احمد فراز کی کتاب "شب خون" سے انتخاب

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سبھی شریکِ سفر ہیں
یہ مملکت تو سبھی کی ہے خواب سب کا ہے
یہاں پہ قافلۂ رنگ و بو اگر ٹھہرے
تو حُسنِ خیمۂ برگ و گلاب سب کا ہے
یہاں خزاں کے بگولے اٹھیں تو ہم نفسو!
چراغ سب کے بجھیں گے عذاب سب کا ہے

تمہیں خبر ہے کہ جنگاہ جب پکارتی ہے
تو غازیانِ وطن ہی فقط نہیں جاتے
تمام قوم ہی لشکر کا روپ دھارتی ہے
محاذِ جنگ پہ مردانِ حُر، تو شہروں میں
تمام خلق بدن پہ زرہ سنوارتی ہے

مِلوں میں چہرۂ مزدور تمتماتا ہے
تو کھیتیوں میں کسان اور خون بھرتے ہیں
وطن پہ جب بھی کوئی سخت وقت آتا ہے
تو شاعرانِ دل افگار کا غیور قلم
مجاہدانِ جری کے رجز سناتا ہے

جلیں گے ساتھ سبھی کیمیا سبھی ہوں گے
اور اب جو آگ لگی ہے مرے دیاروں میں
تو اس بلا سے نبرد آزما سبھی ہوں گے
سپاہیوں کے علم ہوں کہ شاعروں کے قلم
مرے وطن ترے دردآشنا سبھی ہوں گے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اے مری ارضِ وطن!
اے مری ارضِ وطن، پھر تری دہلیز پہ میں
یوں نگوں سار کھڑا ہوں کوئی مجرم جیسے
آنکھ بے شک ہے برسے ہوئے بادل کی طرح
ذہن بے رنگ ہے اجڑا ہُوا موسم جیسے
سانس لیتے ہوئے اِ س طرح لرز جاتا ہوں میں
اپنے ہی ظلم سے کانپ اٹھتا ہے ظالم جیسے

تو نے بخشا تھا مرے فن کو وہ اعجاز کہ جو
سنگِ خارا کو دھڑکنے کی ادا دیتا ہے
تو نہ وہ سحر مرے حرفِ نوا کو بخشا
جو دلِ قطرہ میں قلزم کوچھپا دیتا ہے
تو نے وہ شعلۂِ ادراک دیا تھا مجھ کو
جو کفِ خاک کو انسان بنا دیتا ہے

اور میں مستِ مئے رامش و رنگِ ہستی
اتنا بے حس تھا کہ جیسے کسی قاتل کا ضمیر
یہ قلم تیری امانت تھا مگر کس کو ملا؟
جو لُٹا دیتا ہے نشے میں سلف کی جاگیر
جیسے میزانِ عدالت کسی کج فہم کے پاس
جیسے دیوانے کے ہاتھوں میں برہنہ شمشیر

تجھ پہ ظلمات کی گھنگھور گھٹا چھائی تھی
اور میں چپ تھا کہ روشن ہے مرے گھر کا چراغ
تیرے میخانے پہ کیا کیا نہ قیامت ٹوٹی
اور میں خوش تھا سلامت ہے ابھی میرا ایاغ
میں نے اپنے ہی گنہگار بدن کو چوما
گرچہ جویائے محبت تھے ترے جسم کے داغ

حجلۂ ذات میں آئینے جڑے تھے اتنے
کہ میں مجبور تھا گر محوِ خود آرائی تھا
تیری روتی ہوئی مٹی پہ نظر کیا جمتی
کہ میں ہنستے ہوئے جلوؤں کا تمنائی تھا
ایک پل آنکھ اٹھائی بھی اگر تیری طرف
میں بھی اوروں کی طرح صرفِ تماشائی تھا

اور اب خواب سے چونکا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں
ایک اک حرف مرا تیرِ ملامت ہے مجھے
تُو اگر ہے تو مرا فن بھی مری ذات بھی ہے
ورنہ یہ شامِ طرب صبحِ قیامت ہے مجھے
میری آواز کے دکھ سے مجھے پہچان ذرا
میں تو کہہ بھی نہ سکوں کتنی ندامت ہے مجھے

آج سے میرا ہنر پھر سے اثاثہ ہے ترا
اپنے افکار کی نس نس میں اتاروں گا تجھے
وہ بھی شاعر تھا کہ جس نے تجھے تخلیق کیا
میں بھی شاعر ہوں تو خون دے کے سنواروں گا تجھے
اے مری ارضِ وطن اے مری جاں اے مرے فن
جب تلک تابِ تکلم ہے پکاروں گا تجھے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں کیوں اداس ہوں
لہو لہان مرے شہر میرے یار شہید
مگر یہ کیا کہ مری آنکھ ڈبڈبائی نہیں
نظر کے زخم جگر تک پہنچ نہیں پائے
کہ مجھ کو منزلِ اظہار تک رسائی نہیں
میں کیا کہو کہ پشاور سے چاٹگام تلک
مرے دیار نہیں تھے کہ میرے بھائی نہیں

وہی ہوں میں مرا دل بھی وہی جنوں بھی وہی
کسی پہ تیر چلے جاں فگار اپنی ہو
وہ ہیروشیما ہو، ویتنام ہو کہ بٹ مالو
کہیں بھی ظلم ہو آنکھ اشکبار اپنی ہو
یہی ہے فن کا تقاضا یہی مزاج اپنی
متاعِ درد سبھی پر نثار اپنی ہو

نہیں کہ درد نے پتھر بنا دیا ہے مجھے
نہ یہ کہ آتشِ احساس سرد ہے میری
نہیں کہ خونِ جگر سے تہی ہے میرا قلم
نہ یہ لوحِ وفا برگِ زرد ہے میری
گواہ ہیں مرے احباب، میرے شعر ثبوت
کہ منزلِ سن و دار گرد ہے میری

بجا کہ امن کے بربط اٹھائے آج تلک
ہمیشہ گیت محبت کے گائے ہیں میں نے
عزیز ہے مجھے معصوم صورتوں کی ہنسی
بجا کہ پیار کے نغمے سنائے ہیں میں نے
چھڑک کے اپنا لہو اپنے آنسوؤں کی پھوار
ہمیشہ جنگ کے شعلے بجھائے ہیں میں نے

