اردو اور فارسی سے مرکب اشعار

اردو کا رشتہ اہلِ ایران کے علاوہ باقی سب نے تو فارسی سے منقطع کر دیا ہے مگر تاریخ کے صفحات پر اس کی آنول نال ابھی تک پڑی ہوئی ہے۔ ہماری مراد ان ادبی شذرات سے ہے جن میں اردو اور فارسی ایک دوسری سے ملنے یا شاید جدا ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہماری روایت میں ایسے اشعار کافی مل جائیں گے جن کا کم و بیش نصف حصہ فارسی ہے۔ میرا مطالعہ اس سلسلے میں ناکافی ہے مگر اس خیال سے آغاز کر رہا ہوں کہ سب مجھ جیسے تو نہیں۔
---
ہر کس کہ خیانت کند البتہ بترسد
بےچارۂِ نوریؔ نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے
ملا نوریؔ​
ہر کوئی جو خیانت کا مرتکب ہوتا ہے ضرور ڈرتا رہتا ہے۔ نوریؔ بےچارہ نہ ارتکاب کرتا ہے نہ ڈرتا ہے۔ ملا نوریؔ کوئی بہت ہی پرانے درباری شاعر ہیں۔ تاریخ میں غالباً ان کا یہی ایک شعر محفوظ رہ گیا ہے۔
---
بےکار مباش کچھ کیا کر
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر​
معلوم نہیں یہ شعر کس کا ہے مگر ضرب المثل بن گیا ہے۔ مصرعِ اولیٰ کے پہلے ٹکڑے کا مطلب ہے بےکار نہ رہ۔
---
فارسی را ٹانگ توڑم تا کہ وا لنگڑی شود​
ازراہِ تفنن گھڑے گئے اس مخلوط السان مصرعے میں کہنا یہ مراد ہے کہ فارسی کی ٹانگ توڑ رہا ہوں تاکہ وہ لنگڑی ہو جائے۔ معلوم نہیں کس نے کہا۔
---
زحالِ مسکین مکن تغافل، دُرائے نیناں، بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلش چو عمر کو تہہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکا یک از دل دو چشمِ جادو، بصد فریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چو شمع سوزاں، چو ذرہ حیراں زمہرآں ماہ گشتم آخر
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں

بحقِ روزِ وصالِ دلبر کہ داد مارا فریبِ خسرو
سپیت من کے درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
امیر خسروؔ​
خسروؔ کی یہ غزل تاریخ کی پہلی "اردو" غزل بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس کا ترجمہ یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
---​
غالبؔ کے اس قسم کے اشعار کے سلسلے میں تفحص ہم نے اس خیال سے نہیں کیا کہ اس پر بعض دوسرے احباب کا حق اب زیادہ ہو گیا ہے۔ :):):)
 

حسان خان

لائبریرین
چونکہ جنابِ راحیل فاروق کا یہ دھاگا موضوعاتی لحاظ سے میری محبوب ترین زبان فارسی سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا اِس میں شراکت نہ کرنا مجھے نامُستحسَن معلوم ہوا۔
میری اوّلین شراکت قبول فرمائیے:
ﺩﺭ ﻣُﻠﮏِ ﺩﻟﻢ ﺷﺎﮦِ ﺟﻨﻮﮞ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ
ﺍﮮ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺧﺮﺩ ﺍﺏ ﭼﻠﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﺳﺪﮬﺎﺭﻭ
(شاہ نیاز بریلوی)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک والد صاحب کی نعتیہ تضمین بھی بر محل معلوم ہوئی۔
آسمانوں سے بلند آج تری جلوہ گری
بمقامے کہ رسیدی ، نہ رسد ہیچ نبی

اصل مصرع شاید یوں ہے۔
( شب معراج عروج تو از افلاک گزشت)
 

جاسمن

لائبریرین
تو ہے رشک ِ ماہِ کنعانی ہنوز
تجھ کوں ہے خوباں میں سلطان ہنوز


مجھ درد پر دَوانہ کرو تم حکیم کا
بن وصل نئیں علاج برہ کے سقیم کا


درد مندوں کو سدا ہے قول مطرب دلنواز
گرمئی افسردہ طبعاں شعلہ ٔ آواز ہے


ماہِ نوتجھ بھواں پہ کرکے نظر
سوئے مغرب چلا ہے روبہ قفا
(ولی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
قشقہ چو کھینچا بررخش، گفتم کہ یہ کیا دیت ہے
گفتا کہ در ہو باورے! اس ملک کی یہ ریت ہے
ہمنا تمن کو دل دیا، تم دل لیا اور دکھ دیا
ہم یہ کیا، تم وہ کیا، ایسی بھلی یہ پیت ہے
سعدی بگفتا ریختہ ،درریختہ، درریختہ
شیروشکرآمیخہ، ہم ریختہ ہم گیت ہے

(سعدی دکنی)​
 

فاتح

لائبریرین
حافظ شیرازی کی مشہورِ زمانہ غزل "اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را" پر خاکسار کی تضمین آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:
نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارا
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را

نگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارا
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را

محلہ یار کا جنّت سے بڑھ کر ہم کو، چوں حافظؔ
کنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ را

عجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میں
چناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما را

غضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسی
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را

کبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ سادات
کہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا را

تخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سے
جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارا

یہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتے
جوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا را

شہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہ
کہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا را

حقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغم
کہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا را
(فاتح الدین بشیرؔ)​
 

محمد وارث

لائبریرین
ز حالِ مسکیں مکن برنجش، بہ حالِ ہجراں بے چارہ دل ہے
سُنائی دیتی ہے جس کی دھڑکن، تمھارا دل یا ہمارا دل ہے
گُلزار
اور لتا جی دیوی :)
 

اسيدرضا

محفلین
آئی ایم ٹالی ہَیٹ نشستہ بودم اُتھوں آئی اِٹ کُرلاندی
آئی ایم ہیڈ پَرے نہ کَردا ٹوٹن وِچه وَجِیندی
ترجمہ
میں ٹالی کے درخت کے نیچے بیٹھا ہواتھا کہ اوپرسے اینٹ گرجتی آوازمیں آئی
اگرمیں اپناسر سائیڈ پہ (دوسری طرف) نہ کرتا تو سرکے آ لگتی
(یعنی خداشکرہے کہ میں متوجہ ہوا اور جان بچ گئی)
 
آئی ایم ٹالی ہَیٹ نشستہ بودم اُتھوں آئی اِٹ کُرلاندی
آئی ایم ہیڈ پَرے نہ کَردا ٹوٹن وِچه وَجِیندی
ترجمہ
میں ٹالی کے درخت کے نیچے بیٹھا ہواتھا کہ اوپرسے اینٹ گرجتی آوازمیں آئی
اگرمیں اپناسر سائیڈ پہ (دوسری طرف) نہ کرتا تو سرکے آ لگتی
(یعنی خداشکرہے کہ میں متوجہ ہوا اور جان بچ گئی)
ایں شاعر عذب البیان کون است؟
 

اسيدرضا

محفلین
چونکہ جنابِ راحیل فاروق کا یہ دھاگا موضوعاتی لحاظ سے میری محبوب ترین زبان فارسی سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا اِس میں شراکت نہ کرنا مجھے نامُستحسَن معلوم ہوا۔
میری اوّلین شراکت قبول فرمائیے:
ﺩﺭ ﻣُﻠﮏِ ﺩﻟﻢ ﺷﺎﮦِ ﺟﻨﻮﮞ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ
ﺍﮮ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺧﺮﺩ ﺍﺏ ﭼﻠﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﺳﺪﮬﺎﺭﻭ
(شاہ نیاز بریلوی)
بہت خوب
 

اسيدرضا

محفلین
اردو کا رشتہ اہلِ ایران کے علاوہ باقی سب نے تو فارسی سے منقطع کر دیا ہے مگر تاریخ کے صفحات پر اس کی آنول نال ابھی تک پڑی ہوئی ہے۔ ہماری مراد ان ادبی شذرات سے ہے جن میں اردو اور فارسی ایک دوسری سے ملنے یا شاید جدا ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہماری روایت میں ایسے اشعار کافی مل جائیں گے جن کا کم و بیش نصف حصہ فارسی ہے۔ میرا مطالعہ اس سلسلے میں ناکافی ہے مگر اس خیال سے آغاز کر رہا ہوں کہ سب مجھ جیسے تو نہیں۔
---
ہر کس کہ خیانت کند البتہ بترسد
بےچارۂِ نوریؔ نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے
ملا نوریؔ​
ہر کوئی جو خیانت کا مرتکب ہوتا ہے ضرور ڈرتا رہتا ہے۔ نوریؔ بےچارہ نہ ارتکاب کرتا ہے نہ ڈرتا ہے۔ ملا نوریؔ کوئی بہت ہی پرانے درباری شاعر ہیں۔ تاریخ میں غالباً ان کا یہی ایک شعر محفوظ رہ گیا ہے۔
---
بےکار مباش کچھ کیا کر
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر​
معلوم نہیں یہ شعر کس کا ہے مگر ضرب المثل بن گیا ہے۔ مصرعِ اولیٰ کے پہلے ٹکڑے کا مطلب ہے بےکار نہ رہ۔
---
فارسی را ٹانگ توڑم تا کہ وا لنگڑی شود​
ازراہِ تفنن گھڑے گئے اس مخلوط السان مصرعے میں کہنا یہ مراد ہے کہ فارسی کی ٹانگ توڑ رہا ہوں تاکہ وہ لنگڑی ہو جائے۔ معلوم نہیں کس نے کہا۔
---
زحالِ مسکین مکن تغافل، دُرائے نیناں، بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلش چو عمر کو تہہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکا یک از دل دو چشمِ جادو، بصد فریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چو شمع سوزاں، چو ذرہ حیراں زمہرآں ماہ گشتم آخر
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں

بحقِ روزِ وصالِ دلبر کہ داد مارا فریبِ خسرو
سپیت من کے درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
امیر خسروؔ​
خسروؔ کی یہ غزل تاریخ کی پہلی "اردو" غزل بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس کا ترجمہ یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
---​
غالبؔ کے اس قسم کے اشعار کے سلسلے میں تفحص ہم نے اس خیال سے نہیں کیا کہ اس پر بعض دوسرے احباب کا حق اب زیادہ ہو گیا ہے۔ :):):)
 
Top