ادب کیا ہے؟

ادب کیا ہے؟
اس کا مقصد کیا ہے؟
ہم کیوں اسے پڑھیں؟
یہ کیوں اہم ہے؟
کیا ادب کے لئے زبان جاننا ضروری ہے؟
کیا ادب کی کچھ قسمیں بھی ہوتی ہیں ؟
ہم کن چیزوں کو ادب کہیں گے اور کن کو غیر ادب؟
ادب اور تخلیقیت میں کیا فرق ہے؟

اساتذہ کرام سے خصوصی توجہ کی گذارش ہے ۔۔۔
 
آخری تدوین:
ایک سلسلہ یہاں چلا تھا، انٹرویوز کا۔ وہ تاگا تو مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، یہ ضرور یاد ہے کہ فاتح صاحب نے، میں نے اور کچھ دیگر دوستوں نے زیرِ نظر سارے سوالوں پر کچھ نہ کچھ کہا ضرور تھا۔ بلکہ میں نے تو خاصی تفصیل سے بات کی تھی۔ وہ تاگا تلاش کر لیجئے، میرا خیال ہے ان تین چار باتوں پر کوئی نہ کوئی شافی جواب پہلے سے موجود ہیں۔
 
مختصر مختصر پھر دیکھ لیتے ہیں۔

ادب کیا ہے؟
یوں کہہ لیجئے کہ زبان کو نکھار سنوار پر لکھنا بولنا ادب ہے۔ اس نکھار سنوار کو آپ جمالیات کا نام دے لیجئے، شائستگی اور شستگی کہہ لیجئے۔
 
اس کا مقصد کیا ہے؟
مقاصد تو ہر شخص کے اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ سب کی باتوں میں ایک مشترک نکتہ یہ نکل سکتا ہے: اپنی بات زیادہ مؤثر انداز میں دوسروں تک پہنچانا۔
 
ہم کیوں اسے پڑھیں؟
بہت سارے لوگ ادب نہیں پڑھتے، لکھنا تو دور کی بات! میں نہیں کہتا کہ آپ ادب کو ضرور پڑھیں! ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک چیز دوسری بہت ساری چیزوں سے خوبصورت دکھائی دیتی ہے، ایک چیز کا ذائقہ نسبتاً بہتر ہوتا ہے؛ سو اس میں کشش زیادہ ہوتی ہے۔ ہر شخص اس کشش کو اپنے اپنے لحاظ سے محسوس کرتا ہے۔ کوئی کسی سے کہا کہے کہ آپ فلاں چیز کو لازماً خوش ذائقہ تسلیم کریں؟
 
آخری تدوین:
یہ کیوں اہم ہے؟
پہلے دونوں سوالوں کا مغز بھی یہی تو ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو ادب سے کچھ نہیں لینا دینا۔ رہی بات شناخت وغیرہ کی کہ لوگ مجھے یا آپ کو جب ہم مر کھپ جائیں تب بھی مدتوں تک یاد رکھیں، وہاں بھی ادب ایک ایسا وصف ہے ضرور، تاہم یہ واحد وصف نہیں ہے۔ شہرت (اچھی یا بری) اپنے اپنے میدانِ علم و عمل میں ہوتی ہے۔
 
کیا ادب کے لئے زبان جاننا ضروری ہے؟
ظاہر ہے، آپ اپنی ’’بات‘‘ کو نکھار سنوار کر، خوبصورت بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں، اس میں تاثیر بھی چاہتے ہیں تو آپ کو اس زبان سے کماحقہٗ شناسائی تو ہونی چاہئے۔ بلکہ شناسائی کافی نہیں ہے؛ زبان میں تہذیب و ثقافت کا جو رچاؤ ہوتا ہے، آپ کو اس کا بھی ادراک ہونا چاہئے۔
 