میں سنگدل ہوں نہ بیگانۂِ وفا یارو
نہ یہ میں ہوں کسی خواب زار میں کھویا
تمہیں خبر ہے کہ دل پر خراش جب بھی لگے
تو بند رہ نہیں سکتا مرا لبِ گویا
وہ مرگِ ہم نفساں پر حزیں نہیں ہے تو کیوں
جو فاطمی و لو ممبا کی موت پہ رویا

دلاورانِ وفا کیش کی شہادت پر
مرا جگر بھی لہو ہے پہ وقفِ یاس نہیں
سیالکوٹ کے مظلوم ساکنوں کے لئے
جز آفریں کے کوئی لفظ میرے پاس نہیں
میں کیسے خطۂ لاہور کے پڑھوں نوحے
یہ شہرِ زندہ دلاں آج بھی اداس نہیں

جنوں فروغ ہے یارو عدو کی سنگ زنی
ہزار عشق کہ معیارِ عشق پست نہیں
مناؤ جشن کے روشن ہیں مشعلیں اپنی
دریدہ سر ہیں تو کیا غم شکستہ دست نہیں
مرے وطن کی جبیں پر دمک رہا ہے جو زخم
وہ نقشِ فتح ہے داغِ غمِ شکست نہیں

گریز و از صفِ ماہر کہ مردِ غوغا نیست
کسے کہ کشتہ نشد، از قبیلۂ ما نیست
1؎ کشمیر کا ایک قصبہ
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ترانہ

کب یاروں کو تسلیم نہیں کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے

جب سازِ سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے یہ رسم ابھی تک جاری ہے

کچھ اہلِ ستم کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے

جب پرچمِ جاں لے کر نکلے ہم خاک نشیں مقتل مقتل
اُس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت طاری ہے

زخموں سے بدن گلزار سہی پر اُن کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے

کس زعم میں تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہ تھا
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اے مرے شہر!
"جنگ 1965ء میں 13 ستمبر کو کوہاٹ پر بھارت کی
وحشیانہ بمباری کی وجہ سے بیشمار معصوم جانیں تلف ہوئی تھیں"
مرے شہر!
میں تجھ سے نادم ہوں
اِس خامشی کے لئے
جب عدو تیری خوابیدہ گلیوں پہ
بھیگی ہوئی رات میں
آگ برسا رہا تھا
میں چپ تھا

مرے شہر!
میں تیرا مجرم ہوں
اس بےحسے کے لئے
جب ترے بام و در
طاق و دہلیز و دیوار
تیرے مکینوں کے
خونِ حنا رنگ سے
تر بتر ہو رہے تھے
تو میں چشم بستہ تھا

اے مرے آباء کے مسکن!
میں تیرا گنہگار ہوں
جب ترے آئینۂ رنگ چشموں سے
اک جوئے خوں آ ملی تھی
تو میرے لبوں پر
کوئی حرفِ ماتم نہ آیا
کہ جب تیرے زرتاب خرمن پہ
سفاک بجلی گری تھی
تو میں تیری جلتی ہوئی کھیتیوں کی طرف
بادلِ چاک و با چشمِ پُرنم نہ آیا

میں شرمندہ ہوں
اے مرے برگزیدہ بزرگوں کی بستی
کہ اِس درد کی فصل میں
تیرے فرزند شاعر کی نوکِ قلم پر
ترا اسمِ اعظم نہ آیا
یہ سب کچھ بجا ہے---
یہ سب کچھ بجا ہے
مگر اے مقدس زمیں!
تیری مٹی نے جب میری صورت گری کی
تو ورثے میں تُو نے
مجھے ایسا دل دے دیا تھا
جو اپنے دُکھوں کے سمندر نہ دیکھے
مگر دوسروں کے نمِ چشم سے با خبر ہو
مجھے تیری گِل نے وہ احساس بخشا
جو اپنے عزیزوں کی لاشوں پہ
پتھر بنا دم بخود ہو
مگر کاہشِ دیگراں پر
سدا نوحہ گر ہو

مرے شہر!
جب تیرے سینے سے
مینارِ خوں اٹھ رہا تھا
میں اُس وقت
غافل نہیں تھا
میں بے حس نہیں تھا
مگر اُس گھڑی میرا سارا وطن
ظلم کی زد میں تھا
میرا سارا چمن
آگ کی حد میں تھا
ساری دنیا کی مظلومیت، میری آہوں میں تھی
ساری دنیا میری نگاہوں میں تھی
اس سمے
تُو ہی تُو تھا
پشاور کا
لاہور کا
اور
بنگال کا نام، کوہاٹ تھا
کاشمیر
کوریا
ہیروشیما کا ویتنام کانا،، کوہاٹ تھا
ساری مظلوم دنیا کے ہر شہر کا نام کوہاٹ تھا

اے مرے شہر!
میرا قلم اپنے کردار پر
تجھ سے نادم سہی
خود سے نادم نہیں
تو مرا شہر ہے
پر مرا شہر تو آج ساری زمیں ہے
فقط تو نہیں ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نیا کشمیر
میری فردوس گل و لالہ و نسریں کی زمیں
تیرے پھولوں کی جوانی ترے باغوں کی بہار
تیرے چشموں کی روانی ترے نظاروں کا حُسن
تیرے کہساروں کی عظمت ترے نغموں کی پھوار
کب سے ہیں شعلہ بداماں و جہنم بکنار

تیرے سینے پہ محلات کے ناسوروں نے
تیری شریانوں میں اک زہر سا بھر رکھا ہے
تیرا ماحول تو جنت سے حسیں تر ہے مگر
تجھ کو دوزخ سے سوا وقت نے کر رکھا ہے
تجھ کو غیروں نے سدا دستِ نگر رکھا ہے

مہ و انجم سے تراشے ہوئے تیرے باسی
ظلم و ادبار کے شعلوں سے جہاں سوختہ ہیں
قحط وافلاس کے گرداب میں غرقاب عوام
جس نے تقدیر کے ساحل بھی برا فروختہ ہیں
سالہا سال سے لب بستہ زباں دوختہ ہیں

