں سے اٹھتا ہے
یا یہ قلبِ تپاں سے اٹھتا ہے
ایک موہوم سا یقیں تھا جو
جیسے میرے گماں سے اٹھتا ہے
آہِ مظلوم کا اثر دیکھو
پردہ ہر کن فکاں سے اٹھتا ہے
بار ارض و سماء تھا سہل پہ "دل "
کب یہ اس ناتواں سے اٹھتا ہے
چھوڑ اے دل خیالِ خام ترا
ذکر اس داستاں سے اٹھتا ہے
توڑ ڈالو فصیل ِقصر کہ آج
فر ق سود و زیاں سے اٹھتا ہے
چشم زاہد بھی کر نہ پائی ضبط
تو جو بزمِ بُتاں سے اٹھتا ہے
پھر سے اُبھرا سفینۂ منصور
شورِ حق بادباں سے اٹھتا ہے
ہو چکے تھے چراغ سارے گل
’’ یہ د ھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘
سید عاطفؔ علی
شعلہ جب جسم و جاں سے اٹھتا ہے​
ضبط غم خوردگاں سے اٹھتاہے​
-------------​
پھر سے اُبھرا سفینۂ منصور​
شورِ حق بادباں سے اٹھتا ہے​
-------------​
کیا کہنے ہیں واہ واہ سبحان اللہ ۔۔۔ ماشا اللہ بہت اچھے جناب واہ واہ ۔۔۔​
کیا ہی رچی بسی غز ل کہتے ہیں آپ ماشا اللہ ۔۔۔ بہت خوب۔۔​
 

مغزل

محفلین
غزل سرا سے تھے سرِ بزم حضرتِ عاطفؔ
اب ان کے بعد سماعت کریں گے ہم احساسؔ

حاضرینِ مشاعرہ روایت رہی ہے کہ سامعین شعراء کے کلام پر خوب داد سے نوازتے ہیں یہاں آج ایک کمی محسوس ہورہی ہے کہ شکریہ کے کم از کم پانچ چھ مواقع ہونے چاہیے تھے۔۔ لیجے میں اگلے شاعر کو دعوتِ کلام دینے دینے لگا ہوں آپ کا بھی مفصل تعارف حاصل نہیں ہے ۔۔ یہ ضرور معلوم ہوسکا ہے کہ جناب کا تعلق اسلام آباد سے ۔۔ میری مراد ہے جناب احساسؔ واسطی سے کہ تشریف لائیں اور اپنا کلام پیش کریں جناب ۔۔ احساسؔ واسطی۔۔۔۔

غزل
شب چھلکتے ہی واں سے اُٹھتا ہے
جیسے دل بدگُماں سے اُٹھتا ہے
اُن کے ابرو اُٹھا تے ہیں ورنہ
دل بھلا کب وہاں سے اُٹھتا ہے
ہونٹ چھوڑیں تو زلف کھینچے ہے
کون اُس آستاں سے اُٹھتا ہے
میں نے مانا کہ میں نہیں تیرا
بیٹھ تو، کیوں یہاں سے اُٹھتا ہے؟
یہ پہاڑوں پہ آگ کیسی ہے؟
’’یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے‘‘
صندلی جھالروں کا مخملی بوجھ
حیف مُجھ ناتواں سے اُٹھتا ہے
چشمِ احساسؔ سے ٹپکتا ہے
غم جو تیرے مکاں سے اُٹھتا ہے
احساسؔ واسطی
ہونٹ چھوڑیں تو زلف کھینچے ہے​
کون اُس آستاں سے اُٹھتا ہے​
-----------​
واہ واہ واہ ۔۔کیا کہنے جناب بہت خوب ماشا اللہ ۔۔ زمینِ میرؔ میں پیرویء غالبؔ نظر آتی ہے ۔۔​
بہت عمدہ ۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کا مزید کلام بھی رونقِ محفل رہے گا۔۔​
 

