احوال امریکہ میں ایک پاکستانی شادی کا

کعنان

محفلین
احوال امریکہ میں ایک پاکستانی شادی کا
عطاء الرحمن
12/01/2017

گزشتہ دو ہفتے امریکہ میں گزرے۔ میں وہاں سولہ سالوں سے مقیم اپنے چھوٹے بھائی ضیاء الرحمن کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے گیا تھا۔ یہ لاہور اور خوشاب سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریت کے حامل دو خاندانوں کا ملاپ تھا۔

میرا بھائی جو ماشاء اللہ 1971ء کا ایم کام (آنرز) ہے سن 2000 ء میں پاکستان کے اندر دنیا کی مشہور کار ساز کمپنی والوو کی ملازمت کرتے ہوئے امریکہ چلا گیا۔ اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل اسی سر زمین سے وابستہ کر لیا۔۔۔
بڑا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واشنگٹن کی گھروں کو توانائی فراہم کرنے والی کمپنی میں ذمہ دار عہدے پر متمکن ہے
جبکہ چھوٹا بھائی میڈیکل کی ایک خاص ڈگری کے حصول کے بعد تربیتی مراحل (Internship) سے گزر رہا ہے۔

میری بھتیجی نے جس کی رخصتی کی تقریب تھی میری لینڈ کی یونیورسٹی سے ’آئی ٹی‘ کے شعبے میں گریجوایشن کی۔ وہیں سے کام کی تربیت حاصل کی اور ایک مقامی کمپنی میں ملازمت کر رہی ہے۔ جنہوں نے اسے سہولت دے رکھی ہے وہ گھر کے ایک کمرے کو دفتر کے طور پر استعمال کر کے جدید ترین کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے مرکزی دفتر سے منسلک رہ کر کام کرتی رہے۔۔۔ جہاں وہ غالباً ہفتے میں ایک دن جا کر کمپنی انتظامیہ کے متعلقہ عہدیداروں کے ساتھ براہ راست رابطے اور پیشہ ورانہ Co-ordination کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتی ہے۔۔۔

جس خاندان کے اندر بیٹی کی شادی کی گئی ہے وہ خوشاب سے اسلام آباد اور اس کے بعد بسلسلہ ملازمت سعودی عرب جا مکین ہوا
۔۔۔ وہاں چند برس گزارنے کے بعد انہوں نے اڑان بھری اور امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں جو دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے قریب میں واقع ہے بسیرا کر لیا
۔۔۔ روزگار حاصل کیا اور بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں
۔۔۔ بڑی بیٹی شادی کے بعد قطر میں جا بسی اور بھائی کی شادی کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خاص طور پر امریکہ آئی ہوئی تھی
۔۔۔ اس سے چھوٹی بیٹی میڈیکل کے آخری سالوں میں ہے
۔۔۔ دو جواں عمر بیٹے جن میں سے ایک کے ساتھ میری بھتیجی کی نسبت طے ہوئی، مینجمنٹ اور آئی ٹی کے شعبوں میں تربیت یافتہ ہیں اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں
۔۔۔ وہیں پر میرے بھائی اور ان کے درمیان خاندانی سماجی تعلقات قائم ہوئے
۔۔۔ رشتے کی بات چل نکلی اور بالآخر پکی ہو گئی
۔۔۔ دونوں کنبوں میں مشترکہ وصف یہ ہے انہوں نے امریکی سماج میں رہتے ہوئے اور وہاں کی شہریت اختیار کر کے بھی تہذیبی سطح پر اپنی پاکستانی اور اسلامی شناخت کو برقرار رکھا ہے۔ ہر دو گھروں کے اندر کمپیوٹرائزڈ گھڑیوں پر پانچوں وقت اذان کی صدا بلند ہوتی ہے
۔۔۔ رمضان کے روزے باقاعدگی کے ساتھ رکھے جاتے ہیں۔ ذوق و شوق کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر مسلمان قصاب کی دکان پر جا کر قربانی کی رسم ادا کی جاتی ہے
۔۔۔ میرے بڑے بھتیجے عمیر اور نوید ملک نے جس کے ساتھ اس کی بہن کی شادی ہوئی ہے امریکی کمپنیوں میں ملازمت کے باوجود چہروں پر چھوٹی داڑھیاں سجا رکھی ہیں
۔۔۔ خواتین باقاعدہ سروں کو ڈھانپ کر گھروں سے باہر نکلتی ہیں۔ تاہم امریکی قوانین کی سختی کے ساتھ پابندی اور ان کی تہذیبی روایات کے احترام میں کمی نہیں آنے دی جاتی
۔۔۔ دونوں کنبے نائن الیون اور اس کے بعد جنم لینے والے ماحول کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرتے رہے
۔۔۔ ان کا کہنا تھا ہمارے تمام تر پاکستانی اور مسلم تشخص کے باوجود دفاتر اور اڑوس پڑوس میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا
۔۔۔ نہ ہمارے رویوں کی وجہ سے کسی مقامی فرد کو ہم پر کوئی شبہ ہوا
۔۔۔ میرے بھائی نے تو گزشتہ 8 نومبر کو ذاتی ووٹ بھی ڈونالڈ ٹرمپ کو دیا
۔۔۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہا مجھے صدارتی انتخابی مہم کے آغاز پر اندازہ ہو گیا تھا کہ اکثریتی سفید فام آبادی کے نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ کھل کر ٹرمپ کا ساتھ دے رہے ہیں
۔۔۔ لہٰذا میں نے بھی مقامی لوگوں کے غالب حصے کی آراء کا احترام کرتے ہوئے ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈال دیا
۔۔۔ اس وجہ سے وہائٹ ہاؤس اور کانگریس دونوں جگہ انتخاب جیتنے والی ری پبلیکن پارٹی کے مقامی عہدیدار مجھ پر بہت خوش ہیں۔