اُن کی قسمت میں رہی محنت و دریوزہ گری
اور شاہی نے تری خلد کو تاراج کیا
تیرے بیٹوں کا لہو زینتِ ہر قصر بنا
تجھ پہ نمرود کی نسلوں نے سدا راج کیا
ان کا مسلک تھا کہ پامال کیا راج کیا

لیکن اب اے مری شاداب چناروں کی زمیں
انقلابات نئے دور ہیں لانے والے
حشر اُٹھانے کو ہیں اب ظلم کے ایوانوں میں
جن کو کہتا تھا جہاں بوجھ اٹھانے والے
پھر تجھے ہیں گل و گلزار بنانے والے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ پرچمِ جاں۔۔۔
جنت میں بھڑک رہے تھے شعلے
پھولوں کی جبیں جھلس گئی تھی
شبنم کو ترس گئی تھیں شاخیں
گلزار میں آگ بس گئی تھی

نغموں کا جہاں تھا ریزہ ریزہ
اک وحشتِ درد کُو بکُو تھی
ہر دل تھا بجھا چراغ گویا
ہر چشمِ طلب لہو لہو تھی

میں اور میرے رفیق برسوں
خاموش و فسردہ دل کھڑے تھے
پر جاں کا زیاں قبول کس کو
منزل کے تو راستے بڑے تھے

لیکن یہ سکوتِ مرگ آسا
تادیر نہ رہ سکا فضا میں
اک شور سا چار سمت اٹھا
کچھ مشعلیں جل اٹھیں ہَوا میں

اک رقصِ جنوں ہُوا ہے جاری
یہ رقصِ جنوں نہ رک سکے گا
یہ شمعِ نوا نہ بجھ سکے گی
یہ پرچمِ جاں نہ جھک سکے گا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چلو پھر ہم صف آرا ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں
صف آرا ہوں
کہ دشمن چار سُو آئے
کہ قاتل رُو برو آئے
کہ اُن کے کاسۂِ خالی میں
کچھ اپنا لہو آئے
کہ بجھ جائے ہر اک مشعل
تو ظلمت کُو بکُو آئے
کہ اہلِ صدق و ایماں بے سہارا ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں
صف آرا ہوں کہ پہلے بھی
ستم ایجاد آئے تھے
نشان ظلم اٹھائے تھے
لہو سے تر بتر خنجر
قباؤں میں چھپائے تھے
ہوس کی تُند آندھی نے
دیے کیا کیا بجھائے تھے
جو اب دستِ ستم اٹھے
مثالِ سنگِ خارا ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں
صف آرا ہوں کہ پھر آئیں
تو قاتل سر نگوں جائیں
پشیمان و زبوں جائیں
گنوا کر اپنے جسم و جاں
بہا کر اپنا خوں جائیں
عدو سفاک ارادوں سے
اگر آئیں تو یوں جائیں
کہ شرمندہ دوبارہ ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کردار:
٭ زخمی سپاہی​
٭ پہلا سپاہی​
٭ دوسرا سپاہی​
٭ موت​
(ہوائی جہازوں کی بمباری---مورچے، لڑائی کا منظر---
آہستہ آہستہ کیمرہ ایک پہاڑ کی طرف رُخ پھیر لیتا ہے جہاں برف
سے ڈھکی چوٹی پر ایک زخمی سپاہی برف میں دبا پڑا ہے۔)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سپاہی: کہاں ہوں۔
مرے جسم پر بوجھ کیسا ہے
کیا میں پہاڑوں کے نیچے دبا ہوں
مری سانس کیوں رُک رہی ہے
یہ ٹھنڈک رگ و پے میں کیوں ہے
مرے بازوؤں میں سکت ہے
نہ ہونٹوں میں جنبش کا یارا
نہ آنکھوں میں ہی روشنی ہے
چٹانوں کی صورت گرانبار پلکیں اٹھانے سے عاری
تو کیا میری بینائی بھی جا چکی ہے؟
نہ چہرے، نہ منظر
نہ کوئی صدا ہے؟
یہ کیا ہے؟
مجھے اپنی آواز بھی ا جنبی لگ رہی ہے
فقط دھند ہی دھند
اور برف کے بیکراں سائباں چار سُو ہیں
یہ سکرات کا پَل ہے
یا مجھ پہ کابوس سایہ کناں ہے
۔۔۔یہ کیا؟
میرے بازو میں کیوں درد کی لہر اٹھی
میں زندہ ہوں
لیکن
بدن برف میں دفن ہے
اور چہرہ مرا
زمہریری ہواؤں سے سُن ہو چکا ہے
کسی کو خبر تک نہ ہو گی
کہ میں اِس پہاڑی کی چوٹی پہ زخموں سے چھلنی پڑا ہوں
کوئی مہرباں ہاتھ۔۔۔ہمدرد بازو نہیں ہے
جو اس کرۂِ مرگ سے مجھ کو باہر نکالے