کیا ادب کی کچھ قسمیں بھی ہوتی ہیں ؟
ادب اچھا بھی ہوتا ہے، برا بھی ہوتا ہے۔ اچھائی اور برائی کا تصور ہم کچھ اپنے بڑوں سے لیتے ہیں، کچھ اپنے مطالعے سے، کچھ مشاہدے سے، کچھ تجربے سے۔ ایک اہم چیز تھی کبھی، ادب میں مقصدیت یا محض ادب برائے ادب؟ یہ بحث پرانی ہو چکی۔
 
آخری تدوین:
ہم کن چیزوں کو ادب کہیں گے اور کن کو غیر ادب؟
بہت مشکل سوال ہے اور اس کا جواب مشکل تر! ایک بہت عام سا مشاہدہ ہے۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے یا غروب ہونے کے بعد روشنی کی کیفیات جنہیں سائنس والے شاید لیومینیٹی کہتے ہیں؟ وہ بدلتی ہے۔ شام کی روشنی سے رات کی تاریکی تک اور رات کی تاریکی سے صبح کی روشنی تک، آپ کوئی قطعی لکیر نہیں کھینچ سکتے کہ جی یہاں تک منظر تاریک ہے اور یہاں تک روشن ہے۔ اس کے باوجود آپ یہ جانتے ہیں کہ یا تاریکی ہے یہ روشنی ہے۔ اسی طرح کی حدود ہیں ادب اور غیر ادب میں۔
 
ادب اور تخلیقیت میں کیا فرق ہے؟
ہر کام کے کچھ طریقے ہوتے ہیں، ادب میں تخلیقیت کا عنصر بہت اہم ہے۔ تخلیقیت، ایک لحاظ سے، شاید فطرت کا مطالعہ اور اس کی نقل کرنے کا نام ہے تو دوسرے لحاظ سے اسی فطرت میں کوئی نئی چیز نئی بات شامل کرنے کی ایک سعی ہے۔ یہ شاید وہی قوت اور جذبہ ہے جو انسان کو آگے بڑھاتا ہے۔ اور اس سے فطرت کی رنگینیوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ مثبت منفی دوسری بات ہے۔ تاہم یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر تخلیقیت ادب نہیں۔

تخلیقیت تو اس شخص کے کام میں بھی ہے جس نے ریڈیو ایجاد کیا، اس کے بھی جس نے جہاز بنانے کی طرف ذہنوں کو مائل کیا اور مصنوعی پروں سے اُڑ کر دکھایا، تخلیقیت تو اس کے کام میں بھی ہے جس نے کاغذ ایجاد کیا، جس نے پہیہ بنایا، دوربین بنائی، جس نے رنگ روغن ایجاد کئے، جس نے تباہ کن اسلحہ اور بارود بنایا، جس نے کرنسی ایجاد کی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ مگر ان میں شاید کسی بھی عمل کو ادب نہیں کہا جا سکتا۔
 
اپنے طور پر آپ کے سوالوں کے جواب دینے کوشش کی ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

ایک نکتے کی بات ہے کہ جیسے انسان بدنی، دماغی، ذہنی، فکری، نظریاتی اور دیگر حوالوں سے خاصی پیچیدگیوں کا مجموعہ ہے، اسی طرح کے اس کے کام بھی ہیں۔ خاص طور پر جہاں جمالیات کا عنصر اہم ہو! سو بھائی، یہاں کوئی بھی جواب دو جمع دو برابر چار کی صورت میں نہیں ملنے کا!
 
آخری تدوین:
ایک سلسلہ یہاں چلا تھا، انٹرویوز کا۔ وہ تاگا تو مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، یہ ضرور یاد ہے کہ فاتح صاحب نے، میں نے اور کچھ دیگر دوستوں نے زیرِ نظر سارے سوالوں پر کچھ نہ کچھ کہا ضرور تھا۔ بلکہ میں نے تو خاصی تفصیل سے بات کی تھی۔ وہ تاگا تلاش کر لیجئے، میرا خیال ہے ان تین چار باتوں پر کوئی نہ کوئی شافی جواب پہلے سے موجود ہیں۔
تلاش بسیار کے باوجود مجھے پرانا دھاگہ نہیں ملا۔
شمشاد بھائی
ابن سعیدبھائی
 