ذکر چھڑا تھا شادی کا
۔۔۔ ماہ دسمبر کے آخری جمعہ کے روز میری لینڈ کے مسلم کمیونٹی سنٹر کی جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد نکاح کا فریضہ انجام پایا
۔۔۔ مسجد کے امام اور خطیب نے جن کا تعلق صومالیہ سے ہے عربی اور انگریزی زبانوں میں نکاح پڑھایا
۔۔۔ چھ ہزار ڈالر کی رقم کا حق مہر کے طور پر اعلان ہوا
۔۔۔ مبارک سلامت کے بعد دلہا والوں کی جانب سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں چھوہارے، لڈو اور چاکلیٹ تقسیم کیے گئے
۔۔۔ بعد ازاں خطیب صاحب نے مسجد کے ساتھ ملحقہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر امریکی قوانین و ضوابط کے مطابق نکاح کا اندراج کیا
۔۔۔ دلہا دلہن اور گواہوں کے دستخط ثبت کرائے
۔۔۔ میری لینڈ کا مسلم کمیونٹی سنٹر جس سے ملحقہ جامع مسجد میں نکاح ہوا ایک بڑے کمپلیکس پر مشتمل ہے
۔۔۔ ایک بڑا ہال ہے جہاں پر پاکستانی، عرب اور بھارت و بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمان تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ دو تین کلاس رومز ہیں جن میں قرآن اور بنیادی اسلامی تعلقات سے آگاہ کیا جاتا ہے
۔۔۔ جمعہ کا خطبہ اور نماز دو مرتبہ ادا کی جاتی ہے تاکہ لوگ اپنے اپنے دفاتر کے اوقات کار سے آسانی کے ساتھ وقت نکال کر عبادت کا فریضہ ادا کر سکیں۔ مجھے بتایا گیا کہ عیدین کے موقع پر سنٹر کے احاطے میں تل رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ ان مواقع پر بھی مقامی مسلمانوں کی سہولت کے پیش نظر ایک سے زیادہ مرتبہ نماز ادا کی جاتی ہے
۔۔۔ اسی احاطے کے اندر ایک میڈیکل سنٹر قائم ہے۔ جس میں مقامی مسلمان ڈاکٹر ہر روز باری باری مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ باقاعدہ علاج تجویز ہوتا ہے۔۔۔ میڈیکل سنٹر جدید ترین آلات سے مزین ہے اور ڈاکٹروں میں سے شاید کوئی بھی ایم ڈی سے کم درجے کی ڈگری والا نہیں
۔۔۔ امریکہ میں چونکہ انشورنس کا نظام ہر شعبے کے اندر چھایا ہوا ہے۔ گھر ، گاڑی، ہر طرح کی خریداری اور صحت و علاج کا شعبہ تو خاص طور پر اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ بقول شخصے انشورنس کے بغیر سانس لینا بھی دشوار ہوتا ہے۔ لہٰذا جن لوگوں کو کسی وجہ سے بتمام و کمال یہ سہولت دستیاب نہیں۔ ان کے فوری علاج معالجے کے لیے یہ میڈیکل سنٹر مفید اور ضروری خدمات سرانجام دیتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ امریکہ کے کسی بھی ڈاکٹر کے ساتھ ملاقات اور مشورے کا وقت حاصل کرنے کے لیے یا ہسپتال میں داخلے کی خاطر لمبی تاریخ دی جاتی ہے۔ کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ لیکن مسلم کمیونٹی کے قائم کردہ میڈیکل سنٹر میں آپ جب اور جس روز ضرورت محسوس کریں خاص مرض کے ماہر ڈاکٹر سے علاج کے لیے مشورہ حاصل کر سکتے ہیں۔ وہیں آپ کے ٹیسٹ بھی ہوں گے اور بازار سے ادویات خریدنے کے لیے ضروری نسخہ بھی جاری کیا جائے گا۔ اپنے بھائی کے اصرار پر میں نے بھی اس سنٹر میں تقریباً پورا دن صرف کر کے تمام ٹیسٹ کرائے دو ڈاکٹروں نے میرا معائنہ کیا۔۔۔ ان کے نسخوں پر مقامی فار میسی سے ادویات خریدیں۔۔۔ اب میں لاہور اور اسلام آباد کی محافل میں بیٹھ کر بڑے فخر اور رعب کے ساتھ بتا سکوں گا امریکہ سے علاج کرا کے آیا ہوں
۔۔۔ اگرچہ ذیابیطس کا جو مرض مجھے گزشتہ 33 برس سے لاحق ہے، بد پرہیزی کی نہ چھٹنے والی عادات کی وجہ سے جان نہیں چھوڑے گا اور تادم مرگ روگ بنا رہے گا
۔۔۔ تاہم قیام امریکہ کے پندرہ روز کے دوران بھائی نے تمام تر مہمان نوازی کے باوجود نگرانی کی کہ کسی قسم کی بد پرہیزی کامرتکب نہ ہونے پاؤں۔ لیکن پاکستان میں کون مجھے روکے گا۔۔۔ گھر میں اہلیہ کا رویہ سخت ہوتا ہے میں اسے خاطر میں نہیں لاتا۔ گھر سے باہر کھانوں میں اپنے شامی صاحب، برادرم اخلاق الرحمن اور رؤف طاہر صاحب کبھی کبھار ٹوک دیتے ہیں مگر وضع داری کی بنا پر زیادہ سختی نہیں کرتے لہٰذا سب چلتا ہے۔