مغزل

محفلین
جنابِ حضرتِ احساسؔ کی غزل سن کر
جنابِ حضرتِ اظہر نذیر ؔ آتے ہیں ۔۔

اردو محفل کے خوب خوب مشق میں مستغرق جوان ولولہ سے سرشار شاعر جناب محمد اظہر ؔنذیر کو دعوتِ سخن دیتے ہوئے مجھے خوشی ہے کہ محمد اظہر ؔنذیر نے مشاعرے میں دوغزلہ کی روایت کو زندہ کیا ہے ۔۔
محمد اظہر ؔنذیر خاصے منکسرالمزاج ہیں اور عرب دنیا ، قطر میں برسرِ روزگار ہیں ۔۔
تو جناب تشریف لاتے ہیں ۔۔ محمد اظہر ؔنذیر۔۔۔ سماعت کیجے۔۔


غزل
میں کہوں، دو جہاں سے اٹھتا ہے
درد کہ جسم و جاں سے اٹھتا ہے
دیکھ مت یوں دھواں دھواں چہرہ
یہ تو پوچھو، کہاں سے اٹھتا ہے
رُوئے گل پر ہے شبنمی آنسو
درد جو گلستاں سے اٹھتا ہے
دل میں برپا ہے شور ماتم کا
درد کیا یوں بیاں سے اٹھتا ہے
آتش عشق سرد ہے کب سے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
آہ بن جائے گا فنا ہوکر
جو دھواں سائباں سے اٹھتا ہے
بزم ہے چل چلاؤ کی جاری
جس کو دیکھو، یہاں سے اٹھتا ہے
بھر گئی ہے زمیں گناہوں سے
شور جو آسماں سے اٹھتا ہے
مختصر ذکر تھا ترا اظہرؔ
وہ بھی اب داستاں سے اٹھتا ہے
----------------------
میری آہ ُ فغاں سے اُٹھتا ہے
درد جو جسمُ جاں سے اُٹھتا ہے
درد جاتا رہے گا، شک کیا ہے
چن سکو گر جہاں سے اُٹھتا ہے
کون وقتوں سے گل پڑے گھائل
درد کیا گلستاں سے اُٹھتا ہے؟
درد الفاظ میں چھپانا سیکھ
یوں لگے نہ، بیاں سے اُٹھتا ہے
بیٹھتا اور ماں کے قدموں میں
باولے، سا ئباں سے اُٹھتا ہے
کون سا زہر مل گیا جگ میں
جی تو جیسے یہاں سے اُٹھتا ہے
ہو رہا کیا ہے اے زمیں والو؟
شور کیوں آسماں سے اُٹھتا ہے
کیا دبی رہ گئی تھی چنگاری؟
’’یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے‘‘
ایک کردار تھا ترا، اظہرؔ
ختم تو داستاں سے اُٹھتا ہے
محمد اظہر ؔنذیر
بزم ہے چل چلاؤ کی جاری​
جس کو دیکھو، یہاں سے اٹھتا ہے​
---------​
سبحان اللہ سبحان اللہ کیا عمدہ شعر ہے ماشا اللہ بہت خوب ۔۔​
اظہر بہت خوب۔۔۔واہ واہ واہ ۔۔۔۔۔۔واہ واہ واہ​
بزم ہے چل چلاؤ کی جاری ---جس کو دیکھو، یہاں سے اٹھتا ہے​
حاصلِ غزل شعر ہے ۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ واہ واہ واہ​
 