ایک سلسلہ یہاں چلا تھا، انٹرویوز کا۔ وہ تاگا تو مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، یہ ضرور یاد ہے کہ فاتح صاحب نے، میں نے اور کچھ دیگر دوستوں نے زیرِ نظر سارے سوالوں پر کچھ نہ کچھ کہا ضرور تھا۔ بلکہ میں نے تو خاصی تفصیل سے بات کی تھی۔ وہ تاگا تلاش کر لیجئے، میرا خیال ہے ان تین چار باتوں پر کوئی نہ کوئی شافی جواب پہلے سے موجود ہیں۔
تلاش بسیار کے باوجود مجھے پرانا دھاگہ نہیں ملا۔
شمشاد بھائی
ابن سعیدبھائی
محمد اسامہ سَرسَری سے پوچھ لیجئے، وہ ایسی باتوں پر توجہ بھی بہت دیتے ہیں اور کبھی کبھی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل بھی کر دیتے ہیں۔
آپ حضرات شاید اس لڑی کے متلاشی ہیں۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
ادب کیا ہے؟
اس کا مقصد کیا ہے؟
ہم کیوں اسے پڑھیں؟
یہ کیوں اہم ہے؟
کیا ادب کے لئے زبان جاننا ضروری ہے؟
کیا ادب کی کچھ قسمیں بھی ہوتی ہیں ؟
ہم کن چیزوں کو ادب کہیں گے اور کن کو غیر ادب؟
ادب اور تخلیقیت میں کیا فرق ہے؟

اساتذہ کرام سے خصوصی توجہ کی گذارش ہے ۔۔۔
محترم اصلاحی بھائی
اساتذہ سے خاص توجہ کی گزارش مجھ جیسے استادوں کی جوتیاں سیدھی کرتے پیاس بجھانے والوں کو اس دھاگے میں پابند کر رہی ہے ۔
کہ صرف سنو پڑھو سمجھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں کہ ٹھہرا عادت سے مجبور سدا کا بے صبرا ۔۔
جو دل میں آئے لکھ مارتا ہوں ۔ اس دعا کہ ساتھ " کوئی رہنما مل جائے مجھے منزل تک پہنچا آئے "
۔۔۔۔۔۔۔