نکاح کے دو روز بعد باقاعدہ رخصتی کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس کا اہتمام شہر کے اندر ایک ہال میں کیا گیا۔ کھانا تیار کرنے کے لیے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک باورچی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ ایک سادہ لیکن پر وقار تقریب تھی
۔۔۔ باراتیوں سمیت ساٹھ ستر کے قریب مہمان تھے۔ جن میں اکثریت ظاہر ہے پاکستانی نژاد کنبوں کی تھی
۔۔۔ لیکن تین چار امریکی جوڑے اور ایک دو ایسے تھے جن کا تعلق بھارت سے تھا
۔۔۔ ہر مہمان کی آمد پر مشروبات سے تواضع کی گئی۔۔۔ بارات آئی تو سب اپنی نشستوں پر فرو کش ہو گئے
۔۔۔ ایک صاحب علم نے مائیک سنبھال کر شستہ انگریزی لیکن عربی لہجے میں شادی بیاہ کے بارے میں قرآنی تعلیمات اور سنت نبویؐ سے آگاہ کیا۔ حاضرین کو بتایا امریکی ماحول کے اندر رہتے ہوئے اور وہاں کے جملہ قوانین کی پابندی کے ساتھ کس طرح اسلامی تہذیبی اقدار کو برقرار رکھا جا سکتا ہے
۔۔۔ اس کے بعد مقامی رواج کے مطابق دلہن کے دونوں بھائیوں نے کاغذ پر لکھی ہوئی تقریروں میں دلہے سے مخاطب ہو کر خیر مقدمی کلمات کہے
۔۔۔ کچھ مزاحیہ فقروں سے حاضرین کو محظوظ کیا
۔۔۔ اس کے بعد کھانے کی دعوت دی گئی
۔۔۔ تمام مہمان ترتیب کے ساتھ رکھی گئی میزوں سے باری باری اٹھے اور قطار بنا کر کھڑے ہو گئے
۔۔۔ کھانے میں چکن بریانی، ساگ گوشت، مچھلی کے قتلے اور مختلف قسم کے امریکی سلادوں کی بہار تھی
۔۔۔ سب نے اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ کر ماحضر تناول فرمایا
۔۔۔ امریکی رواج کے مطابق میاں بیوی ساتھ والی کرسیوں پر براجمان تھے یعنی خواتین اور مردوں کی علیحدہ علیحدہ نشستوں کا اہتمام نہیں تھا۔ مہمانوں میں سے کچھ انگریزی نما اردو اور کچھ اردو یا پنجابی نما انگریزی میں خوش گپیاں لگا رہے تھے
۔۔۔ امریکہ میں دلہا یا دلہن کو نقد سلامی پیش کرنے کی رسم نہیں
۔۔۔ مہمان جو بھی تحائف لے کر آتے انہیں ایک میز پر رکھ دیا جاتا ہے
۔۔۔ دلہن کی رخصتی کا وقت آیا تو میں نے اپنی بھتیجی کے سر پر چادر جسے خاص طور پر پاکستان سے بنوا کر لے گیا تھا رکھی
۔۔۔ دلہا کی معیت میں اسے گاڑی تک لے کر گیا۔ دلہن کے بھائی نے سر پر قرآن کا سایہ دے رکھا تھا۔ یوں ہم سب نے مل کر اسے گاڑی میں بٹھایا
۔۔۔ باقاعدہ رخصت کیا اور مل کر دعا کی