نہ جانے بہادر رفیقوں کے دستے کہاں ہیں
تو کیا میں یہاں
کس مپرسی کے عالم میں دم توڑ دوں گا
تو کیا اِس پہاڑی کی چوٹی پہ میرے تجسس میں کوئی
نہ آئے گا
کوئی نہ آئے گا
کوئی۔۔۔
موت:مگر میں سپاہی
فقط میں۔۔۔اجل۔۔۔موت
ازل سے ابد تک
تری غمگسار اور ساتھی
اکیلے دکھی بے نواؤں کی واحد مسیحا
کہ جو زندگی کی جفاؤں سے تنگ آ چکے ہیں
کہ جو زندگی کی کڑی اور لمبی مسافت سے اکتا چکے ہیں
کہ جو زندگی کے سرابوں سے،
پھیلے خرابوں سے گھبرا چکے ہوں
سبھی نا مرادوں کو میں نے ہی آخر سہارا دیا ہے
جنہیں زندگی تج گئی ہو
انہیں صرف میں نے گوارا کیا ہے
ادھر آ۔۔۔مجھے ہاتھ دے
میں تری آخری چارہ گر ہوں
تری ہمسفر ہوں
تری راہبر ہوں(موت ہاتھ بڑھاتی ہے)
ادھر آ سپاہی۔۔۔مرے ساتھ چل
یہی وقت ہے
جبکہ تو اک چراغِ سحر کی طرح
رہگزارِ عدم کا مسافر ہے
آ تجھ کو اپنی حفاظت میں
اِس برف کے تند طوفان سے لے چلوں میں
تجھے کیا خبر
کیسی قاتل ہواؤں کے جھکڑ
ہمارے تعاقب میں ہیں
اے سپاہی مرے ساتھ چل
(ہواؤں کا شور)
سپاہی:کون ہے تو۔۔
اجل
فاحشہ!
تجھ کو کس نے پکارا کہ تو
بن بلائے یہاں آ گئی ہے
میں زندہ ہوں
میری نقاہت سے تُو نے یہ سمجھا
کہ میں زندگی سے مفر چاہتا ہوں
مری غیر ہموار سانسوں سے تو نے یہ جانا
کہ میں نزع میں ہوں
پرے ہٹ مرے جسم سے اپنی پرچھائیں دُور لے جا
موت:ترا جسم بے حس ہے
اور تیری آنکھوں پہ کہرا جما ہے
تجھے اس کا احساس بھی تو نہیں ہے
کہ تو صرف کہنے کو زندہ ہے
ورنہ اگر تو یہ دیکھے
کہ تیرا لہو کس قدر بہہ چکا ہے
اگر تو یہ دیکھے
کہ یہ لعل و یاقوت
جو تیرے پہلو میں بکھرے پڑے ہیں
ترے ہی لہو کی وہ بوندیں ہیں
جو برف پر جم گئی ہیں
تو جانے
کہ اب زندہ رہنے کی خواہش عبث ہے
چلو میں نے مانا
کہ تجھ میں ابھی زندگی کی رمق ہے
مگر کس قدر
صرف دو چار سانسوں کی مہلت
تری بے بسی اور نقاہت کا یہ حال ہے کہ
ترے زرد رخسار پر برف کی تہہ جمی ہے
مگر تجھ میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے
کہ چہرے سے اِس کو کھرچ دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے سامنے جو اندھیرے ہیں ان سے نہ ڈر
بے خبر
رات بھی دن سے کچھ مختلف تو نہیں ہے
سپاہی:چلو میں نے مانا
مگر تو بتا مجھ سے کیا چاہتی ہے
موت:زیادہ نہیں ۔
صرف اتنا کہ تُو مان لے
زندگی اک مسلسل اذیت ہے
تو جس سے تنگ آ چکا ہے
سپاہی: تو ۔۔۔۔۔
تو یوں کہہ کہ میں تیرے آگے سپر ڈال دوں
موت:کیوں نہیں
اور یہ الزام بھی خود پہ لینے کو راضی ہوں میں
سپاہی:دور ہٹ فاحشہ!
زندگی سے مجھے پیار ہے
موت:باؤلے!
اتنا پاگل نہ بن
تو جو مانے تو کیا
اور نہ مانے تو کیا
اب ترے سامنے دوسرا راستہ ہی نہیں
اپنے ہاتھوں کی پیلاہٹیں دیکھ لے
اپنے ہونٹوں کی نیلاہٹیں دیکھ لے
اپنی آنکھوں کی دھندلاہٹیں دیکھ لے
تو جو مانے تو کیا
اور نہ مانے تو کیا
سپاہی:دشمنِ جاں!
ضد نہ کر
اب تیری منزل
تری رات ہر لمحہ نزدیک تر آ رہی ہے
تری ضد
تیری بیچارگی
کرب و اندوہ کو طول دے گی
جانکنی زندگی تو نہیں
چل مرے ساتھ چل
زندگی کے کڑے مرحلے بھول کر
چل۔
سپاہی: نہیں۔ میں نہیں جاؤں گا
میں ترے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گا
موت:اپنا دشمن نہ بن
تیرے پیکر میں تیرا لہو منجمد ہو رہا ہے
ترا یخ زدہ جسم
طوفان کی یورشوں سے نہیں بچ سکے گا
ادھر آ تجھے اپنا آنچل اوڑھا دوں
جو تجھ کو قیامت تلک گرم رکھے گا
او نا سمجھ نوجواں
میری سینے کی حدت
ترے یخ زدہ جسم کو
سرمدی امن بخشے گی
آ تجھ کو اپنے گلے لگا لوں
یقیں کر!
کہ تو کربناکی کی شدت سے نالہ کناں ہے
تری بے کسی اور فرما پذیری
مجھے حوصلے دے رہی ہے
سپاہی:فریبی!
مجھے اپنی حیلہ گری اور مکاریوں سے
تہہِ دام لانے کی کوشش نہ کر
کذب گو
میں تو سردی کی شدت سے بیکل ہوں
تجھ سے تو خائف نہیں۔
موت:خواہ آنسو خوشی کے ہوں یا کرب کے
ایک ہی بات ہے
بے خبر!
شام ڈھلنے کو ہے
اور میدان میں
شب کی پرچھائیاں خیمہ زن ہو رہی ہیں
کسے کیا خبر ہے
کہ تو
اِس پہاڑی پہ گھائل پڑا ہے
تری کھوج پہلے تو مشکل ہے
اور اتفاقاً اگر تیری ساتھی
تجھے ڈھونڈ بھی لیں
تو حاصل؟
تجھے کیا سکوں مل سکے گا؟
اگر تُو کوئی اور روز تک زندہ بھی رہا تو کیا
پھر سے دنیا کے دکھ
زندگانی کے جنجال تیرا تعاقب کریں گے
تری بہتری ہے اسی میں
کہ بے حیل و حجت
یہاں پُرسکوں موت مر جا
سپاہی:ریا کار!
تو اپنی عیاریوں سے مجھے دام میں پھانسانا چاہتی ہے
میں زندہ رہا ہوں
میں زندہ ہوں
میں زندہ رہوں گا
مجھے تُو ہراساں نہیں کر سکے گی
ابھی مجھ کو جینا ہے
موت:گر تو جیا بھی تو پھر کیا؟
تجھے زندگانی کے بارے میں خوش فہمیاں ہیں
اگرتو جیا بھی
تو کیا تو سمجھتا ہے
اِس زندگی سے محبت کرے گا
جو ٹھٹھرن ہے ذلت ہے بیچارگی ہے
ذرا سوچ اے بے خبر
زندگی بسترِ گُل نہیں
پھر ذرا سوچ
سپاہی:کیا سوچنا
میں تو ہستی کے ہر زیر و بم سے ہوں واقف
مگر تُو بھلائے ہوئے ہے
کہ یہ جنگ ہے
موت:باؤلے!
میں نے مانا کہ تُو جنگ میں
سرخرو ہو چکا ہے
وطن کی حفاظت کا حق
جان پر کھیل کر تو ادا کر چکا ہے
مگر تجھ کو اِک مرتبہ اپنے گھر اور عزیزوں کے دُکھ پھر سے تڑپائیں گے
سب زمانے کے غم تجھ کو کھا جائیں گے
سپاہی: جبھی تو مجھے اس قدر بے کلی ہے
کہ میں حملہ آور غنیموں کو جلدی ٹھکانے لگا لوں
