تمام محفلین کی خدمت میں السلام علیکم
گزشتہ دنوں استادِ محترم الف عین صاحب کی زیرِصدارت اردومحفل کا سالانہ عالمی اردو مشاعرہ منعقد ہوا۔ منتظمین کی دن رات کی محنت اور جانفشانی کی بدولت تمام محفلین کو اس مشاعرے سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، مشاعرہ کے منتظمین @محمد خلیل الرحمٰن، مقدس آپی، محمد بلال اعظم محمد تابش صدیقی اور حسن محمود جماعتی بھرپور داد و تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ابن سعید کی تکنیکی معاونت کی بدولت مشاعرہ کا نظم و نسق مسلسل قائم و دائم رہا ان کے لئے خصوصی شکریہ اور دعائیں۔

شعراءکرام نے اپنے خوبصورت تخلیقات سے اس مشاعرے کو جو حسن و رعنائیت بخشی یقیناَ قابلِ ستائش ہے۔ تمام شعراء کو ایک بار پھر بہت ساری داد۔

مجھے تمام شعراءکرام کی تخلیقات نے اتنا متاثر کیا کہ صرف داد پیش کرنے سے تسلی نہ ہوئی، سوچا کسی اور انداز میں تمام شعراءکرام کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے۔ کسی کلام کی پیروڈی ہونا اس کلام کی عمدگی کی دلیل ہوتا ہے، اس لئے میں نے شعراءکرام کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اسی طریقہ کا انتخاب کیا۔ استادِ محترم اعجاز عبید صاحب (الف عین) نے ہمیشہ کی طرح میرے سر پر دستِ شفقت رکھا اورمیرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی اصلاح فرما کر اس کوشش کو انجام تک پہنچایا جس کے لئے میں ان کا شکرگزار ہوں۔
تو پیش ہے آپ کی خدمت میں اردو محفل "سالانہ عالمی مشاعرہ 2016" کی پیروڈیز
 
آخری تدوین:
محترم الف عین صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کر کے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


محکمہ ختم پُلس کا جو کبھی ہو جائے
عین ممکن ہے جرائم میں کمی ہو جائے

تیل وہ آپ کو دوں گا کہ طبق روشن ہوں
ٹنڈ پر زلف اُگے، اور گھنی ہو جائے

مجھ پہ لٹو تری جاناں ہے بتاتا کیسے
ڈر رہا تھا نہ تری دل شکنی ہو جائے

وصل کی رات بُلا کر نہ وہ آیا اب تک
اصطبل میں نہ کہیں شب بسری ہو جائے

ہاتھ میں میرے قلم، دست میں اس کے چمچہ
آج بیگم سے نہ شمشیرزنی ہو جائے

پوری شادی میں یہی خوف رہا دل میں مرے
پہلی بیوی نہ کہیں آکے کھڑی ہو جائے

گھر بسا، کل یہ جوانی نہ رہے، کس کو پتا
کب خزاں دیدہ تری گلبدنی ہو جائے

گھر کے سب کام کرائیں، مجھے طعنے تو نہ دیں
ہم سے بیگم نہ کہیں بےادبی ہو جائے

آپ نے خود ہی لٹیروں کو بنایا رہبر
دیکھتے جائیئے کب راہ زنی ہو جائے​
 
محترمہ ایمان قیصرانی صاحبہ کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