مغزل

محفلین
غزل سرا تھے سرِ بزم حضرتِ اظہرؔ
مجھے عجیب کڑے وقت میں بلایا گیا

مشاعرہ بتدریج اپنے عروج کی سمت گامزن ہے ۔ اب میں جس شاعر کو دعوتِ کلام دینے لگا ہوں ، آپ اسمِ گرامی راجہ محمد امینؔ ہے اور جناب محفل کے باوردی شاعر ہیں ۔ مشقِ سخن اور طلب ِعلم میں اپنی سی مثال رکھتے ہیں حال ہی میں ایک شعری انتخاب کی اشاعت ممکن ہوئی جس سے آپ کی ذہنی و فکری بلوغت اور ادب سے شغف کا پتہ ملتا ہے ۔ جناب کا تعلق سندھ کی زرخیز دھرتی میر پور خاص سے ہے ، پیشہ کے اعتبار سے آپ تحفظ انسانی حیاتیات کے شعبے منسلک ہیں ۔ شعر گوئی کے شعبہ میں خاصے عرصےسے منہمک ہیں ۔ تو حاضرین میں دعوتِ سخن دیتا ہوں کہ آپ تشریف لائیں اور اپنا کلام نذرِ سامعین کیجے ۔۔ تشریف لاتے ہیں جناب راجہؔ محمد امین ۔۔۔
غزل
درد زخمِ نہاں سے اٹھتا ہے
سینے کے درمیاں سے اٹھتا ہے
ایک بجلی سی کوند جاتی ہے
ایک شعلہ سا جاں سے اٹھتا ہے
جو ترے در پہ جھک گیا اک بار
سر وہ پھر کب وہاں سے اٹھتا ہے
دل تڑپتا ہے ، خون جلتا ہے
شعر تب اک زباں سے اٹھتا ہے
چھوڑ جاتا ہے حسرتیں ، ناکام
آدمی جب جہاں سے اٹھتا ہے
لاشے بکھرے ہیں شہر میں ہر سُو
نالہ ہر اک مکاں سے اٹھتا ہے
کھول اب آنکھ، دیکھ اے حاکم
"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے"
تُو نے سوچا بھی ہے کبھی راجاؔ !
کیوں غضب آسماں سے اٹھتا ہے ؟
راجہ محمد امین ؔ
(ایم اے راجا)​
درد زخمِ نہاں سے اٹھتا ہے
سینے کے درمیاں سے اٹھتا ہے
---------------
چھوڑ جاتا ہے حسرتیں ، ناکام
آدمی جب جہاں سے اٹھتا ہے
------------
واہ واہ ماشا اللہ بہت خوب۔۔ ذات کی وابستگی اور حقیقی زندگی کا دکھ ۔۔
ماشا اللہ ، اللہ مزید برکتیں عطا فرمائے آمین ۔۔۔
 

مغزل

محفلین
راجہ محمد امین ؔ کی غزل کے بعد میں دعوتِ کلام دیتا ہوں ایک ایسے نوجوان شاعر کو جس نے بہت کم وقت میں شعرگوئی میں خاصی بہتری حاصل کی ہے ۔ خاصے عرصے سے شعرکی روٹھی ہوئی دیوی کو منانے میں مصروف رہے اور طرحی مشاعرے میں شرکت نے ناراض دیوی کو خاصی حد تک راضی کرلیا ہے ۔۔ نثر کے میدان میں بھی خاصے فعال رہے ہیں اور دیارِ غیر کے سفری نثریہ اظہار کو شاملِ محفل کرچکے ہیں ۔ بنیادی طور پر پانچ دریاؤں کی زمین سے تعلق ہے اور تاحال عرب امارات ابو ظہبی میں برسرِ روزگار ہیں ۔ تو جناب سماعت کیجے گا ۔۔ تشریف لاتے ہیں نوجوان شاعر جناب خرم شہزاد خرم ؔ۔۔۔۔۔

غزل
کیا بتاؤں کہاں سے اٹھتا ہے
یہ دُھواں دل و جاں سے اٹھتا ہے

اس پہ نظرِ کرم نہیں ہوتی
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے

مے کدے سے اٹھا دیے ایسے
"جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے"