تو پھر گھر کو جاؤں
مرے گھر کی دہلیز ہر دم مری منتظر ہے
موت:بجا ہے
اگر گھر ترا منتظر ہو
اگر تیرے گھر کے درو بام باقی رہے ہوں؟
اگر صرف اینٹوں کے انبار اور راکھ کے ڈھیر گھر ہیں
تو پھر وہ ترے منتظر ہیں
(قہقہہ)
کھنڈر چاروں جانب کھنڈر ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سپاہی:تو پھر کیا؟​
مرے بازوؤں میں توانائی ہے​
میرے کندھوں سے بندوق اُترے تو پھر میرے بازو​
کدالوں کے اور بیلچوں کے رفیقِ سفر ہیں​
سپاہی خرابوں کو تعمیر کرتا رہا ہے​
موت: زمیں جل چکی ہے​
سپاہی:میں پہلے بھی ویران خِطوں کو زرخیزیاں دے چکا ہوں​
موت:مگر اب یہ ممکن نہیں ہے​
کہ پانی کے چشمے۔۔۔کنّویں اور نہریں​
بموں کی لگاتار بارش سے اب خشک اور بے نشاں ہو چکے ہیں​
درانتی۔ہتھوڑے۔سلاخیں۔کدالوں کے پھل اور​
ہل۔گویا سب تیرے اوزار۔ہتھیار تُڑ مُڑ چکے ہیں​
سپاہی:مگر تابکے​
میں سپاہی ہوں​
گر بخت نے یاوری کی​
اور اک بار میرے قدم​
اپنے شہروں میں پہنچے​
تو پھر سے​
یہ مسمار گھر​
منہدم کارخانے​
جلی کھیتیاں​
اور خاموش بازار​
یوں جی اُٹھیں گے​
کہ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا​
موت:بجا​
پر یہ اُس وقت ممکن ہے​
سپاہی: لیکن۔۔۔​
موت:ٹھہر تو مری بات سن​
یہ تو اُس وقت ممکن ہے جب​
تیرے بازو سلامت ہوں اور جسم کا کوئی حصّہ بیکار نہ ہو​
مگر ایسے عالم میں بھی​
تیری خوش فہمیاں تجھ کو بہکا رہی ہیں​
ہلاکت کی آندھی ترے جسم کا ریزہ ریزہ اُڑانے کو پر تولتی ہے​
ابھی وقت ہے سوچ لو۔​
سپاہی: (ٹھنڈی آہ بھرتے ہُوئے اپنے آپ سے)تو کیا کوئی قوت بھی ایسی نہیں ہے​
کہ جو موت کے زعم و پندار کو چُور کر دے​
کوئی ایسی صورت نہیں​
جس سے میں یہ قلعَہِ مرگ کو منہدم کر سکوں​
نہیں۔۔۔ آج تک موت پر کس کو قدرت ملی​
اگر یُونہی ہوتا رہا ہے​
تو پھر کیوں نہ میں خود کو اس کے حوالے ہی کر دوں​
کشاکش کا حاصل؟​
فقط نزع کا طول۔۔اور پھر​
ہزیمت، شکستِ نفس​
(موت کی طرف دیکھتے ہوئے)​
موت!​
میں صرف اِک شرط پر زندگی کی متاعِ گراں تیرے قبضے میں دینے کو تیار ہوں​
موت: شرط!​
(قہقہہ لگاتی ہے)​
بھلا موت سے بھی کسی نے کوئی شرط منوائی ہے؟​
سپاہی:جانتا ہوں کہ میں​
دوسروں سے کسی طرح بہتر نہیں ہوں​
اگر آج تک کوئی تجھ سے نہ جیتا​
تو مجھ کو بھی مرنے میں پھر عذر کیوں ہو​
مگر دشمنِ زندگی​
صرف اک شرط پر​
موت:کونسی شرط؟​
سپاہی:بس یہ کہ جب جنگ کا خاتمہ ہو تو اک روز کے واسطے تو مجھ کو چھوڑ دے گی​
بس اک روز کے واسطے​
تاکہ میں اپنے غازی رفیقوں کی صف میں کھڑا،​
فتح کے گیت گاؤں​
ظفر مند پرچم کھلے تو​
سلامی کی تقریب میں​
دوسرے جاں نثاروں کے ہمراہ میں بھی کھڑا ہوں​
مرے کان بھی یومِ نصرت کی توپوں کی گونجار سے گونج اُٹھیں گے​
اور اُس وقت​
جب فتح و نصرت کے نغمات سے​
سر زمینِ وطن کی فضا رقص میں ہو​
میں عجلت سے گھر جا کے دیکھوں​
وہ محبوب چہرے​
جو میرے لئے اپنی آنکھوں میں خوشیوں کے آنسو تو​
ہاتھوں میں پھولوں کے کنٹھے لئے راستوں پر مرے منتظر ہوں​
مرے گاؤں والے​
مرے یار احباب مجھ کو​
ظفر مند پرچم کی مانند اُٹھا لیں۔۔۔​
اور میں​
ان کے اِس خیر مقدم کو​
مغرور آنکھوں کی چپ مسکراہٹ سے، دیکھوں​
فقط اِس قدر​
اے مری مسکراہٹ کی دشمن!​
موت:نہیں تیری یہ شرط نا قابلِ اعتنا ہے​
سپاہی:تو پھر بیسوا!​
دُور ہو۔ میں سپاہی ہوں​
اور زندگی کی چمکتی دمکتی ہوئی آگ میرے بدن میں بھی ہے​
میں زندہ ہوں۔۔ زندہ رہوں گا​
موت:مگر کب تلک​
سپاہی:جب تلک میری آواز میں زندگی کی لپک ہے​
مرا دل دھڑکتا رہے گا​
موت: مگر تابکے​
سپاہی: تابکے؟​
جب تلک یہ مرا یخ زدہ جسم اِن آسمانوں کی مانند نیلا نہ ہو جائے​
میں​
اِس پہاڑی کی چوٹی پہ دم توڑ دوں گا​
مگر تیرے آگے نہ ہرگز جھکوں گا​
یہ ممکن نہیں ہے​
کہ میں تیرے آگے سپر ڈال دوں​
موت: حوصلہ! حوصلہ!​
اے سپاہی یہ جذباتیت بے اثر اور عبث ہے​
اگر مجھ سے تُو ہار تسلیم کر لے​
تو یہ زندگی کے اُسی ضابطے ہی کی تائید ہو گی​
جو روزِ ازل سے ابد تک رہا ہے​
رہے گا​
نہ اِس سے زیادہ نہ کمتر​
نہ اِس سے زیادہ نہ کمتر​
(قدموں کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے​
کچھ دور سپاہیوں کے چہرے جن میں​
سے ایک کندھے پر برف ہٹانے والی​
کدال اور دوسرے کے کندھے پہ تہہ کیا​
سٹریچر دھرا ہے۔)​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سپاہی: ٹھہر!​
مرے ہی رفیقوں کے قدموں کی مانوس آواز میری طرف​
بڑھ رہی ہے عجب کیا کہ یہ زخمیوں کے تجسّس میں ہی​
آ رہے ہوں​
موت: کہاں بے وقوف​
سپاہی:اُس طرف​
موت:(دیوانہ وار ہنستی ہے۔ قدموں کی چاپ قریب تر آ جاتی ہے)​
باؤلے یہ جماعت تو وہ ہے جو لاشیں ٹھکانے لگتی ہے​
سُن تو!​
(کدالوں اور بیلچوں کے کھڑکنے کی آواز)​
یہ تیرے درماں نہیں گورکن ہیں​
سپاہی:وہ کچھ بھی ہوں زندہ تو ہیں اور زندوں کے دشمن نہیں​
یہ مرے شیر دل ہموطن ہیں​
(کیمرہ بلندی سے گھاٹی پر مرکوز ہوتا ہے)​
پہلا سپاہی:بہت تھک گئے​
اِس پہاڑی پہ چڑھنا غضب تھا​
دوسرا سپاہی:یہاں چند سانسوں کو سستانے کے بعد​
آگے بڑھیں گے​
کہ اب اور چلنے کی طاقت نہیں ہے​
پہلا سپاہی: تھکن سے مری ہڈیاں​
ریزہ ریزہ ہوئی جا رہی ہیں​
پہلا:ترے پاس کھانے کو ہے کچھ؟​
دوسرا:کہاں۔ چند سگریٹ بچے ہیں۔۔اگر تم۔۔۔۔​