زندگی اور ادب براہ راست اک دوسرے منسلک ہیں ۔ زندگی ہو یاکہ ادب ۔۔ دونوں کا مفہوم اپنے معنی میں اک بحر بےکنار ہے جس میں اختلاف رائے کے لاتعداد جزیرے ہیں ۔اور ان کی متفقہ " تعریف " ناممکن ہے ۔ کسی بھی زبان میں جب " ادب " کی بات کی جاتی ہے تو عام طور سے اس سے مراد وہ ادب ہوتا ہے جسے اردو زبان " ادب لطیف یا ادب جمیل " کا عنوان دیتی ہے ۔۔ یہ ادب وجدان کی گہرائی سے ابھرتا ہے ۔ سوچ و فکر و خیال کی راہ چلتے جامعیت خیال کی منزل پر پہنچ صدا کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے ۔ یہ اظہار جو کسی بھی زبان میں " صدا " بن کر سامنے آتا ہے اپنی موزونیت و لطافت کی بنا پر " ادب " کہلاتا ہے ۔۔ ادب کے بنیادی ستون " خیال کی پرواز " اور " زبان پر گرفت " ہیں ۔
خیال " رنگینی ، گہرائی ، نزاکت اور مشاہدے کی قوت " کو ہمراہ لیئے جب کسی بھی زبان میں " ندرت بیان ، حسن ادا ، جدت ، روانی ، قدرت اظہار " سے صدا کی صورت " تحریر و تقریر" میں ڈھلتا ہے تو " ادب " سامنے آتا ہے ۔
" ادب " کیونکر جنم لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یا ادب سے مقصود کیا ہے ۔۔ ؟
سرسری سی نگاہ میں ادب کا کوئی خاص مقصد سامنے نہیں آتا ۔ ادب لطیف و جمیل میں شامل بہت سے ایسے فنون لطیفہ ملتے ہیں جو کسی بھی " مادی " نفع اور مقصد سے بیگانے دکھتے ہیں ۔ اور اسی باعث یہ کہتے ہیں کہ ادب کا مقصد ادیب کی محض اک دماغی سرخوشی اور فکر کی مستی سے لطف اندوز ہوتے اپنے خیال کو دنیا کے سامنے لانا ہے ۔ چاہے یہ دنیا محض اک فرد پر مشتمل ہو ۔ اور دماغی سرخوشی کے حامل فکر کی مستی کو ہمراہ لیئے جب ایسے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے خیال " معانی " سے جگمگا اٹھتے ہیں ۔ انہیں اپنی روح بیدار ہنستی کھیلتی جمالیاتی احساسات پر رقص کرتی نغمے چھیڑتی محسوس ہوتی ہے ۔ وہ نغمے جو کہ " زندگی " کے رنگوں سے سجے ہوتے ہیں ۔۔
اسی لیئے " ادب " کو کسی بھی " تہذیب " کا وہ کلیدی عنصر قرار دیا جاتا ہے جو کہ تہذیب کو ترقی کی راہ پر چلاتے اسے عظمت عطا کرتا ہے ۔۔۔۔۔کسی بھی تہذیبی معاشرے کے وہ فرد جو کہ معاشرے کی اصلاح کے طلبگار ہوتے اس اصلاح کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے " علم ذہانت توانائی " کو یا تو مذہب پر صرف کرتے ہیں یا کہ ان سے ادب کے چراغ روشن کرتے ہیں ۔
کسی بھی " تہذیب " میں ادب کی حیثیت یا تو " مذہب " کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام انسان سما جائیں ۔۔۔۔۔
یا پھر انسانیت کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام مذہب سما جائیں ۔۔
مشرقی اور مغربی تہذیبوں میں جنم لینے والا ادب بہر صورت " مذہب اور انسان " کے درمیان پیدا ہونے والے ان اختلافات پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جو کہ " حقیقت و مجاز " کی تلاش میں ہر انسان کو پیش آتے ہیں ۔۔
ہر تہذیب میں ادب بہت سی اقسام میں تقسیم الگ الگ ناموں سے سامنے آتا ہے ۔۔۔اور اک ہی حقیقت کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے ۔ یہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ چاہے " فحش ادب ہو چاہے مزاحمتی ۔ چاہے تعمیری چاہے تنقیدی ۔
۔ ۔
(استاد محترم آسی بھائی کی تحاریر سے ماخوذ )
 
محترم اصلاحی بھائی
اساتذہ سے خاص توجہ کی گزارش مجھ جیسے استادوں کی جوتیاں سیدھی کرتے پیاس بجھانے والوں کو اس دھاگے میں پابند کر رہی ہے ۔
کہ صرف سنو پڑھو سمجھو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ مگر میں کہ ٹھہرا عادت سے مجبور سدا کا بے صبرا ۔۔
جو دل میں آئے لکھ مارتا ہوں ۔ اس دعا کہ ساتھ " کوئی رہنما مل جائے مجھے منزل تک پہنچا آئے "
۔۔۔ ۔۔۔ ۔