مال سے اور جاں سے جاتا ہے
جو بھی اپنے نشاں سے اٹھتا ہے

تیری محفل کی داستاں ہو پھر
کون درمیاں سے اٹھتا ہے

تیری دہلیز پر قدم رکھ کر
لفظ مشکل زباں سے اٹھتاہے

لوگ سب کہہ رہے ہیں تھا انصاف
اب مگر اس جہاں سے اٹھتا ہے

ہر کسی کو یہی تجسس ہے
" یہ دھواں سا کہاں سےاٹھتا ہے"

"امن کی فاحتہ ہے اڑ نے کو"
تیرکوئی کماں سے اٹھتا ہے

عقل والے بھی اب نہیں ملتے
عشق بھی داستاں سے اٹھتا ہے

کون جانے کہ کیا ہوا خرمؔ
کون آتش فشاں سے اٹھتا ہے
خرم شہزاد خرم ؔ
عقل والے بھی اب نہیں ملتے
عشق بھی داستاں سے اٹھتا ہے
-------------
کیا کہنے واہ ماشا اللہ ہوش و خرد کے اسیروں کی دنیا کے دکھ کیا سہولت سے رقم کیے ہیں۔۔
ماشا اللہ ، وااہ وااہ وا ہ۔۔ بہت عمدہ خرم سلامت رہو۔۔
 

مغزل

محفلین
مسندِ شعر پر نیا شاعر !!!
ہے جو راحیلؔ اور فاروقی

جناب راحیل ؔ فاروق عنفوانِ شباب کی دہلیز پر ہی شعر گوئی ترک کرنے کے (سابقہ) اعلان کے ساتھ مشاعرہ میں شریک ہوئے ۔ چونکہ محفل میں آپ ایک ہی مراسلہ ہے تو ہمیں تفصیلی تعارف حاصل نہیں یہ ضرور معلوم ہوسکا ہے کہ راحیل فاروقؔ کا تعلق بھی پنج دریائی دھرتی سے ہے ۔آپ کی غزل کی خاصے مستحکم زبان و بیان کی حامل ہے جس سے آپ کی فکری بلوغت اور شعرگوئی پر عبور کا اشاریہ ملتا ہے ۔۔
تو سامعینِ کرام تشریف لاتے ہیں جناب راحیل فارقؔ ۔۔۔ سماعت کیجے ۔

غزل
نے گدا آستاں سے اٹھتا ہے
نہ ستم نیم جاں سے اٹھتا ہے
نالہ اٹھتا ہے، اٹھ نہیں سکتا
جب دلِ ناتواں سے اٹھتا ہے
ہے قفس مدفنِ ہزار الم
کب یہ بوجھ آشیاں سے اٹھتا ہے
کارواں دل کا اور ہے ظالم
یہ غبار آسماں سے اٹھتا ہے
ہو چکا راکھ دل تو مدت سے
’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘
آخرِ کار اٹھ گیا راحیلؔ
غیر کب درمیاں سے اٹھتا ہے؟
راحیل ؔ فاروق
ہے قفس مدفنِ ہزار الم
کب یہ بوجھ آشیاں سے اٹھتا ہے
-----------
آخرِ کار اٹھ گیا راحیلؔ
غیر کب درمیاں سے اٹھتا ہے؟

سبحان اللہ سبحان اللہ کمال کلاسیکی روایت کے ساتھ شعر کہے ہیں ماشا اللہ
زبان و بیان کا استعمال نتھرا ہوا اور سلیس ۔۔ واہ واہ واہ بہت عمدہ جناب بہت عمدہ
 