پہلا:غنیمت ہے یہ بھی۔ قیامت کی سردی ہے۔​
دوسرا:چائے پیو گے؟ اُبلتی ہوئی گرم چائے پہ بالائی کی تہہ​
جمی ہو تو کیسی رہے گی​
پہلا:چلو اک پیالہ۔ نہیں دو سہی​
دوسرا:یہاں کون زخمی ملے گا؟​
(دونوں ہنستے ہیں)​
پہلا:تصوّر کی جادو گری خوب ہے​
دوسرا:ہاں خیالی پلاؤ کی خوشبو سے بھی کچھ تسلّی ہوئی ہے​
(سپاہی کے کراہنے کی آواز آتی ہے)​
سپاہی:میں زندہ ہوں۔ زندہ ہوں​
اِس بد نفس کو مرے سامنے سے ہٹاؤ​
یہ ظالم چڑیل​
اپنے بازو پسارے​
نہ معلوم کب سے مری گھات میں ہے​
میں زندہ ہوں​
زندہ ہوں مجھ کو بچا لو​
پہلا سپاہی:سنو جیسے کوئی یہیں پاس ہی ہو​
دوسرا سپاہی: ترا واہمہ ہے۔ یہاں کون ہو گا​
سپاہی:مرے پاس آؤ رفیقو​
مرے سر پہ یہ بے حیا گدھ کی مانند منڈلا رہی ہے​
پہلا سپاہی:سُنی تم نے آواز؟​
دوسرا سپاہی: ہاں وہ۔۔۔اُدھر۔ برف میں​
دفن لاشہ​
پہلا سپاہی:چلو۔۔ بیلچہ لو۔۔ وہ زندہ ہے​
دوسرا سپاہی:حیرت​
اگر اس جگہ لاش ہوتی تو میں اتنا حیراں نہ ہوتا​
مگر ایک زندہ سپاہی​
یہاں معجزہ ہے​
پہلا سپاہی:تو جلدی کرو۔ رات ہونے کو ہے​
(دونوں سپاہی زخمی سپاہی​
کے قریب آ جاتے ہیں)​
دوسرا سپاہی:(چھوتے ہوئے)واقعی اس میں جاں​
ہے ابھی​
سنو تم میں اتنی سکت ہے​
کہ اِس کو اُٹھا کر ہم اپنے ٹھکانے تلک جا سکیں​
پہلا سپاہی:اگرچہ تھکن سے مری ہڈّیاں کڑکڑانے لگی ہیں​
مگر اِس سپاہی کو دستِ اجل سے بچانا مقدّم ہے​
آؤ اِسے ہاتھ دیں​
دوسرا سپاہی:اچھا ہُوا ہم اِدھر آ گئے​
ورنہ اِس باد و باراں کے طوفاں میں زخموں سے گھائل​
مجاہد کبھی بچ نہ سکتا​
شہیدوں کی فہرست میں یہ بھی ہوتا۔​
پہلا سپاہی: بس اب وقت ضائع نہ ہو​
بیلچے سے تہیں برف کی تم ہٹاؤ​
میں اتنے میں کوئی دوا دیکھتا ہوں​
دوسرا سپاہی:خدایا۔۔! ذرا اِس کے یخ بستہ جسم کو چھُو​
کے دیکھو​
پہلا سپاہی:نا معلوم یہ اب تلک کیسے زندہ بچا ہے​
موت: (اپنے آپ سے) یہ کچھ بھی کریں۔ میرے چُنگل سے​
اس کو نہیں چھین سکتے​
یہ نخچیر میرا ہے۔ میں اس کو جانے نہ دوں گی​
یہ ہمدرد​
دو چار سانسوں کے ساتھی​
اِسے راہ میں پھینک جائیں گے یا خود بھی بھوک اور تھکن​
ہی سے دم توڑ دیں گے​
میں اِن کا تعاقب کروں گی​
میں اِن کا تعاقب کروں گی​
یہ نخچیر میرا ہے​
میرا ہے​
میرا ہے​
(دونوں سپاہی اِدھر اُدھر سے برف ہٹاتے​
ہیں اور زخمی سپاہی کو اُٹھا کر کندھے پر​
ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہوا کا شور​
اور برف باری کی شدت بڑھ جاتی ہے۔)​
پہلا سپاہی:ذرا ہاتھ دو تاکہ میں اِس کو کندھے پر آرام سے​
ڈال لوں​
سپاہی کا ہمدرد ساتھی سپاہی ہی ہوتا ہے۔ آؤ ذرا تم اِدھر سے​
(زخمی سپاہی کراہتا ہے)​
زخمی سپاہی:مرے ساتھیو! تم کو تکلیف ہو گی​
یہ رستہ اندھیرا اور پُر خطر ہے​
ذرا دیکھ کر۔۔۔۔​
میرا کیا ہے کہ میں تو​
فقط چند سانسوں کا مہمان ہوں۔۔۔​
پر تمہارے لئے زندگی کے مہ و سال کی بے کراں​
وادیاں ہیں​
پہلا سپاہی:نہیں تم سلامت رہو گے۔ ہمارے وطن کے سپاہی​
کہ اب زندگی سے اور محفوظ رستے پر تم گامزن ہو چکے ہو​
(چلنے لگتے ہیں)​
زخمی سپاہی:مگر ظلمتوں سے سبھی راستے ڈھک چکے ہیں​
یہ گھاٹی نہایت خطرناک ہے​
اپنی جانیں مری زندگی کے لئے مت گنواؤ​
دوسرا سپاہی:یہی زندگی ہے۔ سپاہی ہمیشہ سپاہی ہی رہتا ہے​
اِس کے لئے ہی خطر ناک رستے بنے ہیں​
ہماری مسرّت یہی ہے​
کہ ہم تم کو زندہ سلامت۔ گجر دم وہاں لے کے چلیں​
جس جگہ اس مقدّس زمینِ وطن کے زن و مرد۔​
پیر و جواں​
یومِ نصرت کے موقع پہ غازی سپوتوں کو​
فخر و عقیدت سے دیکھیں گے۔​
توپوں کی گونجار میں ان بہادر جوانوں پہ​
تکریم کے پھُول برسیں گے​
جو جنگ سے سرخرو ہو کے آئے​
زخمی سپاہی:مرے واسطےاِس سے بڑھ کر کوئی بھی​
تمنّا نہیں ہے​
کہ میں بھی وہاں ہوں​
مگر دوستو​
چند لمحے توسستا بھی لو۔ تم بہت تھک چکے ہو​
پہلا سپاہی:تھکن؟​
تم ہماری نہ پروا کرو​
ایک بے جان لاشے کو دو گام بھی کھینچنا سخت اذیّت ہے​
پر ایک زندہ سپاہی کو کندھوں پہ ڈالے اگر سینکڑوں میل کا​
بھی سفر ہو تو کچھ بھی نہیں​
دوسرا سپاہی: اور سپاہی اگر یوں تھکے تو سپاہی نہیں​
پہلا سپاہی: ہوائیں بہت سرد ہیں اور تمہارے ٹھٹھرتے​
ہوئے ہاتھ۔۔۔اُف کس قدر یخ زدہ ہیں​
یہ دستانے لو۔۔۔میرے ہاتھوں میں کافی حرارت ہے​
زخمی سپاہی:لیکن​
دوسرا سپاہی:سنو! یہ تکلّف کا موقع نہیں​
پہلا سپاہی:بس یہ ڈھلوان اب ختم ہونے کو ہے​
اور ہم اپنی منزل کے نزدیک تر آ چکے ہیں​
موت:یہ مخلوق کیسی ہے​
اک دوسرے سے اِنھیں کس قدر اُنس ہے​
یہ مجھے مات دے کر​
"اُسے"​
میرے نخچیر کو​
مجھ سے چھینے لیے جا رہے ہیں​
یہ کیسے سپاہی ہیں۔ کتنے نڈر ہیں​
کہ میں تھک گئی​
اور یہ جا رہے ہیں​
مجھے مات دے کر​
مجھے مات دے کر​
مجھے مات دے کر​
(موت منہ کے بل گر پڑتی ہے)​
٭٭٭​
خیال: ترادو وسکی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شہدائے جنگِ آزادی 1857ء کے نام
تم نے جس دن کے لئے اپنے جگر چاک کیے
سو برس بعد سہی دن تو وہ آیا آخر
تم نے جس دشتِ تمنّا کو لہو سے سینچا
ہم نے اُس کو گل و گلزار بنایا آخر
نسل در نسل رہی جہدِ مسلسل کی تڑپ
ایک اِک بوند نے طوفان اُٹھایا آخر
تم نے اک ضرب لگائی تھی حصارِ شب پر
ہم نے ہر ظلم کی دیوار کو ڈھایا آخر