زندگی اور ادب براہ راست اک دوسرے منسلک ہیں ۔ زندگی ہو یاکہ ادب ۔۔ دونوں کا مفہوم اپنے معنی میں اک بحر بےکنار ہے جس میں اختلاف رائے کے لاتعداد جزیرے ہیں ۔اور ان کی متفقہ " تعریف " ناممکن ہے ۔ کسی بھی زبان میں جب " ادب " کی بات کی جاتی ہے تو عام طور سے اس سے مراد وہ ادب ہوتا ہے جسے اردو زبان " ادب لطیف یا ادب جمیل " کا عنوان دیتی ہے ۔۔ یہ ادب وجدان کی گہرائی سے ابھرتا ہے ۔ سوچ و فکر و خیال کی راہ چلتے جامعیت خیال کی منزل پر پہنچ صدا کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے ۔ یہ اظہار جو کسی بھی زبان میں " صدا " بن کر سامنے آتا ہے اپنی موزونیت و لطافت کی بنا پر " ادب " کہلاتا ہے ۔۔ ادب کے بنیادی ستون " خیال کی پرواز " اور " زبان پر گرفت " ہیں ۔
خیال " رنگینی ، گہرائی ، نزاکت اور مشاہدے کی قوت " کو ہمراہ لیئے جب کسی بھی زبان میں " ندرت بیان ، حسن ادا ، جدت ، روانی ، قدرت اظہار " سے صدا کی صورت " تحریر و تقریر" میں ڈھلتا ہے تو " ادب " سامنے آتا ہے ۔
" ادب " کیونکر جنم لیتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یا ادب سے مقصود کیا ہے ۔۔ ؟
سرسری سی نگاہ میں ادب کا کوئی خاص مقصد سامنے نہیں آتا ۔ ادب لطیف و جمیل میں شامل بہت سے ایسے فنون لطیفہ ملتے ہیں جو کسی بھی " مادی " نفع اور مقصد سے بیگانے دکھتے ہیں ۔ اور اسی باعث یہ کہتے ہیں کہ ادب کا مقصد ادیب کی محض اک دماغی سرخوشی اور فکر کی مستی سے لطف اندوز ہوتے اپنے خیال کو دنیا کے سامنے لانا ہے ۔ چاہے یہ دنیا محض اک فرد پر مشتمل ہو ۔ اور دماغی سرخوشی کے حامل فکر کی مستی کو ہمراہ لیئے جب ایسے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے خیال " معانی " سے جگمگا اٹھتے ہیں ۔ انہیں اپنی روح بیدار ہنستی کھیلتی جمالیاتی احساسات پر رقص کرتی نغمے چھیڑتی محسوس ہوتی ہے ۔ وہ نغمے جو کہ " زندگی " کے رنگوں سے سجے ہوتے ہیں ۔۔
اسی لیئے " ادب " کو کسی بھی " تہذیب " کا وہ کلیدی عنصر قرار دیا جاتا ہے جو کہ تہذیب کو ترقی کی راہ پر چلاتے اسے عظمت عطا کرتا ہے ۔۔۔ ۔۔کسی بھی تہذیبی معاشرے کے وہ فرد جو کہ معاشرے کی اصلاح کے طلبگار ہوتے اس اصلاح کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے " علم ذہانت توانائی " کو یا تو مذہب پر صرف کرتے ہیں یا کہ ان سے ادب کے چراغ روشن کرتے ہیں ۔
کسی بھی " تہذیب " میں ادب کی حیثیت یا تو " مذہب " کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام انسان سما جائیں ۔۔۔ ۔۔
یا پھر انسانیت کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام مذہب سما جائیں ۔۔
مشرقی اور مغربی تہذیبوں میں جنم لینے والا ادب بہر صورت " مذہب اور انسان " کے درمیان پیدا ہونے والے ان اختلافات پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جو کہ " حقیقت و مجاز " کی تلاش میں ہر انسان کو پیش آتے ہیں ۔۔
ہر تہذیب میں ادب بہت سی اقسام میں تقسیم الگ الگ ناموں سے سامنے آتا ہے ۔۔۔ اور اک ہی حقیقت کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے ۔ یہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ چاہے " فحش ادب ہو چاہے مزاحمتی ۔ چاہے تعمیری چاہے تنقیدی ۔
۔ ۔
(استاد محترم آسی بھائی کی تحاریر سے ماخوذ )
بہت شکریہ بھائی جان
جزاکم اللہ خیر
بھائی جان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔آپ کی تحریر تو نگینہ کی طرح ہوتی ہے ۔مجھے تو رشک آتا ہے آپ لوگوں کی تحریریں دیکھ کر ۔
سوچتا ہوں آخر کب میں ایسا لکھ سکوں گا ۔
آپ لوگوں کی محبت ،شفقت اور حوصلہ افزائی سے بس تھوڑا ٹیم ٹام کر لیتا ہوں ۔
 
Top