مغزل

محفلین
جناب راحیلؔ فاروق کے بعد میں جس نوجوان شاعر کوزحمتِ کلام دینے جارہا ہوں ان کی مندرج حیثیت متلاشی کی ہے جب کہ اسمِ گرامی محمد ذیشان ؔنصر ہے ، آپ پاکستان کے معروف خطاط جناب نصراللہ مہر صاحب کے فرزندِ ارجمند ہیں اور زندہ دلاں کے شہر لاہور سے شامل ِ مشاعرہ ہیں ۔طبیعت میں انکسار کوٹ کوٹ کربھراہوا ہے جو تابناک مستقبل کا گواہ ہے ۔دعا ہے کہ باری تعالی مزید برکتیں عطا فرمائے ، تو جناب تشریف لاتے ہیں محمد ذیشان ؔنصر ، سامعینِ کرام سماعت کیجے گا۔


غزل

درد سا اک ،جو یاں سے اٹھتا ہے
کون جانے ؟کہاں سے اٹھتا ہے ؟

منکشف ہوتی ہے حقیقت پھر
پردا جب ،درمیاں سے اٹھتا ہے

چوٹ پڑتی ہے جب، نئی دل پر
’’زلزلہ، جسم وجاں سے اٹھتا ہے ‘‘

کسی بلبل کا دل جلا ہے کہیں
’’دھواں، کیوں آسماں سے اٹھتا ہے؟‘‘

تھم گئی کائنات ،پھر کیوں آج؟
شور کیوں ،لا مکاں سے اٹھتا ہے ؟

بے خبر! کچھ خبر ہے تجھ کو کہ آج
عشق آخر ،جہاں سے اٹھتا ہے

پوچھ مت مجھ سے حالِ دل، کہ کہیں
’’شعلہ، آتش فشاں سے اٹھتا ہے ‘‘

وجد میں آتے ہیں ملائک ،جب
ساز میری ، فغاں سے اٹھتا ہے

کھول مت رازِ عاشقی ہمدم
بوجھ کب ،رازداں سے اٹھتا ہے

طفلِ مکتب ہوں،کیا مری اوقات
شعر خود ہی زباں سے اٹھتا ہے

چیردیتا ہے پھر دلِ معصوم
تیر جب بھی کماں سے اٹھتا ہے

توڑ جائیں نہ دل کہیں ، ذیشاںؔ
اعتبار ان بُتاں سے اٹھتا ہے

محمد ذیشان ؔنصر
(متلاشی)
کھول مت رازِ عاشقی ہمدم
بوجھ کب ،رازداں سے اٹھتا ہے
------------
کیا کہنے ہیں واہ واہ واہ ۔۔ بہت خوب بہت خوب
کھول مت رازِ عاشقی ہمدم،بوجھ کب ،رازداں سے اٹھتا ہے
کیا کہنے ہیں واہ واہ سبحان اللہ سبحان اللہ کیا اچھا شعر کہا ہے ۔۔۔
 

مغزل

محفلین
حاضرینِ مشاعرہ محمد ذیشان نصرؔ کی غزل سماعت کی ، اب ذراِ رنگِ محفل بدل کے دیکھتے ہیں ابتدا سے یہی تاثر رہا کہ مشاعرہ خالصتاً مردانہ ہے ۔۔۔ ہمیں خوشی ہے کہ محفل کے مشاعرے کے سلسلہ میں صنفِ نازک بھی شامل ہیں ۔ تو جناب صنفِ آہن کے کلام کے بعد میں التماس گزار ہوں صنفِ نساد کی شاعرہ محترمہ سیدہ سارا غزل ؔ سے کہ تشریف لائیں اور اپنا طرحی کلام شاملِ مشاعرہ کیجے ۔۔ محترمہ سیدہ سارا غزل ؔ صاحبہ کا بنیادی تعلق کراچی سے ہے مگر بوجوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں قیام رہا ہے۔۔امید ہے کہ اس ہجرتی مزاج کی شاعرہ کے کلام سے غزل کا ایک نیا تاثر ملے گا۔ سو جناب تشریف لاتی ہیں ہماری لاڈلی بہنا اور بہت پیاری شاعرہ سیدہ سارا غزل ؔ۔۔۔ سماعت کیجے ۔۔۔