وقت تاریک خرابوں کا وہ عفریت ہے جو
ہر گھڑی تازہ چراغوں کا لہو پیتا ہے
زلفِ آزادی کے ہر تار سے زلفِ ایّام
حریت کیش جوانوں کے کفن سیتا ہے
تم سے جس دورِ الم ناک کا آغاز ہُوا
ہم پہ وہ عہدِ ستم ایک صدی بیتا ہے
تم نے جنگ لڑی ننگِ وطن کی خاطر
مانا اس جنگ میں تم ہارے عدو جیتا ہے

لیکن اے جذبِ مقدّس کے شہیدانِ عظیم
کل کی ہار اپنے لئے جیت کی تمہید بنی
ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گڑے پھر بھی بڑھے
وادئ مرگ بھی منزل گہہِ اُمّید بنی
ہاتھ کٹتے رہے پر مشعلیں تابندہ رہیں
رسم جو تم سے چلی باعثِ تقلید بنی
شب کے سفّاک خداؤں کو خبر ہو کہ نہ ہو
جو کرن قتل ہوئی شعلۂِ خورشید بنی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ترانہ
مرا بدن لہو لہو
مرا وطن لہو لہو
مگر عظیم تر
یہ میری ارضِ پاک ہو گئی
اسی لہو سے
سرخرو
وطن کی خاک ہو گئی
مرا بدن لہو لہو
بُجھا جو اِک دیا یہاں
تو روشنی کے کارواں
رواں دواں رواں دواں
وفا کی مشعلیں لیے نکل پڑے
یہ سر فروش جانثار چل پڑے
یہاں تلک کہ ظلم کی
فصیل چاک ہو گئی
عظیم تر یہ ارضِ پاک ہو گئی
مرا بدن لہو لہو