زبان بند ہو بیگم کی وہ دوائی دے
علاج ورنہ مرا کر کہ کم سنائی دے

دیا تھا ووٹ جسے گر مجھے دکھائی دے
تو سارے شہر میں تھپڑ مرا سنائی دے

یہی تو حسن کی فطرت ہے عصر حاضر میں
تجھے فقیر کرے کاسہءِ گدائی دے

پُلس میں، کورٹ میں، ہیں عورتیں وکالت میں
بتائیئے مجھے، شوہر کہاں دہائی دے

محلے بھر کی خواتین اسی کے گن گائیں
جو لاکے ہاتھ میں بیگم کے سب کمائی دے

کلاس میں مرے بچے نے فلسفہ جھاڑا
رضاعی ماں تو وہی ماں ہے جو رضائی دے

پُلس کو چور نے حصہ دیا تو کہنے لگے
تمہارے ہاتھ میں مالک بہت صفائی دے​
 
محترم حسن محمود جماعتی صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

بیویاں ہیں جو چار پہلو میں
درد و غم ہیں ہزار پہلو میں

وہ نہ امید سے اگر ہوتی
کیوں چھپاتی اچار پہلو میں

پیار کتنا تجھے کروں بیگم
تین کاندھے پہ چار پہلو میں

لطف بارش کا تب ہی آتا ہے
جب بھڑکتی ہو نار پہلو میں

جب سے دولت ملی ہے دوبارہ
لوٹ آئے ہیں یار پہلو میں

ناقص العقل تخت شاہی پر
اور جاہل گنوار پہلو میں

کتنی ناکام چاہتیں میری
جانے کتنے مزار پہلو میں

ساتھ اس کے کزن بھی آیا ہے
پھول کے سنگ خار پہلو میں​
 
محترم سیدسجاداطهرموسوی صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

ٹھونستا خوب ہے مہمان خدا خیر کرے
کم نہ پڑ جائیں کہیں نان خدا خیر کرے

روٹھ کے جا تو رہی ہے مری بیگم میکے
لے نہ جائے کہیں سامان، خدا خیر کرے

سب لٹیروں کو حکومت نے وزارت دے دی
چور سے مل گئے دربان خدا خیر کرے

جینز میں گھس کے وہ ٹانگوں کو پھنسا بیٹھی ہے
جینز پھٹنے کا ہے امکان خدا خیر کرے

چھوڑ کے آنا تھا محبوبہ کو اس کے گھر تک
چھوڑ آیا ہے گریبان خدا خیر کرے

اس برس بھی نہیں سیلاب سے بچنے کا پلان
ایک ہفتے سے ہے باران خدا خیر کرے

ملک میں حال زراعت کا بھی بے حال ہوا
مر گئے بھوک سے دہقان خدا خیر کرے

قوم کی توڑ دی مہنگائی نے پہلے ہی کمر
آ گیا اس پہ یہ رمضان خدا خیر کرے​
 
محترم ظہیراحمدظہیر صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


دیکھی پراگرس تو مجھے حوصلہ ملا
دسویں مجھے ملی تب اسے دوسرا ملا

ٹانگیں ہی کھینچتے ہیں یقیناً یہاں کے لوگ
جو شخص بھی ملا ہے زمیں پر گرا ملا

شادی ہوئی تو اس کی کسی تیسرے کے ساتھ
میرے رقیب سوچ ذرا، ہم کو کیا ملا

ہم کیسے سیکھ پاتے بھلا کھا کے ٹھوکریں
جو بھی ملا فراڈیہ سب سے جدا ملا

میرے حسیں صنم کا سیاسی مزاج ہے
جب بھی ملا وہ ہم سے تو کچھ غیر سا ملا

اس بار بھی یقینی وزارت ہے اس کے پاس
لیڈر مرا ضرور حکومت سے جا ملا

انصاف، روزگار کہ بجلی انہوں نے دی
دوبارہ ووٹ دینے کا کچھ بھی صلہ ملا؟

میرے وطن کا حال بھی مجھ سے جدا نہیں
جو بھی ملا ہے آج تلک، بےوفا ملا
 
محترم Abbas Swabian صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


اور کوئی بھی غم نہیں ہوتا
وزن کیوں میرا کم نہیں ہوتا

لوگ آٹوگراف مانگتے ہیں
جیب میں جب قلم نہیں ہوتا

بد دعا کس کی ہے سیاست کو
کوئی بھی محترم نہیں ہوتا

پوچھ لو تم کسی بھی انساں سے
زہر انساں میں کم نہیں ہوتا

شرم آتی نہیں سبھی کو یہاں
سب کی گردن میں خم نہیں ہوتا

کون الجھے گا اپنی بیگم سے
ہر کسی میں تو دم نہیں ہوتا

تم کو سگرٹ ملے گی یا نسوار
جیبِ مسلم میں بم نہیں ہوتا​
 
محترم فاتح صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


شرم سے پانی پانی ہیں ہم کس کو بلائیں تھانے میں
ٹُن حالت میں پُلس نے ہم کو پکڑا ہے مے خانے میں

ٹِک کر بیٹھ نہیں پاتا ہے آخر جان سے جاتا ہے
چیر کے دیکھو آخر کون سا کیڑا ہے پروانے میں

فلمی گانوں کے شاعر اب ڈانس کے ماہر بن جائیں
بول کہاں ہوتے ہیں اب تو ڈانس ہی ڈانس ہے گانے میں

