اخلاقی بحران

آتش ملیری

محفلین
ہمارا اخلاقی بحران تحریر:آتش ملیری

انسان ایک Flexible مخلوق ہے وہ چاہے تو اپنے اندر موجود "محاسن" کی آبیاری کرکے ان کو نقطہ_کمال تک پہنچاسکتا ہے اور چاہے تو اپنی ذات میں پنہاں "معائب" کو نشونما دے کر ان کو اپنی شخصیت کا بنیادی حوالہ بنا سکتا ہے۔اس باب میں عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب بات کہی ہے:
  • "والنفس راغبة إذا رغبتها وإذا ت۔رد إل۔ى قلي۔ل تقنع" (ابوذوئب)
ترجمہ:
"نفس کا معاملہ تو یہ ہے کہ تم اس کو جتنی زیادہ رغبت دلاوُ گےاتنا ہی وہ راغب ہوگا لیکن اگر تم اس کو قلیل کی طرف لوٹاوُگے تو کم پر بھی قناعت کرلے گا۔"
مگر اس کے برعکس ہمارے سماج میں "تربیت" نہ ہونے کے باعث مذکورہ محاسن یا معائب کی آبیاری اور نشونما کا عمل خود رو گھاس کی طرح لاشعوری طور پر ازخود جاری و ساری رہتا ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم انجانے میں positivity یا Negativity میں ترقی کرکے اس کے expert بن چکے ہوتے ہیں اور ہمیں اس امر کا ادراک و احساس ہی نہیں ہوپاتا۔
بدقسمتی سے ہمیں سوچنا نہیں آتا،ہمیں کبھی سکھایا ہی نہیں گیا کہ کس طرح سوچا جاتا ہے۔ تاہم مغربی سماج ( جس کو گالیاں دینا ہم اپنے فریضہ_منصبی کا لازمی تقاضا اور اپنے "جوش_خطابت" کی معراج سمجھتے ہیں) میں اس ضمن میں بڑا کام ہوا ہے۔سوچنے کے عمل پر وہاں نہ صرف وسیع پیمانے پر تربیتی پروگرام منعقد ہوتے ہیں بلکہ اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔"Teach yourself how to think" نامی مشہور کتاب اس ضمن میں ایک بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے علاوہ مغرب میں بی ائیویئر مینجمنٹ،پرسنل ڈیویلپمنٹ،اسکل ڈیویلپمنٹ اور ایموشنل انٹیلیجنس
پر بڑا موثر اور مربوط کام ہورہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ سارے امور فی الواقع وہی ہیں جن سے متعلق اسلام نے صدیوں پہلے فکری اور عملی سطح پر "تزکیہ_نفس" کے عنوان سے انسانیت کو ایک جامع تصور عطا فرمایا تھا جس کی اساس پر جناب_ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی تاریخ کا لاثانی معاشرہ قائم فرمایا تھا جس کا اعتراف ڈاکٹر مائیکل ایچ ہرٹ، ایم این رائے،ایچ جی ویلز
اور گاندھی جی نے براہ راست اور بالواسطہ طور اپنی کتابوں اور فرمودات میں کیا ہے۔
افسوس ہے کہ آج ہماری قدریں مغرب کو تہذیبی ترقی کی بنیاد فراہم کررہی ہیں مگر ہم ان قدروں کو بھلا چکے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کو علامہ اقبال نے برسوں پہلے ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاک حجاز
اسی طرح اپنے "آباو اجداد" کی کتابوں کو یورپ کے کتب خانوں میں موجود دیکھ کر اقبال نے اپنے دل_صدچاک کا نوحہ بایں الفاظ بیان فرمایا تھا:
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا.
ایک مسلم دانشور نے کتنی سچی بات کہی ہے کہ جب میں مغرب میں جاتا ہوں تو مجھے اسلام نظر آتا ہے مسلمان نہیں،اور جب میں مشرق میں جاتا ہوں تو مسلمان نظر آتا ہے اسلام نظر نہیں آتا۔
اس سارے تناظر میں اس تلخ حقیقت کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہمارا اصل مسئلہ بنیادی طور پر "اخلاقی بحران" ہے اور اس اخلاقی بحران سے نمٹنے اور اس کی بیخ کنی کے لیے فکری اور عملی اعتبار سے کہیں سے بھی کوئی تدبیر بروئے کار نہیں لائی جارہی اور نہ فی الواقع اس کے آثار کہیں نظر آرہے ہیں۔ہمارے سماج میں انسان سازی کا کوئی ادارہ موجود ہی نہیں ہے۔والدین کا کردار صرف اولاد پرورش اور اس کی مادی ضروریات کی تکمیل تک محدود ہے۔تعلیمی ادارے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ نوجوانوں کے بجائے فقط "ڈگری یافتہ" نوجوان پیدا کررہے ہیں۔محراب و منبر کے موثر ترین فورم کو اسلام کی دعوت و تبلیغ اور لوگوں کی تعلیم و تزکیہ کے بجائے فرقہ وارانہ منافرت اور مخالف فرقوں کے خلاف ہیجان انگیزی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔عمومی اعتبار سے میڈیا کا کردار بھی تعلیم و تربیت کے ضمن میں انتہائی افسوس ناک اور شرمناک ہے۔چین کے رہنما ماوزے رنگ نے کہا تھا کہ اگر تم کو ایک ہزار میل کا فاصلہ طے کرنا ہے تو اس کی ابتدا ہمیشہ ایک قدم سے ہوتی ہے۔ افسوس ہے کہ ستر سال کا طویل سفر طے کرنے کے باوجود تعلیم اور تربیت کے باب میں وہ ابتدائی قدم بھی کہیں نظر آرہا۔
ہمارے ارباب_علم و دانش کو اس امر پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم کہاں جارہے ہیں؟ کیا ہم کسی ایسی بے نام بس میں سوار تو نہیں کہ جس کے بارے میں ہمیں علم ہی نہیں کہ اس نے فی الواقع کہاں جانا ہے؟ کیا ہم کسی ایسے گراونڈ میں فٹبال کھیلنے میں مصروف تو نہیں کہ جس میں گول پوسٹ نصب نہ ہوں؟
میں اس ضمن میں اصحاب علم و دانش،وارثان_محراب و منبر اور ارباب_حل و عقد سے دردمندانہ التماس کرتا ہوں کہ وہ میری ان طالبعلمانہ گذارشات پر سنجیدگی سے غور و فکر فرماتے ہوئے قوم کو اس ہمہ گیر اخلاقی بحران سے نکالنے اور تعلیم وتربیت کے ضمن میں ایک وسیع البنیاد اور جامع حکمت عملی وضع کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
 
Top