غنیم کس گماں میں تھا
کہ اس نے وار کر دیا
اسے خبر نہ تھی ذرا
کہ جب بھی ہم بڑے
تو پھر رُکے نہیں
یہ سر اُٹھے تو کٹ مرے
مگر جھکے نہیں
اسی ادا سے رزم گاہ تابناک ہو گئی
عظیم تر۔۔ یہ ارضِ پاک ہو گئی

مرا بدن لہو لہو
مرا وطن لہو لہو
ہر ایک زخم فتح کا نشان ہے
وہی تو میری آبرو ہے آن ہے
جو زندگی وطن کی راہ میں ہلاک ہو گئی
عظیم تر۔۔ یہ ارضِ پاک ہو گئی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تیرے بعد
(بحضُور قائدِ اعظم)
پھُول روتے ہیں کہ آئی نہ صدا تیرے بعد
غرقۂ خوں ہے بہاروں کی ردا تیرے بعد

آندھیاں خاک اُڑاتی ہیں سرِ صحنِ چمن
لالہ و گُل ہوئے شاخوں سے جُدا تیرے بعد

جاہ و منصب کے طلبگاروں نے یوں ہاتھ بڑھائے
کوئی دامن بھی سلامت نہ رہا تیرے بعد

جن کو اندازِ جنوں تو نے سکھائے تھے کبھی
وہی دیوانے ہیں زنجیر بپا تیرے بعد

کس سے آلامِ زمانہ کی شکایت کرتے
واقفِ حال کوئی بھی تو نہ تھا تیرے بعد

اب پکاریں تو کسے، زخم دکھائیں تو کسے
ہم سے آشفتہ سرو شعلہ نوا تیرے بعد

پھر بھی مایوس نہیں آج تیرے دیوانے
گو ہر اِک آنکھ ہے محرومِ ضیا تیرے بعد

راستے سخت کٹھن منزلیں دشوار سہی
گامزن پھر بھی رہے آبلہ پا تیرے بعد

جب کبھی ظلمتِ حالات فضا پر برسی
مشعلِ راہ بنی تیری صدا تیرے بعد

آج پھر اہلِ وطن انجم و خورشید بکف
ہیں رواں تیری دکھائی ہوئی منزل کی طرف
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
دیکھنا یہ ہے
آج اغیار کے تیروں سے بدن پر میرے
پھر وہی زخم چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
پھر اسی دشمنِ جاں دشمنِ دیں کے ہاتھوں
میرا ملبوس ہے گل رنگ بہاروں کی طرح
پھر مرے دیس کی مٹّی سے لہو رستا ہے
پھر در و بام ہُوئے سینہ فگاروں کی طرح

میرے دشمن میرے قاتل نے ہمیشہ کی طرح
پھر سے چاہا کہ شکستہ مرا پندار کرے
جس طرح رات کا سفّاک شکاری چاہے
کہ وہ سُورج کی شعاعوں کو گرفتار کرے
یا چراغِ سرِ دیوار کو تنہا پا کر
جس طرح تند ہوا ٹوٹ کے یلغار کرے

میرے دشمن نے یہ سوچا ہی نہیں تھا شاید
یہ دیا بادِ فنا سے بھی بھڑک سکتا ہے
اس کو قوّت پہ تکبّر ہے مگر مجھ کو یقیں
دستِ حق بازوئے قاتل کو جھٹک سکتا ہے
میرے جلّاد کو معلوم نہیں ہے شاید
میرا دل دست اجل میں بھی دھڑک سکتا ہے

جانے کس زعم میں آیا تھا مقابل میرے
وہ اندھیروں کا پُجاری وہ اُجالے کا عدو
اس نے اک مشعلِ تاباں کو بجھانا چاہا
اور فضا میں لپک اُٹھے ہیں کروڑوں بازو
میرا مشرق ہو کہ مغرب میرے سارے اطراف
میری قوّت میرا پیکر مری جاں میرا لہو

دیکھنا یہ ہے کہ اس باطل و حق کے رن میں
رات مرتی ہے کہ زنجیرِ سحر ہوتی ہے
آخری فتح مری ہے مرا ایمان ہے یہ
جس طرح ڈوبتے سُورج کو خبر ہوتی ہے
میں تو سو بار اسے اپنا مقدّر کر لوں
جس شہادت سے مری ذات امر ہوتی ہے
٭٭٭​
 
Top