کپڑے جوتے سیر سپاٹے، ایزی لوڈ بھی بھول گئی
جانے کیا تاثیر ہے ایسی لوگوں کے بہکانے میں

پہلے محبوبہ پھر لیڈر آخر میں پھر پیر فقیر
ہم نے ساری عمر ہی دے دی لوگوں کو نذرانے میں

رہبر ہم ہر بار بنا لیتے ہیں خود قزاقوں کو
برسوں پھر نقصان اٹھایا کرتے ہیں ہرجانے میں

شاور لے کر پیچھے پڑ جاتے ہو سیاستدانوں کے
امجد جیل میں جاؤ گے تم یا پھر پاگل خانے میں​
 
محترم فیصل عظیم فیصل صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


اندر چلے بھی آؤ
ہم تو بخار میں ہیں

کرسی قریب لاؤ
ہم تو بخار میں ہیں

پہلے شمع جلاؤ
ہم تو بخار میں ہیں

تم ہی غزل سناؤ
ہم تو بخار میں ہیں

گانا بھی تم ہی گاؤ
ہم تو بخار میں ہیں

چائے بھی خود بناؤ
ہم تو بخار میں ہیں

کھانا بنا کے جاؤ
ہم تو بخار میں ہیں​
 
محترم کاشف اسرار احمد صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


کسی بھی مرد کا بیگم سے کب ہے مال بچا
سمجھ لے بات ذرا، مال دے کے بال بچا

کچن تمام ہی بیگم نے مجھ پہ پھینک دیا
مگر کمال مرا دیکھ، کیا کمال بچا

فضول میں ہی تو شادی کو لے کے بیٹھ گیا
ابھی بھی وقت ہے اپنے تو ماہ و سال بچا

فلاحی مرکز و ملّا اسی کی تاک میں ہیں
یہ گوشت سے بھی بہت قیمتی ہے، کھال بچا

خدا کا شکر سلیکشن نہیں پُلس میں ہوئی
خدا کا شکر میں رشوت سے بال بال بچا

امیر شہر چکن کھا کے ہم پہ جھپٹے گا
میں اپنی چٹنی بچاؤں تو اپنی دال بچا​
 
محترمہ La Alma صاحبہ کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


هےملتانی اگرمٹی
دکھائےگی اثرمٹی

ہمارے ملک کا عالم
ادھر مٹی ادھر مٹی

الرجی ہو گئی ہم کو
یہاں شام و سحر مٹی

ذرا بھی شرم ہوتی تو
نہ ہو جاتے بشر مٹی؟

ہوئے کیوں پیٹ میں کیڑے
نہیں کھائی اگر مٹی

گدھا کیا لے لیا میں نے
مرا اب ہر سفر مٹی

نہ پہنچے صنف نازک تک
تو شاعر کا ہنر مٹی​
 
محترم مانی عباسی صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


کزن کو چھوڑ دے گی وہ یہی امکان ہوتا تھا
یہی امکان جینے کا مرے سامان ہوتا تھا

وہ شادی کر کے میڈم سے، بنا پھرتا ہے اب صاحب
وہ لڑکا ان کے دفتر کا کبھی دربان ہوتا تھا

سپارہ پڑھنے جاتے تھے سبھی خالہ کے گھر بچے
وہیں سلطانہ پڑھتی تھی وہیں سلطان ہوتا تھا

جو ٹھرکی تھے دکانیں چوڑیوں کی کھول لیتے تھے
اگرچہ ایسے بزنس میں بہت نقصان ہوتا تھا

نہ کرکٹ بورڈ میں پہلے یہ مامے تھے نہ چاچے تھے
جو اچھی گیم کرتا تھا وہی کپتان ہوتا تھا

لٹیرے، چور، ڈاکو اب منسٹر بن گئے سارے
ٹھکانہ ایسے لوگوں کا کبھی ذندان ہوتا تھا

اسے بھی پڑ گیا چسکا اب اوپر کی کمائی کا
کرپشن ختم کرنے کا جسے ارمان ہوتا تھا

جہنم میں ہوا داخل تو مردہ چیخ کر بولا
کچھ ایسا ہی تھا دنیا میں جو پاکستان ہوتا تھا​
 