غزل
میرؔ سا کب جہاں سے اٹھتا ہے
زندہ سخن ِ رواں سے اٹھتا ہے
’’کی محمد ﷺ سے گر وفا ہم نے‘‘
شور کوئے سگاں سے اٹھتا ہے
خاتم المرسلیں ﷺ نبی ہیں مرے
غل یہ کون و مکاں سے اٹھتا ہے
کیا کروں ذکر شاہِ کربل کا
حشر آہ و فغاں سے اٹھتا ہے
پیر میرے ہیں شاہ مہر علی
نور اس آستاں سے اٹھتا ہے
دشت ویراں ہے قریۂ دل کا
شور ِ ماتم کہاں سے اٹھتا ہے
شب میں بن کر چراغ جلتی ہوں
چاند کیوں آسماں سے اٹھتا ہے
دیکھتا ہے جو بے حجاب مجھے
بن کے دیوانہ یاں سے اٹھتا ہے
خوں اگلتی ہوں غم چھپانے کو
شعلہ آتش فشاں سے اٹھتا ہے
سایۂ گل میں بھی لرزتی ہوں
خار جب درمیاں سے اٹھتا ہے
دل میں بجلی چمک چمک اٹھے
مان جب مہرباں سے اٹھتا ہے
لہر اٹھے کچھ اس طرح دل سے
نور جوں کہکشاں سے اٹھتا ہے
شہر صحراؤں میں بساتے ہوئے
درد سا قلب و جاں سے اٹھتا ہے
آتش ِ عشق پوچھتی ہے مجھے
”یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے”
فکر ِ درویش رہنما ہے غزلؔ
حشر میرے بیاں سے اٹھتا ہے
سیدہ سارا غزلؔ

شہر صحراؤں میں بساتے ہوئے
درد سا قلب و جاں سے اٹھتا ہے
-----------
کیا کہنے سبحان اللہ سبحان اللہ بہت عمدہ ۔۔
غزل کے دامن میں نعت و سلام و مناقت کے مضامین نے غزل کی حیثیت جداگانہ کردی ۔۔
بہت عمدہ ماشا اللہ ، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔۔
 

مغزل

محفلین
عزیزہ سیّدہ سارا غزل ؔ کے بعدیہاں
جنابِ حضرتِ دانش نذیر ؔ آتے ہیں

حاضرینِ مشاعرہ جڑواں شہروں کے اسیر ہیں اور خود کو متاثرینِ اسلام آباد گردانتے ہوئے ’’بندہ ناچیز‘‘ کی مسند پر براجمان ہوتے ہیں ،
جناب کا تعلق بھی پنج دریائی دھرتی پنجاب سے ہے اور راولپنڈی شہر میں مقیم ہیں ، جناب دانش نذیر دانی ؔ کا اسمِ گرامی راجا دانش نذیر ہے ،
دانی پیارسے پکارا جاتا ہے سو جناب دانش نذیر دانی ؔ متخلص ہیں ۔۔ تو صاحبان تشریف لاتے ہیں جناب دانش نذیر دانی ؔ۔۔۔ سماعت کیجے گا۔۔

غزل
دیکھ ریگ ِ رواں سے اُٹھتا ہے؟
’’یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے‘‘​
احتجاجاً َ حضور ِ مہ و گُل
یہ خرد آستاں سے اُٹھتا ہے
کرمَک و شمع کو میں جب دیکھوں
تو یقیں مہوشاں سے اُٹھتا ہے
قوت ِ بازو کچھ نہیں صاحب
بار تو بس زیاں سے اُٹھتا ہے
صبح ہو گی تو دیکھ لیں گے ہم
کہ دھواں کس مکاں سے اُٹھتا ہے
دانش نذیر دانی ؔ
کرمَک و شمع کو میں جب دیکھوں
تو یقیں مہوشاں سے اُٹھتا ہے
-------------
کیا کہنے ہیں جناب ماشا اللہ ۔۔ اللہ برکتیں عطا فرمائے عمدہ کاوش ہے ۔۔
 