۔۔۔ تین روز بعد یعنی 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب جبکہ پورے امریکہ میں نئے سال کا جشن منایا جا رہا تھا
۔۔۔ دلہا والوں کی طرف سے ان کے گھر کے قریب مسجد کے ساتھ متصل ہال میں دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا گیا
۔۔۔ سو کے قریب مہمان تھے قدرے مختلف انداز کے پاکستانی کھانے اور امریکی سلاد
۔۔۔ جنہیں مقامی اطوار کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس دوران میرا دھیان بار بار نیو یارک میں جاری نیو ایئر نائٹ کے جشن کی جانب جاتا تھا۔ جی کرتا تھا اڑ کر وہاں چلا جاؤں۔

میں 1992ء میں ماسکو اور 1996ء میں کولکتا کی نیو ایئر نائٹس دیکھ چکا ہوں۔ اب یہ شب امریکہ میں میسر تھی لیکن ولیمہ کی تقریب میں آخر تک موجود رہنا فرض عین کا حکم رکھتا تھا۔۔۔ فارغ ہو کر بھائی کے گھر پہنچا تو شب کے بارہ بجنے میں کچھ لمحات باقی تھے۔ امریکی ٹیلی ویژنوں کی سکرینوں پر ایک ہنگامہ بپا تھا
۔۔۔ یہ رونق تو میں پاکستان میں بیٹھ کر بھی دیکھ سکتا تھا
۔۔۔ نئے سال کی شب امریکہ میں موجود ہونے کا فائدہ؟


ح
========
نوٹ: لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

زیک

مسافر
میرے بھائی نے تو گزشتہ 8 نومبر کو ذاتی ووٹ بھی ڈونالڈ ٹرمپ کو دیا
۔۔۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہا مجھے صدارتی انتخابی مہم کے آغاز پر اندازہ ہو گیا تھا کہ اکثریتی سفید فام آبادی کے نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ کھل کر ٹرمپ کا ساتھ دے رہے ہیں
۔۔۔ لہٰذا میں نے بھی مقامی لوگوں کے غالب حصے کی آراء کا احترام کرتے ہوئے ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈال دیا
۔۔۔ اس وجہ سے وہائٹ ہاؤس اور کانگریس دونوں جگہ انتخاب جیتنے والی ری پبلیکن پارٹی کے مقامی عہدیدار مجھ پر بہت خوش ہیں۔
یہ میریلینڈ میں جہاں کلنٹن نے 60 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔
 

زیک

مسافر
باراتیوں سمیت ساٹھ ستر کے قریب مہمان تھے۔ جن میں اکثریت ظاہر ہے پاکستانی نژاد کنبوں کی تھی
۔۔۔ لیکن تین چار امریکی جوڑے اور ایک دو ایسے تھے جن کا تعلق بھارت سے تھا
اتنے سال امریکہ میں رہنے کے باوجود ان دونوں خاندانوں کا پاکستانیوں کے علاوہ کسی سے ملنا جلنا نہیں؟
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

اس پر مستزاد یہ امریکہ کے کسی بھی ڈاکٹر کے ساتھ ملاقات اور مشورے کا وقت حاصل کرنے کے لیے یا ہسپتال میں داخلے کی خاطر لمبی تاریخ دی جاتی ہے۔ کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔

کیا یہ درست ہے یا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا؟

والسلام
 
Top