محترم محمداحمد صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


مس ورلڈ تم کو روز بناتا ہے آئینہ
اللہ کتنا جھوٹ دکھاتا ہے آئینہ

سج دھج کے آئینے سے سبھی لے رہے ہیں داد
گھر میں سبھی کو فول بناتا ہے آئینہ

میک اپ کے تیر کرتے ہیں ہر روز قتلِ عام
ہر روز لڑکیوں کو سجاتا ہے آئینہ

جب دیکھتا ہے ٹوٹی ہوئی ناک وہ رقیب
پھر اس کو میرا چہرہ دکھاتا ہے آئینہ

اس پر تو پارلر سے بھی زیادہ یقین ہے
میک اپ میں نقص ہو تو دکھاتا ہے آئینہ

دلکش ادا و نازخرامی، نگاہِ مست
انداز لڑکیوں کوسکھاتا ہے آئینہ

دادی کے دور کا ہے خدارا بدل بھی دو
دادی سا عکس میرا دکھاتا ہے آئینہ

ہوتی ہے شکل دیکھنے لائق غرور کی
اوقات جب کسی کو دکھاتا ہے آئینہ​
 
محترم محمد بلال اعظم صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

کب حکومت سے ہیں بیگم ترے ہتھیار جدا
ایک سی کاٹ ہے لیکن ہے ہر اک وار جدا

یوں تو سسرال مرا کم نہیں تھیٹر سے مگر
ایک سالی مری ان سب سے ہے فنکار جدا

کیوں غریبوں کو امیروں کے مساوی کردیں
کیوں نہ ہوں ملک میں تعلیم کےمعیار جدا

نور تو خیر سے پہلے بھی نہیں تھا رخ پر
راز پانامہ کے کھلنے سے ہے پھٹکار جدا

لوگ کہتے ہیں تو کہتے رہیں لوٹا ہم کو
آج تک ہم سے ہوئی ہے کوئی سرکار جدا

صرف لندن میں ہی ممکن ہے علاج ان سب کا
حکمراں ہوتے ہیں سب قوم سے بیمار جدا

قوم کے مال کو جو مالِ غنیمت سمجھے
ساری دنیا سے ہے امجد مری سرکار جدا​
 
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ میں زاتی طور پر اور تمام محفلین کی جانب سے محمد خلیل الرحمٰن بھیا کا اس لئے بھی مشکور ہوں کہ اردو محفل سالانہ عالمی مشاعرہ کی تجویز سب سے پہلے آپ نے ہی دی اور پھر منتظمین کو اس مقصد میں شامل کر کے اس مشاعرہ کو یقینی بنانے میں دن رات ایک کر دیئے۔


رہ گئی تھی جو کمی شیطان میں
پائی جاتی ہے سیاستدان میں

اختلاف رائےبیگم کے حضور؟
"یوں بھی آتے ہیں کبھی میدان میں"

بوریاں مہنگائی کی لادے ہوئے
آگیا رمضان پاکستان میں

مولوی کی ڈگڈگی سنتے نہیں
یہ کمی اک رہ گئی ایمان میں

دشمن انسان ہیں دونوں یہاں
فرق کیا شیطان میں سلطان میں

اڑ گئے حوروں کی جانب طالبان
پھٹ کے کب جاتے ہیں قبرستان میں​
 
محترم محمد فائق صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


یہ کس نے کہا شعر سنانے کو چلے تھے
بیگم تجھے میکے سے منانے کو چلے تھے

شرمندہ مجھے کر گئی، بلی تو گئی بھاگ
ہم رات جو بیوی کو ڈرانے کو چلے تھے

پھر شام تلک ہوش میں وہ آ نہیں پائے
بیگم کو سویرے جو جگانے کو چلے تھے

محبوب کی شادی میں لگانی تھیں قناتیں
اس بار بھی یہ فرض نبھانے کو چلے تھے

ہم کھا کے تری ڈانٹ کہاں جاتے ہیں باہر
بیگم بخدا ہم تو نہانے کو چلے تھے​
 
محترمہ مریم افتخار صاحبہ کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


منٹوں کا فاصلہ تھا، لمحوں میں طے ہوا ہے
پھسلا تھا میں وہاں پر، لیکن پڑا یہاں تھا

کھانا ہڑپ گیا میں تنہا ہی تیرے گھر کا
ادلے کا بدلہ صاحب، کل میں بھی میزباں تھا

کوٹھی کا ذکر کیوں ہے ہر بات میں سسر جی
دیکھا گیا جہاں میں، وہ باس کا مکاں تھا

میرا وکیل جیتا اس گھر کا کیس لیکن
اب اس کا گھر بنا وہ جو میرا آشیاں تھا

میں کیوں بچاؤں اس کو پِٹنے دو لڑکیوں سے
میں پِٹ رہا تھا کل جب، وہ شخص تب کہاں تھا