مغزل

محفلین
جناب ِ دانش نذیر دانی کے بعد میں زحمت ِ کلام دینے لگا ہوں جناب محمد حفیظ ؔالرحمٰن صاحب کو ، جناب ہمارے محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب کے برادرِ عزیز ہیں کراچی سے تعلق رکھتے ہیں​
اور خلیل صاحب کی مہمیز پر ہی محفل مشاعرے میں شریک ہوئے ، جناب کے بارے میں بھی زیادہ معلومات حاصل نہ ہوسکی ہیں سماعت کیجے ۔۔۔ جناب محمد حفیظ ؔالرحمٰن​
غزل
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
رنگ و بو کے جہاں سے اٹھتاہے
منزلیں اس غبار میں گم ہیں
جو ترے کارواں سے اٹھتا ہے
غور سے سن اسے کہ یہ نالہ
میرے قلبِ تپاں سے اٹھتا ہے
یہ کسی اور آگ کا ہے دھواں
یا مرے آشیاں سے اٹھتا ہے
ہے منافق وہی کہ جس کا خمیر
فکرِ سود و زیاں سے اٹھتا ہے
پھر کہاں اس کے دل کو چین و قرار
جوترے درمیاں سے اٹھتاہے
کچھ تعلق نہیں مکاں سےا سے
شور یہ لامکاں سے اٹھتا ہے
گردِ مہتاب ہے فلک کا غبار
یا کسی کہکشاں سے اٹھتا ہے
زندگی ہے کہ بلبلہ کوئی
سطحِ آبِ رواں سے اُٹھتا ہے
ظلم اور جبر کا ہراک فتنہ
قصرِ صاحبقراں سے اُٹھتا ہے
کتنا محبوب ہے ہمیں وہ دھواں
جو صفِ دشمناں سے اٹھتا ہے
آہی جائیں گے حسبِ وعدہ وہ
اعتبار اس گماں سے اٹھتا ہے
لوحِ محفوظ میں ہے سب مرقوم
کون، کس دن، کہاں سے اٹھتا ہے
منتظر ہوں حفیظ کب پردہ
رازِ کون و مکاں سے اٹھتا ہے
محمد حفیظ ؔالرحمٰن

جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
رنگ و بو کے جہاں سے اٹھتاہے
--------------
آہی جائیں گے حسبِ وعدہ وہ
اعتبار اس گماں سے اٹھتا ہے
--------------------
کیا کہنے جناب واہ ۔۔ واہ واہ واہ بہت عمدہ جناب
بہت خوب جناب محمد حفیظ ؔالرحمٰن ، کیا عمدہ غزل کہی ہے سبحان اللہ ۔۔
صمیمِ قلب سے داد قبول کیجے ۔۔
امید ہے کہ آپ کا مزید کلام بھی باصرہ نوازی کا شرف بخشے گا۔۔۔
 

مغزل

محفلین
ادارتی عمل جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل
اس دلِ ناتواں سے اٹھتا ہے
کچھ دھواں سا یہاں سے اٹھتا ہے
--ق--
دیکھنا ھاؤ ھو، یہ شور و غل
کیا ہمارے مکاں سے اٹھتا ہے
دل سے اٹھتا ہے جاں سے اٹھتا ہے
’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘
میں جو بولا کہا کہ یہ گستاخ
کیا ابھی اس جہاں سے اٹھتا ہے
اٹھ کر آئے ہیں یوں ترے در سے
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
ان کے جلووں کو دیکھ کر شاعر
کون کافر یہاں سے اٹھتا ہے
نغمہ خواں کیسے ہو خلیل کہ اب
شعر کا فن جہاں سے اٹھتا ہے
محمد خلیل ؔ الرحمٰن
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top