بیگم سے تنگ آ کر پہنچا وکیل کے گھر
دیکھا تو وہ بھی آگے بیگم کے بےزباں تھا
 
محترم مزمل شیخ بسمل صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں نے جیل کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیری کوٹھری میں ایک لوٹا ہی تو ساتھی ہے
دعا کرنا مرا رب سے کہ جیلر کو سلا دینا
خدایا آج کی چھترول سے مجھ کو بچا لینا

تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ مجھ کو شوق تھا بچپن سے ہی دولت کمانے کا
کبھی کچھ چھین لینے کا کبھی سب کچھ چرانے کا
مرے ابا کے آگے جب مری تعریف ہوتی تھی
تو جوتا ان کا ہوتا تھا مری تشریف ہوتی تھی

تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں دل پھینک عاشق تھا حسیناؤں پہ مرتا تھا
نظر جو بھی کہیں آتی وہیں اظہار کرتا تھا
نجانے کیوں مجھے دن میں ہی وہ تارے دکھا دیتیں
پھر اس پر اک ستم یہ بھی کہ ابا کو بتا دیتیں

تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ کالج کے زمانے میں سیاستدان ہوتا تھا
پروفیسر بھی ڈرتے تھے میں اک طوفان ہوتا تھا
کبھی دنگے میں کرواتا کبھی ہڑتال ہوتی تھی
پھراس کے بعد تھانے میں مری پڑتال ہوتی تھی

تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ قسمت میں نہیں تھی پھر کہاں سے نوکری ملتی
نہیں تھی نوکری میری کہاں سے چھوکری ملتی
مری بارات کچھ ہی دیر میں تھانے میں لیٹی تھی
جسے گھر سے بھگایا تھا پُلس والے کی بیٹی تھی

تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ پسٹل بھی ملا، گاڑی ملی، دولت ملی مجھ کو
سیاسی کارکن بنتے ہی طاقت بھی ملی مجھ کو
پُلس نے دھر لیا مجھ کو بھلا یہ کیا کرپشن ہے
پچاسی ووٹ ڈالے ہیں تو کیا، آخر الیکشن ہے

تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
مقدرکا ہے یا پھر سوچ کا یہ کھیل ہے یارو
میں تنہا ہوں مری دنیا فقط یہ جیل ہے یارو
ستم مجھ پر ہوئے کیا کیا، تمہیں اب کیا بتاؤں میں
کہاں چھتر مجھے پڑتے ہیں تم کو کیا دکھاؤں میں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟​
 
محترم منیب احمد فاتح صاحب کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کا کلام آپ یہاں کلک کرکے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


ہو ہی جائے نہ رقیبوں سے جدل کچھ مت سوچ
کوچہءِ حسن سے جلدی سے نکل کچھ مت سوچ

کب تلک بیٹھ کے روئے گا صبا کو پاگل
خود ہی آتی ہے تو آنے دے کنول کچھ مت سوچ

فطرتِ حسن سمجھنے کی تو کوشش بھی نہ کر
عشق ہو جائے گا منٹوں میں پزل کچھ مت سوچ

شکر کر رب کا ادا اور سکوں سے سوجا
لوگ کیوں رات کو سنتے ہیں غزل کچھ مت سوچ

عقدِ ثانی کا پتہ کل کو نہ بیوی کو چلے
کل کی کل سوچیں گے جب آئے گا کل، کچھ مت سوچ

سوچ والوں کی جگہ ہے نہ ضرورت ہے یہاں
تو کہیں فوج سے جائے نہ نکل، کچھ مت سوچ

صاحبِ فکر سخنور سے ہوئے بور سبھی
سوچ کر لکھنے کی اب سوچ بدل، کچھ مت سوچ

تونے لُوٹا تھا کسی کو، وہ تجھے لُوٹ گئی
دوست دنیا ہے مکافاتِ عمل کچھ مت سوچ

کام آئے گی یہ اوپر کی کمائی امجد
نوٹ رکھ جیب میں فی الفور نکل کچھ مت سوچ
 
آخری تدوین:
Top